اسے ایک تازہ تصویر بنانی تھی لیکن کون سی تصویر؟ یہ اس کے ذہن کے کینوس پر واضح نہ تھا، بس دھندلے دھندلے سے نقوش تھے۔ تخیئل کی اڑان کائنات کی وسعتوں میں محو پرواز تھی۔ مناظر روشن، فلک بوس کوہساروں کی برف پوش چوٹیاں، شفاف ندیوں کی روانی، فضاء میں محو پرواز پرندے ،سرسبز و شاداب درختوں کے سلسلے، دہقان اور لہلہاتے کھیت، مزدور اور کارخانوں کی سیاہ چمنیاں، کیا تھا جو اس کے مشاہدے سے پرے تھا۔
لیکن، لیکن کہیں کوئی کمی تھی۔ ایک خلاء، خلاء جس کا ابھی اسے پوری طرح احساس نہ تھا اور اگر تھا بھی تو وہ اس کو کوئی واضح روپ دینے سے قاصر تھا۔ وہ مسلسل اسی ادھیڑ بن میں تھا اور رہ رہ کر خود سے سوالات کر رہا تھا۔ یہ کیسا خلاء ہے؟ فضائے بسیط، یہ ٓاسمان بہ ظاہر ایک خلاء ہے ۔ نور اور ظلمتوں کی دھوپ چھاؤں کیا اس خلاء کو پر نہیں کر دیتی، کیا سیاروں کی گردشیں، ستاروں کی چمک، سورج کی غضب ناکی اور چاند کا گھٹتا بڑھتا وجود، نامختتم خلاء میں میدان جنگ کی سی کیفیت نہیں پیدا کرتا؟
کیا پتہ یہ خلاء خود میرے وجود سے نکل کر کائنات کی وسعتوں میں بدل گیا ہو۔ وہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوشش کرتا اور اداسی کی خشک لکڑی اس کے اندر سلگنے لگتی جس سے نکلتا گاڑھا کثیف دھواں اس کی آنکھوں میں جلن پیدا کرتا اور آنسوؤں کی دھار بہہ نکلتی۔
اس کے سامنے ایک خالی کینوس تھا۔ جانے کتنے دنوں سے، کلرپوٹ میں رنگ خشک ہوکر اپنی چمک کھو چکے تھے۔ برش اپنے ہونٹوں پر رنگوں کی پیاس لئے نیم جاں کسی کونے میں جیسے آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ایک تصادم جو اس کے اندر نہ جانے کب شروع ہوا تھا، اب تک جاری تھا، لیکن بہرحال اسے کسی بھی صورت اس کرب سے نجات حاصل کرنی تھی، اسے ایک تازہ تصویر بنانی تھی۔۔۔ ایک تصویر، ایک بامعنی تصویر۔
سوال یہ تھا کہ کہ آخر وہ اس بےداغ کینوس پر اس کائنات کے کن داغوں کو جگہ دے۔ کن نقابوں کو چاک کرے، کن درندوں کے نوکیلے پنجوں اور خونخوار دانتوں کو نمایاں کرے۔ کس نسل کے کتوں کو مبتلائے اختلاط دکھائے۔ کن گھروں کو الاؤ بنائے، خون کے کن دریاؤں کو بہتا ہوا دکھائے، کن خوابوں کو قید کرے جو حقیقت کا روپ لے لیتے ہیں تو اجالے اندھیروں میں بدل جاتے ہیں اور زمین پر عفریتوں کا رقص جنوں شروع ہو جاتا ہے۔
’’نہیں میں ان خوفناک منظروں کے دائرے سے نجات چاہتا ہوں، میں اس متعفن فضاء میں سانس بھی نہیں لے سکتا، میرا دم گھٹ رہا ہے، میں مر رہا ہوں۔۔۔ ایسا لگتا ہے، میرے اندر ہی سے کسی مردے کے سڑنے کی بو آ رہی ہے۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔
اداسی کے پھیلتے دھوئیں کے درمیان دفعتاایک پرسکون چہرہ ابھرا۔ چہرہ جس نے دکھوں پر فتح حاصل کی تھی۔ مقدس ہالے کے درمیان ابدی سکون اور لافانی مسکراہٹ لئے ہوئے گوتم کا چہرہ۔ کیا میں کسی ایسے چہرے کو پینٹ کر سکتا ہوں؟
دروازے پر ہلکی دستک ہوئی، اس کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا، اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ سامنے شاعرہ کھڑی تھی، اس کی دوست۔استعاروں اور علامتوں میں زندگی کی معنویت تلاش کرنے والی شاعرہ۔
’’حیران ہو گئے نا، ارے کیا ہو گیا ہے تمہیں، نہ تم گھر آتے ہو، نہ کافی ہاؤس درشن دے رہے ہو، کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ تنگ آکر خود ہی چلی آئی۔ کیا کسی نئے آئیڈیا پر لگے ہوئے ہو آج کل؟ شاعرہ نے پوچھا۔‘‘
’’کوئی آئیڈیا آئیڈیا نہیں اور کچھ بھی نیا نہیں، باسی ٹھہری ہوئی زہریلی ہوا۔ سب کچھ بوسیدہ، تکلیف دہ، فرسودہ۔۔۔ ہا ہا ہا ۔‘‘ وہ قہقہ لگاتے ہوئے بولا۔ ایک زہریلا قہقہہ۔
’’فرسودگی میں ہی کسی نئے پن کی تلاش کا نام فنکاری ہے۔‘‘ شاعرہ نے فن کا عظیم فلسفہ پیش کیا۔
’’میں شاید ایک چہرہ پینٹ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ کھوئی ہوئی آواز میں بولا۔
’’چہرہ! صرف چہرہ!!‘‘ وہ حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگی۔
’’ہاں، اس ناآسودہ، بےچین، بھٹکتی ہوئی بھیڑ کے درمیان ایک مکمل پرسکون، آسودہ چہرہ۔‘‘
’’ارے، اس میں کیا مشکل؟ تو پینٹ کرو نا۔۔۔‘‘ شاعرہ ہنس کر بولی۔
’’مشکل؟ ارے مجھے اس بھاگتی دوڑتی بے چین بھیڑ میں ایک بھی ایسا چہرہ نظر نہیں آتا اور تم کہتی ہو اس میں مشکل کیا ہے؟‘‘
’’اف فوہ، پتہ نہیں تم کیا کہہ رہے ہو، میری تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔‘‘ شاعرہ کچھ جھنجھلا سی گئی۔
’’اوہ، معاف کرنا، لگتا ہے میرا دماغ اپنے ٹھکانے پر نہیں ہے اور سناؤ، کیا حال ہے؟‘‘
’’حال وال چھوڑو اور میری ایک تازہ نظم سنو۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ تو یہ کہو نظم سنانے آئی ہے ہماری عظیم شاعرہ۔‘‘
’’بالکل، تمہیں اس عظیم فن پارے سے محروم تو نہیں رکھ سکتی نا؟ ہا ہا۔‘‘
’’فرسودگی میں نئے پن کی تلاش۔‘‘ کھڑکی سے باہر ایک خارش زدہ کتے کو مکھیوں کے عتاب سے نبرد آزما دیکھتے ہوئے شاید اس نے خود سے کہا تھا۔ باہر چاروں طرف پیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی اور دور ایک پتلی سی پگڈنڈی پر ایک آدی واسی لڑکا سر پر لکڑیوں کا گٹھر لئے چلا جا رہا تھا۔ پیچھے پیچھے شاید اس کی ماں تھی۔ ادھ ننگی سیاہ آدی واسی عورت، اس کی گود میں ایک بچہ بھی تھا۔ ان چہروں میں اس نے گوتم کی آسودگی کو ڈھونڈنا چاہا لیکن یہ چہرے کافی دوری پر تھے۔
