کہانی کی کہانی:’’یہ یونان کی اپنے زمانہ میں سب سے خوبصورت لڑکی کی کہانی ہے، جو زہرہ دیوی کے مندر میں رہتی ہے۔ اس کے حسن کے چرچے ہر طرف ہیں۔ یہاں تک کہ اس ملک کا شہزادہ بھی اس کا دیوانہ ہے۔ ایک رات وہ اس سے ایک ندی کے کنارے ملتا ہے اور وہاں وہ شہزادے کو محبت کا ایسا درس دیتی ہے جس میں وہ فیل ہو جاتا ہے اور وہ حسین لڑکی ایک کسان کے بیٹے سے شادی کر لیتی ہے۔‘‘
معبد زہرہ کی کنواریاں سب کی سب پاکباز رہی ہوں یا عصمت فروش۔ اس سے بحث نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دردانہ زہرہ کی پرستش اس کو عصمت کی دیوی ہی سمجھ کر کرتی تھی اور جس وقت وہ معبد سے تجدید تقدس کے بعد باہر نکلتی تو لوگ ایسا محسوس کرتے کہ شاید دنیا میں تخلیق کی ابتدا ابھی نہ ہوئی ہے اور قلب انسانی ان ضروریات سے ہنوز ناآشنا ہے جو خون میں ناجائز گرمیات پیدا کرکے روح کو آہستہ آہستہ داغدار کرتے رہتے ہیں۔
یونان کے مذہبی دور حسن پرستی کا وہ زمانہ انحطاط تھا جب یونان کا ایک ایک نوجوان قلب الگ الگ ایک مخصوص زہرہ کا معبد بناہوا تھااور مذہب ان کے ہاں نام تھا محض اس زندگی کا جس کی ترکیب صرف عورت، شباب، حسن اور عشق کے عناصر رابعہ سے ہوئی تھی۔
خانقاہ زہرہ کاایک ایک حجرہ، باغ معبد کاایک ایک کنج جہاں کسی وقت حسن فطرت کی پرستش ہوا کرتی تھی جو کسی زمانے میں مخصوص تھا۔ صرف جمیل مناظر قدرت کے مطالعہ کے لیے اب ایک خلوت کدہ تھا، جہاں عصمت ’’آغشتہ بہ خوں‘‘ اور محبت مائل بہ جنوں، نظر آتی تھی۔
ملک کا کوئی نوجوان ایسا نہ تھا جس نے اپنی عمر کے سیکڑوں دن اس سعی میں بسر نہ کردیے ہوں کہ اس فضا کی کم از کم ایک ہی معطر رات اسے میسر آ جائے اور مشکل سے کوئی آشفتۂ شباب ایسا ملےگا جس نے ایک مرتبہ اس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد دنیا میں پھر کسی اور لذت کی خواہش کی ہو۔
دردانہ ایک امیر خاندان کی لڑکی تھی جس کو اس کے والدین نے ایک خواب کی ہدایت کے مطابق خانقاہِ زہرہ کے لیے وقف کر دیا تھا اور جس کی کمسنی یہیں کی سم آلود فضا میں ریعان شباب تک پہنچی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ یوں تو خانقاہ کی ہر کنواری اپنی اپنی جگہ ایک بےپناہ مجسمۂ حسن ثبات تھی لیکن دردانہ! اس کا تو یہ عالم تھا جیسے فطرت کے کسی حسین خواب نے انسانی صورت اختیار کر لی ہو۔
لوگ کہتے تھے کہ دردانہ سے زیادہ حسین ہونا گویا خدا ہو جانا ہے اور شاید یہی وہ جذبہ تھا جس نے ابھی تک کسی کے دل میں اس کے پاس التجائے غیر معصوم لے جانے کی ہمت پیدا نہ ہونے دی تھی۔ لیکن یہ کون کہہ سکتا ہے کہ گزشتہ دو سال کے اندر جب سے اس نے نمود شباب کے بعد، حسب دستور نقاب پوش ہوکر نکلنا شروع کیا تھا، لوگوں کی تمناؤں میں کس قدر تلاطم برپا کر دیا تھا اور ان کا تخیل اس کے نقاب پوش حسن کو کس کس انداز سے عریاں دیکھا کرتا تھا۔
