کہانی کی کہانی:’’یہ ایلیٹ کلاس کی کہانی ہے۔ شبو ایک نوجوان لڑکی ہے جو اپنے گھر میں ڈانسنگ سکھاتی ہے۔ باپ ہر وقت کتابوں میں مستغرق رہتے ہیں اور ماں ڈانسنگ پر چیں بجبیں ہوتی ہے۔ شبو کو جب نعیم سے شدید قسم کی محبت ہو جاتی ہے تو ایک دن اچانک شبو کی ماں ہال میں آ جاتی ہیں اور نعیم کو رمبا سکھاتی ہیں اور پھر دھیرے دھیرے نعیم اور شبو کی ماں ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’اس سے اچھا تو یہ ہے کہ ڈانسنگ اسکول کھول لے اور نہیں تو کیا! جیسے ٹھیکا لے رکھا ہے ڈانس سکھانے کا۔ میں کہتی ہوں یہ آثار اچھے نہیں۔‘‘
’’لیکن اس میں برائی کیا ہے۔ مجھے تو اس میں کوئی عیب نظر نہیں آتا۔‘‘
’’تمہیں کیوں نظر آنے لگا۔ تمہاری آنکھوں پر تو۔۔۔‘‘
’’پردے پڑ گئے ہیں! ہے نا اور تمہاری عقل پر پتھر۔ جو سوچتی ہو الٹا سوچتی ہو۔‘‘
’’ہنہ! میں تو تمہارے بھلے کی کہتی ہوں۔ بدنامی ہوگی تمہاری، ناک کٹےگی تو تمہاری۔۔۔‘‘
’’اور تمہاری نہیں؟‘‘
’’میری کیوں کٹنے لگی۔ لڑکی تمہاری ہے یا میری؟‘‘
’’شبو ایسی لڑکی نہیں۔ تم تو خواہ مخواہ۔‘‘
’’ایسی لڑکیوں کے سر پر کیا سینگ ہوتے ہیں۔ جوان ہے، عمر نکلی جا رہی ہے، جو کچھ نہ کر گزرے تھوڑا ہے۔ میں کہتی ہوں سر پر ہاتھ رکھ کر روؤگے۔‘‘
’’تم تو ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا دیتی ہو۔‘‘
’’اسی کا تو رونا ہے۔ تمہیں تو لاڈلی بیٹی کی ہر بات ذرا سی معلوم ہوتی ہے۔ کمرے کا دروازہ بند ہے۔ ریڈیو گرام بج رہا ہے، کیا ہو رہا ہے؟ ڈانس سکھایا جا رہا ہے، کسے؟ ایک صاحب کو، پہلے کبھی نہ شکل دیکھی نہ نام سنا۔۔۔ ننھی بچی ہے نا۔ جس نے انگلی پکڑ لی اس کے ساتھ ہو لی اور پھر نہ کسی سے پوچھنا گچھنا، نہ کسی سے اجازت مانگی۔‘‘
’’اجازت مانگتی تو تم انکار کر دیتیں؟‘‘
’’اور تم ہاں کہہ دیتے؟‘‘
’’مگر میں کہتا ہوں شبو بچہ تو نہیں۔ اپنا برا بھلا سوچ سکتی ہے اور ملے جلے گی نہیں تو کیا ساری عمر یہیں بیٹھی رہےگی۔‘‘
’’ایسا اندھا کون ہوگا۔ نہ شکل نہ صورت۔‘‘
’’آخر تم کیوں اس کے راستے کا روڑا بنتی ہو۔ نہیں ملے تو نہ سہی۔‘‘
’’میں کیوں بننے لگی اس کے راستے کا روڑا۔ اس کا جو جی چاہے کرے۔ تم جانو اور تمہاری بیٹی، میں تو جب پوچھوں گی جب کچھ کرکے دھرے گی اور یہ کتاب اب بند کرو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’مجھے نیند آ رہی ہے۔‘‘
’’میں ابھی پڑھوں گا۔‘‘
’’پڑھنا۔ پڑھنا۔ پڑھنا۔ دن رات پڑھنا۔ ہنہ!‘‘
