کہانی کی کہانی:’’تشنہ محبت کی کہانی ہے، ایک دوست اپنے دوسرے دوست سے اس کی ناکام محبت کا قصہ پوچھتا ہے لیکن کچھ بتانے سے قبل ہی ریستوران میں اور بھی کئی لوگ آجاتے ہیں۔ وہ دونوں اس معاملے کو کسی اور وقت کے لیے ٹال دیتے ہیں۔ پھر طالب علمی کے زمانے کی سیاسی نوک جھونک کی باتیں ہونے لگتی ہیں، وہ خاموش رہتا ہے۔ پھر جب دونوں کی ملاقات ہوتی ہے تو قصہ چھڑتا ہے لیکن وہ بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔‘‘
اس نے مجھے حیران ہو کر دیکھا اور پوچھا، ’’تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘ میں نے کہا، ’’بس ہمیں پتہ چل گیا، بتاؤ کہ وہ قصہ کیا تھا؟‘‘ کہنے لگا، ’’یار اصل میں وہ تھی میری کلاس فیلو، ہم دونوں نے ایک ہی سبجکٹس لے رکھے تھے اور بات یہاں سے شروع ہوئی۔۔۔‘‘ کہتے کہتے رکا جیسے اسے بہت سی باتیں ایک دم سے یاد آگئی ہوں، ’’یار تم نے مجھے چھیڑ دیا، قصّہ لمبا ہے، تم بور ہوجاؤ گے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے سادگی سے کہا، ’’تم سناؤ۔‘‘ اس نے پھر یری لی، مگر بات شروع کرنے لگا تھا کہ افتخار اور مظفر آگئے، ان کے ساتھ کئی ایک یار اور آگئے، مجھ سے آہستہ سے بولا، ’’یہاں بات نہیں ہوسکتی کبھی الگ بیٹھیں گے تو سنائیں گے۔‘‘ پھر افتحار ون یونٹ کا ذکر لے بیٹھا۔ مظفر بولا، ’’ون یونٹ کو ٹوٹنا ہی تھا۔‘‘
’’کیوں ٹوٹنا تھا؟‘‘ افتخار نے غصّے سے کہا۔ اس نے افتخار اور مظفر دونوں کو پیچھے دھکیلا اور ون یونٹ کے مسئلہ کا تفصیلی تجزیہ کر ڈالا، بات کہاں سے چلی کہاں تک پہنچی، روس تک، پھر امریکہ تک، پھر ویت نام تک، پھر چین تک اور اب شام ہونے لگی تھی، افتخار اور مظفر کسمسائے، میں اکھڑ چلا تھا، مگر اس نے کہا، ’’میرا فقرہ ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔‘‘ اس کا فقرہ آج کیا کبھی پورا ہوتے نہیں دیکھا گیا، اب یہ روز کا معمول تھا کہ ڈیڑھ دو بجے تک ہم اپنے اپنے دفتروں سے نبٹ نبٹا کر یا جان چراکر اس ریستوران میں آ بیٹھتے۔ یہ جاڑوں کے دن تھے اور اس ریستوران میں ایک اچھا بھلا لان تھا، ہم یہیں بیٹھ کر چائے پیتے تھے، دھوپ سینکتے تھے اور سیا ست پر باتیں کرتے تھے۔
میں نے کئی بار افتخار اور مظفر کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر وہ ذکر چھیڑا۔ اس نے ہر بار ایک پھریری لی، بات شروع کی، ’’ہوا یوں کہ۔۔۔‘‘ اور اتنے میں افتخار اور مظفر آن پہنچے، بات بیچ کی بیچ میں رہ گئی اور ہمیشہ اس پر ٹلی کہ قصّہ لمبا ہے، فرصت سے الگ بیٹھیں گےتو بات کریں گے۔ کئی بار اس نے بیزار ہوکر کہا، ’’یار کیا مصیبت ہے، ہم کوئی ذاتی بات کر ہی نہیں سکتے، افتخار اور مظفر ایک پوری پلٹن لے کر آجاتے ہیں، روز وہی سیاست روز وہی باتیں۔‘‘ اور روز یہ ہوتا کہ وہ خود بحث میں شامل ہوجاتا، بولتا چلا جاتا، یہاں تک کہ شام ہوجاتی۔ ہم کہتے کہ چلنا چاہئے، وہ کہتا کہ ’’ابھی میرا فقرہ پورا نہیں ہوا ہے۔‘‘
ایک دوپہر وہ خوش خوش آیا، ’’لو یار آج ہم نے ان کا پتہ کاٹ دیا، وہ پوری پلٹن سٹیڈیم گئی ہے میچ دیکھنے۔‘‘
’’گڈ!‘‘ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ بولا، ’’اچھا تمہیں بھی اپنا قصّہ سنانا پڑے گا۔‘‘
’’مجھے؟‘‘ میں نے سٹپٹا کر کہا۔
’’ہاں تمہیں۔‘‘
’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘
