کہانی کی کہانی:’’عورت کی جدوجہد، قربانی اور استحصال کی کہانی ہے۔ ڈریم لینڈ رادھا کشن جاگیردار کی کوٹھی کا نام ہے جو اپنی امارت کی ساکھ بچانے کے لئے جواہرات کو بیچ بیچ کر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ نینا ان کی خوبصورت ترین لڑکی ہے، اور رحمان سیٹھ ان کی محبوبہ نشاط کے تاجر شوہر ہیں۔ رادھا کشن پچاس ہزار میں نینا کا بھی سودا کر لیتے ہیں۔ اور جب وہ بچہ کی ماں بننے والی ہوتی ہے تو نشاط نینا کو اس کی وفادار اور رازداں ملازمہ روشنی کے ساتھ میسور لے جاتی ہے۔ واپسی پر بچہ روشنی سے منسوب ہو جاتا ہے، لیکن تارہ جو نینا کی کزن تھی، ہمیشہ روشنی پر طنز کرتی رہتی تھی اور نچلے طبقے کی بنا پر نفرت بھی کرتی تھی، راداھا کشن جب الیکشن ہار جاتے ہیں تو تارہ کے اکسانے پر رادھا کشن روشنی کو منحوس سمجھ بیٹھتے ہیں اور گھر سے باہر نکال دینے کا حکم دے دیتے ہیں۔‘‘
یہ حکایت وہاں سے شروع ہوتی ہے جب الف لیلہ کی پہلی رات نے کائنات میں اپنے خونی پنجے گاڑے تھے اور معصوم دو شیزاؤں کو بادشاہوں کی خلوت گاہوں میں وزیرزادی شہرزاد کی طرح بھیجنا شروع کیا تھا۔ پھر صبح کو اس لڑکی کے منہ پر کالک مل کر اسے قتل گاہ کی جانب دھکیل دیتے تھے۔ اس دن سے آج کے ترقی یافتہ دور تک، جب سیاہ رات کو ہزار کینڈل پاور کے گولے اجالے کا ملمع چڑھا دیتے ہیں، بڑے محلوں کے دیوتاؤں کو کنواریوں کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے۔ یہ بھینٹ الف لیلہ کی طویل کہانیوں کوطویل تر بنا رہی ہے۔
یہ سلسلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی بربریت کی تاریخ۔
رات بھرپلک جھپکائے بغیر کہانی سننے والے فانوسوں کی شمعیں اب سپیدۂ سحر کی آمد سے نڈھال ہو رہی تھیں۔ تخت طاؤس کی جڑاؤ سیڑھیوں کے نیچے ایرانی قالینوں کے گرد، ہاتھوں میں گٹار اور سروں پر چراغ رکھے ہوئے بغداد اور دمشق کی خوبصورت کنیزوں کے پاؤں میں بندھے ہوئے گھنگھرو اب خاموش ہو گئے ہیں۔ عود وعنبر کی لہراتی ہوئی خوشبوئیں اب دم توڑتے ہوئے انسان کی سانسوں کی طرح سست رفتار ہو چکی ہیں۔ تخت طاؤس کے نیچے اپنے مراتب کے لحاظ سے بیٹھے ہوئے محل کے تیرہ یک چشم نوجوان وزیر غافل کی بیٹی کا سودا بادشاہ سے ہو جانے پر حسد کی آگ میں بھنے جا رہے تھے۔ نائب وزیرعاقل بھی اپنی بیٹی کے کم دام لگنے پر مغموم ہو چکا تھا۔ ایک بوڑھا اژدہا سب کے پیروں کے نیچے سے نکل کر اس کے سینے پر لوٹنے لگا اور سب اچک اچک کر ایک دوسرے کی آنکھ میں سے شہتیر نکالنے لگے۔
ہال کے آخری کونے میں بیٹھی ہوئی نشاط کو بھی اپنی آنکھ میں کچھ کھٹک محسوس ہوئی۔ اس نے اندھیرے میں ٹٹول کر نینا کا ملائم ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور اپنی بھاری آواز کو ملائم بنا کر بولی، ’’اگر تم کہو تو گھر چلیں اب ڈارلنگ۔ مجھے تو یہ ڈرامہ کچھ پسند نہیں آ رہا ہے۔ ویسے ہم نے چندہ تو دے ہی دیا ہے۔۔۔‘‘ جواب میں نینا اٹھ کھڑی ہوئی۔ مگر اس کے قریب بیٹھی ہوئی روشنی بڑے غور سے اسٹیج کو دیکھ رہی تھی۔ جہاں ایک زہرہ جبین دو شیزہ کو لوگ زبردستی بادشاہ کی خواب گاہ میں پہنچا رہے تھے۔
نشاط نے اسے بھی اٹھایا اور وہ تینوں باہر نکل آئیں۔ اجالے میں آکر روشنی نے دیکھا۔ نینا کی آنکھیں چھلکنے کو تیار تھیں اور غصہ کی وجہ سے نشاط کی کاجل سے بنی ہوئی بھوئیں لرز رہی تھیں اور بعض وقت نینا اور نشاط کی طبیعت کو سمجھنا روشنی کی عقل سے باہر ہو جاتا۔ اتنے دنوں سے نینا کتنی دلچسپی لے رہی تھی۔ اس امدادی شو کے لئے اس نے کافی رقم دی تھی۔ مگر آج نہ جانے کیو ں اس کا موڈ اتنا خراب ہو رہا تھا۔۔۔‘‘
دوسری شام کو روشنی کرسی پر لیٹی شام کا اخبار دیکھ رہی تھی، جس میں رادھا کشن نے اپنے پراپیگنڈے کے لئے کسی مشہور ادیب سے اپنی تعریف میں مضمون لکھوایا تھا۔ مگر اچانک اس مضمون پر رات والے ڈرامے کی ہیروئن نمودار ہوئی اور اخبار کی خبروں پر دھوئیں کی طرح پھیل گئی۔ چند روپوں کے عوض بکنے والی لڑکی، دنیا کی اہم خبروں پر کیوں چھائی جا رہی ہے۔۔۔! روشنی نے اخبار میز پر پھینک دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
موسم بڑا سلونا ہو رہا تھا۔ سیاہ بادلوں کے پرت چڑھتے چلے آ رہے تھے۔ یوں لگتا جیسے اب آنے والے لمحے میں ہوا کی نمی اپنے ساتھ موتیوں کی طرح قطروں کوبھی اندر دھکیل دےگی۔ شام کے دم توڑتے ہوئے اجالے میں چمکنے والی بجلی کی کوند نینا کے گلابی رخساروں پر بکھر جاتی تھی۔ اور نینا کو دیکھنے سے پہلے راجیش گھبرا کے روشنی کو دیکھتا جو ایسے وقت اس کمرے میں ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ مگر نینا، راجیش کی ملتجی نظروں سے بے خبر اور موسم کے سلونے پن سے لاپروا بنی ریڈیو سٹ پر اپنی دوست دلاری کا گانا سننے میں یوں غرق تھی جیسے دلاری بیہوش کئے بغیر اس کا آپریشن کر رہی ہو۔
’’میرے سپنے ہوئے سانچے۔‘‘
