کہانی کی کہانی:’’یہ ایک عورت اور دو مردوں کی کہانی ہے۔ پہلا مرد عورت سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور دوسرے مرد کو یہ خبر تک نہیں کہ وہ عورت اسے چاہتی ہے۔ ایک دن وہ دوسرے مرد کے پاس جاتی ہے اور اسکے سامنے اپنے دل کی بات کو ایک افسانے کے پلاٹ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس الجھن کا حل اس مرد سے پوچھتی ہے۔‘‘
دوسرے دن میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حسین صبح اپنی سحر انگیز آنکھوں کو کھول رہی ہے۔ باغ کی طرف کے دریچے کھلے ہوئے تھے اور آفتاب کی اچھوتی کرنیں گرجنے والے نیلے سمندر پر مسکرا رہی تھیں۔ باغیچے میں راگ گانے والے پرند مصروف نغمہ تھے مگر میرا دل اس دل فریب صبح میں بھی پریشان تھا۔ میں نے سرہانے کی کھڑکی کا سنہرا پردہ ہٹایا اور جھانک کر باغ میں دیکھنے لگی۔
عین دریچے کے نیچے ایک بڑا سا سرخ گلاب بہار کی عطر بیز ہواؤں میں والہانہ جھوم رہا تھا۔ ’’نہ جانے زندگی کی کون سی تفسیر بیان کر رہا ہے! کسے معلوم محبت کے کس پیچیدہ مسئلہ کی تشریح کر رہا ہے!‘‘ میں نے پریشان لہجہ میں اپنے آپ سے کہا۔ اتنے میں پردہ ہٹا۔ دیکھا تو زوناش (بوڑھی حبشن خادمہ) اپنی موٹی کمر سمیت اندر داخل ہورہی ہے۔ ’’خاتون روحی!‘‘ اس نے قدرے حیران ہوکر کہا، ’’آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں؟ بیگم زبیدہ ناشتہ کے لیے آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔‘‘
صبح کے وقت میں کچھ زیادہ تنک مزاج ہوتی ہوں۔ زوناش سے خصوصاً کچھ چڑ سی ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جھک کر صوفے کے پیچھے سے ستار اٹھالیا اور اس کے تاروں کو درست کرنے لگی۔ زوناش ایک خوش رنگ ایرانی قالین پر کھڑی مجھ سے سوال پر سوال کیے جارہی تھی۔ اتنے میں دادی زبیدہ کی خادمہ صنوبر اندر آئی۔ ’’خاتون روحی! چائے تیار ہے بیگم آپ کی منتظر ہیں۔‘‘
میں ایک بیزار ادا سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ قد آدم آئینہ کے آگے کھڑی بالوں پر ایک پن لگا رہی تھی کہ ایک خیال نے مجھے چونکا دیا۔ ’’زوناش! چائے کی میز پر دادی زبیدہ تنہا ہیں یا چشمی صاحب بھی موجود ہیں؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم بی بی؟‘‘ زوناش کے ان روکھے سوکھے جوابوں سے مجھے دلی نفرت تھی۔ ’’اور منیرکو رات بخار تو نہیں ہوگیا؟ کیسے رہے؟‘‘ یہ سوال میں نے مصلحتاً کیا۔ ’’نہیں وہ اچھے ہیں۔‘‘
میں تبدیل لباس کے بعد چپ چاپ نچلی منزل میں آگئی۔ دیکھا تو دادی زبیدہ ایک نفیس ریشمی لباس میں بیٹھی ناشتہ کے لیے میرا انتظار کر رہی تھیں۔ ایک ہاتھ فاختائی رنگ کے دستانہ میں ملفوف تھا۔ دوسرا دستانہ سے خالی تھا۔ اس کی انگلیوں میں سگریٹ پکڑ رکھا تھا جس کا مسلسل دھواں اٹھ اٹھ کر دائرہ کی شکل میں گھوم رہا تھا۔ سامنے حسب عادت اخبار پڑا تھا جسے وہ کبھی کبھی پڑھ لیتی تھیں۔ میں نے جاکر انہیں پیار کیا، ’’آداب دادی جان پیاری!‘‘
