خود کشی

0
178
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

عورت: آج کل کے زمانے کی فیشن ایبل عورت 

چچا: پرانی وضع کے بزرگ 

ہیر: ہیررانجھا ڈرامہ کی ہیر۔ وہی لباس 

نوکرانی: جوان عورت خادماؤں کے لباس میں 

پردہ اُٹھتا ہے سٹیج پر بالکل اندھیرا چھایا ہے سامنے ایک عورت کرسی پر بیٹھی ہے بال کھلے ہیں صرف اس کے چہرے پر روشنی پڑ رہی ہے عقب میں آرکسٹرا پر ایک درد ناک دُھن بجائی جارہی ہے۔ 

- Advertisement -

عورت اُٹھتی ہے اور سفید رومال سے اپنے آنسو پونچھتی ہے۔ 

عورت (سسکیاں لیتی ہے)۔۔۔ میری دنیا تاریک ہو گئی ہے۔۔۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ اے خدا اب کیا ہو گا! زندگی میں اب کیا لُطف باقی رہ گیا ہے؟۔۔۔ وہ جس سے مجھے محبت تھی وہ جس کی خاطر میں زندہ تھی۔۔۔ وہ جو میرے دل کی دھڑکن تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے سو گئی ہے۔۔۔ اب میں کیا ہوں؟۔۔۔ اس کے بغیر کیا میری زندگی ایسا ساز نہیں جس کی ساری طرزیں علیحدہ کر دی گئی ہوں۔۔۔جس کے سارے تار نوچ ڈالے گئے ہوں۔۔۔موت۔۔۔ آہ۔۔۔ظالم موت۔۔۔ تو نے کچھ دیر تو صبر کیا ہوتا۔۔۔ اتنی جلدی کیا تھی۔۔۔ دنیا میں مجھے کئی آدمی مرنے کے لیئے تیار مل جاتے۔ وہ تو ابھی زندہ رہنا چاہتا تھا۔۔۔ 

اس نے تو ابھی محبت کی دنیا بسائی ہی تھی کہ تو نے اُسکا سر آغوش میں لے لیا۔۔۔۔(روتی ہے)۔۔۔ میں کیا سوچ رہی ہوں۔۔۔ یہ رونا دھونا کیسا۔۔۔ اس کے ساتھ تو میری زندگی کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔۔۔ مجھے خود کشی میں دیر نہ کرنی چاہیئے۔ 

(آہستہ آہستہ اسٹیج کا اندھیرا دُور ہونا شروع ہوتا ہے چند لمحات میں پورا اسٹیج روشن ہو جاتا ہے۔ عورت اپنے پریشان بال سنوارتی ہے کرسی پر بیٹھتی ہے اور گھنٹی بجاتی ہے عقبی موسیقی بند ہو جاتی ہے) 

عورت: مجھے فوراً خود کشی کر لینی چاہیئے۔ 

(نوکرانی داخل ہوتی ہے) 

نوکرانی: جی سرکار! 

عورت: میں خود کشی کرنا چاہتی ہوں 

نوکرانی: کب سرکار 

عورت: ابھی۔ اسی وقت! 

نوکرانی: بہت اچھا سرکار: 

عورت: چچا جان کو بھیج دو یہاں۔ 

نوکرانی: بہت اچھا سرکار 

(چلی جاتی ہے) 

عورت: (اُٹھ کر فیصلہ کن لہجے میں) میں خود کشی کر لُوں گی۔ چچا جان کی سخت گیری اور قدامت پرستی ہی کے باعث میرے محبوب نے جان دی ہے اگر چچا جان شادی پر رضا مند ہو جاتے تو اس کی صحت چٹکیوں میں اچھی ہو جاتی۔ مگر وہ اپنی ہٹ پر قائم رہے اور۔۔۔اور۔۔۔ 

(قدموں کی چاپ‘ پھر چچا جان کا داخلہ) 