یوں تو ملک کا ہر وہ شخص جس کی رگوں میں خون دوڑ رہا تھا، دردانہ کے لیے یکسر اضطراب شوق بنا ہوا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ نمایاں اور اپنے آپ کو مستحق کامیابی سمجھنے والی ہستی، شہزادہ نیروبی کی تھی۔ جو نہ صرف اپنے حسن و صورت بلکہ اکتسابات ذہنی کے لحاظ سے بھی اس وقت یونان کا ایک ہی نوجوان تھا۔
چاندنی رات تھی خانقاہ کے نیچے بہنے والی ندی میں چاند نے چراغاں کر رکھا تھا اور وادی پر سکون مطلق طاری تھا کہ دفعتاً اس سکون میں تبدیلی پیدا ہوئی اور ساحل کے ایک جانب سے بربط کے تاروں کی نازک لرزش آ آکر ہوا میں ملنے لگی۔ رفتہ رفتہ اس لرزش کا تواتر بڑھا، جھنکار میں زور پیدا ہونے لگا اور نسائی آواز موسیقی بن بن کر تاروں پر دوڑنے لگی۔ دردانہ کا معمول تھا کہ کبھی کبھی وہ رات کو تنہا نکل کر ساحل پر آجاتی اور دیر تک بیٹھی ہوئی بربط کے ساتھ گایا کرتی۔ اس کا گانا حقیقتاً ایک قسم کی عبادت تھا۔ اس کی موسیقی گویا اس کی پرستش کی زبان تھی جس کے سمجھنے والے اور جس سے صحیح اثر لینے والے اسے کہیں نظر نہ آتے تھے اور اس لیے وہ جنگل ہی کی بےجان چیزوں کے سامنے اپنا فلسفہ بیان کیا کرتی اور یہیں کبھی ہنستی ہوئی اور کبھی آنسو خشک کرتی ہوئی واپس جاتی۔
سفید چادر چاندنی رات اور دردانہ کا بےنقاب حسن صبیح حقیقت یہ ہے کہ اس نقرئی لوح پر یہ نقش سمییں مشکل سے ابھر سکتا۔ اگر اس کے بالوں کی گہری سیاہی اس یکسانیت کو دور کرنے والی نہ ہوتی۔ وہ ایک چٹان پر پاؤں ٹکائے ہوئے بیٹھی تھی اور بربط پر اپنی لانبی نازک انگلیوں سے اپنی داستان پرستش کہہ رہی تھی۔
جب رات زیادہ بلند ہو چکی اور چاند بلند ہوکر دردانہ کے سر سے گزرنے لگا تو اس نے اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن وہ کھڑی ہونا چاہتی تھی کہ سامنے کنج سے ایک انسان سفید چادر میں ملفوف آگے بڑھتا ہوا نظر آیا پہلے تو وہ کچھ ڈری، لیکن چونکہ ایک پاکباز دل دنیا میں کسی چیز کی طرف سے عرصہ تک خائف نہیں رہ سکتا، اس لیے وہ پھر اطمینان سے وہیں بیٹھ گئی اور جس وقت آنے والے نے اس کے استفسار کے جواب میں اپنا نام نیروبی بتایا تو دردانہ تعظیماً کھڑی ہو گئی اور بولی کہ شاہزادے کو کس چیز نے ایسے ناوقت اس قدر زحمت برداشت کرنے پر مجبور کر دیا۔
نیروبی بولا۔ کیا وہ خاتون جس کو دنیا میں سب سے زیادہ حسین ہونے کا امتیاز حاصل ہے اس بات کو نہیں سمجھ سکتی کہ نیروبی۔ جس کی زندگی میں اب کوئی وقت۔ وقت کہلائے جانے کے قابل نہیں رہا۔ مگر وہ جو کسی حقیقی حسن کے سامنے بسر ہو کیوں ایسے ناوقت اس قدر زحمت برداشت کرنے پر مجبور ہو گیا۔‘‘
دردانہ یہ سن کر صرف ہنس دی۔ نیروبی سلسلۂ گفتگو جاری رکھتے ہوئے بولا۔ جس نے تیرا منھ ان پاکیزہ موتیوں سے بھرا ہے کیا وہ تجھے اس امر پر مجبور نہیں کر سکتا کہ تو میری قسمت کا آخری فیصلہ سنادے۔‘‘
دردانہ بولی، ’’آہا! شاہزادہ نیروبی تو بہت اچھا شاعر ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر پھر ہنس دی۔ شاہزادہ نیروبی بولا، ’’اف! دردانہ گھڑی گھڑی نہ ہنس کیونکہ چاندنی رات میں بابو نہ کے پھولوں کی بہار مجھے از خود۔۔۔‘‘
