برہمچاری

0
175
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو امرناتھ یاترا پر نکلے ایک جتھے میں شامل ہے۔ اس جتھے میں جے چند، اس کا کلرک جیا لال، دو گھوڑے والے اور ایک لرکی سورج کماری بھی شامل ہے۔ چلتے ہوئے گھوڑے والے گیت گاتے ہیں اور انکے گیت سن کر لڑکی مسکراتی رہتی ہے۔ جتھے میں شامل یاتری سوچتا ہے کہ لڑکی اسے دیکھ کر مسکرا رہی ہے کہ اچانک اسے یاد آتا ہے کہ وہ تو برہمچاری ہے۔ اسی تانے بانے سے یہ دلچسپ کہانی بنی گئی ہے۔‘‘

پنچ ترنی کی وہ رات مجھے کبھی نہ بھولےگی، نہ پہلے کسی پڑاؤ پر سورج کماری نے اِتنا سنگار کیا تھا، نہ پہلے وہ گیس کا لیمپ جلایا گیا تھا۔ اس روشنی میں سورج کماری کا عروسی لباس کتنا بھڑکیلا نظر آتا تھا۔

دونوں گھوڑے والوں کو خاص طور پر بلایا گیا تھا۔ ایک کا نام تھا عزیزا اور دوسرے کا رفیع۔ جے چند کا کشمیری کلرک جیا لال بہت مسرور نظر آتا تھا۔ خود جے چند بھی دولھا بنا بیٹھا تھا۔ رسویئے کو نہ جانے اس محفل میں کچھ کشش کیوں نہ محسوس ہوئی۔ کام سے فارغ ہوا۔ تو یاترا کا بازار دیکھنے چلا گیا۔

پریم ناتھ سے بغیر کچھ کہے سنے ہی جب میں سری نگر سے پیدل ہی پہلگام کے لیے چل دیا تھا، تب کسے خبر تھی کہ اتنے اچھے خیمے میں جگہ مل جائےگی۔ سورج کماری نے میرا بھید پا لیا تھا۔ اس نے جے چند کو بتا دیا کہ میں گھر والوں کی رضامندی کے بغیر ہی ادھر چلا آیا ہوں۔ اس طرح اُس نے میرے لیے اپنے خاوند کی ہمدردی اور بھی ابھار دی۔

جیالال نے عزیزا سے وہ گیت گانے کا مطالبہ کیا جس میں ایک کنواری کہتی ہے۔۔۔ ’’بیدمُشک کی خوشبو میرے من میں بس گئی ہے۔ باورے بھونرے! تو کہاں جا سویا ہے؟‘‘ اسے یہ گیت یاد نہ تھا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ وہ لڑکی جس کے من میں بید مشک کی خوشبو بس گئی تھی، سورج کماری سے کہیں بڑھ کر سُندر ہوگی۔ یہ دوسری بات ہے کہ کشمیر کی بیٹی کو اکثر بہت خوبصورت لباس نصیب نہیں ہوتا۔

- Advertisement -

خود سورج کماری نہ جانے کیا سوچ رہی تھی، مجھے اس کا وہ روپ یاد آ رہا تھا جب وہ ہرا دوپٹہ اوڑھے گھوڑے پر سوار تھی اور چندن واڑی پار کرکے برف کے اس پل پر اتر پڑی تھی جس کے نیچے سے شیش ناگ بہہ رہا تھا۔ تب وہ جنگل کی اپسرا معلوم ہوتی تھی۔ راستے میں جنگلی پھول چن کر چلتے چلتے جیا لال نے ایک گجرا تیار کر لیا تھا اور وہ مسکراہٹ مجھے کبھی نہ بھولےگی جو کہ جیالال سے یہ گجرا لیتے ہوئے سورج کماری کی آنکھوں میں رقص کرنے لگی تھی۔

میں نے کہا، ’’گیت تیار کرنا بہت مشکل کام تھوڑا ہی ہے۔ الفاظ کو بنسری میں سے گزاردو، گیت ہو جائےگا!‘‘

سورج کماری بولی، ’’میرے پاس تو پراثر الفاظ بھی نہیں رہ گئے۔ ہاں بنسری میں نے سنبھال کر رکھ چھوڑی ہے۔۔۔کبھی مجھے بھی شعرو نغمہ کی دھن لگتی تھی۔‘‘

میں خاموش ہو گیا۔ لیکن اپنے ذہن میں اس سے مخاطب ہوا۔۔۔گھبرا نہیں، خاموش دلہن، تیرے بول تو بہت سریلے ہیں۔۔۔وہ ضرور کسی دِن پھر بھی بنسری میں سے گزریں گے۔۔۔اور اپنے گیتوں میں تو مجھے بھول تو نہ جائےگی۔۔۔