وہ دبلی پتلی خاموش لڑکی۔۔۔ جس کی بڑی بڑی آنکھیں اس کے سارے چھپے دبے رازوں کو آشکار کر دیتی ہیں، ان سپنوں کی حقیقت کھول دیتی ہیں، جن کےسچے ہونے کا وہ اعلان کر رہی ہے۔ دس روپوں کے لئے ریڈیو اسٹیشن کے ہر کارکن کی خوشامد کرنے والی وہ کلاکار، جس کی آواز کا سوز اور لوچ سب کو پسند ہے۔ مگر دکھ اور اداسی کا یہ جادو اس کی آواز میں کہاں سے آیا، اٹھارہ سال کی مختصر سی عمر میں اتنا سارا دکھ کیسے جمع ہو گیا، اگر آج دلاری کی آواز میں یاس کی پکار ہے تو اس کے گیتوں میں امید کی گھنٹیاں کب بجیں گی! کب اس کا حسن جھوم جھوم کر گائےگا اور چاروں طرف خوشیوں کے دیپ جلیں گے۔۔۔؟ روشنی نے سوچا۔۔۔ یہ سپنوں کو سچا بنانے کا خواب بھی لڑکیاں کب سے دیکھتی آئی ہیں اور نہ جانے کب تک دیکھتی رہیں گی۔ دلاری اور روشنی سے لے کر نینا تک۔۔۔ جو ان بے سہارا چھوکریوں کو اپنے دسترخوان کے ٹکڑوں پر پال رہی تھی۔ راجہ رادھا کشن کی اکلوتی بیٹی۔ پس منظر میں سارنگی میں مدغم دلاری کی آواز یوں آ رہی تھی جیسے وہ مدتوں سے گاتے گاتے تھک گئی ہو۔
’’ریڈیو بند کر دو روشنی۔۔۔‘‘ راجیش نے نینا کی لاپروائی سے اکتا کے کہا۔
سچ مچ یہ کیسا جادو ہے۔ یہ کیسی بجلی کی گرج ہے۔ یہ کیسی آواز ہے جو بیک وقت کائنات کے ہر ذرے کو منور کر سکتی ہے۔ مگر وہ راجیش کی بے تاب امنگوں کو نینا تک نہیں پہنچا سکتی۔ نینا کے اس خطرناک شہرت یافتہ حسن کو دیکھ کر راجیش اپنے آپ کوان شہزادوں کی صف میں پاتا ہے جنہیں اپنی محبوبہ کو جیتنے سے پہلے سات بعید ازقیاس شرطیں پوری کرنا ضرور ہوا کرتی تھیں۔ یہ محل کیسا انوکھا تھا۔ یہاں کے رہنے والے کتنے عجیب سے تھے۔ روشنی نے پہلی بار ’ڈریم لینڈ‘ میں قدم رکھا تھا تو اس کی خوبصورتی میں کھو گئی تھی۔ سامنے ایک بے حد خوبصورت لڑکی کو بے حد خوبصورت لباس پہنے دیکھ کر اسے سچ مچ ’ڈریم لینڈ‘ کوئی سحر زدہ محل معلوم ہوا تھا، جہاں خوفناک صورتوں اور بے پناہ طاقتوں والے جن بھوتوں نے اس شہزادی کو اسیر کر رکھا تھا۔
پھر کسی دلآویز خواب کا جزو سمجھ کر اس نے آنکھیں بند کرنا چاہیں تو نشاط اسے ہوش میں لے آئی، اور اسے نینا کے سپرد کر دیا گیا۔ نینا کی آنکھیں کتنی خوبصورت تھیں، اس کے گلابی مخمل کے ہاتھ۔۔۔ سیاہ بالوں کے پھولوں نما گچھے، جو گردن تک پھیل کر اوپر مڑ جاتے تھے۔۔۔ اگر شیریں، لیلیٰ اور کلو پیٹرا کے حسن نے محبت کی لازوال کہانیوں کو جنم دیا تو پھر اس لڑکی کی کہانی کیا ہوگی! اسے جیتنے والا مرد کون ہوگا؟
روشنی کی روح پر نینا کا نشہ اتنا چھا گیا کہ جب اس نے اپنے چہرے پر آنے والی لٹوں کو پیچھے جھٹک کر اسے آنے کا اشارہ کیا تو اس کے قدم لڑکھڑانے لگے۔ اس نے یہاں کے خوبصورت اسٹیچو، قیمتی قالین، صوفے، سبزیاں، آئینے، گلدستے اور رنگ برنگے پردے دیکھنا چھوڑ دیے۔ اس کی نظریں چمکتے ہوئے ٹھنڈے فرش پر پھسل گئیں، جہاں نینا کا سایہ دراز ہو کر اس کے سایے پرمحیط ہو چکا تھا۔ دوسرے دن نینانے اسے بتایا کہ اتنی اچھی اور شریف لڑکی کو وہ خادمہ بنانا پسند نہیں کرتی، بلکہ ایک دوست کی طرح اسے اپنے ساتھ رکھےگی۔ اس دن سے روشنی اس گھر کی ایک فرد گنی جاتی تھی اور یہاں کے رہنے والوں کواچھی طرح پہچان چکی تھی۔
اس گھر میں ایک بڈھی، مغرور اور سرپھری دادی تھیں جو نوکروں سے کجا، نینا سے بھی بات کرنا گوارا نہ کرتیں، اور جنہیں ہر روز صبح سارے گھر کو سلام کرنے جانا پڑتا تھا۔ نینا کے پتا رادھا کشن تھے، جو اپنے اجداد کے پشتینی خطابوں سے محروم ہونے کے بعد جاگیرداری کے خاتمے پر بے شمارجاگیر سے بھی محروم ہو رہے تھے۔ آج کل وہ اپنے خاندانی جواہرات فروخت کر کے الیکشن کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ کیونکہ اب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے کسی بیرونی سفارت کا عہدہ نہ سہی کسی ریاست کی چیف منسٹری تو کہیں نہ گئی تھی۔ یوں بھی کانگریس اتنی بے مروت نہ ہوئی تھی کہ نوابوں اور جاگیرداروں کو بالکل ہی فراموش کر دے۔ دن بھر وہ اپنے خوشامدی مصاحبوں اور روپیہ اینٹھنے والے ایجنٹوں میں گھرے اپنی کامیابی کے خواب دیکھا کرتے تھے اور بڑے بڑے ایجنٹوں کے ہاتھ محل کی نادار الوجود چیزیں فروخت کرنے میں لگے رہتے تھے تاکہ الیکشن کی پبلسٹی پر روپیہ اچھی طرح خرچ ہو سکے۔
ایک نینا کی رشتہ دار بہن تارہ تھی، جو معمولی شکل و صورت کی سہی مگر میک اپ کر کے اپنے آپ کو نینا کے مقابل سمجھتی تھی۔ ان کے علاوہ ایک اور عورت نشاط بھی تھی جو روشنی پر ترس کھا کے اسے مدراس کے قحط زدوں کے کیمپ سے اٹھا لائی تھی۔ وہ مستقل طور پر یہاں نہیں رہتی تھی لیکن پھر بھی اس گھر کے سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ اس کا شوہر اس سے دوگنی عمر کا ایک کروڑپتی تاجر تھا اور نشاط اپنے سیکنڈ ہینڈ عاشق رادھا کشن پر تن من دھن سے محبت جتاتی تھی۔ اپنے تاجر شوہر کے ہاتھوں رادھا کشن کی کتنی ہی فضول سی چیزیں نہایت گراں قیمت پر فروخت کروا چکی تھی۔ مگر ان سب میں روشنی کوصرف نینا پسند تھی، جو سینٹ کیمبرج میں پڑھتی تھی اور معصوم لڑکیوں کی طرح اپنے حسن سے بےخبر تھی۔
