وکاس ڈائننگ کارمیں گیاتواسے ایک ایسی میز پرجگہ ملی جہاں ایک آدمی پہلے سے موجودتھا۔ اس نے وکاس کو بہ خوشی بیٹھنے کے لیے کہا۔ دونوں نے اپنے لیے کھانے کاآرڈر دیااورایک دوسرے سے متعارف ہوکر باتیں کرنے لگے۔ وہی رسمی باتیں جیساکہ عام طورپر دواجنبی کیاکرتے ہیں لیکن ان کی باتوں میں پہلی دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس آدمی نے بھی اپنا نام وکاس بتایا۔ یہ سن کر وکاس مسکرادیا۔
وہ دبلاپتلا سا آدمی تھا، اسی لیے کسی قدر لمبا نظر آیا۔ سرکے بال کھچڑی، کوٹ اور قمیص کے کالر پھٹے ہوئے اورچہرے پربڑھتی ہوئی عمر کی نشانیاں۔ پتہ نہیں وکاس کواس کی کون سی ادا بھاگئی کہ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیاکہ بل آنے پروہ اس آدمی کا بھی بل ادا کرے گا۔ لیکن وہ آدمی اس سے کسی قسم کی ہمدردی سے عاری چہرہ لیے کھانا کھانے میں مصروف رہا۔ باتیں بھی کرتا رہا۔ کھانا ختم کرکے اس نے سگریٹ سلگائی اوراسے ایک عجیب بات بتائی۔
’’دیکھئے آپ کے مکان کے بیک روم میں جوکھڑکی ہے، اس کے بالکل قریب زمین کے نیچے ایک بیش بہاخزانہ دباہواہے۔ اگرآپ چاہیں تو میں آپ کو اس کے بارے میں کچھ اورتفصیلات بھی بتاسکتاہوں۔‘‘
وہ اپنی بات ادھوری ہی چھوڑکرباتھ روم چلاگیا۔ وکاس حیرت میں پڑگیا۔ یہ آدمی میرے مکان کے بارے میں کیوں کر جانتاہے؟ اورخزانے کاذکر سن کر تواسے یوں لگا، وہ گاڑی میں نہیں ہے، خوابوں کے کسی جزیرے میں ہے، جواس قسم کی متحیرکردینے والی باتوں کے لیے ہی موزوں ہواکرتاہے۔ اس نے اپنی حیرت دور کرنے کے لیے ادھرادھر دیکھا۔ وہ متحرک گاڑی میں ہی تھا۔۔۔ ڈائننگ کارمیں۔ وہاں اوربھی کئی مسافر موجودتھے۔ بیرے کھانے کے جھوٹے برتن سمیٹ کر کافی کے پیالے لگارہے تھے۔ ادھیڑمنیجرمیزپر بل بنانے میں مصروف تھا۔
وکاس نے ایک نظرکھڑکی کے باہر بھی ڈالی۔ میلوں دور تک سوکھی بنجردھرتی۔ ہل چلائے ہوئے پیاسے کھیت اورایک گڑھے میں ایک پاؤں پر آنکھیں میچ کے کھڑا سفیدبگلا!
اچانک اس کے ذہن میں گاڑی کا اونچا شورگھس آیا، جسے ایک لمحے کے لیے وہ بالکل بھول گیاتھا۔ اس نے ایش ٹرے میں رکھی ہوئی اس آدمی کی سگریٹ کوبھی دیکھا جو کچھ دیرسے پڑی سلگ رہی تھی۔ اس کاہلکا ہلکادھواں اٹھ اٹھ کر گاڑی کی فضا میں ہی تحلیل ہوجاتاتھا۔ وہ آدمی ابھی تک باتھ روم سے واپس کیوں نہیں آیا؟ وکاس کو اچانک احساس ہوا، اس نے خاصی دیرکردی ہے۔ وہ اس کا بڑی بے صبری سے منتظر ہے۔ واپس آکرپتہ نہیں وہ اورکتنی دلچسپ باتیں سنائے گا!