عزیزا نے لو چ دار آواز میں گانا شروع کیا،

’’لج پھلے اندونن

چ کنن گوئے نامے اون؟

لج پھُلے کول سرن

ووتھو نِیرن کھس دو

پھُولی یو سمن اندونن

چ کنن گوئے نامے اون؟‘‘

’’دور جنگلوں میں پھول کھل گئے۔ کیا میری بات تیرے کانوں تک نہیں پہنچی؟ کول سر جیسی جھیلوں میں پھول کھِل گئے۔ اٹھو ہم چراگاہوں کی طرف چڑھیں گے۔ دور جنگلوں میں چنبیلی کے پھول کھل گئے۔ کیا میری بات تیرے کانوں تک نہیں پہنچی؟‘‘

جے چند کشمیری خوب سمجھتا تھا۔ کشمیر میں ٹھیکیداری کرتے اسے کئی سال ہو گئے تھے۔ سورج کماری نے کیوں اس زبان میں دلچسپی نہ لی تھی۔ اس بات پر سب سے زیادہ حیرت مجھے اسی رات ہوئی۔ جے چند بولا، ’’یہ کسی کنواری کا گیت ہے۔ اس نے دیکھا کہ بہار آگئی۔ چنبیلی کے پھول بھی کھِل گئے اور پھر شاید غیرشعوری طور پر اُس نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ خود بھی چنبیلی کا ایک پھول ہے۔‘‘

گیت کا ایک ہی ریلا عزیزا کو میرے قریب کھینچ لایا۔ سارے راستے میں کبھی میں نے اسے اتنا خوش نہ دیکھا تھا۔ آدمی کتنا چھپا رہتا ہے۔ اسے جاننے کی میں نے اب تک کوشش بھی تو نہ کی تھی۔

روز روز کے لمبے سفر سے ہم بہت تھک گئے تھے، اب اس شغل میں سب تھکاوٹ بھول گئی۔ سورج کماری کا سندر چہرہ سامنے نہ ہوتا تو عزیزا کو بہار کا گیت نہ یاد آیا ہوتا۔

سورج کماری کہہ رہی تھی، ’’بابو جی! میں نے سنا ہے کہ اس وادی میں بہنے والی پانچوں ندیوں کا پانی، جو اتنا قریب قریب بہتا ہے، ایک دوسری سے کم و بیش ٹھنڈا ہے۔‘‘

جے چند بولا، ’’شاید یہ ٹھیک ہو!‘‘

میں سوچنے لگا کہ سب مرد بھی تو ایک سی طبیعت کے مالک نہیں ہوتے۔۔۔عورتیں بھی طبیعت کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوتیں۔۔۔واہ ری قدرت، پنچ ترنی کی پانچوں ندیوں کا پانی بھی یکساں ٹھنڈا نہیں!

’’پاربتی ان ندیوں میں باری باری سے نہایا کرتی تھی، بابوجی!‘‘

’’تم سے کس نے کہا؟‘‘

’’جیا لال نے۔‘‘

جیالال چونک پڑا۔ سورج کماری نے عیش طلب ہنسی ہنس کر جے چند کی طرف دیکھا۔ جیسے وہ خود بھی ایک پاربتی ہو اور اپنے شِو کو رجھانے کا جتن کر رہی ہو۔

میں نے عزیزا سے کوئی دوسرا گیت گانے کا مطالبہ کیا۔ وہ گا رہا تھا،

’’ونی و مئی آرولِن یارکنی مے لکھنا؟

چھوہ لو گم مس ولن یارکنی مے لکھنا؟

ومئی سیندزئینی یا رکنی مے لکھنا؟

’’آرول کے پھولوں میں تمھیں تلاش کروں گی۔ کہیں تم ملوگے نہیں (میرے محبوب؟) میرے بال بال کو خود سے نفرت ہو گئی ہے۔ کہیں تم ملوگے نہیں(میرے محبوب؟) سندھ نالے کے پانیوں پر تمھیں تلاش کروں گی۔ کہیں تم مِلوگے نہیں (میرے محبوب؟‘‘)

رفیع اس درخت کی طرح تھا، جسے جھنجوڑنے پر اونچی ٹہنی پر لگا ہوا پھل نیچے نہیں گرتا۔ اس نے ایک بھی گیت نہ سنایا، لیکن جیالال کافی اچھل پڑا اور بغیر رسمی تقاضے کے اس نے گانا شروع کیا،

چوری یار چولم تائے، تہی ماڈے اوٹھ دون؟

تہی ماڈے اوٹھ وون؟

دورن مارن گرائے لو لو، گرائے لولو!

