میں اپنے دوست کے پاس بیٹھا تھا۔ اس وقت میرے دماغ میں سقراط کا ایک خیال چکّر لگا رہا تھا۔۔۔ قدرت نے ہمیں دو کان دیے ہیں اور دو آنکھیں مگر زبان صرف ایک تاکہ ہم بہت زیادہ سنیں اور دیکھیں اور بولیں کم، بہت کم!
میں نے کہا، ’’آج کوئی افسانہ سناؤ، دوست!‘‘
وہ بولا، تو آو، آج میں تمھیں ایک عظیم الشان افسانہ سناؤں،
دو بھیڑیں ایک جوہڑ کے کنارے پانی پی رہی تھیں۔
پانی پیتے ہوئے چھوٹی بھیڑ نے کہا،
میں اکثر سنتی ہوں اس گاؤں کے لوگ سندر، من موہنی پریوں کی باتیں کیا کرتے ہیں!
بڑی بھیڑ پانی پیتی ہوئی ایک لمحہ کے لیے رک گئی اور آہستہ سے بولی،
’’چپ چپ بہن! یہ لوگ دراصل ہماری ہی باتیں کرتے ہیں۔۔۔‘‘
مصنف:دیوندر ستیارتھی