گڑیا کا گھر

0
140
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’افسانہ ایک ایسی لڑکی کے داستان کو بیان کرتا ہے جو کسی سے بہت محبت کرتی ہے۔ وہ اس سے شادی کرنے اور اپنا گھر بنانے اور بسانے کا خواب دیکھتی رہتی ہے اسی طرح جس طرح وہ بچپن میں گڑیوں کے لیے بنایا کرتی تھی۔ کچھ عرصہ ساتھ رہنے کے بعد وہ شخص اسے چھوڑکر ایک امریکن لڑکی کے ساتھ چلا جاتا ہے۔‘‘

بادل دھیرے دھیرے بڑھتے آ رہے تھے۔ دل میں گھس آنے والے یقین کی طرح شام کی بھیگی بھیگی ہوائیں بشارت دے رہی تھیں کہ اب مینہ برسنے والا ہے۔ دہلی میں جون کی اس تپتی ہوئی شام کو کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ اس وقت عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس میں ایسے کالے بادل چھائے ہوں گے اور فضا میں ایسی خنکی ہو گی جو آدمی کو آپ کپکپا دیتی ہے۔

میں بس اسٹاپ پر تنہا کھڑا تھا۔

مگر بالکل تنہا بھی نہیں۔ میرے آس پاس گھروں کو واپس جانے والے لڑکے لڑکیاں اور کالج کے ٹیچروں کا ہجوم تھا، جو بسوں کا انتظار کر رہے تھے، کچھ لڑکیاں انتظار سے بور ہو کر فٹ پاتھ کے پتھروں پر جا بیٹھی تھیں۔ لڑکے بھی کسی نہ کسی بہانے اسی طرف ڈھل گئے تھے اور لڑکیوں کے ہاتھوں سے کتابیں اور میگزین چھین چھین کر قہقہے لگا رہے تھے۔

میں نے یونیورسٹی کی طرف دیکھا۔ ابھی کچھ اور پروفیسر نما، سوکھے مارے، تھکن سے چور، اپنے وزن سے زیادہ بوجھل بریف کیس سنبھالے ہوئے لوگ، بس اسٹاپ کی طرف آ رہے تھے۔ بہت آہستہ آہستہ۔ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ۔ جب سڑک پر کوئی کار زن سے گزرتی تو یہ لوگ بڑی رشک بھری نظروں سے کار کا تعاقب کرتے تھے۔ یہ ملک کو دانشور، لیڈر، ڈاکٹر اور انجینئر ڈھال کر دینے والے لوگ تھے، جنہیں شام کو اپنے گھر پہنچنے کے لیے کسی بس میں سیٹ نہیں ملتی تھی۔ پہلے انہوں نے کاروں کے خواب دیکھے، پھر اسکوٹر کے اور آخر میں صرف اس طرف دیکھنے لگے جدھر سے بس آتی ہے۔ مگر نہیں، میں بھول گیا۔ یہ بس اسٹاپ دہلی یونیورسٹی کا نہیں ہے۔ میں تو صرف دو دن کے لئے ایک VOCE – VIVA لینے کے لیے حیدرآباد آیا تھا۔ آنے والی بارش کی خنکی سے بوجھل ہواؤں سے مجھے نیند آ رہی تھی، جی چاہ رہا تھا جلدی سے گیسٹ ہاؤس جا کر سو جاؤں۔ مگر کیمپس سے دور، جھلملانے والی روشنیاں جیسے مجھے آنکھ مار کے اشارے کر رہی تھیں کہ ادھر آؤنا۔۔۔

- Advertisement -

جانے کیوں سرخ دھرتی اور سیاہ پتھروں سے گھرے، اونچی ڈیوڑھیوں والے، حیدرآباد میں قدم رکھتے ہی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے یہاں اب آوارہ ہواؤں جیسے عشد پسند شہزادے اور برہا کی ماری کوئل جیسی کسی غم نصیب شہزادی کی کہانی ضرور ملےگی۔ مگر اونچی اونچی ڈیوڑھیوں کی آراستہ خوابگاہوں میں سونے چاندی کے پایوں والے چھپر کھٹ پر، چاند ستاروں کی مچھر دانی تلے سونے چاندی کے پایوں والے چھپر کھٹ پر، چاند ستاروں کی مچھر دانی تلے سونے والی نازک اندام شہزادیاں بیل باٹم اور کوٹی پہنے، سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھی، مارکس کے ’’سرمایہ‘‘ کی ورق گردانی کر رہی تھیں اور ان کے لیے ہیروں کے طوق پہننے والے، ہاتھی پر سوار ہو کر، زربفت کی شیروانیوں پر سچے موتیوں کا سہرا باندھے، دونوں ہاتھوں سے اشرفیاں لٹاتے آنے والے بنے، اپنی کارٹون چھپی ہوئی، رنگ برنگی بشر ٹوں کی خالی جیبو ں کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنی گرل فرینڈ کا ٹکٹ خرید سکتے ہیں یا نہیں! پتہ نہیں کیوں جب بھی حیدرآباد آتا ہوں تو میرا دل ایک تجسس آمیز خوشی سے بھر جاتا ہے۔ اس الف لیلہ کی داستانوں جیسے شہر میں رنگا رنگ کہانیوں، ادب و تہذیب کی محفلوں اور گلاب کی طرح کھلے ہوئے لوگوں سے مل کر بےپناہ خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اب ایک روئی کے بالوں جیسا، سیاہ فرغل پہنے بوڑھا لاٹھی ٹیکتا ہوا اٹھےگا اور کہنا شروع کرےگا کہ۔۔۔

’’ تو پیارے حاضرین باتمکین۔۔۔ بہت دن ہوئے جب دکن کی ایک سانولی ایک خوبصورت طرحدار پاشازادے کے دام الفت میں گرفتار ہوئی، جینے سے بیزار ہوئی، رات دن غم کھانا اور آنسوؤں سے منہ دھونا اس کا شعار۔۔۔‘‘

’’ابے یوسف بےکارواں ادھر کہاں آ نکلا یار تو۔۔۔!‘‘ اچانک بھیڑ کو چیرتا ہوا سریندر آیا اور حسب عادت میری بانہوں میں جھول گیا۔

’’دہلی سے کب آئے، کدھر بھاگنے کی سوچ رہے تھے؟ میرے ڈپارٹمنٹ کیوں نہیں آئے؟‘‘ اس کے تمام سوالوں کے جواب میں میں نے کہا۔

’’قسم خدا کی یار‘‘ داد دینے والوں نے دماغ نچوڑ لیا۔ اب میں تمہاری تلاش کی فکر کر رہا تھا۔ ’’سریندر کے پیچھے ایک لڑکی اور ایک مرد بھی تھا۔ یہ میرے دوست ڈاکٹر پرکاش راؤ ہیں، باٹنی پڑھاتے ہیں اور یہ ہیں مس ونیتا گوڑ۔۔۔ سائیکلوجی کی لیکچرر۔‘‘ لیکن ان دونوں پر ایک نظر ڈال کر ہی میں سمجھ گیا کہ سریندر کو بیچ میں ’’اور‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ وہ دونوں بہت پاس پاس تھے یا پاس پاس ہونا چاہتے تھے۔

’’اور بھئی یہ ہمارے مہاتما، دانشور، جینئس، شاعر اور ہندوستان کے بہت اہم نقاد سید یوسف علی۔۔۔ پرکاش، یار ذرا ان سے بچ کر رہنا، وہ یہ اپنا تمام فلسفہ تمہارے دماغ میں انڈیل کر چھوڑیں گے۔‘‘

ہم سب نے قہقہوں کے ساتھ ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے۔ پرکاش بڑا صحت مند، اونچا پورا، خوش شکل نوجوان تھا۔ ونیتا کو دیکھ کر یوں لگا جیسے دنیا کی ہر خوشی کو وہ اپنا حق سمجھتی ہو۔ جیسے اس کے ہنسنے، قہقہے لگانے کے لیے ہی آج موسم اتنا سلونا ہو رہا تھا۔ ہوائیں گنگنارہی تھیں، بادل جھومتے ہوئے نیچے جھکے چلے آ رہے تھے۔ دو محبت کرنے والوں کے بیچ جو ایک کشش سی ہوتی ہے، ایک انجانا سا بندھن، وہ مجھے پرکاش اور ونیتا کے درمیان جانے کیسے محسوس ہو رہا تھا۔ شاید اس لیے کہ میں کبھی کبھار شاعری بھی کرتا تھا۔ میں نے ریسرچ کی تھی تو اردو شاعری میں انسانی فطرت کے بڑے نازک گوشوں پر بھی غور کرنا پڑا۔ مگر میر اور غالب کو ایسی محبوبہ نہیں ملی تھی جو ونیتا کی طرح پرکاش سے بالکل لگ کر ہی کھڑی ہونا چاہتی تھی، کسی بے اختیار جذبے کے ساتھ اس کی طرف کھنچی چلی جاتی تھی۔

باتیں کرتے میں، چلتے میں، ہنسنے میں بار بار ونیتا پرکاش کی طرف دیکھے جاتی تھی۔ کبھی اس کا ہاتھ پکڑ لیتی، کبھی اس کے کاندھے کے پاس سر لے جاکر غیرمحسوس دھول جھٹکنے لگتی اور کبھی بس یوں ہی قہقہے لگائے جاتی تھی۔ بس میں سوار ہونے کے بعد پرکاش نے مڑ کر سریندر سے کہا،

’’سریندر! یوسف صاحب تمہارے دوست ہیں تو آج سے ہمارے بھی دوست ہو گئے۔ اب انھیں کسی ہوٹل لے جا کر حیدرآبادی بریانی کھلائیں گے۔‘‘

ہوٹل کیوں۔۔۔؟ ونیتا نے براسا منہ بنایا۔

’’پرکاش، انہیں اپنے گھر لے چلو نا۔ ممی اور میں دونوں مل کر جھٹ پٹ خوب مزیدار کھانا بنادیں گے۔‘‘ ونیتا نے بیحد خوش ہو کر کہا۔

’’ارے نہیں۔‘‘ پرکاش نے ناگواری سے منہ پھیر لیا۔

’’شام کے وقت گھر میں بڑی بوریت ہوگی۔‘‘

ہاں بھئی یوسف، میں تم سے یہ کہنا تو بھول گیا کہ یہ جو ہمارے پرکاش بابو ہیں نا، یہ بڑے من موجی ہیں۔ بس ہر وقت پکنک کے موڈ میں رہتے ہیں۔ انھیں گھر میں بیٹھنے سے بڑی نفرت ہے۔‘‘

’’واہ واہ۔ تو پھر ملاؤ یار ہاتھ۔‘‘ میں نے بڑھ کر گرم جوشی سے ہاتھ بڑھایا تو پرکاش بڑی محبت سے گلے لگ گیا۔

’’میری عمر چالیس برس ہے۔ اس میں سے بیس برس میں نے گھر سے دور سفر میں گزارے ہیں۔‘‘ میں نے جھک کر کہا۔