روشنی نے پہلے دن ان سب کو دیکھا تو اس کے خیالات گڈمڈ ہو گئے۔ نینا کی دادی بداخلاق اور چڑچڑی تھی۔ تارہ مغرور اور اوچھی۔ نشاط سر سے پیر تک فریب کا جال تھی۔ اس کی تیز آنکھوں اور بے باک لہجے سے روشنی کو بڑا ڈر لگتا تھا۔ جب وہ ٹانگ پر ٹانگ ڈال کر کرسی پر بیٹھی سگریٹ کے چھلے بنایا کرتی تو بالکل امریکن ناولوں کی کوئی بلیک میلر معلوم ہوتی تھی۔ بیٹھتے وقت ہمیشہ اس کی ساری کاپلو گود میں آن گرتا اور اس کے چولی نما بلاؤز کی معمولی سی آڑکچھ بھی نہ چھپا پاتی تھی۔
اس گھر کے نوکر بھی اپنے مالکوں کے نقش قدم پر تھے۔ ان سب کے درمیان نینایوں دکھائی دیتی جیسے ہزاروں گناہ گاروں کے درمیان پاک مریم کا مجسمہ رکھا ہو۔ آنکھیں جھکائے، دنیا کی ناپاک نگاہوں اور گناہوں سے بےخبر۔ اتنی خاموش سی، سہمی سہمی جیسے لطیف دھواں بن کر تحلیل ہو جائےگی۔ رادھا کشن بھی اپنی بھاری جسامت کے باوجود اپنی بیٹی کی طرح بے ضرر سے، بھولے سے دکھائی دیتے تھے۔ جب نینا نے انہیں بتایا کہ روشنی یہاں مستقل طور پر رہے گی تو وہ قہقہہ مار کے ہنس پڑے تھے، ’’بڑی اچھی بات ہے ڈارلنگ، نشاط نے اس معاملے میں بڑی ہوشیاری کا ثبوت دیا ہے۔۔۔ کیا نام ہے تمہارا۔۔۔؟‘‘ انہوں نے اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے روشنی کے آرپار دیکھنا چاہا تو وہ سمٹ کر نینا کی اوٹ میں ہو گئی۔ جی چاہا ابھی یہاں سے بھاگ جائے۔
’’روشنی۔‘‘
’’نام تو بڑا اچھا ہے۔‘‘ ایک اور بڑا پیگ بنانے میں وہ پھر زور سے ہنسے۔
’’اس کوٹھی میں یہ لڑکی ہماری قسمت بن کر آئی ہے۔ روشنی، تم اس محل کو بھی روشن کر دینا۔ آئیں۔۔۔‘‘
اپنی بے آسرا دنیا سے نکل کر روشنی کو اس کوٹھی کی وسعت بہت بڑی دکھائی دیتی تھی۔ امیروں کی اس خوبصورت اور رنگین دنیا کو اس نے کبھی قریب سے نہ دیکھا تھا۔ مگر یہاں آکر وہ ہر اس چیز کو پسند کرنے لگی تھی جس سے پہلے نفرت کرتی تھی۔ نشاط تک کو، جسے حسین بنانے میں خدا سے زیادہ خود اس کا ہاتھ تھا۔ وہ میکس فیکٹر کا میک اپ اتنی نفاست سے کرتی تھی کہ شعلہ جوالہ معلوم ہوتی۔ روشنی بھی بڑی دیر میں پہچان سکی کہ نشاط کی خم دار بھوئیں، ترشے ہوئے ہونٹ، بڑھے ہوئے ناخن اور ابھری ہوئی چھاتیاں، سب میک اپ کا کرشمہ تھیں۔ اس کے بالوں کو سنہرہ رنگ دے کر ان میں خم ڈالے گئے تھے۔ ہنسنے بولنے میں اتنی احتیاط سے کام لیتی تھی جیسے ہنسی نہ ہو مہذب چیخیں ہوں۔ اپنی کھرج دار مردانی آواز کو خوبصورت ٹیون میں ڈھال کر یوں بات کرتی جیسے ریڈیو کی کوئی نوآموز صداکار۔ جب چلتی تھی تو جسم کا ہر عضو علیحدہ ہونے کی کشمکش شروع کر دیتا تھا۔
مگر روشنی کو وہ بھی اچھی لگتی تھی۔ ’ڈریم لینڈ‘ میں کتنے مہربان لوگ رہتے تھے۔ یہاں وہ کسی کے متعلق بری رائے قائم نہ کر سکی۔ یہاں ہر شخص اپنے خوابوں کی تعبیر میں کھویا ہوا تھا۔ رادھا کشن سے لے کر روشنی تک۔ وہ ایک بال جیسے پتلے دھاگے پر مستقبل کی بھاری امیدوں کی اینٹیں چنتے رہتے تھے۔ کوٹھی کے اطراف لمبے لمبے سرو، شمشاد، یوکلپٹس اور سنبل کے پھیلے ہوئے درخت جھوم جھوم کر ان کے حسین خیالوں کی داد دیتے تھے۔ بڑے ہال کمرے میں ہونٹوں سے بانسری لگائے ہوئے کرشن جی کی تصویر ہر آنے جانے والے کا بڑی دل نشین مسکراہٹ سے استقبال کرتی تھی۔ اس مسکراہٹ میں طنز ہوتا یا یقین۔۔۔ یہ مسکراہٹ دنیا اور اس کے رہنے والوں سے بعض اوقات بڑی بے تعلقی کا اظہار کرتی اور کبھی ڈوبتوں کے لئے تنکے کا سہارا بھی بن جاتی۔
یہ تصویر اس گھر میں رہنے والوں کے ہر ہرراز سے واقف تھی۔ ہر صبح نینا بڑی عقیدت سے اس کے فریم پر پھول چڑھاتی تھی اور اس کے باریک لب یوں پھڑپھڑانے لگتے تھے جیسے اپنی خواہشوں کو وہ زبان پر لانے سے بھی مجبور ہو۔ فرط عقیدت سے اس کی پلکیں نم ہو جاتی تھیں۔ کرشن جی کی تصویر کے سامنے کھڑی ہو کر روشنی نے بارہا سوچا تھا کہ اب جینے کا سہارا مل گیا ہے۔ اب اسے غنی کے ظلم سہنے کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ ایک بلند پرواز چڑیا ہے جو ہوا کے دوش پر سوار ہو کر جہاں جی چاہے بیٹھ جائےگی۔
یہاں کھڑے ہوکر نینا کی دادی نے لٹتی ہوئی جاگیر کے زندہ رہنے کی دعائیں مانگی تھیں۔ اور رادھا کشن نے الکشن جیتنے کے بعد بڑا بھاری چڑھاوا دینے کا وعدہ کرشن جی سے یوں کر رکھا تھا جیسے اپنا کام بنانے کے لئے کسی کانگریسی کو رشوت دینے کا ارادہ کر لیا ہو۔ جب کبھی نشاط کے مردہ ضمیر میں کسی حرکت کا احساس ہوتا تھا تو وہ کرشن جی سے شکتی مانگتی تھی۔ پھر اس کے بعد مشکل کشا کو بھی نیاز دینے کا وعدہ کر لیتی۔ اسے تعویذں، گنڈوں اور نجومیوں پر بڑا اعتماد تھا۔ بلکہ کشمیر میں ایک سادھو کے کہنے پر ہی اس نے رادھا کشن کو الیکشن کے لئے اکسایا تھا۔
البتہ تارہ کی صورت دیکھ کر روشنی کو بہت سی باتیں یاد آجاتیں جو وہ بھول جانا چاہتی تھی۔ تارہ کی شکل بالکل اس سیٹھانی سے ملتی تھی جو غنی کو پھانس کر بمبئی لے بھاگی تھی۔ جب سے وہ سیٹھانی اس کی دنیا لوٹ کر بھاگی تھی، روشنی کو بڑے آدمیوں کی عورتوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ تارہ نے بھی ان قحط زدہ لونڈیوں کو کبھی منہ نہ لگایا تھا۔ البتہ اسے روشنی کا نام پسند تھا۔