دردانہ، ’’خوب! پھر وہی شاعری، اے شاہزادے! تو نے یہ فن کہاں اور کب سیکھا؟ اگر میں رات بھر ہنستی رہوں تو بھی شاید تیری نئی نئی تشبیہوں کا سلسلہ ختم نہ ہو۔ میں نے بھی ایک مرتبہ کوشش کرکے ایک شعر کہا تھا لیکن وہ بہت معمولی تھا۔‘‘
نیروبی، ’’مجھے سناؤ! یقیناً وہ بہت اچھا ہوگا۔‘‘
دردانہ، ’’نہیں، وہ نہایت معمولی ہے، اس میں کوئی تشبیہ نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم تشبیہ کسے کہتے ہیں، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘‘
نیروبی، ’’تمھارے لیے یہ معمولی بات ہوگی۔ لیکن میرے لیے تو ہر وہ لفظ سکون جان ہے جو دردانہ کے منھ سے نکلے۔‘‘
دردانہ، ’’مجھے شرم آتی ہے۔ تم سن کر مجھ پر ہنسوگے اور ہاں اب تو مجھے وہ یاد بھی نہیں رہا کوشش کروں تو شاید صرف خیال ظاہر کر سکتی ہوں۔‘‘
نیروبی، ’’اچھا وہی سہی، خیال ہی سہی۔‘‘
دردانہ، ’’ایک دن میں معبد میں دیوی زہرہ کے سامنے سرزمین پر رکھے ہوئے رو رہی تھی کہ اسی حالت میں مجھے نیند آ گئی۔ میں نے ایک خواب دیکھا جو نہایت دلکش تھا۔ صبح کو نہایت مسرت کے عالم میں جب اپنا بربط میں نے لیا تو بےاختیار میری زبان سے ایک شعر نکل گیا۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ، ’’وہ لوگ جو میرے جسم کو چاہتے ہیں ان سے کیونکر کہوں کہ میری روح تو اس سے کہیں زیادہ حسین ہے۔ میرے چہرے کو بےنقاب دیکھنے کی آرزو رکھنے والے کاش میری روح کو بےحجاب دیکھتے۔ مگر افسوس کہ صورت پر جان دینے والے بہت ہیں اور مجھ سے محبت کرنے والے کم۔‘‘
دیکھو! میں کہتی نہ تھی کہ تم ہنسوگے، واقعی نہایت بھدا خیال ہے۔ شاعری کی اس میں کوئی بات نہیں پائی جاتی۔
نیروبی، ’’مجھے دھوکا نہ دے۔ تو نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ میں ایسا بیوقوف نہیں، جو سمجھ نہ سکوں، تو نے مجھے سمجھانے کے لیے مجھ کو تنبیہ کرنے کے لیے ایک بات بنائی ہے۔ یہ تو نے کیسے جاناکہ میں صرف تیرے جسم کا پرستار ہوں صرف تیری صورت کا شیدائی ہوں۔
دردانہ، ’’ہاں یہ تم نے کیا کہا؟ مجھے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو، اس سے قبل جب کبھی تم نے مجھ سے باتیں کیں میں نے ان کو ہمیشہ وہ التفات سمجھا جو ایک بادشاہ کی طرف سے غریب گدا پر ہوا کرتا ہے، مجھے تو کبھی اس کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ والی یونان کا بیٹا مجھ ایسی ذلیل و خوار ہستی کے لیے اپنی زندگی کا کوئی لمحہ محبت بھی صرف کر سکتا ہے۔ تو کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔ واقعی محبت کرتے ہو، میں کیسے یقین کروں؟‘‘
نیروبی، ’’دردانہ! یقین کرو کہ وہ نیروبی، جو ملک کی بہتر سے بہتر لڑکی کے ساتھ شادی کرسکتا ہے۔ ایک زمانے سے تیرا دیوانہ ہے اور ہرچند وہ اب تیرے چہرے کو بےنقاب نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن تیرے حسن و جمال کے خوابوں سے اب بھی اس کی نیندیں معمور ہیں اور تیرے جلوے کی یاد سے اس کی راتیں روشن۔‘‘