’’ہاں تو کیا عنوان ہے تمہاری نظم کا۔ فرسودگی؟‘‘
’’یہ کیا مذاق؟‘‘ شاعرہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔’’میں نے تو آرٹ کے متعلق اپنے نظریے کی وضاحت کی تھی، ضروری نہیں کہ تم بھی اس سے متفق ہو جاؤ۔‘‘
’’ارے نہیں، برا ماننے کی ضرورت نہیں ہے، میرا دماغ ٹھکانے پر نہیں ہے، تم تو سمجھ ہی رہی ہو۔ اچھا، پہلے عنوان بتاؤ۔‘‘
’’ تعبیر! لو سنو‘‘
ایک خواب میری جوان آنکھوں میں رکھ کر وہ ان آنکھوں کی قید سے آزاد ہو گیا
لیکن میں منتظر تھی موسم بہار کی جب کلی پھول بنےگی
شفق کی ایک کرن کی پیاس مجھ میں زندہ تھی
مجھے یقین تھا کہ اس خواب کی ایک تعبیر ہے
میں نے اپنے ارد گرد نظر ڈالی، چاروں طرف سکوت تھا، کوئی چاپ نہیں، ہوا بھی گم سم
میز، کرسیوں اور بستروں پر فسوں کا موسم
دفعتاً مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مجھ پر نوحہ کر رہا ہے اور لان میں گلاب کی ایک کلی کو
کالا کوا اپنی کریہہ چونچ سے زخمی کر رہا ہے
کیا میں نے نہیں سوچا تھا کہ اس خواب کی ایک تعبیر ہے
’’نظم ختم ہو گئی کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ کیوں کیا تمہیں تشنگی کا احساس ہو رہا ہے؟‘‘
’’نہیں، لیکن یہ سب فضول ہے، تم غور نہیں کرتیں، بہت پرانی کہانی ہے یہ، بلکہ یہ صرف ایک کہانی ہے، باربار دہرائی جانے والی کہانی، نہ جانے کب سے سنتا چلا آ رہا ہوں، میری دادی اور شاید دادی کی دادی بھی سناتی تھی، لیکن اس کہانی کے درمیان سے کوئی پرسکون چہرا کہاں ابھرتا ہے۔‘‘ اس کی آواز میں کرب تھا، بےپناہ کرب۔
شاعرہ خاموش رہی اس کے چہرے پر کچھ مبہم سے تاثرات ابھر آئے، شاید وہ حیران تھی، اسے پریشانی کا احساس ہو رہا تھا، اس کی آنکھیں مصور کا جائزہ لے رہی تھیں۔ کچھ ڈھونڈھ رہی تھیں۔ لیکن وہاں کیا تھا، کچھ بھی نہیں، یاوہی سب کچھ تھا جو وہ اتنے دنوں سے دیکھتی چلی آ رہی تھی، پھر بھی کوئی عجیب بات ضرور تھی، اس پرانے پن میں کوئی نئی مگر عجیب و غیریب بات۔
’’تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے؟‘‘ شاعرہ نے ہمدردی سے پوچھا۔
’’تمہیں کیا لگ رہا ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’کمزور اور خبطی سے ہو رہے ہو۔
’’ارے نہیں۔ ہاہا۔‘‘
’’لگتا ہے اس کمرے میں قید ہو کر رہ گئے ہو، ٹی ہاؤس بھی نہیں آتے، معلوم بھی ہے۔ شنکر آیا ہوا ہے۔ تمہارے بارے میں پوچھ رہا تھا۔‘‘ ’’شنک۔۔۔ کر. ر۔۔۔ ر۔۔۔!‘‘ خلاء میں دیکھتے ہوئے اس نے تعجب کا اظہار کیا۔
’’لو۔۔۔ شنکر بھاردواج کو بھی بھول گئے۔‘‘
’’ارے۔۔۔ بھاردواج، ہاہا، وہ مہان سنگیت کار۔ وہ کب آیا۔‘‘
