خزانہ

0
169
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

ڈاکواور کسان میں کیا فرق ہے؟ رگھیا نے سوچا۔

کسان جب سوکھے سے، مہاجن سے اور زمیندار سے مجبور ہوجاتا ہے تو وہ ڈاکو ہوجاتا ہے۔ کندھے پر ہل لے کر چلنے کے بجائے اب کندھے پر لاٹھی رکھتا ہے، برچھا رکھتا ہے، آگے جاکر بندوق رکھتا ہے۔ کندھے کا بوجھ وہی رہتا ہے۔ پہلے اس کی نظر آسمان پر لگی رہتی تھی اور وہ ہر وقت یہی سوچتا تھا کہ جب کالی کالی بدری آئے گی اور اس کے کھیتوں میں جل تھل کردے گی ساتھ ہی دل میں دھکڑ پکڑ بھی لگی رہتی ہے کہ اس برس بھی بارش نہ ہوئی اور سوکھا پڑا تو کیا ہوگا۔ اب جنگل کے پیڑوں اور پتوں کے پیچھے سے اس کی نظر سڑک پر لگی رہتی ہے جو بل کھاتی، دھول اڑاتی، ایک شہر سے دوسرے شہر کو جاتی ہے۔

کسان کے جیون میں جو اہمیت آسمان کو ہے، وہی ڈاکو کی زندگی میں سڑک کو ہے! کسان آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ ڈاکو سڑک کی طرف۔ آسمان سے صرف دھوپ برسے گی، لوہی چلے گی، یا برکھا ہوگی، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلے گی۔ اس پر کسان کی خوش حالی کا دارومدار ہے۔ سڑک پر صرف مفلس کسانوں کی بیل گاڑیاں گزریں گی، مسافروں سے لدی ہوئی (مگر سب مسافروں کی جیب خالی) ایس۔ ٹی کی بس گزرے گی، یا اپنی جیپ میں کوئی ٹھیکیدار گزرے گا، جس کی ہر جیب سے سو سو کے نوٹ برآمد ہوں گے۔ ڈاکو کی خوش حالی کا دارو مدار اس پر ہے۔

رگھیا کو ڈاکو بنے صرف چند ہی مہینے ہوئے تھے، اس لیے اپنے ساتھیوں شام سنگھ اور ہر نام کی طرح وہ اب تک اس کا عادی نہیں ہوا تھا۔ وہ تو جب باتیں کرتے تھے، ایسا لگتا تھا قتل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ رگھیا نے ان دونوں میں سے ایک کو بھی قتل کرتے نہیں دیکھا تھا۔ زیادہ سے زیادہ ایک ساہو کار کو انھوں نے مار مار کے ادھ موا کردیا تھا کیونکہ وہ اپنی تجوری کی چابیاں نہیں دے رہا تھا۔ لیکن وہ ہمیشہ ایسی باتیں کرتے تھے جیسے قتل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہو۔ ’’ارے وہ دن یاد ہے جب میں نے اس زمین دار کا سر بھُٹا سا اڑا دیا تھا۔‘‘ ایک کہتا اور دوسرا جواب دیتا، ’’وہ رات بھول گئے جب میں نے پورے گاؤں کا صفایا کردیا تھا صفایا، کیوں کہ وہاں کے کسی آدمی نے ہمارے خلاف مخبری کی تھی۔‘‘ اور رگھیا کو کبھی کبھی ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس پر اپنا رعب ڈالنے کے لیے ایسا کہہ رہے ہوں۔ سچ مچ ان دونوں نے کوئی خون نہ کیا ہو۔

رگھیا ڈاکو کیسے بنا، اس کی بھی ایک لمبی کہانی تھی جو ہر وقت اس کے دماغ میں گھومتی تھی۔ ابھی سترہ برس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ باپ نے شادی کردی۔ مالتی اس وقت تیرہ برس کی تھی۔ ایک برس تک اس کے باپ نے مکلا وہ نہیں کیا۔ رگھیا شادی شدہ ہونے پر بھی کنوارہ تھا۔ گاؤں کے دوسرے لڑکے اس کو چھیڑتے تو اس کو بہت برا لگتا۔ اپنے باپ سے وہ کہتا، ’’بابا۔ لڑکی کو اب گھر لے آنا چاہئے۔‘‘ ۔ باپ جواب دیتا، ’’اپنی ماں سے پوچھ۔‘‘ ماں سے یہی بات کہتا تو وہ ہنس کر کہتی، ’’ایسی بے صبری بھی کیا ہے۔ کچا امرود کھانے سے پیٹ میں درد ہوجاتا ہے۔‘‘ ماں باپ یہی کہتے رہے اور کالرا سے مر گئے اور رگھیا دنیا میں اکیلا رہ گیا۔ تب تو اس کو خود ہی مکلا وے کے لیے جانا پڑا۔ مالتی کے باپ سے کہا، ’’گھر کی خیر خبر رکھنے کے لیے کوئی عورت تو چاہئے۔‘‘ اور سومالتی اس کے گھر آگئی اور رگھیا کو ایسا لگا جیسے اس کے سوکھے جیون میں بہار آگئی ہو۔

