پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں ہم بھی تم بھی
کس قدر بے بس و مجبور ہیں ہم بھی تم بھی
آج بھی اندھی سرنگوں میں بسر کرتے ہیں
اور اجالوں سے بہت دور ہیں ہم بھی تم بھی
کون قاتل ہے یہاں سب کو خبر ہے لیکن
گونگے بہرے بڑے مجبور ہیں ہم بھی تم بھی
جھک کے ملنا ہمیں عزت میں کمی لگتی ہے
کتنے کم ظرف ہیں مغرور ہیں ہم بھی تم بھی
سانس بھی اس کی ہے یہ جسم اسی کا تابع
اے ظفرؔ لاغر و معذور ہیں ہم بھی تم بھی
مأخذ : خموش لب
شاعر:ظفر محمود ظفر