وتھی دی وگ نیادرد دہائے کرونے

سنگرمالن چھائے لولو، چھائے لولو!‘‘

’’میرا محبوب چوری چوری بھاگ گیا۔ کیا تم نے اسے دیکھا ہے کہیں، دیکھا ہے کہیں۔۔۔؟ کان کے سبزے ہلاتے ہوئے، ہلاتے ہوے! اٹھو پریو! ہم ’’رود‘‘ ناچ ناچیں گے، پہاڑیوں کی چھاؤں میں، چھاؤں میں!‘‘

جیالال مسکرا رہا تھا۔ شاید خود ہی اپنے گیت پر خوش ہورہا تھا۔ سورج کماری کی طرف للچائی ہوئی آنکھوں سے دیکھنا بیکار نہ رہا۔ وہ اس کی زبان نہ سمجھتی تھی، داد نہ دے سکتی تھی، لیکن اسے مسکراتا دیکھ کر وہ بھی مسکرانے لگی۔

سورج کماری کی مسکراہٹ میں کتنی موہنی تھی۔ وہ کالی داس کی کسی حسن و عشق کی نظم کی طرح تھی۔ جس میں الفاظ ایک سے زیادہ معنی پا اٹھتے ہیں۔ چنانچہ میری سمجھ میں یہی بات آئی کہ اس کی مسکراہٹ جے چند اور جیا لال کے لیے نہیں بلکہ میرے لیے ہے۔

مگر میں اس مایا میں پھنسنے کے لیے تیار نہ تھا۔ ماضی کی پرانی کہانی ’’کچ دیویانی‘‘ میری آنکھوں کے آگے پھر گئی۔۔۔سورج کماری شاید دیویانی تھی اور میں نے محسوس کیا کہ میں بھی کسی کچ سے کم نہیں۔

ماضی کا کچ سورگ کا رہنے والا تھا۔ میں اسی دھرتی کا۔ یہی فرق تھا۔ وہ دھرتی پر ایک رشی کے آشرم میں زندہ جاوید رہنے کی ودیا سیکھنے آیا تھا اور میں نے یاترا کے دن کاٹنے کے لیے جے چند کے خیمے میں پناہ لی تھی۔ سورگ سے چلتے وقت کچ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ یہ ودّیا سیکھ کر واپس سورگ میں لوٹنا اور وہاں کے باسیوں کو اس کا فیض پہنچانا کبھی نہ بھولے گا۔ اس کے لیے سب سے ضروری یہی تھا کہ وہ برہمچاری کے دھرم پر برقرار رہے۔ رشی کسی کو یہ ودیا آسانی سے سکھاتا نہ تھا۔ کتنے ہی نوجوان اُس سے پہلے بھی آ چکے تھے۔ ہر کوئی رشی کے غصے کی تاب نہ لاکر وہیں ختم ہو گیا۔ مگر جب کچ آیا تو رشی کی لڑکی دیویانی اس پر شیدا ہو گئی تھی۔ اپنے باپ سے فرمائش کرکے اس نے اسے ودیا سکھانے پر رضامند کر لیا۔ جب کچ یہ ودیا سیکھ چکا تو وہ واپس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ دیویانی کہتی ہے۔۔۔ ’’دیکھیو اس وینومتی ندی کو مت بھولیو۔ یہ تو خود محبت کی طرح بہتی ہے!‘‘

کچ جواب دیتا ہے، ’’اسے میں کبھی نہ بھولوں گا۔۔۔اسی کے قریب، اس دن جب میں یہاں پہنچا تھا۔ میں نے تجھے پھول چُنتے دیکھا تھا۔۔۔اور میں نے کہا تھا۔ میرے لائق سیوا ہو تو کہو۔‘‘

دیویانی کہتی ہے۔۔۔ ’’ہاں اسی طرح ہمارا پیار شروع ہوا تھا۔۔۔اب تم میرے ہو۔۔۔عورت کے دل کی قیمت پہچانو۔۔۔پیار بھی کسی ودیا سے سستا نہیں۔۔۔اور اب تمام دیوتا اور ان کا بھگوان اپنی مشترکہ طاقت سے بھی تمھیں واپس نہیں لے سکیں گے۔۔۔! مجھے پھول پیش کرنے کے خیال سے بیسیوں بار تم نے کتاب پرے پھینک دی تھی۔۔۔ان گنت بار تم نے مجھے وہ گیت سنائے تھے جو سدا سورگ میں گائے جاتے ہیں۔ تم نے یہ رویہ صرف اِسی لیے تو اختیار نہیں کیا تھا کہ یوں مجھے خوش رکھ سکو اور آسانی سے وہ ودیا سیکھ لو جسے میرے پتاجی نے پہلے کسی کو سکھانا منظور نہیں کیا تھا۔۔۔‘‘