مائی ڈیر نجی! خط کا جواب دینے میں ذرا دیر ہوئی تو ناراض ہو گئیں۔ شکایتوں کا دفتر کھول کر بیٹھ گئیں۔ میں نے تو پہلے ہی معافی مانگ لی تھی۔ جانتی تھی کہ میری نجی بڑی تنک مزاج ہے۔ ذرا سی بات پر روٹھ جاتی ہے اور پھر مننے کا نام نہیں لیتی۔ اچھا بھئی ایک بار پھر۔ اب کے سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہوں۔ ہاں تمہاری آپا تم سے معافی مانگ رہی ہے۔ کیا اسے معاف نہیں کروگی؟ کیا اپنی آپا سے اتنی خفا ہو؟
مشغولیت نہیں، اسے کاہلی کہہ سکتی ہو۔ ادھر کچھ عرصہ سے کاہلی مجھ پر اس بری طرح چھائی ہے کہ جتنا میں اپنے پروگراموں کا دائرہ تنگ کرتی جاتی ہوں، اتنا ہی میری کاہل مشغولیت کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ گھنٹے گزر جاتے ہیں کہ میں کچھ نہیں کرتی۔ مگر پھر بھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تمام گھنٹےمیں نے پہاڑ کاٹنے میں گزارے ہیں۔
یہی تو موسم ہے یہاں آنے کا۔ اس بار آنا ملتوی نہ کرو۔ ورنہ ایسا موسم پھر کبھی دیکھنے کو نہ ملےگا۔ تمہارا خیال غلط ہے۔ اس سال گرمی تو یہاں پڑی ہی نہیں۔ عجیب موسم ہے۔ چوبیس گھنٹے کالے دلدار بادل گھرے رہتے ہیں، نہ گرجتے ہیں، نہ برستے ہیں۔ ہر وقت ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چلا کرتے ہیں۔ سچ کہتی ہوں۔ ایسا موسم پھر کبھی نہ پاؤگی۔ جتنی جلدی ہو سکے آ جاؤ۔ تم بہت یاد آتی ہو۔ ڈیڈی بھی تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ حقی سے ملے عرصہ ہو گیا۔ اب گھر پر نہیں آتا۔ نہ جانے کیوں کتراتا ہے، سنا ہے اس کی شادی ہو رہی ہے۔ خان بہادر کی لڑکی سے۔
ان کا نام نعیم ہے۔ قریب قریب روز آتے ہیں۔ میں انہیں ڈانس سکھا رہی ہوں۔ کافی سیکھ گئے ہیں۔ سچ کہتی ہوں نجی۔ میں نے اتنی جلدی ڈانس سیکھتے آج تک کسی کو نہیں دیکھا۔ تین چار دن میں فاکس ٹراٹ سیکھ لیا ہے۔ تم یقین نہیں کروگی، سلووالٹنر وہ اب مجھ سے اچھا کر لیتے ہیں۔ انہیں سلووالٹنر پسند بھی بہت ہے۔ ممی کو زکام ہو گیا تھا۔ مگر اب ٹھیک ہے۔ ان سے تمہارے آنے کا ذکر کیا تھا۔ کچھ بولیں نہیں۔
’’تمہاری شبو۔‘‘
’’تمہارے سر کی قسم چاچا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
’’جا بے۔ تیری بات کا کون یکین کرے۔‘‘
’’قرآن اٹھوا لو چاچا۔ جو جھوٹ نکل جائے تو چور کی سزا سو میری۔‘‘
’’زبان کو لگام دے چھوکرے۔ کیوں ناحک ایسی باتوں میں پاک کتاب کو لاوے ہے۔ سرم نہیں آتی تجھے!‘‘
’’میں جو کہہ رہا ہوں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور تم ہو کہ مانتے ہی نہیں، الٹا مجھی کو جھوٹا ٹھیراتے ہو۔‘‘
