کشمیری گیٹ دہلی کے ایک فلیٹ میں انور کی ملاقات پرویز سے ہوئی۔ وہ قطعاً متاثر نہ ہوا۔ پرویز نہایت ہی بے جان چیز تھی۔ انور نے جب اس کی طرف دیکھا اور اس کو آداب عرض کہا تو اس نے سوچا، ’’یہ کیا ہے۔۔۔ عورت ہے یا مولی۔‘‘
پرویز اتنی سفید تھی کہ اس کی سفیدی بے جان سی ہوگئی تھی۔ جس طرح مولی ٹھنڈی ہوتی ہے اسی طرح اس کا سفید رنگ بھی ٹھنڈا تھا۔ کمر میں ہلکا سا خم تھا جیسا کہ اکثر مولیوں میں ہوتا ہے۔ انور نے جب اس کو دیکھا تو اس نے سبز دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس کو پرویز ہوبہو مولی نظر آئی جس کے ساتھ سبز پتے لگے ہوں۔
انور سے ہاتھ ملا کر پرویز اپنے ننھے سے کتے کو گود میں لے کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے سرخی لگے ہونٹوں پر جو اس کے سفید ٹھنڈے چہرے پر ایک دہکتا ہوا انگارہ سا لگتے تھے، ضعیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی ۔ کتے کے بالوں میں اپنی لمبی لمبی انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے اس نے دیوار کے ساتھ لٹکتی ہوئی انور کے دوست جمیل کی تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔‘‘
انور کو اس کے ساتھ مل کر قطعاً خوشی نہیں ہوئی تھی۔ رنج بھی نہیں ہوا۔ اگر وہ سوچتا تو یقینی طور پر اپنے صحیح رد عمل کو بیان نہ کرسکتا۔ دراصل پرویز سے مل کر وہ فیصلہ نہیں کرسکا تھا کہ وہ ایک لڑکی سے ملا ہے یا اس کی ملاقات کسی لڑکے سے ہوئی ہے۔ یا سردیوں میں کرکٹ کے میچ دیکھتے ہوئے اس نے ایک مولی خرید لی ہے۔
انور نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں خوبصورت تھیں۔ بس ایک صرف یہی چیز تھی جس کے متعلق تعریفی الفاظ میں کچھ کہا جاسکتا تھا۔ ان آنکھوں کے علاوہ پرویز کے جسم کے ہرحصے پر نکتہ چینی ہوسکتی تھی۔ باہیں بہت پتلی تھیں جو چھوٹی آستینوں والی قمیص میں سے بہت ہی یخ آلود انداز میں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔ اگر اس کے سر پر سبز دوپٹہ نہ ہوتا تو انور نے یقیناً اس کو فرجڈیر سمجھا ہوتا جس کا رنگ عام طور پر اکتا دینے والا سفید ہوتا ہے۔
اس کے ہونٹوں پر جیتے جیتے لہو جیسی سرخی بہت کھل رہی تھی۔ برف کے ساتھ آگ کا کیا جوڑ۔۔۔؟ اس کی چھوٹی آستینوں والی قمیص سفید کمبرک کی تھی۔ شلوار سفید لٹھے کی تھی۔ سینڈل بھی سفید تھے۔ اس تمام سفیدی پر اس کا سبز دوپٹہ اتنا انقلاب انگیز نہیں تھا۔ مگر اس کے سرخی لگے ہونٹ ایک عجیب سا ہنگامہ خیز تضاد بن کر اس کے چہرے کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔
صحن میں جب وہ چند قدم چل کر جمیل کی طرف اپنے ننھے سے کتے کو دیکھتی ہوئی بڑھی تھی،تو انور نے محسوس کیا تھا کہ یہ عورت جو کہ آرہی ہے عورت نہیں شکاری ہے۔ اس سے ہاتھ ملاتے وقت اسے ایسا لگا تھا جیسے اس کا ہا تھ کسی لاش نے پکڑ لیا ہے۔ مگر جب اس نے باتیں شروع کیں تو وہ ٹھنڈی گرفت جو اس کے ہاتھ کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی، کچھ گرم ہونے لگی۔
وہ آوارہ خیال تھی۔ اس کی باتیں سب کی سب بے جوڑ تھیں۔ موسم کا ذکر کرتے کرتے وہ اپنے درزی کی طرف لڑھک گئی۔ درزی کی بات ابھی ادھوری ہی تھی کہ اس کو اپنے کتے کی چھینکوں کا خیال آگیا۔ کتے نے چھینکا تو اس نے اپنے خاوند کے متعلق یہ کہنا شروع کردیا، ’’وہ بالکل میراخیال نہیں رکھتے۔ دیکھیے ابھی تک دفترسے نہیں آئے۔‘‘
انور کے لیے پرویز اور اس کا خاوند دونوں بالکل نئے تھے۔ وہ پرویز کو جانتا تھا نہ اس کے خاوند کو۔ گفتگو کے دوران میں صرف اس کو اس قدر معلوم ہوا کہ پرویز کا خاوند جمیل کا پڑوسی ہے اور ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتا ہے۔ البتہ اس نے یہ ضرور محسوس کیا کہ پرویز گفتگو کے آغاز سے گفتگو کے اختتام تک اس کو ایسی نظروں سے دیکھتی تھی جن میں جنسی بلاوا تھا۔ انور کو حیرت تھی کہ ایک ٹھنڈی مولی میں یہ بلاوا کیسے ہو سکتا ہے۔
وہ اٹھ کر جانے لگی تو اس نے گود سے اپنے ننھے کتے کو اتارا اور اس سے کہا، ’’چلو ٹینی چلیں۔‘‘ پھر مسز جمیل سے جیگرؤول کے بارے میں کچھ پوچھ کر اپنے سرخ ہونٹوں پر چھدری سی مسکراہٹ پیدا کرکے انور کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس نے کہا، ’’میرے ہزبنڈ سے مل کر آپ کو بہت خوشی ہوگی۔‘‘
ایک بار پھر انور نے فرجڈیٹر میں اپنا ہاتھ دھویا اور سوچا، ’’مجھے اس کے ہزبنڈ سے مل کر کیا خوشی ہوگی۔ جب کہ یہ خود اس سے ناخوش ہے۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ وہ میرا بالکل خیال نہیں رکھتے۔‘‘
دیر تک وہ جمیل اور اس کی بیوی سے باتیں کرتا رہاکہ شاید ان میں سے کوئی پرویز کے متعلق بات کرے گا اور اس کو اس عورت کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوں گی جس کو اس نے ٹھنڈی مولی سمجھا تھا۔ مگر کوئی ایسی بات نہ ہوئی، جو پرویز کی شخصیت پر روشنی ڈالتی۔ جیگرؤول کا ذکر آیا تو مسز جمیل نے صرف اتنا کہا، ’’پری کا ٹیسٹ رنگوں کے بارے میں بہت اچھا ہے۔‘‘
’’پرویز۔۔۔ پری‘‘ انور نے سوچا، ’’کتنی غلط تخفیف ہے۔ یہ خستہ سی ریڑھ کی ہڈی والی عورت جس کا رنگ اکتا دینے والی حد تک سفید ہے۔۔۔ اس کو پری کہا جائے کیا یہ کوہ قاف کی توہین نہیں؟‘‘
جب پرویز کے متعلق اور کوئی بات نہ ہوئی تو انور نے جمیل سے رخصت چاہی،’’اچھا بھائی میں چلتا ہوں۔‘‘ پھروہ مسز جمیل سے مخاطب ہوا، ’’بھابھی آپ کی پری بڑی دلچسپ چیز ہے۔‘‘
مسز جمیل مسکرائی، ’’کیوں؟‘‘