- Advertisement -

مالتی تو گھر آگئی لیکن اب رگھیا کو معلوم ہوا کہ باپ نے زمین بیل، گھر سب گروی رکھ کے کتنا قرض لیا ہوا تھا۔ ساہوکار نے ہنڈیاں دکھائیں تو رگھیا کے پیروں تلے کی زمین سرک گئی۔ ایک ایک کر کے سب زمین ہل بیل وغیرہ بک گئے۔ رگھیا نے ایک دوسرے اور مقابلتاً خوش حال کسان کے ہاں ایک کھیت مزدور کی نوکری کرلی۔ دن بھر محنت کرتا تو شام کو بارہ آنے ملتے لیکن پھر بھی رگھیا کو گھر آنے کی خوشی ہوتی کیونکہ مالتی اس کے انتظار میں دروازے پر کھڑی رہتی۔ رگھیا کو دیکھتے ہی مالتی مسکرا اٹھتی اور رگھیا کو ایسا معلوم ہوتا کہ اسے دنیا کا سب سے بڑا خزانہ مل گیا ہے۔

پھر ایک دن مالتی نے کہا کہ وہ ماں بننے والی ہے اور رگھیا کا من ناچ اٹھا۔ اس کا جی چاہا کہ برادری میں مٹھائی تقسیم کرے لیکن جب خرچ کا خیال آیا تو دل مسوس کر رہ گیا۔ اس کے بعد کام ختم کرتے ہی وہ گھر آجاتا اور ہر طرح سے مالتی کی دل جوئی کرتا۔ وہ پنگھٹ سے پانی بھر کر لاتی تھی مگر رگھیا نے منع کردیا، ’’میں نے سنا ہے ایسی حالت میں عورتوں کو بوجھا نہیں اٹھانا چاہئے۔‘‘

کھیت سے آکر وہ خود ہی گھڑے بھر کر گھر میں لاتا۔ لوگ اس پر ہنستے بھی کہ عورتوں والا کام کر رہا ہے، مگر وہ برا نہ مانتا، الٹا خوش ہوتا۔ ہنس کر کہتا، ’’عورتوں والا کام تو میری مالتی کر رہی ہے۔ تم دیکھ لینا بیٹا جنے گی۔‘‘ اور رات کو جب سب کام کر کے وہ برابر برابر کھاٹ پر لیٹتے تو وہ مالتی کا ہاتھ اپنے سخت کھردرے ہاتھ میں لے کر کہتا، ’’تم دیکھنا ہمارا بیٹا بڑا بھاگیہ وان ہوگا۔ اس کے پیدا ہوتے ہی ہمارے دلدر دور ہوجائیں گے۔‘‘ اور مالتی کہتی، ’’بڑا بول نہ بولو۔ بھگوان سے ڈرو۔‘‘

مالتی سچ کہتی تھی۔ ساتواں مہینہ تھا کہ ان کے علاقے میں ایسا سوکھا پڑا جیسا ۴۲ء میں پڑا تھا۔ ساون بھادوں کے مہینے گزر گئے اور بارش کے نام کی ایک بوند نہ گری۔ آسمان پر بادلوں کا نام نشان نہیں۔ نہ صرف کھیتیاں سوکھ گئیں بلکہ کنووں میں پانی کی بوند نہ رہی۔ جس کھیت پر رگھیا کام کرتا تھا وہ بھی سوکھ گیا۔ وہاں سے جواب مل گیا۔ پانچ سات دن تو جمع جوڑ پر گزارا کیا مگر بنیے نے اناج کی قیمت دگنی کردی تھی۔ کب تک چلتا۔ چند روز گھر کے برتن بھانڈے بیچ کر کام چلایا۔ اتنے میں گورنمنٹ نے کال کے مارے ہوئے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے ایک بندھ بنانا شروع کیا۔ پہلے تو رگھیا ہی وہاں کام کرتا تھا۔ شام کو پچاس نئے پیسے کماتا مگر بندھ گاؤں سے پانچ میل پر تھا، اس لیے مالتی کو بھی وہ وہاں لے گیا اور دونوں بندھ کے قریب ہی ایک جھونپڑی میں رہنے لگے۔ پچاس پیسے میں دونوں کا گزارا کیسے ہوتا سومالتی نے بھی بند ھ پر اینٹیں ڈھونے کی نوکری کرلی۔ اب رگھیا نے اسے یہ کہہ کر نہیں روکا کہ، ’’ایسی حالت میں عورتوں کو بوجھا نہیں اٹھانا چاہئے۔‘‘

