کبھی خرد سے کبھی دل سے دوستی کر لی
نہ پوچھ کیسے بسر ہم نے زندگی کر لی
اندھیری رات کا منظر بھی خوب تھا لیکن
تم آ گئے تو چراغوں میں روشنی کر لی
تمہارا جسم ہے جاڑوں کا سرد سناٹا
حرارتوں سے کہاں تم نے دوستی کر لی
حضور دوست عجب حادثہ ہوا یارو
ہر ایک حرف شکایت نے خودکشی کر لی
لیے پھرے ہیں بہت تم کو دل کی گلیوں میں
اس ایک بات پہ دنیا نے دشمنی کر لی
ہر ایک موڑ پہ خنجر بکف تھی تنہائی
غریب شہر نے گھبرا کے خودکشی کر لی
مأخذ : Funoon(Jadeed Ghazal Number: Volume-002)
شاعر:زبیر رضوی