کچ کہتا ہے، ’’مجھے معاف کر دے دیویانی۔۔۔! سورگ میں تو مجھے ضرور جانا ہے۔۔۔ پھر میں تو برہمچاری ہوں!‘‘

’’برہمچاری۔۔۔! ایک راہی کی طرح تو یہاں آ نکلا تھا۔ دھوپ تیز تھی۔ چھاؤں دیکھ کر تو یہاں آ بیٹھا۔ پھول چن کر تو نے میرے لیے ایک ہار بنایا تھا۔۔۔اب خود ہی اپنے ہاتھوں سے تو ہار کا دھاگا توڑ رہا ہے۔۔۔دیکھ، پھول گرے جا رہے ہیں۔۔۔!‘‘

’’برہمچاری تو میں ہوں ہی۔ سورگ میں ہر کوئی میرے انتظار میں ہوگا۔۔۔وہاں مجھے جانا ضرور ہے۔۔۔اور یہ تو ظاہر ہے کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے اس سورگ میں مجھے اب شانتی نصیب نہ ہوگی۔‘‘

میں نے سوچا کہ ایک لحاظ سے میں کچ سے کہیں زیادہ معقول وجہ پیش کر سکتا ہوں۔ میں کہہ سکتا ہوں، ’’سورج کماری! تیری مسکراہٹ صرف تیرے خاوند کے لیے ہونی چاہیے۔ دیویانی کی طرح تو کسی رشی کی کنواری لڑکی تھوڑاہی ہے۔‘‘

سورج کماری انگڑائی لے رہی تھی۔ اس کے بالوں کی ایک لٹ بائیں گال پر سرک آئی تھی۔ میری طرف مخاطب ہوکر بولی، ’’بس یا ابھی اور۔۔۔؟‘‘

میں نے اس کا پورا مطلب سمجھے بغیر ہی کہہ دیا، ’’بس اور نہیں۔‘‘

’’اور نہیں۔۔۔خوب رہی! میں تو ادھر کی زبان سمجھتی نہیں۔ تمھاری خاطر بابوجی نے عزیزا کو یہاں بلایا۔ اب تھوڑے سے گیت سن کر ہی تمھاری بھوک مٹ گئی؟ تو یوں ہی گیتوں کی رٹ لگا رکھی تھی پہلگام میں۔۔۔؟‘‘

میں نے کہا، ’’نہیں بی بی جی، میں نے سوچا آپ کو نیند آ رہی ہے اور شاید عزیزا بھی سونا چاہتا ہے۔‘‘

عزیزا کچھ نہ بولا اور جے چند نے محفل برخاست کردی۔ عزیزا اور رفیع چلے گئے اور رسوئیاں جے چند اور سورج کماری کے بستر لگاکر ہمارے پاس آ بیٹھا۔

سورج کماری پوچھ رہی تھی، ’’بابو جی! سنا ہے گپھا میں کبوتروں کا جوڑا بھی درشن دیتا ہے۔‘‘

’’صبح کو تم خود ہی دیکھ لوگی۔‘‘

’’یہ کبوتر کہاں سے آتے ہیں؟‘‘

’’اب یہ میں کیا جانوں؟‘‘

’’ایک سنارن نے بتایا تھا کہ یہ کبوتر شو اور پاربتی کے روپ میں۔‘‘

’’شاید عورتوں کا وید یہی کہتا ہو۔‘‘

رسوئیا سو چکا تھا۔ جے چند اور سورج کماری بھی سو گئے۔ جیالال بولا، ’’اف کتنی سردی ہے!‘‘

’’کتنی سردی ہے، برہمچاری ہوکر بھی یہ سردی نہیں سہہ سکتے۔ شرم کا مقام ہے۔‘‘

’’برہمچاری تو میں ہوں۔ مگر اس آب و ہوا کا عادی نہیں ہوں۔‘‘

’’برہمچاری کو تو کسی بھی موسم سے ڈرنا نہیں چاہیے۔‘‘

’’تم بھی تو برہمچاری ہو۔۔۔‘‘ اس نے طعنہ مارا۔

’’تو میں کب ڈرتا ہوں؟‘‘

’’تو کیا تم خیمے کے باہر کھلے آسمان کے نیچے سو سکتے ہو؟‘‘

’’یہ بات میں نے جوش میں آکر کہہ دی تھی۔ میں نے اپنی موٹی کشمیری لوئی اٹھائی اور خیمے سے باہر نکل گیا۔ جیا لال میرے پیچھے بھاگا۔ میں رُک کر کھڑا ہوگیا۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ سناٹا تھا۔‘‘