دردانہ، ’’حسن و جمال! جلوہ! میں ان کے صحیح مفہوم سے ناواقف ہوں، کیا اچھی صورت کو حسن و جمال کہتے ہیں، چہرہ کا یاسمین، رخسار کا گلاب، آنکھ کا نشہ، ابرو کی محراب، جسم کا تناسب، لبوں کی تازگی، دانتوں کی گہر مآبی، رنگ کی تازگی، جن کا ذکر اکثر شاعروں کی زبان پر رہتا ہے کیا انھیں چیزوں کا نام حسن ہے۔ کیا انھیں باتوں کو جمال کہتے ہیں اور کیا انھیں چیزوں کا بے نقاب ہوجانا جلوہ کہلاتا ہے۔ اگر دنیائے عشق و محبت کا فلسفہ صرف اس قدر ہے تو مجھے حیرت ہے کہ اس بے بنیاد جذبہ نے کیونکر ایسی وسعت حاصل کر لی اور فطرت کیوں اپنی توہین گوارا کر رہی ہے۔ مگر آپ شہزادے ہیں اور آپ کے خیالات و جذبات بھی یقینا عام سطح سے بلند ہوں گے، اس لیے شاید آپ کے حسن و جمال کا مفہوم اس قدر ادنیٰ و پست نہ ہوگا۔‘‘
نیروبی، ’’بےشک عام شاعروں کے ہاں اور معمولی انسانوں کے نزدیک حسن و جمال کا مفہوم وہی ہے جو تم نے ابھی ظاہر کیا۔ لیکن میں تو ان لوگوں میں ہوں جو صورت سے زیادہ ادا کو دیکھتے ہیں۔ جو اعضا کے حسن سے زیادہ اطوار کی دلفریبی پر فریفتہ ہوتے ہیں اور غالباً یہی وہ چیز ہے جو تجھ میں بدرجۂ کمال پائی جاتی ہے۔‘‘
دردانہ، ’’ادا! اطوار! آہ، شاعروں اور عاشقوں کی اصطلاحیں سمجھنا بھی کس قدر دشوار ہے۔ آپ یقین کیجیے کہ میرا ذہن ان دونوں کے مفہوم سے بھی بالکل خالی ہے اور شاید میں کبھی نہ سمجھ سکوں گی کہ ان کا حقیقی مطلب کیا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل بھی بارہاجب میں نے شاعروں کے کلام پر غور کیا تو میں باوجود کوشش کے کبھی نہ سمجھ سکی کہ ادا اور اس کے ساتھ بہت سے الفاظ مثلاً غمزہ، کرشمہ، عشوہ، ناز، تیور، چتون، بانکپن، پھبن وغیرہ کسے کہتے ہیں اور ان میں کیا فرق ہے۔ آپ نے ابھی ادا اور اطوار کا ذکر کیا۔ اس لیے کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ اگر آپ نے میرے اندر ان باتوں کو دیکھ کر محبت کی ہے تو یہ چیزیں مجھ میں کہاں ہیں؟‘‘
نیروبی، ’’دردانہ! یہ تو کیسی گفتگو کر رہی ہے۔ تجھ ایسی مکمل عورت جو یونانی انشاء عالیہ کی ماہر ہو۔ جو فنون لطیفہ میں اپنا نظیر نہ رکھتی ہو جو اچھی طرح اس کیفیت سے واقف ہو کہ سارا یونان اس کافریفتہ ہے ایسی انجان بن جائے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں تو مجھ کو اس وقت بیوقوف بنارہی ہے اور پھر اے قتالۂ عالم مجھی سے پوچھتی ہے کہ ادا کسے کہتے ہیں۔ اچھا میں پوچھتا ہوں کہ تجھے چاندنی رات کیوں اچھی معلوم ہوتی ہے۔ تجھے اپنے بربط سے کیوں محبت ہے۔ تو موسیقی کی کیوں دلدادہ ہے۔ اگر تو کسی اور طرح نہیں سمجھ سکتی تو یوں سمجھ لے کہ تو میری چاندنی ہے۔ تو میری ہستی کا بربط ہے اور میری روح کو بیتاب کر دینے والا نغمہ شیریں۔‘‘
