کہانی کی کہانی:’’یہ کہانی جاگیردارانہ نظام کی اخلاقیات پر مبنی ہے۔ گاؤں کا گورکن غتوا مدن کو دس روپے کی ادائگی نہ ہونے کی وجہ سے جوتوں سے مارتا ہے اور اسے کنکروں پر گھسیٹتا ہے۔ میاں کے گھر کا چھوٹا بچہ اس ظلم کو برداشت نہیں کر پاتا اور وہ غتوا کے پتھر کھینچ مارتا ہے جس سے اس کا سر لہو لہان ہو جاتا ہے۔ بچے کو گھر میں صرف اس لئے سزا دی جاتی ہے کہ وہ ان چھوٹے لوگوں کے معاملے میں کیوں پڑا، اگر وہ پلٹ کر مار دیتا تو ساری عزت خاک میں مل جاتی۔ بچہ اپنے موقف پر قائم رہتا ہے لیکن جب اسے معافی مانگنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے تو اس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے۔‘‘
گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے رک کر اپنے سانس کو قابو میں کیا۔ وہ بھاگا تو نہیں تھا مگر تیز تیز ضرور چلا تھا کیونکہ اس کا سانس قدرے پھولا ہوا تھا۔ پھر اس نے گلی پر ایک نظر ڈالی۔ سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اس نے سیڑھیاں چڑھ کر دروازے سے کان لگایا۔ اندر بھی سناٹا تھا جس کے معنی یہ تھے کہ صحن میں اور اس کے بعد جو برآمدہ تھا اس میں اس وقت کوئی نہیں تھا۔ مگر جو پاخانہ صحن سے ملحق تھا اس میں ضرور کوئی تھا کیونکہ پاخانے کی موری میں سے بہہ کر پانی اس نالی میں گر رہا تھا جو گلی کے بیچوں بیچ بہتی تھی۔
اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ بڑے دروازے کے سامنے جو بڑا سا نیم کا پیڑ لگا ہوا تھا، اس کے پتوں میں کوئی پھڑپھڑا کر ساکت ہوگیا۔ پھر پاخانے کے دروازے کی کنڈی کھلنے کی آواز آئی اور وہ تیزی سے کھلے ہوئے دروازے کے ایک پٹ کی آڑ میں ہو گیا۔ اس نے دروازے کی دراز میں سے جھانکا تو اسے اس کا بڑا بھائی ایک ہاتھ سے استنجے کا لوٹا پکڑے اور دوسرے سرے سے ازاربند اڑستے ہوئے برآمدے کی طرف جاتا نظر آیا۔ مگر فوراً بظاہر بلاوجہ بھائی نے رک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ ایک لمحہ توقف کیا اور پھر اپنا رخ دروازے کی طرف موڑ دیا۔
’’ساملیکم۔‘‘ بھائی نے گلی میں گزرتے ہوئے کسی شناسا کو سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ موٹے چاچا ہیں۔ اس نے دروازے کے پیچھے سے اندازہ لگایا۔ انہیں پتہ چلےگا تو کتے خوش ہوں گے۔ ہمیشہ کہتے ہیں کہ۔۔۔
’’دروازے کے پیچھے کیوں چھپا کھڑا ہے؟‘‘ بھائی کی آواز نے اس کے ذہن کو موٹے چاچا کی نصیحت سے ہٹاکر اس سوال کے حل کی تلاش میں لگا دیا کہ انہیں کیسے پتا چلا کہ میں اس دروازے کے پیچھے چھپا کھڑا ہوں۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ دروازے کی اوٹ مکمل تھی۔ پھر اس نے نیچے کی طرف دیکھا۔ لکڑی کے تختوں کا وہ پردہ جس کے پیچھے وہ چھپا تھا، زمین تک نہیں آتا تھا اور اس لیے اس کے کرمچ کے جوتے باہر سے صاف نظر آ رہے ہوں گے۔
’’ہم آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔‘‘ اس نے پردہ ہٹا کر باہر آتے ہوئے کہا۔
’’آنکھ مچولی کھیل رہا ہے!‘‘ بھائی نے اس کے چہرے پر ایک شک بھری نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’اور نہیں تو کیا!‘‘
’’چہرہ دیکھ جاکر شیشے میں۔ پیلا پڑا ہوا ہے۔ جیسے دم نکلا جا رہا ہو ڈر کے مارے۔‘‘
’’کس کا؟ میرا؟‘‘
’’اور نہیں تو کیا میرا!‘‘
’’میرا کوں نکلنے لگا دم۔‘‘ اس نے سینہ پھلا کر کہا، ’’میں نے چوری کی ہے کسی کی۔ میں تو کھیل رہا ہوں۔‘‘ اور یہ کہتے کہتے واقعی اس کے چہرے پر گھبراہٹ کی جگہ خود اعتمادی نے لے لی۔ مگر پھر بھی اس کے بھائی نے کہا، ’’تو نے ضرور کوئی حرکت کی ہے۔ چل اماں پاس۔‘‘ اور اس ہاتھ سے، جس سے وہ استنجے کا لوٹا نہیں پکڑے تھا، بھائی نے اس کے دائیں ہاتھ کی آستین پکڑ لی۔
’’جاؤ۔ نہیں جاتا۔‘‘ اس نے جھٹکا دے کر آستین چھڑا لی۔
’’اچھا۔ ٹھیر۔ ابھی کہتا ہوں اماں سے۔‘‘
’’ہاں۔ کیدو۔‘‘ وہ اور اکڑ گیا اور اس کا بھائی استنجے کے لوٹے میں بچے ہوئے پانی سے مٹی کے فرش پر لہریں بناتا ہوا برآمدہ پار کرکے ڈیوڑھی میں داخل ہو گیا۔
’’دیکھو اماں۔۔۔‘‘ اتی دور جا کر چلایا۔ واں۔ ڈیوڑھی کے اس سرے پر۔ زیادہ تر ییں سے چلاتا ہے۔ گھر میں گھستے ہی اور پھر ڈانٹ پڑتی ہے، ’’مت گلا پھاڑا کر۔ پاس آکر نہیں کہہ سکتا، جو کچھ کہنا ہوتا ہے۔‘‘ کیسی شکل ہو جاتی ہے اس کی جب اماں ڈانٹ پلاتی ہیں اور اس وقت کے راتھا اماں سے کیدوں گا۔ کیدو ہینہ! میں کوئی ڈرتا ہوں اماں سے۔ آں! میں کسی سے بھی نئیں ڈرتا۔ ابا سے بھی نئیں!