’’ارے ہاں یار! یوسف میاں تو یورپ کی گلی گلی چھان آئے ہیں۔ بقول شخصے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔‘‘ ہم تینوں پھر زور سے ہنس پڑے سب سے جاندار اور اونچا قہقہہ ونیتا کا تھا۔

’’یو آر ویری لکی مین۔‘‘ پرکاش بڑی دیر تک میرا ہاتھ تھامے رہا۔ بس ’عابد شاپ‘ کے اسٹاپ پر رکی تو پرکاش نے سب سے کہا۔

’’یس یہاں اتر جاتے ہیں۔ کوالٹی چلیں گے۔‘‘

’’مگر وہاں اندھیرا بہت ہوتا ہے۔‘‘ ونیتا نے بڑی شوخ نظروں سے پرکاش کو دیکھا۔

’’یہ تم دونوں کے لیے بہت اچھا ہے‘‘ سریندر نے مسکرا کے ونیتا سے کہا۔ ’’البتہ ہم جیسے اکیلوں کو بوریت ہوگی! کیوں یوسف بھائی؟‘‘ اس بات پر پھر سب سے اونچا قہقہہ ونیتا کا تھا۔ ایک کونے کی میز کے آس پاس سب بیٹھ گئے تو پرکاش نے مجھ سے پوچھا۔

’’بیئر چلےگی یوسف صاحب۔۔۔؟‘‘

’’یس۔۔۔‘‘ میں نے گردن ہلائی۔ ‘‘آپ تینوں سے ملاقات کی اس یادگار شام کو رنگین تو بنانا ہی پڑےگا۔‘‘

ونیتا کے لیے آرنج جوس آ گیا۔ پرکاش کے چہرے کا ہر ری ایکشن ونیتا کے چہرے پر ابھرتا، ڈوبتا اور جھلملا کر رہ جاتا تھا۔ دو برس کے بعد سریندر سے ملاقات ہوئی تھی اس لیے باتوں کا ایک بوجھ میرے دماغ پر رکھا ہوا تھا۔ مگر پرکاش اور ونیتا کے قہقہے کسی کو سنجیدہ نہیں ہونے دے رہے تھے۔ بار میں بیٹھے ہوئے لوگ مڑ مڑ کے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ بلکہ صرف ونیتا کو۔ اس کے چاروں طرف رنگوں اور خوشیوں کا ہالہ سا کھنچا ہوا تھا۔ کوالٹی کے دھند لکے میں اس کی آنکھیں چمک چمک جاتیں، ہونٹوں کے گلاب کھل کھل اٹھتے۔ ونیتا کے چہرے پر سب سے اچھے اس کے ہونٹ تھے، تیکھے، ابھرنے والے اور بار بار اپنی بناوٹ بدل کر جذبات کا اظہار کرنے والے۔ اس کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی سی تھیں، باتیں کرتے وقت زور سے ہنستے وقت وہ اپنی چھوٹی سی ناک کے ساتھ آنکھوں کو بھی اور سیکڑ لیتی تھی۔ ننھی بچیوں کی طرح۔ مگر پھر بھی اس کے گندمی رنگ، کٹے ہوئے بے ترتیب بالوں اور صحت مند بدن میں بڑی کشش تھی۔ سیاہ بیل باٹم اور سرخ چھوٹی سی شرٹ میں بھی وہ اچھی لگ رہی تھی۔ یوں ہی جیسے آپ ہر روز بس اسٹاپ، سینما ہاؤس یا کالج کے سامنے، بہت سی خوش شکل لڑکیوں کو دیکھتے ہیں جو خوبصورت نہیں ہوتیں، مگر پھر بھی آپ کی نظریں دور تک ان کا تعاقب کرتی ہیں، ان کے نظروں سے چھپ جانے پر جانے کیسے دکھ کا احساس سا ہر طرف چھا جاتا ہے۔ مگر ونیتا تو میرے سامنے بیٹھی تھی اور آج بیئر میں بڑا مزا آ رہا تھا۔ میں سریندر کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ پرکاش بھی ہمارا ساتھ دے رہا تھا۔ ونیتا جوس کا گلاس سامنے رکھے ماچس کی تیلیوں سے ایک گھر بنانے میں مصروف تھی جو بار بار ڈھے جاتا تھا۔ پھر بھی وہ ہنسے جاتی۔ جانے کس بات پر۔ کئی بار کوئی مزیدار چیز اس نے اپنے ہاتھ سے پرکاش کو کھلائی۔

مجھے سریندر کی اس بات پر یقین نہیں آ رہا تھا جو اس نے ونیتا کے بارے میں بتائی تھی۔ بی اے کی اسٹوڈینٹ معلوم ہو رہی تھی۔ بیس بائیس برس کی۔ مگر جب وہ چلتے چلتے سب سے آگے نکل جاتی، سڑک سب سے پہلے پار کر لیتی، آ گے بڑھ کر ٹیکسی کو بلا لیتی، تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ لیکچرر بھی ہو سکتی ہے۔ پرکاش عمر میں اس سے چھ سات برس بڑا لگتا تھا، مگر وہ ایک بچے کی طرح اس کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔ آج پرکاش کو زکام تھا اور وہ پرکاش کی ہر چھینک پر گھبرا کے کہتی۔

’’پرکاش، پلیز! ڈاکٹر کے پاس آج چلے جاؤ نا کہیں فلو نہ ہو جائے۔‘‘

’’افوہ‘‘ پرکاش نے جھنجلا کر کہا۔ ’’ونیتی، ذرا مزے کی باتیں ہو رہی ہیں یوسف صاحب سے۔ اس وقت، ڈاکٹر کا نام لے کر بور مت کرو یار۔‘‘ اور پھر ہم دہلی کی سیاست کے اندرونی حقائق پر قہقہے لگاتے رہے۔ بعض عورتیں صرف ماں ہوتی ہیں۔ وہ اپنے باپ، بھائی، بیٹے اور محبوب سب کے لیے ممتا کا جذبہ جگائے رکھتی ہیں، مجھے ایسا لگا جیسے پل پل کی خبر گیری سے پرکاش بور ہو رہا تھا۔ لیکن ونیتا کو منہ پھلائے ماچس کی تیلیوں سے کھیلتے دیکھ کر وہ اس کی طرف مڑ گیا۔

’’ہاں تو بھئی ونتی، اب تم بھی تو یوسف صاحب سے کچھ باتیں کرو نا۔ وہ جو شادی کے بعد ہمارا گھر بنےگا، اس کی کہانی سناؤ۔ ایک بات سن لیجیے یوسف صاحب۔‘‘ اس نے ونتی کی طرف بڑی پیار بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔‘‘ہمارے دروازے پر کال بیل نہیں لگےگی۔ یہ ہماری ونتی کو پسند نہیں ہے۔ آپ آئیں تو ونتی کا نام لے کر زور زور سے چلانا پڑیگا۔‘‘

’’میرا کیوں۔۔۔؟‘‘ ونتی نے چھوٹی بچیوں کی طرح تنک کر کہا۔

’’آپ کا نام لے کر پکاریں گے سب لوگ۔ وہ مکان تو آپ کا ہوگا۔‘‘

’’ہٹاؤ جھگڑا کیا ہے، کیوں نہ ہم تم دونوں کو اکٹھے پکاریں، پرکاش ونیتا‘‘

سریندر زور سے چلایا تو ونیتا بھی ہنس پڑی اور کرسی کے تکیئے پر سر رکھ کر چھت دیکھنے لگی۔

’’کتنی خوبصورت سیلنگ ہے نا؟ ہم بھی اپنے گھر میں ایسی ہی چھت لگائیں گے۔‘‘

’’اچھا! اوہو!‘‘ ہم سب پھر ہنسنے لگے اور پرکاش نے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر کہا۔

’’یارو! میرے سر پر چھت گر رہی ہے مجھے بچاؤ‘‘ ایک بار پھر بئیر کے سرور میں ڈوبے ہوئے قہقہوں سے سارا بار گونج اٹھا۔

’’اس لڑکی کو دنیا کی ہر خوبصورتی چرا کے اپنے گھر میں بھر لینے کا خبط ہے۔‘‘ پرکاش نے ہنستے ہنستے ونیتا کے سر پر ایک دھپ مار کے کہا۔

’’ہاں جس طرح اس نے دنیا کی ہر خوبصورتی چھین کر اپنے چہرے پر جمع کر رکھی ہے۔‘‘ اب کی بار سریندر کی بات پر سب کو ہنسنا لازمی تھا۔

’’چلو ہٹو۔ سریندر بھیا کو ہنسانا بہت آتا ہے۔‘‘ ونیتا نے منہ بنالیا اور پھر کچھ سنجیدہ سی ہو کر مجھ سے بولی۔

’’یوسف صاحب! مجھے گھر سجانے کا بہت شوق ہے جب میں بہت چھوٹی سی تھی، مدراس کے ایک ہاسٹل میں پڑھتی تھی، تو دن بھر کارڈ بورڈ سے ننھے سے گھر بنایا کرتی تھی۔ مجھے گڑیوں کا گھر بنانے کا بہت شوق تھا۔ پھر کپڑے کی چھوٹی چھوٹی سی گڑیاں بنا کر اس میں بٹھا دیتی۔ مجھے رات کو سوتے وقت ایسا لگتا تھا جیسے وہ گڑیاں اب چپکے سے اٹھ کر گھر میں چل پھر رہی ہوں گی، مگر صبح مجھے دیکھ کر پھر سوتی بن جائیں گی۔‘‘ وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ تھامے، میز پر جھکی بہت آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی جیسے ابھی تک وہ کسی گڑیا کے بجائے اپنے آپ کو ایک ننھے سے گھر میں بیٹھا دیکھ رہی ہو۔

’’تو میاں پرکاش! اب تم بھی کاٹھ کے الو بنائے جاؤگے۔ بس چپ چاپ بیٹھے رہنا کسی طاق میں۔‘‘ سیریندر کی بات پر ہم تینوں کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔

’’سچ کہتے ہو یارو! نجانے یہ لڑکی مجھے کتنے ناچ نچانے والی ہے۔‘‘

پرکاش نے نشے سے بوجھل ہاتھوں سے ونیتا کو اپنی طرف کھینچا تو وہ دور ہٹ گئی۔

’’اچھا۔ آپ کو ایک مزے کی بات سناؤں گی‘‘ ونیتا نے منہ پر سے بال جھٹک بڑی شوخی سے کہا۔

’’پرکاش کو گھر میں بیازے اچھا نہیں لگتا ہے نا۔ اس لیے یہ اپنے گھر کا نام ’’پنجرہ‘‘ رکھیں گے۔‘‘ اپنی بات پر ونیتا خود ہی بڑے زور سے ہنس پڑی۔

’’ہاں اور میں کسی جاندار کو پنجرے میں بند نہیں دیکھ سکتا۔‘‘پرکاش نے سگریٹ سلگایا اور دوسرا سگریٹ مجھے آفر کیا۔

