رات بھر سورج کے بن کر ہم سفر واپس ہوئے
شام بچھڑے ہم تو ہنگام سحر واپس ہوئے
جلوہ گاہ ذات سے کب خود نگر واپس ہوئے
اور اگر واپس ہوئے تو بے بصر واپس ہوئے
تھی ہمیں ملحوظ خاطر نیک نامی اس قدر
چوم کر نظروں سے ان کے بام و در واپس ہوئے
مژدہ پرواز عدم کا ہے کہ راحت کی نوید
دم لبوں پر ہے تو اپنے بال و پر واپس ہوئے
شوق منزل تھا کہاں مجھ سا کسی کا معتبر
دو قدم بھی چل نہ پائے ہم سفر واپس ہوئے
کارواں سے جو بھی بچھڑا گرد صحرا ہو گیا
ٹوٹ کر پتے کب اپنی شاخ پر واپس ہوئے
صبح دم لے کر چلی گھر سے تلاش روزگار
شام ہم رخ پر لیے گرد سفر واپس ہوئے
زندگی میں آئیں صبحیں اور شامیں بھی بہت
عہد رفتہ کے کہاں شام و سحر واپس ہوئے
آخرش بجھ ہی گیا ہے خوش گمانی کا چراغ
تم بچھڑ کر پھر کہاں امکان بھر واپس ہوئے
خوش گمانی کا بھرم رکھا نئی پہچان نے
پھر مرے نغموں میں ڈھل کر سیم بر واپس ہوئے
ہوش سے عاری رہی دیوانگی اپنی ظفرؔ
با خبر محفل میں رہ کر بے خبر واپس ہوئے
شاعر:ظفر مرادآبادی