کہانی کی کہانی:’’ایک ایسی شادی شدہ لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے شوہر سے اسلیے بیزار ہے کہ وہ شاردا نام کی لڑکی سے ملتا رہتا ہے۔ شاردا کے سالگرہ والے دن وہ اسے بتاتا ہے کہ وہ کسی کام سے بمبئی جا رہا ہے۔ اس سے وہ بہت خوش ہوتی ہے مگر شام کو اطلاع ملتی ہے کہ بمبئی جانے والا پلین کریش ہو گیا ہے۔ اس خبر سے وہ ذرا بھی اداس نہیں ہوتی۔ تبھی باہر شور ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اس کا شوہر آکر اسے یہ کہتے ہوئے بانہوں میں بھر لیتا ہے کہ وہ تو شاردا کی سالگرہ کی پارٹی میں گیا تھا۔‘‘
ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔
گرم سرخ لوکے بگولے سارے آسمان پرصبح ہی سے بکھررہے تھے۔
ایسا ہی ایک طوفان آج نوری کے دل سے بھی امڈ رہا تھا۔
یہ زمین، چاند اور سورج اللہ میاں نے ایک بار بناکر آسمان پر چپکادیے ہیں۔ اب دنیا والے ہیں کہ نوری کی طرح انہیں اپنے ساتھ ہنستا ہوا بھی دیکھتے ہیں اور رلابھی دیتے ہیں۔
نوری کی جی چاہ رہا تھا کہ آج سرخ آندھی ضرور آئے۔ اتنی زبردست کہ ہر چیز تہس نہس ہوجائے۔ قیصر کا مسکراتا ہوا چہرہ اور گھنے بال دھول میں نہاجائیں۔ وہ دیکھنے میں جتنی پرسکون لگ رہی تھی، اتنا ہی غصہ اس کے اندر کھول رہا تھا۔ اس بم کی طرح جو اندر ہی اندر آگ اور زہر سے بھر رہاہو وہ بھی باہر سے توقیصر کو بڑی بے ضرر سی نظر آرہی تھی۔ میٹھی میٹھی۔ دوبچوں کی ماں ہوگئی مگر ابھی تک ویسی ہی چھیل چھبیلی ہے۔ دیکھنے میں بالکل لڑکیوں کی طرح لگتی۔
بار بار قیصر کو اپنی طرف دیکھنے سے نوری تاڑگئی کہ اب وہ کوئی نئی کہانی گھڑ رہا ہے۔ قیصر منتظر تھا کہ وہ کمرے کی صفائی کرتے کرتے اس کے قریب آئے تو وہ نوری کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لے۔ ایسے اچانک پیار سے بعض وقت نوری کے غصہ کا ابال بیٹھ جاتا تھا۔ پھر جو اس کا موڈ بدلتا تو وہ اپنی ہنسی سے ہرچیز کو اجال دیتی تھی۔ گھر سے لے کر قیصر کا دل تک۔۔۔
اور کسی صبح (وہ بھی ایسی صبح، جب شاردا کا فون رات کو آتا تھا کہ صبح میری طرف ہو کے آفس جانا) توقیصر کی آنکھ کسی برتن کے ٹوٹنے کی آواز سےکھلتی تھی۔ دھپادھپ بچے پٹ رہے ہیں۔ چیزوں کی اٹھاپٹک ہو رہی ہے۔ اس دن نوری اندر کی جلن سے تلملاکر ہرچیز کو جلاپھینکتی تھی۔ سالن سے لے کر قیصر کا دل تک۔۔۔
قیصر کی نظروں کے تعاقب سے گھبراکر وہ بستر کی چادر بدلتے وقت رک گئی۔
کیا ارادہ ہے آج۔۔۔؟
قیصر جانتا تھا کہ ایسے وقت نوری کی ہر بات کے پیچھے ایک اور بات ہوتی ہے۔ صرف بات ہی کیا، مصلحتوں کے تاش کی پوری گڈی، جس میں محبت، نفرت اور قیصر کو ہرانے، جھٹلانے کے سارے پتے اس نے سمٹ رکھے تھے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ بات محض ایک بات ہو۔