’’اچھا یہ بول تو نے دیکھا کیسے۔‘‘
’’میں اوپر جا رہا تھا، شبو بی بی کے کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ بس جھلک نظر آ گئی۔‘‘
’’پر انگریجی ڈانس تو ایسے ہی ہوئے ہے، یہ کوئی اپنا ہندوستانی ناچ تھوڑی ہے کہ دور ہی دور سے۔ یہ تو بلائتی ناچ ہے۔‘‘
’’نہیں چاچا، میں جو کہہ رہا ہوں میں نے اسے شبو بی بی کی چمی لیتے دیکھا۔ تمہارے سر کی قسم چاچا۔‘‘
’’دھیرے بول کسی نے سن لیا تو سامت آ جائےگی۔‘‘
’’فکر نہ کرو۔ فون باجا جو بج رہا ہے۔‘‘
’’ارے یہ بھنڈیا ں کاٹ رہا ہے یا پھل۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر، نہیں تو بیگم صاحب ایسی کھبر لیں گی کہ بس۔ ہاں تو تو نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
’’تمہارے سر کی قسم چاچا اپنی آنکھوں سے، میں تو جھٹ وہیں سیڑھیوں پر دبک گیا۔ ایسے چمٹے ہوئے تھے ایک دوسرے سے۔ پوچھو مت چاچا کہ کیا سین تھا۔‘‘
’’پر یہ بول کہ بیگم صاب کو کیسے کھبر ہو گئی۔‘‘
’’اپن کو نہیں معلوم۔ پر انہیں خبر ہوئی ضرور۔‘‘
’’نئیں۔ مجھے تو یوں جان پڑے ہے کہ نجی بی بی جو آئی ہیں نا۔ تو انی کی کھاطر یہ انتجام ہوا ہے۔ دونوں بہنیں پہلے بھی اسی کمرے میں رہوے تھیں وہ تو جب سے نجی بی بی کی سادی ہوئی ہے تب سے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے پر میں نے خود سنا۔ تمہارے سر کی قسم اپنے کانوں سے سنا۔ بیگم صاب شبو بی بی سے کہہ رہی تھیں دوپہر کو کمرہ خالی رہتا ہے، تو وہیں سکھایا کرو؟‘‘
’’یونہی کہہ دیا ہوگا۔‘‘
’’ارے چاچا تم نہیں جانتے بیگم صاب کو۔ بڑی چلتی پرزہ ہیں۔‘‘
’’اور سنو لونڈے کی باتیں! میں بیگم صاحب کو نئیں جانوں ہوں، ابے جب شبو بی بی کی بالدہ جنت سدھاریں، اس سے پہلے سے صاحب کے پاس ہوں، اللہ جنت نصیب کرے بڑی نیک بی بی تھیں۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے چاچا، پر میں تو کہہ رہا ہوں کہ میں نے کتنی بار بیگم صاب کو شبو بی بی کی ٹوہ لیتے دیکھا۔ وہ دروازہ بند کرکے سمجھتی ہوں گی کہ چھٹی ہوئی۔ پر بیگم صاحب کو ہر بات کی کھبر رہتی ہے، میری مانو چاچا، بیگم صاب نے ضرور اسی لیے ہال کمرے کے واسطے کہا۔‘‘
’’یوں بھی ہو سکتا ہے اور نجی بی بی کے آنے میں تو ابھی کئی روج باکی ہیں۔‘‘
’’یہی تو میں بھی کہہ رہا تھا کہ اس ہال کمرے والے ماملے میں کچھ گڑبڑ گھٹالا ضرور ہے۔‘‘