گلی کے اس موڑ سے جو قبرستان کی طرف تھا، ملی جلی آوازیں آنے لگیں۔ اس نے بڑھ کر دروازہ بند کیا اور نیم کے سایہ دار درخت کے نیچے پڑے ہوئے جھلنگے کی پٹی پر بیٹھ کر ہمہ تن گوش ہو گیا۔ آوازیں آہستہ آہستہ قریب آتی گئیں اور بلند ہوتی گئیں اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ جو غول وہ قبرستان میں چھوڑ آیا تھا، وہ آوازوں کا طوفان بن کر اس کے سر پر پھٹنے والا ہے۔ پھٹا کرے۔ میں کوئی ڈرتا ہوں۔ میں نے کوئی بری بات تھوڑی کی ہے اور نہیں تو کیا۔ کوئی اس بیچارے کو۔۔۔ دروازے کے سامنے مست ہاتھی جھوم کر ساکت ہو گیا اور پھر سناٹے کو چیرتی ہوئی آواز آئی، ’’بابو جی!‘‘ جیسے کوئی فریاد کر رہا ہو۔ نڈھال۔ مری ہوئی آواز۔
’’نہیں ہیں بابوجی!‘‘
’’بابوجی!‘‘
بابوجی! بابوجی! اس وقت نہیں یاد آئے تھے بابوجی۔ اب آیا ہے شکایت کرنے۔ بابوجی کا بچہ!
’’کیدیا نہیں ہیں بابوجی۔‘‘
’’دروجا تو کھول۔‘‘
یہ بادشا ہے۔ اسے بادشا کوں کہتے ہیں؟ قبریں کھودتا ہے۔ بھیک مانگتا ہے۔ راتوں میں جھیم جھیم باجا بجاتا ہے۔ بادشا! نام تو شاید امیرا ہے!
’’بھاگ جاؤ۔ نہیں کھولتے۔‘‘
’’کنڈی کھٹکھٹاؤ جی۔‘‘ کسی نے رائے دی اور لوہے کی موٹی کنڈی دروازے پر بجنے لگی۔ وہ جھلنگے پر سے اٹھا اور جھپٹ کر دروازے کے پاس گیا۔
’’جاتے ہو کہ نہیں۔‘‘
’’ہم تو بابوجی کے پاس آئے ہیں۔‘‘ کنڈی زور سے بجنے لگی اور کھٹ کھٹ کے شور کے ساتھ کئی اور آوازیں گڈمڈ ہو گئیں۔ کوئی ہنس رہا تھا۔ شاید وہ سارے لونڈے لپاڑے جن کے ساتھ وہ تھوڑی دیر پہلے کھیل رہا تھا، جلوس بناکر تماشا دیکھنے ساتھ ساتھ آئے تھے۔ کچھ لوگ اونچی آواز سے باتیں کر رہے تھے۔ پھر شور ایک دم گھٹ گیا اور ایک ساتھ کئی آوازیں آئیں، ’’بندگی لالہ جی۔‘‘
’’ہرے رام۔ ہرے رام۔ کا بھیوا سے؟‘‘مگر قبل اس کے کہ وہ لالہ جی کے سوال کا جواب سن سکے اس کے کانوں میں اس کی اماں کی آواز آئی، ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ بھی نئیں۔‘‘ اس نے زیرلب کہا اور دروازے سے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
’’میں پوچھ رہی ہوں کیا بات ہے؟‘‘ ماں نے برآمدہ عبور کرتے ہوئے سوال دہرایا، ’’یہ شور کیسا ہے؟ بہرا ہو گیا ہے کیا!‘‘ جواب میں وہ جوتے سے پکی نمکولیوں کو کچلنے لگا۔
’’میں کہہ رہا تھا یہ ضرور کچھ کر کے آیا ہے!‘‘ اس کے بڑے بھائی نے اس کی ماں کے بعد برآمدہ عبور کر کے صحن میں آتے ہوئے کہا۔
’’پھوٹتا کیوں نہیں!‘‘ ماں نے بالکل اس کے سامنے آکر کہا۔ وہ اب بھی چپ رہا مگر ماں کی آواز شاید باہر تک پہنچ گئی تھی کیونکہ اب کنڈی بجنا بند ہو گئی تھی اور کئی حلق بیک وقت ’’بی بی جی۔ بی بی جی۔‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ماں نے دروازے کی طرف جاتے ہوئے باہر والوں سے پوچھا۔
’’میاں نے سر پھوڑ دیا۔‘‘
’’ہائیں! کس کا؟‘‘
’’غتوا کا۔‘‘
ماں نے اس کی طرف ایسے دیکھا گویا انہیں باہر والوں کی بات کا یقین نہ آیا ہو۔ پھر انہوں نے دروازے کی درز میں سے باہر جھانکا اور ان کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔
’’سچ تو کہتا ہے۔‘‘ انہوں نے آہستہ سے کہا، ’’لہو لہان ہو رہا ہے۔‘‘ بھائی نے جو ماں کے پاس ہی کھڑا تھا، ہاتھ بڑھا کر کنڈی کھول دی اور ماں نے اس سے کہا، ’’ان سے پوچھ ہوا کیا تھا۔‘‘