’’بس جیسے تم نے میرے قصّے کو سونگھا ویسے میں نے بھی تمہارے قصّہ کو سونگھ لیا۔‘‘
’’یار ہمارا قصّہ تو پرانی بات ہوگئی۔‘‘
’’کوئی ہرج نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’اپنا قصّہ بھی اب پرانا ہو چلا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’اچھا چائے منگاتے ہیں۔‘‘ چائے کا آرڈر دیا، میچ کا سکور بیرے سے پوچھا، ایک ٹیلی فون آگیا، اسے جا کر سنا، چائے آگئی، میں نے اس کے لیے بنائی، اپنے لیے بنائی۔
’’اچھا اب سناؤ۔‘‘
معذرت کے لہجہ میں بولا، ’’یار داستان لمبی ہے۔‘‘
’’کوئی حرج نہیں، سناؤ۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ اس نے چائے کا ایک گھونٹ لیا، پھر کچھ سوچنے لگا، اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوتی جا رہی تھی، جیسے باتیں یاد آ رہی ہوں۔ باتیں یاد آتی چلی جا رہی تھیں اور آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی چلی جا رہی تھی، میں اسے تکتا رہا، اور اب مجھے بھولی بسری باتیں یاد آرہی تھیں، کوئی اس کا پیارا سا بول، کوئی اپنی تلخ سی بات، کوئی یہاں سے کوئی وہاں سے، سو میں بھی خیالوں میں کھوگیا۔ ہم چپ چاپ بیٹھے تھے اور دھوپ ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔
جاڑوں کی دھوپ عجب تیز ہوتی ہے، شروع میں اس سے طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے، زیادہ دیر بیٹھو تو یہی دھوپ آدمی کو اداس کر دیتی ہے، شاید اداسی جاڑے کی دھوپ کے ساتھ اترتی ہےاور مساموں میں دھوپ کے رچنے کے ساتھ رچتی چلی جاتی ہے۔ دھوپ میں میری آنکھیں پہلے مند سی گئیں، پھر کچھ اونگھ سی آگئی۔ کچھ یادیں کچھ نیند، کئی مرتبہ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا، وہ اسی طرح گُم سم بیٹھا تھا۔ میں پھر یادوں اور نیند کی ملی جلی کیفیت میں کھو گیا۔ آخر میں نے جھر جھری لی، چاروں طرف دیکھا، دھوپ اب ڈھلنے لگی تھی اور چھاؤں سرکتے سرکتے ہماری میز کے پاس آگئی تھی، میں نے اسے ٹہوکا، ’’یار تم تو بالکل ہی چپ ہوگئے۔‘‘
اس نے مندی ہوئی آنکھیں کھولیں، کئی بار جھپکائیں پھر افسردہ لہجہ میں بولا، ’’ہاں یار۔‘‘ پھر پہلو بدلا، جمائی لی، پھر ایک لمبی انگڑائی لی، جیسے خیالوں ہی خیالوں میں بہت دور نکل گیا اور اب واپس آنے کی کوشش کر رہا ہو، ’’یار چائے تو بالکل ٹھنڈی ہوگئی۔‘‘ میں نے بیرے کو بلایا، نئی چائے منگائی، بنائی، پیتے پیتے وہ بولا، ’’تم بھی کچھ کہو۔‘‘
’’میں؟‘‘
’’ہاں تم۔‘‘
’’کیا کہیں یار!‘‘
’’ہاں یار کیا کہیں۔‘‘ وہ افسردگی سے بولا۔ پھر ہم دونوں خاموش ہوگئے اور چائے پیتے رہے، پھر میں بولا، ’’دھوپ میں چٹخی آگئی ہے، موسم بدل گیا۔‘‘
’’ہاں موسم بدل ہی گیا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ہم پھر چپ تھے، چھاؤں سرکتے سرکتے میز پر اور میز ہمارے سروں پرآگئی تھی، وہ بولا، ’’اب چلیں۔‘‘
’’ہاں چلنا ہی چاہئے۔‘‘ ہم دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور چل پڑے، چلتے چلتے وہ بولا، ’’کیا خیال ہے تمہارا، ون یونٹ ٹوٹنا چاہئے تھا یا نہیں، ٹوٹنا چاہئے تھا۔‘‘ میں الجھ سا گیا، ’’پتہ نہیں یار ٹوٹنا چاہئے تھا یا نہیں ٹوٹنا چاہئے تھا۔‘‘ وہ تھوڑی دیر چپ چلتا رہا، پھر بولا، ’’ہاں یار پتہ نہیں۔‘‘
اور پھر ہم چپ چپ چلنے لگے۔
مأخذ : انتظار حسین کے سترہ افسانے
مصنف:انتظار حسین