’’روشنی۔۔۔ روشنی کتنا خوبصورت اور رومینٹک نام ہے۔‘‘ پھر اس نے بڑی معنی خیز نظروں سے نینا کو دیکھ کر کہا تھا ، ’’سنو نینا، جب تمہارے لڑکی ہو تو اس کا نام نرگس رکھنا نرگس۔۔۔‘‘
روشنی سطح زمین سے بلند ہونے لگی۔ مگر نینا اس مذاق سے بڑ ی اداس ہو گئی تھی اور اس اداسی کو مٹانے کے لئے نشاط نے اپنے جیبی آئینے میں چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ، ’’معلوم ہوتا ہے تم پہلے بھی کسی اچھے گھرمیں کام کر چکی ہو۔‘‘
’’جی۔‘‘ روشنی بہت کم بولتی تھی۔ حالانکہ نینا چاہتی تھی کہ وہ بے تکلفی سے جواب دیا کرے، تاکہ اس کے دل سے سب کا رعب نکل جائے۔
’’کن صاحب کے ہاں کام کیا تھا۔۔۔؟‘‘ تارہ نے ماتھے کی لٹیں جھٹک کر پوچھا۔
’’اپنے شوہر کے ہاں۔‘‘
’’کہاں رہتا ہے وہ۔۔۔؟‘‘ نشاط کے ہاتھ پیالی تک جاتے جاتے رک گئے۔
’’بمبئی میں۔‘‘
’’پھر تم کیوں قحط کے امدادی کیمپ میں پڑی تھیں!‘‘
’’اسے ایک میم صاحب بھگا کے لے گئیں۔‘‘
اس بات پر نینا اور تارہ کو اتنے زور کی ہنسی آئی کہ چائے کا پھندہ حلق میں اٹک گیا۔ ہنستے ہنستے دوہری ہو کر وہ صوفوں پر گر گئیں۔ بڑی بے زاری کے ساتھ مسکرا کے نشاط کو بھی ساتھ دینا پڑا۔ یوں جیسے زبردستی شر نار تھی فنڈ میں چندہ دینے پر مجبور کر دی گئی ہو۔
’’خوب کہانی ہے تمہاری۔۔۔‘‘ نینا نے ہنسی روک کر کہا اور روشنی آج پہلی بار نینا کی ہنسی میں ڈوب گئی۔ جب نینا ہنستے ہنستے چپ ہوگئی تو روشنی کا جی چاہا نینا یوں ہی زندگی بھر ہنستی رہے۔ چاہے اس کے لئے روشنی پر تعجب خیز غموں کے کتنے ہی پہاڑ ٹوٹ پڑیں۔ نینا کی ہنسی میں اداسی کی ہلکی ہلکی لہریں سی دوڑتی تھیں۔ یوں جیسے سچی چینی کے برتن ٹوٹ رہے ہوں۔
’’ایک صدی قبل مظلوم والدین پولیس میں یوں رپورٹ لکھواتے تھے کہ ہماری لڑکی کو ایک مرد لے بھاگا۔ مگر بچاری روشنی کے پتی کو ایک عورت بھگا لے گئی۔‘‘ تارہ اور نینا پھر مسکرانے لگیں۔ پھر نشاط میں اب مزید ساتھ دینے کی سکت نہ تھی۔ اسے اپنے ہونٹوں کی لپ اسٹک کا زیادہ خیال تھا، جس پر ہنسنے سے شکنیں سی پڑ جاتی تھیں۔
’’تو کس طرح لے بھاگی وہ تمہارے شوہر کو۔۔۔؟‘‘ تارہ نے میز پر کہنیاں ٹکا کے پوچھا۔ اورروشنی نے غنی اور سیٹھانی کا پورا معاشقہ سنا دیا۔ یہاں آکر وہ غنی کی بے وفائی اور اپنے دکھوں کو بھولتی جا رہی تھی۔ اگر انسان کو چین نصیب ہو، ’ڈریم لینڈ‘ کے باسیوں جیسے عیش و آرام ملیں، تو پھر غنی جیسے بےوفا مردوں کے متعلق سوچنے کی کیا ضرورت تھی۔ نینا نے اسے اپنی پرانی ساریاں دی تھیں، نئے فیشنوں کے بلاؤز اور جوتے، شلواروں کے سوٹ۔ وہ اکثر روشنی کو اپنے ساتھ لے جاتی تھی اور آنے جانے والوں سے ایک دوست کی طرح تعارف کرواتی۔ مگر نینا کی دادی کو اس کی یہ خاطریں قطعی نہ بھاتی تھیں۔ جب وہ دوسرے نوکروں کی طرح روشنی سے بھی ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیتی تھیں تو نینا اس کا ہاتھ پکڑ کے لے جاتی۔
’’رانی جی! یہ ہمارے سرونٹ اسٹاف کی لڑکی نہیں ہے۔ یہ تو ایک جاگیردار کی بیٹی ہے۔ بچاروں پر بڑی مصیبت آئی ہے آج کل۔‘‘ پھر ایک دم بوڑھی رانی کے دل میں روشنی کے لئے ہمدردی کے سوتے پھوٹ پڑتے، ’’بھگوان غارت کرے اس راج کو جس نے ہمارے بچوں کا چین و آرام چھینا۔ بڑھاپے میں ہماری شان گھٹائی۔ آج یہ دن آن لگے کہ ہمارے بچے تیرے میرے آسرے لیتے پھریں۔‘‘ اس راج کا نام سن کر رادھا کشن بھی دوڑے ہوئے آتے، ’’رانی جی! اس راج کو برا نہ کہو۔ ارے اب تو ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ بس اپنی موت ہی سمجھو۔ یہ تو اسی راج کی برکتیں ہیں کہ ہمارے لئے ایک در بند کیا تو ستر در کھول دیے۔ اب صرف اپنے بھاگوں کی بات ہے رانی جی۔ اگر ہمارے بھاگ میں لکھا ہے تو آپ کا بیٹا اسی آن بان سے رہے گا۔‘‘
’’تھو ہے اس آن بان پر۔۔۔‘‘ کروٹ لینے کی کوشش میں وہ بڑبڑائیں۔
’’لو بھلا سو پشت سے تخت و تاج کے سایے میں پلنے والوں کو بھی اب بھاگ سنوارنے کی ضرورت آ پڑی۔ کبھی تمہارے پتا کے زمانے میں کسی انگریز کے بچے کی اتنی ہمت نہ پڑی جو یوں چھوٹی کنکریاں پہاڑوں کو مارنے دوڑتیں۔‘‘ رادھا کشن چپ ہو جاتے۔ اپنے منتخب ہو جانے کے بعد ان چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کو چکی میں ڈال کر پسوانے کی ترکیبیں سوچتے۔ انہیں پیروں سے مسلنے کی اسکیمیں بناتے۔
ان دنوں روشنی کو یوں لگتا تھا جیسے دیو اسے سوتے میں اٹھا کر ہمالہ کی چوٹی پر چھوڑ گئے ہوں۔ اتنی بلند پوزیشن حاصل کرنے کے بعد وہ گھنٹوں تارہ کی طرح بال بنانے، نشاط کی طرح ساری باندھنے اور نینا کی طرح ہنسنے کی کوشش کرتی تھی۔ بہت سنبھل کے صحیح تلفظ ادا کرنے کی کوشش کرتی۔ بلکہ سب کے سامنے تو عموماً خاموش ہی رہتی تھی۔ جب تارہ کا دوست راشد اس سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا تھا تو اس کے ہاتھ کانپنے لگتے اور زبان اپنی جگہ سے ہلنے کی قسم کھا لیتی۔ پھر سب مل کر اس کا خوب مذاق اڑاتے تھے۔ بلکہ تارہ نے تو کئی بار ذرا مہذب الفاظ میں اسے ڈانٹ بھی دیا۔ مگر ایسے موقعوں پر راجیش تارہ سے جھگڑ بیٹھتا۔ ایک بار اس نے مذاق میں تارہ سے کہا بھی تھا کہ روشنی تمہاری سوسائٹی میں پہنچ کر اپنی اصلی قدر و قیمت کھو بیٹھےگی۔ اور اس بات پر ان دونوں میں اتنے زور کا جھگڑا ہوا کہ نینا کو لڑائی ختم کرانے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔
آخر راجیش نے تارہ سے معافی مانگ لی۔ وہ بہت سیدھا اور نرم دل تھا۔ اتنا بھولا کہ ایک معمولی سے جج کا بیٹا ہونے کے باوجود نینا کو اپنی زندگی سمجھے ہوئے تھا۔ مگر روشنی کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوتا تھا کہ نینا بھی اسے آکاش کا تارہ سمجھے ہوئے تھی۔ جیسے اس کے لئے زندگی بھر ترسےگی۔ اب نینا کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی تھی۔ وہ اپنی بیماری سے بہت پریشان رہتی۔ لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم کر دیا تھا۔ کئی کئی دن کالج نہ جاتی۔ ہر وقت سر چکراتا رہتا تھا۔ کسی وقت ٹھیک طرح کھانا نہ کھا سکتی۔ سب اس کی بیماری سے پریشان تھے مگر کسی ڈاکٹر کا باقاعدہ علاج نہ ہوتا۔
رادھا کشن یوں ہی اپنے کاموں میں منہمک رہتے۔ نشاط اس کی ہمت بندھایا کرتی تھی اور تارہ معمولی سی مزاج پرسی کر جاتی۔ نشاط اکثر اسے تنہا کمرے میں بٹھا کے جانے کیا کیا سمجھاتی تھی کہ روتے روتے نینا نڈھال ہو جاتی اور اس کی بیماری کوئی نئی صورت اختیار کر لیتی تھی۔ نشاط کی چالاک نظروں سے روشنی نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ ضرور نینا کو شادی کے لئے مجبور کر رہی ہے۔ اس دن روشنی کو بے حد غصہ آیا۔ اتنی روشن خیال اور اونچے گھر کی لڑکی کو بھی کیا یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی پسند سے شادی کر سکے۔ کیا ’ڈریم لینڈ‘ جیسے ترقی پسند محل میں بھی کوئی اپنے سپنوں کو سانچانہ کر سکےگا۔۔۔؟
وہ سب تفریحا ًعثمان ساگر آئے ہوئے تھے۔ یہاں پر کتنے اونچے نیچےخم تھے، پوری فضا تلاطم خیز تھی۔ دور تک ساگر کی موجوں کا مد و جزر اور درختوں کے ہلکے گہرے سایے، تارہ اور نینا کی رنگین پھڑپھڑاتی ہوئی ساریاں۔ راج کے اسی وقت کہے ہوئے ادھورے ادھورے شعر۔ تارہ کے گیت اور راشد کے قہقہے۔۔۔ اور ان سب پر امڈتے ہوئے اودے بادلوں کی دھند۔ روشنی کا دل ناچ اٹھا۔ جی چاہا پیروں میں گھنگرو باندھ کے اس طرح ناچے کہ ساری دنیا الٹی گھوم جائے اور وہ ناچتے ناچتے کہیں گر کے ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے۔ وہ سب اچھے اچھے شعر گنگنائے جو راجیش کی طرح دوسرے شاعروں نے اپنے محبوب کے کانوں میں کہے ہوں گے۔ ان ہی درختوں کی چھاؤں میں جہاں راج بیٹھا نینا کے حسن کی بلائیں لے رہا ہے۔
شاعروں نے وہ شعر تخلیق کیے جو آج بھی زندہ جاوید ہیں۔ ہر بار جب محبت یہاں کسی کے دل کے تار جھنجوڑ دیتی ہے تو وہ شعر خود بخود سطح آب پر رقصاں ہو جاتے ہیں۔ یہاں کی مدہوش فضاؤں میں گھل جاتے ہیں۔ نہ جانے کتنی تاراؤں اور نشاطوں پر ایسی نظمیں بھی لکھی گئی ہوں گی جو اگر نہ لکھی جاتیں تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔ کیونکہ وہ نشاط کے میک اپ کے ساتھ مرجھا جاتی ہیں۔ یہاں ہمیشہ نینائیں شراب و خمار کے ساغر چھلکائیں گی اور ان فضاؤ کو اپنے حسن کی تابناکی بخشیں گی۔ اس روپہلے پانی کی لامحدود وسعتوں میں نہ جانے کتنے آنچلوں کی رنگینی سمٹی ہوئی ہے اور ریشمی آنچلوں کے ساتھ رنگین کلیوں کو چاروں طرف پھیلا گئی ہے۔
نینا کے ساتھ جھک کر پانی میں اپنا عکس دیکھنے والا راج سوچ رہا ہے کہ وہ اس وقت مر رہے تو اچھا ہو۔ مگر وہ نہ مر سکےگا۔ ممکن ہے جسمانی طور پر مر جائے۔ مگر یہ فضائیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ یہ محبت کے لافانی نغمے ہمیشہ گونجا کریں گے۔
روشنی کی اس محویت کو دیکھ کر راشد کی بے تاب نظریں نہ جانے اس سے کیا کہنا چاہتی تھیں۔ مگر تارہ کی تیز نگاہیں راشد کی کڑی نگرانی کرتی رہیں۔ جب وہ چائے کی ٹرے لیے ہوئے سب کے قریب آئی تو راشد نے نینا کو بتایا، ’’میں تمہاری اس دوست کی زندگی کے پلاٹ پر ایک ناول لکھوں گا۔‘‘ نینا ابھی تک پیالی ہاتھ میں تھامے راجیش کے ساتھ گھومنے کا کوئی منظر یاد کر رہی تھی، اس لئے یہ فضول سی بات اس نے سنی ہی نہیں۔ مگر راجیش نے کارڈز ایک جانب سمیٹ کر کہا، ’’اور اس کتاب کا انتساب تارہ کے نام ہونا چاہئے۔‘‘
’’مجھے معاف کیجئےگا راشد صاحب۔‘‘ تارہ نے بگڑ کے کہا، ’’برائے مہربانی میرا نام ان بے ہودہ باتوں میں نہ لائیےگا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ راج نے پوچھا، ’’کیا روشنی اور تاروں کا ساتھ نہیں ہو سکتا!‘‘ اور سب کے قہقہوں میں تارہ نے ہنس کے کہا، ’’جی ہاں، کیونکہ میں آپ جیسے انٹلکچوئل کو بےوقوف سمجھتی ہوں، جو سماج اور تاریخ کے دھاروں کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس نچلے طبقے کو اونچائی پر پہنچانے میں آپ خود کھائی میں جا گریں گے۔‘‘ اچانک مسرت کی وہ قوس قزح روشنی کے سامنے ٹوٹ گری۔ ساگر کی خوبصورتی غائب ہونے لگی اور پھر جی چاہا کہ پانی کی گہرائیوں میں کہیں جا چھپے۔