اور سو ایک دن مالتی دھوپ میں کام کر رہی تھی کہ اس کے آنکھوں کے سامنے کئی سورج ناچنے لگے، پھر ایک دم اندھیرا چھا گیا اور وہ بے ہوش ہوکر گر پڑی۔ رگھیا کو معلوم ہوا تو وہ بھاگا ہوا گیا۔ اٹھاکر جونپڑی میں لے گیا۔ مالتی کو ہوش آیا تو اس کے چہرے پر تکلیف کے باوجو دایک عجیب سی پیلی سی مسکراہٹ تھی۔ کہنے لگی، ’’لگتا ہے میرا وقت قریب آگیا ہے، مگر مجھے خون آرہا ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ پھر بے ہوش ہوگئی۔ رگھیا نے ہاتھ لگایا تو بدن بخار سے جل رہا تھا۔

رگھیا ہر طرف دوڑا۔ ایک دائی ملی۔ اس نے کہا، یہ میرے بس سے باہر ہے۔ کوئی ڈاکٹر لاؤ۔ ایک ڈاکٹر ملا۔ اس نے کہا، ’’بدن میں زہر دوڑ گیا ہے۔ ہسپتال لے جاؤ اور کسی بڑے ڈاکٹر کو دکھاؤ۔‘‘ تب کسی نے اس سے کہا، ’’تم ڈاکٹر بابو کے پاس کیو ں نہیں لے جاتے۔ انھوں نے قریب ہی ریلیف کیمپ میں ہسپتال کھول رکھا ہے۔‘‘

سو رگھیا مالتی کو ڈاکٹر بابو کے پاس لے گیا۔ دیکھا کہ بیماروں کی ایک لمبی قطار لگی ہے۔ مالتی کو بیماروں کے کیو میں بٹھا کر رگھیا آگے چلا گیا۔ دیکھا ڈاکٹر بابو ایک نوجوان آدمی ہے جو کچھ مریضوں کو دوا دے رہا ہے، کچھ کو دودھ پلا رہا ہے اور چند کو دوا کے بجائے پڑیا میں باندھ کر کچھ پیسے دے رہا ہے کہ ان کے مرض کا یہی علاج ہے۔

’’ڈاکٹر بابو!‘‘ اس نے چلاکر کہا۔

ڈاکٹر بابو نے ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا اور کہا، ’’لائن میں کھڑے ہوجاؤ۔ جب تمھاری باری آئے گی تب ہی دیکھ سکتا ہوں۔‘‘ اور رگھیا نے چلا کر کہا، ’’ڈاکٹر بابو اتنی دیر میں میری بیوی مر جائے گی۔‘‘ اور یہ سن کر ڈاکٹر بابو اٹھ کھڑْ ہوئے۔

آپریشن کامیاب ہوا۔ ڈاکٹر بابو نے رگھیا سے کہا، ’’مبارک ہو بیٹا ہوا ہے۔‘‘

رگھیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ ڈاکٹر بابو کے پاؤں میں گرپڑا، ‘‘ ڈاکٹر بابو تم سچ مچ بھگوان ہو۔‘‘

’’بھگوان کیا، میں تو انسان بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘ انھوں نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا، ’’تمہارا بیٹا صحیح سلامت ہے مگر تمھاری بیوی کی حالت خطرناک ہے۔ خون دینا پڑے گا۔‘‘

