یہ وہ زمانہ تھا جب چتوڑمیں میرا بائی تصوف کے متوالوں کوپریم کے پیالے پلاتی تھی۔ رنچھوڑجی کے مندرمیں جس وقت وہ بھکتی سے متوالی ہوکر اپنی سریلی آوازمیں پاکیزہ راگوں کو الاپتی تو سننے والے مست ہوجاتے۔ ہرروزشام کویہ روحانی سکون اٹھانے کے لئے چتوڑ کے لوگ اس طرح بے قرار ہوکر دوڑتے جیسے دن بھر کی پیاسی گائیں دور سے کسی ندی کودیکھ کراس کی طر ف بھاگتی ہیں اور اس بھگتی ساگر سے چتوڑ والے ہی شاد کا م نہ ہوتے تھے بلکہ سارے راجپوتانہ کی پیاسی زمین اس سے سیراب ہوتی تھی۔
ایک دن ایسا اتفاق ہواکہ جھالاواڑ کے راؤصاحب اورمندار کے راج کمار دونوں ہی چتوڑ آئے۔ راؤصاحب کے ساتھ ان کی راج کماری پربھاتھی، جس کے حسن و سیرت کا دوردور شہرہ تھا۔ محبت کا تیرچل گیا۔
راج کمار دیوانگی کےعالم میں شہر کی گلیوں میں گھوما کرتا، راج کماری ہجر کی آگ میں سلگتی محل کے جھروکوں سے جھانکا کرتی۔ شام ہوتے ہی دونوں بھوکے اورپیاسے مندرمیں آتے اوریہاں چاندکودیکھ کر کمدنی کھل جاتی۔
روشن ضمیر میرانے کئی بار ان کی نگاہوں کوٹکراتے دیکھا اور ان کے دلی جذبات کوتاڑلیا۔ ایک دن کیرتن کے بعدجب جھالاواڑ کے راؤصاحب چلنےلگے تو اس نے مندارکے راج کمار کوبلاکر ان کے سامنے کھڑا کردیااورکہا، ’’راؤ صاحب! میں پربھا کے لئے یہ ورلائی ہوں۔ آپ قبول کیجئے۔‘‘
پربھاشرم سے گڑسی گئی۔ راؤصاحب مندار کے راج کمار کے حسن اخلاق پرپہلے ہی سے گرویدہ ہورہے تھے۔ خوش ہوکر فوراسینے سے لگالیا۔
اسی وقت چتوڑ کے رانابھوج راج کمار بھی مندرمیں آئے اور انہوں نے پربھا کا چاندسا چہرہ دیکھا۔ ان کی چھاتی پرسانپ لوٹ گیا۔
جھالاواڑ میں بڑی دھوم تھی۔ راج کماری پربھا کا آج بیاہ ہوگا۔ مندار سے بارات آئےگی۔ مہمانوں کی خاطرمدارات کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ دکانیں سجی ہوئی تھیں۔ نوبت خانے بج رہے تھے۔ سڑکوں پرخوشبوچھڑکی تھی۔ بالاخانے رشک ِ گلزار بنے تھے مگروہ جس کے لئے یہ سب تیاریاں تھیں، باغیچے کے کنج میں اداس بیٹھی رورہی تھی۔
رنواس میں ڈومنیاں خوشی ومسرت کے گیت گارہی تھیں۔ کہیں حسینوں کی چہل پہل تھی، کہیں زیوروں کی چمک دمک، کہیں عمررفتہ کے دل نوش چرچے۔ نائن بات بات پر تیزہوتی تھی۔ مالن غرورسے پھولی نہ سماتی تھی، دھوبن آنکھیں دکھاتی تھی، کمہارن مٹکے کی طرح پھولی ہوئی تھی۔ منڈپ کے نیچے پروہت جی بات بات پرنخرے دکھاتے تھے۔ رانی سرکے بال کھولے چاروں طرف دوڑتی تھیں، سب کی بوچھاڑیں سہتی تھیں اوراپنی قسمت پرنازاں تھیں۔ دل کھول ہیرے جواہر لٹارہی تھیں۔ آج پربھا کابیاہ ہے۔ بڑے نصیبوں سے ایسے دن آتے ہیں اوربڑی قسمت سے ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ سب اپنی اپنی دھن میں مست ہیں، کسی کوپربھا کی فکرنہیں ہے جوکنج میں اکیلی بیٹھی رورہی ہے۔
ایک عورت نے نائن سے آکرکہا، ’’بہت بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کر۔۔۔ کچھ راج کماری کابھی دھیان ہے۔ چل ان کے بال گوندھ۔‘‘ نائن نے دانتوں کے نیچے زبان دبائی۔ دونوں پربھا کو ڈھونڈتی باغ میں آئیں۔ پربھا نے آنسوپونچھ ڈالے۔ نائن موتیوں سے مانگ پھرنے لگی۔ سرجھکاکرآنکھوں سے موتی برسانے لگی۔
سہیلی نے آبدید ہوکرکہا، ’’بہن اتنا دل چھوٹا مت کرو، جی کوسنبھالو، منہ مانگی مراد مل رہی ہے۔ اتنی اداس کیوں ہوتی ہے؟‘‘
پربھا نے سہیلی کی طرف بے کسی سے دیکھ کرکہا، ’’بہن نہ جانے کیوں دل بیٹھاجاتاہے۔ بہت سنبھالتی ہوں، نہیں سنبھلتا۔‘‘
سہیلی نے چھیڑکرکہا، ’’پیاسے ملنے کی بیتابی ہے۔‘‘
پربھا حسرت ناک انداز سے بولی، ’’کوئی میرے دل میں بیٹھاکہہ رہا ہے کہ اب ان سے ملاقات نہ ہوگی۔‘‘
سہیلی نے اس کے بال سنوارکرکہا، ’’جیسے صبح کے پہلے اندھیرا ہوجاتاہے۔ اسی طرح ملاپ سے پہلے پریمیوں کے دل پرمایوسی چھاجاتی ہے۔‘‘
پربھا بولی، ’’نہیں بہن یہ بات نہیں۔ مجھے شگن اچھے نظر نہیں آتے۔ آج دن بھر میری آنکھ پھڑکتی رہی۔ رات کومیں نے بڑے بڑے خواب دیکھے ہیں، مجھے معلوم ہوتاہے کہ آج کوئی نہ کوئی آفت ضرور آئے گی۔ تم رانا بھوج راج کو جانتی ہونا؟‘‘