’’یارو! یہاں سب ہمیں پاگل سمجھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ مینیجر خود آ کر گیٹ آؤٹ کر دے، ہمیں خود اب سر پر پیر رکھ کر بھاگنا چاہیے یہاں سے۔‘‘ پرکاش نے بل کی پلیٹ میں ایک سو کا نوٹ رکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر سڑک پر آئے تو ٹھنڈی ہوائیں ہمارے استقبال کو کھڑی تھیں، بارش ہو کر تھم چکی تھی۔

اکا دکا بوند برف کی ڈلیوں کی طرح گرم بدن پر لگ رہی تھی۔

’’باہر تو خوب سردی ہے۔‘‘ ونیتا نے اپنے دونوں ہاتھ دونوں بازوؤں پر لپیٹ کر کہا۔

’’مجھے تو یوں لگ رہا ہے یار سریندر، یوسف صاحب سے ہماری بہت پرانی ملاقات ہے۔‘‘ پرکاش نے سریندر سے کہا۔

’’ہاں، ان میں ایک یہ بھی خاصیت ہے کہ یہ دوستی کو منٹوں میں پرانا کر دیتے ہیں۔‘‘ ’’سریندر میری طرف بڑھا۔‘‘

’’تو پھر کب آؤ گے حیدرآباد؟‘‘

’’میرا خیال ہے پرکاش اور ونیتا کی شادی پر آنا پڑے گا۔ ذرا مجھے یہ بتائیے کہ آپ دونوں کی شادی کب اور کہاں ہوگی؟‘‘

’’ہماری شادی؟‘‘ پرکاش نے سر کھجا کر سوچتے ہوئے کہا۔‘‘میرا خیال ہے کہ ہماری شادی تو ہو چکی ہے، کیوں ونتی؟‘‘ ونیتا نے اس بات پر خالص لڑکیوں والے انداز میں شرما کر سر جھکا لیا۔ میں اور سریندر پھر ہنس پڑے۔

’’اچھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی نہں ا ہوئی‘‘ وہ پھر میری طرف مڑ گیا ’’کب ہوگی اور کہاں ہو گی۔ اس بات کا یقین نہیں ہے۔ البتہ اب کی چھٹیوں میں ہم ایک ٹور پر نکلیں گے۔ پہلے بنگلور پھر کوڈی کنال، پھر شملہ، پھر دہلی۔ بس اس سفر میں کہیں نہ کہیں شادی بھی کر لیں گے۔ کیوں ونتی ٹھیک ہے نا؟‘‘

’’بس کرو۔‘‘ ونیتا نے جھوٹ موٹ کے غصے سے پرکاش کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔‘‘ مجھے ابھی سے تھکان ہو رہی ہے، اتنے پہاڑوں پر چڑھنے سے۔ تمہارا بس چلے تو ہر وقت ہواؤں میں اڑتے پھرو۔ جانے کیا ملتا ہے اس آوارہ گردی میں۔‘‘

’’بہت کچھ ملتا ہے۔ کیوں یوسف صاحب؟‘‘ اس نے ہنس کر میری طرف دیکھا۔

’’کیا کیا۔۔۔؟‘‘ ونیتا نے چڑ کر پوچھا۔

’’دوسری رنگین چڑیوں کا ساتھ۔‘‘ پرکاش نے پہلے ہی سے ونیتا کی چپت سے بچنے کے لیے سر پر دونوں ہاتھ رکھ کر کہا۔ ونیتا اسے پکڑ نے لپکی اور پھر چاروں طرف بےفکرے تماشائیوں کو اپنی طرف متوجہ پا کر اس کی کلائی پر کاٹنے لگی۔

’’ہائے مر گیا۔‘‘ پر کاش جھوٹ موٹ کے غصے سے چلایا۔

’’مجھے اس سائیکلوجی کی استانی ماں سے بچاؤ یارو! آئی ایم ویری ساری۔ کہو تو ہاسٹل جانے کے بعد مرغا بھی بن جاؤں۔‘‘ وہ چھوٹے بچوں کی طرح کان پکڑے کہہ رہا تھا۔

’’بننے کی کیا ضرورت؟‘‘ ونیتا کی اس بات پر ایک بار پھر سب ہنس پڑے۔

’’اچھا تو اب اجازت دیجیے۔ یہ خوشگوار شام جو آپ لوگوں کے ساتھ گزری میں کبھی نہیں بھولونگا۔‘‘ میں نے پرکاش سے ہاتھ ملایا اور پھر ونیتا کی طرف دیکھا۔

’’تو پھر اگلی بار جب حیدرآباد آؤں گا تو آپ کے گھر پر ملاقات ہوگی؟‘‘

’’لیکن آپ کو پرکاش سے ایک بار ملنے کے لیے ہمارے گھر دس بار آنا پڑےگا۔‘‘ونیتا نے منہ پھلا کر کہا۔

’’اچھا وہ کیوں؟ کیاں آپ ان سے ہر وقت نہیں ملنے دیں گی؟‘‘

’’جی نہیں جناب، یہ مسٹر سیر سپاٹے کے بڑے شوقین ہیں، مجھے معلوم ہے کہ کبھی وقت پر گھر نہیں آیا کریں گے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ یہ مجھے بالکل ہی اپنی دھرم پتنی نہ بنا دیں کہ رات کے بارہ بارہ بجے تک میز پر کھانا رکھے جاگتی رہو ں گی پتی دیو کے انتظار میں۔‘‘

’’یہ تو ہوا کرےگا۔‘‘ پرکاش نے کنجیوں کا گچھا ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا۔

’’اپن رمی تو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔‘‘

’’تو پھر کیا چھوڑنے والے ہیں۔۔۔؟‘‘ ونیتا ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔

’’فی الحال اس سڑک کو چھوڑنے والے ہیں۔ ورنہ ہوٹل کا مینجر اب ہمیں ناشتہ کرنے پھر اندر بلالےگا۔‘‘ پرکاش نے آگے بڑھ کر ایک ٹیکسی بلائی۔

’’تو پھر کل ملیں گے یوسف بھائی، آپ صبح آٹھ بجے تک ونیتا کے ہاسٹل آ جائیے۔ کل عثمان ساگر لے چلیں گے آپ کو۔ ذرا کھلے آسمان تلے گپ شپ ہوگی۔‘‘

’’مگر ایک بات سنو پرکاش، جب تم اپنا گھر بنواؤ نا تو اس پر چھت مت ڈلوانا تاکہ کھلے آسمان تلے رہ سکو۔‘‘ سریندر نے ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے کہا۔

’’مگر گھر کی بھی کیا ضرورت ہے یار، ہم گھوم پھر کے بھی زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘ اس نے ونیتا کے تھپڑ کی امید میں پھر دونوں ہاتھ سر پر رکھ لیے۔

’’بہت ہو چکی بکواس، مجھے جلدی ہاسٹل پہنچا دو ورنہ ہاسٹل کی وارڈن مجھے مارے گی۔ ونیتا نے سچ مچ گھبرا کے کہا۔

’’آپ ہاسٹل میں کیوں رہتی ہیں؟‘‘ میں نے ونیتا کے کمرے میں آنے کے بعد پوچھا۔

’’ابھی آپ سے بات کرتی ہوں۔‘‘ ونیتا اپنے بھیگے بالوں کو جھٹکتے ہوئے اندر چلی گئی۔

ونیتا نے آج بڑی خوب صورتی سے میک اپ کیا تھا اور سیاہ پرینٹڈ میکسی پہنی تھی اور کوئی بھینی سی خوشبو لگائی تھی جو کمرے کے اندر آتے ہی ایک خوشگوار موڈ کے ساتھ استقبال کرتی تھی۔ اس کا کمرہ لکڑی کے پارٹیشن سے دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک طرف بیڈروم، دوسری طرف جہاں میں بیٹھا تھا، اس میں ونیتا نے کچن، اسٹور اور ڈائننگ روم سب کچھ بنا رکھا تھا۔ مگر ہر چیز بڑی نفاست اور سلیقے سے اپنی جگہ رکھی ہوئی تھی، جیسے اس نے اس چھوٹے سے کمرے میں ہر چیز رکھنے کے بارے میں کافی سوچ بچار کیا ہو۔ کونے کی ایک میز پر اسٹو اور اس کے اوپر شیلف میں کچن کا سارا سامان رکھا تھا۔ چھوٹے سائز کے فیرج کے اوپر سورج مکھی کے تازہ پھولوں کا بڑا سا گلدستہ تھا۔ ریڈیو کے اوپر منی پلانٹ کی بیل کا واز تھا۔ صوفے پر خوبصورتی سے بنائے ہوئے کشن پڑے تھے۔ شوکیس میں ہر قسم کی گڑیاں مسکرا رہی تھیں، ناچتی گاتی، بنجاروں کا لباس پہنے، پنجابی سوٹ میں مسکراتی، دولہا دلہن بنی، چھوٹے بچوں کی طرح دیکھنے والوں کی طرف ہمکتی ہوئی ان گڑیوں کی وجہ سے یوں لگتا جیسے کمرے میں بہت سے لوگوں کی چہل پہل ہو۔ ونیتا تولیے میں بال لپیٹ کر اندر آئی۔ اس نے فریج سے پھل اور مٹھائی نکالی اور میرے سامنے رکھ دی۔

’’یہ گلاب جامن میں نے خود بنائے ہیں۔ پرکاش بڑے شوق سے کھاتا ہے۔‘‘ ان گلاب جامنوں کا ذائقہ مجھے ونیتا کے سارے چہرے پر گھلا ہوا لگ رہا تھا۔

’’آپ ہاسٹل میں کیوں رہتی ہیں؟‘‘ میں نے گلاب جامن کھاتے کھاتے پوچھا۔ ونیتا نے گرم پانی ٹی پاٹ میں ڈالتے ہوے میری طرف دیکھا اور پھر کچھ رک کر بولی۔

’’میرا گھر کہاں ہے ابھی۔ مجھے ابھی چھ مہینے پہلے جاب ملی ہے۔‘‘ پھر وہ میرے سامنے والے صوفے پر آ بیٹھی اور اپنے ہاتھوں کو نیپکن سے صاف کرنے لگی۔

’’اس سے پہلے میں ایک مکان میں پینگ گیسٹ تھی۔‘‘

’’ تو کیا آپ حیدرآباد کی رہنے والی نہیں ہیں؟‘‘ ونیتا نے کانٹا اٹھا کر پلیٹ میں پڑی ہوئی گلاب جامن کے دو ٹکڑے کئے، پھر تین اور پھر ان ٹکڑوں کو الگ الگ کرتے ہوئے دھیرے دھیرے کہنے لگی۔

’’میرا گھر کہیں بھی نہیں ہے یوسف صاحب۔ میں تین برس کی تھی جب ممی کے مرنے کے بعد پپا نے دوسرا شادی کی تو مجھے بورڈنگ میں داخل کر دیا۔ میں چھٹیوں میں گھر جاتی تھی تو میری سوتیلی بہنیں کہتی تھیں، تم ہمارے گھر کیوں آتی ہو۔ تب میں سوچتی، پھر میرا گھر کہاں ہے؟ میرے ایسے سوالوں سے گھبرا کے پا مجھے چھٹیوں میں آنٹی کے گھر بھیج دیتے تھے۔ کبھی چاچا کے ہاں۔ اسی طرح میں اتنی بڑی ہو گئی۔‘‘ اس نے چھت کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا اس کی آنکھیں چھلک رہی تھیں جنھیں وہ روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔

’’خیر اب پر کاش آپ کے لیے بہت خوبصورت گھر بنا دیں گے۔‘‘ میں نے اسے خوش کرنے کے لیے کہا۔

’’ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘ وہ ایک دم بچوں کی طرح خوش ہو گئی۔‘‘ میں نے سوچ لیا ہے میں اپنا گھر خود بناؤں گی۔ خود ہی اسے بناؤں گی۔ ویسے پرکاش کا بڑا خوبصورت مکان ہے اس کے ڈیڈی بہت بڑے بزنس مین ہیں۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ہے نا۔ اس لیے ممی نے اسے بچپن میں ہر وقت اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ بس گھر میں رہتے رہتے پرکاش بور ہو گیا ہے اب۔‘‘

’’آپ جاتی ہیں پرکاش کی ممی سے ملنے؟‘‘ میں نے چائے کی پیالی اٹھا کر پوچھا۔

’’ہاں بڑی پیاری سی ہے پرکاش کی ممی۔ وہ ہمارے انگیجمینٹ پر بہت خوش ہے۔ وہ بھی یہی چاہتی ہے کہ پرکاش اب کسی ایک جگہ ٹھکانے سے بیٹھنا سیکھے۔ آپ چائے اور لیں گے؟‘‘

’’جی بس شکریہ۔۔۔ سگریٹ سلگا سکتا ہوں؟‘‘ میں نے جھک کر کہا اور ونیتا کے گردن ہلانے پر میں نے شکریہ ادا کیا۔

’’اب تو آپ کو اس کمرے میں صرف چند مہینے رہنا ہے۔ مگر آپ نے یہاں ہر طرف باغ لگانے کی کوشش کی ہے۔‘‘ میں نے دیوار کے سہارے چڑھنے والے رنگ برنگے پودے اور بیلیں دیکھ کر کہا۔

’’مجھے پودے لگانے کا بڑا شوق ہے۔‘‘ ونیتا نے ایک بیل کے پاس جا کر اس کی پتیوں پر بڑی محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’پھولوں پھلوں کے درختوں کی موجودگی سے گھر کی سی فضا بنتی ہے نا۔ یہ جو بیل ہے اسے میں نے ذرا سا رسی کا سہارا دیا تو کتنی اوپر آ گئی۔‘‘

دور کہیں سڑک پر پرکاش کی کار کا ہارن گونجا اور ونیتا چونک پڑی۔

’’وہ آ گئے۔۔۔‘‘ میکسی کو دونوں ہاتھوں میں سمیٹ کر وہ باہر بھاگی۔ ’’پرکاش آ گئے۔۔۔ اٹھیے۔‘‘ ونیتا چھوٹی بچیوں کی طرح تالیاں بجاتی ہوئی اندر آ گئی۔ ’’آج میں نے وہاں کھانے کے لیے رات بھر جاگ کر خوب چیزیں پکائی ہیں۔‘‘ وہ جلدی جلدی ٹفن کیرئیر، باسکٹ اور کچھ پیکٹ لالا کر سامنے رکھ رہی تھی۔ ’’اس میں پوریاں اور آلو کی کری، یہ کریلے کا سالن ہے۔ پرکاش کریلے بہت شوق سے کھاتا ہے۔‘‘

’’ہیلو۔۔۔ یعنی آپ آ چکے ہیں۔‘‘ پرکاش نے اندر آ کر مجھ سے ہاتھ ملایا۔

’’اب جلدی اٹھیے، ورنہ سورج نکل آیا تو ٹھنڈی ہواؤں کا مزا نہیں آئےگا۔‘‘ پھر اس نے ونیتا کی چھوڑی ہوئی ادھوری چائے کی پیالی منہ سے لگائی اور مڑ کے ونیتا کی طرف دیکھا۔

’’اف اتنی میٹھی چائے۔۔۔ یقیناً ونیتا، تم نے اس میں اپنے ہونٹ ڈبوئے ہونگے۔‘‘

’’چلو ہٹو۔‘‘ ونیتا سچ مچ شرما گئی۔

’’مگر تم اس سج دھج کے ساتھ میرے ساتھ بیٹھو گی تو میں کار کیسے چلاؤں گا۔‘‘ اس نے پھر ونیتا کی طرف دیکھا۔

’’یوسف بھائی! آپ کو کار ڈرائیور کرنا آتی ہے تو بس آپ اور سریندر سامنے کی سیٹ پر۔‘‘

’’اب ستائیے مت ورنہ میں نہیں جاؤں گی۔‘‘ ونیتا بالوں کو جھٹک کر مچلنے لگی۔ پھر اسے اچانک کچھ یاد آیا اور وہ ٹفن کیرئر اٹھانے لگی۔

’’پرکاش گلاب جامن کھاؤ گے؟ میں نے بڑی محنت سے بنائے ہیں۔‘‘ پر کاش کچھ جواب دینا چاہتا تھا، مگر اس کی نظر ٹفن کیرئر پرگئی اور پھر اس نے باسکٹ کو دیکھا۔

’’یہ، یہ کیا سامان ہے ونتی! کیا تم نے گاؤں والوں کی طرح اپنے کھانے کی پوٹلی تیار کر لی ہے؟‘‘ پر کاش کچھ اچانک غصے میں آ گیا۔‘‘ کوئی سامان ساتھ نہیں جائےگا۔ ارے جنگل میں بھی جاؤ تو گھر کی پوریاں ہی نگلنا پڑیں۔‘‘ ونیتا کا چہرہ اتر گیا۔ وہ ایک کونے میں ہٹ کر کھڑ ی ہو گئی تو سریندر نے کہا۔

’’مگر ہم تو آج ونیتا کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا ہی کھائیں گے۔ اس لیے یہ ٹفن کیرئر ہمارے ساتھ جائےگا۔‘‘

’’پرکاش صاحب آپ کو معلوم ہے اس کھانے کو تیار کرنے کے لیے ونیتا رات بھر جاگی ہے۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ پرکاش نے منہ بنا کر کہا۔ ’’تو پھر ہم باہر کیوں جائیں۔ ساری رات جاگ کر بنایا ہوا کھانا یہیں کھائے لیتے ہیں۔‘‘

’’بالکل اڑیل ٹٹو ہے یہ شخص۔‘‘ سریندر نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ ’’سب کا موڈ تباہ کر دیا اس وقت۔‘‘

’’موڈ تو میرا تباہ ہوا ہے۔‘‘ پر کاش بچوں کی طرح جتانے لگا۔

’’اب یہ کھانا کوئی نہیں کھائےگا‘‘ ونیتا نے ٹفن کرے ئر اٹھا کر تیزی سے دروزے سے باہر پھینکا، پرس اٹھایا اور تیزی سے باہر چلی گئی۔ چند منٹ تک سب چپ چاپ کھڑے رہے۔ پھر میں نے پرکاش سے کہا۔

’’ونیتا کو منا کر لے آؤ پرکاش۔‘‘

’’وہ کہیں نہیں جائےگی۔ ابھی مولیاں اور گاجریں خرید کر آ جائےگی۔‘‘ پرکاش اطمینان سے صوفے پر بیٹھ کر گلاب جامنیں کھانے لگا۔

’’یوسف بھائی! میرے ڈیڈی نے میرے لیے بہت روپیہ جمع کیا ہے۔ میں خود دوہزار روپے کماتا ہوں۔ پھر ونیتا کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن کھانا بنانا اور ترکاریاں خرید نا اس کی ہابی ہے۔‘‘

’’خیر چلو اب، دیر ہو رہی ہے۔‘‘ میں نے سب کو باہر کی طرف ہانکا۔

’’پہلے چل کر ونیتا کو منالیں، ورنہ راستے بھر منہ پھلائے رہےگی۔‘‘ پرکاش نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ ہم سب بہت دیر تک مارکیٹ میں ونیتا کو تلاش کرتے رہے۔ پھر ہم ونیتا کی دوست سلمی کے ہاں گئے۔ وہ وہاں بھی نہیں آئی تھی۔

’’وہ ممی کے پاس گئی ہے۔ میری شکایت کرنے۔‘‘ پرکاش نے ماتھے سے پسینہ پونچھ کر کہا۔ ونیتا کے کھو جانے سے وہ کچھ گھبرا سا گیا تھا۔ ادھر پکنک کا پروگرام خراب کر نے کی وجہ سے سریندر اس پر مسلسل لعن طعن کیے جارہا تھا۔

’’ابے ممی کے چانٹے بھی کھانا پڑیں گے۔‘‘ پرکاش نے کار پھاٹک کے باہر روک دی اور دوڑتا ہوا اندر گیا۔ پھر اتنی ہی تیزی سے باہر آیا۔ پیچھے پیچھے اس کی ممی تھیں گھبرائی ہوئی سی۔ ونیتا وہاں بھی نہیں آئی تھی۔

’’بات کیا ہے پرکاش؟ ونیتا کہاں چلی گئی؟‘‘ گوری چٹی نرم و نازک سی ممی گھبرا گھبرا کے پوچھتی رہی۔ مگر پرکاش نے ہاتھ ہلا کر ٹاٹا کرتے ہوئے کہا۔

’’گھبراؤ مت ممی! کوئی بات نہیں ہے۔ ہم ذرا جلدی میں ہیں۔‘‘ مکان سے ذرا آگے جا کر پرکاش نے کار سڑک کے کنارے روک لی اور اسٹیرنگ وہیل پر سر رکھ کر بیٹھ گیا۔

’’اتنا گھبرانے کی کیا بات ہے؟ تم پیچھے آ جاؤ۔ میں کار ڈرائیو کرتا ہوں۔‘‘ سریندر نے اسے پیچھے بٹھایا اور کار اسٹارٹ کر کے بولا۔‘‘پھر ہاسٹل چلتے ہیں شاید وہیں واپس آ گئی ہو۔‘‘ پرکاش پیچھے کی طرف سرٹیک کر بیٹھ گیا ہم دونوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔

ہاسٹل میں ونیتا کا کمرہ ابھی اسی طرح کھلا پڑا تھا جیسے ہم چھوڑ گئے تھے۔ پرکاش اندر گیا اور چپ چاپ بستر پر لیٹ گیا۔ سریندر بھی بہت پریشان تھا، مگر وہ پرکاش کے پاس بیٹھ گیا۔

’’گھبراؤ مت پرکاش! کہیں اپنی کسی دوست کے ہاں جا بیٹھی ہوگی۔ غصہ کم ہو جائے گا تو آ جائے گی۔ وہ بھلا تمہیں چھوڑ کر کہیں جا سکتی ہے؟‘‘ اور پھر سریندر نے مجھے اشارہ کیا کہ ہم دونوں ایک بار پھر اسے ڈھونڈیں۔