لیکن وہ بہت دیرتک واپس نہ آیا۔ اس کی سلگتی ہوئی سگریٹ دم توڑگئی، جسے وکاس نے ایش ٹرے کے اندرگرادیا۔ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ بے چین ہواٹھا۔ گاڑی کو کسی اگلے اسٹاپج پررکناہوگا۔ وہاں سب مسافر اترکراپنے اپنے کمپارٹمنٹ میں چلے جائیں گے۔ وکاس یہاں سے جانے سے پہلے اس آدمی سے ایک بارپھر مل لیناچاہتا تھا۔
وکاس سے رہا نہ گیا تواپنی جگہ سے اٹھ کر باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ اس نے باتھ روم کے دروازے پر ہلکی سی دستک دے دی لیکن اندرسے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے پھردستک دی۔ اس کے بعد دروازے کواندر کی طرف دبادیا۔ اب وہ خاصا پریشان نظرآیا۔ اندر کوئی نہیں تھا۔
وہ کہاں چلاگیا؟ وکاس نے ڈائننگ کارمیں ہرطرف نگاہ دوڑائی، کچن میں بھی جاکردیکھا اوراس چھوٹی سی لابی کے اندربھی جومنیجر کی آرام گاہ تھی۔ لیکن وہ آدمی کہیں بھی نہیں تھا۔ گاڑی کسی اسٹیشن پر رکی بھی نہیں تھی۔ باہر کادروازہ بندپڑاتھا۔ وکاس کویقین نہیں آیا کوئی آدمی اس طرح غائب ہوسکتاہے۔ اس نے جلدی سے دوسرے مسافروں سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ انہیں یاددلایا، اس نے اس کے ساتھ کھانا کھایا تھا لیکن سب نے لاعلمی کا اظہارکیارتھا۔ بھلایہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی باتھ روم میں جاکرغائب ہوگیاہو! وہاں سے کہیں جانے کاراستہ ہی نہیں تھا۔ سوا کموڈ کے ہول کے جس میں کبھی کبھی غلطی سے سوپ کیک یا شیو وغیرہ کاسامان ہی گرسکتا ہے۔ اس میں سے ایک پوراآدمی کیسے جاسکتاہے؟ وکا س نے انہیں اس آدمی کا حلیہ بتایا تووہ لوگ بے اختیارہنسنے لگے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ تو آپ اپنا ہی حلیہ بیان فرمارہے ہیں جناب!‘‘
وکاس بہت خفیف ہوالیکن اس کے دل میں کوئی غلط فہمی موجود نہیں ہے، اس بات کا اسے پکایقین تھا۔ ابھی ابھی دونوں نے ساتھ کھانا کھایاہے۔ باتیں کی ہیں۔ یہ سب صحیح ہے تووہ آدمی جاکہاں سکتاہے؟ گاڑی کہیں ر کی بھی نہیں ہے۔ باہر کا دروازہ بھی کتنی دیر سے بند ہے۔ کم سے کم یہ بات توطے ہے کہ کسی نے اس آدمی کودروازہ کھو ل کرباہر کودتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وکاس انہیں وہ ساری بات چیت بھی سنادینے کے لیے تیار ہوگیا جو دونوں کے درمیان ہوئی تھی لیکن وہ یہ سوچ کر رک گیا، یہ لوگ خزانے کے متعلق سنیں گے تواور ہنسیں گے اور جب انہیں وہ یہ بھی بتائے گا کہ اس آدمی کا نام بھی وکاس تھا توپھر یہ لوگ اسے پاگل ہی سمجھ لیں گے۔
وکاس نے جلدی سے کھانے کا بل مانگا توبیرے نے اسے ایک ہی آدمی کا بل لاکردیا۔ اس نے دوسرے آدمی کا بل پوچھا تو بیرے نے کہا، ’’حضور صرف آپ ہی نے توکھانا کھایاہے!‘‘وکاس سٹ پٹاکر رہ گیا۔ اس نے پلٹ کراس کی کرسی کی اوردیکھا جہاں وہ آدمی بیٹھا رہاتھا۔ وہ ابھی تک اس کے وجود کی تلاش میں ہے لیکن وہ جگہ خالی پڑی ہے۔ آمنے سامنے کی دونوں کرسیاں ایک دوسرے کوگہری خاموشی سے گھورتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔
بیرا اس کی طرف بڑے تمسخر سے دیکھ رہاتھا۔ اس نے وکاس کویقین دلاناچاہا، ’’وہا ں پرحضور آپ اکیلے ہی بیٹھے تھے۔ اورکوئی بھی نہیں تھا۔‘‘
وکاس کے لیے اب مزیدحجت بے کارہے۔ لیکن اسے پورایقین ہے دوسرا آدمی اس کے ساتھ تھا۔ لیکن اس کااعتبار کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ وہ لوگ اب بھی مسکرارہے تھے۔ وہ اگلے اسٹاپج پرڈائننگ کار سے باہرآگیا اورسوچوں میں بالکل غرق سا اپنے ڈبے میں واپس آیا۔