شام ہوگئی آسمان پر روشنی کے چراغ جلے۔ جھالاواڑ میں بوڑھے جوان بارات کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگے۔ مزدوروں نے پاگیں سنواریں، ہتھیار بجائے، نوجوان عورتوں نے بناؤ سنگار کئے اورگاتی بجاتی رنواس کوچلیں۔ ہزاروں عورتیں محل کی چھت پربیٹھی ہوئی بارات کی راہ دیکھ رہی تھیں۔
اچانک شورمچاکہ بارات آگئی۔ لوگ سنبھل بیٹھے۔ نقاروں پرچوٹیں پرنے لگیں، سلامیاں دغنے لگیں۔۔۔ جوانوں نے گھوڑوں کوایڑلگائی۔ دم کے دم میں مسلح سواروں کی ایک فوج شاہی محل کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ لوگوں نے حیرت سے دیکھا۔ یہ مندار کی بارات نہ تھی، رانا بھوج راج کی فوج تھی۔
جھالاواڑ والے ابھی سراسیما کھڑے تھے۔ کچھ فیصلہ نہ کرسکے تھے کہ کیا کرنا چاہئے، اتنے میں چتوڑ والوں نے راج محل کوگھیرلیا۔ تب جھالاواڑی بھی چونکے۔ سنبھل کرتلواریں کھینچ لیں اور حملہ آوروں پرٹوٹ پڑے۔ رانا محل میں گھس گیا۔ رنواس میں بھگدڑمچ گئی۔ پربھا سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی تھی یہ ہنگامہ دیکھ کر گھبرائی۔ اتنے میں راؤصاحب ہانپتے ہوئے آئے اوربولے، ’’بیٹی پربھا! رانا بھوج راج نے ہمارے محل کوگھیرلیاہے، تم فورا نیچے تہہ خانے میں چلی جاؤ اوردروازے بندکرلو۔ اگرہم چھتری ہیں توایک چتوڑی بھی یہاں سے زندہ نہ جانے پائے گا۔‘‘
راؤصاحب کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ رانا کئی دلیروں کے ساتھ پہنچے اور بولے، ’’چتوڑوالے توسرکٹانے کے لئے ہی آئے ہیں۔ اگروہ راجپوت ہیں تو پربھا کولے کر ہی واپس جائیں گے۔۔۔‘‘
بوڑھے راؤصاحب کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ تلوارکھینچ کررانا پروارکیا۔ رانا وار بچاکرپربھا سے بولے، ’’راج کماری ہمارے ساتھ چلوگی؟‘‘
پربھا سرجھکائے ہوئے رانا کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی اور بولی، ’’ہاں چلوں گی۔‘‘
راؤصاحب تڑپ کربولے، ’’پربھا تو راجپوت کی بیٹی ہے۔‘‘
پربھا نے سرجھکالیا۔ زبان سے کچھ نہ بولی۔
راؤصاحب نے طیش میں آکرکہا، ’’بے غیرت۔‘‘
چھری کے تلے پڑا ہواجانور جس طرح قاتل کی طرف دردناک نگاہوں سے دیکھتا ہے اسی طرح پربھا نے رانا کی طرف دیکھ کرکہا، ’’جس جھالاواڑ کی گودمیں پلی ہوں، کیا اسے خون سے رنگوادوں؟‘‘
راؤصاحب نے اسی غضبناک انداز سے کہا، ’’راجپوتوں کوخون اتنا پیارانہیں ہوتا۔۔۔ عزت پرجان دینا ان کا دھرم ہے۔‘‘
تب پربھا کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ بولی، ’’راجپوت کی بیٹی اپنی حفاظت خود کرسکتی ہے اس کے لئے خون بہانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
پلک جھپکتے میں رانا نے پربھا کوگود میں اٹھالیا۔ بجلی کی طرف جھپٹ کرباہر نکلے۔ انہوں نے اسے گھوڑے پربٹھایا، آپ سوارہوگئے اورگھوڑے کواڑادیا۔
چتوڑ کے جانبازوں نے بھی باگیں موڑدیں۔ ان کے دوسونوجوان زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے مگر کسی نے میان سے تلوار نہ نکالی تھی۔
رات کو دس بجے مندار سے بارات جھالاواڑ پہنچی مگر یہ افسوسناک خبر پاتے ہی لوٹ گئی۔ مندار کمار مایوسی سے ٹوٹ گیا۔ جس طرح رات کوندی کا کنارہ سنسان ہوجاتاہے اسی طرح ساری رات جھالاواڑ میں سناٹا چھایارہا۔
چتوڑ کے شیش محل میں پربھا خاموش بیٹھی سامنے کے خوشنما پودوں کی پتیاں گن رہی تھی۔ شام کا وقت تھا۔ رنگ برنگ کے پرندے درختوں پر بیٹھے چہچہارہےتھے۔ اتنے میں پربھا اٹھ کھڑی ہوگئی۔
رانانے کہناشروع کیا، ’’پربھا! میں تمہارا خطاوار ہوں۔۔۔ میں تمہیں جبراً تمہارے ماں باپ سے چھین لایاہوں لیکن اگرمیں تم سے کہوں کہ یہ سب تمہاری محنت کی وجہ سے ہواتوتم اپنے دل میں ہنسوگی اورکہوگی کہ یہ بڑے نرالے ڈھنگ کی محبت ہے۔ مگرحقیقت میں صحیح بات یہ ہے، جس وقت میں نے تمہیں رنچھوڑ جی کے مندر میں دیکھا تب سے ایک لمحہ بھی ایسا نہ گزرا کہ میں تمہاری یاد سے بیگانہ رہاہوں۔ تمہیں اپنا بنانے کی کوئی اورصورت ہوتی تومیں ہرگز اس وحشیانہ طریقے سے کام نہ لیتا۔۔۔
میں نے راؤصاحب کی خدمت میں بارہا شادی کے پیغام بھیجے مگر انہوں نے ہمیشہ انکارکیا اورہمیشہ میری بے عزتی کی۔ آخر میں جب تمہاری شادی کی گھڑی آپہنچی اورمیں نے دیکھاکہ تم ایک ہی دن میں کسی دوسرے کی ہوجاؤگی اورتمہارادھیان کرنابھی میری روح کوگناہگار کردے گا تومجبورہوکر مجھے یہ ظلم کرناپڑا۔۔۔