دردانہ، ’’چاندنی تو مجھے اس لیے اچھی معلوم ہوتی ہے کہ میں اس میں زیادہ جوش سے اپنے بربط کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتی ہوں اور اپنے ساز و موسیقی سے اس لیے لگاؤ ہے کہ یہ میری پرستش ہے۔ یوں سمجھ لو کہ چاندنی رات سنہرا فرش ہے، جس پر بیٹھنے کے بعد بربط کے تاروں پر میری انگلیوں کی لرزش اور گلے سے نکل کر آواز کی نیایش عبادت بن جاتی ہے اور اگر میرے دل سے یہ کیفیت محو ہو جائے تو میرے لیے ان میں سے ایک چیز بھی توجہ کے قابل نہ رہے۔‘‘
نیروبی، ’’اے میرے دل کی دیوی! میں بھی تجھ سے محبت نہیں کرتا بلکہ تجھے پوجتا ہوں۔ میں نے غلطی کی کہ اپنے حال کو ’’محبت‘‘ کے لفظ سے ظاہر کیا اور اس سے زیادہ غلطی یہ کی کہ تجھے حسین و جمیل کے لقب سے یاد کیا۔ حالانکہ تو اس سے بھی بلند کوئی اور چیز ہے جس کے ظاہر کرنے کے لیے انسان کے الفاظ عاجز ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اگر میں کہہ سکتا ہوں تو صرف یہ کہ تو میری معبودہ ہے۔ تو میری دیوی ہے اور میں تیرا پرستار ہوں، تیرا پجاری ہوں۔‘‘
دردانہ، ’’کیا یہ صحیح ہے؟ لیکن تم دردانہ کی پرستش کرتے ہو یا میری؟‘‘
نیروبی، ’’میں نہیں سمجھا، کیا دردانہ اور تو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں؟‘‘
دردانہ، ’’ہاں دردانہ نام ہے اس جسم کا جو اس وقت تمھیں نظر آ رہا ہے اور جو ہر وقت تغیر پسند وفنا پذیر ہے اور میں تو یہ جسم نہیں ہوں۔‘‘
نیروبی، ’’پھر کیا ہو؟‘‘
دردانہ، ’’میں نام ہے فطرت کا، روح کا، وجدان کا۔ جس میں ہر وقت رفعت ہے۔ بلندی ہے۔ ارتقاء ہے۔‘‘
نیروبی، ’’تو پھر میں دردانہ سے محبت نہیں کرتا، بلکہ تجھ سے، تجھی کو چاہتا ہوں۔‘‘
دردانہ، ’’مگر ایک زمانہ آئےگا جب میری صورت خراب ہو جائےگی، دردانہ مکروہ ہو جائےگی۔ کیا تم اس وقت بھی مجھ پر یہی محبت صرف کروگے؟‘‘
نیروبی، ’’یقیناً۔‘‘
دردانہ، ’’اچھا اگر یہ صحیح ہے تو پھر میرا فیصلہ یہی ہے کہ دردانہ نیروبی کی ہوسکے یا نہ ہو سکے لیکن میں تمہاری ضرور ہوں اور پرسوں شام کو اسی خلوت گاہ میں اپنے آپ کو تمہارے سپرد کر دوں گی۔‘‘
نیروبی، اس وقت اپنے آپ کو صحیح معنی میں بادشاہ سمجھنے لگا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ دردانہ ایسی ہستی پر قابو پالینا گویا دنیا فتح کر لینا ہے۔ اس لئے وہ غیرمعمولی مسرت و نشاط کی کیفیت لیے ہوئے واپس گیا اور انتظار کے دودن گزارنا اس کے لیے دشوار ہو گیا۔
آفتاب غروب ہو چکا تھا۔ شفق کی روشنی ہاتھوں کی حنائی کی طرح آہستہ آہستہ ہٹتی جارہی تھی اور نیروبی دو گھنٹے سے ساحل پر دردانہ کا انتظار کر رہا تھا کہ شام کے دھندلکے میں کچھ فاصلے پر ایک نقاب پوش عورت آتی نظر آئی اور نیروبی اس کے لینے کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے دردانہ کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا، لیکن اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ مگر وہ کچھ نہ بولی۔ اس نے اپنے جسم کو اس کے جسم سے ملا دیا لیکن وہ خاموش رہی۔ نیروبی کی مسرت کا اس وقت کیا اندازہ ہو سکتا ہے۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ کائنات کی تخلیق ہی صرف اس کی آرزوئیں پوری کرنے کے لیے ہوئی ہے اور آج اسے حق حاصل ہے کہ جس کو جس طرح چاہے چلائے۔