کافی دیر تک دونوں شنکر بھاردواج کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ شنکر اب مین اسٹریم سنیما میں میوزک دینے لگا تھا اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ کئی گانے کافی مقبول ہو چکے تھے۔ کچھ دیر بعد شاعرہ چلی گئی۔ وہ دریچے سے باہر فضائے بسیط میں کسی خلاء کو تلاش کرنے کی ناکام کوشش میں مشغول ہو گیا۔
خالی کینوس، خشک رنگ اور پیاسا برش، اپنے باہمی تعاون سے محروم رائیگانی کی نذر ہو رہے تھے۔ تھوڑی دیر تک وہ دریچے سے باہر دیکھتا رہا، پھر کچھ سوچ کر پلٹا، کلر پوٹ، برش اور خالی کینوس پر ایک گہری نگاہ ڈالی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ سڑک پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ کاروں کا ہجوم تھا۔ رکشوں کا ہجوم تھا۔ آوازوں کا ہجوم تھا اور آوارہ کتوں کا ہجوم تھا۔
اس کے دماغ کی رگیں پھولنے لگیں۔ بےچینی اور ایک قسم کی پیاس سی محسوس ہونے لگی۔ وہ جلدی سے سڑک کے نشیب میں اتر گیا۔ سامنے چٹیل میدان تھا اور ایک پگڈنڈی جس پر وہ چل رہا تھا۔ دور ایک آدی واسی گاؤں کا مبہم سا خاکہ ابھرنے لگا تھا اور دوسری طرف ایک چھدرا جنگل، یہ جنگل بھی ابھی ایک آؤٹ لائن تھا ابھی۔ بغیر سوچے سمجھے وہ پگڈنڈی پر بڑھتا رہا۔ اب سڑک کا شور کچھ ہلکا پڑ چکا تھا اور کے دماغ کی پھولی ہوئی رگیں اعتدال پر آ رہی تھیں۔
گاؤں کے پاس کچھ ننگ دھڑنگ آدی واسی بچے ایک گدلے تالاب میں نہا رہے تھے، پاس ہی میدان میں کچھ بھیڑ بکریاں چر رہی تھیں، کچھ آوارہ کتے اور گندے سوّر ادھر ادھر گندگی میں منہ مار رہے تھے۔ چند ادھ ننگی آدی واسی عورتیں سروں پر لکڑیوں کا گٹھر لئے اس پاس سے گزر گئیں۔ اس کی نگاہ ایک بوڑھے آدی واسی پر پڑی جو ایک کھیت کی مینڈھ پر بیٹھاکچھ کھا رہا تھا، اس کے جسم کا اوپری حصہ جو بےسیاہ تھا، عریاں تھا۔ دھوپ اس کی سیاہ جلد کو بےچمکیلا بنا رہی تھی۔
گاؤں سے لگ کر جنگل شروع ہوتا تھا، اس نے گاؤں اور جنگل کے باہمی رشتے پر غور کیا۔
اس نے جنگل اور گوتم کے باہمی رشتوں پر غور کیا۔
اس نے گوتم اور مینڈھ پر بیٹھے ہوئے نیم برہنہ بوڑھے کے باہمی رشتوں پر غور کیا۔
اس نے بوڑھے اور نروان کے باہمی رشتوں پر غور کیا۔
اس کی نگاہوں کے سامنے نہ جانے کتنے منظر بکھر گئے اور ان منظروں کے درمیان منہ چڑاتا ہوا اس کا خالی کینوس بھی تھا۔ کلر پوٹ میں خشک رنگوں کی المناکی بھی تھی اور برش کی تشنگی بھی۔ اس کی انگلیوں میں بے چینی ہونے لگی، ذہن میں ایک خاکہ ابھرنے لگا۔ وہ اس بوڑھے کے پاس پہنچ گیا۔
’’بابا، تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ بڑو مانجھی۔‘‘
’’تم ابھی یہاں کب تک رہوگے بابا۔‘‘