’’ہم ذرا یونیورسٹی کیمپس جا کر دیکھتے ہیں۔ ممکن ہے اپنے کسی دوست کے ہاں بیٹھی ہو۔‘‘ پرکاش نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنی باہوں میں منہ چھپائے چپ چاپ لیٹا رہا۔ ونیتا کو ہر جگہ ڈھونڈا وہ کہیں نہیں ملی۔ مگر ہم یہ بات پرکاش سے کہنے بھی نہیں جا سکتے تھے۔ مجھے شام کی ٹرین سے دہلی جانا تھا۔ اس لیے میں گیسٹ ہاؤس جانا چاہتا تھا۔ مگر سریندر نے کہا کہ احتیاطاً ہم دو چار پولیس اسٹیشنوں پر بھی اطلاع دیں کیوں کہ وہ بڑی جذباتی لڑکی ہے۔ نہ جانے پرکاش اپنی اس تیز مزاجی سے کیا کر دےگا کسی دن۔ دو چار اہم پولیس اسٹیشنوں کو اطلاع دینے کے بعد ونیتا اور پرکاش کی اس محبت کے انجام سے دل گھبرانے لگا۔ دن بھر کی اس بھاگ دوڑ سے ہم دونوں بہت تھک گئے تھے۔ صبح ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کیا تھا۔ لیکن ابھی پرکاش کو تسلی دے کر رخصت حاصل کرنے کا مرحلہ باقی تھا۔ صرف ایک ہی دو ملاقاتوں میں ہم بہت قریب آ چکے تھے۔ مجھے ونیتا سے غیرمعمولی دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔ کار باہر روک کر ہم نہایت مریل قدموں سے ہاسٹل کی طرف بڑھے۔ پتہ نہیں پرکاش کتنی بے چینی سے ہمارا منتظر ہو گا اور ونیتا کو ہمارے ساتھ نہ پاکر کیا کر بیٹھے۔ کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھولا۔ اور ہم دونوں اچھل کر پیچھے ہٹے۔ ونیتا سامنے صوفے پر بیٹھی تھی اور بڑے پیار سے بڑے انہماک کے ساتھ پرکاش کو کیک کھلا رہی تھی۔

ہمیں دیکھ کر ان دونوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ ایسا قہقہہ جو آتش بازی کے انار کی طرح اندھیرے آسمان پر بہت اوپر جا کر ہزاروں رنگ برنگے ستاروں میں بدل جاتا ہے۔ مگر یہ قہقہہ بجھا نہں ا کیوں کہ ہمارے مسرت سے بھرے قہقہے بڑی دیر تک اس کو جگمگاتے رہے۔ ہم لوگ دس پندرہ منٹ تک خوب قہقہے لگا کر اپنی تھکن اتار چکے تو سریندر ذرا سنبھل کر بیٹھ گیا اور چہرے پر کافی سنجیدگی لا کر بولا۔

’’ہم تو اب پولیس اسٹیشن سے تمہاری ڈیڈ باڈی اٹھا کر لانے کے انتظام میں مصروف ہو چکے تھے۔ اور یہ محترمہ یہاں بیٹھی اپنے دولہا میاں کا منہ میٹھا کرنے کی فکر میں ہیں۔‘‘

’’میں کیا کروں؟‘‘ ونیتا نے منہ پر سے بال جھٹک کر بڑی معصومیت سے کہا۔‘‘یہ گھر کی بنی ہوئی چیزیں نہیں کھا رہے تھے اس لیے آٹو رکشا میں بیٹھ کر سکندر آباد گئی تھی، انناس کا کیک لانے۔ دیکھ لو اب کیسے مزے سے کھا رہے ہیں۔‘‘ پرکاش چپکے چپکے ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

’’ابھی جانے کتنا تھکائےگا یہ آدمی مجھے۔‘‘

’’اور جو ہم دونوں کا سارا دن تباہ ہوا ہے؟ آج بچارے یوسف کو خواہ مخواہ بھوکا پیاسا پریشان ہونا پڑا۔ کم بختو! اب تم دونوں ہم دونوں سے معافی مانگو اور جرمانہ دو، مگر جلدی سے۔ یوسف کی ٹرین چھوٹنے میں صرف دو گھنٹے باقی ہیں۔‘‘

’’صرف دو گھنٹے۔۔۔‘‘ پرکاش گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’ونتی! جلدی چل یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے۔‘‘ پرکاش نے ونیتا کا ہاتھ پکڑ کے کار کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔

مجھے حیدرآباد سے واپس آئے تقریباً چھ مہینے ہوئے ہوں گے، ایک دن اچانک پرکاش ہمارے ڈپارٹمنٹ میں آ نکلا۔ یوں ہی ہنستا کھلکھلاتا ہوا۔ پرکاش کا قہقہہ بڑا گونج دار ہوتا ہے، رنگیلا چمکیلا۔ وہ بات محض اس لیے کرتا تھا کہ قہقہہ لگا سکے۔ وہ ہر بات پر ہنستا تھا۔ اپنے پر، دوسروں پر، حالات پر۔ کل کے بارے میں سوچنے والوں سے وہ بہت چڑتا تھا۔ اسے صرف ’’آج‘‘ پسند تھا کسی بات کے لیے صبر کرنا، انتظار کرنا اسے بالکل نہیں آتا تھا۔

وہ دہلی اکیلا آیا تھا۔ دہلی جیسی جگہ اور پرکاش اکیلا۔ مجھے جانے کیوں اکیلا پرکاش اچھا نہیں لگا۔ بعض عورتیں جانے کیوں اچھی لگنے لگتی ہیں۔ چاہے وہ خوبصورت نہیں ہوں۔ قابل نہ ہوں۔ کسی اور مرد کو پیار کرتی ہوں۔ زندگی کی کسی بھی منزل پر انھیں پانے، چھونے کی امید نہ ہو۔ مگر پھر بھی ہم انھیں گلاب کے شگفتہ پھول کی طرح دیکھے جاتے ہیں۔ وہ گلاب کے کانٹے کی طرح دل کے آس پاس کھٹکتی رہتی ہیں جی چاہتا ہے وہ سامنے رہیں، ان کی باتوں کو سنتے رہیں، بے معنی اور بےتکی باتیں۔ سہل سی باتوں پر تعجب اور بڑی اہم باتوں سے بے تعلقی کا اظہار۔

’’ونیتا کو ساتھ نہیں لائے؟‘‘ آخر میں نے پوچھ ہی لیا۔

’’وہ تو بہت مصروف ہے گھر بنانے میں۔ ممی نے اسے زمین خرید کر دی ہے تاکہ وہ اپنی پسند کا گھر بنا لے۔ اب اسے میرے ساتھ کہیں آنے کی فرصت کہاں ہے۔‘‘ اچانک پرکاش نے اپنا قہقہہ روک کر پہلی بار سنجیدگی سے جواب دیا۔

’’میں نے سوچا جب تک وہ کچن کے ڈیکوریشن میں مصروف ہے میں دہلی کی اس میٹنگ میں شریک ہو جاؤں۔‘‘ وہ پھر ہنسنے لگا۔

’’مبارک! پھر تو بڑا آئیڈیل گھر یقیناًتیار ہو جائےگا کیوں اسے گھر بنانے کے سوا اور کچھ یاد نہیں ہے۔‘‘

’’شادی کی تاریخ بھی۔۔۔؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔

’’وہ بھی شاید اس لیے یاد ہو کہ بیڈروم سجانے کے لیے ایک مرد کی موجودگی ضروری ہے۔‘‘ اس بار پرکاش بہت زور سے ہنسا مگر مجھے اس کا قہقہہ بہت پھیکا لگا۔ بجھا بجھا سا بےجان سا اور پھر وہ خاموشی سے پاؤں ہلا ہلاکر تھوڑی دیر چپ چاپ بیٹھا۔ رہا لیکن اچانک اسے احساس ہوا کہ اس کی خاموشی سے میں کچھ محسوس نہ کرلوں۔

’’چلو! باہر چل کر ذرا دلی کی ہوا کھائیں۔ تمہارا ڈرائنگ روم بہت چھوٹا ہے یار۔‘‘ وہ گھبرا کے اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر سڑک پر آ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے رک گیا۔

’’پتہ نہیں یار! مجھے یہ کیا بیماری ہو گئی ہے کہ کمرے میں بیٹھوں تو یوں لگتا ہے جیسے دیوار یں آپس میں مل کر مجھے پیس دیں گی۔‘‘ وہ جلدی جلدی سگریٹ کے کش لینے لگا۔

’’تم بڑے وہمی ہو۔ دیواریں تو ہماری پناہ گاہ ہیں، ایک حد ہیں، جس کے پار ہمیشہ خطرے ہیں۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔ پھر میں نے گھڑی دیکھی۔

’’ارے! تمہاری فلائٹ کا وقت ہو رہا ہے۔ تین بج گئے۔‘‘

’’بجنے دو۔‘‘ پھر اس نے ایک ٹیکسی بلاتے ہوئے کہا۔

’’بڑا مزا آئےگا اگر میں ونیتا کو پلین سے اترتا ہوا نظر نہ آؤں‘‘ وہ پھر ہنسنے لگا۔ ٹیکسی آگے بڑھ گئی مگر پرکاش کا قہقہہ نہیں رکا۔ میں جب اپنے ڈرائنگ روم میں واپس آیا تو وہاں بھی جیسے پرکاش کے قہقہوں کا ٹیپ کسی نے لگا دیا تھا۔ وہ ہنسے جا رہا تھا۔ سوتے وقت بھی مجھے جیسے ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ونیتا کو پلین کی سیڑھیوں سے اترتا ہوا پر کاش نظر نہ آئے۔ اس خیال کے ساتھ ہی جیسے کسی نے پرکاش کے قہقہوں کا ٹیپ پھر لگا دیا۔