چچا: بیٹی تو نے مجھے بُلایا ہے۔ 

عورت: ہاں چچا جان ‘ میں نے ہی آپ کو بلایا ہے۔ 

چچا: کیا بات ہے؟ 

بیٹی: میں خود کشی کرنا چاہتی ہوں۔ 

چچا: خیال بُرا نہیں لیکن تمہارا ارادہ کب ہے؟ 

بیٹی اسی وقت‘ ابھی ابھی (بیٹھ جاتی ہے۔ 

چچا: (کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ رات کے بارہ بج چکے ہیں اور میں ٹھیک سوا بارہ بجے سو جانے کا عادی ہوں۔۔۔ تمہیں خود کشی کرنے سے پہلے کچھ لکھنا بھی ہو گا جس پر کافی وقت صرف ہو جائے گا۔۔۔ اور پھر مجھے اس کی عبارت کی غلطیاں درست کرنا پڑیں گی کیونکہ جتنے خط تم نے اب تک اپنے دوست کو لکھے ہیں سب کے سب زبان کی غلطیوں سے پُر ہیں۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ تمہاری آخری تحریر جو کئی آدمیوں کی نظر سے گزرے گی خلط ملط ہو۔۔۔ میری زبان دانی مشہور ہے میرے اشعار لوگ سند کے طور پر پیش کرتے ہیں اگر تمہاری تحریر میں املاء اور گرائمر کی غلطیاں موجود ہیں تو میری ناک کٹ جائے گی۔ 

بیٹی: مجھے زُبان کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔ میں ہمیشہ خیالوں کو ترجیح دیتی رہی ہوں۔ اور اپنی آخری تحریر میں بھی اپنی اس انفرادیت کو قائم رکھوں گی۔۔۔ زبان آخر ہے کیا۔ اس کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے۔۔۔ میرے خط جن کی اغلاط سے آپ کا ناک کٹتا ہے۔ 

چچا: ناک مونث ہے مذکر نہیں۔ 

عورت: میں جانتی ہوں لیکن آپ کی ناک کسی صورت میں بھی مونث نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ کی ناک مونث ہوتی تو آپ ولایت سے وہ مشین کبھی نہ منگاتے جس سے موٹی ناکیں چھوٹی اور پتلی ہو جاتی ہیں۔ 

چچا: (اُٹھ کھڑا ہوتا ہے) تم میری ناک پر ناجائز حملہ کر رہی ہو۔ 

عورت: (اُٹھ کھڑی ہوتی ہے) آپ میری زبان پر بیجا اعتراض کر رہے ہیں۔۔۔! 

چچا: تم نے بدتمیزی کی۔۔۔ آخری حد تک پہنچ کر ترقی پسند ہو گئی ہو۔ 

عورت : آپ مجھے گالی دے رہے ہیں جس کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔ 

چچا: تم بھولتی ہو۔ میں تمہارا چچا ہوں۔ 

عورت: (بیٹھ جاتی ہے) میں بھول گئی ہوں آپ واقعی میرے چچا ہیں جس کا بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے مجھے اپنی مرضی کی شادی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ 

چچا: (بیٹھ جاتا ہے) اپنی مرضی سے اگر کوئی مرد یا عورت شادی کرے تو اسے رومان لڑانا کہتے ہیں جو شریف گھرانوں میں سخت معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ میں شریف آدمی ہوں شریف آدمی ہونے کے علاوہ تمہارا چچا ہوں۔ اس لیئے میں نے ایسے رومان کی اجازت نہیں دی۔ 

عورت: آپ رومان لڑانا کیوں کہتے ہیں۔ یہ بہت برا معلوم ہوتا ہے۔ 

چچا: فُضلا نے اسے یوں ہی لکھا ہے۔ اس میں اب کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ 

عورت: رومان لڑانا بہت بھدی ترکیب ہے۔۔۔ مرغ لڑائے جاتے ہیں۔ بٹیریں لڑائی جاتی ہیں۔۔۔ یہ رومان لڑانا کیا ہوا؟ 

چچا: تم خود کشی کرنے والی تھی: 

عورت: میں خود کشی کرنے والی تھی نہیں بلکہ ہوں۔ مجھے آپ سے اجازت لینا تھی۔ 

چچا: میری طرف سے تمہیں اجازت ہے خدا کرے تم اس میں کامیاب ہو جاؤ۔ 

خود کو اپنے ہاتھوں سے ہلاک کروں میں اپنا پورا پورا اطمینان کرنا چاہتی ہوں کہ میرے اس فعل سے آپ کی ناک کو کوئی صدمہ نہیں پہنچے گا۔ 

چچا: نہیں موت سے ناک کو صدمہ پہنچنے کا احتمال بہت ہی کم ہوتا ہے اور پھر جب تم اپنی آخری تحریریں صاف صاف لکھ دو گی کہ میں نے یعنی تم نے اپنی زندگی کا خاتمہ اس لیئے کیا تھا کہ مجھے فلاں آدمی سے پاک محبت تھی۔ پاک کا لفظ بہت ضروری ہے۔ 