اس کے کمپارٹمنٹ کے جولوگ اس کے ساتھ سفر کررہے تھے، ان میں سے ایک نے اس کا اخبار واپس کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے ڈی فیکٹرز کے بارے میں وہ آرٹیکل پڑھ لیاہے جوآپ نے پڑھنے کے لئے کہا تھا، بہ قول آپ کے واقعی چونکادینے والا ہے!‘‘
وکاس نے چونک کر اس کی طرف دیکھالیکن اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ آدمی پالیٹکس پربولنے لگا۔ دیرتک بولتارہا، یہی سمجھ کروکاس اس کی بات سن رہاہے لیکن وکاس نے اس کاایک لفظ بھی نہیں سنا۔ وہ اسی آدمی کے بارے میں سوچ رہاتھا جس نے اپنا نام وکاس بتایاتھا اورایک مدفون خزانے کی نشاندہی کی تھی۔ لیکن وہ اس کے مکان کی اتنی تفصیلات کیوں کرجانتا تھا؟ کیاوہ خزانہ سچ مچ اس کے ہاتھ لگ سکتاہے؟ اگرلگ جائے تو وہ کس قدر آسودہ ہوجائے گا!اس کی دنیا ہی بدل جائے گی۔
جب وہ اس کمپارٹمنٹ سے گیاتھا توپچھلے کتنے گھنٹوں تک اس نے اپنی خوبصورت بیوی کے خواب دیکھے تھے۔ اس کے دل آویز خطوط کا تصور کیاتھا اوراپنے ایک اورہم سفرسے کہا تھا جواپنی بیوی کے ساتھ سفر کررہاتھا، مجھے میری بیوی اچانک پاکرحیران رہ جائے گی۔ وہ اپنے باپ کے گھرمیں ہے۔ اس سے ملنے کے لیے اچانک چل پڑا ہوں۔ دوسرے مسافر کی عورت نے اس کی زبان سے اپنی عورت کے لیے یہ والہانہ اظہار ایک عجیب سی دلچسپی سے سناتھا۔ وہ ابھی تک اس کی طرف ایسی جھجک آمیز حیرت سے دیکھ رہی تھی، جیسے اسے یقین نہ آتا ہو مرداپنی عورت کواس قدر بھی چاہ سکتا ہے!اس مسافر نے جواپنی بیوی کے ساتھ ناگپور ہی جارہا تھاکہا، ’’میری شریمتی جی پوچھ رہی ہیں ہمیں اپنی بیوی سے ملائیے گانا!‘‘
پتہ نہیں اس کی بیوی سے کون زیادہ ملنے کامشتاق تھا۔ اس کی بیوی یاوہ خودلیکن وکاس نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اس قدرخاموش اوراجنبی بنارہا جیسے اس کمپارٹمنٹ میں ابھی ابھی ہی آیاہو۔ یہ لوگ دراصل اس کی لذید ترین سوچوں میں حائل ہورہے تھے۔ اگلے جنکشن پر وہ گاڑی سے اترگیا۔ آگے کا سفر ملتوی کردیا۔ وہاں سے ایک اورگاڑی سے کانپور لوٹ گیا۔
جس وقت وہ گھرپہنچا، شا م ہورہی تھی۔ اس نے دور سے ہی اپنے مقفل مکان پرنظر ڈالی۔ وہاں اس کے جان پہچان کے دوپڑوسی کھڑے باتیں کررہے تھے۔ اس نے ان کی موجودگی میں اپنے مکان میں جانا مناسب نہ سمجھا۔ وہ اس کی اچانک واپسی پرکئی طرح کے سوالات کریں گے۔ ا س کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے مکان کے اندر بھی چلے جائیں گے۔ وہ کسی کوکچھ بتائے بناہی اس خزانے تک پہنچناچاہتاہے۔ اس لیے وہ ان کی نظر بچاکر دورسے ہی ہٹ گیا۔ رات کواندھیرا ہوجانے پرہی گھرلوٹا۔ اس سمے پاس پڑوس کے سب ہورہے تھے۔ وہ اپنے مکان میں بہت چپکے سے داخل ہوا۔ بالکل چوروں کی طر ح۔ جس وقت وہ دروازے کاقفل کھول رہا تھا، اس کے ہاتھ پاؤں لرزرہے تھے۔ دل تو زورزور سے دھڑک ہی رہاتھا، جیسے وہ اپنے مکان میں نہیں بلکہ کسی دوسرے کے مکان میں داخل ہوگیاہو۔ چوری کرنے کی نیت سے۔
اندرجاکر اس نے روشنی بھی آن نہ کی۔ ٹارچ کی محتاط روشنی کی مدد سے بیک روم میں پہنچا۔ یہی اس کا اور اس کی بیوی کابیڈروم تھا۔ کھڑکی کے پاس ایک چوڑا سجا ہوا پلنگ پڑاتھا۔ وہ دونوں ایک ہی پلنگ پرسوتے تھے۔ بیوی کی عدم موجودگی میں بھی اسے پلنگ میں سے اس کے جسم کی خوشبوملتی تھی۔ لیکن اس نے وہاں جاتے ہی پلنگ کوبڑی لاپروائی سے ایک طرف دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا۔ دیوار پر اس کی بیوی کی کئی تصویریں آویزاں تھیں۔ کئی اوربھی ہیجان آور تصاویرتھیں لیکن وہ ان سب سے بے نیازپیروں کے بل بیٹھ کرمدفون خزانے کومحسوس کرنے کے لیے فرش پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے گا، جس طرح وہ اپنی عورت کے جسم پر ہاتھ پھیرتاتھا۔ اس میں اسے بڑی راحت ملتی تھی۔ اب بھی فرش پرہاتھ پھیرتے وقت اس کی رگیں ایک ہیجانی کیفیت سے دوچارہوگئیں۔ اسے پہلے سے بھی کہیں زیادہ راحت کااحساس ہوا۔ اس نے جھک کرفرش کے ساتھ اپنا گال لگادیا۔۔۔ ایک معصوم بچے کی طرح اوردھرتی کی دھڑکن سننے کی کوشش کی۔ وہ کتنی دیر اسی طرح لیٹارہا۔