رات دھیرے دھیرے یوں بڑھ رہی تھی جیسے آدمی کا اپنے اوپر سے اعتماد اٹھتا ہے۔ آج مجھے حیدرآباد میں بڑی سردی سی لگ رہی تھی۔ میٹنگ ختم کر کے باہر آیا تو شام ہو چکی تھی۔ پرکاش اور ونیتا گھر جا چکے ہوں گے۔ ہوائیں تھمی تھمی سی تھیں۔ سخت گرمی اور گھٹن تھی۔ حیدرآباد کے اس بدلے ہوئے موسم پر مجھے تعجب ہوا۔ ابھی ٹھنڈ تھی، اب گرمی لگ رہی ہے۔ میرے موڈ کی طرح۔ مجھے پرکاش کے مکان کا راستہ یاد نہ تھا۔ سریندر کا فون نمبر بھی بھول چکا تھا۔ البتہ ونیتا کے ہاسٹل جا سکتا ہوں۔ مگر تین برس ہو گئے ان سے سے ملے ہوئے۔ اب تک تو ونیتا کئی بچوں کی ماں بن گئی ہوگی۔ اس ہاسٹل میں کیوں رہنے لگی۔ میں بس اسٹاپ پر کھڑا ہوا تھا۔ کئی بسیں آئیں اور لوگ ان کی طرف بھاگے۔ مگر میں آگے نہیں بڑھا۔ مجھے کہاں جانا تھا؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بڑھتے ہوئے اندھیرے میں بجلی سی چمکی، نہیں، تارہ سا ٹوٹا، نہیں شاید کہیں دور سڑک کے اس پار ونیتا چمک رہی تھی۔ بالکل اسی جیسی شکل و صورت۔ مگر ساڑی پہنے بڑی سنجیدہ سی بنی۔ شام کے دھندلکے میں ریڈیم کے موتی کی طرح چمکنے والی ونیتا ہی ہو سکتی ہے۔ وہ میری طرف پیٹھ کئے اپنے کسی اسٹوڈنٹ سے باتیں کر رہی تھی۔ لیکن میں راستے سے گزرنے والی کاروں اور بسوں کی پروا کیے بغیر اس کی طرف یوں بھاگا جیسے ایک منٹ بھی دیر کی تو وہ خواب کی طرح فضا میں تحلیل ہو جائےگی۔

’’ہیلو ونیتا۔۔۔‘‘

’’ہائے یوسف کیسے ہو۔۔۔؟ کب آئے دلی سے۔۔۔؟‘‘ ونیتا نے حسب عادت آنکھیں پھیلا کر، ہونٹ کھول کر، مسکرا کے کہا۔ وہ ہمیشہ چہرے پر شدید تاثر پھیلا کے بات کرتی تھی۔ مگر ایسا خشک اور بغیر قہقہے کا استقبال دیکھ کر میں کچھ رک سا گیا۔

’’ایک میٹنگ کے سلسلے میں آج ہی صبح آیا تھا۔ سارا دن اسی میں مصروف رہا۔ اب میری شامت ہے۔ میں ابھی تک سریندر سے ملا ہوں نہ پرکاش سے۔ اب انھیں تم سے معلوم ہوگا تو دونوں خفا ہو جائیں گے۔‘‘

’’ہاں وہ تو ہوگا۔۔۔‘‘ آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو گئیں تو میں نے دیکھا کہ ونیتا کافی بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ جیسے ان تین برسوں میں کم سے کم دس برس اور بڑی ہو گئی ہو۔ شاید اس لیے کہ میں نے پہلی بار اسے ساڑی پہنے، بٹو لگائے دیکھا تھا۔

’’پرکاش کیسے ہیں؟‘‘

’’بالکل ٹھیک۔‘‘ ونیتا نے سر ہلا کے کہا۔ وہ کچھ رکی۔ میری طرف دیکھا اور پھر ہنس کر بولی۔

’’ہمارا ایک گھر بن گیا ہے اب۔‘‘

’’اچھا! مبارک! یہ کب ہوا؟‘‘ میں واقعی بے حد خوش ہوا۔ ’’تو آخر چپکے چپکے ہی شادی کی تم دونوں نے۔

ہمیں خبر تک نہیں کی۔‘‘ ونیتا ذرا سا مسکرائی پھر اپنا بڑا سا بیگ کاندھے پر لٹکا کے کہا۔

’’یوسف! یہاں بس کے انتظار میں کھڑے کھڑے تو لوگ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ آئیے، کینٹین میں بیٹھ کر چائے پئیں۔‘‘

’’ہاں، مگر پرکاش کہاں ہیں؟ وہ حضرت تمہارے ساتھ نہیں ہیں آج‘‘ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا۔

’’اونہہ۔‘‘ ونیتا نے حسب عادت منہ بنا کر جواب دیا۔ ہم دونوں کینٹین میں جا بیٹھے۔ ونیتا گم صم سی تھی۔ شادی نے اسے کچھ سنجیدہ مزاج بنا دیا تھا۔ اب اس کے سبھاؤ میں ایک سنجیدگی اور ٹھہراؤ سا آ گیا تھا۔

وہ باربار میرے چہرے کو دیکھے جا رہی تھی۔

’’یوسف! بہت دنوں کے بعد تمہیں یہاں کینٹین میں دیکھ کر مجھے ایک بہت ایک بہت خوبصورت شام یا د آ رہی ہے۔ وہ کو الٹی کا اندھیرے والا ڈنر جب ہم لوگ خوب ہنسے تھے۔‘‘

’’ہاں ہاں، مجھے یاد ہے۔‘‘ میں ہنسنے لگا وہ چمکیلی رات تو مجھے ایک خوبصورت پینٹنگ کی طرح یاد تھی۔ مجھے اس وقت بھی یوں لگ رہا تھا جیسے ہم سب آج بھی اس شام کی پینٹنگ میں بیٹھے ایک فریم کے اندر جڑے ہوئے ہوں اور کسی مصور کے ہلکے ہلکے برش سے میرے اور پرکاش اور ونیتا کے نقوش ابھر رہے ہوں۔

ونیتا بھی جیسے اس شام کی ساری تفصیل اپنے ذہن میں جگا رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے پیالی میز پر رکھی۔

’’کتنی اچھی شامیں تھیں وہ! ہم لوگ کتنا ہنستے تھے۔‘‘

’’ہنستے تھے۔‘‘ میں ونیتا کے چہرے پر کچھ ڈھونڈنے لگا۔ ونیتا نے اب اسے تنہا کیوں چھوڑ دیا؟ بعض لڑکیاں شادی کو بھی کسی فلم کا رومانی منظر سمجھتی ہیں۔ پھر جب فلم ختم ہو جائے تو حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پرکاش عاشق تو بہت اچھا تھا مگر شاید وہ اچھا شوہر نہیں بن سکا جبھی تو آج ونیتا کے چہرے پر ہر لمحہ بدلنے والے رنگ غائب ہو چکے تھے۔ وہ بات بات پر اس کا چمکیلا رنگیلا قہقہہ کہاں گیا جو اجالے کی ایک لکیر کی طرح دل کے اندھیرے میں چلا جاتا ہے اور بڑی دیر تک اس میں رنگین ستارے چمک چمک کر چبھتے جاتے ہیں۔ مہمل سی باتوں پرتعجب کرنا اور اہم باتوں پر لاپروائی کا اظہار۔۔۔ وہ سر جھکائے چائے کی پیالی میں جانے کیا گھولے جا رہی تھی۔

’’کیا تمہارے دو چار بار ہلانے سے اس میں مٹھاس نہیں آئیگی؟‘‘ میں نے اسے چھیڑ نے کے لیے پوچھا۔

’’نہیں۔‘‘ اس نے سگریٹ کیس نکال کر ایک سگریٹ مجھے پیش کیا اور دوسرا اپنے منہ میں دبا کر لائٹر ڈھونڈنے لگی۔ مجھے تعجب ہوا کیوں کہ ونیتا سگرٹ نہیں پیتی تھی۔ پرکاش کو عورتوں کا سگریٹ پینا اچھا نہیں لگتا تھا۔

’’دو چار بار ہلانے سے کوئی بھی چیر میٹھی نہیں ہوتی یوسف۔‘‘ اس نے ایک گہرا کش لے کر کہا۔

’’اچھا، بات کیا ہے؟ مجھے یوں لگتا ہے اب تم کلاس روم میں سائیکلوجی بڑی سنجیدگی سے پڑھا رہی ہو۔‘‘

’’ہاں، مگر میں تمہیں سنجیدہ نظر آ رہی ہوں کیا؟‘‘ اس نے حسب عادت بڑے تعجب سے پوچھا۔‘‘حالانکہ اب مجھے سنجیدہ ہونا چاہیے۔ لیکن وہی اڑیل پن، بچپن کے رنگین خواب اور ان خوابوں کی تعبیر پر اصرار۔ یہ سب کیا حماقت ہے۔‘‘ میں نے دیکھا ونیتا کے آس پاس دھویں کی ایک رسی سی لپک رہی تھی۔

’’اور پھر تمہارا ساتھ بھی تو ایک بچے ہی سے پڑا ہے۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔

’’بچہ۔۔۔؟‘‘ اس نے سگریٹ کا دھواں اگل کر کہا۔‘‘پرکاش بچہ نہیں ہے یوسف! وہ تو بہت بڑا ہے۔ کئی صدیوں سے جی رہا ہے وہ۔‘‘

ونیتا کے لہجے سے میں سمجھ گیا کہ اسے پرکاش سے کیا شکایت ہو سکتی ہے۔ اس لیے میں نے لاپروائی سے کہا۔‘‘ شادی کے سال بھر بعد سب مردوں کا یہی حال ہو جاتا ہے ونیتا۔ ان کی دیوانگی کم ہو جاتی ہے۔ رومانی خمار اتر جاتا ہے۔‘‘

’’دیوانگی۔۔۔؟ رومانی خمار۔۔۔؟‘‘ ونیتا بہت زور سے ہنسی۔ ’’تم پرکاش کے ساتھ بہت کم رہے ہویوسف!‘‘

دوسرے دن شام ڈھلے میں نے پرکاش کے گیٹ پر کال بیل بجائی تو میں ایک بے پناہ خوشی سے سرشار تھا۔ ایک ایسی دلی مسرت سے جو اپنے کسی چہیتے دوست کے گھر بن جانے، اس کی محبوبہ سے اس کی شادی ہو جانے، اور پھر ان دونوں کو اکٹھا دیکھ کر ہوتی ہے۔

آج میں پرکاش کے گھر پر کھڑا تھا۔ گیٹ کے ایک طرف ’’ڈاکٹر پرکاش راؤ‘‘ کی نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ سارا گھر چاروں طرف سے درختوں میں گھرا ہوا تھا۔ فضا میں نجانے کتنے پھولوں کی مہک کھلی ہوئی تھی۔ بس یہی سورگ ہے۔ میں نے سوچا، جس کی آرزو میں انسان مذہب اور سماج کے سہارے کتنی منزلیں طے کرتا ہے۔ کہاں کہاں بھٹکتا ہے۔ مگر روح کا سکون، جسم کو آرام، کسی ایسے ہی گھر میں ملتا ہے۔ دروازہ ونیتا نے کھولا۔ میک اپ سے عاری چہر اور ایک بدرنگی سی ڈھیلی میکسی پہنے۔۔۔ حالانکہ نئی شادی شدہ عورتوں کو خبط ہوتا ہے شام کے وقت میک اپ کے تمام رنگوں کو چہرے پر کھلانے کا، جہیز کی تمام ساڑیوں کو بدن پر چمکانے کا۔

’’تمہیں گھر آسانی سے مل گیا۔۔۔؟‘‘ اس نے اندر آتے ہوئے کہا۔ ’’بعض وقت یہ گھر بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ چھوٹی گلیاں اور موڑ بہت ہیں نا۔ اس لیے۔۔۔‘‘ صاف ستھرے، بڑی نزاکت اور نفاست سے سجائے ہوئے ڈرائنگ روم میں مجھے لا کر وہ بیچ میں قالین پر کھڑی ہو گئی اور دلی مسرت سے کہا۔