عورت: کیا محبت خود ہی پاک نہیں ہوتی۔ 

چچا: نہیں اکیلی محبت پاک نہیں ہو سکتی جب تک اس کی وضاحت نہ کی جائے۔ 

عورت: تو کیا محبت کے ساتھ مجھے پاک ضرور لکھنا پڑے گا؟ 

چچا: تم کوئی فکر نہ کرو۔۔۔ میں اس تحریر کا مسوّدہ تمہیں تیار کرکے دوں گا۔ 

تمہارا کام صرف نقل کرنا رہ جائے گا۔ 

عورت: اور اگر میں اس عبارت کی نقل کرنے سے انکار کر دُوں۔ 

چچا: تو میں تمہیں خود کشی کی اجازت نہیں دُوں گا۔ 

عورت: (توقف کے بعد) چونکہ مجھے خود کشی کرنا ہے اس لیئے میں آپ کی عبارت نقل کروں گی۔۔۔فرمائیے اس تحریر کا مسودہ مجھے کب مل جائے گا؟ 

چچا: کل صبح ناشتے پر۔ 

عورت: ذرا خوشخط لکھئے گا تاکہ میں آسانی سے پڑھ لوں۔ آپ شکستہ خط میں لکھنے کے عادی ہیں۔ 

چچا: میں اپنا خط نہیں بدل سکتا لیکن میں تین چار بار پڑھ کے تمہیں سُناؤں گا۔ 

میرا خیال ہے پھر نقل کرنے میں تمہیں کوئی دِقّت پیش نہ آئے گی۔ 

عورت: بہت بہتر! 

چچا: اچھا تو میں اب جاتا ہوں۔ 

(چلتا ہے) 

عورت: (اُٹھ کر) شب بخیر۔ 

چچا: شب بخیر: میں اب سوتے وقت اس کا مضمون سوچوں گا مجھے یقین ہے کہ بہت ہی شاندار چیز بن جائے گی۔ اور کوئی عجیب نہیں کہ خود کشی کے بعد تم فرہاد کی شیریں اور مجنوں کی لیلیٰ سے بھی بازی لے جاؤگی۔ 

عورت: خُدا آپ کی زُبان مبارک کرئے۔ 

(چچا چلا جاتا ہے) 

عورت: (توقف کے بعد) کچھ فیصلہ تو ہو گیا۔۔۔ مجھے تو یہ اندیشہ تھا کہ چچا جان مجھے خود کشی کی اجازت ہی نہیں دیں گے۔۔۔ بہرحال یہ مرحلہ طے ہو گیا۔ اب ان کا مضمون تیار ہو جائے تو میں اسے نقل کرکے ہی زہر کھالوں گی۔ 

(الماری کی طرف بڑھتی ہے) زہر مجھے ابھی گھول گھال کے رکھ دینا چاہیئے تاکہ صبح وقت ضائع نہ ہو(الماری میں سے زہر کی شیشی نکالتی ہے؟ پانی بھرے گلاس میں اس کے چند قطرے ڈالتی ہے)۔۔۔ کل صبح ناشتے پر۔۔۔ یعنی چائے کے بجائے مجھے یہ زہر پینا ہو گا۔ 

(دستک ہوتی ہے) 

عورت: کون ہے؟ 

(پھر دستک ہوتی ہے) 

عورت: کون ہے؟ 

(قدموں کی آواز ۔۔۔ پھر سامنا دروازہ کھولا جاتا ہے اور ہیر پریشان حالت میں اندر داخل ہوتی ہے) 

عورت: کون ہو تم؟ 

ہیر۔ کیا میں اندر آسکتی ہوں؟ 

عورت: تم اندر آسکتی ہو۔ مگر یہ تو بتاؤ کہ تم ہو کون؟ 

ہیر: میں ذرا دم لے لوں تو آپ کو سب کچھ بتاتی ہوں۔۔۔ میں سخت گھبرائی ہوئی ہوں۔۔۔ دروازہ بند کر دوں؟ اور دروازہ بند کر دیتی ہے) یہاں ضرور آجائے گا۔ 

