کہانی کی کہانی:’’یہ ایک ایسی خوددار عورت کی کہانی ہے جو گھر کی نوکرانی ہونے کے باوجود اس کی اپنی خود کی شناخت ہے۔ وہ گھر میں ہفتے میں ایک دو بار ہی آتی ہے، مگر جب بھی آتی ہے بغیر کہے گھر کا سارا کام کرتی جاتی ہے اور دعائیں دیتی جاتی ہے۔ ایسی دعائیں جو ہمیشہ با اثر ہوتی ہیں۔‘‘
منیر کی اماں یوں تو اب نوے پیٹے میں تھیں، لیکن کمر اتنی ہی خمیدہ تھی جنتی بیس سال ادھر تھی، چہرہ کی جھریوں میں کچھ اضافہ ضرور ہو گیا تھا لیکن ایسا زیادہ فرق بھی نہیں ہوا تھا کہ دس بارہ برس بعد دیکھنے پربھی پہچاننے میں کوئی دقت ہو، پہلے اکنی ایک فٹ کے فاصلے سے دیکھ لیتی تھیں۔ اب دس کا سکہ آنکھوں کے بالکل پاس لاکر انگلیوں سے ملتیں، گول دندانوں پر انگلیاں پھیرتیں تب پہچان پاتیں، اپنے میلے کچیلے بڑے سے بٹوے سے جن میں کٹی بلکہ کٹی ہوئی چھالیہ، تمباکو، کٹا ہوا کتھا اور سوکھے چونےکے علاوہ دس بارہ آنے کی ریزگاری بھی ہوتی کوئی سکہ تلاش کرنے لگتیں تو۔۔۔
’’رہنے دو منیر کی اماں۔‘‘ میری والدہ کہتیں، ’’اب کب تک پیسے دیے جاؤگی۔ اب تو تہا رے لینے کے دن ہیں، ساری زندگی تو دیا۔‘‘
’’ہے بہو۔‘‘ منیر کی اماں بہو کی ’’و‘‘ کو ذرا کھینچ کر ناک میں کہتیں، ’’اتنے دنوں بعد تو للا آیا ہے۔۔۔ جگ جگ جیے، دو دھوں نہائے، پوتوں پھلے۔۔۔ لے للا۔‘‘ اور اتنی ہی دیر میں ان کی انگلیاں جو بٹوے میں کتھے کو چونے، چونے کو چھالیہ اور پھر ان سب کو ریزگاری سے الگ کرنے میں مشغول ہوتیں، دس کا سکہ نکال کر میرے ہاتھ میں رکھ دیتیں۔
منیر کی اماں کا کھردار ہاتھ میرے ہاتھ سے ٹکراتا تو مجھے لگتا جیسے وہ میرے ننگے جسم کو گود میں لیے کھلا رہی ہوں، میرا للا سوجا، نندیا رانی آتی ہے، دودھ کٹورا لاتی ہے، للا کو پلاتی ہے۔ آنکھوں میں نندیا لاتی ہے۔۔۔ گیت کے یہ بول میرے کانوں میں پہنچے ہیں، کبھی اماں کی آواز میں، کبھی بہنوں کی آواز میں، کبھی کوٹھے والی خالہ کی آواز میں کبھی سیتلا سہائے کی بڑی بہن کی آواز میں۔۔۔ لیکن اس وقت جیسے یہ سب کچھ میری اپنی آنکھیں دیکھ رہی ہوں، جیسے یہ لوری میرے اپنے کان سن رہے ہوں، جیسے ان کی کھردری انگلیاں مجھے گود میں لے کر کھلاتے وقت میرے اپنے جسم سے ٹکرا رہی ہوں، محبت، شفقت بھری کھردری لیکن میٹھی انگلیاں۔
منیر کی اماں نے اس قصباتی شہر میں جہاں میں نے انکھیں کھولیں، جہاں میں بڑا ہوا، جہاں میں نے پہلی محبت کی، جہاں مجھے پہلی مایوسی ملی، کچھ اس طرح مشہور تھیں کہ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں منیر کی اماں کو جاننے والا کوئی نہ کوئی نہ ہو۔ حد تو یہ ہے کہ ان کا بیٹا منیر بھی، جو کچہری میں چپراسی تھا، منیر کی اماں کے بیٹے کے نام سے ہی جانا جاتا۔ منیر۔۔۔ کون منیر؟ منیر کی اماں کا بیٹا، لیجیے تعارف مکمل ہو گیا۔