’’آداب تم بڑی دیر میں آئیں پیاری۔‘‘
’’میں سویرے اٹھ گئی تھی۔ نماز میں کچھ دیر لگ گئی۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے اپنے مقابل والی خالی کرسی پر نگاہ ڈالی۔ پھر کچھ تامل کے بعد پوچھا، ’’چشمی صاحب کہاں ہیں؟ کیا وہ چائے پی چکے؟‘‘
’’وہ آج صبح سے باہر گیے ہوئے ہیں۔‘‘ دادی زبیدہ نے بے پروائی سے کہا۔
’’مربہ لوگی؟‘‘
’’لے لوں گی۔ وہ کہاں گیے ہیں دادی جان؟‘‘ میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔
’’یہ لوگا جرکا حلوا۔ اور یہ شہتوت کا مربہ۔ اس موسم میں صبح کے ناشتہ پر تازہ پھل ضرور کھانے چاہئیں۔ انناس کے قتلے لے لو۔‘‘ میں نے بادل ناخواستہ ایک ٹکڑا لیا اور چھری سے کاٹ کر کھانے لگی۔ دو منٹ ہمت کر کے وہی سوال دہرا دیا، ’’تو چشمی صاحب کہاں گیے ہیں دادی جان؟‘‘
’’جو انناس تم کھا رہی ہو وہ ترش تو نہیں؟ اگر ترش ہو تو کیلا لے لو۔ چشمی صاحب کشتی کی سیر کے لیے گئے ہیں۔ غریب دن رات منیر کے کمرہ میں رہتا ہے۔ آج اس نے چھٹی منائی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس لڑکے کو نہایت شریف پایا۔ یہ انجیر لو بیٹی۔‘‘
میں چپ تھی اور سوچ رہی تھی، ’’منیر کی تیمار داری نے آخر چشمی کو مضمحل کردیا۔ میں جانتی تھی کہ دوسرے کی تیمار داری ایک دن خود انہیں بیمار کر ڈالے گی۔ میں نے دبی زبان سے پوچھا، ’’تو کیا چشمی صاحب علیل ہیں دادی جان؟‘‘
’’نہیں۔ ویسے تفریحاً باہر گیے ہیں۔ لڑکی! تمہاری آنکھیں گلابی ہورہی ہیں۔ طبیعت کیسی ہے؟‘‘
’’جب سے یہاں آئی ہوں طبیعت کچھ سست سی رہتی ہے، دادی جان۔‘‘
دادی زبیدہ نے فکر مندی کے الفاظ میں کہا، ’’سمندر کی ہوا تمہارے لیے مفید ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہوتا تو میں چشمی صاحب سے التجا کرتی کہ تمہیں کشتی کی سیر کے لیے ساتھ لے جائیں۔ بڑا شریف آدمی ہے۔‘‘
مالک جانے میرا دل کیوں دھڑکنے لگا۔ کشی کی سیر! لہروں کی خاموش موسیقی! جھکی ہوئی خمدار ٹہنیوں کے سایہ میں چشمی جیسے ملاح کے ساتھ ایک نامعلوم آبی راستہ پر چلا جانا! یہ سب کچھ کس قدر رومان آفریں تھا۔
’’شام تک وہ لوٹ آئیں گے۔ میں ان کے ساتھ شام کو باہر جاسکتی ہوں دادی جان؟‘‘ میں نے بھولی شکل بناکر پوچھا۔ ’’ہاں کیوں نہیں مگر منیر سے پوچھ لو۔‘‘ منیر سے پوچھ لوں! میری خوشیوں کے افق پر اک سیاہ بدلی ابھرنے لگی۔