بھائی دروازے کا ایک پٹ کھول کر چوکھٹ پر آ گیا۔ سامنے غتوا کھڑا ہوا تھا۔ اس کے سر کے دائیں حصے سے خون ٹپک رہا تھا۔ خون کے دھبے اس کے کالے کرتے اور چوخانے کے لال تہمد پر نظر آ رہے تھے۔ دو آدمی اسے سہارا دیے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے اور ادھر ادھر وہ لونڈے لپاڑے تھے جن کے ساتھ تھوڑی دیر پہلے وہ کھیل رہا تھا۔ ان میں سے کچھ ہمہ تن توجہ تھے۔ کچھ ہنس رہے تھے۔ کچھ کھسر پھسر کر رہے تھے۔ کچھ سنجیدہ تھے مگر ان کے چہروں پر غتوا سے ہمدردی کے آثار نہیں تھے۔
’’اس سے کہو بیٹھ جائے۔‘‘ ماں نے دروازے کی آڑ سے اس کے بھائی سے کہا۔ غتوا سیڑھیوں پر بیٹھ گیا تو بھائی نے پوچھا، ’’ہوا کیا تھا؟‘‘
’’میں بتاؤں۔‘‘ ایک لونڈے نے جھٹ سے پیش کش کی۔
’’چپ رہ بے۔‘‘ ان دو آدمیوں میں سے ایک نے، جو غتوا کو سہارا دیے ہوئے تھے، اسے ڈانٹ دیا۔ یہ وہی مردود بلدوا ہے۔ اس نے ایک اور نمکولی کچلتے ہوئے سوچا۔
’’ہوا کیا بھیا۔ میاں قبرستان میں کھیل رہے تھے۔ اتنا بڑا گما اٹھا کر مار دیا غتوا کے۔ سر پھٹ گیا۔‘‘
جھوٹا کہیں کا! یہ نہیں بتاتا کہ پہلے کیا ہوا تھا اور یہ بلدوا کا بچہ تو وہاں تھا بھی نئیں اس وقت۔
’’نہیں پہلے غتوا نے مارا تھا۔‘‘ ایک اور لونڈا بولا اور ماں اور بھائی کا چہرہ لال ہو چلا۔
’’اس نے مارا میرے لڑکے کو۔ اس فقیر نے!‘‘ ماں دروازے کی اوٹ میں تلملائی۔
’’جھوٹ بولتا ہے۔ حرامی۔ بی بی جی۔‘‘ غتوا نے لونڈے کو غصیلی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’میں نے چھوا بھی ہو میاں کو تو جو چور کی سجا سو میری۔‘‘
’’اور اس نے مدن کو جو مارا تھا۔‘‘ ایک اور لونڈے نے ہانک لگائی۔
’’ہاں۔ مارا تھا اس نے۔‘‘ وہ کئی نمکولیاں ایک ساتھ کچلتا ہوا ماں کی طرف بڑھا، ’’مدن کو جوتوں سے۔ وہ بچارا چلا رہا تھا اور یہ اسے مارے جارا تھا جوتے سے اور یہ اسے گھسیٹ بھی را تھا۔ اس کے کپڑے پھٹ گئے اور یہ پھر بھی مارتا را اسے۔ اتے بڑے آدمی کو سب کے سامنے۔ سڑک پر۔‘‘
’’تجھے تو نہیں مارا؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
’’نہیں۔ مگر مدن کو جو مارا۔ جوتوں سے۔ وہ بچارا چلا را تھا اور یہ اسے اتے اتے بڑے کنکروں پر گھسیٹ را تھا۔ اس کے سارے کپڑے پھٹ گئے اور کئی جگا خون بھی نکلا۔‘‘
’’میاں ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘ کئی لونڈوں نے ایک ساتھ نعرہ بلند کیا۔
’’پر بی بی جی اس سالے۔۔۔‘‘
’’اس سے کہو یہاں گالی نہ بکے۔‘‘ ماں نے بھائی سے کہا۔
’’کہہ رہی ہیں یہاں گالی نہ بکو۔‘‘
’’گلتی ہو گئی بی بی جی۔ میں کہہ رہا تھا مدن پر میرے دس روپے آتے ہیں وہ حرامی دینے کا نام نہیں لیتا۔ آج ہتھے چڑھ گیا۔ میں نے تقاجا کیا تو ٹال مٹول کرنے لگا۔۔۔‘‘
’’میں نے خود سنا۔ وہ کے را تھا بقرید کے چاند میں ضرور دے دوں گا۔‘‘ اس نے ماں کو مخاطب کرکے کہا۔
’’مگر تجھے ان کے جھگڑوں میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ تیرا سگا لگتا ہے مدن!‘‘ ماں نے اسے ڈانٹ پلائی۔
’’یہ سمجھتی کوں نئیں۔ کے جوراہوں کہ یہ مردود غتوا اسے مار را تھا اور وہ بھی دس روپوں کے لیے۔ دس روپے کیا ہوتے ہیں۔ منے کی مسلمانی میں بیس روپوں کے لڈو باٹے تھے۔ خود کے ری تھیں۔ میں اتا بڑا ہوتا تو گما تھوڑی مارتا۔ خود ٹھکائی کرتا اس غتوا کے بچے کی اور مدن کو بچا لیتا۔ اسے کسی نے بچایا بھی نہیں۔ اتے سارے لوگ تھے۔‘‘
’’ہاں بی بی جی۔ بھلا میاں کو اس حرامی سے کیا مطبل۔‘‘ غتوا نے کہا، ’’اپنے دس روپے بھی گئے اور سر پھٹا اوپر سے۔‘‘
’’سیروں خون بہہ گیا ہوگا۔‘‘ بلدوا نے کہا۔
’’اور نہیں تو کیا۔‘‘ بادشاہ نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’سیروں خون نکل گیا ہوتا تو یہاں نظر نہ آتے۔‘‘ اس کے بھائی نے چڑ کر کہا۔
’’جھوٹا کہیں کا!‘‘