میں مانتا ہوں کہ یہ سراسر میری خودغرضی ہے۔ میں نے اپنی محبت کے سامنےتمہارے جذبات کی پروانہ کی مگرمحبت خودغرضی کا دوسرا نام ہے۔ محبت میں انسان کو محبوب کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ مجھے پورایقین ہے کہ میں اپنی محبت کے اثر سے تمہیں اپنابنالوں گا۔ پربھا پیاس سے مرتا ہوا انسان اگرکیو گڑھے میں منہ ڈال دے تو وہ سزامستحق نہیں۔ میں محبت کاپیاسا ہوں، میرا میری بیوی ہے۔ اس کا دل محبت کااتھاہ ساگرہے۔ اس کاایک پیالہ بھی مجھے مست کرنے کے لئے کافی تھا مگرجس دل میں ایشور کا باس ہو وہاں میرے لئے کہاں جگہ ہے۔ تم یہ کہوگی کہ اگرمحبت کابھوت تمہارے سرپرسوار تھا توسارے راجپوتانہ میں کیا عورتیں نہ تھیں؟ بے شک راجپوتانہ میں حسن کی کمی نہیں اورچتوڑ کے رانا کی طرف سے شادی کی بات چیت کسی کے لئے بے عزتی کاباعث ہوسکتی ہے مگر اس سوال کا جواب تم خود ہی ہو۔ اس خطاکی ذمہ دارتم خودہو۔
راجستھان میں ایک ہی چتوڑ ہے، ایک ہی رانا ہے اورایک ہی پربھا ہے۔ ممکن ہے میری تقدیر میں محبت کا سکھ نہ لکھا ہو، ممکن ہے میں اپنی تقدیر میں جنگ کررہا ہوں۔ مگرتقدیر سے لڑنا مردووں کا کام ہے، اس پرقانع ہوکربیٹھ رہنا مردوں کاکام نہیں۔ اس جنگ میں میری جیت ہوگی یا ہار، اس کامیں کیا جواب دے سکتاہوں۔ اگر محبت کا کچھ پھل ملتا ہے تو وہ مجھے ملے گا۔ ا س کافیصلہ تمہارےہاتھ میں ہے۔‘‘
پربھا کی آنکھیں زمین کی طرف تھیں اورخیالات پرندوں کی طرح ادھر ادھر اڑتے پھرتے تھے۔ وہ جھالاواڑ کومارکاٹ سے بچانے کے لئے رانا کے ساتھ چلی گئی تھی مگر رانا کی طرف سے بھری بیٹھی تھی۔ اسے ننگِ خاندان، ننگِ قوم، ظالم، خونخوار، کمینہ، نفس کا غلام، بزدل کہہ کر دل کا بخار نکالناچاہتی تھی۔ اس کو یقین تھا کہ یہ بے عزتی اس سے برداشت نہ ہوگی اور وہ طاقت کے زور سے مجھے قابو میں لاناچاہے گا۔ اس آخری موقع کے لئے اس نے اپنے کلیجے کوخوب مضبوط اوراپنی کٹار کو خوب تیز کررکھا تھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا اس کا ایک وار ان پر ہوگا اور دوسرا اپنے کلیجے پر اوریوں یہ پاپ کانڈختم ہوجائے گا، لیکن راناکی لجاجت، ان کی دردناک تقریر، ان کا عترافِ گناہ اوران کی سرگرمی نے اس وقت پربھا کو رام کرلیا۔ آگ پانی سے بجھ جاتی ہے۔ رانا کچھ دیروہاں بیٹھے رہے پھراٹھ کر چلے گئے۔
پربھا کوچتوڑمیں رہتے ہوئے دوماہ گزرچکے تھے۔ رانا پربھا کے پاس دوبارہ نہ آئے اس دوران میں رانا کے خیالات میں بہت کچھ انقلاب ہوگاڑہے۔ جھالاواڑ پرحملہ کرنے سے پہلے میرابائی کواس کی ذرابھی خبرنہ تھی۔ رانا نے اس منصوبے کورازمیں رکھاتھا۔ مگراب میرابائی اکثرانہیں اس فعل پرنادم کیاکرتی تھیں اور رفتہ رفتہ رانا کوبھی یقین ہونے لگا کہ پربھا اس طرح قابو میں نہیں آسکتی۔ انہوں نے اس کے لئے عیش وآرام کے سامان فراہم کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا مگرپربھا اس کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھا۔ رانا، پربھا کی لونڈیوں سے ہر روز کی کیفیت دریافت کیا کرتے اور انہیں ایک ہی یاس انگیز داستان سنناپڑتی۔ مرجھائی ہوئی کلی کسی طرح نہیں کھلتی۔ اس لئے کبھی کبھی رانا کواپنے اس فعل پر افسوس ہوتا۔ وہ مرجھائے کہ میں نے ناحق یہ بے انصافی کی مگرپھر پربھا کی دلفریب صورت آنکھوں کے سامنے آجاتی تو وہ اپنے دل کواس خیال سے سمجھالیتے کہ ایک خوددار عورت کے دل پر اتنی جلدی اثرنہیں ہوسکتا اورمیری نازبرداریاں کبھی نہ کبھی اثرضرور دکھائیں گی۔
پربھا دن سارے دن اکیلے بیٹھے بیٹھے اکتاتی اورجھنجھلاتی تھی۔ اس کی تفریح کےلئے گانے والی عورتوں کی ایک جماعت مقررتھی مگرراگ رنگ سے اسے چڑھ ہوگئی تھی وہ ہردم اپنے خیالوں میں غرق رہتی۔ رانا کی لجاجت کااثر زائل ہوچکاتھا اوراب پھران کی بے رحمانہ زیادتی اسے اپنی اصلی صورت میں محسوس ہونے لگی تھی۔ چرب زبانیاں قائل نہیں کرتیں صرف لاجواب کردیتی ہیں۔ پربھا کو اب اپنے لاجواب ہوجانے پرتعجب ہوتا ہے۔ اسے رانا کی گفتگو کا منہ توڑ جواب دینے کےپہلوبھی نظرآنے لگے ہیں۔ وہ کبھی ان سے لڑکراپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے بے قرار ہوجاتی ہے۔
