جیب و گریباں ٹکڑے ٹکڑے دامن کو بھی تار کیا
کیسے کیسے ہم نے اپنی وحشت کا اظہار کیا
طوق و سلاسل ہم نے پہنے خود کو سپرد دار کیا
ہم خود اپنی جان سے گزرے تب تیرا دیدار کیا
خون جگر آنکھوں سے بہایا غم کا صحرا پار کیا
تیری تمنا کی کیا ہم نے جیون کو آزار کیا
رنج و الم کی بستی میں ہم اب تک تنہا تنہا ہیں
تم سے تھی امید وفا سو تم نے بھی انکار کیا
حسن وفا خودداری غیرت ہر اک کی نیلام ہوئی
ہم لوگوں نے آخر اک دن بستی کو بازار کیا
راہ عمل میں بازی آخر اک دن تم ہی جیت گئے
ہم نے وفا اک بار اگر کی تم نے ستم سو بار کیا
ہم تو ظفرؔ ہر آن اسی کے غم میں ڈوبے رہتے ہیں
جس نے غم کی دولت بخشی ہم پہ بڑا اپکار کیا
شاعر:ظفر انور