ڈیڈی آج بڑا مزہ رہا۔ جاتنے ہیں کیا ہوا۔۔۔؟ اونہہ ایسے تھوڑی بتاؤں گی۔ اچھا گیس کیجیے۔۔۔ اونہہ۔۔۔ نہیں۔۔۔ غلط۔۔۔ اچھا میں بتاتی ہوں۔ آج ممی نے بھی نعیم کے ساتھ ڈانس کیا۔ نہیں، انہیں ڈانس سکھایا۔ میں انہیں رمبا سکھا رہی تھی کہ ممی آ گئیں۔۔۔ میرے کمرے میں نہیں ہال میں۔۔۔ افوہ! آپ میری بات تو سنتے ہی نہیں۔ کہہ جو دیا کہ ہم لوگ آج کل ہال کمرے میں ڈانس کرتے ہیں۔۔۔ افوہ! کتنے سوال کرتے ہیں آپ، اس لیے کہ ممی نے کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ دوپہر کو ہال کمرہ خالی رہتا ہے، ہاں تو ممی آ گئیں۔ پہلے تو کچھ دیر دیکھتی رہیں۔ پھر آپ ہی بولیں تمہیں رمبا خود نہیں آتا، سکھاؤگی کیا اور پھر انہوں نے کہا، لاؤ میں سکھاتی ہوں۔ میں تو خود سوچتی تھی کہ ممی سے کہوں کہ وہ نعیم کو رمبا سکھادیں۔ مگر ڈر لگتا تھا کہ کہیں انکار نہ کردیں۔ بس اسی وجہ سے نہیں کہا اور ممی نے خود آفر کر دیا۔
آپ جانتے ہیں! پورے پچاس منٹ سکھایا ممی نے۔ ممی کو رمبا بہت اچھا آتا ہے۔۔۔ آپ ہنسی بہت اڑاتے ہیں۔ میں جھوٹ نہیں کہہ رہی۔ ممی رمبا بہت اچھا کرتی ہیں۔ سچ! اور ممی نے آپ ہی آپ یہ بھی وعدہ کر لیا کہ وہ انہیں روز رمبا سکھایا کریں گی اور پھر بعد میں گانا بھی ہوا۔ میرا نہیں نعیم کا، میں سچ کہتی ہوں ڈیڈی وہ بہت اچھا گاتے ہیں آواز بالکل سہگل سے ملتی ہے۔ بڑا درد ہے ان کی آواز میں۔۔۔ نہیں، انہیں نہیں پسند آیا۔ ممی کو تو سوائے پکے گانوں کے اور کچھ پسند آتا ہی نہیں اور فلمی گانوں سے تو نہ جانے کیوں نفرت ہے۔۔۔ افوہ! آپ پھر کتاب میں کھو گئے۔ میری بات نہیں سنتے۔۔۔ سچ ڈیڈی۔ اچھا کل ہی سنواؤں گی۔ آپ خود اندازہ لگائیے گا۔ کیا آواز ہے؟
میں بستر پر لیٹی ہوئی ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ پڑھ کیا رہی تھی بس یونہی ورق گردانی کر رہی تھی۔ نیند نہیں آ رہی تھی، اس لیے کتاب اٹھالی تھی۔ ویسے تو میں جلد سونے کی عادی ہوں، مگر اس رات نہ جانے کیوں پپوٹے بھاری ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ حالانکہ سارا گھر سنسان پڑا تھا۔ شور و غل کا ذکر کیا، سرگوشیاں تک معدوم تھیں۔ گھر میں صرف ڈیڈی تھے۔ سو وہ شام سے اپنی لائبری میں گھسے ہوئے تھے۔ کھانے کے بعد مجھ سے دو ایک ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ پھر پائپ سلگایا اور چلے گئے۔ گھر میں اور کوئی نہیں تھا۔ شبو آپا اور ممی باہر گئی ہوئی تھیں۔ نعیم صاحب کی روزہ کشائی جو تھی۔ ممی بھی کبھی بڑے مزے کی بات کہہ دیتی ہیں۔ روزہ کشائی! ان کا مطلب تھا نعیم صاحب پہلی مرتبہ ہال روم میں ڈانس کریں گے۔