’’رہےگا، ابھی ادھر ہی رہےگا۔‘‘
’’دیکھو بابا، کہیں جانا مت، ادھر ہی رکنا، میں ابھی آتا ہوں، کام ہے تم سے۔‘‘
’’ہم رکےگا ساب، رکےگا۔‘‘ بوڑھا حیرت سے دیکھتا ہوا بولا۔
وہ تیزی سے پلٹا، بوڑھے کی آنکھوں میں حیرانی کے بادل ابھی تک لہرا رہے تھے۔ گھر پہنچ کر اس نے کینوس، کلرپوٹ اور برش کو سمیٹا اور دوبارہ تیزی کے ساتھ گاؤں کی طرف چل پڑا۔
بوڑھا اس کا منتظر تھا۔
’’میں تمہارا ایک فوٹو بنانا چاہتاہوں۔‘‘ وہ ہانپتے ہوئے بولا۔
’’پھوٹو؟‘‘ بوڑھے نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں، ہاں۔‘‘ وہ بےصبری سے بولا۔’’مگر اس کے لئے تمہیں تھوڑا ٹائم دینا ہوگا۔‘‘
اس نے آس پاس نگاہ ڈالی، جنگل جہاں سے شروع ہوتا تھا وہیں پر ایک پرانا پیپل کا درخت تھا۔ بےحد گھنا۔
’’بابا، تمہیں تکلیف ہوگی، کیا تم اس پیپل کے پیڑ کے سائے میں جیسے میں کہوں اس طرح بیٹھوگے؟‘‘
بوڑھا اب بھی حیران تھا اور اب اس کی حیرانی میں ذرا سی پریشانی بھی شامل ہو گئی تھی۔ وہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پیپل کے پیڑ کے نیچے آنکھ بند کرکے بیٹھ گیا۔ اپنے تئیں اس نے بوڑھے کو گوتم کے پوز میں بیٹھا دیا تھا، کچھ اس طرح جیسے وہ نروان کی منزلیں طے کر رہا ہو۔ کافی دیر تک وہ دنیا و مافیہا سے بےخبر تصویر بناتا رہا، آخری ٹچ دے کر اس نے تصویر کو غور سے دیکھا، اس کے اندر نہ جانے کیوں بےچینی کا ناگ سرسرانے لگا۔ اس نے سامان کو جیسے تیسے سمیٹا، اب شام ہو چلی تھی اور آسمان میں پرندوں کے غول واپسی کا سفر شروع کر چکے تھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا، جنگل اور آسمان دونوں ہی سیاہی مائل ہوتے جا رہے تھے۔ تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا وہ گھر کی طرف لوٹنے لگا۔
گھر پہنچ کر اس نے بنائی ہوئی تصویر کا ازسرنو جائزہ لیا۔ بوڑھے کے چہرے کی عمیق جھریاں، سکڑے ہوئے معدہ سے ہوتی ہوئی صدیوں کی بھوک اس کی بند آنکھوں پر منجمد نظر آ رہی تھی۔ بوڑھے کا پسلیوں بھر سینہ، پپڑی جمے ہونٹ اور اڑے ہوئے بالوں والا سر اس کے اندر اداسی اور سوگواری کا ایک عجیب جذبہ پیدا کرنے لگا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کی حالت میں جنونی کیفیت شامل ہونے لگی۔ آنکھیں تیزی سے گردش کرنے لگیں۔
’’نجات، نروان، نجات، نروان۔‘‘وہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔
اس نے تصویر کو چاک کر ڈالا۔ سامنے میز پر تیز قلم تراش رکھا ہوا تھا اور ذرا فاصلے پر ایک تازہ خالی کینوس اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
اس نے بہ غور اپنی انگلیوں کا جائزہ لیا اور تیزی سے قلم تراش اٹھا لیا۔
مصنف:ابرار مجیب