’’اب سب بلاؤزوں کے گریبان اسی کاٹ کے رکھا کرو‘‘، اس نے بڑی جستجو کے بعد ایک اچھا سا جملہ ڈھونڈا اور مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔
نوری نےبراسامنہ بنایا اور پھونکیں مار مار کر سائیڈ ٹیبل پر سے دھواں اڑانے لگی۔
’’اونہہ۔۔۔ ہمارے پاس کیا ہے۔۔۔؟‘‘ وہ نوری کے جملے سے تلما گیا مگر اچھا موڈ بنائے رکھا۔
’’ہاں ذرا کان لگاکے سنو تو معلوم ہو کہ ہمارے دل میں کیا ہے؟‘‘
’’کان لگانے کی کیا ضرورت ہے!‘‘ نوری نے تکیوں کو جھٹکنے کے بہانے دھنادھن پیٹ ڈالا، ’’آپ کے دل میں جو کچھ ہے وہ میں میل بھر دور سے بھی دیکھ سکتی ہوں۔‘‘
’’اب اٹھیے، ساڑھے نو ہوچکے ہیں۔ شاردا آپ کی راہ دیکھ رہی ہوگی۔۔۔‘‘
’’لو میں تو بھول ہی گیا۔۔۔‘‘ اس نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ جیسے شاردا کے پاس جانا اسے یاد ہی نہ تھا۔
’’شاردا کے بچوں کا اسکول میں ایڈمیشن کا سلسلہ ہے لیکن میں کیا کرسکتا ہوں۔ دس بار کہہ چکا ہوں، پھر جانے کیوں مجھے بلارہی ہے؟‘‘
’’گیارہویں بار پھر آپ کے منہ سے یہ بات کہنا اسے اچھا لگتا ہے اس لیے، بلارہی ہے‘‘، نوری نے سارے کمرے کی دھول قیصر کے دل میں بھردی تھی۔ پھر بھی جانے آج کون سی صفائی پر تلی بیٹھی تھی۔ دل پر انگاروں کی طرح لگنے والی اس بات کاجواب قیصر کیا دیتا، اس لیے کھسیاکر وہ جلدی سے باتھ روم میں گھس گیا۔
ہاں، آج تو خوب منہ دھلے گا۔ خوب بال جمائے جائیں گے، آج شاردا کی برتھ ڈے جو ہے۔ رات شاردا نے فون پر یہ بات نہیں کہی تھی۔ مگر نوری بھلا تاریخ بھول سکتی ہے۔ وہ تو پورے سال اس دن کی یاد میں آنسو بہاتی ہے۔ دل جلاتی ہے۔ قیصر نہاکر نکلا تو غصہ میں تپتی ہوئی نوری کے جلتے ہوئے گالوں پر اپنے دونوں ٹھنڈے ہاتھ رکھ دیے۔ وہ چاہتا تھا کہ آج کسی طرح نوری کو ہنستا ہوا چھوڑ جائے۔ مگر نوری نے بڑی نفرت سے اس کے ہاتھ جھٹک دیے۔ جیسے وہ قیصر کی سچی نفرت برداشت کرلے۔ مگر جھوٹی محبت نہیں سہ سکتی۔
’’اچھا! اب ہمارا پیار بھی تمہیں برا لگتا ہے!‘‘
قیصر غصہ میں بھناتا ہوا وارڈروب کھولنے لگا۔ جب اتنی بدمزاج بیوی ملے تو انسان کو حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر عورت سے دل لگائے۔ اس گھر میں جتنا کم رہے اچھا ہے۔آفس ساڑھے د س بجے سے ہے مگر وہ نو بجے ہی گھر سےچلا جاتا ہے۔ اور کسی دن اگر بھولے سے پانچ بجے آجائے تو شام تک نوری سے پانچ بار لڑائی ضرور ہوتی تھی۔ اس لیے قیصر مجبوراً شام کا وقت شاردا کے ہاں گزارتا تھا اور اسی لیے مجبوراً شاردا کے شوہر کو بھی اپنی شامیں کلب میں پیتے ہوئے گزارنا پڑتی تھیں۔ پھر رات کو ندامت کی کالک منہ پر لگائے قیصر گھر آتا تھا تو اس وقت تک نوری کا سفید چہرا بھٹی میں تپنے والے لوہے کی طرح سرخ ہوجاتا تھا۔ چھوٹی سی بات بھی اس کاحیلہ بگاڑ دیتی تھی۔ سارا دن غصہ اور نفرت کی ایک مشین کھٹاکھٹ طنزیہ جملے ڈھالے جاتی۔ اورقیصر کی پہلی بات سنتے ہی وہ بندوق کی طرح تڑاتڑ گولیاں برسانا شروع کردیتی تھی۔