انور نے یونہی کہہ دیا تھا۔ مسز جمیل نے کیوں کہا تواس کو کوئی جواب نہ سوجھا۔ تھوڑے سے توقف کے بعد وہ مسکرایا، ’’کیا آپ کے نزدیک وہ دلچسپ نہیں؟ کون ہیں یہ محترمہ؟‘‘
مسز جمیل نے کوئی جواب نہ دیا۔ جمیل نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔ جمیل مسکرا کر اٹھا اور انور کے کاندھے کو دبا کر اس نے گٹک کر کہا،’’چلو تمہیں بتاتا ہوں کون ہیں یہ محترمہ۔۔۔ بڑی و اجبِ تعظیم ہستی ہیں۔‘‘
’’آپ کو تو بس کوئی موقعہ ملنا چاہیے۔‘‘ مسز جمیل کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی۔
جمیل ہنسا، ’’کیا میں غلط کہتا ہوں کہ پری واجبِ تعظیم ہستی نہیں؟‘‘
’’میں نہیں جانتی‘‘ یہ کہہ کر مسز جمیل اٹھی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ جمیل نے پھر انور کا کندھا دبایا اور اس سے مسکراتے ہوئے کہا،’’ بیٹھ جاؤ۔۔۔ تمہاری بھابھی نے ہمیں پری کے متعلق باتیں کرنے کا موقعہ دے دیا ہے۔‘‘
انور بیٹھ گیا۔ جمیل نے سگریٹ سلگایا اور اس سے پوچھا، ’’تمہیں پری میں کیا دلچسپی نظر آئی؟‘‘
انور نے کچھ دیر اپنے دماغ کو کریدا، ’’دلچسپی۔۔۔؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتا میرا خیال ہے اس کا غیر دلچسپ ہونا ہی شاید اس دلچسپی کا باعث ہے۔‘‘
جمیل نے چٹکی بجا کر سگریٹ کی راکھ جھاڑی، ’’لفظوں کا الٹ پھیر نہیں چلے گا۔۔۔ صاف صاف بتاؤ تمہیں اس میں کیا دلچسپی نظر ائی؟‘‘
انور کو یہ جرح پسند نہ آئی،’’مجھے جو کچھ کہنا تھا۔ میں نے کہہ دیا ہے۔‘‘
جمیل ہنسا، پھر ایک دم سنجیدہ کر اس نے سامنے کمرے کی طرف دیکھا اور دبی زبان میں کہا، ’’بڑی خطرناک عورت ہے انور۔‘‘
انور نے حیرت سے پوچھا، ’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ محترمہ دو آدمیوں کا خون کرا چکی ہے۔‘‘
انور کی آنکھوں کے سامنے معاً پرویز کا سفید رنگ آگیا، مسکرا کر کہنے لگا، ’’اس کے باوجود لہو کی ایک چھینٹ بھی نہیں اس میں۔‘‘ لیکن فوراً ہی اس کو معاملے کی سنگینی کا خیال آیا تو اس نے سنجیدہ ہو کر جمیل سے پوچھا، ’’کیا کہا تم نے۔۔۔؟ دو آدمیوں کا خون؟‘‘
انور نے چٹکی بجا کر سگریٹ کی راکھ جھاڑی، ’’جی ہاں۔۔۔ ایک کیپٹن تھا۔ دوسرا سربہاؤالدین کالڑ کا۔‘‘
’’کون سربہاؤالدین؟‘‘
’’اماں وہی۔۔۔ جو ایگریکلچرل ڈیپارٹمنٹ میں خدا معلوم کیا تھے۔‘‘
انور کو کچھ پتہ نہ چلا۔ بہاؤالدین کو چھوڑ کر اس نے جمیل سے پوچھا۔
’’کیسے خون ہوا ان دونوں کا؟‘‘