میرے شعور میں اولین یادیں جس گھر کی ہیں، اس کے سارے در و دیوار تو یاد نہیں بس ایک کمرہ یاد ہے، ایک آنگن، ایک باورچی خانہ اور ان سب میں ادھر ادھر آتی جاتی، نیلے تنگ مہری کے پیچامہ میں گھر بھر کی چابیوں کا گچھا لٹکائے، تیز تیز چلتی منیر کی اماں۔ جب ذرا اور تیز چلتیں تو چابیوں کا گچھا جھولنے لگتا۔ کچھ اور یادیں اس طرح ہیں۔ دال بگھارتی منیر کی اماں، میرے لیے کرچھے میں گھی، گڑ گرم کرتی منیر کی اماں۔ مجھ پر ڈانٹ پڑتے وقت میرے لیے سینہ سپر ہو جانے والی منیر کی اماں اور میری پٹائی لگنے پر باورچی خانہ سے اپنے لال اور میلے دوپٹہ سے، جسے میل نے سارے رنگوں سے جدا ایک نیا رنگ بخش دیا تھا، نکلتے تیز تیز باہر آتی اور آنسو پونچھتی ہوئی منیر کی اماں۔
پندرہ سولہ برس کی جھلمل یادوں نے منیر کی اماں کو کئی بار روٹھتے اور کام چھوڑکر جاتے ہوئے دیکھا۔ ان کی خفگی کسی نہ کسی طرح میری ذات ہی سے متعلق ہوتی۔ شرارت کرنے پر میری جھوٹ موٹ کی پٹائی بھی لگتی تو منیر کی اماں روٹھ کر گھر بیٹھ رہتیں۔ امتحان کے قریب رات کے دس دس بجے تک مجھے سونے نہ دیا جاتا تو وہ خفا ہوجاتیں، کسی فرمائش کے پورا نہ کیے جانے پر میں ٹھنٹھناتا اور مجھ پر ڈانٹ پڑتی تو منیر کی اماں آنا چھوڑ دیتیں لیکن پھر کچھ ایسا ہوتا کہ وہ لوٹ آتیں۔ گھر میں سب ہی ان کی اداؤں سے واقف تھے اس لیے کوئی ان کو منانے نہ جاتا اور کوئی جاتا بھی تو کیا وہ مان جاتیں۔۔۔ جب دو تین دن گزر جاتے تووہ روٹھی روٹھی سی آتیں۔ ’’بس اب دہلیز پار نہ کروں گی، بہت ہو چکا، کمبخت دل نہ مانا۔‘‘ وہ کہتیں، ’’ذرا دیر اپنے للا کو کھلا لوں، بس۔‘‘ اور ان کی آمد کی خبر سن کر میں بےتحاشہ دوڑ کر ان کی گود میں پہنچ جاتا اور وہ ادھر ادھر دیکھتیں اور اپنی قمیص کی بہت سی جیبوں میں سے کسی ایک سے مٹھائی، ریوڑی، مونگ پھلی یا اور کوئی چیز نکال کر مجھے کھلانے لگتیں۔
’’ہاں، ہاں، ہم لوگوں سے کوئی محبت تھوڑی ہے، بس اپنے للا کو دیکھنے چلی آئی ہو۔ لے جاؤ، اپنے للا کو، اپنےساتھ ہی رکھو۔‘‘ میری والدہ کہتیں تو منیر کی اماں سنی ان سنی کردیتیں اور کچھ ایسی بےتعلق بنی رہتیں جس میں ہزاروں تعلق پنہاں ہوتے ہیں۔والدہ دیکھتیں کہ تیر نشانہ پر نہیں بیٹھا ہے اور وہ اب بھی خفا ہیں تو اپنا آخری حربہ استعمال کرتیں، خاموشی سے اٹھتیں اور دھلی دھلائی پلیٹ پانی کی ٹنکی کے پاس بیٹھ کر اس طرح دھونے لگتیں کہ منیر کی اماں کی نظر پڑ جائے اور جیسے ہی منیر کی اماں کی نظر پڑتی۔ وہ اٹھ کھڑی ہوتیں۔ ’’اے بہو یہ کیا۔۔۔ میں نے کام چھوڑ دیا تو اس کا یہ مطبل کہاں ہوا کہ تم کام کرنے لگو۔‘‘ وہ مطلب کو ہمیشہ مطبل کہتیں اور اپنا جملہ بار بار دہراتی ہوئی ٹنکی کے پاس پہنچ جاتیں۔ پلیٹ دوبارہ دھوکر الماری میں جما دیتیں۔ آنگن پر نظر دوڑاتیں۔ ’’ہے ہے کیسا گندا پڑا ہے سارا گھر۔‘‘ کہہ کر جھاڑو دینا شروع کردیتیں۔ چلیے منیر کی اماں کی خفگی ختم ہو گئی۔
ہمارے دن بگڑے تو وہ چپراسی جو آگے پیچھے گھومتے تھے، آنکھیں چرانے لگے۔ وہ لوگ جو صبح شام حاضری دینے آتے تھے آپ سے تم پر اتر آئے۔ سب کچھ بدلے گا لیکن نہ بدلیں تو منیر کی اماں۔ والدہ جب تک پلنگ پر نہ بیٹھ جاتیں وہ زمین پر بھی نہ بیٹھتیں، کہیں سے تھکی تھکائی آتیں اور والدہ کچھ کام بھی کر رہی ہوتیں تو بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ جلدی سے پلنگ پر بیٹھ جاتیں کہ منیر کی اماں اپنی سانس تو درست کر لیں۔ وہ اب بھی پہلے ہی کی طرح لکڑی کے پٹرے پر زمین پر بیٹھتیں، اماں لاکھ کہتیں کہ منیر کی اماں اوپر بیٹھ جاؤ، لیکن، ’’نہیں بہو‘‘، منیر کی اماں کہتیں، ’’اس گھر کا نمک کھایا ہے، ہمارا رزاق للا کی اترن پہن پہن کر اتنا بڑا ہوا ہے۔‘‘
مجھے ملازمت ملی تو والدہ کو اپنی پہلی تنخواہ سے منی آرڈر بھیجتے وقت میں نے کوپن پر لکھ دیا کہ ان میں سے دو روپے منیر کی اماں کو دے دیجیے۔ یوں تو منیر کی اماں والدہ سے ملنے مہینہ میں دوتین بار پہلے بھی آتی تھیں اور ہمیشہ میرے چھوٹے بھائی اور بہن بھائی کو پانچ پیسہ کا ایک ایک سکہ بھی دے جاتیں لیکن اب ہر ہفتہ آنے لگی تھیں اور ہمیشہ وہی ذکر ’’میرا للا نوکر ہو گیا، اپنے ابا سے بڑھ جائے، دادا سے بھی بڑا آدمی بن جائے، دودھوں نہائے پوتوں پھلے۔‘‘ ان کی دعائیں گھر میں داخل ہونےسے پہلے ہی شروع ہو جاتیں اور جب ان دعاؤں کا تار ٹوٹتا تو چادر کے اندر سے دونا نکال کر اماں کے سامنے رکھ دیتیں۔ ’’بہو، لے لے بہو۔‘‘ پھر رک کر سرگوشی کرتیں، ’’لے بہو کھالے۔‘‘ اماں کے لیے ربڑی بالائی کا دونا، چھوٹے بھائی اور بہن کے لیے ریوڑیاں اور پھر جاتے وقت دونوں کو پانچ پیسہ کا ایک ایک سکہ۔ مہینہ میں چار بار ضرور آتیں اور کل ملاکر کم از کم دوروپے بلاشبہ خرچ کر ڈالتیں، لیکن پانچویں تاریخ ہوئی نہیں کہ آموجود ہوتیں، ’’بہو للا کا منی آرڈر آیا؟ لاؤ ہمارا خرچہ۔‘‘ اور پھر ڈھیر ساری دعائیں۔