ناشتہ کے بعد میں منیر کی مزاج پرسی کے لیے ان کے کمرے کی طرف گئی۔ دروازہ تک جاکر رک گئی۔ کہیں چشمی نے اس بدنصیب آدمی کو میرا پیام پہنچا تو نہیں دیا۔ دل دھک سے رہ گیا۔ ڈرتے ڈرتے پردہ ہٹاکر اندر گئی مگر آثار کچھ ایسے معلوم نہ ہوئے۔ کیونکہ مجھے دیکھ کر منیر کے چہرے پر وہی پرانی شگفتہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نہ جانے کیوں اسے دیکھ کر میرا دل دکھا۔ کچھ دیر بعد میں نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کی کہ میں کیوں ا س سے محبت نہیں کر رہی، کیا باوجود کوشش کے میں اس سے محبت نہ کرسکوں گی؟ اپنے منسوب سے! اپنے ظلم پر خود اپنی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میں نے چہرہ دریچہ کی طرف پھیر لیا۔ پھر بڑی ملائمت سے سوال کیا‘‘ ، منیر! آج تم بہت شگفتہ نظر آرہے ہو۔ کہو رات کیسی کٹی؟‘‘
’’شکریہ! بہت اچھی کٹی۔ نیز محسوس کر رہا ہوں کہ صحت بڑی سرعت سے مجھ پر عودکر رہی ہے۔‘‘
اسی وقت دادی جان اندر آئیں اور کہنے لگیں، ’’خدا نے چاہا تو ایک ہفتہ میں بالکل تندرست ہوجاؤگے۔ پھر انشاء اللہ میں تم دونوں کو ایام عروسی بسر کرنے کوہ فیروز کے پرفضا مرغ زاروں میں چھوڑ دوں گی۔‘‘ منیر مسکرا پڑا۔ میں دور کہیں فضا میں تک رہی اور تشنج کی سی کیفیت محسوس کر رہی تھی۔ کچھ دیر بعد دادی زبیدہ چہل قدمی کے لیے باہر چلی گئیں اور کمرے پر موت کی سی خاموشی طاری ہوگئی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔
ایک ڈوب ڈوب کر ابھر رہا تھا، دوسرا ابھر ابھر کر ڈوب جاتا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے منیر کو دیکھا۔ وہ بغور مجھے تک رہا تھا۔ اس کے گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کا نوجوان چہرہ وفور مسرت سے آفتاب کی طرح دمک رہا تھا۔ وہ مجھ پر جھک کر کہنے لگا، ’’تمہیں کوہ فیروز کے مرغ زار پسند ہیں؟‘‘
’’بہت منیر!‘‘ دھڑکتے ہوئے دل سے میں نے کہا۔
اس نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا۔ نہایت دھیمے لہجہ میں بولا‘‘ ، میری جان! زندگی کی کلی ایسے ہی مرغ زاروں میں کھل کر پھول بنتی ہے۔ روحی اس دن کا خیال کرو۔۔۔ جس دن ہم دونوں۔۔۔ پھولوں سے سجے ہوئے پھلوں سے لدے ہوئے باغیچوں میں چنبیلی کی معطر بیلوں تلے ایک دوسرے کی محبت کا اعتراف کریں گے۔‘‘
میرے دل پر ایک تیر سا لگا کیونکہ میں ابھی تک اس کشتی کا خواب دیکھ رہی تھی جس کا ملاح چشمی تھا۔ دو منٹ بعد مجھے اپنی خاموشی کا احساس ہوا۔ بولی، ’’واقعی منیر! باغیچوں میں چنبیلی کی بیلوں تلے محبت کا راگ گانا بے حد پر لطف ہوگا۔‘‘
‘‘ اور پھر ہم دونوں۔۔۔‘‘ منیر نے جملہ ختم نہ کیا۔ مگر ہم ’’دونوں‘‘ کے لفظ نے میرے کاہیدہ جسم میں ایک ارتعاش پیدا کردیا۔ کون دونوں۔۔۔؟ منیر اور میں۔۔۔؟ یاد و محبت کرنے والے دل؟
کچھ دیر بعد میں منیر کے کمرے سے باہر نکل آئی۔ باغ کے زینے پر کھڑی سوچتی رہی۔ ’’آہ! میری زندگی کا پلاٹ کتنا عجیب ہے! اگر میں منیر سے نفرت کرسکتی تو میں ان الجھنوں میں مبتلا نہ ہوتی۔ اگر محبت کرسکتی تو ان تمام مصائب کا خاتمہ ہوجاتا! مگر آہ! اس شخص سے نہ میں محبت کرسکتی تھی نہ نفرت! میرے دل میں منیر کے لیے ہمدردی موجود تھی۔ میں اپنے آپ کو اس کی گنہگار محسوس کر رہی تھی۔ آہ! گناہ کا احساس! محبت کی مجبوری۔