’’جیسے ہوا کرتا ہے۔ کالج میں کیپٹن صاحب سے پری کا یارا نہ تھا۔ شادی کرکے جب وہ بمبئی گئی تو وہاں سر بہاؤالدین کے لڑکے سے راہ و رسم پیدا ہوگئی۔ اتفاق سے ٹرنینگ کے سلسلے میں کپتان صاحب وہاں پہنچے۔ پرانے تعلقات قائم کرنا چاہے تو سربہاؤالدین کے لڑکے آڑے آئے۔ ایک پارٹی میں دونوں کی چخ ہوئی۔ دوسرے روز کپتان صاحب نے پستول داغ دیا۔ رقیب وہیں ڈھیر ہوگئے، پری کو بہت افسوس ہوا۔ سربہاؤالدین کے لڑکے کی موت کے غم میں اس نے کئی دن سوگ میں کاٹے۔ جب کپتان صاحب کو پھانسی ہوئی تو لوگ کہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں نے ہزار ہا اصلی آنسو بہائے۔۔۔ اس کے بعد ایک نوجوان پارسی اس کے دامِ محبت میں گرفتار ہوگیا۔ وصل کی رات جب اسے پتہ چلا کہ اس کی محبوبہ شادی شدہ ہے تو اس نے اپنے باپ کی ڈسپنسری سے زہر لے کر کھا لیا۔‘‘
انور نے کہا، ’’یہ تین خون ہوئے۔‘‘
جمیل مسکرایا، ’’نوجوان پارسی خوش قسمت تھا ،اس کے باپ نے اسے موت کے منہ سے بچا لیا۔‘‘
’’بڑی عجیب وغریب عورت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انور سوچنے لگا کہ پرویز جس میں کشش نام کو بھی نہیں کیسے ان ہنگاموں کا باعث ہوئی۔ کپتان نے اس میں کیا دیکھا۔ سر بہاؤالدین کے لڑکے کو اس میں کیا چیز نظر آئی۔۔۔؟ اور اس نوجوان پارسی نے اس ڈھیلی ڈھالی عورت میں کیا دلکشی دیکھی؟
انور نے پرویز کو تصور میں ننگا کرکے دیکھا۔ ڈھیلی ڈھالی ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ جس پر سفید سفید گوشت منڈھا ہوا تھا۔ خون کے بغیر کولہے دبلے پتلے لڑکے کے کولہوں جیسے تھے۔ ریڑھ کی ہڈی میں کوئی دم نہیں تھا۔ ایسا معلوم تھا کہ اگر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کسی نے دبایا تو وہ دونیم ہو جائے گی۔ بال کٹے ہوئے تھے جو ہائیڈروجن پراکسائڈ کے استعمال سے اپنا قدرتی رنگ کھو چکے تھے۔۔۔ کیا تھا اس کے سراپا میں۔۔۔؟ ایک فقط اس کی آنکھیں کچھ غنیمت تھیں۔
انور نے سوچا۔ صرف آنکھیں کون چاٹتا پھرتاہے۔۔۔ کوئی بات ہونی چاہیے۔۔۔ لیکن حیرت ہے کہ اس ٹھنڈی مولی نے اتنے بڑے ہنگامے پیدا کیے۔ مجھ سے تو جب اس نے ہاتھ ملایا تھا تو میں نے خیال کیا تھا کہ مجھے بدبودارڈکاریں آنی شروع ہو جائیں گی۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن کچھ نہ کچھ ہے ضرور اس پری میں۔
جمیل نے اسے بتایا کہ راولپنڈی میں پرویز کے کالج کے رومانس مشہور ہیں۔ اس زمانے میں اس کے بیک وقت تین تین چار چار لڑکوں سے رومان چلتے تھے۔ چھ لڑکے اسی کے باعث کالج بدر ہوئے۔ ایک کو بیمار ہوکر سینے ٹوریم میں داخل ہونا پڑا۔ انور کی حیرت بڑھ گئی۔ اس نے جمیل سے پوچھا۔ کون ہے اس کا خاوند۔۔۔؟ اورخود کس کی لڑکی ہے؟‘‘ جمیل نے جواب دیا، ’’بہت بڑے باپ کی۔۔۔ کسی زمانے میں احمد آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے، آجکل ریٹائرڈ ہیں۔۔۔ خاوند اس کا ہندو ہے۔‘‘
’’ہندو؟‘‘
’’نہیں، اب عیسائی ہو چکا ہے۔‘‘
’’کیا کرتا ہے؟‘‘
’’ میرا خیال ہے شروع میں اس کا ذکر آیا تھاکہ ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتا ہے۔‘‘