تب قیصر کو شارداکے قہقہے یاد آتے، اس کی خوش مزاجی، قیصر کی ہر غلطی کو معاف کرنے کا انداز۔۔۔ لو۔۔۔ اب رات آگئی۔
نوری کروٹوں پر کروٹیں بدل بدل کر تکیہ آنسوؤں سے بھگوئے جاتی اور قیصر آدھی رات تک آرام چیئر پر بیٹھا سگریٹ پھونکے جاتا۔ السٹرٹیڈ ویکلی میں ہیمامالنی کا وہ فوٹو دیکھے جاتا جو شارداسے بہت ملتا تھا۔۔۔ اور پھر وہ شاردا کےخیالوں میں کھو جاتا۔۔۔ اور نوری پچھتاوے کی آگ میں جلتی۔ بیچارا! میرے غصہ سے ڈرا بیٹھا ہے۔
قیصر نہاکر نکلا مگر ندامت کا پسینہ پیشانی پر چمک رہا تھا۔۔۔ آج کتنا امس ہے۔ اب تو جولائی کا مہینہ آگیا۔۔۔ جانے کیوں ہر چیز میں گڑبڑ چل رہی ہے۔ ورنہ پہلے کبھی مئی کا مہینہ جولائی تک نہیں چلتاتھا۔۔۔ قیصر کی کار گیٹ سے باہر نکل رہی تھی تو نوری نے دیکھا کہ آسمان ایک غضب ناک آندھی پہ تلا بیٹھا ہے۔ مگر اس کے اندر تو بادل برسنا شروع ہوچکے تھے۔
آخ تھو۔۔۔ اس نے اپنی اوقات پرتھوکا۔۔۔ شرم سے ڈوب مر چڑیل۔۔۔ تیرا شوہر آج شاردا کے ساتھ رنگ رلیاں منارہا ہے۔ اس کےلیے تحفے خریدے جائیں گے۔ اس کے گھر کو پھولوں اور روشنیوں سے سجایا جائے گا۔
کمرے میں آکر وہ پلنگ پر لیٹی اور یوں روپڑی جیسے کسی دوسرے بچے کے ہاتھ میں اپنا کھلونا دیکھ کر کلیجہ پھٹنے لگتاہے۔
دوسرے کمرے میں اس کی ساس ریڈیو سن رہی تھی۔ بیٹے کی کارستانیوں سےانجان بنی رہتی ہے۔ کیسے مزے میں جی رہی ہے یہ بڑھیا۔ نہ میاں کے مرنےکادکھ نہ سوکنوں کاجلاپا۔ دن رات سیرسپاٹے، گھر آئی تو ریڈیو کھول کر بیٹھ گئی، جیسے ایک دن خبریں نہ سنیں تو دنیا کا بیڑا غرق ہوجائے۔ بڑی سوشیل ورکر بنتی ہے نا۔۔۔ اسی لیے تو بیٹا بھی اپنی من مانی کرتا ہے۔۔۔ اس گھر میں مظلوم تو صرف نوری ہے۔ بہت اچھا ہوتا جو قیصر کی شادی شاردا سےہوجاتی۔ یہاں پر اس کی ساس کی روشن خیالی دھری رہ گئی کہ وہ ہندو بہو تو گھر نہ لائے گی۔ ماں کے ڈر سے قیصر نے نوری سے نکاح کا اقرار کرلیا ہوگا مگر اس کا دل تو نہ نہ ہی کرتا رہا ہے۔
دوبچوں کا باپ ہوگیا مگر شاردا کے گھر کے پھیرے نہیں چھوڑے۔ ہر وقت شاردا کی قسمت پر افسوس کیا جاتا ہے کہ اس کا شوہر بڑا تنگ نظر ہے، کنجوس ہے۔۔۔
نوری کو شاردا کے شوہر کی شرافت پر غصہ آتا۔ بے شرم ڈرپوک کہیں کا۔۔۔
دن رات کی کڑھن نےنوری کا حسن بجھادیا تھا۔ اسے میک اپ یاد رہا تھا نہ ہنسی مذاق۔ نوری کو یوں دھیرے دھیرے بجھتے دیکھ کر بعض وقت قیصر شرمندہ سا ہوجاتا تھا۔ ہر انسان کے اندر بھی ایک عدالت ہوتی ہے جو اسے کسی الزام سے بری کرتی ہے اور کبھی ساری زندگی کے لیے پھانسی کے تختے پر کھڑا کردیتی ہے۔ایسے ہی اندر کے کسی سمن کی اجرائی پر قیصر نےایک دن بڑی لگاوٹ سے کہا تھا۔