اس وقت تک منی آرڈر نہ بھی آیا ہوتا تو اماں دو روپے ان کے حوالہ کر دیتیں کہ دوبارہ آئیں گی تو ربڑی بالائی کا دونا اور ریوڑیاں بھی لائیں گی اور بچوں کو پانچ پانچ پیسے کے دو سکے بھی ضرور دیں گی۔ وہ منیر کی اماں سے کہتیں، ’’منیر کی اماں، تم سارے پیسے تو یہیں خرچ کر ڈالتی ہو۔‘‘ لیکن قبل اس کے والدہ جملہ پورا کرسکیں وہ لقمہ دیتیں ’’ہیں بہو۔۔۔ تم نے ایسی بات کیسے کہی۔۔۔ کا للا کی کمائی سے حصہ بٹانا نہیں چاہتیں۔۔۔ اللہ سلامت رکھے میرے للا کو، ہمیں دو روپے بھیجتا ہے۔۔۔ میرا للا۔‘‘
والدہ نے یہ ساری باتیں مجھے خط میں لکھ بھیجیں تو میرا دل ڈول ڈول گیا کہ ایک بار منیر کی اماں کو اور دیکھ لوں۔ ان کے ہاتھوں کا لمس کم سے کم ایک بار اور محسوس کرلوں۔ میں نے چھٹی کی درخواست بھی دی لیکن ملازمت نئی نئی تھی، چھٹی نہ ملی اور پھر دفتر اور دوسری مصروفیتوں نے منیر کی اماں کی یاد کو میرے ذہن سے محو کردیا لیکن دو روپے جو دستور بن گئے تھے، برابر جاتے رہے۔
پھر ایک دن والدہ کی علالت کا تار ملا تو میں پہلی گاڑی سے اورئی کے لیے روانہ ہو گیا۔ والدہ کی بیماری کی خبر سے دل بوجھل تھا لیکن گاڑی سے اترتے ہی اسٹیشن کی چہل پہل دیکھ کر یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ اب یہ شہر بالکل بدل گیا ہے۔ پہلے سڑکوں کے کنارے جہاں میونسپلٹی کی لالٹینیں لگی تھیں وہاں اب بجلی کے بلب جل رہے تھے، رات گئے پہنچنے والی گاڑی کے مسافروں کو لے جانے کے لیے جہاں مشکل سے کوئی سواری ملتی تھی وہاں اب درجنوں تانگے، رکشے اور چند کاریں بھی کھڑی تھیں۔ بس اسٹیشن کے پاس والا چوراہا جہاں سرشام ہی سناٹا آ بیٹھتا تھا، دو بجے رات کو بھی روشن تھا۔ اپنے وطن کی یہ ترقی دیکھ کر دل میں خوشی کی ایک لہر اٹھتی لیکن والدہ کی علالت کی خبر کا بوجھ اس لہر کو ڈبو دیتا۔
خزانچی بازار محلہ کی طرف بڑھتے ہوئے رکشہ جب اس چڑھائی پر پہنچا جس کے ایک طرف مدرسہ تھا اور دوسری طرف منیر کی اماں کا مکان تو میں دسمبر کی اس برفیلی رات میں بھی پوری گردن ہڈ سے باہر نکال کر خود کو منیر کی اماں کے مکان کو دیکھنے کی کوشش سے باز نہ رکھ سکا، لیکن اب وہاں وہ ٹوٹا پھوٹا گھر نہ تھا، ایک عالیشان مکان کھڑا تھا۔ دل کو ایک دھکا سا لگا، اس مکان کے سامنے والے کچے چبوترے کے ایک ایک ذرہ کو میرے قدموں اور ہاتھوں نے چوما تھا، یہیں میں نے مٹی کھانی سیکھی تھی، یہیں منیر کی اماں نے خوانچہ والوں سے ایسی ایسی خوش ذائقہ چیزیں مجھے کھلائی تھیں جیسی ساری زندگی میں اچھے سے اچھے ہوٹلوں میں بھی نہیں ملیں۔ لیکن اب وہاں بڑا سا خوب صورت مکان بنا ہوا تھا۔