اس کے پاس زمین کھودنے کے لیے اوزارنہیں تھے۔ اس نے مکان کا کونہ کونہ چھان مارا اور اس نے دل ہی دل میں اس کلرک کوکوسا جو وہاں رہتاتھا۔ اچانک اس کے ہاتھ کوئلے توڑنے والی ایک معمولی سی ہتھوڑی لگی۔ کچھ اور کوشش کرنے پرلکڑی پھاڑنے والی ایک کند سی کلہاڑی بھی مل گئی، لیکن یہ دونوں اوزار فرش کا پختہ سیمنٹ توڑنے اور وہاں ایک گہرا گڈھا کھودنے کے لیے کارآمد نہیں تھے۔ اسے رات بھرنیند نہ آسکی۔ وہ فرش پرپڑاپڑا گڈھاکھودنے کی تدبیریں کرنے لگا۔ کسی دوسرے کی مدد کے بغیر وہ اس خزانے کامالک کیسے بن سکتاہے؟
صبح کی پہلی کرن پھوٹتے ہی وہ پھرچوروں کی طرح مکان سے نکل آیا۔ بازار سے ضروری اوزار خریدے۔ رات کوپھر اندھیرے میں ہی مکان میں واپس گیا۔ کسی پڑوی کوپتہ ہی نہ چلنے دیاکہ وہ ناگپو رسے واپس آچکاہے۔ اڑوس پڑوس کی عورتیں جو دن میں ایک جگہ بیٹھ کرباتیں کرنے کی عادی تھیں، اس کی بیوی کے واپس آنے کی منتظر تھیں۔ وہ اس سے جلتی بھی تھیں کیوں کہ وہ ان میں سب سے خوبصورت تھی۔ وکاس مکان کے باہرقفل لگائے اندرپڑا پڑا ان کی باتیں سناکرتاتھا۔
اس نے بڑی احتیاط سے فرش کی اینٹیں اکھاڑنے کاکام شروع کردیا۔ ایک ایک اینٹ کواس نے بڑی ساودھانی کے ساتھ ایک طرف لگایا۔ اس کے بعدمٹی کھودنے کی نوبت آئی۔ مٹی بہت نرم تھی۔ اگرچہ برسوں کے دباؤ کی وجہ سے بہت سختی سے جمی ہوئی تھی لیکن دھرتی تواپنے بیٹوں کے ہاتھوں کا لمس پاتے ہی اوران کے پسینے کی خوشبو سونگھتے ہی نرم پڑجاتی ہے۔ وہ تیز دھاروالے کھرپے کوزور سے زمین پر مارتا تووہ اندرہی دھنستا چلاجاتا۔ پھروہ دونوں ہاتھوں میں مٹی بھرکرلے آتا اورپھر کھرپا اٹھا لیتا۔ پھر وارکرتا۔ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ، پتہ نہیں اسے کتنی گہرائی تک کھودنا ہوگا!ہربار کھرپا اٹھاتے ہی اسے یہی احساس ہوتا، یہ ابھی کسی سخت چیز سے ٹکراجائے گا۔ لیکن تین دن کھودنے کے بعدبھی اس کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ گڈھا کافی گہرا ہوچکا تھا۔ اس میں وہ بالکل چھپ ساجاتاتھا۔
وکاس کی حالت اب بالکل پاگلوں کی سی ہوگئی تھی۔ کئی روز سے اس نے شیوبھی نہیں بنائی تھی۔ گڈھے میں ننگے بد ن اترکر کام کرتے ہوئے اس کے جسم پر جگہ جگہ خراشیں لگ گئی تھیں، جن میں سے خون رستارہتا۔ وہ اپنے زخموں پر نرم نرم مٹی تھوپ لیتا۔ زخموں پر ٹھنڈسی پڑجاتی۔
کسی کسی دن وہ منہ اندھیرے ہی گھرسے باہرنکل جاتا۔ کسی سے ملنے جلنے کے لیے نہیں، کسی ضروری کام سے ہی۔ کوئی نیا اوزار خریدلانے یا کھانے کے سامان کے لیے۔ اتفاق سے کوئی جان پہچان کاآدمی سامنے آجاتا تو وہ منہ پھیرلیتا۔ اس کی ہیئت اس قدربدل چکی تھی کہ کوئی اسے پہچان ہی نہ پاتا۔ لوگ اسے نہ پہچان پاتے تووہ ان پردل ہی دل میں ہنسا کرتا۔۔۔ ان کی حماقت پر انہیں دل ہی دل کوستا۔۔۔ تم لوگ کتنے بے وقوف ہو!بالکل گدھے ہو!اپنے وکاس کو نہیں پہچانتے؟ جوہروقت تمہارے ساتھ رہتاتھا۔ ذراغور سے دیکھو۔ میں کہیں بھی نہیں گیا۔ اب بھی یہاں ہوں۔ ٹھیک تمہارے بیچ۔ تم لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے دن رات محنت کررہاہوں۔ ایک دن میں کروڑپتی بن کراچانک تمہارے سامنے آکھڑا ہوجاؤں گا۔ تب بھی تم مجھے نہیں پہچان پاؤگے! حیرت سے تم سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی!تم لوگوں نے مجھے سخت ضرورت پڑجانے پربھی ادھاردینے سے انکارکیاہے۔ میرا مذاق اڑایاہے۔ اب تم میری خوشامد کیاکروگے۔ وہ دن بہت دورنہیں ہے کمینو!