’’ہروقت اتنے خراب کپڑے کیوں پہنتی ہو۔۔۔ کبھی ہمارا بھی تو خیال کیاکرو۔۔۔‘‘
’’آپ کا خیال کرنے والے بہت ہیں۔۔۔‘‘ نوری ادبداکے سفید ساڑی کے پلو سے چائے دانی پکڑتی تھی کہ قیصر کو ہرجگہ داغ ہی داغ نظرآئیں۔ ’’کون ہیں۔۔۔؟‘‘ قیصر غصہ میں پوچھتا۔
نوری کاجی چاہتا تھا کہ اتنی زور سے شاردا کانام لے کہ ساری دنیا سن لے۔ مگر وہ آہستہ سے پوچھتی۔۔۔ ’’کیا میں بھی اتنے ہی زور سے جواب دوں!‘‘
نوری کو ڈر تھا کہ اس کی زبان سے شاردا کا نام سن کر وہ نڈر ہوجائے گا۔۔۔ کیونکہ قیصر تو یوں ظاہر کرتا تھا جیسے شاردا صرف اس کے کالج کے زمانے کی دوست ہے اور اب اس کے دوست کی بیوی بھی ہے۔ اور پھر شاردا اتنے سلیقے سے میک اپ کرتی ہے۔ اتنی اچھی نظمیں لکھتی ہے۔ اتنے مزے دار کھانے بناتی ہے۔۔۔ اور شاردا۔۔ شاردا۔۔۔ شاردا۔۔۔
قیصر نوری کی ہر خوبی اٹھا اٹھا کر شاردا میں ٹانک دیتا تھا۔
اپنی آگ میں خود ہی کھولتی ہوئی نوری پلنگ سے اٹھی۔
قیصر سینٹ کی شیشی کھلی چھوڑ گیا تھا، الماری بھی کھلی پڑی تھی۔ آج اس نےکتنی شرٹس اور ٹائیاں نکال پھینکی تھیں۔
بہت بن سنور کر گیاہے وہ۔۔۔ نوری کے آنسو چھل چھل بہہ نکلے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔
’’ہیلو۔۔۔‘‘ اس نے سسکی روک کر پوچھا۔
’’یہاں آکر معلوم ہوا کہ مجھے آج ہی دوپہر کے پلین سے بمبئی جانا ہے‘‘، قیصر فون پر کہہ رہا تھا۔
’’تو پھر شام کو۔۔۔‘‘ نوری نے خوش ہوکر پوچھا۔
’’نہیں آج نہیں۔۔۔ کل شام کو واپس آؤں گا۔ تم گھبرانا مت، اماں سے بھی کہہ دینا، خدا حافظ۔‘‘
’’خدا حافظ۔‘‘
نوری نے آسمان پر تھمی ہوئی آندھی میں ایک پلین دیکھا جو لمحہ لمحہ اس سے دور ہو رہا تھا۔ مگر نوری کو یوں لگا جیسے برسوں بعد قیصر اس کے پاس آگیا ہے۔۔۔ پورا قیصر۔۔۔ جس میں کوئی حصہ دار نہ تھا۔۔۔ آج وہ شاردا کی برتھ ڈے کیسے بھول گیا۔
اطمینان کاایک ٹھنڈا جھونکا نوری کے دل کی بند کلی کو کھلا گیا۔
نوری کی نگاہ آئینے پر گئی تو وہ ٹھٹک گئی۔۔۔ وہ کالی کلوٹی چڑیل میرا کیا مقابلہ کرے گی! اسے یاد آیا کہ ایک بار کسی فنکشن میں شاردا نے قیصر کے بالوں کی تعریف کی تھی تو نوری کو قیصر کے بالوں سے نفرت ہوگئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ قیصر گنجا ہوجائے۔ جلدی سے بوڑھا ہوجائے تاکہ ندیدی عورتیں اس کی طرف دیکھنا چھوڑدیں۔
’’اماں، اماں، وہ ابھی بمبئی جارہے ہیں پلین سے۔۔۔ کل شام واپس آئیں گے۔۔۔‘‘ وہ خوشی سے بے حال ہوئی جارہی تھی۔
’’پلین سے۔۔۔؟ اللہ خیریت سے لائے‘‘، اس کی ساس کو بیٹے کا سفر کبھی اچھا نہ لگتا تھا۔ اب رات کو یہ اپنا بلڈریشر بڑھائیں گی۔۔۔ نوری نے جھنجلاکر سوچا۔۔۔ پھر جو اسے ہنسی کا دورہ پڑا تو کسی طرح نہ تھما۔ پہلے اس نے بچوں کو ستایا۔ اس سے آنکھ مچلولی کھیلی۔ پھر لان میں جاکر پڑوسن سے ہنسی مذاق کیے۔ آپا کی جہالت پر ہنسی۔۔۔ پھر شام کو اس کا بھائی آیا تو ہونے والی بھابی کی نقل کرکے اس نے سب کو ہنسایا۔