انور کو یاد آگیا، ’’ہاں، ہاں کچھ ایسی بات ہوئی تھی۔۔۔ شاید بھابی جان نے بتایا تھا؟‘‘
جمیل اور انور تھوڑی دیر خاموش رہے۔ جمیل نے سگریٹ سلگایا اور ادھر ادھر دیکھ کر کہ اس کی بیوی نہ سن رہی ہو، انور کا کاندھا دبا کر سرگوشی میں کہا، ’’تم پری سے ضرور ملو۔۔۔ دیکھنا کیا ہوتا ہے؟‘‘
انور نے خود سے پوچھا مگر جمیل سے کہا، ’’کیا ہوگا؟‘‘
جمیل کے ہونٹوں میں ایک شریر سی مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’وہی ہوگا جومنظورِ خدا ہوگا۔‘‘ پھر اس نے آواز دبا کر کہا۔، ’’کل شام چائے وہیں پئیں گے۔ اس کا خاوند رات کو آتا ہے۔‘‘
پروگرام طے ہوگیا۔ پرویز کے متعلق اتنی باتیں سن کر اس کے دماغ میں کھدبد سی ہورہی ہے۔ وہ بار بار سوچتا تھاملاقات پر کیا ہوگا۔۔۔ کوئی غیر معمولی چیز وقوع پذیر ہوگی۔۔۔ ہو سکتا ہے جمیل نے مذاق کیا ہو۔۔۔ ہو سکتا ہے جمیل نے جو کچھ بھی اس کے بارے میں کہا سرتاپا غلط ہو۔ لیکن پھر اسے خیال آتا، جمیل کو خواہ مخواہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘
دوسرے روز شام کو جمیل اور وہ دونوں پری کے ہاں آگئے۔ وہ غسل خانے میں نہا رہی تھی۔ نوکر نے ان کو بڑے کمرے میں بٹھا دیا۔ انورووگ کی ورق گردانی کرنے لگا۔ دفعتاً جمیل اٹھا، ’’میں سگریٹ بھول آیا۔۔۔ ابھی آتا ہوں‘‘ یہ کہہ کروہ چلا گیا۔
انور ’’ووگ‘‘ میں چھپی ہوئی ایک تصویر دیکھ رہا تھا کہ اسے کمرے میں کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا۔ نظریں اٹھا کر اس نے دیکھا تو پرویز تھی۔ انور سٹپٹا گیا۔ اس نے سفید پاجامہ پہنا ہوا تھا جو جا بجا گیلا تھا۔ ململ کا کرتہ اس کے پانی سے تر بدن کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ مسکرا کر اس نے انور سے کہا،’’آپ بڑے انہماک سے تصویریں دیکھ رہے تھے۔‘‘
پرچہ چھوڑ کر انور اٹھا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر پرویز اس کے پاس آگئی۔ پرچہ اٹھا کر اس نے ایک ہاتھ سے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو ایک طرف کیا۔ اور مسکرا کر کہا، ’’مجھے معلوم ہے کہ آپ آئے ہیں تو میں ایسے ہی چلی آئی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے ململ کے گیلے کرتے کودیکھا جس میں دو کالے دھبے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ پھر اس نے انور کا ہاتھ پکڑا، ’’چلیے اندر چلیں۔‘‘
انور منمنایا، ’’جمیل۔۔۔ جمیل بھی ساتھ تھا میرے۔۔۔ سگریٹ بھول آیا تھا۔ لینے گیا ہے۔‘‘
پرویز نے انور کو کھینچا، ’’وہ آجائے گا۔۔۔ چلیے۔‘‘
انور کو جانا ہی پڑا۔ جس کمرے میں وہ داخل ہوئے اس میں کوئی کرسی نہیں تھی۔ دو اسپرنگوں والے ساگوانی پلنگ تھے۔ ایک ڈریسنگ ٹیبل تھی۔ اس کے ساتھ ایک اسٹول پڑا تھا۔ پری اس اسٹول پر بیٹھ گئی اور ایک پلنگ کی طرف اشارہ کرکے انور سے کہا،’’بیٹھیے۔‘‘