عورت: کون یہاں آجائے گا۔ 

ہیر: آپ اسے جانتی ہیں؟ 

عورت: کسے؟ 

ہیر: رانجھے کو 

عورت: کون رانجھا؟ 

ہیر: تخت ہزارے دا رانجھا۔ چودھری موجو کا چھوٹا لڑکا دھیدو۔ جسے لوگ رانجھے کے نام سے پُکارتے ہیں۔ 

عورت: میں کسی چودھری موجو کے لڑکے دھیدو کو نہیں جانتی۔۔۔ بتاؤ تم کون ہو؟ 

ہیر۔ہیر 

عورت: کون ہیر؟ 

ہیر: مہر چوچک کی بیٹی ہیر۔۔۔ جسے ہیر سیال بھی کہتے ہیں۔ 

عورت: میں اب سمجھی۔۔۔تو تم ہیر رانجھے والی ہیرہو۔۔۔ پرتم یہاں کیسے آگئیں۔۔۔ کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ 

ہیر(کرسی پر بیٹھ جاتی ہے) میں اور رانجھا دونوں سینما دیکھنے آئے تھے۔۔۔ فلم ہمارا ہی قصہ تھا۔ آدمی دیکھ کر ہی میرا سر چکرانے لگا۔ چنانچہ بھئی میں تو وہاں سے انٹرول ہوتے ہی بھاگ آئی مگر مجھے ڈر یہ ہے کہ رانجھا میرا پیچھا کرتا کرتا یہاں پہنچ جائے گا اور مجھے پکڑ کر پھر وہیں لے جائے گا۔ 

عورت: کہاں؟ 

ہیر۔ اسی جگہ جہاں ہمیں قید کیا گیا ہے۔ 

عورت: (کرسی پر بیٹھ جاتی ہے) وہاں اور کون کون ہے؟ 

ہیر: بہتیرے ہیں۔ شیریں ہے۔ اس کا چاہنے والا فرہاد ہے لیلیٰ ہے مجنوں ہے مرزا ہے صاحباں ہے۔ بے شمار ہی ہیں۔ 

عورت: تمہیں رانجھے سے اب محبت نہیں رہی؟ 

ہیر: محبت کیسے قائم رہ سکتی ہے بہن۔۔۔ اسے تو ہر وقت بانسری بجانے سے کام ہے۔۔۔ شامت اعمال سے ایک دفعہ میں نے اس سے کہا تھا کہ تم بہت سریلی بانسری بجاتے ہو۔۔۔ اب اس کے منہ سے نگوڑا بانس کا یہ ٹکڑا جدا ہی نہیں ہوتا۔ جب دیکھو درخت پر چڑھ کر بانسری بجا رہا ہے۔۔۔یہ دیوانہ پن نہیں تو کیا ہے اور پھر جناب کو ڈھورڈنگر چرانے کا بہت شوق ہے۔۔۔۔ میں ہزار بار کہتی ہوں کہ رانجھا یہ کھیڑے نہیں جہاں تمہیں گائیں بھینسیں مل جائیں گی۔۔۔ یہاں دودھ کی نہریں بہتی ہیں۔ دودھ پیو اور مزے سے لمبی تان کر سو جاؤ مگر اس کے سر پر وہی پرانا بھوت سوار ہے کہتا ہے نہیں‘ جب دودھ موجود ہے تو گائے بھینس بھی کہیں نہ کہیں ضرور ہوں گی۔ ایک دن میں انہیں ڈھونڈ نکالوں گا پھر ہم دونوں انہیں چرایا کریں گے۔۔۔ 

شیریں بیچاری بھی اسی طرح فرہاد کے ہاتھوں بہت دُکھی ہے جناب چوبیس گھنٹے ہاتھ میں تیشہ لیئے پتھر پھوڑتے ہیں۔۔۔ شیریں پوچھتی ہے فرہاد یہ تم کیا کر رہے ہو جواب ملتا ہے تمہارے لیئے یہ پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر جاری کر رہا ہوں۔۔۔ وہ بیچاری کہتی ہے کہ فرہاد یہاں دودھ کی سینکڑوں نہریں موجود ہیں جن کو دیکھ دیکھ کر میں تنگ آگئی ہوں۔۔۔ اگر کچھ کرنا ہی چاہتے ہو تو ان میں سے ایک نہر کم کر دو۔۔۔ مگر وہ شیریں کی ایک نہیں سُنتا اور دن رات اپنے کام میں مشغول رہتا ہے۔۔۔ 