ساحل کی اس چٹان پر پہنچ کر جہاں اب سے دو دن قبل عہد و پیمان ہوا تھا، دردانہ نیروبی سے علیحدہ ہوکر کھڑی ہو گئی اور بولی کہ تم میری آواز پہچانتے ہو؟ نیروبی بولا ’’کیوں نہیں‘‘ کیا کوئی شخص ایسی شیریں آواز کو ایک مرتبہ سننے کے بعد اپنے دماغ سے محو کر سکتا ہے۔‘‘
دردانہ نے کہا ’’تم میرے قدوقامت سے بھی مجھے جان سکتے ہو؟‘‘ نیروبی نے کہا ’’خوب! کون ہے جو اس سروخراماں کا نظارہ کرنے کے بعد پھر اسے فراموش کر سکے۔‘‘
دردانہ، ’’میں نے گزشتہ دو راتیں معبد کے اندر صرف اس دعا میں صرف کر دی ہیں کہ اگر نیروبی واقعی صرف روح سے محبت کرتا ہے تو میری صورت میں کوئی تغیر ایسا کر دیا جائے جو دنیا کے اس سب سے زیادہ انوکھے عہد و پیمان کی یادگار بن سکے اور مجھے یقین ہے کہ میری یہ دعا قبول ہوئی ہوگی۔ اس لیے میں نقاب الٹتی ہوں، میرے چہرے کو دیکھ کر پہچان لو کہ واقعی میں دردانہ ہوں یا نہیں؟‘‘
یہ کہہ کر جس وقت دردانہ نے اپنا نقاب الٹا اور نیروبی کی نگاہ اس پر پڑی تو حیرت نے اس پر سکتہ طاری کر دیا۔ کیونکہ دردانہ کے حسین چہرے کے بجائے ایک ایسی کریہہ صورت اس کے سامنے تھی کہ مشکل سے وہ اس کو نگاہ بھر کر دیکھ سکتا تھا، تمام جلد پر گہرے چیچک کے داغ۔ ناک بیٹھی ہوئی۔ آنکھیں چھوٹی۔ بھویں ندارد۔ پیشانی تنگ۔ ہونٹ موٹے موٹے یہ تھا دردانہ کا چہرہ جو نیروبی کو نظر آیا۔
دردانہ، دیر تک نیروبی کی اس حیرت سے لطف اٹھاتی رہی اور پھر بولی ’’اے شہزادے جلدی کیجیے اور مجھے اپنے ساتھ لے چلیے میں آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے کے سامنے اس کے پاکیزہ و مقدس جنگل میں عہد کرنے آئی ہوں کہ میں ہمیشہ آپ کی ہوکر رہوں گی اور اپنی تمام روحانی برکتیں و لذتیں آپ کے لیے وقف کردوں گی۔‘‘
نیروبی حیران تھا کہ سوائے چہرے کے یہ عورت اور سب طرح دردانہ ہی تھی۔ لیکن اس کی صورت میں یہ تغیر کیسے ہو گیا، کیا واقعی اس کی دعا قبول ہو گئی یا کسی اور عورت کو بھیج کر مجھے دھوکا دیا جا رہا ہے۔ وہ اس مسئلہ پر غور ہی کر رہا تھا کہ دردانہ نے پھر تقاضہ کیا اور بولی کہ ’’اے شہزادے یہ سکوت کیسا، یہ حیرت کیوں، اپنے وعدے کو بھول گئے۔ کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ میری پرستش کرتے ہو۔ ممکن ہے کہ میں دردانہ نہ رہی ہوں۔ لیکن میں تو ہوں، پھر یہ پس و پیش کیا؟‘‘