مگراب ان باتوں سے کیافائدہ؟ وہ سوچتی ہے کہ میں راؤصاحب کی بیٹی ہو ں لیکن دنیا کی نگاہوں میں رانا کی رانی ہوچکی۔ اب اگراس قید سے چھوٹ بھی جاؤں تو میرے لئے کہاں ٹھکانہ ہے، میں کسے منہ دکھاؤں گی۔ مندار کمار میرے سچے عاشق ہیں مگرکیا وہ اب بھی مجھے قبول کرلیں گے؟ اس سے نہ صرف میرے خاندان کا بلکہ ساری راجپو ت قوم کا نام ڈوب جائے گا اور اگرذلت کی پروا نہ کرکے تجھے قبول بھی کرلیں تو ان کاسرہمیشہ کے لئے نیچا ہوجائے گا۔ کسی نہ کسی وقت ضرور ان کا دل مجھ سے بھرجائے گا اوروہ مجھے اپنے خاندان کاکلنک سمجھیں گے۔
میرے لئے اب صرف دوراستے ہیں۔ یا تو اسی قیدِتنہائی میں زندگی کے دن کاٹ دوں یاپھر یہاں سے کسی طرح بھاگ جاؤں مگربھاگ کر کہاں جاؤں، باپ کے گھر؟ وہاں اب میرا گزرنہیں۔ مندار کمار کے پاس؟ اس میں ان کی ذلت ہے اورمیری بھی۔ بھکارن بن جاؤں۔ اس میں بھی جگ ہنسائی ہوگی۔ آئندہ چل کر زندگی کاکیاانجام ہو۔
ایک بے کس عورت کے لئے حسن بلائے جان ہوتا ہے! ایشور! وہ دن نہ آئے کہ میں چھتری ونش کا کلنک بنوں۔ راجپوت قوم نے عزت پراپناخون پانی کی طرح بہایاہے۔ اس کی ہزاروں دیویاں سوکھی لکڑی کی طرح جل مری ہیں۔ ایشور! وہ گھڑی نہ آئے کہ میرے کارن کسی راجپوت کی آنکھیں شرم سے زمین کی طر ف جھکیں۔ نہیں میں اس قیدمیں مرجاؤ ں گی۔ رانا کے ظلم سہوں گی، جلوں گی، مروں گی مگراسی گھر میں۔ بیاہ توجس سے ہوناتھا ہوچکا۔ دل میں اسی کی پرستش کروں گی مگرزبان پر اس کا نام نہ لاؤں گی۔
ایک دن جھنجھلاکراس نے رانا کو بلوابھجا۔ رانا آئے، ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ وہ کچھ فکرمند سے تھے۔ پربھا کچھ کہناچاہتی تھی۔ مگران کی صورت دیکھ کر اسے ان پررحم آگیا۔ انہوں نے اسے بات چیت کا موقع نہ دے کرخود کہنا شروع کیا، ’’پربھا! تم نے آج مجھے بلوایاہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ تم نے مجھے یادتوکیا مگریہ مت سمجھوکہ میں میٹھی میٹھی باتیں سننے کی امید لے کرآیاہوں۔ نہیں، میں جانتاہوں جس کے لئے تم نے مجھے بلایاہے۔ تمہارایہ گنہگار تمہارے سامنے حاضر ہے جوسزا چاہے دو۔ مجھے اب تک آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اس کا باعث صرف یہی خوف تھا کہ تم راجپوتنی ہو اورراجپوتیاں گناہوں کومعاف کرنانہیں جانتیں۔ جھالاواڑ میں جب تم میرے ساتھ آنے پررضامند ہوگئی تھیں۔۔۔ اسی وقت میں نے تمہارے جوہر پرکھ لئے، مجھے معلوم ہوگیاکہ تمہارا دل خوداعتمادی سے بھرپورہے اور اسے قابو میں لاناآسان نہیں ہے۔ تم نہیں جانتیں کہ یہ ایک مہینہ میں نے کس طرح کاٹا ہے۔ تڑپ تڑپ کر مررہا ہوں لیکن جس طرح شکار ی بپھری ہوئی شیرنی کے سامنے جانے سے ڈرتا ہے وہی حالت میری بھی تھی۔ یہاں باربار آیا مگر ہمیشہ تمہیں خاموش، تیوری چڑھائے دیکھا۔ اندر قدم رکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ الٹے پیروں لوٹ گیا۔ مگرآج تم نے مجھے بلایا ہے، میں بن بلایامہمان نہیں ہوں اورتمہیں مہمان کی خاطر کرناچاہئے۔ دل سے نہ سہی۔ جہاں آگ دہک رہی ہو، وہاں ٹھنڈ ک کہاں۔ باتوں سے ہی سہی، اپنےاوپر جبر کرکے ہی سہی مہمان کا استقبال کرو۔ دنیا میں دشمن کی عزت دوستوں سے بھی زیادہ کی جاتی ہے۔
پربھا میں دیکھتا ہوں کہ تم میرے غریب خانے کوقید سے بھی بدتر سمجھ رہی ہو۔ مجھے امید ہے کہ میری خطا معاف کروگی اورمیرے اوپرترس کھاؤگی۔ مگرمیری امید پوری نہیں ہوئی۔ ذرا دیر کےلئے غصے کودباؤ اورمیری خطاؤں پرغور کرو۔ میرے اوپریہ الزام ہے کہ میں تمہیں تمہارے ماں باپ کی گود سے زبردستی چھین لایا۔ تم جانتی ہو کہ کرشن بھگوان رکمنی کو زبردستی چھین لائے تھے۔ راجپوتوں میں یہ کوئی بات نہیں ہے۔ ایسے واقعات سے ہماری تاریخیں بھری ہوئی ہیں۔ تم کہوگی، اس سے جھالاواڑ والوں کی بے عزتی ہوئی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ جھالاواڑ والوں نے وہی کیا جومردوں کوکرناچاہئے تھا۔ انہوں نے اپنی غیرت کادلیرانہ ثبوت دیا۔ اگروہ ناکام رہے تو ان کی خطاب نہیں ہے۔ بہادروں کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے، ہم کامیاب ہوئے۔ اس لئے کہ ہم تعدادمیں زیادہ تھے اورکام کے لئے تیار ہوکر گئے تھے۔ وہ بے خبرتھے سوان کی ہارہوئی مگر ایشور کے لئے یہ خیال مت کرو کہ میں عذرِگناہ لے کرآیاہوں۔ نہیں! مجھ سے غلطی ہوئی اورمیں اس پر دل سے نادم ہوں۔ اب اس بگڑے ہوئے کھیل کوتمہارے ہی اوپر چھوڑتا ہوں۔ اگرتمہارے دل میں مجھے کوئی گوشہ مل سکے تومیں اسے سورگ سمجھوں گا۔۔۔ ڈوبنے والے کوتنکے کا سہارابھی بہت ہے۔ کیا یہ ممکن ہے؟‘‘
