طلسم حرف و حکایت اسے بھی لے ڈوبا
زباں سے اس کی ہر اک بات اک فسانہ لگے
وہ جس کو دور سے دیکھا تھا اجنبی کی طرح
کچھ اس ادا سے ملا ہے کہ دوستانہ لگے
ادھر ادھر سے مقابل کو یوں نہ گھائل کر
وہ سنگ پھینک کہ بے ساختہ نشانہ لگے
یہ لمحہ لمحہ تکلف کے ٹوٹتے رشتے
نہ اتنے پاس مرے آ کہ تو پرانا لگے
وہ ایک شخص جو لیٹا ہے ریگ ساحل پر
اسے نہ موجۂ طوفاں کا تازیانہ لگے
شاعر:زبیر رضوی