محبت کی حرارت سے ہوا سارا لہو آتش
تخیل شبنمی ہے گرچہ میری گفتگو آتش
نگار زندگی میں اس کے دم سے ہی اجالا ہے
چمن ویرانہ ہوتا گر نہ ہوتی آرزو آتش
خوش آتی ہے ہم آشفتہ سروں کو اس کی یہ عادت
کبھی مانند شبنم اور ہوتا ہے کبھی آتش
جھلس جاتی ہیں وہ آنکھیں جنہیں کچھ خواب بننے تھے
بنا دی عہد نو کی نفرتوں نے جستجو آتش
عبارت آج کل کی زندگی ہے ان عناصر سے
سیاست آمریت خون ناحق کو بہ کو آتش
طمانیت کی لازم شرط ہے خوش نیتی ورنہ
تگ و دو بے بضاعت اور ساری ہاؤ ہو آتش
ظفرؔ سے اب تو نظریں بھی ملانا آزمائش ہے
کہ گرمیٔ جہاں سے ہو گیا ہے مو بہ مو آتش
شاعر:ظفر مہدی