’’خیر سیروں نکلا یا چھٹانک دو چھٹانک۔ نکلا ضرور۔ مگر جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ اب ہم کیا کر سکتے ہیں سوائے۔۔۔‘‘ ماں نے اسے قہر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’اس کی خبر لینے کے۔‘‘
وہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
’’پر بی بی جی۔ اس کا کیا بنےگا۔‘‘ بادشاہ نے غتوا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو اپنے اوپر غشی طاری کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ’’یہ تو گیا کام سے۔ نہ جانے کتنے دنوں کے لیے قبر کھودنا تو الگ اس سے پھاوڑا تک نہ اٹھےگا۔
’’اور دوا دارو پر جو کھرچ ہوگا وہ کہاں سے آئےگا!‘‘ بلدوا نے بات آگے بڑھائی۔ ماں کی نظروں میں اور قہر بھر گیا۔ انہوں نے نیفے کو ٹٹول ٹٹول کر چاندی کا ایک روپیہ برآمد کیا اور اسے بھائی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا، ’’دے دو اسے۔‘‘ بھائی نے روپیہ غتوا کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
’’اس سے کیا بنے گا بی بی جی۔‘‘ غتوا منمنایا۔
’’اس سے جیادہ تو مرہم پٹی پر کھرچ ہو جائےگا۔‘‘ بلدوا بولا۔
’’اور داگدر صاحب دودھ پینے کو جرور بتلائیں گے۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔
ماں سوچنے لگیں کہ اگر وہ پانچ روپے جو منے کے ابا نے آج ہی صبح خالص گھی کے لیے دیے تھے اس فقیر کو دے دیے تو گھی کہاں سے آئےگا اور گھی نہیں ہوگا تو ان کی دال کیسے بگھرےگی اور دال نہیں بگھرےگی تو انہیں ضرور پتہ چل جائےگا کہ روپے کہاں گئے۔ بھائی ماں کے تردد کو سمجھ گیا، ’’جاؤ اور نہیں ملے گا۔ ایک روپیہ بہت ہوتا ہے۔‘‘ اس بار بادشاہ اور بلدوا دونوں ایک ساتھ بولے، ’’یہ تو جلم ہوگا۔ سراسر جلم۔ بےچارے کا سر پھوڑ دیا اور صرف ایک روپیہ دیتے ہو۔‘‘ ماں نے بھائی کو ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور دروازے کے پٹ کو مخاطب کرکے بولیں، ’’اس وقت اور پیسے نہیں ہیں۔ پھر لے لینا۔‘‘
’’پر جرورت تو ابھی ہے بی بی جی۔ دوا دارو کے لیے۔ پھر کیا ہوگا۔‘‘ ماں پھر سوچ میں پڑ گئیں اور اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ لوگ ایک روپیہ پر قناعت کرنے والے نہیں۔ وقت کم ہے۔ منے کے ابا کے آنے کا وقت ہو رہا ہے۔ ان بلاؤں کو اس وقت تو کسی نہ کسی طرح ٹالنا ہی پڑےگا۔۔۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بھائی کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا نقشی پاندان میں کتھے کی کلہیا کے نیچے ایک پانچ روپے کا نوٹ رکھا ہے۔ وہ نکال لاؤ۔‘‘
بھائی نے غتوا کے ہاتھ پر جب پانچ روپے کا نوٹ رکھا تو تینوں فقیروں نے ایک بار پھر احتجاج کیا کہ پانچ روپے تو بہت کم ہوتے ہیں۔ کم از کم دس تو ہونے چاہئیں۔ مگر اس بار ان کا احتجاج کمزور تھا اور ماں اور بھائی کی ’’بس‘‘ زوردار، اس لیے معاملہ ہو گیا اور آگے آگے تینوں فقیر اور ان کے پیچھے لونڈے لپاڑے ایک جلوس کی شکل میں روانہ ہو گئے۔
’’ٹھیر تو۔ چلا کدھر۔‘‘ وہ بھاگنے یا فرار ہونے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ جب بھائی نے دروازہ بند کرکے کنڈی لگائی تھی تو اس کی نظریں نہ جانے کیوں برآمدے کی طرف اٹھ گئی تھیں جہاں اسے تخت پر نانی بیٹھی نظر آئی تھیں۔ نانی کے پاس گھس کر بیٹھنا اسے ہمیشہ سے پسند تھا، خاص کر ایسے موقعوں پر جب ڈانٹ ڈپٹ یا مار پٹائی کا خطرہ ہوتا۔ حالانکہ یہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ایسے موقعوں پر وہ اس کی زیادہ مدد کرنے سے قاصر رہتی ہیں کیونکہ اماں اور ابا دونوں کی، خاص کر ابا کی تاکید تھی کہ اس قسم کے ناجائز لاڈ پیار سے لڑکے کو خراب نہ کیا جائے۔۔۔ اور نانی بیچاری کا کوئی ہے ہی نہیں۔ تبھی تو ڈرتی ہیں ابا سے۔۔۔ تو اس کے قدم آپ ہی آپ برآمدے کی طرف اٹھ گئے تھے جہاں نانی تخت پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ بھاگنے یا فرار ہونے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔
وہ رک گیا اور کنکھیوں سےان ٹانگوں کو دیکھنے لگا جو مارکین کے تنگ پاجامے میں لپٹی ہوئی تھیں اور کلکتیہ سلیپروں میں پڑے پیروں کی مدد سے سپڑ، سپڑ اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔
’’اب بتا!‘‘ ماں نے اس کے ایک کان کو امیٹھتے ہوئے کہا، ’’کیوں پھوڑا تونے اس کا سر!‘‘
’’کے جو دیا۔‘‘ اس نے جلتے ہوئے کان کو چھڑانے کی کوشش کیے بغیر کہا۔
’’کیا کیدیا۔۔۔‘‘ بھائی نے کہا جو آکر بالکل اس کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔
’’بول۔ کیا کیدیا!‘‘ ماں نے کان کی کری کے لوچ سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈانٹا۔
ان کی سمجھ میں نہیں آئےگا۔ پھر بتانے سے فائدہ! لیکن پھر بھی اس نے اتنا تو کہہ ہی دیا، ’’وہ مدن کو جو مار را تھا۔ جوتوں سے اور۔۔۔‘‘
’’پھر وہی بکواس۔‘‘ ماں نے کان چھوڑ کر تھپڑ تانتے ہوئے کہا، ’’تیرا کون سا سگا لگتا ہے وہ مدن کا بچہ!‘‘
’’ان لونڈوں کے ساتھ کھیل کے اس کی عادتیں خراب ہو گئی ہیں۔‘‘ بھائی بولا۔
’’یہ بلا وجے بولے جا رہے ہیں بیچ میں۔ بڑے آئے کئیں کے۔‘‘
’’اتنی دفع منع کیا مت کھیلا کر ان دھنے جلاہوں کے لونڈوں کے ساتھ، مگر اس کو تو چین نہیں پڑتا بغیر ان کے چوتڑوں میں گھسے۔ کمبخت کہیں کا۔‘‘ اور ساتھ ہی چٹاخ سے ایک تھپڑ پڑا جس نے اس کی آنکھوں کے سامنے تارے بکھیر دیے۔ سارے بدن کا خون کھنچ کر اس کے چہرے میں جمع ہو گیا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے رخساروں میں شعلے لپک رہے ہیں۔ اس کی آنکھیں بھیگ چلیں مگر وہ رویا نہیں۔
’’جب دیکھو قبرستان میں۔ ابھی سے یہ اطوار ہیں تو بڑا ہو کر نہ جانے کیا قیامتیں ڈھائےگا۔‘‘ ایک اور تھپڑ پڑا مگر اس بار اس کا دماغ بھنایا نہیں اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ جو خون اس کے چہرے میں جمع ہو گیا تھا، تیزی سے بدن کے دوسرے حصوں میں واپس جا رہا ہے۔ اس کا بدن تننے لگا اور جب اس نے تیسرے تھپڑ کو روکنے کے لیے سر اٹھا کر سینہ تان کر اپنا بایاں ہاتھ اوپر اٹھایا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی ماں کا اٹھا ہوا ہاتھ تھا، مگر اس کے ذہن کے سامنے ایک تصویر تھی جس میں ایک آدمی، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس، سپید کنکروں کی سڑک پر کھنچا جا رہا تھا۔ وہ بار بار کبھی دایاں اور کبھی بایاں ہاتھ اوپر اٹھا رہا تھا تاکہ اپنے چہرے اور سر کو اس جوتے کی زد سے بچاسکے جو پے در پے اس کے اوپر برس رہا تھا۔
وہ ایک قدم پیچھے ہٹا تو ماں نے بڑھ کر اس کا بازو پکڑ لیا، ’’جاتا کہاں ہے۔ بول۔ پھر کرے گا ایسی حرکت!‘‘ اس نے جھٹکا دے کر اپنا بازو چھڑا لیا اور اس کے منہ سے نکلا، ’’ہاں۔‘‘ یہ سن کر اس کے کان اور اس کا ذہن بھونچکے رہ گئے۔
’تیری یہ مجال!‘‘ ماں اس کی طرف لپکیں تو وہ برآمدے کی طرف بھاگا اور جب ماں نے دیکھا کہ وہ ان کی زد سے باہر ہو چکا ہے تو دائیں پیر کی سلیپر اتار کراس کا نشانہ بنایا۔ وہ برآمدے میں داخل ہوا رہا تھا جب سلیپر اس کے سر پر پڑی تو وہ جیسے جم کر رہ گیا۔ جو کام دو سخت تھپڑ نہ کر پائے تھے وہ سلیپر نے کیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ رونے لگا حالانکہ سلیپر اچھلتی ہوئی پڑی تھی۔