میں باغ میں چلی گئی اور فوارہ کے قریب ایک کوچ پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں بار بار نہر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ چشمی کی کشتی واپس آرہی ہوگی مگر نہ آئی۔ جب دوپہر کی گرم ہوائیں چلنے لگیں تو میں اپنے کمرے میں آگئی۔ بہت دیر ایک صوفے پر پڑے موجودہ حالات پر غور کرتی رہی۔ چشمی دوپہر کے کھانے پر بھی نہ آئے تو مجھے شبہ ہوا کہ وہ مصلحتاً گھر سے باہر رہنا پسند کرتے ہیں۔
جب سائے ڈھل گیے اور ہواؤں میں دوپہر کے آفتاب کی تمازت کم ہوگئی تو میں بلا ارادہ پھر باغ میں گھاٹ پر نکل آئی اور آنے والی کشتیوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ میں انتظار کی درد انگیز خلش محسوس کر رہی تھی۔ سورج زیتون کی ٹہنیوں کے اوپر تھا۔ کچھ دیر بعد وہ درختوں کی شاخوں تلے نظر آنے لگا۔ نہر کا پانی خالص سونے کی طرح سنہرا ہوگیا اور پورا باغیچہ دھوپ کی لہروں میں جگمگا اٹھا۔ دور۔۔۔ سنہری سنہری لہروں میں ایک ننھی سی نیلے رنگ کی کشتی نظر آنے لگی۔ میرا دل دھڑکا۔ اللہ جانے کیوں یہ آج کل غیر معمولی طور پر دھڑکنے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد میں گنگنانے لگی،
’’چشم قمر کو بھی مرے خوابوں پہ رشک ہے
پیش نظر ترا رخ روشن ہے آج کل
جس آستاں کو سجدۂ پرویں بھی بار تھا
وہ آستاں جبیں کا نشیمن ہے آج کل‘‘
بانس کے سربلند درختوں پر ایک ہد ہد زور سے گارہا تھا کہ اتنے میں وہ نیلی کشتی گھاٹ پر آلگی۔ ادھر میرے دیکھتے دیکھتے چشمی اتر آئے۔ ان کی نظر مجھ پر پڑی۔ ’’آپ یاں کیا کر رہی ہیں خاتون روحی؟‘‘ انہوں نے بچوں کے سادہ لہجہ میں پوچھا۔
لیکن میں کیا جواب دیتی؟ کیا یہ کہہ دیتی کہ آپ کے انتظار نے قریب المرگ کر رکھا تھا۔ تو بہ توبہ۔ یہ کس طرح کہہ سکتی تھی۔ کچھ بوکھلا سی گئی بولی، ’’میں؟ یوں ہی یہاں بیٹھی تھی۔ اندر بہت گرمی تھی۔ آج کا دن بڑا گرم رہا۔ آپ کہاں گییے تھے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی جاپانی وضع کی نارنجی چھتری کھول لی۔ ’’میں ذرا دل بہلانے نکل گیا تھا۔‘‘
’’ہاں‘‘ میں نے کہا، ’’گھر میں وحشت ہوتی ہوگی۔ تیمار داری کوئی دلچسپ کام نہیں۔‘‘
’’یہ آپ کیا فرماتی ہیں خاتون روحی!‘‘ چشمی نے موثر لہجے میں کہا، ’’منیر صاحب کی تیمار داری میرا یک مرغوب فرض ہے۔ آپ نہیں جانتیں مجھے ان سے کتنی محبت ہے۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے کہا۔
’’آپ نہیں جانتیں۔‘‘ چشمی ہنس کر بولے، ’’اس کا اندازہ یا تو منیر لگا سکتے ہیں یا پھر میرا دل۔‘‘ میں اب بھی سنجیدہ تھی۔