’’یہ پرکاش کا گھر ہے میں نے بڑی محبت سے سجایا ہے۔ اچھا لگانا؟‘‘

’’واہ! کیا کہنے! بھئی تم دونوں کو دلی مبارکباد کہ آخر کار پرکاش کا گھر بن گیا۔ مگر یہ حضرت کہاں چھپے بیٹھے ہیں؟ کیا پنجرے سے باہر نہیں نکلتے؟‘‘

اچانک ونیتا جیسے کسی پتھر کی ضرب سے اچھل پڑی۔ پیچھے ہٹی اور میری طرف پیٹھ کر کے واز کے پھولوں کو ٹھیک کرتے ہوئے بو لی۔‘‘ہاں، انیں بھی گھر میں ہونا چاہیے تھا نا؟ نہیں ہیں۔‘‘ ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب ہم کسی دکھ کی خوشبو آپ ہی سونگھ لیتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ونیتا کے گھر میں مجھے اتنی زور سے نہیں ہنسنا چاہیے اور پھر اچانک جیسے کسی کمزوری کے احساس کو لیے میں بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈنے لگا۔ صوفے پر پلاسٹک کی باسکٹ میں سرخ اون کے گولے پڑے تھے اور ایک ننھی سی آستین ایک سچ مچ کے سوئیٹر میں بدلنے والی تھی۔ ایک سگریٹ کا پیکٹ اور ایک سستا سارومانی ناول بھی پرا تھا۔ مجھے وہاں بیٹھنے کے لیے ان چیزوں کی جگہ بگاڑنا پڑی تو ونیتا گھبرا اٹھی۔

’’ان چیزوں کو وہیں رہنے دو یوسف! تم یہاں بیٹھ جاؤ۔ یہ سامنے والا صوفہ پرکاش کا ہے۔‘‘ وہ ایک کونے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔

’’پرکاش کا صوفہ میں نے ایسی جگہ رکھا ہے کہ شیشے سے باہر لان کا سارا ویو نظر آتا رہے۔‘‘

’’یہ تم نے اچھا کیا کہ پرکاش کی جگہ مقرر کر دی۔‘‘ بے ساختہ قہقہے لگانے کا میرا موڈ ہو گیا۔ مگر ونیتا صرف مسکرا کے رہ گئی۔ پھر وہ اٹھی اور ٹیپ ریکارڈر آن کر دیا۔ روی شنکر ستار پر جانے کون سی اداس دھن بجانے لگا اور میں جیسے سہم سا گیا پھر میں نے ونیتا کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’خوش تو ہونا تم؟‘‘

’’بہت‘‘ ونیتا نے جواب میں کہا۔ ’’خوش کیوں نہ ہوں گی بھلا؟ تمہیں ایسا شبہ کیوں ہوا یوسف؟‘‘ وہ میری طرف گھبرا کے دیکھنے لگی۔ اس کی آواز میں جانے کیوں مجھے ہلکا سا طنز لگا۔ صرف میرے ہی لیے نہیں بلکہ اس پوری فضا پر جس کا میں اس وقت ایک حصہ تھا۔ ونیتا اپنی میکسی کی سلوٹیں صاف کر رہی تھی۔ اب مجھے خیال آیا کہ اس سجے بنے کمرے کے سارے رنگ میکسی نے پھیکے کر دیے تھے۔ بار بار میرے سامنے سے ونیتا کا چہرہ کھو جاتا، اس کی بد رنگ میکسی پھیل جاتی۔

’’تم عورتیں بڑی دھن کی پکی ہوتی ہیں۔ میں جانتا تھا کہ اب تم پرکاش کو زندگی بھر چھوڑنے والی نہیں ہو۔‘‘

’’مگر پرکاش ایسانہیں سوچتا تھا۔‘‘ اس نے چھوٹی سی اون کی آستین کو ادھیڑتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے اون کو انگلیوں پر لپیٹنا شروع کر دیا۔

’’گھبرا گئے میری بات پر۔۔۔؟‘‘ اس نے ہنس کر میری طرف دیکھا ’’تم ہمارا گھر دیکھ کر بہت خوش ہوئے ناتو بس خوش ہی رہو۔ کیوں کہ آج کل دنیا میں خوشی بڑی نایاب شے ہے۔ اس لیے اگر کوئی خوش ہے تو اسے خوش رہنے دینا سب سے بڑی نیکی ہے۔‘‘ وہ ہاتھ سے آستین کا سائز ناپتے ہوئے بولی۔

’’لیکن تم لوگ ابھی ہنی مون پیریڈ میں ہو۔ ابھی سے خوشی اور غم کے مسائل پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟‘‘ میں نے غور سے ونیتا کو دیکھا اور سگریٹ نکال کر سلگانے لگا۔ مجھے ایسا لگا جیسے ونیتا آج ہر بات کہنے سے پہلے اسے تول رہی تھی۔ بعض باتیں تو وہ صرف تولتی رہ جاتی، بول نہیں پاتی تھی۔

’’پرکاش کہاں ہے۔۔۔؟‘‘ اب میں نے اکتا کر پوچھا۔

’’وہ ہے۔۔۔‘‘ میں نے جلدی سے گردن پھیر کے دیکھا۔ دیوار پر پرکاش کا ایک بڑا سا پورٹریٹ لگا تھا، چہرے پر بال بکھرائے، ایک ابرو اٹھائے، وہ اپنے مخصوص اسٹائل سے مسکرا رہا تھا۔ ونیتا قہقہہ مار کے ہنس پڑی۔

’’ڈر گئے۔۔۔؟ پرکاش کو اس کمرے میں دیکھ کر ڈر گئے کیا۔۔۔؟‘‘ ونیتا کے قہقہے پر میں سچ مچ سہم گیا، اس بوجھل سی، گھٹی گھٹی رات میں مجھے ونیتا کی یہ آواز اجنبی سی لگی جس کا نام ہنسی تھا۔

اب میں ایک ایسی فضا میں پہنچ گیا تھا جہاں بہت سی باتیں اجنبی لگتی ہیں یا کچھ بھی اجنبی نہیں لگتا۔ آپ ہی سوچیے کہ جب گھر کا ایک اہم فرد اچانک غائب ہو کر کسی دیوار کے فریم میں کیل سے جڑا ہوا نظر آئے تو ایسی مصلوب فضا میں دم کیسے نہیں گھٹےگا! روی شنکر جس دھن کی درت پر پہنچ گیا تھا، اس میں شکوے ہی شکوے تھے، شکایتیں اور تنہائی کا دکھ۔ بس ایسا ہی کوئی روگ تھا جس کی مجھے پہچان نہیں ہو رہی تھی۔

’’نہیں، یہ امید فضول ہے کہ آج پرکاش دیر سے آئے گا۔ وہ کسی دوست کے ہاں گیا ہے۔ ابھی لوٹ آئے گا۔‘‘ یہ کمرہ اس کا منتظر نہیں تھا۔ اس لیے ونیتا نے پرکاش کے وجود کو ایک کیل سے دیوار پرجڑ دیا تھا۔ اور مجھ سے کہہ رہ تھی۔

’’انتظار کرونا اپنے دوست کا۔ آتے ہوں گے۔‘‘

’’مگر میں تنہا کب تک اس کاانتظار کروں؟‘‘ میرے دل کی بات جیسے ونیتا نے سن لی اور وہ اچانک جیسے بیقرار ہو کر اٹھی، اون اور باسکٹ زمین پر گر گئی۔ وہ اپنی ڈھیلی ڈھالی میکسی سمیٹ کر کھڑکی طرف گئی اور دور تک سڑک پر پرکاش کو ڈھونڈنے لگی۔

’’تم یہاں تنہا بیٹھے ہوئے مجھے اچھے نہیں لگ رہے ہو یوسف۔ میں نے تمہیں ہمیشہ سریندر اور پرکاش کے ساتھ ہی دیکھا ہے نا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم آج ہی شام کو آ رہے ہو تو میں تمہارے لیے ان دونوں کو کہیں سے ڈھونڈلاتی۔ تم نے آنے سے پہلے مجھے رنگ کیوں نہیں کیا؟ اب تک تم تینوں مل کر ایک ہزار قہقہے لگا لیتے نا۔‘‘

’’میرے لیے۔۔۔؟ میرے قہقہوں کے لیے۔۔۔؟‘‘ میں صرف یہی بات سوچتا رہا۔ ونیتا کو کیا جواب دیتا! پھر ایک ادھیڑ عمر کی آیا اندر آئی۔ ونیتا نے مجھ سے پوچھا۔

’’اکیلے بیئر پیتے ہوئے بور تو نہیں ہوگے؟‘‘ اس نے میرا سگریٹ کیس اٹھایا اور میرے پاس بیٹھ کر سگریٹ سلگانے لگی۔ میں نے جھجھلاکر کہا۔

’’اونہہ کیا اکیلے، اکیلے کی رٹ لگائی ہے تم نے؟ میں نے جھنجھلا کر کہا‘‘ سچی بات تو یہ ہے ونیتا۔ کہ میں تمہیں اکیلا دیکھ کر سخت بور ہو رہا ہوں تمہیں ایک بات سناؤں۔‘‘ میں نے اس وقت کی بوجھل فضا کو بدلنے کے لیے کہا۔‘‘جب سب سے پہلے سریندر نے تم دونوں کا تعارف کرواتے وقت کہا تھا کہ یہ پرکاش ہے اور یہ ونیتا تو میں نے سوچا تھا کہ سریندر کو بیچ میں ’’اور‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ تم دونوں بہت قریب تھے۔‘‘میری بات سن کر ونیتا خوشی سے کھل اٹھی اس نے جلدی سے سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔

’’سچ؟ تم نے ایسا سوچا تھا! تو یہ بات پرکاش کو بھی بتائی تھی؟‘‘ اتنے میں آیا بیئر کے دومگ ایک ٹرے میں رکھ کر لے آئی۔ ٹرے اس نے تپائی پر رکھی تو میں نے ونیتا سے کہا ’’تم بھی ساتھ دے رہی ہو کیا۔۔۔؟‘‘

’’میں۔۔۔؟‘‘ اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر تعجب سے پوچھا۔

’’آئی ایم ویری سوری۔۔۔ میں نہیں پیتی۔ یہ دوسرا گلاس تو پرکاش کے لیے بنوا دیا ہے۔ شاید آجائے وہ مجھے بڑی تلاش کے بعد اس کے لیے اچھی شراب لاکر رکھنا پڑتی ہے۔‘‘میں نے غور کیا کہ ونیتا جب یہ کہہ رہی تھی تو آیا بڑے غور سے ونیتا کو دیکھ رہی تھی۔

’’ہاں، اب پرکاش کو آنا چاہیے۔‘‘ میں نے گھڑی دیکھی۔ دس بج رہے ہیں۔ ’’کیا روز اتنی ہی دیر سے آتے ہیں؟‘‘ میں نے بیئر چکھی۔ اس کا مزا بالکل پھیکا تھا جیسے ونیتا نے اپنی اداسی اس میں گھول دی ہو۔