رگھیا نے کہا، ’’میرا خون نکال لیجئے۔‘‘

ڈاکٹر بابو نے اس کا خون نکال کر ٹسٹ کیا لیکن وہ میل نہیں کھایا۔ ڈاکٹر بابو کے پاس خون کا پلازما جو بوتلوں میں محفوظ تھا اس میں بھی جس ٹائپ کا خون درکار تھا وہ نہیں ملا۔ کئی والنٹیروں کا خون ٹسٹ کیا گیا لیکن وہ بھی میچ نہیں ہوا۔ آخر کار ڈاکٹر بابو نے اپنے اسسٹنٹ سے کہا، ’’میرا خون ٹسٹ کر کے دیکھو۔‘‘ اور اسسٹنٹ نے تھوڑی دیر میں کہا، ’’سر آپ کے خون کا ٹائپ وہی ہے۔‘‘

اور سو رگھیا نے عمر میں پہلی بار یہ کرشمہ دیکھا کہ کس طرح ایک انسان اپنا خون دے کر ایک دوسرے انسان کو زندگی دیتا ہے۔ ڈاکٹر بابو اور مالتی برابر برابر لٹا دیے گئے تھے۔ ایک سوئی ڈاکٹر بابو کے بازو میں لگی ہوئی تھی اور ایک اس کی بیوی کے۔ اور ان سوئیوں کے درمیان ایک ربڑ کی نلکی تھی۔ ایک ایک قطرہ کر کے خون ڈاکٹر بابو کی رگوں سے نکل رہا تھا اور مالتی کے جسم میں جارہا تھا۔ خون کیا جارہا تھا مالتی کے بے جان جسم میں نئی جان پڑ رہی تھی۔

رگھیا دونوں پلنگوں کے بیچ میں ایک اسٹول پر بیٹھا تھا۔ خاموش کبھی ادھر دیکھتا تھا کبھی ادھر۔

ڈاکٹر بابو نے مسکراکر اس سے پوچھا، ’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

اس نے کہا، ’’جی۔۔۔ میں۔۔۔ سوچ رہا ہوں یہ سب آپ کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ ‘

ڈاکٹر بابو نے کہا، ’’بھائی یہ تو میرا انسانی فرض ہے۔‘‘

’’مگر یہ فرض تو اور کسی نے نہیں نبھایا۔ آپ کیوں نبھا رہے ہیں؟‘‘

’’یہ سمجھو میں مجبور ہوں۔‘‘

رگھیا کچھ دیر خاموش رہا۔ قطرہ قطرہ خون ڈاکٹر بابو کے بدن سے اس کی بیوی کے بدن میں جارہا تھا اور اس کی آنکھوں میں جان پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ رگھیا سوچتا رہا ابھی یہ نلکی ہٹا لی جائے گی۔ یہ انوکھا رشتہ جو اس میں اور ڈاکٹر بابو میں قائم ہوا ہے وہ ٹوٹ جائے گا۔ اگر اب یہ سوال نہ کیا تو پھر کبھی موقع نہیں ملے گا۔

اس نے پوچھا، ’’ڈاکٹر بابو، آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ بتائیے یہ دنیا کب بدلے گی او رکیسے بدلے گی؟‘‘

ڈاکٹر بابو نے سوچ کر جواب دیا، ’’بدلنے کو تو یہ ایک کاغذ کی پرچی سے بدل سکتی ہے، کب کا فیصلہ تم کروگے۔‘‘

رگھیا کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا ڈاکٹر بابو کیا کہہ رہے ہیں۔ اتنے میں ان کے اسسٹنٹ نے سوئی ان کے بازو سے نکال لی اور مالتی کے بازو میں سے بھی۔ ڈاکٹر بابو کافی کمزور ہوگئے تھے اور کمزوری سے ان کی آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں لیکن رگھیا نے دیکھا کہ ان کے چہرے پر ایک عجیب مسکراہٹ ہے۔