ان دنوں ’ڈریم لینڈ‘ میں بڑی چہل پہل مچی رہتی۔ رادھا کشن روزانہ اپنی صدارت میں کہیں ایک جلسہ منعقد کراتے اور ایک مخصوص تقریر (جس میں اپنے آبا و اجداد کی عوام سے ہمدردی اور کمیونسٹوں کی مخالفت ہوتی تھی) کر آتے۔ یہ تقریریں ان کے ایک پرانے کانگریسی دوست نے بڑی مشق کے بعد انہیں رٹا دی تھیں۔ وہ ریکارڈ کی طرح ہر جگہ اسے اگل آتے۔ ان جلسوں میں سننے والوں کے لئے بھی رادھا کشن کو پیسے خرچ کرنا پڑتے تھے، کیونکہ گلیوں میں پھرنے والے بچے بھی صاف کہتے پھرتے کہ جلسے میں بلانے کے لئے ہمیں کچھ دو، ورنہ نہیں آئیں گے۔ گھرمیں رانی جی، تارہ اور نشاط اور رادھا کشن اپنے دوستوں میں بیٹھے مستقبل کے شاندار پلان بناتے اور سب کے قہقہوں سے در و دیوار گونج اٹھتے تھے۔ رانی جی بیچاری گٹھیا کی مریض تھیں، اس لئے وہ پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر آتی تھیں۔
ان ہی دنوں جگ مگ کرتی نینا کی سال گرہ آن پہنچی۔ روشنی نے بڑے جوش و خروش سے اس تقریب میں حصہ لیا۔ ڈریم لینڈ کے چپے چپے کو برقی قمقموں سے جگایا گیا۔ چاروں طرف پھولوں اور روشنیوں کی لتائیں جھوم رہی تھیں۔ الیکٹرک کے چھوٹے چھوٹے فوارے میزوں پر سجے ہوئے تھے جن میں گلاب کی خوشبو مہک اٹھتی۔ بڑی میز کے گرد سجائی ہوئی مومی شمعوں کی جھلملاہٹ اور آرکسٹرا کے دھیمے دھیمے شور میں روشنی نے مہمانوں کو گیت سنائے۔ تارہ نے وائلن پر کلاسیکل دھنیں بجائیں۔ روشنی نے دلاری کے ساتھ مل کر بھارت ناٹیم ناچ دکھایا اور نینا کو پھولوں، تحفوں اور مبارکباد یوں سے چھپا دیا۔
روشنی اس دن بہت مسرور تھی، مگر بار بار یہ خیال اسے اداس بنا دیتا کہ نینا آج ہر دن سے زیادہ مضمحل تھی۔ آج اس نے ہالی ووڈ کی ایکٹریسوں کی طرح سفید چمکدار لباس پہنا تھا، جس کے اندر سے اس کے سیمابی جسم کی گلابی، بجلی کی طرح کوند رہی تھی۔ آج اس کے سیاہ ریشمی بال فوجی ٹوپیوں کی طرح اوپر اٹھے ہوئے تھے اور انہیں موتیوں سے باندھا گیا تھا۔ اس کے بالوں میں سفید گلاب کی کلیاں ٹنکی ہوئی تھیں اور گلے میں سچے موتیوں کی مالا پڑی تھی۔ جب روشنی اس کا ہاتھ پکڑ کے باہر لائی تو لو گ تالیاں بجا رہے تھے، مگر نینا جیسے اپنی ارتھی کو آگ لگانے آئی تھی۔ اس کی پلکیں بھیگی ہوئی تھیں، ہونٹ کانپ رہے تھے اور اس اداسی نے اس کے حسن کو فروزاں کر دیا تھا۔
اس کے نیم عریاں جسم پر جانے کتنی گرسنہ نگاہیں رینگ رہی تھیں۔ پھر مردوں کے اس جمگھٹ میں روشنی نے نینا کے لئے سب کو پرکھا۔ مگر آج راجیش اس محفل میں نہیں تھا اور اس کی غیرموجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ نینا تک اپنا ہاتھ نہیں لے جا سکتا۔ آج نشاط نے بالوں کے ساتھ ساتھ اپنی بھووں کا اسٹائل بھی بدل دیا تھا اور شمع محفل بننے کی کوشش میں پوری طرح مصروف تھی۔ اس کا بوڑھا شوہر رحمان سیٹھ (جو آٹے کی بھری ہوئی بوری معلوم ہو رہا تھا) اپنے مصنوعی دانتوں کو بار بار ٹھیک کر رہا تھا۔ اس کی ندیدی نگاہیں باربار نینا پر اٹھتی تھیں اور وہ بڑی بے تکلفی سے اس کا مزاج پوچھ رہا تھا۔
پھر تارہ نے موضوع بدلنے کے لئے اس سے مسکرا کے پوچھا، ’’رحمان صاحب آپ کیوں نہیں پارلیمان کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ آپ کا تو کافی دور دور تک اثر ہے؟‘‘ اور وہ اپنے پھولے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار طاری کر کے بولا، ’’میں صرف بزنس مین ہوں مس تارہ۔۔۔ الیکشن کے لئے اپنا مال بیچنے والوں سے ہی مجھے کافی منافع مل رہا ہے۔ پھر ان حماقتوں میں کیوں پھنسوں؟‘‘ رحمان سیٹھ نے در اصل یہ بات تارہ سے نہیں بلکہ رادھا کشن سے کہی تھی۔ وہ باری باری ہرشخص سے کہہ چکا تھا کہ اس وقت نشاط کے جسم پر جو جواہرات ہیں، ان کا مقابلہ ہندوستان میں آغاخاں کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اور جواہرات کا یہ ذکر رادھا کشن کے سینے پر دھموکوں کی طرح لگ رہا تھا۔ وہ ابھی اٹھ کر رحمان سیٹھ کو قائل کر چکے ہوتے، اگر رحمان کے ہاتھ انہیں اپنا ایک انمول ہیرا نہ بیچنا پڑتا۔
پھر بھی رادھا کشن کے لئے نشاط کے جسم کی قیمت بوڑھے رحمان سیٹھ کی تلخ باتوں سے زیادہ نشاط انگیز تھی۔ آج بھی کتنے نوجوان اسے باہوں میں سمیٹ کر ناچنے کو بےقرار تھے۔ رادھا کشن سوچتے کہ وہ ابھی قطعی بوڑھے نہیں ہوئے ہیں اورانہوں نے خضاب کے ساتھ ساتھ جو دواؤں کا استعمال کیا ہے وہ محض حفظ ماتقدم کے طور پر ہے، ورنہ نشاط جیسی عورت ان پر کیوں مرتی۔۔۔؟
رات کے ایک بجے مہمانوں کو رخصت کر کے روشنی نینا کے کمرے میں آئی تو اس کے دل میں دیوالی کے چراغوں کا اجالا بھرا ہوا تھا۔ وہ آج نینا سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی۔ یوں ہی بےمعنی اور اچھی اچھی باتیں۔ آج آنے والی عورتوں کے رومان، ان کے کپڑوں اور زیوروں پر تبصرے۔ نوجوانوں کی ندیدی نظریں اور نینا کا سرد مہر برتاؤ۔ نشاط کے عاشقوں کے قصے اور رحمان سیٹھ کی حد سے بڑی ہوئی بےتکلفی جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔ نہ جانے وہ کیا کیا بکتی رہی اور نینا معمولی سی ہوں ہاں کے ساتھ سنتی رہی۔