کئی روز پہلے پروگرام بن چکا تھا۔ شبو آپا مصر تھیں کہ میں بھی چلوں، مگر میں نے صاف انکار کر دیا، اول تو مجھے ڈانس سے کوئی خاص لگاؤ نہیں اور دوسرے میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ میری موجودگی سے ان کی، میرا مطلب ہے شبو آپا اور نعیم صاحب کی ایوننگ میں کسی قسم کی کمی رہ جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ممی کا ان لوگوں کے ساتھ جانا بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔ مگر شبو آپا شاید ممی کی موجودگی کو ضروری سمجھتی تھیں۔ معلوم نہیں ممی خود پروگرام میں شامل ہوگئی تھیں یا شبو آپا نے اصرار کیا تھا۔ مگر مجھے اتنا معلوم ہے کہ شبو آپا کو کسی قسم کا اعتراض ہرگز نہ تھا۔
تو اسی وجہ سے گھر میں سناٹا تھا۔ نوکر بھی کھا پی کر سو چکے تھے۔ ممی وغیرہ کے پروگرام میں رات کا کھانا شامل نہ ہوتا تو نوکروں کو شاید رت جگا کرنا پڑتا۔ کیوں کہ وہ لوگ جلدی لوٹنے والے تھوڑی تھے اور اسی وجہ سے مجھے قدرے تعجب ہوا، جب اچانک دروازہ کھلا اور شبو آپا کمرے میں داخل ہوئیں۔ میری نظریں ان کے چہرے کا جائزہ لینے سے پہلے خود بخود گھڑی کی طرف اٹھ گئیں، ابھی تو دس بھی نہیں بجے تھے۔ بہت سے سوالات میرے دماغ میں پھدکنے لگے۔
’’بڑی جلدی آ گئیں آپ؟‘‘
آپا نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ مجھے ان کی خاموشی کچھ غیرمعمولی لگی۔ سرگوشیاں کرتی ہوئی سی۔ وہ ابھی تک دروازے کے پاس کھڑی ہوئی تھیں۔
’’ممی نہیں آئیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ جواب دے کر وہ دو قدم چلیں۔ میز کے پاس آئیں اور اس پر اپنا سرخ بٹوہ رکھ کر پھر ساکت کھڑی ہو گئیں۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی، دو ایک سوال میری زبان تک آکر رک گئے۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر لیمپ کے شیڈ کو اتنا ترچھا کر دیا کہ روشنی شبو آپا کے چہرے پر پڑنے لگی۔ میرا کلیجہ دھک سے ہوگیا۔ شبو آپا نے جھٹ سے منہ پھیر لیا۔
’’لائٹ آف کر دونجی۔‘‘
میں نے فوراً بیڈ سوئچ دبا دیا۔ وہ جاکر سڑک پر کھلنے والی کھڑکی کے پاس کھڑی ہو گئیں، مگر میری نظر ان کے چہرے پر بھرپور پڑ چکی تھی اور میں نے ان کی بھیگی پلکیں، ان کے ہلدی جیسے گال اور ان گالوں پر آنسوؤں کے نشان دیکھ لیے تھے۔ میں بھی جاکر کھڑکی کے پاس کھڑی ہو گئی۔
’’کیا بات ہے آپا؟ تم رو کیوں رہی ہو؟‘‘ مگر انہوں نے جواب نہیں دیا۔
’’ممی کہاں ہیں؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم۔‘‘
’’تم رو کیوں رہی ہو۔‘‘ وہ پھر چپ سادھ گئیں اور میری پریشانی میں اضافہ ہونے لگا۔