دو دن کے بعد رگھیا مالتی اور اپنے بچے کو لے کر گھر لوٹ آیا لیکن اس عرصے میں ڈاکٹر بابو سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔ سنا کسی اور علاقے میں وبا پھیل گئی ہے اور وہ وہاں چلے گئے ہیں۔ اور اب رگھیا کے سامنے بیوی کا ہی نہیں، بچے کا بھی سوال تھا۔ سوکھا اب بھی گاؤں پر چھایا ہوا تھا۔ اناج کی قیمتیں اب بھی بڑھتی جارہی تھیں۔ ریلیف کے لیے جو بندھ بنا تھا وہ تیار ہوگیا تھا اور اب کال کے مارے گاؤں سے دس میل دور سڑک بنارہے تھے اور سڑک کے دونوں طرف میدان میں پڑے ہوئے تھے۔ مالتی اور بچے کو اس حالت میں رگھیا نہ وہاں لے جاسکتا تھا، نہ گاؤں میں جو آدھے سے زیادہ خالی ہوچکا تھا، اکیلا چھوڑ کر جاسکتا تھا۔ دو دن گاؤں میں فاقہ کیا۔ تیسرے دن ساہو کار کے گھر میں سیندھ لگائی اور اس کی تجوری میں سے پچیس روپے اور اس کے گودام میں سے ایک بوری چاول کی چرائی اور سو رگھیا چور اور چور سے ڈاکو بن گیا۔۔۔

سڑک کو تاکتے تاکتے شام سے رات ہوگئی مگر اس راستے سے ایس ٹی کی بسوں، اِکوں یا بیل گاڑیوں یا اکا دکا پیدل مسافروں کے سوا کوئی نہ گزرا۔ شام سنگھ نے اپنی بندوق رگھیا کو دیتے ہوئے کہا، ’’ذرا اسے سنبھال، میں پیڑ پر چڑھ کر دیکھتا ہوں، ادھر سے کوئی آرہا ہے کیا؟‘‘ شام سنگھ بلی کی طرح خاموشی سے پیڑ پر چڑھ گیا اور رگھیا بندوق کو ہاتھ میں ایسے پکڑے رہا جیسے اسے ڈر ہو کہ آپ سے آپ نہ چل جائے۔

ابھی شام سنگھ پیڑ پر چڑھا ہی تھا کہ ہر نام نے کہا، ’’کوئی گاڑی آرہی ہے۔‘‘ رگھیا کو تو نہ کچھ سنائی دے رہا تھا نہ دکھائی دے رہا تھا، مگر ہر نام پرانا شکاری تھا، اس کو نہ جانے کہا ں سے بو آجاتی تھی۔ شام سنگھ بھی پیڑ سے اتر آیا اور چپکے سے ان کے کان میں کہا، ’’اس طرف سے کوئی موٹر آرہی ہے۔ میں نے ابھی روشنی دیکھی ہے۔‘‘ خاموشی سے انھو ں نے ایک ٹوٹے ہوئے پیڑ کے تنے کو، جس کو انھوں نے اس مقصد کے لیے پہلے سے چنا ہوا تھا، سڑک کے بیچوں بیچ گرا دیا، جیسے آپ سے آپ گر گیا ہو اور پھر سڑک کے کنارے مگر پیڑوں سے چھپ کر ایک طرف رگھیا اور ہر نام اور دوسری طرف شام سنگھ کھڑا ہوگیا۔ بندوق اب تک رگھیا ہی کے ہاتھوں میں تھی۔

گاڑی کی روشنیاں قریب آئیں تو معلوم ہوا کہ ایک جیپ ہے۔ جیپ رکی اور ڈرائیور اور ایک دوسرا آدمی اتر کر پیڑ کے تنے کو ہٹانے لگے تو رگھیا نے دیکھا جیپ میں دو لوہے کی پیٹیاں رکھی ہیں، جن میں تالے اور مہریں لگی ہیں۔ ’’ضرور سرکاری خزانہ کہیں لے جایا جارہا ہے۔‘‘ اس نے سوچا اور عین اس وقت تینوں ڈاکوؤں نے نکل کر دونوں سرکاری آدمیوں کو گھیر لیا۔

تینوں نے ڈھاٹا باندھا ہوا تھا جس میں سے آواز مشکل سے نکلتی تھی پھر بھی ہر نام نے ڈانٹ کر کہا، ’’تم لوگ جان کی خیر چاہتے ہو تو خزانہ چھوڑ دو اور تم لوگ بھاگ جاؤ۔‘‘

ڈرائیور ہکلاتے ہوئے بولا، ’’خ۔۔۔ ز۔۔۔ ا۔۔۔ نہ؟‘‘

دوسرے آدمی نے کہا، ’’یہ خز۔۔۔ ا۔۔۔ نہ۔۔۔ نہیں ہے۔ ہم تو بے۔۔۔ ل۔۔۔ ٹ۔۔۔ بکس۔۔۔ لے۔۔۔ جارے ہیں۔‘‘