پربھا بولی، ’’نہیں۔‘‘
رانا: ’’جھالاواڑ جاناچاہتی ہو؟‘‘
پربھا: ’’نہیں۔‘‘
رانا: ’’مندار کے راجکمار کےپاس بھیج دوں؟‘‘
پربھا: ’’ہرگزنہیں۔‘‘
رانا: ’’لیکن مجھ سے تمہارایہ کڑھنا نہیں دیکھا جاتا۔‘‘
پربھا: ’’آپ کو اس تکلفہ سے جلدنجات مل جائے گی۔‘‘
رانا نے سہمی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کرکہا، ’’جیسی تمہاری مرضی۔‘‘ اورچلے گئے۔
رات کے دس بج گئے تھے۔ رنچھوڑجی کے مندرمیں کیرتن ختم ہوگیاتھا اورویشنو سادھو بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔ میراخود تھال لالا کے سامنے سامنے رکھتی۔ سادھوسنتوں کی خاطر وتعظیم میں اس دیوی کوروحانی سرور حاصل ہوتاتھا۔ سادھو لوگ جس شوق سے کھانا کھاتے تھے اس سے شبہ ہوتا تھا کہ ایشور کے عطا کردہ چٹ پٹے کھانوں کامزہ اٹھانا بجائے خودعبادت ہے۔ کمزورانسان اس کے سوااورکیا کرسکتا ہے؟یہ مہاتمالوگ خدا کی بندگی کے اس سیدھے راستے پر اندھا دھند دورڑرہے تھے۔ پیٹ پر باربارہاتھ پھیرتے، کبھی اس پہلوبیٹھتے کبھی اس پہلو اورمنہ سے ‘نہیں’ کہتا تو ان کےلئے گناہ تھا۔
مگران میں ایک مہاتما ایسے بھی تھے جوآنکھیں بندکئے کسی خیال میں غرق بیٹھے تھے اور تھال کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے۔ ان کانام پریمانند تھا۔ آج ہی پہنچے تھے۔ چہرے سے جلال برستاتھا دیگرسادھو کھاکر اٹھ گئے مگر انہوں نے کھانے کی طرف نگاہ بھی نہ کی۔
میرا نے ہاتھ جوڑکرکہا، ’’مہاراج! آپ نے پرشاد چھوابھی نہیں، داسی سے کوئی خطا تونہیں ہوگئی؟‘‘
سادھو: ’’نہیں، اِچھا (خواہش) نہیں۔‘‘
میرا: ’’کچھ میری خاطر سے کھائیے۔‘‘
سادھو: ’’اِچھا نہیں ہے۔‘‘
میرا: ’’میری یہ التجا ماننی پڑے گی۔‘‘
سادھو: ’’میں تمہارے حکم کی تعمیل کروں گا اور تمہیں بھی میری ایک بات ماننی ہوگی۔‘‘
میرا: ’’کہئے، کیا حکم ہے؟‘‘
سادھو: ’’ماننی پڑے گی۔‘‘
میرا: ’’مانوں گی۔‘‘
میرابائی کا خیال تھاکہ سادھو کسی مندربنوانے یا کسی یگیہ کرانے کا سوال کریں۔ سادھو کے اس اندازکا اسے باربارتجربہ ہوچکاتھا اورمیرا کاسب کچھ ایسے کارِخیر کے لئے وقف تھا مگراسے کتنی حیرت ہوئی جب سادھو نے زمین کی طرف تاکتے ہوئے کہا، ’’آج رات کومحل کاچوردروازہ کھول دینا۔‘‘
میرابائی کو سکتہ ہوگیا بولی، ’’آ پ کون ہیں؟‘‘
سادھو: ’’مندار کاراج کمار۔‘‘
میرا نے راج کمار کوسرسے پاؤں تک دیکھا۔ نگاہ میں تعظیم کی بجائے حقارت تھی، بولی، ’’راجپوت یوں دھوکا نہیں دیتے۔‘‘
راج کمارنے جواب دیا، ’’یہ قاعدہ اس موقع کےلئے ہے جب دونوں فریق برابرطاقت رکھتے ہوں۔‘‘
میرا: ’’ایسا نہں ہوسکتا۔‘‘
راجکمار: ’’آپ نے وچن دیا ہے اسے پورا کرناہوگا۔‘‘
میرا: ’’مہاراج کے حکم کے سامنے میراوچن کوئی چیزنہیں۔‘‘
راجکمار: ’’میں یہ کچھ نہیں جانتا، اگرآپ کواپنے وچن کا خیال ہے تو اسے پورا کیجئے۔‘‘
میرا، (سوچ کر) ’’محل میں جاکرکیاکروگے؟‘‘
راجکمار: ’’نئی رانی سے دودوباتیں۔‘‘
میرافکر میں ڈوب گئی۔ ایک طرف رانا کے سخت احکام تھے۔ دوسری طرف اپنا قول اور اسے پورا کرنے کے نتیجے۔ کتنی ہی پرانے واقعات نظروں کے سامنےآگئے۔ میں وچن دے چکی ہوں، اسے پورا کرنا میراسب سے بڑا دھرم ہے۔ مگرپتی کی آگیا کوکیسے توڑوں؟انہوں نے سخت ممانعت کررکھی ہے اگر اس کے خلاف کرتی ہوں تو لوگ اورپرلوک دونوں بگڑتے ہیں۔ کیوں نہ ان سے صاف صاف کہہ دوں۔
کیا وہ میری اتنی درخواست نہ مانیں گے۔ میں نے آج تک ان سے کچھ نہیں مانگا، میں اج ان سے بھیک مانگوں گی۔ کیاوہ میرے وچن کی پرواہ نہ کریں گے۔ ان کا دل بڑا فراخ ہے۔ یقینا وہ مجھے ہمیشہ کے لئے وعدہ شکنی سے بچائیں گے۔
اس طرح دل میں فیصلہ کرکے بولی، ’’کس وقت کھول دوں؟‘‘
راجکمار نے اچھل کرکہا، ’’آدھی رات کو۔‘‘
میرا: ’’میں خودتمہارے ساتھ چلوں گی۔‘‘
راجکمار: ’’کیوں؟‘‘
