میرے نازک سوال میں اترو
ایک حرف جمال میں اترو
نقش بندی مجھے بھی آتی ہے
کوئی صورت خیال میں اترو
پھینک دو دور آج سورج کو
خود ہی اب ماہ و سال میں اترو
خوب چمکو گی آؤ شمشیرو
میرے زخموں کے جال میں اترو
کچھ تو لطف تضاد آئے گا
میرے غار زوال میں اترو
خواہ پت جھڑ کی ہی ہوا بن کر
پیڑ کی ڈال ڈال میں اترو
مضمحل رات اور تنہائی
کاش خواب وصال میں اترو
اے ظفرؔ پیش ہے مہابھارت
آدمیت کی ڈھال میں اترو
شاعر:ظفر حمیدی