وہ بولا، ’’میں نے تو ہنسی میں کہہ دیا تھا اور تم سچ مان گئے۔‘‘

سچ ہو چاہے جھوٹ میں دکھا دوں گا کہ، ’’برہمچاری ڈرتا نہیں۔‘‘

’’اچھا تو خیمے کے قریب ہی سو جاؤ۔‘‘

میں خیمے کے قریب ہی لوئی میں لپٹ کر لیٹ گیا۔ وہ اندر سے چٹائی نکال لایا۔ بولا، ’’اسے نیچے ڈال لو۔ اَیسی تو کوئی شرط نہ تھی کہ ننگی دھرتی پر سوکر دکھاؤگے۔‘‘

چٹائی ڈال کر وہ میرے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔ بولا، ’’ارے یار مفت میں کیوں جان گنواتے ہو؟‘‘

’’اونہہ!‘‘ میں نے شانے پھرکاتے ہوئے کہا، ’’مجھے کسی بات کا خطرہ نہیں۔‘‘

’’اچھا تو میں ٹھیکیدار صاحب کو جگاتا ہوں۔‘‘ جیالال بولا۔

پھر جیا لال اس مسلمان چرواہے کی کہانی سنانے لگا۔ جس نے ایک بڑا کام کیا تھا۔ یاتری امرناتھ کا رستہ بھول گئے تھے۔ اس نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا اور اس کے عوض میں اب تک اس کی اولاد کو چڑھاوے کا ایک معقول حصہ ملتا آ رہا ہے۔

میں نے شرارتاً کہا، ’’وہ چرواہا ضرور اس وقت برہمچاری ہوگا۔‘‘

وہ ہنس پڑا اور اندر جاکر لیٹ رہا۔ میں چاند اور تاروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پرانے زمانے میں بڑے بڑے رشی ادھر آتے تھے تو خیموں میں تھوڑا ہی رہتے تھے۔ یوں کھلے آسمان تلے پڑ رہتے ہوں گے۔ اس کڑاکے کی سردی سے وہ ڈرتے نہ تھے۔

کچھ دیر کے بعد تارے میری نگاہ میں کانپنے لگے۔ چاند دھند میں لپٹ گیا۔ خواب آلود پلکوں نے آنکھوں کو سی دیا اور۔۔۔

میں نے دیکھا کہ جیا لال گھوڑے پر سوار سورج کماری کو گجرا پیش کر رہا ہے اور وہ پشاور کی ہری دوپٹے والی جوان عورت عجب انداز سے مسکرارہی ہے۔ میں نے جیالال کو متنبہ کرتے ہوئے کہا، ’’جیالال! تمھارا نصب العین عورت سے کہیں بلند ہے۔۔۔عورت ایک الیوژن ہے۔۔۔مایا!‘‘

جیالال ایک طنز آمیز مسکراہٹ سے میری طرف دیکھنے لگا اور بولا، ’’لیکن یہ مایا بھی کس قدر حسین ہے۔ مجھے اس سراب کے پیچھے سرگرداں رہنے دو!‘‘

عزیزا بید مشک کی ٹہنی لیے آ رہا تھا۔ میں نے معاً اس سے سوال کیا، ’’یہ کس کے لیے لائے ہو عزیزا؟‘‘

’’اس بہار کی دلہن کے لیے جو خیمے میں اس وقت مستِ خواب ہے۔‘‘ عزیزا نے نیم مدہوش آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

اس وقت مجھے کسی سورج کماری کی آواز سنائی دی۔ جیسے وہ گا رہی ہو۔۔۔ ’’بید مُشک کی خوشبو میرے من میں بس گئی ہے۔۔۔دور جنگلوں میں چنبیلی کے پھول کھِل گئے۔ کیا میری آواز تمھارے کانوں تک نہیں پہنچی، میرے محبوب؟‘‘

اور جیسے کوئی جے چند کہہ رہا ہو، ’’تمھاری آواز میں نے سن لی۔ اٹھو، ہم چراگاہوں کی طرف چڑھیں گے۔‘‘