میرا: ’’تم نے مجھے دھوکادیاہے۔ مجھے تمہارے اوپربھروسہ نہیں ہے۔‘‘
راجکمارنے شرمندہ ہوکرکہا، ’’اچھا توآپ دروازہ پرکھڑی رہیے گا۔‘‘
میرا: ’’اگرتم نے دغا کی توجان سے ہاتھ دھوناپڑے گا۔‘‘
راجکمار: ’’میں سب کچھ سہنے کے لئے تیارہوں۔‘‘
میرا یہاں سے رانا کی خدمت میں پہنچی۔ رانا اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ کھڑے ہوگئے اس وقت میرا کاآنا ایک غیرمعمولی بات تھی، ’’بائی جی کیا حکم ہے؟‘‘
میرانے جواب دیا، ’’آپ سے بھیک مانگنے آئی ہوں، مایوس نہ کیجئے گا۔ میں نے آج تک کوئی سوال نہیں کیاہے پرآج ایک مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔ آپ ہی مجھے اس سے نکال سکتے ہیں۔ مندار کے راج کمار کوآپ جانتے ہیں؟
رانا: ’’ہاں۔ خوب اچھی طرح۔‘‘
میرا: ’’آج اس نے مجھے بڑادھوکہ دیا۔ ایک ویشنومہاتما کاروپ بھرکر رنچھوڑ کے مندرمیں آیااور اس نے چھل کرکے مجھے وچن دینے پرمجبور کردیا۔ میری ہمت نہیں پڑرہی ہے کہ اس کافریب آپ پرظاہرکروں۔
رانا: ’’پربھا سے ملادینے کوتونہیں کہا؟‘‘
میرا: ’’جی ہاں، اس کامنشا یہی تھا مگر سوال یہ ہے کہ آدھی رات کو چوردروازہ کھول دوں۔ میں نےاسے بہت سمجھایا، بہت دھمکایا، مگروہ کسی طرح نہ مانا۔ آٓخر میں نے مجبور ہوکراس کا سوال پورا کرنے کاوعدہ کرلیا تب اس نے کھانا کھایا۔ اب میرے وچن کی لاج آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ چاہیں، اسے پورا کرکے میرا مان رکھیں، چاہیں اسے توڑکرمیرا مان کھودیں۔ آپ میرے اوپرجودیارکھتے ہیں۔ اسی کے بھروسے پرمیں نے وچن دیا۔ اب اس پھندے سے آپ ہی مجھے چھڑاسکتے ہیں۔‘‘
راناکچھ سوچ کر بولے، ’’تم نے وچن دیاہے اسے پورا کرنا میرافرض ہے۔ تم دیوی ہوتمہارے وچن نہیں ٹل سکتے۔ دروازے کھول دومگر یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ راجکماری پربھا سے تنہائی میں ملاقات کرے۔ تم خود اس کے ساتھ جانا۔۔۔ میری خاطراتنی تکلیف کرنا۔ مجھے خوف ہے کہ وہ اسے قتل کرنے کا ارادہ کرکے نہ آیاہو۔ حسد آدمی کو اندھاکردیتاہے۔ بائی جی میں اپنے دل کی بات آپ سے کہتاہوں۔ مجھے پربھا کویہاں لانے کاسخت افسوس ہے، میں نے سمجھا تھا کہ وہ یہاں رہتے رہتے مانوس ہوجائے گی مگریہ خیال بالکل غلط نکلا۔ مجھے خوف ہے کہ اگرکچھ دن اسے یہاں اوررہنا پڑا تووہ زندہ نہ رہے گی۔ مجھ پر ایک ابلا کے خون کا الزام آئے گا۔ میں نے اس سے جھالاواڑ جانے کے لئے کہا لیکن وہ راضی نہ ہوئی۔ آج ان دونوں کی باتیں سنو۔ اگروہ مندار کمار کے ساتھ جانے پرتیار ہوتو میں خوشی سے اجازت دے دوں گا۔ مجھ سے اس کاکڑھنا نہیں دیکھا جاتا۔ کاش اس لڑکی کادل میری طرف سے اتنا سخت نہ ہوتا تومیری زندگی سپھل ہوجاتی۔ لیکن جب میری تقدیر میں یہ سکھ نہیں لکھا توکیا چارا۔ میں نے تم سے ان باتوں کاذکر نہیں کیا۔ تم سے ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ تمہارے پاک دل میں ان باتوں کے لے کہاں جگہ ہے؟‘‘
میرابائی نے آسمان کی طرف دیکھ کرکہا، ’’تو مجھے اجازت ہے کہ چوردروازہ کھول دوں؟‘‘
رانا: ’’تم خود مالک ہو۔ مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
میرابائی نے پرنام کیا اورچلی گئی۔
آدھی رات گزرگئی تھی۔ پربھا خاموش بیٹھی جلتے ہوئے چراغ کودیکھ رہی تھی اورسوچتی تھی کہ اس کے جلنے سے روشنی ہوتی ہے، یہ اگر جلتی ہے تو دوسروں کوفائدہ پہنچتاہے۔۔۔ میرے جلنے سے کسی کوکیافائدہ ہے۔ میں کیوں جلوں، میرے زندہ رہنے کی کیا ضرورت ہے۔
اس نے پھرکھڑکی سے سرنکال کر آسمان کی طرف دیکھا، سیاہ سطح پرتارے جگمارہے تھے۔ اندھیرے نے انہیں خوب روشن کردیاتھا۔ پربھا نے سوچا میرے سیاہ نصیب میں روشن تارے کہاں ہیں۔ میرے لئے زندگی کی خوشیاں کہاں ہیں، یہی تنہائی کی قید جھیلنے کے لئے زندہ رہوں، رونے کے لئے جیوں، ایسے جینے سے کیافائدہ؟
اورجینے میں بدنامی بھی توہے۔ میرے دل کا حال کون جانتاہے؟دنیامجھے بے غیرت کہتی ہوگی۔ جھالاواڑ کی دیویاں میرے مرنے کی خبر سننے کی منتطر ہوں گی۔ میری پیاری ماتا کی آنکھیں اوپرنہ اٹھتی ہوں گی مگرجب وہ میرے مرجانے کی خبرپائیں گی توغرور سے ان کا سر اونچاہوجائے گا۔۔۔ یہ بے حیائی کی زندگی ہے۔ ایسے جینے سے مرنابہتر!