میاں گھر میں نہیں ہے تو کیسی چہک رہی ہےچڑیل! اس کی ساس نے سوچا۔ اور جب وہ بیچارا تھکا ہارا گھر میں داخل ہوتا ہے تو صورت پر کیسے ٹھیکرے برستے ہیں۔
بہو کی ہنسی کسی ساس کو نہیں بھاتی، اس لیے اس کی ساس بھی اپنے کمرے میں جاکر خبریں سننےلگی۔۔۔ اور ریڈیو سے خبریں سنانے والا بھی جیسے اس کی ساس ہی سے مخاطب ہوکر کہہ رہا تھا کہ دہلی سے بمبئی جانے والا پلین آج شعلہ پوش ہوکر گرپڑا۔ کسی مسافر کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
اس خبر کے سنتے ہی نوری کی بچی ہوئی ہنسی بھی دل سے نکل بھاگی۔ اور پھر جانے کس خوف سے چلاکر وہ سارے گھر میں بھاگتی پھری۔ کبھی پلنگ پر جالیٹی۔ پھر قیصر کی شرٹس نکال نکال کر پھینکیں اور آخر میں سینٹ کی بوتل سینے سے لگائے بیچ صحن میں جابیٹھی۔ چپ چاپ۔ جانےزمین پر کیا دیکھ رہی تھی۔
اس کی ساس کی چیخوں سے پل بھر میں سارا محلہ اکٹھا ہوگیا۔ وہ سب اس کی روتی ہوئی ساس کو سنبھال رہے تھے۔ مگر نوری اسی طرح سینٹ کی بوتل ہاتھوں میں تھامے بیٹھی تھی۔ غضب ناک گرمی کے شعلے اس کے چاروں طرف سے گھیر رہے تھے۔ ہوا بند تھی اور آسمان پر آندھی کے بگولے ابھی تک تھمے ہوئے تھے۔ اس کے بہن بھائی نوری کو رلانے کی ہر ممکن کوشش کرچکے تھے۔ مگر وہ کیاجانیں کہ موسموں کی طرح نوری کے دل میں بھی کوئی گڑبڑ چل رہی تھی کہ قیصر کےمرنے کی خبر آگئی مگر نوری کے دل میں کہیں ایک آنسو کی بوند نہیں مل رہی تھی۔ اس کے سامنے تو ایک فلم چل رہی تھی۔ شاردا کے اجڑنے، برباد ہونے کی فلم۔۔۔ اب اس کی شاموں کو رنگین کون بنائے گا۔ اس کے کھانے رکھے رکھے خراب ہوا کریں گے۔۔۔ نوری کے آس پاس کھڑے لوگ اس کی جوانی پر ترس کھا رہے تھے۔ اس کی پڑوسن نےنوری کو غور سے دیکھ کر سوچا۔
’’بچاری کے لیے شوہر نے کچھ نہیں چھوڑا ہے، شاید اپنا غم بھی نہیں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد گیٹ کی طرف سےایک نیا شور بلند ہوا۔ لوگوں کے ہجوم میں گھرا ہوا قیصر اندر آیا اور اس سے لپٹ گیا۔۔۔ ’’نوری۔۔۔ میری نوری میں آگیا۔۔۔‘‘
قیصر کو دیکھ کر وہ اچھل پڑی۔ سینٹ کی بوتل اس کے ہاتھ سے گرگئی اور وہ خوشی سے بے حال ہوکر قیصر کی باہوں میں سماگئی۔
’’میں بمبئی نہیں گیا تھا، شاردا کے ہاں پارٹی میں تھا۔۔۔‘‘ قیصر نے کہا۔
’’کیا بمبئی نہیں گئے تھے۔۔۔؟‘‘ اس نےجیسے قیصر کے بھوت کو چھولیا ہو۔۔۔ وہ اچھل کر پیچھے ہٹی اور زمین پربیٹھ کر روپڑی۔۔۔ نہیں نہیں ایسا مت کہو۔۔۔
باہر صبح سے تھمی ہوئی آندھی اب ہرچیز کو تہہ و بالا کرنے پر تل چکی تھی۔
مأخذ : پرایا گھر
مصنف:ابرار مجیب