پھر وہ سورج کماری تتلیوں کے پیچھے بھاگی۔ جے چند بھی اس کے ساتھ ساتھ رہا۔ سورج کماری کو دیکھ کر مجھے اس چینی کنواری کا خیال آیا۔ جسے تتلیوں نے پھول سمجھ لیا تھا اور ٹولیاں بناکر اس کے گرد جمع ہو گئی تھیں۔۔۔مگر یہ تتلیاں تو سورج کماری سے بھاگ رہی تھیں اور ان کا پیچھا کرتے اس کا سانس چڑھ رہا تھا۔ جے چند کو دیکھ کر مجھے چینی تاریخ کے اس بادشاہ کی یاد آئی جس نے پنجروں میں سینکڑوں تتلیاں پال رکھی تھیں۔ جب اس کے باغ میں خوبصورت لڑکیاں جمع ہوتیں تو وہ حکم دیتا کہ پنجروں کے دروازے کھول دیے جائیں۔ یہ تتلیاں بلاکی سیانی تھیں۔ وہ سب سے خوبصورت لڑکیوں کے گرد جمع ہو جاتیں اور اس طرح یہ لڑکی بادشاہ کی نگاہوں میں بھی جچ جاتی۔۔۔کیا اس جے چند نے بھی تتلیوں کی مدد سے اس سورج کماری کو چنا تھا، پر یہ تتلیاں تو نہ سورج کماری کی پروا کرتی تھیں نہ جے چند کی۔۔۔

دوڑتی دوڑتی وہ سورج کماری ایک چرواہے کے پاس جا پہنچی۔ بولی، ’’بنسری پھر بجا لینا۔ پہلے میرے لیے تتلی پکڑ دو۔۔۔وہ سندر تتلی جو ابھی ابھی سامنے پھول پر جا بیٹھی ہے۔‘‘ شاید تتلی کی بجائے وہ اس نوجوان چرواہے ہی کو گرفتار کرنا چاہتی تھی اور پھر جب اس نے پیچھے مڑکر دیکھا تو اسے جے چند نظر نہ آیا۔

وہ بدستور گارہی تھی۔۔۔ ’’کہیں تم ملوگے نہیں، میرے محبوب؟ آرول کے پھولوں میں تمھاری تلاش کروں گی۔‘‘

کہیں سے کوئی جیالال آ نکلا۔ بولا، ’’تو نرگس ہے۔۔۔خمار سے بھرپور۔ تو شرم سے گردن جھکائے ہوئے ہے۔‘‘ اور وہ سورج کماری بولی، ’’باورے بھونرے! میں تیرے انتظار میں تھی!‘‘

جے چند کو آتا دیکھ کر جیالال بھاگ گیا، ورنہ وہ بُری طرح پٹتا۔ جے چند بےتحاشا گالیاں دینے لگا۔ سورج کماری سر جھکائے کھڑی تھی۔ پاؤں کے انگوٹھے سے وہ زمین کریدتی رہی۔

میں نے تہیہ کر لیا کہ مزید یہ کھیل نہ دیکھوں گا۔ اپنی لوئی میں سمٹ کر لیٹ گیا۔ سورج کماری کا خیال تک میرے دِل میں نہ اٹھے۔ بس یہی میری کوشش تھی۔ مگر سورج کماری تھی کہ سامنے سے ہٹتی ہی نہ تھی۔ میرے پاس آبیٹھی اور پُرمعنی نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ اُسے اپنے بالکل قریب پاکر میں بہت گھبرایا اور میں نے چلاتے ہوئے کہا، ’’عورت۔۔۔! عورت مایا ہے اور پھر میں تو ایک برہمچاری ہوں۔‘‘

اس نے میرا سر اپنے زانو پر رکھ لیا۔ میں گھبراکر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا، ’’نہ بابا! مجھے پاپ لگےگا!‘‘

’’اور مجھے بھی؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’پیار تو پاپ نہیں؟‘‘

میں چپ رہا۔ وہ بولی، ’’اب یاد آیا۔ جیالال سے گجرا لےکر میں نے اسے تھوڑی سی مسکراہٹ دے دی تھی۔ اس دن سے تم کچھ تنے تنے سے رہتے ہو۔۔۔تمھارے ہاتھ کس طرح شل ہو رہے ہیں! جانتے ہو؟‘‘

’’ہو جانے دو۔‘‘

’’پاؤں نیلے ہو رہے ہیں۔‘‘

’’ہونے دو۔ تم جاؤ۔‘‘

وہ مجھے سہلاتی رہی۔ اس کے بازو کتنے پرراحت تھے! ان میں کتنی گرمجوشی تھی۔ وہ مجھ سے لِپٹ گئی۔ مجھے بھینچنے لگی۔ میں سنبھل نہ سکا۔ جسم ہارتا جاتا تھا۔

کیا سچ مچ میں وہ دِیا ہوں جس کا تیل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ جس کی بتی کبھی بجھتی نہیں؟ کیا عورت مایا ہے۔۔۔سورج کماری بھی مایا ہے؟ اس کے بازوؤں کی گرمجوشی اس کی لمبی لمبی پلکیں اور اس کے ابھرے ہوئے گال، کیا یہ سب مایا ہے؟ اِس پیار سے خدا ناراض ہوتا ہے، تو ہو جائے، یہ بات تھی تو یہ صورتیں نہ بنائی ہوتیں، یہ جذبات نہ دیے ہوتے!