ایک دن وہ اپنے دفتر کے سامنے سے گذرا۔ کتنے ہی ٹیلی گراف کلرک لنچ کے وقفے میں سڑک کے کنارے کھڑے پھل والے سے چاٹ لے کرکھارہے تھے۔ پان چبارہے تھے اور دائیں بائیں تھوک رہے تھے۔ ’’اڈیٹ!‘‘اس نے د ل ہی دل میں انہیں بھی مخاطب کیا، ’’ابے بکرم!سالاتوبڑا پاجی ہے۔ میرے بجائے اپنی ترقی کے لیے کتنی سازشیں کرڈالیں۔ اب دیکھنا میں ترقی کی کتنی منزلیں آن واحدمیں طے کرجاتاہوں۔ تجھے اپناپی اے بناؤں گا۔ بول، میری آفرمنظورہے۔‘‘
’’محمود سالے! تونے بھی ہمیشہ میرامذاق اڑایاہے۔ جگہ جگہ میرے لطیفے گڑھ کرسنائے ہیں اور لوگوں کو خوب ہنسایاہے۔ اب میرے ٹھاٹ دیکھ کر توخودایک لطیفہ بن جائے گا۔ تیری بولتی ہی بند ہوجائے گی۔‘‘
اچانک ایک دن اس کا باس سامنے سے آگیا۔ اپنی حسین ترین بیٹی کے ساتھ ٹہلتاہوا، جس سے دفتر کے سارے ہی نوجوان سگینارچپکے چپکے محبت کررہے تھے۔ ٹیلی گراف چینل پر ایک دوسرے کواس پری چہرہ کے بارے میں تازہ خبریں بھیجا کرتے تھے۔ شعر بھی کہا کرتے تھے اور ایک دوسرے کواپنے نام اس لڑکی کی طرف سے لکھے ہوئے فرضی خطوط بھی پڑھایا کرتے تھے۔ اسے اچانک اپنے مقابل پاکر وکاس کے اندر نہ جانے کہاں سے اتنی جرأت آگئی کہ اس نے اپنے باس کوقطعاً نظرانداز کرکے اس کی بیٹی کوسرکی ہلکی سی مگرواضح جنبش سے سلام کیا اور مسکرادیا۔ باپ بیٹی دونوں حیران کھڑے رہ گئے۔ وکاس نے لڑکی کی آنکھوں میں اترکرہیلو ہاؤڈویو کہنے کے لیے بس ایک ہی لمحہ لیا۔ پھرفوراًبعد حلق سے ہی ای ای ای کی آواز نکالتاہوا آگے بڑھ گیا۔ باپ بیٹی اس اچانک واقعے سے ایک دوسرے کے قریب ہوگئے۔ دونوں نے سر گھماکر اسے جاتے ہوئے دیکھا پھر بلاتبصرہ اپنے راستے پر ہولیے۔
وکاس کے اندر اس قسم کی تبدیلی اور بھی نمایاں ہوتی گئی۔ وہ گڈھے میں بیٹھا بیٹھا ا ن لوگوں کی باتیں خاص غورسے سنتاجو اس سے ملنے کے لیے آتے تھے مگردروازے پرقفل پڑادیکھ کر پڑوسیوں سے اس کے متعلق دریافت کرنے لگتے تھے۔ وہ کھرپا بھی چلاتا جاتا اور بڑبڑاتا بھی جاتا، ’’ذلیل مردود، بس کچھ دن اوررک جاؤ۔ تم میرے یہاں مہمان بننے کے لیے آئے ہونا!پریہاں جگہ ہی کتنی ہے! جانتے ہوپھر بھی چلے آتے ہو۔ تمہارے باپ کا گھر ہے؟ اچھااچھا کچھ روز اور رک جاؤ۔ میں تم لوگوں کے ٹھہرانے کے لیے ایک عالیشان گیسٹ ہاؤس تعمیر کرانے والا ہوں۔ ایئرکنڈیشنڈ اورفرنشڈ!وہاں تم مزے سے رہنا۔ جب تک جی چاہے۔‘‘
ایک دن ڈاکیے نے اس کے کمرے میں دوخط سرکادیے۔ ایک خط اس کی ما ں کی طرف سے تھا۔ وہ سخت بیمارتھی۔ مرنے سے پہلے ایک باراسے دیکھ لینا چاہتی تھی۔ خط پھاڑکرپھینک دیا اس نے۔ ’’کمبخت بڑھیا، مرنے کے لیے تم نے کتنا غلط وقت چناہے۔ کچھ دن ٹھہر جاؤ توتمہاری ارتھی کے ساتھ شہر کے سرکردہ لوگو ں کا ایک ہجوم ہوگا۔ اب توتمہیں ڈھونے کے لیے چارآدمی بھی مشکل سے ملیں گے۔ بولو تمہیں کون سی موت پسند ہے؟ ایک رذیل موت یا شاندارموت!‘‘
دوسرا خط اس کی بیوی کا تھا۔ ’’میں بہت اداس ہوں۔ تم میرے پاس کب پہنچ رہے ہو؟ میرے باپ کے مرنے کی ابھی کوئی امید نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے وہ کئی مہینے اورجی جائے۔ تم فوراً آکر مجھے لے جاؤ۔‘‘اس نے اس کے ایک جملے کا مذاق اڑایا۔ میں بہت اداس ہوں! آخرتم اداس ہوہی گئیں!میں جانتاتھا جوعورت اپنے مرد کو اداس کرکے چل دیتی ہے، ایک روز خودبھی اداس ضرور ہوجاتی ہے۔ لیکن اب میں تمہارے پاس کبھی نہیں آؤں گا۔ توخودہی چل کرآئے گی۔ توبھی اورنیلی آنکھوں والی اپنے باس کی لڑکی بھی۔ دونوں کومیرے پاس آنا پڑے گا۔ چند روز اور میری جان فقط چندہی روز!