پربھا نے تکیے کے نیچے سے ایک چمکتی ہوئی کٹار نکالی۔ ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس نے کٹارکی طرف نظرجمائی۔ اس سے ہم آغوش ہونے کے لئے دل کومضبوط کیا، ہاتھ اٹھایا مگرنہ اٹھا۔ ارادہ میں کمزوری تھی۔ آنکھیں جھپک گئیں۔۔۔ سرمیں چکرآگیا۔۔۔ کٹار ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرپڑی۔۔۔
پربھا جھنجھلائی۔ کیا سچ مچ میں بے غیرت ہوں۔ میں راجپوت کی بیٹی ہوکر مرنے سے ڈرتی ہوں۔ عزت کھوکربے حیاجیا کرتے ہیں۔ وہ کون سی آرزوہے جس نے مجھے اتناکمزور بنادیا ہے۔ کیارانا کی میٹھی میٹھی باتیں میری دشمن ہیں۔ انہوں نے مجھے جانور سمجھ رکھا ہے جسے پھنسانے کے بعد ہم پنجرے میں بندکرکے ہلاتے ہیں۔ کاش اس جادوگر کے سامنے میری زبان کھلتی، وہ اس طرح گھماگھماکر باتیں کرتے ہیں۔ وہ میری طرف سے دلیلیں نکال کر ان کا ایسا جواب دیتےہیں کہ میں بالکل بے زبان ہوجاتی ہوں۔۔۔ ہائے! ظالم نے میری زندگی خاک میں ملادی اور اب مجھے یوں گھلارہا ہے۔ کیا اسی لئے زندہ ہوں کہ اس کے نفس کا کھلونا بنوں۔۔۔؟
پھرکون سی آرزوہے؟ راجکمار کی محبت! آہ! اب اس کا خیال کرنابھی میرے لئے گناہ ہے۔ میں اب اس دیوتا کے لائق نہیں ہوں۔ پیارے! میں نے عرصہ ہوا تمہیں دل سے نکال دیا۔ تم بھی مجھے دل سے نکال ڈالو۔
شنکر، ایسی باتیں میرے دل میں کیوں آتی ہیں۔ مجھے تواب موت کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں۔۔۔
شنکر، میرے دل کوسنبھالو۔ مرنے کے بعدمجھے رسوائی سے بچانا۔
پربھا نے پھرکٹارنکالی۔ ارادہ مضبوط تھا۔ ہاتھ اٹھااورقریب تھا کہ کٹار اس کے دل میں چبھ جائے کہ اتنے میں کسی کے پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی۔ اس نے چونک کر سہمی ہوئی نگاہ سے دیکھا۔ مندارکمار آہستہ آہستہ پیردبائے کمرے میں داخل ہوا۔
پربھا اسے دیکھتے ہی چونک پڑی۔ کٹار کوچھپالیا۔ راجکمار کودیکھ کرخوشی نہیں ہوئی۔ بلکہ خوف ہواکہ اگرکسی کوذرا بھی خبر ہوگئی تواس کی جان کی خیریت نہیں، اسے فورا یہاں سے نکل جانا چاہئے، اگراسے باتوں کا موقع دوں تودیر ہوگی اورپھر وہ ضرور پکڑا جائے گا۔ رانا اسے ہرگززندہ نہ چھوڑیں گے۔ یہ خیالات ہوا کی طرح اس کے دماغ میں آئے۔ تیزآواز میں بولی، ’’اندر مت آؤ۔۔۔‘‘
راجکمارنے پوچھا، ’’مجھے پہچانانہیں؟‘‘
پربھا: ’’خوب پہچان لیا مگریہ باتیں کرنے کاموقع نہیں ہے۔ رانا تمہاری گھات میں ہے۔ ابھی یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔‘‘
راجکمار نے ایک قدم بڑھایا اور بے باکانہ انداز سے بولا۔۔۔ ’’پربھا تم مجھ سے بے مروتی کرتی ہو۔‘‘
پربھا: ’’اگرتم یہاں ٹھہروگے تو شورمچادوں گی۔‘‘
راجکمار: ’’اس کامجھے خوف نہیں۔ میں زندگی سے بیزارہوں۔ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرآیاہوں۔ آج دومیں سے ایک کافیصلہ ہوجائے گا یاتورانا رہیں گے یا میں رہوں گا۔ تم میرے ساتھ چلوگی؟‘‘
پربھا نے سختی سے کہا، ’’نہیں۔‘‘
راجکمار: ’’کیوں؟ کیاچتوڑ کی آب وہوا پسندآگئی؟‘‘
پربھا نے راجکمار کی طرف سخت نظروں سے دیکھا، ’’دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی سے نہیں ہوتا۔۔۔ جس طرح میں اپنی زندگی کےدن کاٹ رہی ہوں وہ میرا ہی دل جانتا ہے مگرلاج بھی توکوئی چیز ہے؟دنیا کی نگاہ میں چتوڑکی رانی ہوچکی۔ اب راجا جس طرح رکھیں، اسی طرح رہوں گی۔۔۔ میں مرتے دم تک ان سے نفرت کروں گی، جلوں گی، کڑھوں گی۔ جب یہ جلن نہ سہی جائے گی تو زہر کھالوں گی۔ دل میں کٹارمارکر مرجاؤں گی۔۔۔ مگر اسی محل میں۔ یہاں سے باہرقدم نہ نکالوں گی۔۔۔‘‘
راجکمارکے دل میں شبہ ہوا۔ اس نےسوچا کہ پربھا پررانا کامنتر چل گیا۔ یہ مجھ سے دغا کررہی ہے۔ محبت کی جگہ حسد کاشعلہ پیدا ہوا۔ تیزآواز سےبولا، ’’اوراگرمیں تمہیں یہاں سے اٹھالے جاؤں تو؟‘‘
پربھا کے تیوربدل گئے۔ بولی۔۔۔ ’’تومیں وہی کروں گی جوراجپوتنیاں کیا کرتی ہیں، یا اپنے گلے میں چھری مارلوں گی یاتمہارے گلے میں۔۔۔‘‘
راجکمار ایک قدم اورآگے بڑھا اور طعن آمیزاندازمیں بولا، ’’رانا کے ساتھ خوشی سے چلی آئیں۔ اس وقت یہ چھری کہاں چلی گئی تھی؟‘‘