’’بہت ہو گیا بیٹی۔‘‘ نانی نے تسبیح رکھتے ہوئے کہا، ’’جوتے سے کسی کو نہیں مارتے۔ کتابوں میں لکھا ہے۔‘‘
’’اس کی حرکتیں نہیں دیکھتیں۔ اس کا سر پھوڑ دیا اور کہتا ہے ہاں۔ کل کلاں کو کچھ اور کر کے بیٹھے گا۔ کوئی اس سے پوچھے تجھے کیا پڑی پرائے پھٹے میں پیر اڑانے کی۔‘‘
’’میں تو اڑاؤں گا۔‘‘ میں تو اڑاؤں گا۔ میں تو اڑاؤں گا۔‘‘ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ مگر اس کا گریہ بےصدا تھا۔
’’بالشت بھر کا ہے اور لمبے تڑنگے آدمیوں کے سر پھوڑتا ہے۔ ابھی سے یہ حال ہے۔‘‘
’’میں تو پھوڑوں گا۔ میں تو پھوڑوں گا۔ میں تو پھوڑوں گا۔‘‘
’’چھ روپیوں پر پانی پھروا دیا منحوس نے۔ آنے دو انہیں۔ ایسی ٹھکائی کرواؤں گی کہ پھر نام نہیں لےگا باہر جانے کا۔‘‘
’’میں تو جاؤں گا۔ میں تو جاؤں گا۔ میں تو جاؤں گا۔‘‘ لیکن ’’ان‘‘ کے ذکر نے آنسوؤں کی رفتار میں کمی پیدا کر دی اور وہ جاکر نانی کے پاس تخت پر بیٹھ گیا۔
’’بیٹھ جانانی کے کولہے سے لگ کر۔ لیکن یہ یاد رکھ کہ آج تجھے کھانا ہرگز نہیں ملےگا۔‘‘ ماں نے سلیپر میں پیر ڈالتے ہوئے کہا اور پھر وہ ڈیوڑھی میں سے ہوتی ہوئی بکتی جھکتی اندر چلی گئیں اور بھائی باہر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کے باپ گھر میں داخل ہوئے۔ ترکی ٹوپی پہنے پھندنا ہلاتے اور چھڑی گھماتے ہوئے حسب معمول وہ سیدھے اندر چلے گئے۔ وہ نانی کے کولہے سے لگا ان کو کنکھیوں سےایسے دیکھتا رہا گویا پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہو اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو اس کے کان ان آوازوں پر لگ گئے جو مکان کے اندرونی حصے میں ان کی موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی تھیں۔ چپل جھاڑنے کی آواز۔ پیک تھوکنے کی آواز۔ منہ دھونے میں گلا صاف کرنے کی آواز اور ماں سے باتیں کرنے کی آواز۔ پھر برتن کھٹکنے لگے اور وہ اندازہ لگانے لگا کہ اب اماں دیگچی میں سے لوکی کا بھرتا نکال کرتام چینی کی رکیبی میں رکھ رَئی ہیں اور اب چولہے پر سے ماش کی گھی میں گھٹی ہوئی دال کی رکیبی اٹھا کر سینی میں رکھ دی ہے اور اب روٹی نکالنے کے لیے انہوں نے بھگونہ کھولا ہے اور اب وہ سینی اٹھاکر اس چارپائی کی طرف چلی ہیں جس پر بیٹھ کر ابا کھانا کھاتے ہیں۔
قبرستان کی طرف جانے سے پہلے اس نے باورچی خانے کا ایک چکر لگایا تھا اور ماں کو لوکی کا بھرتہ بناتے اور ماش کی دال گھوٹتے دیکھا تھا۔ اسے یہ دونوں چیزیں بہت پسند تھیں۔ لوکی کا بھرتہ جس میں پٹنہ کی مرچوں کے بڑے بڑے ٹکڑے پڑے ہوتے تھے اور ماش کی اجلی دال جسے خالص گھی میں خوب گھوٹا جاتا تھا۔ بھرتے اور دال کا خیال آتے ہی اسے بھوک لگ آئی مگر یہ سوچ کر کہ ابھی تو اماں ابا کو کھانا کھلا رہی ہوں گی، اس نے اپنی بھوک کا ذکر نانی تک سے نہیں کیا اور تھوک نگل کر ان آوازوں کا انتظار کرنے لگا جو اسے بتائیں گی کہ ابا کھانا کھا چکے۔ جب کلی کرنے اور دوبارہ برتن کھٹکنے کی آواز آئی تو اس سے نہ رہا گیا اور وہ بےقدموں ڈیوڑھی کی طرف چلا۔ نانی نے، جو وظیفہ پڑھتے وقت منہ میں گھنگنیاں بھر لیا کرتی تھیں، ’’ہوں‘‘ کی تو وہ لمحہ بھر کے لیے رکا مگر اس کی سمجھ میں اس ’’ہوں‘‘ کا مطلب نہ آیا اور وہ ڈیوڑھی میں داخل ہو گیا۔