’’آخر ہوا کیا؟‘‘
جواب ندارد۔ شبو آپا میں سو برائیوں کی ایک برائی یہ ہے کہ اگر چپ سادھ لیں گی تو پھر کوئی کچھ ہی کیوں نہ کرے وہ زبان نہ ہلائیں گی، ایک تو ویسے ہی کم گو ہیں باتیں کرنے کا دورہ تو ان پر سال چھ مہینے میں ایک آدھ بار ہی پڑتا تھا۔ ادھر کچھ دنوں سے ہنسنے بولنے لگی ہیں۔ ہشاش بشاش نظر آتی ہیں۔ جیسے تپتی ہوئی زمین پر برسات کا چھینٹا پڑ گیا۔ ورنہ ان کا کام تو بسا اوقات ہوں ہاں سے چلتا ہے، جیسے سن میری رہی ہوں اور سوچ کچھ رہی ہوں۔ عرصہ ہو گیا اکھڑی اکھڑی سی رہتی ہیں اور یہ مرن برت کا مرض دائمی بھی نہیں کوئی پانچ چھ سال پرانا ہوگا۔
آخر میں نے پوچھ ہی ڈالا، ’’اور نعیم صاحب؟‘‘
یا اللہ! ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ میری وحشت چیخنے چلانے پر تل گئی اور کئی وسوسے میرے دماغ کو ٹہوکے دینے لگے۔ لو! وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں اور پھوار موسلادھار بارش میں تبدیل ہو گئی۔ جی تو کچھ اور چاہ رہا تھا، مگر میں ان کا بازو پکڑ کر انہیں بستر کی طرف کھینچنے لگی اور وہ کھنچی چلی آئیں۔ بستر تک۔ جیسے ان میں جان ہی نہ تھی، جو ذرا سی مزاحمت بھی کرتیں۔ انہیں بستر پر بٹھا کر میں نے اپنا دوپٹا ان کی آنکھوں میں ٹھونس دیا۔ پھر وہ اپنے اوپر قابو پانے کی کوشش میں سسکیاں بھرنے لگیں۔ افوہ! کتنی خوشبو آ رہی تھی ان کے کپڑوں سے۔ مگر معاملہ ابھی صاف نہیں ہوا تھا اور میں نے جیسے قسم کھائی تھی کہ اسے صاف کرکے دم لوں گی۔
’’اور نعیم صاحب؟‘‘ وہی چپ۔ مگر اس بار آنسو نہیں ٹپکے۔
’’آپا میں کیا پوچھ رہی ہوں؟‘‘ مگر وہ اسی طرح ایک ہاتھ کے سہارے سر جھکائے خاموش بیٹھی رہیں۔ آخر میری وحشت جھلاہٹ بن کر پھٹ پڑی، ’’سن رہی ہو کہ نہیں!‘‘ ان کی خاموشی ہی ان کا جواب تھا۔ میں نے ہمت ہاردی۔ زیادہ استفسار بےکار ہے۔ میں سمجھ گئی کہ آپا بتائیں گی ضرور مگر اس وقت نہیں۔ چپ ہو گئیں تو بس چپ ہو گئیں۔ اب تو جب یہ چپ ٹوٹے گی تبھی کچھ معلوم ہوگا۔
’’آپ لیٹ جائیے۔‘‘ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ اڑاڑڑادھم۔ جیسے ریت کے گھروندے کو ٹھیس لگ گئی ہو۔ جہاں بیٹھی تھیں وہیں ڈھیر ہوگئیں، میں نے تکیہ اٹھا کر ان کے سر کے نیچے رکھ دیا اور خود ان کے پاس بیٹھ گئی۔ آنکھیں بند تھیں مگر وہ جاگ رہی تھیں، بڑی شدت سے بیدار تھیں۔ بہت دیر ان کے پاس بیٹھی نہ جانے کیا کیا سوچتی رہی۔ ماضی۔ حال۔ مستقبل۔ کل۔ آج۔ کل کے چکر لگاتی رہی۔ ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر دوڑتی رہی، حتی کہ میرے ذہن میں بھنبھناہٹ ہونے لگی۔ جیسے میرا ذہن شہد کی مکھیوں کا چھتہ ہو۔ یہ بھنبھناہٹ تیز اور بلند ہوتی گئی، یہاں تک کہ میں گھبرا کر بستر پر سے اٹھی اور جاکر کھلی ہوئی کھڑکی کے پاس کھڑی ہو گئی۔