عورت: یہ تو عذاب ہوا 

ہیر: عذاب جیسا عذاب۔۔۔ بس ہمارا صرف یہ گناہ ہے کہ ہم نے ان مردوں کے لیئے اپنی جان دی۔۔۔ بیچاری سوہنی کی حالت تو میں بیان نہیں کر سکتی۔۔۔ 

مہینوال صاحب ہر وقت اپنی ران کے گوشت کا قیمہ بناتے رہتے ہیں اور پھر ان نصیبوں جلی کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس قیمے کے بنے ہوئے کباب کھائے اسے ابکائیوں پر ابکائیاں آتی ہیں مگر مہینوال صاحب اس کے منہ میں یہ کباب ٹھونستے ہی رہتے ہیں۔۔۔ اسی پر بس نہیں۔۔۔ سو ہنی پر یہ حکم عائد ہے کہ وہ رات کو کچا گھڑا لے کر دُودھ کی نہر طے کیا کرئے وہ دریائے چناب میں تیرنے والی دُودھ کی نہر میں کیسے تیر سکتی ہے مگر کیا کرئے۔ ایک بار حماقت کر چکی ہے سواس کی سزا بھگت رہی ہے۔ 

عورت: لیلیٰ کا بھی بُرا حال ہو گا۔ 

ہیر: جی ہاں۔۔۔ لیلیٰ ہزار بار میاں مجنوں سے کہہ چکی ہے مجھے مت ڈُھونڈو میں تمہارے سامنے موجود ہوں۔ مگر وہ نہیں مانتے اور لیلیٰ کو چھوڑ کر صحرا کی خاک چھانتے رہتے ہیں۔ 

عورت: میں تو سمجھتی تھی کہ تم لوگ بہت خوش ہو گے۔ 

ہیر: خاک بھی خوش نہیں۔ یہ دنیا جلدی جلدی ختم ہو تو ہمیں اس عذاب سے نجات ملے۔۔۔ محبت ہوئی تھی لیکن اس میں مر جانا کیا ضروری تھا۔۔۔ میں تو بہن اس وقت کو روتی ہوں جب میں نے بغیر سوچے سمجھے خودکشی کر لی ہیر رانجھے سے پل بھر کے لیئے جدا نہیں ہو سکتیں۔۔۔شیریں فرہاد سے ایک لحظے کے لیئے نہیں ہٹ سکتی۔۔۔ زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ 

(دُور سے بانسری کی آواز آتی ہے) 

ہیر: لیجئے جناب آپہنچے۔۔۔ دنیا اتنی ترقی کر گئی ہے۔ اگر کچھ بجانا ہی ہے تو وائلن بجائیں۔ گٹار بجائیں۔ سیکسر فون بجائیں مگر انہیں سمجھائے کون؟ 

۔۔۔اچھا بہن چلتی ہوں۔۔۔ اپنے تو مقدر میں بانسری کی یہی تانیں لکھی ہیں۔۔۔خُداحاف٭۔۔۔ 

(دروازہ کھول باہر چلی جاتی ہے۔ بانسری کی آوازچند لمحات تک آتی رہتی ہے پھر آہستہ آہستہ غائب ہو جاتی ہے۔ عورت دروازہ کے پاس سے ہٹ کر کرسی پر بیٹھتی ہے اور گھنٹی بجاتی ہے۔۔۔ قدموں کی آواز۔۔۔ پھر نوکرانی کا داخلہ) 

نوکرانی: جی سرکار۔۔۔ 

عورت: میں نے خودکشی کرنے کا خیال چھوڑ دیا ہے۔ 

نوکرانی: بہت اچھا سرکار۔۔۔ 

عورت: چچا جان سو رہے ہیں یا جاگتے ہیں؟ 

نوکرانی۔ جاگتے ہیں۔ مجھے اپنے پاس بٹھا کر وہ آپ کے لیئے پاک محبت پر‘ ایک مضمون سوچ رہے تھے۔ 

عورت: چچا جان سے کہہ دو کہ وہ تمہیں اپنے پاس بٹھا کر میرے لیئے پاک محبت پر‘ مضمون سوچیں میں نے خود کشی کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ 

نوکرانی: بہت اچھا سرکار! 

(نوکرانی چلی جاتی ہے عورت گلاس کا سارازہر فرش پر اُنڈیل دیتی ہے۔ 

(پردہ) 

مأخذ : کتاب : کروٹ اشاعت : 1946

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here