’’یہ مت پوچھو یوسف‘‘ اس نے دونوں ہاتھ مل کر صوفے کی پشت پر سر ٹیک کر کہا۔‘‘میں پرکاش کا کتنا انتظار کرتی ہوں۔ دس دس بار سالن گرم کرو۔ چائے تیار کرو۔ پکچر کا پروگرام بنا لو، کچھ کر لو مگر وہ نہیں آتے۔ میری بجائے کوئی اور عورت ہوتی نا تو پاگل ہو جاتی اب تک۔‘‘ اس بار وہ اپنے بہنے والے آنسو نہیں روک سکی۔ ونیتا کے آنسوؤں سے میں ڈر گیا اور پھر اس کا موڈ بدلنے کے لیے کہا۔

’’تو آخر بنا دیا نا پرکاش نے تمہیں اپنی دھرم پتنی۔۔۔؟‘‘

’’اوہ پلیز ایسی بات مت کہو یوسف!‘‘ اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر بڑے دکھ سے کہا۔ اب مجھے چپ ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن مجھ میں ایک ایسی حرارت آ گئی تھی جو صرف پینے کے بعد ہی آتی ہے۔ میں نے بیئر کا گلاس میز پر رکھ کر آہستہ سے پوچھا۔

’’پرکاش کی کیا مصروفیت ہے۔۔۔؟‘‘ ونیتا سگریٹ کیس میں سے ایک اور سگریٹ نکال کر اسے اپنی انگلیوں مین دبے ہوئے جلتے سگریٹ سے سلگانے لگی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ میری بات کاجواب دینا نہیں چاہتی تھی۔

’’تو اس کا مطلب یہ ہوا ونیتا کہ تمہیں پرکاش کو باندھنے کا گر نہیں آیا حالانکہ یہ گر شادی کے بعد ہر لڑکی کو خود بخود آ جاتا ہے۔‘‘

’’شادی کے بعد۔۔۔؟‘‘ ونیتا نے تعجب سے پوچھا اور پھر سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں جھاڑ کر اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

’’ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے پیچھے پیچھے دم ہلاتے ہوئے چلنا آتا ہے یہ میں جانتی ہوں۔‘‘

’’کس کے پیچھے۔۔۔؟‘‘ میں نے گلاس اٹھا کر ونیتا کو غور سے دیکھا تو وہ پھر میری بات کا جواب تولنے لگی اور اطمینان سے کہا۔

’’میرا خیال ہے اب آیا کو مچھلی تلنے کے لیے کہہ دوں۔۔۔؟ تمہارا کیا خیال ہے اب پرکاش کو آ جانا چاہیے نا؟‘‘

’’یقینا۔۔۔ گیارہ بج رہے ہیں نا۔۔۔‘‘ میں نے گھڑی دیکھ کر کہا۔ ونیتا کچن میں گئی اور سوتی ہوئی آیا کو اٹھا کر مچھلی تلنے کے لیے کہا۔ میں نے دیکھا وہ پریشان سی تھی۔ گھر میں ایک مہمان آیا تھا شاید اس لیے اس کا جی چاہ رہا تھا کہ آج پرکاش جلدی سے آ جائے۔ واپس آ کر اون کی بنی ہوئی ننھی سی آستین اس نے گھٹنے پر رکھی اور بڑے پیار سے اس پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ شاید اس سوئٹر کو پہننے والا اب جلد ہی اس گھر میں آنے والا تھا۔ یہ بات پوچھنے کی کیا ضرورت تھی۔ مچھلی کی بھوک لگانے والی خوشبو سے ڈرائنگ روم بھر گیا۔ ونیتا کھڑکی سے باہر پھیلے ہوئے اندھیرے کو دیکھ کر بولی۔

’’ہر چیز ٹھندی ہو جاتی ہے ان کے انتظار میں۔ بس انتظار کیے جاؤ ان کا۔‘‘ میں نے غور سے دیکھا۔ ونیتا بھی دھیرے دھیرے ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ جیسے اگر بتی کا آخری سر جانے کب چپکے سے راکھ بن جاتا ہے۔ ونیتا کے چہرے کی شادابی اس کے قہقہے اور اس کے بدن کی رعنائی ہر چیز یوں مرجھا رہی تھی جیسے کسی پودے کو لوگ پانی دینا بھول گئے ہوں۔

اب مجھے ونیتا کے کمرے میں وحشت ہونے لگی شاید اور تھوڑی دیر یہاں بیٹھا تو میرا دم گھٹ جائےگا۔

’’پرسوں تو دہلی واپس جانا ہے۔ کل شام پرکاش کو رسی سے باندھ کے رکھنا۔ میں تمہاری مچھلی کھانے ضرور آؤں گا مگر مٹھائی پہلے کھانا ہے۔‘‘ میں کرسی سے اٹھ رہا تھا کہ لائٹ چلی گئی۔

’’یہ الگ مصیبت ہے اس کالونی میں۔ آئے دن لائٹ چلی جاتی ہے، مگر مجھے گھپ اندھیرے میں بھی ونیتا یوں نظر آ رہی تھی جیسے ریڈیم کا موتی چمک رہا ہو۔‘‘

’’موم بتی لے آؤں؟‘‘ کہیں سے آیا کی آواز آئی۔

’’نہیں ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ونیتا نے کہا۔

’’یوسف! بعض وقت مجھے یوں لگتا ہے جیسے اندھیرا ہی پناہ ہے۔ ہم اپنی بہت سی خوش فہمیوں کو اندھیرے میں چھپاکر جی سکتے ہیں۔ اجالا تو خواب بھی چھین لیتا ہے ہم سے‘‘

’’مگر اندھیرا تو دھوکا دیتا ہے ونیتا! خوابوں سے کب تک کوئی بہل سکتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ونیتا نے نیا سگریٹ سلگایا ایک لمحے کو لائٹر کا شعلہ اس کے چہرے پر بھڑکا اور پھر بجھ گیا۔

’’تو پھر زندگی میں اور کیا ہے؟ حقیقت کوئی معنی رکھتی ہے کیا؟‘‘ ہر دانشور حقیقت کی تلاش کرتے کرتے مر گیا۔ وہی فائدے میں رہے جنھوں نے اپنے آپ کو بہلانے کے لیے کھلونے سامنے رکھ لیے۔ جیسے ایک چھوٹی سی بچی کاغذ کی کترنوں سے ایک چھوٹا سا گھر بناتی ہے اور گڑیا کی بجائے خود اس میں بیٹھ جاتی ہے۔ پل بھر میں اس کے بچوں سے گھر بھر جاتا ہے، بچے ہی بچے۔۔۔ سارے گھر میں، ساری کالونی میں، ساری دنیا میں۔ اور پھر۔ ’’پھر اجالا ہو گیا۔۔۔‘‘ اچانک مرکری لائٹ نے ونیتا کو چپ کرا دیا۔ وہ بار بار آنکھیں جھپکا کے بڑی مشکل سے اجالے کو قبول کر پائی۔

’’اچھا تو اب اجازت دو ونیتا۔‘‘ اس نے کچھ نہیں کہا۔ سوئیٹر کی چھوٹی سی ادھوری آستین پر ہاتھوں سے استری کرتی رہی۔

’’اب تم بھی سو جاؤ، جانے کس اہم کام میں الجھ گئے ہیں پرکاش۔‘‘

’’ہاں! جانے کس کام میں الجھ گئے ہوں گے۔ گڈ نائٹ یوسف!‘‘

میں ورانڈے میں آیا تو چاروں طرف سے اس خوشبو نے پھر گھیر لیا جو اس گھر میں سورگ کی یاد دلاتی تھی۔ گہرے اندھیرے میں، اشوک کے اونچے درخت، چاروں طرف سے ونیتا کو گھیرے کھڑے تھے۔

بہت دور جا کر میں نے پلٹ کے دیکھا۔ وہ اپنے سورگ کی کھڑکی میں ریڈیم کے موتی کی طرح چمک رہی تھی جیسے کارڈ بورڈ کے ننھے سے گھر میں ایک گڑیا بیٹھی ہو۔ پتہ نہیں پرکاش کی کیا مصروفیت ہے اب۔ اسے ابھی تک گھر میں بند رہنے سے وحشت ہوتی ہے۔ تو ونیتا کو ساتھ کیوں نہیں لے جاتا؟ شادی کے بعد اتنی لاپروائی؟

کل میں پرکاش کو اس بات پر خوب ڈانٹونگا۔ میں نے ونیتا کو اپنے ہوٹل کا پتہ دیا تھا اس لیے میں سارا دن منتظر رہا کہ پرکاش ونیتا کے ساتھ ہنستا گاتا میرے پاس آئے گا اور پھر سب مل کر کہیں کھلی فضا میں قہقہے لگانے چلیں گے۔ مگر شام ہو گئی میرے دل پر جانے کیوں اداسی کی بارش سی ہونے لگی۔ شادی کے بعد پرکاش کو شاید یہ پسند نہ ہو کہ میں پہلے والی بے تکلفی کو قائم رکھوں۔ پھر میں کیوں جاؤں اس کے گھر؟ سریندر کو کئی بار فون کیا لیکن وہ اس وقت آیا جب میں ائیرپورٹ کے لیے ٹیکسی میں بیٹھ چکا تھا۔ راستے میں خوب گپ بازی ہوئی اور جب مسافروں کو پلین میں بیٹھ جانے کی ہدایت مل گئی تو میں نے بریف کیس اٹھایا اور اپنے دل کے اوپر سے ایک بھاری پتھر ہٹانے کے لیے کہا۔

’’سریندر، اس بار پرکاش سے میری ملاقات نہیں ہوئی۔ پرسوں رات اس کے ہاں گیا تھا مگر ونیتا بتا رہی تھی کہ بڑی رات گئے گھر آتا ہے وہ۔‘‘

’’رات گئے۔۔۔؟‘‘ سریندر بڑی زور سے ہنسا۔

’’ونیتا بچاری تو پاگل ہو گئی ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم ہوا؟ پرکاش سے ونیتا کی شادی نہیں ہوئی!‘‘

’’کیا۔۔۔؟‘‘ میرے ہاتھ سے بریف کیس چھوٹ گیا۔ ’’یہ کیا کہہ رہے ہو سریندر؟‘‘

’’ہاں بھئی، ڈھائی برس ہو گئے۔ پرکاش تو یورپ میں ہے۔ سنا ہے کسی آوارہ امریکن لڑکی کا چکر ہے۔‘‘

’’تو اس نے امریکن لڑکی سے شادی کر لی؟‘‘

’’اب یہ مجھے نہیں معلوم۔‘‘ سریندر نے حسب عادت سر کھجاتے ہوئے کہا۔ ’’اس نے امریکن لڑکی سے شادی کر لی ہے یا ابھی اسے ساتھ لیے کھلی فضاؤں میں اڑتا پھر رہا ہے۔‘‘

مأخذ : بات پھولوں کی

مصنف:جیلانی بانو

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here