آسمان پر بادل تھے، زمین پر اندھیرا تھا، فضا میں خاموشی تھی۔ سڑک سنسان تھی۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ میرے ذہن کے چھتے میں پھر بھنبھناہٹ شروع ہو گئی اور میرا دم لوٹنے لگا۔ ایک خیال ادھر سے آتا اور زن سے ادھر نکل جاتا۔ پھر دوسرا! پھر تیسرا اور کوئی کوئی خیال تو نہ زن سے آتا نہ زن سے جاتا۔ بس جم کر کھڑا ہو جاتا اور آنکھیں مٹکا مٹکا کر میرا منہ چڑانے لگتا۔ میں گھبرا کر آپا کے بستر کی طرف جانے والی تھی کہ ایک کار کھڑکی کے نیچے سڑک کے کنارے آکر رکی۔ میں ٹھٹک گئی، میں کار کو تو پہچان گئی مگر اندھیرا ہونے کی وجہ سے کار کی اگلی سیٹ پربیٹھے ہوئے دونوں انسانوں کو پہچان نہ سکی۔ وہ ایک دوسرے سے چمٹ گئے۔ ایسے چمٹے کہ جدا ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔ آخرکار وہ جدا ہو گئے اور میرے پھیپھڑوں نے ایک لمبا سانس خارج کیا۔ پھر کار کا دروازہ کھلا۔ ان میں سے ایک باہر نکلا۔ میں پہچان گئی یہ ممی تھیں۔ دوسرے کا صرف ہاتھ باہر نکلا۔ جواب میں ممی نے اپنا ہاتھ ہلایا۔ کار اسٹارٹ ہوئی اور یہ جا وہ جا۔ میں نےمڑ کر پیچھے دیکھا۔ شبو آپا اٹھ کر بیٹھ گئی تھیں۔
’’کون تھا؟‘‘
’’ممی!‘‘
میں ان کے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔ انہوں نے نظروں کے ذریعہ مجھ سے ایک اور سوال کیا۔ میں نے جواب دیا، ’’ہاں۔‘‘ اتنے میں زینے پر ممی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میرا سارا بدن تن گیا۔ شبو آپا نے پھر گردن جھکالی تھی۔ قدموں کی چاپ پاس آتی گئی۔ حتی کہ ہمارے کمرے کے سامنے آئی اور آگے نکل گئی۔ ممی ایک فلمی دھن گنگنا رہی تھیں۔ آپا کامحبوب گیت۔ ’’ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں۔‘‘ میری مٹھیاں بھنچ گئیں۔
’’میں ابھی جاکر ڈیڈی سے کہتی ہوں!‘‘ اور میں نے ایک قدم دروازے کی طرف اٹھا بھی لیا۔ مگر آپا کے برف جیسے ٹھنڈے ہاتھ نے میری کلائی پکڑ لی۔ کتنی طاقت آ گئی تھی اس کمزور ہاتھ میں۔ میں ہل بھی نہ سکی۔ پھر اس کمزور ہاتھ نے میری کلائی کو ایک جھٹکا دیا۔ اڑاڑرادھم! جیسے ریت کے گھروندے کو ٹھیس لگ گئی ہو۔ میں شبو آپا کے پاس بستر پر گر پڑی اور میری جلتی ہوئی آنکھوں میں نمی دوڑ چلی۔
مأخذ : تشنہ فریاد
مصنف:ضمیرالدین احمد