اماں کی طبیعت اب ٹھیک تھی، دن میں دو انجکشن لگے تھے جن سے بہت فائدہ ہوا تھا، کھانسی کم ہو گئی تھی اور بخار بھی اتر گیا تھا، لیکن کمزور بہت ہوگئی تھیں۔ میں نے کپڑے تبدیل کرتے کرتے منیر کی اماں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کئی دن سےآئی نہیں ہیں۔ لیکن انہیں اگلے ہی دن جانے کہاں سے میرے کے آنے کی خبر مل گئی اور وہ دس گیارہ بجتے بجتے آ براجیں۔ دعاؤں کی گٹھری کھولنے کے بعد بٹوے سے دس کا سکہ نکالا اور میرے ہاتھ میں رکھ دیا، پھر میرے چہرے کو اپنی آنکھوں کے بالکل قریب لے جاکر اپنی لمبی لمبی کھردری انگلیاں میری پیشانی اور آنکھوں پر پھیرنے لگیں۔ میراجی چاہا کہ ایک بار منیر کی اماں سے چمٹ کو خوب روؤں، خوب روؤں، اتنا کہ سفر کی ساری تکان اور والدہ کی بیماری سے دل پر چھایا ہوا سارا غبار دھل جائے لیکن میں ان سے چمٹ کے رو نہ سکا، یونیورسٹی سے ایم اے پاس، انگریزی کے اخبار میں ملازم، سوٹ بوٹ ڈالے رہنے والا شخص گھر کی ملازمہ سے لپٹ کر روئے گا تو دنیا کیا کہے گی۔۔۔ دیکھنے والے کیا کہیں گے!
پھر جب لکھنؤ کے لیے روانہ ہونے لگا تو انہوں نے مجھے اٹھنی دی، بہت ساری دعائیں دیں، میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں، ’’ہاں للا۔۔۔ ہماری تنخواہ پانچ تک ضرور بھیج دیا کرو۔‘‘ تنخواہ! دو روپے مہینے کی تنخواہ۔ میں کانپ گیا۔
دس بارہ دن بعد والدہ کا خط آیا۔ اب وہ اچھی تھیں، طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی تھی۔ دوا بھی چھوڑدی تھی، کچھ گھر کی باتیں تھیں اور خط کے بالکل آخر میں لکھا تھا، ’’پرسوں شام منیر کی اماں کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اگلے دن رزاق کی بیوی، سمجھ گئے نا، منیر کی اماں کی بہو، نے بتایا کہ آخر آخر وقت تک للا للا کرتی رہیں۔‘‘
منیر کی اماں مر گئیں۔ منیر کی اماں مر گئیں۔
ایک دن گزرا، دو دن گزرے، پھر ایک ہفتہ گزر گیا، پھر دو ہفتے گزر گئے، منیر کی اماں کی یاد جو پہلے روز آتی تھی اب کئی دنوں سے نہیں آئی اور پھر اگلے مہینے کی پہلی تاریخ بھی آ گئی۔ میں نے حسب دستور منی آرڈر فارم پر اتنے ہی روپے بھرے جتنے ہر بار بھیجا کرتا تھا اور فارم کاؤنٹر کلرک کے سامنے بڑھا دیا۔ پھر یکایک ایک خیال آیا۔ وہ منی آرڈر فارم واپس لے کر چاک کردیا۔ دوسرا فارم لیا اور دو روپے کم کرکے باقی رقم منی آرڈر کر دی۔
منیر کی اماں کی موت سے زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن اب میں اتنے ہی روپے والدہ کو بھیج کر منیر کی اماں کی توہین تو نہیں کر سکتا۔ قبر میں ان کو اگر یہ معلوم ہو گیا کہ ان کے بعد بھی اتنے ہی روپوں کا منی آرڈر آتا ہے تو ان کی نظروں میں ان روپوں کی وقعت کتنی کم ہو جائےگی، نہیں خود اپنی وقعت کتنی کم ہو جائےگی۔
مصنف:عابد سہیل