انور ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گیا۔ اس نے چاہا کہ جمیل آجائے، کیونکہ اسے بے حد الجھن ہورہی تھی۔ پرویز کے گیلے کرتے کے ساتھ چمٹے ہوئے دو کالے دھبے اس کو دواندھی آنکھیں لگتے تھے جو اس کے سینے کو گھور گھور کر دیکھ رہی ہیں۔ انور نے اٹھ کر جانا چاہا،’’میرا خیال ہے میں جمیل کو بلا لاؤں‘‘ مگر وہ اس کے ساتھ پلنگ پر بیٹھ گئی۔ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے ہوئے فریم کی طرف اشارہ کرکے اس نے انور سے کہا،’’یہ میرے ہذبنڈ ہیں۔۔۔ بہت ظالم آدمی ہے جمیل صاحب۔‘‘
انور منمنایا، ’’آپ مذاق کرتی ہیں۔‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ میرے اور اس کے مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔۔۔ اصل میں شادی سے پہلے مجھے دیکھ لینا چاہیے تھا کہ وہ مجھے سمجھتا ہے کہ نہیں۔۔۔ جس چیز کا مجھے شوق ہو اسے بالکل پسند نہیں ہوتی۔۔۔ آپ بتائیے ۔یہ کہتی ہوئی وہ اوٹ لگا کر پلنگ پر اوندھی لیٹ گئی، ’’اس طرح لیٹنے میں کیا ہرج ہے؟‘‘
انور ایک کونے میں سرک گیا۔ اسے کوئی جواب نہ سوجھا۔ اس نے صرف اتنا سوچا، ’’اس کا درمیانی حصہ کتنا غیر نسوانی ہے۔‘‘
پرویز اوندھی لیٹی رہی، ’’آپ نے جواب نہیں دیا مجھے۔۔۔ بتائیے اس طرح لیٹنے میں کیا ہرج ہے؟‘‘
انور کا حلق سوکھنے لگا، ’’کوئی ہرج نہیں۔‘‘
’’لیکن اس کو ناپسند ہے۔۔۔ خدا معلوم کیوں۔‘‘ یہ کہہ کر پرویز نے گردن ٹیڑھی کرکے انور کی طرف دیکھا، ’’آدمی اس طرح لیٹے تو معلوم ہوتاہے تیر رہا ہے۔۔۔ میں لیٹوں تو اوپربڑا تکیہ رکھ لیا کرتی ہوں۔ ذرا اٹھائیے نا وہ تکیہ اور میرے اوپر رکھ دیجیے۔‘‘
انور کا حلق بالکل خشک ہوگیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے۔ اٹھنے لگا تو پرویز نے اپنی پتلی ٹانگ سے اس کو روکا، ’’بیٹھ جائیے نا!‘‘
’’جی میں جمیل۔۔۔‘‘
وہ مسکرائی، ’’جمیل بے وقوف ہے، ایک دن مجھ سے باتیں کررہا تھا۔ میں نے اس سے کہا’’ اپنے خاوند کے سوا میرا اور کسی سے وہ تعلق نہیں رہا جو ایک مرد اور عورت میں ہوتا ہے۔ تو وہ ہنسنے لگا۔۔۔ مجھے تو ویسے بھی اس تعلق سے نفرت ہے۔۔۔ ذرا تکیہ اٹھا کر رکھ دیجیے نا میرے اوپر! ‘‘انور اسی بہانے اٹھا۔ تکیہ دوسرے کونے میں پڑا تھا۔ اسے اٹھایا اور پرویز کے درمیانی حصہ پر جوکہ بہت ہی غیر نسوانی تھا رکھ دیا۔پرویز مسکرائی،’’ شکریہ۔۔۔ بیٹھیے اب باتیں کریں۔‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ آپ تکیے سے باتیں کریں۔ میں چلا۔‘‘ یہ کہہ کر انور پسینہ پونچھتا باہر نکل گیا۔
مأخذ : کتاب : بادشاہت کاخاتمہ
مصنف:سعادت حسن منٹو