ڈیوڑھی کا دوسرا دروازہ اس دالان میں کھلتا تھا جس میں کئی پلنگ بچھے ہوئے تھے۔ دالان سے ملحق باورچی خانہ تھا جو اس جگہ سے صاف نظر آ رہا تھا، جہاں وہ ڈیوڑھی میں کھڑا ہوا تھا اور دالان کے سامنے صحن تھا جو باہر والے صحن سے چھوٹا تھا۔ صحن کے بعد ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں باپ اور ماں منے کے ساتھ سویا کرتے تھے اور جس کا دروازہ اکثر بھڑا رہا کرتا تھا۔ دروازہ اس وقت بھی بھڑا ہوا تھا۔ صحن میں اس کے باپ بغیر کالر کی قمیص کے اندر ہاتھ ڈالے ٹہل ٹہل کر پیٹ سہلا رہے تھے اور اس کی ماں باورچی خانے میں کھٹر پٹر کر رہی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ دالان پار کر کے باورچی خانے میں گھس گیا اور ماں کے سامنے بت بن کر کھڑا ہو گیا۔
’’کیوں آیا ہے یہاں؟‘‘ماں نے غصے سے مگر آہستہ سے کہا۔
’’بھوک لگی ہے۔‘‘
’’لگا کرے۔ میں نے کہہ دیا آج نہیں ملےگا تجھے کھانا۔‘‘
’’بہت بھوک لگی ہے۔‘‘ وہ گڑگڑایا۔
’’کچھ بھی ہو۔ آج تجھے بھوکا ہی سونا پڑےگا۔ تیری یہی سزا ہے۔‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘ باپ نے ٹہلنا جاری رکھتے ہوئے ایک لمبی ڈکار لے کر پوچھا۔ ان کی آواز میں گرج تو وہی تھی جس سے وہ سہم جایا کرتا تھا مگر غصے کی تلوار نہیں تھی۔۔۔ ابا اتے برے نہیں۔ اماں بلاوجہ ڈرایا کرتی ہیں۔ پیار بھی کرتے ہیں۔ کل لیمن جوس لاکر دیے تھے۔۔۔ وہ لاڈ میں آ گیا، ’’دیکھو ابا۔ اماں کھانا نہیں دے رہی ہیں۔‘‘
’’کیوں، نہیں دیتیں کھانا لال بیٹے کو؟‘‘
اب دیکھیں کیسے نہیں دیتیں کھانا۔ لال بیٹا! میں تو کالا ہوں۔ مگر پیار میں مجھے ہمیشہ لال بیٹا کہتے ہیں۔
’’میری شکایتیں کرنے چلا ہے۔‘‘ اماں اٹھ کھڑی ہوئیں، ’’اور اپنے کرتوت نہیں بیان کرتا۔‘‘
’’دیکھو ابا۔‘‘ وہ صحن میں آ گیا اور باپ سے قدم ملانے لگا۔ ’’وہ غتوا ہے نا وہ غتوا۔‘‘
’’ہوں!‘‘
’’تو وہ غتوا اسے مدن کو مار را تھا۔ جوتوں سے۔۔۔‘‘
’’کیتا تھا میرے دس روپے نہیں دیے اس نے۔۔۔‘‘
’’یہ کمبخت فقیر ہر وقت لڑا کرتے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ اور ابا وہ اس بچارے کو کنکروں پر گھسیٹ را تھا اور اس کے۔۔۔‘‘
’’ساری یوسف زلیخا سنا ڈالےگا اور یہ نہیں بتائےگا کہ تونے کیا کیا۔‘‘ ماں بیچ میں بول پڑیں۔
’’کیا کیا اس نے؟‘‘ باپ ابھی تک ٹہل رہے تھے۔ لیکن وہ اب ان سے قدم نہیں ملا رہا تھا۔
’’سر پھوڑ دیا اس نے غتوا کا اور کیا کیا۔‘‘ باپ ایک لمحے کے لیے رکے، ’’سچ!‘‘
’’اور نہیں تو کیا۔‘‘
’’اٹھا کے گھما دے مارا اس کے سرپر۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’وہ مدن کو جو مار را تھا۔‘‘
’’بڑا آیا مدن کا سگا۔‘‘
’’غلطی سے لگ گیا ہوگا۔‘‘
’’نہیں وہ شکایت لے کے آیا تھا۔ میں نے خود دیکھا اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور میں نے ڈانٹا تو کہنے لگا میں تو اور پھوڑوں گا اس کا سر۔‘‘
اتی بڑی ہوکر بھی اماں جھوٹ بولتی ہیں۔ میں نے یہ کب کا تھا۔ میں نے تو صرف ہاں کا تھا۔
’’مگر ابا اتے بہت سے لوگ تھے لیکن مدن کو کوئی بھی نہیں بچا رہا تھا۔‘‘
’’تو تو اقرار کر رہا ہے کہ تونے غتوا کا سر پھوڑا۔‘‘
وہ خاموش رہا۔ باپ کی آواز میں اب تلوار چمک رہی تھی۔
’’بول۔‘‘
وہ پھر بھی چپ رہا۔
’’اور اوپر سے سینہ زوری کرتا ہے اور پھوڑوں گا اس کا سر۔ وہ اگر رسید کر دیتا دو جھانپڑ تو عزت خاک میں مل جاتی کہ نہیں۔ وہ مدن کو مار رہا تھا تو مارنے دیتا۔ وہ چاہے اسے جان سے مار ڈالتا۔ تجھے اس سے کیا مطلب۔ بالشت بھر کا ہوا نہیں اور ابھی سے لفنگے بچوں کی عادتیں سیکھنے لگا۔‘‘