جب وہ گڈھاکھودتا تواسے یوں لگتا کہ کھرپے کے ہروار کے ساتھ وہ ایک نئی عورت باہرلارہاہے۔ حسین وجمیل عورت!وہ مشت بھرمٹی کو ہاتھ میں لے لے کر ٹٹولتا۔ مسلتا اورڈھیر کے اوپرپھینک دیتا۔ مٹی ڈھیر پرپہنچ کرذرہ ذرہ ہوکر بکھرجاتی۔ دائیں بائیں ڈھیرکوذرا سا اور اونچا کردیتی، جن کے بیچ میں وہ دن بہ دن غائب سا ہوتا جارہاتھا۔ اگرچہ وہ بے حد لاغر ہوچکاتھا۔ کئی روزسے کھاناپینا بھی چھوڑدیاتھا لیکن اس نے کام کوترک نہیں کیاتھا۔
ایک دن اچانک اس کا کھرپا کسی سخت چیز کے ساتھ ٹکرایا۔ دھات کی کسی چیز کے ساتھ۔ جس سے اندھیرے میں چمک بھی پیدا ہوئی اورکھن کی سریلی آواز بھی آئی۔ اس کی رگوں کا خون تیزہوگیا۔ وہ انتہائی خوشی سے کانپنے لگا۔ اس نے بڑی احتیاط سے اردگرد کی مٹی ہٹائی اور اس چیزکو باہرنکالا۔ اسے اندھیرے میں ٹٹول کر بس اتنا ہی جان سکا، دھات کا بنا ایک چھوٹا سا بکس ہے۔ کافی وزنی بھی ہے۔ اس نے اس کا ڈھکنااٹھایااوراس کے اندرہاتھ ڈا ل دیا۔ بکس کے اندرگول گول، ترچھے، نوکیلے کئی سنگ ریزے تھے جو اس کے ہاتھ سے پھسل پھسل جاتے تھے۔ وہ انہیں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ٹٹولتارہا۔ اسے یقین تھا یہ بہت قیمتی پتھرہیں۔ ہیرے، جواہرات ہی ہیں۔ اس نے بکس کو بڑی احتیاط سے بندکردیا۔ باہرآنے کے لیے اٹھناچاہالیکن وہ ایسا نہ کرسکا۔ یہ محسوس کرکے اسے سخت حیرانی ہوئی کہ اس کے بدن میں اب کھڑا ہوسکنے کی طاقت ہی نہیں رہی ہے۔ سخت صدمہ بھی ہوا۔ چندلمحے انتظار کیااورپھر اٹھناچاہا، پھربھی وہ پوری طرح کھڑا نہ ہوسکا۔ دھم سے گرپڑا۔ دیوار سے پیٹھ لگائی۔ اس کے آنسو نکل پڑے۔ اسے کیاہوگیاہے؟ یکایک اس کے بدن کی طاقت کیا ہوگئی؟
کتنی دیرتک وہ بکس کوگھنٹوں پررکھے ہوئے بیٹھارہا۔ اس کی ساری خوشی معدوم ہوچکی تھی۔ اب اس پر گہری افسردگی طاری ہوگئی تھی۔ وہ بالکل نڈھا ل پڑاتھا۔ بالکل مایوس۔ وہ اپنے بدن کوذرا سابھی ہلانے کی کوشش کرتا تو اس کا جوڑ جوڑچٹخنے لگتا۔ وہ چٹخنے کی آواز سن سکتاتھا۔ وہ کیاکرے!کیا وہ باہرنہیں جاسکے گا؟ اس کے اندر ایک ہی باراچک کرنکل جانے کی خواہش اب بھی شدیدتھی۔ گزشتہ شام کووہ بڑی کوشش سے دونوں طرف کی دیواروں میں پاؤں پھنساپھنساکر نیچے اتراتھا۔ ایک دوبارتووہ گرہی پڑنے لگا تھالیکن خزانہ ملنے کی امید نے اس کاحوصلہ برقراررکھا۔ اب خزانہ مل چکاہے لیکن اس سے بالکل اٹھاہی نہیں جارہا ہے۔
یوں بیٹھے بیٹھے کتنی دیرہوگئی۔ وہ پھرسے اپنے بدن میں طاقت جمع نہ کرپایا۔ اس احساس نے اسے اوربھی پسپاکردیاکہ اب وہ کبھی باہر نہیں جاسکے گا۔ اس نے آنکھیں بندکرلیں جن میں سے آنسوؤں کے کئی قطرے ڈھلک گئے۔ سرجھکاکراسی بکس پرٹکادیا۔ اسے بہت سے لوگ یادآنے لگے، جنہیں وہ بہت قریب سے جانتا تھا۔ اپنے شہر کی کشادہ سڑکیں یادآئیں جن پروہ گھوماکرتاتھا۔ وہ ساری اونچی عمارت جن کے اندر اورباہر اس نے تیس برس گذارے تھے لیکن بالکل اجنبی کی طرح۔
کیا میری ماں ابھی تک زندہ ہوگی؟ اپنے آخری سفرکے لیے وہ اس کے کندھے کا سہارا پانے کی کتنی آرزومند تھی۔ وہ اپنی بیوی سے کس بے صبری سے لپٹ لپٹ کر پیارکیا کرتا تھا۔ کئی باربیوی کوپیار کرتے کرتے اپنے باس کی لڑکی یاد آجاتی تھی۔ اس کی بیوی کا جسم اسی لڑکی کاجسم بن جاتاتھا۔ دونوں ہی بلاشبہ غضب کی عورتیں ہیں۔ اسے اپنے سارے ساتھی بھی یاد آئے۔ بکرم، محمود، باجپئی۔ کتنے سارے جوواقعی محبت کرنے والے دوست تھے۔ اپنی تمام کمینگیوں سمیت!