اوپر تارے جھلملارہے تھے۔ میرے ذہن میں پیار کے جذبات جاگ رہے تھے۔ میں نے کہا، ’’اپنے پریشان بال درست کر لو۔‘‘

وہ کچھ نہ بولی۔ میں اٹھ بیٹھا۔ ’’سورج کماری! تم نے کتنی تکلیف کی۔‘‘ میں نے کہا، ’’اس سردی میں تم یہاں بیٹھی ہو، خیمے میں چلی جاؤ۔‘‘

وہ کچھ نہ بولی۔ مجھے یہ محسوس ہوا کہ بنسری میں سرجاگ اٹھیں گے۔۔۔ضروری نہیں ہے کہ بنسری منہ لگانے ہی سے بجے۔۔۔ہوا بھی تو سر جگا سکتی ہے۔۔۔اور اس کا گیت مجھے ہمیشہ کے لیے جیت لےگا۔

مجھے ایک پُرانی کہانی یاد آ گئی۔ دیکھا کہ سامنے ایک آشرم ہے۔ میں آشرم کے دروازے کی طرف چلا گیا۔ دیکھا کہ ایک سندر کنواری کھڑی مُنہ بسور رہی ہے۔ اندر سے رشی نکلتا ہے۔ پوچھتا ہے، ’’کیا دکھ ہے تجھے دیوی؟‘‘ لڑکی کہتی ہے’’مجھے بسیرا چاہیے۔‘‘ رشی گھبرا جاتا ہے۔ ’’بسیرا۔۔۔پر دیوی! یہاں تو عورت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘‘ لڑکی کہتی ہے، ’’صرف آج کی رات۔۔۔صبح ہی میں اپنی راہ لوں گی۔‘‘ رشی کہتا ہے، ’’اچھا سامنے اُس کمرے میں چلی جا۔ اندر سے سانکل لگا لیجیو۔۔۔‘‘ نصف رات گزر جانے پر رِشی کی ہوس جاگتی ہے۔ وہ لڑکی کے کمرے کی طرف آتا ہے۔ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ ’’رشی دیو، یہ پاپ ہوگا۔‘‘ لڑکی اندر سے کہتی ہے۔ تم تو گویا میرے باپ ہو۔وہ دروازہ نہیں کھولتی۔ رشی چھت پھاڑنے لگتا ہے۔۔۔پیشتر اس کے کہ وہ چھت پھاڑ کر اندر کُودتا ہے، وہ سندر کنواری اپنی عصمت بچانے کے لیے باہر بھاگ جاتی ہے۔۔۔پھر جیسے کسی نے تصویر الٹی لٹکا دی۔ میں نے دیکھا کہ رِشی اپنے ہون کنڈ کے قریب سو رہا ہے اور وہ سندر کنواری اس کے پاس آ بیٹھی ہے۔ اس نے رشی کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا ہے۔ رشی گھبراتا ہے۔ پیچ و تاب کھاتا ہے۔ مگر پھیلتے اور سمٹتے ہوئے بازوؤں کی گرفت اسے بھاگنے سے روکے رکھتی ہے۔۔۔

میرا جسم سردی سے اکڑ رہا تھا۔ اپنی ضد پر جھنجلانے کے لیے جس گرمی کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب ٹھنڈی پڑگئی تھی۔ دِل سے باتیں کرتے کرتے میں پھر نیند کے دھارے میں بہہ گیا۔۔۔

میرا سینہ گرم ہو گیا تھا۔ گردن بھی اور شانے بھی۔ پیٹ بھی گرم ہو رہا تھا۔ پیٹ کی نِچلی انتڑیاں ٹھنڈے پانی سے نکل کر آگ کی طرف لپکنے والے بچوں کی طرح جدوجہد کر رہی تھیں۔ گردن کے پاس تو گرم اور خوشگوار خوشبو میں بسی ہوئی سانس لِپٹ رہی تھی۔ زانو ابھی بے حسّ تھے، جیسے وہ میرے نہ تھے اور پاؤں میں کسی نے سیسہ بھر دیا تھا۔۔۔ٹھنڈا اور بھاری!