’’افوہ! اتنی گہری محبت ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے ایک بے چینی سی محسوس کی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ چشمی نے میری وحشت کو محسوس کیا پھر کہنے لگے، ’’آپ گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں بہت گرمی ہے۔ شمشاد کے درختوں کی طرف چلیے۔ اس چبوترے پر ہمیشہ ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔‘‘ اس نے میرا بازو تھام لیا اور شمشاد کے درختوں کے پاس سنگ مر مر کے ایک سفید چبوترہ پر لے گیا۔
’’میں گھبرائی ہوئی نہیں ہوں۔ صبح سے ایک افسانہ لکھ رہی تھی۔ ایک جگہ پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں تو سوچنے کے لیے ادھر نکل آئی۔ کیا اپنے افسانہ کا پلاٹ آپ کو سناؤں۔ آپ کوئی رائے دے سکیں گے؟‘‘
’’زہے نصیب!‘‘ چشمی نے کہا، ’’مگر میں صائب الرائے نہیں۔ ویسے افسانے بڑے دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ فرمائیے۔‘‘
’’تو سنیے!‘‘ میں نے کہا، ’’مگر افسانہ کچھ زیادہ رنگین ہے، آپ مجھ پر عریاں بیانی کا الزام تو نہ لگائیں گے۔‘‘
’’میری مجال نہیں۔ میں موپاساں کے افسانے پڑھ چکا ہوں۔‘‘ چشمی نے کہا۔
‘‘ تو بہ کیجئے۔ یہ افسانہ ایسا نہیں۔ اس کی عریانی میں بھی زندگی کا درد پوشیدہ ہے۔‘‘
’’فرمائیے۔‘‘ میں نے احتیاطاً ایک دفعہ او رکہا، ’’مجھ پر شوخی کا الزام کسی طرح بھی نہیں لگ سکتا کیونکہ یہ پلاٹ میرا اپنا نہیں۔ میں نے کہیں سے لیا ہے۔ اس لیے اس کی کوئی ذمہ داری مجھ پر نہیں بلکہ اس کے مصنف پر عائد ہوتی ہے۔‘‘
’’بالکل۔‘‘ میں کہنے لگی، ’’افسانہ دو مردوں اور ایک عورت سے شروع ہوتا ہے۔ ’’اُف!‘‘ چشمی نے کہا ’’یہ پلاٹ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں۔۔۔‘‘
’’ٹھہریے۔ دیکھئے چشمی صاحب! پہلے آپ پلاٹ سن لیں پھر ا ٓپ سے آپ کی رائے پوچھی جائے گی۔‘‘
‘‘ بہت اچھا!‘‘
’’تو ایک عورت اور دو مرد۔ عورت اس مرد سے بے پرواہ ہے جو اس سے محبت کرتا ہے۔۔۔ مرد اس عورت کو نہیں چاہتا۔۔۔ جس سے یہ عورت محبت کرتی ہے۔ تو ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہیے؟‘‘ چشمی کہیں دور ہری ہری دوب کے اس پار سنہری لہروں کو دیکھ رہے تھے۔ ’’میں زود فہم نہیں ہوں۔ ایک دفعہ پھر آسان زبان میں کھول کر فرمائیے۔‘‘
’’کھول کر! یہ ظالم اس کتاب کو کھول کر پڑھنا چاہتا ہے! آہ۔۔۔‘‘ میں بولی، ’’آپ نہیں سمجھے۔ عورت اس مرد کو چاہتی ہے جس کے متعلق اسے خود خبر نہیں کہ وہ مرد بھی اس سے محبت کر رہا ہے یا نہیں اور اس مرد کو نہیں چاہتی جس کے متعلق اسے علم ہے کہ وہ اس سے محبت کر رہا ہے۔‘‘ میں کسی قدر کانپ رہی تھی۔ ’’اب میں سمجھ گیا۔‘‘ چشمی نے دور کہیں فضا میں تکتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہیے؟‘‘
’’مگر سوال یہ ہے۔‘‘ چشمی کہنے لگے، عورت جس مرد کو چاہتی اس کے متعلق اس کے پاس اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ وہ مرد بھی اس پر جان نہیں دے رہا۔‘‘