وہاں بیٹھے بیٹھے اسے کئی صدیاں سی گذرگئیں۔ پھراچانک اس کے کانوں میں دستک کی آواز آئی۔ کسی نے اسے زور زورسے پکارا۔ پھرکوئی اس کے مکان کا قفل توڑنے لگا۔ ٹھک ٹھک!ٹھائیں ٹھائیں کی آواز گونجنے لگی۔ کچھ لوگوں کے بولنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ ان کی آہٹوں سے بھی اس کا حوصلہ نہ بڑھ سکا۔ اس کادل بے اختیار ڈوبتا رہا۔ لمحہ بہ لمحہ۔ جیسے کوئی اسے پکڑنے کے لیے اندر آناچاہتاہے۔ اس سے اس کی ساری دولت چھین لے جانے کے لیے۔۔۔ جو اس نے کئی روزتک بھوکا رہ کر جاگ جاگ کر دھرتی کی کوکھ سے حاصل کی ہے۔
ٹھائیں ٹھائیں کی آواز بندہوگئی۔ قفل ٹوٹ گیا۔ لوگ مکان کے اندرداخل ہوگئے۔ اب وہ دھیرے دھیرے چل کر ہی اس کی طرف آرہے ہیں۔ اب منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکال رہے ہیں۔ وکاس نے ان کی آہٹ سننے کی بہت کوشش کی۔ اپنے جسم کے ایک ایک مسام کو کان بنالیا لیکن پھربھی کچھ نہ سن سکا۔ وہ کہاں چلے گئے؟ رک کیوں گئے ہیں؟ آگے کیوں نہیں بڑھتے؟ میں یہاں ہوں۔ میں یہاں ہوں۔ وکاس کے اندر سے کسی نے بہت ہی مہین کمزور آوازمیں انہیں پکارالیکن کسی نے بھی اس کی آواز نہ سنی۔ سناٹا اوربھی گمبھیرہوگیا۔ سناٹا اور بھی طویل ہوگیا۔
تھوڑی دیر بعد وکاس کے کانوں پر پھرایک آواز آئی۔ اب کے یہ آوازبہت دھیمی تھی سرگوشی کی طرح۔ اس نے بڑے دھیان سے اس سرگوشی کوسنااورچونک کیا۔ یہ سرگوشی اس کی بیوی کی ہے۔ وہی اسے ڈھونڈتی پھرتی ہے۔ اچانک اس نے مٹی کے ڈھیر پر چھاتی کے بل لیٹ کرنیچے جھانکا۔ ’’آپ یہاں ہیں؟ آپ یہاں ہیں؟ یہاں کیاکررہے ہیں آپ؟‘‘
وکاس نے اوپردیکھا۔ وہ اس قدر کمزورہوگیاہے کہ اب اسے سراٹھاکر دیکھنے میں بھی خاصی دقت پیش آرہی ہے۔ سرکواب پیچھے دیوار کے ساتھ ٹکالیاہے۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اپنی عورت کی طرف دیکھتاہے۔ وہ آنکھوں میں آنسولیے اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ جھکتے وقت اس کے ریشمیں بالوں کے آبشاربھی نیچے آگرے ہیں۔ اس نے دونوں بانہیں نیچے کولٹکادی ہیں۔ وہ بہت کوشش کے بعد اس کی آواز سن پاتاہے۔ شاید وہ اسے بہت دیر سے پکاررہی ہے، ’’میرے ہاتھ پکڑلیجئے۔ کھڑے ہوجائیے۔ آپ کے ہاتھوں میں یہ کیاچیزہے؟ لائیے یہ مجھے دے دیجیے۔‘‘
وہ اٹھ نہیں سکتا۔ اس کے اندر اتنی طاقت ہی نہیں ہے۔ وہ سمجھ گئی ہے، اس لیے ذرا اورجھک آتی ہے اور نیچے کی طرف۔ اب تو وہ اس پربالکل ہی لٹک گئی ہے۔ اس کے پیچھے ہٹتے ہی کنارے کی کچھ مٹی نیچے گرتی ہے۔ پھردھڑدھڑ کی آواز دیتی ہوئی اوربہت سی مٹی گرپڑتی ہے۔ وہ مٹی کے نیچے دب سا گیاہے۔ اسے باہر کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ کیا اس نے مٹی گرتے ہوئے نہیں دیکھی ہے؟ وہ اسے پکارتی کیوں نہیں، اس کے لیے چیختی کیوں نہیں؟ کیاوہ چیخ رہی ہے اور وہ سن نہیں پاتا؟ وہ مٹی کے نیچے دبادبا ہولے ہولے سانس لیتا رہتاہے۔ اس کے کان ابھی تک کھلے ہوئے ہیں۔ بیوی اسے پکارے گی تو وہ اس کی آواز یقیناً سن لے گا۔