میں نے بولنا بند کر دیا تھا، کون جانے یہ کیا چیز تھی۔ جو میرے اندر برہمچریہ کے خیال کا تعاقب کر رہی تھی۔ اس خیال کی آواز جسم کی ایک ایک گہرائی سے سنی ان سنی سی اٹھ رہی تھی۔ یہ کچھ ایسی حالت تھی، جو سوتے سوتے چھاتی پر ہاتھ آ پڑنے سے ہو جاتی ہے۔۔۔کوئی میرا دل کھٹکھٹا رہا تھا۔ میں نے ایک انگڑائی لی۔ ہاتھ کی ٹھنڈی انگلیاں پیٹ پر آ لگیں۔ اب یہ گرم تھا۔ زانوؤں میں بھی کچھ جنبش محسوس ہوئی اور یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ پاؤں بھی اب میرے جسم سے الگ نہیں۔

سورج کماری بھی چپ تھی۔ مگر جب اس کے بازو مجھے بھینچنے کے لیے پھیلتے اور سمٹتے تھے۔ وہ کنکھیوں سے میری طرف دیکھ کر کچھ کہنا چاہتی۔ مگر اس کے ہونٹ جو دیر تک اڑتے رہنے والے پرندوں کی طرح پر سمیٹ کر آرام کر رہے تھے مِل کر رہ جاتے۔ ادھ سوئی سی اُس کی آنکھیں تھیں۔ جیسے گھنے جنگل کے سایوں میں کرنیں جھلملا اٹھتی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں کسی قدر خاموش مسکراہٹ تھرتھرانے لگتی۔ اپنی آنکھیں میں نے اس کی گردن کی طرف موڑیں۔ دیکھا کہ اس کی رگیں مدہوش سی لیٹی ہوئی ہیں۔

زور سے شانے ہلاکر میں اس کی آنکھوں کے اندر جھانکنے لگا۔ کیا یوں دیکھنا گناہ ہے؟ کیا برہمچریہ ہی سب سے اونچی چیز ہے؟ کیا اس کے لیے سب لطف چھوڑ دینا چاہیے۔۔۔؟ یہ سب لطف جو خوبصورتی، گرمجوشی اور از خود رفتگی سے مل کر بنا ہے؟

سورج کماری جو پہلے کون جانے کس غنودگی میں اونگھ اونگھ جاتی تھی، اب شاید کسی سپنے کی راحت بخش چھاؤں کی بجائے خود زندگی میں تھرکنے والے پیار کا آنند لینا چاہتی تھی۔ اس کی آنکھیں پھیلنے لگیں۔ پلکوں کی سیاہی دھیرے دھیرے دور ہوتی گئی۔ میری آنکھیں کھل گئیں۔ کچھ دیر تو نیلے آسمان کے گرد کرنوں کا نظارہ رہا۔۔۔ایک مست پھیلا ہوا نظارہ! پھر یہ نظارہ سمٹ کر سورج کماری کی آنکھوں میں بدل گیا۔

میرا سر اس کی گود میں تھا۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں ڈر گیا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ سورج کماری نے اپنا ہاتھ میری آنکھوں پر پھیرا۔ دوبارہ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ خیمے کے اندر ہوں، پاؤں کے پاس انگیٹھی سلگ رہی ہے اور کئی اداس چہرے میرے گرد جمع ہیں۔

دیکھنے کی قوت کے ساتھ ساتھ سننے کی قوت بھی لوٹ آئی۔ سنسکرت کے کچھ بول میرے کانوں میں پڑے۔ کوئی پنڈت جی میرے لیے پرارتھنا کر رہے تھے۔ اپنے آپ یا ان لوگوں کے کہنے پر۔

میں خاموش تھا۔ احسان مندی کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ اپنی ہٹ دھرمی پر پشیمان بھی تھا۔ یہ دونوں خیال کافی دیر تک رہے۔ پھر کچھ شیطانی جذبے، جن سے ہماری زندگی قائم ہے، دھیرے دھیرے جاگنے لگے۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ ہٹ دھرمی نہ ہوتی تو سورج کماری کی گود کا لطف اور سکون کیسے نصیب ہوتا۔ سورج کماری کی آنکھیں ایکاایکی چمک اُٹھیں۔ میں ڈرا۔ کیا اس نے میرے جذبات کا بھید پا لیا ہے؟ شرم، بےبسی، خود فریبی اور نہ جانے کن کن چیزوں سے پیدا ہونے والی ایک مسکراہٹ میری نوخیز مونچھوں ہی میں کہیں گم ہو گئی۔

سورج کماری نے لوگوں سے کہا، ’’اب یہ ٹھیک ہیں۔۔۔ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ لوگ بستر وغیرہ سنبھا لیے۔ امرناتھ جانے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘

لوگ اطمینان سے سفر کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔ مگر پنڈت جی بدستور منتر پڑھے جا رہے تھے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں۔ سورج کماری نے ایک بار پنڈت جی کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف منہ موڑ کر ایک للچائی سی ادا سے مسکرا کہا، ’’اٹھو برہمچاری جی۔۔۔!‘‘

مصنف:دیوندر ستیارتھی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here