’’کیا۔۔۔ کیا؟‘‘ بیساختہ میں بول پڑی۔ میرے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ ’’آپ نے کیا کہا؟ وہ مرد؟‘‘ چشمی کے چہرے پر بے چینی اور اضطراب کی علامات نمودار ہوئیں، کہنے لگے، ’’میں۔۔۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اپنے محبوب سے عورت کو گمان ہونے کے اسباب کیا ہیں؟‘‘
واقعی میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا، ’’تو۔۔۔ تو کیا وہ مرد بھی۔‘‘ اتنا کہہ کر میں یک لخت رک گئی۔ ’’ہاں تو آپ چپ کیوں ہوگئیں؟ پورا پلاٹ سنا ڈالیے۔‘‘
’’ختم ہوگیا۔‘‘ میں نے کہا، ’’بس اتنی ہی بات پوچھنی تھی۔ آج کئی دن سے اس پلاٹ کو سوچ رہی تھی کہ ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟ کیا وہ مرد بھی۔۔۔ اس سے محبت کرتا ہے۔۔۔؟‘‘
میری آواز لرز گئی۔ میرا چہرہ کیلے کے نوخیز پتے کی طرح زرد پڑگیا۔ ہائے کبھی کاہے کو میں نے ایسی مصیبتیں اٹھائی تھیں؟ میرے معبود مجھ پر رحم کر۔ چشمی نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے پر فکر مندی کے آثار تھے۔ سنجیدہ لہجہ میں بولے‘‘ ، تو کیا عورت کو اس دوسرے مرد سے جس کی محبت کا اسے یقین نہیں، واقعی محبت ہے۔‘‘
‘‘ ہائے، ہاں۔ شدید شدید ہے چشمی صاحب!‘‘ میرے منہ سے نکل گیا۔ پھر میں سہم گئی۔ یہ کیا ہورہا ہے۔ دعا کے پیرایہ میں میرے ہونٹوں سے اک آہ نکل گئی اے عشق! نسوانی خود داری کو اس طرح پامال نہ کرو۔ یہ سچ ہے کہ تیرے آہنی ہاتھوں نے شاہنشاہوں کے تاج چکنا چور کردیے مگر ایک بے بس مظلوم لڑکی پر رحم کر۔ آہ محبت کی مجبوریاں!
بڑی دیر تک ہم خاموش رہے۔ نارنجی رنگ کا بڑا سا آفتاب سمندر کی لہروں میں غرق ہونے لگا۔ باغ پر ایک افسردگی سی چھا گئی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے چشمی کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سفید ہورہا تھا۔ ان کی گہری نیلی آنکھیں اداس نظر آرہی تھیں۔ لیکن دفعتاً انہوں نے کہا، ’’آپ نے افسانہ کے تیسرے فرد کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ اس کا کیا ہوگا؟‘‘ میں بوکھلا سی گئی۔ غمناک لہجہ میں بولی، ’’یہ ایک نامکمل پلاٹ ہے چشمی صاحب۔ میں اسے ختم نہیں کرسکی۔ نہیں معلوم۔۔۔ اس پلاٹ کے اختتام پر کتنی زندگیوں کا انحصار ہے۔‘‘ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ جھٹ میں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔
’’ایسے پلاٹ عموماً بہت مشکل ہوتے ہیں خاتون روحی! بہر حال ایسی افسانوی باتوں پر آپ زیادہ غور نہ فرمایا کیجئے۔‘‘
’’شعر اور افسانہ تو میری جان ہے اور اس پر غور کرنا میری زندگی۔‘‘ میں نے بمشکل کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’چلیے دادی جان چائے پر انتظار کر رہی ہوں گی۔‘‘
مأخذ : گلستاں اور بھی ہیں
مصنف:حجاب امتیاز علی