پربھا کو یہ الفاظ تیر کی طرح لگے۔ بولی، ’’اس وقت چھری کے ایک وار سے خون کی ندی بہنے لگتی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے پیچھے میرے بھائی بندوں کی جان جائے۔ اس کے علاوہ میں کنواری تھی۔۔۔ کم سے کم مجھے دنیا ایسا سمجھتی تھی۔۔۔ اپنی نگاہ میں اب بھی وہی ہوں، مگر دنیا کی نگاہ میں کچھ اورہوگئی ہوں۔ دنیا نے مجھے رانا کا پابندبنادیاہے۔ دنیا نے پتی ورتا کی زنجیر میرے گلے میں باندھ دی ہے۔ اب یہی میرادھرم ہے، اس کے سوا اور کچھ کرنا چھترانیوں کے نام پر بٹہ لگانا ہے۔ چھتریوں کاسرنیچاکرناہے۔ تم میرے زخم پرنمک چھڑک رہے ہو، یہ کون سی شرافت ہے۔ میری تقدیر میں جولکھا ہے، بھوگ رہی ہوں۔ مجھے بھوگنے دو اور منت کرتی ہوں کہ تم یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔‘‘
راجکمار ایک قدم اور بڑھا اورشرافت آمیزاندازمیں بولا، ’’پربھا کیا رانا نے تمہیں تریاچرتر بھی سکھادیا۔ تم میرے ساتھ بے وفائی کرکے اب دھرم کی آڑ لے رہی ہو۔ تم نے میری روح کوپیروں تلے مسل دیا اور اب عزت کا عذر کرتی ہو۔ میں ان آنکھوں سے تمہیں رانا کی آغوش میں عیش اڑاتے نہیں دیکھ سکتا۔ میری آرزوئیں خاک میں ملتی ہیں تو تمہیں لے کرجائیں گی۔ تمہاری بے وفائی کی یہی سزا ہے۔ بولوکیا فیصلہ ہے؟ اس وقت میرے ساتھ چلتی ہویا نہیں؟ قلعہ کے باہر میرے آدمی تیار کھڑے ہیں۔۔۔‘‘
پربھا نے بے خوفی سے کہا، ’’نہیں!‘‘
راجکمار: ’’یہ آخری فیصلہ ہے؟ سوچ لو، نہیں توپچھتاؤگی۔‘‘
پربھا: ’’خوب سوچ لیا۔۔۔‘‘
راجکمار نے تلوارکھینچ لی اورپربھا کی طرف لپکا۔ پربھا خوف سے آنکھ بندکئے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔۔۔ معلوم ہوتا تھا اسے غش آجائے گا۔
دفعتاً راناتلوار کھینچے ہوئے جوش کے ساتھ اندرداخل ہوئے۔ راجکمار سنبھل کر کھڑا ہوگیا۔
رانانے غضب ہوکر کہا، ’’دورہٹ۔ چھتری عورتوں پرتلوار نہیں اٹھاتے۔‘‘
راجکمار نے تن کرجواب دیا، ’’بے حیا عورتوں کی یہی سزا ہے۔‘‘ رانا نے حقارت آمیز لہجے میں کہا، ’’تمہارا رقیب تومیں تھا۔ میرے سامنے آتے کیوں شرماتے تھے۔ میں بھی تمہاری تلوار کی کاٹ دیکھتا۔۔۔‘‘
راجکمار نے اینٹھ کر رانا پرتلوار چلائی۔ رانا تلوار بازی میں منفردتھے۔ وار خالی دے کر راجکمار پرجھپٹے۔ پربھا جوایک سکتے کے عالم میں دیوار سے چمٹی کھڑی تھی۔ بجلی کی طرح تڑپ کرراجکمار کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ رانا وارکرچکے تھے۔ تلوار کا پورا ہاتھ اس کے شانے پر پڑا اور سینے تک چلاگیا۔ خون کا فوارہ چھوٹنے لگا۔ رانا نے ٹھنڈی سانس بھری اورتلوار ہاتھ سے پھینک کر گرتی ہوئی پربھا کوسنبھال لیا۔
پلک جھپکتے پربھا کے چہرے پر مردنی چھاگئی، آنکھیں بجھ گئیں، چراغ ٹھنڈ ا ہوگیا۔ مندار کمار نے بھی تلوار پھینک دی اور آنکھوں میں آنسوبھرے پربھا کے سامنے گھٹنے ٹیک کربیٹھ گیا۔ دونوں عاشقوں کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہے تھے۔ پروانے بجھے ہوئے چراغ پرنثار ہورہے تھے۔
محبت کے آداب اوراندازنرالے ہیں۔ ابھی ایک لمحہ پہلے راجکمار پربھا پرتلوار لے کرجھپٹاتھا۔ پربھا کسی طرح اس کے ساتھ چلنے پرتیارنہ ہوتی تھی۔ رسوائی کا حوف، دھرم کی زنجیر، فرض کی دیوار مانع تھی مگر اسے تلوار کی زد میں دیکھ کر اس کے لئے اپنی جان تک دے دی، شرط ِوفا نباہ دی مگراپنے قول کے مطابق اسی گھرمیں۔
ہاں محبت کے آداب اورانداز نرالے ہیں۔ ابھی ایک لمحہ پہلے راجکمار پربھا پرتلوار لے کرجھپٹاتھا، اس کے خون کاپیاسا تھا۔ حسد کی آگ سینے میں بھڑک رہی تھی۔ وہ آگ خون کے دھاروں سے بجھ گئی۔ وہ ایک عالم بے خودی میں کچھ دیربیٹھا روتارہا۔ پھراٹھا اور تلواراٹھاکر زور سے اپنے سینے میں گھونپ لی پھر خون کا فوارہ نکلا۔ دونوں دھاریں مل گئیں اورہم رنگ ہوگئیں۔
پربھا اس کے ساتھ چلنے پرراضی نہ ہوئی تھی مگرپریم کی زنجیر کونہ توڑسکی۔ دونوں ایک ساتھ رخصت ہوگئے۔
مأخذ : پریم چند کے مختصر افسانے
مصنف: پریم چند