’’اچھا نینا دیوی، آج آپ کا سب سے زیادہ پسندیدہ مہمان تو نہیں آیا۔ مگر سب سے زیادہ ناپسندیدہ مہمان کون تھا؟‘‘ نینا چونک پڑی اور شبہ کی نظروں سے روشنی کو دیکھنے لگی۔ وہ نینا کے غصہ سے سہم گئی اور اٹھ کر سامنے کی دریچیاں کھول دیں۔ باغ کی جانب سے مختلف پھولوں کی مہک اندر آنے لگی۔ آسمان پر بدلیاں تیر رہی تھیں۔ پندرہ تاریخ کا چاند بڑی بےساختگی سے مسکرا رہا تھا اور باغ کے اونچے درخت چاندی کی چادر اوڑھے سو رہے تھے۔ وہ کھڑکی کے پٹ پر سر ٹیکے بڑی دیر تک کھڑی رہی۔
’’کیا سوچ رہی ہو روشنی۔۔۔؟‘‘ نینا اس کی معنی خیز خاموشی سے اکتائی جا رہی تھی۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی۔
’’آج مجھے وہ دن یاد آ رہا ہے جب غنی نے اماں سے جہیز لینے سے انکار کر دیا تھا کہ مجھے صرف روشنی چاہئے، دولت نہیں۔ مگر سیٹھ کی بیوی نے صرف دولت سے ہی تو اسے کھینچ لیا۔ آج راجیش صاحب نہیں آئے اور آپ اتنی اداس رہیں۔ ممکن ہے انہوں نے سوچا ہو کہ آپ کی دولت کا تماشا نہیں دیکھیں گے۔ مگر یہ جھوٹ ہے۔ ایسے خواب مرد شادی سے پہلے دیکھا کرتے ہیں۔ پھرہمیشہ کے لئے ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔‘‘
’’ایسانہ کہو روشنی۔۔۔‘‘ نینا کہنیوں کے بل قالین پر اوندھی لیٹ گئی، ’’آج راج کہیں بھی ہو، وہ میرے ہی متعلق سوچ رہا ہوگا۔ وہ مجھے پا لینے کو اپنی قسمت کی معراج سمجھتا ہے، مگر ایسا کیوں ہے! میں چاہتی ہوں کہ یہ وہ بات بھول جائے۔ میں اس کے علاوہ کسی اور کی بھی تو ہو سکتی ہوں۔ اب میں اسے کچھ نہیں دے سکتی تو وہ سر پٹک پٹک کر نہ مرے۔ ایسے ناممکن خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ ایسے خوابوں سے مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ ہاتھوں میں منہ چھپا کے رونے لگی۔ روشنی کھڑکی چھوڑ کر اس کے پاس آ بیٹھی۔
’’اگر آپ کی محبت سچی ہے تو آپ کو راج سے کون چھین سکےگا۔ کون آپ کی مرضی کے خلاف مجبور کر سکتا ہے۔ اور نشاط تو چاہے۔۔۔‘‘ مگر نینا نے جلدی سے روشنی کا منہ بند کر دیا۔
’’میں جانتی ہوں کہ آج تمہیں معلوم ہو گیا۔ ہاں ڈیڈی، ایک بارمجھے پچاس ہزار کے بدلے رحمان سیٹھ کے ہاتھ بیچ چکے ہیں۔ خیر مجھے تارہ سے یا نشاط سے کیا شکایت، جب کہ۔۔۔ جب کہ۔۔۔‘‘ رفتہ رفتہ وہ خاموش ہو گئی۔ روشنی ڈر کے دور ہٹ گئی، جیسے نینا کوئی جادوگرنی ہو، جس نے آج اپنا نیا روپ بدلا تھا۔ اسے چارو ں طرف شعلے لپکتے دکھائی دے رہے تھے اور اس آگ میں نینا کی پاکیزگی اور معصومیت جل رہی تھی۔ روشنی کے خوبصورت سپنے سیاہ پڑ رہے تھے۔ گول گھومنے والے جھولے میں بیٹھی وہ چکرا رہی تھی۔ دیوانوں کی طرح آنکھیں پھاڑے وہ نینا کو دیکھتی رہی اور بڑی دیر کے بعد اپنی قوت گویائی پر قابو پا سکی۔
’’مجھے نہیں معلوم تھا۔۔۔ مجھے کیا معلوم۔۔۔ مگر اب بھی کچھ نہیں گیا۔ آپ راج کو لے کر کہیں دور جا سکتی ہیں۔‘‘
’’کیسے چلی جاؤں روشنی۔۔۔‘‘ وہ اٹھ کر نینا سے لپٹ گئی، ’’اب تو تین چار مہینے کے بعد۔۔۔‘‘ اور اس نے خود ہی اپنا منہ بند کر لیا۔
اس رات جب ایک گھنٹے تک تھپکیاں دے کر وہ نینا کو سلا کے خود سوئی تو اس نے بڑا عجیب وغریب خواب دیکھا۔ جیسے وہ اس محل سے، اس زمین سے بلند ہوتی جا رہی ہے۔ ایک ایسے محل میں پہنچ گئی ہے جہاں ہر طرف رنگینیاں ہی رنگینیاں ہیں۔ جیسے آج پھر کسی دوسری نینا کی سالگرہ ہو رہی ہو اور چاروں طرف نور کا سیلاب سا آ رہا ہے۔ ہر طرف مردوں اور عورتوں کے قہقہے کھنک رہے تھے۔ دھیمی دھیمی موسیقی کا شور بلند ہو رہا تھا اور وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے نور کے اس منبع کو تلاش کر رہی تھی۔ اچانک اس کی چیخ نکل گئی۔ چھت کے اوپر فانوسوں میں ہاتھ پاؤں بندھی بہت سی الف لیلہ کی ہیروئنیں لٹک رہی تھیں، جن کے چہروں کے نور سے یہ محل جگمگا رہا تھا۔ ان کی زبانوں سے لہو ٹپک ٹپک کر قالینوں کو خوبصورت بنا رہا تھا۔
خوف کے مارے اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ نینا کو پکڑے تھر تھر کانپ رہی تھی۔
دوسرے دن نشاط نے اس سے کہا کہ اگر وہ نینا کے مستقبل کو تباہ کرنا نہیں چاہتی تو ان کے ساتھ میسور چلے۔ نشاط اور نینا کے احسان تلے دب کر، وہ انکار تو کسی صورت میں نہ کر سکتی تھی، پھر یہ تو نینا کے مستقبل کا معاملہ تھا، جس کے لئے وہ اپنی جان بھی ہنسی خوشی نچھاور کر دیتی۔ پھر جب نینا، روشنی اور نشاط کے ہمراہ واپس آئی تو پہلے کی طرح تندرست ہو چکی تھی۔ روشنی کی گود میں ایک چاند سابچہ تھا اور نینا کے دل سے گناہ کا بار ہلکا کر کے وہ بڑی مسرور تھی۔