نیروبی، جس کو اس کی گفتگو کا اب بالکل یقین ہو گیا تھا کہ واقعی دردانہ ہے اس کی صورت حقیقتاً مسخ ہو گئی ہے۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا کہ اے دردانہ! نہیں اب میں تجھے دردانہ نہیں کہہ سکتا۔ اے عورت! معاف کر مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے اپنے جذبہ کا صحیح اندازہ نہیں کیا تھا اور ایک ایسا وعدہ کر لیا تھا جس کو اب میں پورا نہیں کر سکتا۔ جو ایسے کریہہ ملبوس میں ظاہر ہو۔ میں تجھے اپنی بیوی بناکر کیونکر مخلوق کو اپنا چہرہ دکھا سکتا ہوں اور کس طرح اس تنفر و کراہمت کو دور کر سکتا ہوں۔ جو تیری صورت دیکھ کر میرے دل میں پیدا ہوتی ہے؟‘‘
دردانہ یہ سن کر ہنسی اور بولی کہ ’’اے شہزادے تمہاری خوشی، میں نے تم کو مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ تمھیں نے میرے سامنے التجا پیش کی تھی۔ اس لیے یاد رکھو کہ اگر آئندہ کبھی تمہیں نقضِ عہد پر افسوس کرنا پڑے تو اس کا الزام مجھ پر نہ رکھنا۔‘‘
دردانہ نے یہ کہا اور نقاب ڈال کر وہا ں سے چل دی۔
گزشتہ واقعہ کو دوماہ کا زمانہ گزر گیا ہے اور خانقاہِ زہرہ کے احاطے میں کسی مخصوص تقریب کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ معبد زہرہ میں یہ رسم نہایت پابندی کے ساتھ جاری تھی کہ جس وقت کسی کنواری کی عمر ۱۹ سال کی ہو جاتی تھی تو عام جلسہ کیا جاتا تھا اور اس کو انتخاب شوہر کی اجازت دی جاتی تھی۔ چنانچہ آج دردانہ اپنی عمرکے ۱۹ سال پوری کر چکے تھی اور اس کو خانقاہ کی پرستارانہ زندگی ترک کرکے مشاہل زندگی میں داخل ہونا تھا۔
چونکہ دردانہ کے حسن و جمال، فضل و کمال کا بہت شہرہ تھا اور اس تاریخ کا اعلان تمام قرب و جوار کے ملکوں میں بھی کر دیا گیا تھا۔ اس لیے خواہش مندوں کا ہجوم بہت تھا اور ہر ملک کا امیرزادہ بہترین ہدایا لے کر حاضر ہوا تھا۔ نیروبی اس رات کی صبح ہی کو اپنا غم و غصہ دور کرنے شکار کے لیے چلا گیا تھا اور پورے دو ماہ کے بعد اس رات کو واپس آیا جس کی صبح کو یہ تقریب عمل میں آنے والی تھی۔
اس نے سنا اور اپنے جی میں ہنسا کہ دیکھیے وہ کون بدقسمت ہے جو دردانہ کی شہرت جمال سے دھوکا کھاکر اس عذاب کو مول لے گا۔ صبح کو وہ بھی تماشہ دیکھنے گیا لیکن لوگوں کو سخت تعجب ہوا، جب انھوں نے سنا کہ نیروبی جو دردانہ کا حد درجہ شیفتہ تھا کوئی ہدیہ لے کر نہیں آیا اور فہرست میں اپنا نام بھی درج نہیں کرایا۔ کوئی پوچھتا تو بھی ہنس دیتا اور کہتا کہ ’’ہاں دردانہ کی خواہش اب میرے دل کے اندر مردہ ہو گئی ہے۔‘‘ لیکن جب اس سے زیادہ اصرار کیا گیا تو اس نے اپنے بعض احباب سے اصل واقعہ بھی بتا دیا اور رفتہ رفتہ یہ خبر دوپہر تک پوری طرح منتشر ہو گئی اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ فکرمند نظر آنے لگا۔ خانقاہ کے پجاریوں سے دریافت کیا گیا، وہاں کی کنواریوں سے جستجو کی گئی، لیکن سب نے یہی جواب دیا کہ اب سے دو ماہ قبل تو دردانہ کی صورت نہایت اچھی تھی لیکن گزشتہ دو مہینہ کے اندر اس نے اپنے چہرے کا نقاب بہت سنگین کر دیا ہے اور کسی کو اس کی صورت دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ ممکن ہے کہ دیوی نے اس کی صورت مسخ کر دی ہو اور اس کے چھپانے کے لیے وہ اپنی صورت دکھانے سے احتراز کرتی ہو۔ رفتہ رفتہ یہ خبر اس قدر عام ہوئی اور اس درجہ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ سب نے اپنی اپنی خواہشیں واپس لے لیں اور شام کو جب صحن خانقاہ میں زریں تخت پر دردانہ بیٹھی تاکہ ہر خواہشمند سامنے آکر اپنی التجا پیش کرے اور وہ اس کا جواب دے تو ایک متنفس بھی سامنے نہ آیا۔ نام پکارا جاتا تھا، لیکن مجمع سے نکل کر کوئی شخص آگے نہ بڑھتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک ایک کرکے سارے نام ختم ہو گئے۔ فہرست میں اب صرف ایک نام رہ گیا تھا جو سب سے آخیر میں اس لیے رکھا گیا تھا کہ وہ ایک نہایت ہی معمولی کسان کے لڑکے کا تھا۔ جب سب نام ختم ہو گئے تو اس کا نام بھی پکارا گیا اور وہ ڈرتا کانپتا آگے بڑھا اور تخت کے پاس پہنچ کر بولا کہ ’’اے دردانہ! میں نے تیری خواہش اس لیے نہیں کی کہ تو حسین و جمیل ہے بلکہ صرف اس لیے کی تھی کہ دنیا میں مجھے ایک روح کی ضرورت تھی جو میری روح کی تڑپ کو دور کر دے اور مجھے سچی پرستش کا سبق دے۔ میں نے سنا تھاکہ تو بڑی بلند فطرت رکھتی ہے اور تیری پوجا سے زہرہ کی خانقاہ جگمگا اٹھتی ہے۔ پھر یہ بھی خدا کی قدرت ہے کہ اس نے تیرا ظاہری حسن و جمال چھین لیا اور کوئی نوجوان تیرے ہاتھ کا خواہاں آگے نہ بڑھا۔ یہاں تک کہ میرا نام پکارے جانے کی نوبت آئی۔ اس لیے میں حاضر ہوا ہوں۔ کیا تیری پاکیزہ روح میری آلودہ روح کے اتصال کو گوارہ کر سکےگی؟‘‘
مجمع پر ایک سکوت طاری تھا اور ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھیے دردانہ کیا جواب دیتی ہے کہ نقاب کے اندر سے ایک نازک شیریں آواز آئی،
’’اے اجنبی! چونکہ تو صرف میری فطرت کا گرویدہ ہوکر آیا ہے، اس لیے یقیناً میں تیری خواہش کو رد نہ کروں گی۔‘‘
اور یہ کہہ کر اس نے نقاب اٹھا دیا۔ کیونکہ انتخاب کی رسم ادا ہونے کے بعد ایسا کرنا ضروری تھا، لیکن نقاب کا اٹھنا تھا کہ سارے مجمع میں ہلچل مچ گئی۔ کیونکہ اس وقت دردانہ بالکل چودھویں کا چاند معلوم ہوتی تھی اور اس کے حسن و جمال کی تابِ نظارہ بھی لوگوں میں نہ تھی۔
نیروبی، دیوانہ وار آگے بڑھا اور بولا، ’’اے دردانہ! یہ کیا، ایسا سخت فریب!‘‘
دردانہ مسکراکر بولی، ’’فریب تو تیری ہی مکروہ فطرت کا تھا۔ جس نے اپنی صورت کو میرے چہرے میں مشاہدہ کیا، ورنہ میں تو جیسی اب ہوں ویسی ہی اس وقت بھی تھی۔‘‘
یہ کہہ کر دردانہ اٹھی اور کسان کے لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر اس گاؤں میں چلی گئی جہاں وہ رہتا تھا۔
نیروبی جس وقت دیوانہ وار دردانہ کے حجرے میں پہنچا تو وہاں اس کی کوئی چیز اسے نظر نہ آئی، مگر ایک مومی چہرہ، جس پر نہایت ہی بدنما خط و خال بنے ہوئے تھے اور جسے اس نے اس دن واقعی دردانہ کا حقیقی چہرہ سمجھ کر نفرت کا اظہار کیا تھا۔
مأخذ : شبنمستان کا قطرۂ گوہرین اور دوسرے افسانے
مصنف:نیاز فتح پوری