’’یہی تو میں کہتی ہوں کہ اگر ابھی سے سختی نہیں کی گئی تو بالکل بگڑ جائےگا۔ میں نے تو کہہ دیا ہے کہ آج کھانا نہیں ملےگا۔‘‘
’’ایک وقت کھانا نہ ملنے سے کیا ہوگا۔ مرغا بناؤ اسے۔‘‘ وہ ٹہلتے ٹہلتے رک گئے، ’’چل۔ بن چل کے مرغا۔‘‘ اور جب وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا تو باپ نے اپنی آواز میں کئی بادلوں کی گرج بھر کر ڈانٹا، ’’چلتا ہے کہ۔۔۔‘‘ وہ سہم گیا۔ باپ نے ہاتھ اٹھا لیا تھا۔ وہ جاکر دالان میں مرغا بن گیا۔
چراغ جل گئے۔ سب، سوائے نانی کے کھانا کھا چکے۔ باپ اور ماں اپنے کمرے میں چلے گئے اور وہ مرغا بنا رہا۔ اس کے ہاتھ دکھنے لگے۔ اس کی کمر دکھنے لگی۔ اس کے کان جلنے لگے۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ مگر وہ رویا نہیں۔ سزا نےاس شے کو جو اس کے اندر کہیں چھپی ہوئی تھی اور جو کبھی کبھار پگھل پگھل کر اس کی آنکھوں کے راستے بہا کرتی تھی، سخت کر دیا تھا۔ دو ایک بار اسے یہ خیال آیا کہ چپکے سے باورچی خانے میں سے کچھ نکال کر کھائے۔ خالی روٹی ہی سہی اور پھر مرغا بن جائے، مگر اس نے اس خیال کو زیادہ دیر نہیں ٹھہرنے دیا۔ کوئی چیز اس کے اندر کمان کی طرح کھنچ گئی تھی جو اس فعل کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ کوئی چیز جو اس سے کہہ رہی تھی کہ تیرے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔ تجھ پر ظلم ہو رہا ہے۔ تو اس ظلم، اس ناانصافی کا مقابلہ چہے کسی طرح کر، چوری کرکے نہ کر۔۔۔ ہاں چوری۔ بھیا جو آرام سے بستر میں گھسا کتاب پڑھ رہا ہے کیا کہےگا اور نانی کیا کہیں جو نہ جانے کیوں چپ ہیں۔ جو نہ جانے کیوں لیٹتی نہیں۔ جو بیٹھی ہوئی نہ جانے کیا سوچ رہی ہیں۔
لیکن اس کے جسم میں ایک اور شے بھی تھی، جو پہلے تو آہستہ آہستہ اس کے معدے کو کھرچ رہی تھی اور اب گویا نکیلے چاقوؤں سے اس میں ہزاروں نہیں لاکھوں چھید کر رہی تھی اور آہستہ آہستہ یہ شے اس کے اندر کی دنیا کی دیگر تمام اشیاء پر حاوی ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنےلگے۔ پھر نانی بستر پر سے اٹھیں اور اس کے پاس آئیں۔ انہوں نے پہلے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسے مرغے سے انسان بنایا اور جب یہ انسان اکڑی ٹانگوں پر کھڑا ہوتے ہوئے لڑکھڑایا تو انہوں نے اسے سہارا دے کر اپنی ٹانگوں سے لگا لیا۔
’’بہت بھوک لگ رہی ہے نانی۔‘‘ اس نے سسکی کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’مجھے معلوم ہے میرے لال۔‘‘ انہوں نے اس کے سرپر دوبارہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’جاؤ۔ جا کر ابا سے معافی مانگ لو۔ وہ ضرور معاف کر دیں گے۔‘‘
معافی! اس کے حلق میں جیسے ایک گولا سا پھنس گیا، ’’کاہے کی مافی! نانی تم بھی!‘‘ اور نانی نے گویا اس کے بےآواز احتجاج کو سمجھ لیا، ’’ورنہ کھانا نہیں ملےگا اور مرغا الگ بننا پڑےگا۔‘‘
کئی ہزار لمحات میں تنگ آنگن کو پار کرکے جب وہ اس سے بھی تنگ کمرے کے اس دروازے پر پہنچا جو اکثر بھڑا رہا کرتا تھا تو اندر سے حقے کی گڑگڑاہٹ کی آواز آئی۔ کئی ہزار لمحات تک وہ بلاوجہ اس گڑگڑاہٹ پر کان لگائے رہا اور پھر اپنے آنسوؤں پر بدقت تمام قابو پاکر اس نے بھڑے ہوئے دروازے سے منہ لگاکر کہا، ’’ابا۔ ماف کر دیجیے۔ اب ایسی غلطی نہیں کروں گا۔‘‘
ابھی آخری لفظ اس کے کانوں میں گونج رہا تھا کہ اس کے اندر وہ شے جو کمان کی طرح کھنچی ہوئی تھی، چٹاخ سے ٹوٹ گئی اور آنسوؤں اور سسکیوں کا ایک بہت بڑا سیلاب اسے ایک حقیر تنکے کی طرح بہا لے گیا۔
مصنف:ضمیرالدین احمد