نشاط اور رادھا کشن کی نوازشیں اب روشنی پر اور بڑھ گئی تھیں اور نینا کی نگاہیں اسے دیکھ کر یوں جھک جاتیں جیسے وہ قابل تعظیم ہستی ہو۔ راج نے اسے روشنی کی معصومیت سے تعبیر کیا۔ بھلا ان محلوں میں پہنچ کر کوئی لڑکی کس طرح بچ سکتی ہے۔ اس کی نظروں میں دونوں کی عزت تھی۔ روشنی کی بھی جو اپنی سادگی میں لٹ گئی اور نینا کی بھی جس نے یہاں بھی روشنی کا ساتھ دیا۔ اس نے نینا کی طویل غیر حاضری بھی اسی لئے معاف کر دی۔
لوگ روشنی کو دیکھ کر ہنستے۔ نوکروں میں چہ میگوئیواں ہونے لگیں۔ نینا کے دوست اس کی طبیعت پوچھنے آتے۔ مگر روشنی کو ان باتوں کی بالکل پروا نہ تھی۔
اس دن بےبی کی طبیعت بہت خراب تھی اور کسی کو اس کی بیماری کا ہوش نہ تھا، کیونکہ آج رادھا کشن کے ووٹوں کی گنتی ہو رہی تھی اور ان کے مقابل امیدوار کے ووٹ بڑی تعداد میں گنے جا چکے تھے۔ نینا کا دل ڈانواں ڈول ہو رہا تھا۔ وہ بار بار روشنی کی گود میں پڑے ہوئے بچے کو دیکھتی اور الکٹورل آفس سے فون ملاتی۔ تارہ، نشاط، رانی جی اور رادھا کشن دوپہر سے وہیں تھے۔ نشاط جشن منانے کے پروگرام کی پوری تیاریاں کر چکی تھی اور رادھا کشن کئی بار اسے پیاربھری نظروں سے دیکھ کر کہہ چکے تھے، ’’تم نے دل کے ساتھ رادھا کشن کی زندگی بھی لوٹ لی ہے نشاط۔‘‘
بار بار نینا کو بچے کے پاس آتے دیکھ کر روشنی سوچنے لگی، آخر ماں کی ممتا کا جذبہ کیسا ہوتا ہے۔ کتنا وسیع اور بےپایاں۔ اس بچے کو اٹھا کر وہ باہر کیوں نہیں پھینک دیتی۔ اس کا گلا کیوں نہیں گھونٹ دیتی۔ اسے رحمان سیٹھ کے منہ پر کیوں نہیں مار آتی۔ شام کے چھے بجے نینا کے ہاتھ پھر فون پر تھے۔ اس نے بڑی اداسی سے رسیور رکھ دیا اور کرسی پر آکے گر گئی۔ بڑی دیر کی کوشش کے بعد جب روشنی بے بی کو چپ کرا پائی تو اس نے آہستہ سے نینا کے کاندھے پر ہاتھ رکھا، ’’کیا خبر آئی ہے۔۔۔؟‘‘
نینا کی بڑی بڑی آنکھیں ذرا سی کھلیں اور ان کے اندر بھرے ہوئے درد کو روشنی نے اپنے دل میں بھی محسوس کیا۔ پھر اس نے نیم وا آنکھوں سے روشنی کی گود میں سسکتے ہوئے بچے کو دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ وہ ٹہل ٹہل کر بچے کو بہلاتی رہی۔ نینا کا چہرہ کتنا پیلا نظر آ رہا تھا۔ اس وقت سے بھی زیادہ جب اس نے روشنی کو اپنا راز بتایا تھا، جب میسور سے واپس آتے وقت ایک بوڑھی یورپین عورت نے کہا تھا کہ آپ کی نوکرانی کا بچہ بالکل آپ کا بچہ معلوم ہو رہا ہے۔
اسے ڈر لگنے لگا۔ جیسے نینا مر چکی ہو۔ وہ اتنی خاموش کیوں ہے۔ اپنے باپ کی شکست پر قہقہے کیوں نہیں لگاتی۔ نشاط کی گردن کیوں نہیں پکڑتی۔ یہ کیسا ظلم ہے۔ کیسا عیش و آرام ہے۔ کیسی آٓزادی ہے۔۔۔؟ رات کے دس بجے بےشمار تعزیت کے لئے آنے والوں سے نبٹ کر وہ سب یوں نینا کے کمرے میں آئے جسے ابھی ابھی کسی کی چتا کو جلا کے آ رہے ہوں۔ رادھا کشن پر لرزہ چڑھا ہوا تھا۔ نشاط کا میک اپ غائب ہو چکا تھا۔ اور وہ ٹوٹی ہوئی قبر کی طرح مرمت طلب نظر آ رہی تھی۔ تارہ بھی شکست کا احساس بھلانے کے لئے کچھ نہ کچھ بکے جا رہی تھی۔
’’ہمارے اسی فیصد ووٹ قطعی چرائے گئے، ورنہ ناممکن ہے کہ ان غنڈوں کو اتنے ووٹ مل جائیں۔ اصل میں آج کل کی پبلک پر بھروسہ کرنا ہی حماقت ہے۔ وہ سنہرے خوابوں کے جھانسے میں آ گئی ہے۔ مگر بقول راج کے اتنا تو میں بھی کہوں گی کہ ہم عام لوگوں تک پھر بھی اپنی آواز نہ پہنچا سکے۔‘‘
’’اورعام لوگوں تک آپ کی آواز پہنچ ہی نہیں سکتی۔‘‘ راج نے کہا۔
’’ہماری سب سے بڑی کمزوری تو راجوں مہاراجوں کا لیبل ہے۔ اور آج کل عوام نوابوں، جاگیرداروں سے بدظن ہو چکے ہیں۔‘‘ پھر وہ نینا کے قریب گیا، ’’اتنا رنج نہ کرو نینا ڈیر۔ ان لوگوں کے متعلق تو سوچو جنہوں نے اپنی جان کی بازیاں الیکشن کی خاطر لگا دیں مگر پھر بھی ہار گئے۔‘‘
پھرسب چپ ہو گئے۔ صرف روشنی کی گود کا بچہ بےقراری سے رو رہا تھا اور نینا ان سب باتوں سے بے خبر آنکھیں بند کئے ہوئے ہی پڑی تھی۔
’’اسے یہاں سے لے جاؤ روشنی۔ کیا چیں چیں لگا رکھی ہے۔‘‘ تارہ نے بیزار ہو کے کہا اور جب روشنی، تارہ کو گھورتی ہوئی کمرے سے باہر آگئی تو اس نے سکوت توڑنے کی کوشش کی، ’’سنا راج، تمہارا دوست راشد روشنی پر ایک ناول لکھ رہا ہے، اس سے کہنا تمہاری کہانی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘ راجیش کو خاموش دیکھ کر بھی وہ کہے گئی، ’’میں نہ کہتی تھی ہمیں اس نچلے طبقے کو بلندی پر پہنچانے کے خواب نہیں دیکھنا چاہئیں۔ مثال کے طور چاچا کی شکست اور روشنی کے اعمال دیکھ لو۔
اچانک رادھا کشن کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی، ’’تارہ تم اس منحوس لڑکی کو اس کے بچے سمیت آج ہی یہاں سے نکال دو۔ میں یہ گندگی اپنے گھر میں نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ اور پھر پورے ’ڈریم لینڈ‘ پر سناٹا چھا گیا۔ وہ قصے کہانیوں والا پراسرار محل بن گیا، جس میں بے شمار جھلملاتے خوابوں کے بھوت ناچ رہے تھے، قہقہے لگا رہے تھے، جیسے یہ کوئی خوبصورت کوٹھی نہیں شمشان گھاٹ ہو، جہاں اکیلی روشنی بے شمار خوابوں کی چتائیں اپنے بازوؤں میں سنبھالے کھڑی تھی۔
مصنف:جیلانی بانو