’’کوئی بھی بکس ہو۔‘‘ رگھیا نے ڈھاٹے کے پیچھے سے آواز دی اور دو نالی بندوق آگے کر کے کہا، ’’ہم جانتے ہیں کہ یہ سرکاری خزانہ ہے۔ نہیں تو تالا کیوں لگا ہے؟‘‘

’’ان میں ووٹنگ پیپر ہیں بھائی۔‘‘

’’وہ ہم نہیں جانتے۔‘‘ رگھیا نے کہا

شام سنگھ اتنے میں جیپ کے پاس پہنچ گیا تھا۔ اس نے لوہے کی پیٹیوں کا معائنہ کر کے کہا، ’’ضرور خزانہ ہے۔ ورنہ یہ مہر کیوں لگی ہے؟‘‘

’’اب تمھیں کیا بتائیں کہ ووٹنگ پیپر کیا چیز ہے۔۔۔‘‘ جیپ کے ڈرائیو رنے کہا، ’’ووٹنگ پیپر یعنی کاغذ کی پرچیاں جس پر ووٹروں نے اپنی پسند کے نام کے آگے کانٹی بنا رکھی ہے۔‘‘

’’کاغذ کی پرچیوں سے دنیا بدل سکتی ہے۔‘‘ رگھیا کے کان میں ایک آواز آئی۔

’’کس کے نام کے آگے کانٹی لگی ہوئی ہے؟‘‘ رگھیا نے سوال کیا۔

’’کیا معلوم کس کے نام کے آگے ہے۔‘‘ دوسرے آدمی نے جواب دیا۔ ووٹنگ تو خفیہ ہوتی ہے۔‘‘ مگر ڈرائیور نے کہا، ’’ہمارے علاقے میں تو زیادہ تر ووٹ ڈاکٹر بابو کو پڑے ہیں۔‘‘

’’کب۔ اس کا فیصلہ تم کروگے۔‘‘ کس نے رگھیا سے یہ کہا تھا؟

’’ارے رگھیا دیکھتا کیا ہے؟‘‘ شام سنگھ نے کہا، ’’ایک فائر کر نا۔۔۔ یہ سالے ابھی بھاگ جائیں گے۔‘‘

’’اور خزانہ ہمارے قبضے میں ہوگا۔‘‘ ہر نام نے جیپ کی طرف حرکت کرتے ہوئے کہا۔

’’یہ خزانہ بڑا انمول ہے۔‘‘ رگھیا نے ایک ایک لفظ کو تولتے ہوئے کہا۔

’’ہاں ہاں۔۔۔‘‘ ہر نام بولا، ’’ایک ہاتھ میں تالے توڑ دیتا ہوں۔‘‘

اور یہ کہہ کر ہر نام نے ایک چھلانگ لگائی اور اس کا مضبوط ہاتھ لوہے کی پیٹی میں لگے ہوئے تالے پر تھا۔

رگھیا نے لبلبی دبائی اور ہر نام کے ہاتھ پر گولی لگی تو وہ نیچے آرہا۔

’’چلو جلدی جیپ چلاؤ۔‘‘ رگھیا نے ڈرائیور اور اس کے ساتھ کے آدمی کو کہا۔

رگھیا ابھی جیپ پر کود کر بیٹھنے ہی والا تھا کہ شام سنگھ نے پیچھے سے آکر اس سے بندوق چھین لی مگر رگھیا چلتی ہوئی جیپ پر سوار ہوہی گیا۔

’’نمک حرام۔ ہمارے ساتھ غداری کرتا ہے!‘‘ یہ کہہ کر شام سنگھ نے دوسری گولی چلا دی۔

مگر اب جیپ فراٹے بھرتی ہوئی جارہی تھی۔

’’ڈاکٹر بابو۔ اپنی پرچیاں سنبھال لیجئے۔ آپ نے کہا تھا ناکہ ان سے دنیا بدل سکتی ہے؟ اور یہ بھی کہا تھاکہ کب کا فیصلہ تم کروگے۔ وہ میں نے کرلیا۔ آپ مالتی اور میرے بیٹے کا خیال رکھیے گا۔‘‘

اس نے یہ کہا اور وہ گرپڑا۔ تب لوگوں نے دیکھا کہ گولی اس کے سینے میں لگی تھی۔ اور اب ڈاکٹر بابو بھی رگھیا ڈاکو سابق رگھیا کسان کو نہیں بچا سکتے تھے۔۔۔

مأخذ : نئی دھرتی نئے انسان

مصنف:خواجہ احمد عباس

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here