مٹی اورآگرتی ہے۔ لگتاہے کوئی مٹھیاں بھربھر کرگڈھے میں پھینک رہاہے۔ ہاتھ گڈھے کواب پاٹنا چاہتے ہیں۔ پورا گڈھامٹی سے بھرکرکوئی اس پرچڑھ کرکودنے لگتاہے۔ کودکود کر مٹی کودبارہاہے۔ دھپ دھپ!دھپ دھپ! وہ اس آواز کو پہچانتا ہے۔ ٹوٹے ہوئے فرش کوپھرسے بنایاجارہاہے۔ اینٹوں اور سیمنٹ کے ساتھ ساتھ اسے پھر ویسا کیاجارہاہے جیسے پہلے کبھی تھا۔
کئی سا ل گذرچکے ہیں۔ وہ اب بھی وہیں بیٹھا ہواہے۔ اسی طرح دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے سراٹھاکراوپر کی طرف ایک ٹک دیکھتاہوا۔ اس عرصہ میں اس نے اوپر والے کمرے میں قدموں کی چاپ کتنی بارسنی ہے۔ دھیرے دھیرے مسلسل چلتے رہنے کی۔ جیسے کوئی سخت بے چین ہو۔ سونہ سکتاہو۔ بیٹھ نہ سکتاہو۔ کسی عورت کی ہی چاپ لگتی ہے۔ جوشاید بے حدتنہا ہے۔ وہ کس کی تلاش میں ہے؟ کس کا انتظار کررہی ہے؟
آج اچانک وہ چاپ پھرسنائی دے رہی ہے۔ اس کے ساتھ کوئی دوسرا بھی چل رہاہے۔ یہ دوسرا کون ہے؟ اس کی چاپ بھی جانی پہچانی سی لگتی ہے۔ اسے یاد نہیں آتاوہ کون ہوسکتا ہے۔ یہ چاپ اس نے پہلے کب سنی تھی؟ کہاں سنی تھی؟
کچھ دیرکہیں رکے رہ کروہ پھر چلنے لگتے ہیں۔ چلتے چلتے عین اس کے اوپرآکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اب یہیں رک گئے ہیں۔ کتنی دیرتک پھرکوئی حرکت نہیں کرتے۔ کئی گھنٹوں تک نہ جانے کیوں؟ کیا وہ اچانک سن ہوگئے ہیں؟ اسی جگہ پرجمے سے رہ گئے ہیں؟ اس کا جی چاہتا ہے اٹھ کر کھڑ ا ہوجائے۔ اوپررکھے ہوئے مٹی کے پہاڑکوایک اورپھینک دے۔ ان کے سامنے اچانک ظاہرہوجائے۔ میں ابھی مرانہیں ہوں۔ میں ابھی زندہ ہوں۔ ابھی زندہ ہوں۔
لیکن وہ اب بھی نہیں اٹھ سکتا۔ کتنے برسوں سے مٹی کے نیچے دبا ہوا پڑاہے۔ اب وہ ساری شکتی ختم کرچکاہے۔ اس کے بدن کا کوئی بھی انگ سجیو نہیں ہے، صرف احساس ہی سجیوہے۔ اسے ابھی تک یادہے، اس کی بیوی اس کے ہاتھوں سے بکس چھین کر لے گئی تھی۔ پھر اس نے اس کے اوپر بہت ساری مٹی گرادی تھی۔ اسے دفنادینے کے بعدوہی اس کے اوپر چلتی رہتی ہے۔ وہ اس کی چاپ پہچانتا ہے۔ اب تو اس کے ساتھ کوئی اور بھی اوپرآکر چل رہاہے۔ پتہ نہیں وہ کون ہے؟
اچانک اسے یادآتاہے۔ وہ دوسری چاپ کوبھی پہچان لیتاہے۔ یہ اسی آدمی کی چاپ ہے جواسے کئی سال پہلے گاڑی میں ملاتھا۔ وہ بھی وکاس ہی تھا۔ لیکن کون وکاس؟ اوریہ وکاس کون ساہے جومٹی کے نیچے دبا ہواپڑاہے۔
یہ یادآتے ہی یکایک اس کی قوت سامعہ ختم ہوجاتی ہے۔ قوت احساس بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ کچھ نہیں سن پاتا۔ کچھ نہیں سوچ پاتا۔ اس کے بعد وہ مرجاتاہے۔
مأخذ : اکھڑے ہوئے لوگ
مصنف:رام لعل