ایک
ہیلو لاہور، تیرے رنگ ہزار۔ میں کون؟ ماں کا دیو۔۔۔ دیوگندھار۔ جھک گیا آسمان۔ ہم قربان! کتھا سرکس عرف صدیوں پہ پھیلا فاصلہ۔ سنت نگر، وشنو گلی، گھوڑا اسپتال کہاں کا؟ لاہور کا، اور کہاں کا؟ سپنے میں دیکھا نیلا گنبد۔ دیوگندھار کا ایک نام امرت یان۔ سوکھے ہونٹوں پر پیاس۔ امرت یان کی بیوی دیویانی ۔ اپنی ساس کی بہورانی۔ مٹھی میں لکھنؤ۔۔۔ امرت یان کی کہانی۔ ’’آوارہ‘‘ کا شاعر مجاز۔ اس کا ہیرو ، اسے یہ کہانی سنانے کے لیے امرت یان اسے کناٹ پلیس کے نیرولا ہوٹل میں چائے پلانے لے گیا تھا۔
سرپٹ میدان گھوڑا ندارد۔ اس کے باوجود ’’میں ہوں اپنی شکست کی آواز!‘‘ نگری نگر پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا۔
’’میں ہوں خانہ بدوش‘‘ امرت یان کی کتاب، میاں بشیراحمد ایڈیٹر ’’ہمایوں‘‘ نے اس کتاب کا دیباچہ لکھنے کے لیے لاہور سے کراچی جاکر سمندر کے کنارے بیٹھ کر قلم کا سفر طے کرنا مناسب سمجھا۔ ہاں ہاں، لاہور سے چھپی تھی یہ کتاب۔ آزادی سے سات برس پہلے۔ اب کون سا الاپ شروع کیا جائے؟
میری تیری اس کی بات، ایک اور سوغات۔ امرت یان کی ایک کتاب ’’گائے جا ہندوستان‘‘ الخاموشی نیم رضا۔۔۔ دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا!
’’اپا برج لاہوردا‘‘ ایک کتاب، میرے ایک دوست کی جو اسی برس چھپی ہے۔ کاش! مجھے سوجھتا یہ نام کسی کتاب کے لیے۔
امرت یان اٹھارہ برس کا تھا، جب اس نے ڈاکٹر اقبال کا اُپدیش سُن کر خودکشی کے ارادے سے نجات پائی۔ ورنہ بیوی اور پہلوٹھی بٹیا کویتا کے ساتھ لنکا کی یاترا کیسے کر پاتا۔
میں نے کہا۔۔۔ تو کون ہے؟ اس نے کہا۔۔۔ آوارگی۔۔۔ اس دشت میں ایک شہر تھا۔ وہ کیا ہوا آوارگی۔۔۔؟ دل دریا سمندروں ڈونگھے!
آئینے کے سامنے۔۔۔ گردش کے دن۔ اس کے باوجود اس کہاوت پر میرا ایمان کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔
لنکا دیش سے کولمبو۔۔۔ ایک شبد چتر امرت یان کے قلم کا سفر۔ عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب۔۔۔!
ماں کا مست قلندر۔ آنے والوں کا ہم سفر۔
سیما میں اسیم۔ سر گوشیاں۔۔۔ پرچھائیاں۔۔۔ جادوگر، او جادوگر!
دو
فوک لور کو لوک ورثہ کہنا تو مناسب نہیں، بڑے میاں! اسے تو آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی کہا جائے گا۔ ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی نے مہایان، ہیں یان اور بجریان کی ڈگر پر چلتے ہوئے فوک لور کے لیے ’’لوک یان‘‘ سجھایا۔
بھئی خوب! کیا کہنے! ایک آئینے سے دوسرے تک۔ اگر لوک گیت چل سکتا ہے تو لوک یان کیوں نہیں؟ کیا امرت یان کیا لوک یان، دونوں جڑواں بھائی معلوم ہوتے ہیں۔ دونوں کے معصوم قہقہے۔ ان کی کہانی جیسے دُلہن کے ماتھے پر جھومر۔
واقعی ’’لوک یان‘‘ جادو کرنے والا ہے۔ جادوگر! او جادوگر! جیسے روپ میں سب سے نیاری کہانی خود اپنے آپ کو لکھ رہی ہو۔
ویسے تو ’’لوک ورثہ‘‘ کی طرح ’’کتھاسرکس‘‘ پر بھی ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر!‘‘ ہونے کا الزام لگانا ہوگا۔
اب لوک یان کا پرچم کیسے لہرایا جائے؟ ویسے یہ بڑی لمبی بحث ہے، بڑے میاں! بحث چھوڑو ۔ کہانی کہو۔
امتحان کی گھڑی سر پر ہے۔ واقعی دوغلا پن نہیں چلے گا۔ کہو، میں کس سے آنکھ ملاؤں؟
نہیں چلے گا، نہیں چلے گا، نہیں چلے گا۔۔۔ لوک ورثہ نہیں چلے گا۔ بولو کم، اشاروں سے کام لو۔ لیکن ایک ٹانگ پر کھڑے کھڑے تھک جاؤگے۔ سوال تو جمالیاتی توسیع کا ہے۔ جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ بھابھی کا مزاج کیسا ہے۔ یہ تو بھابھی بھی کہتی ہوگی کہ شاخ نازک پر بننے والا آشیانہ ناپائیدار ہوگا۔
اب ٹیڑھی لکیر کو سیدھی کیسے کیا جائے؟ ہاں تو بھابھی کہاں جائے؟ ہاں ہاں! جائے بھی تو جائے کہاں؟ بمبیّا محاورے میں ایک لفظ ہے ’’خلاص‘‘ اور دوسرا ’’چالو‘‘۔ ہاتھ میں دے کر ہاتھ چلیں، ڈر اُترے گا۔ ہاں تو لوک یان زندہ باد۔ محبت اور احترام کے ساتھ۔
جیسے ’’فوک سانگ‘‘ کے لیے دیہاتی گیت خلاص اور لوک گیت چالو، ویسے ہی۔۔۔ تخلیقی عمل زندہ باد۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، بے لاگ تخلیقی عمل کی قسم، فوک لور کے لیے ’’لوک یان‘‘ ہی مناسب ہوگا۔ ہم مسلسل خوش۔ ہوا دستک دیتی ہے۔ کاش ہماری دعا قبول ہو جائے۔
تین
دائرہ در دائرہ۔ دائرے میں ایک سیدھی لکیر۔
امرت یان کا ایک نام ستیہ کام۔ وقت کروٹ بدلتا ہے۔ کہو اب کون سی تصویر دیکھوگے؟
میرا نام، تیرا نام۔ اَن کہی سرگوشیاں۔ قلم قبیلہ۔۔۔ کتھا سرکس۔ جو ڈر جاتا ہے، خود اپنے سے پوچھتا ہے۔۔۔ کیا تمھیں ہنسنا نہیں آتا؟ کہیں موسم خراب نہ ہوجائے، کویتا کی ماں!
گفتگو میں جستجو۔۔۔ جستجو میں آرزو۔
آرزو میں کتھا سرکس۔ ہم چشم دید تماشائی، بس یہی سوچتے رہتے ہیں کہ زندہ رہنے کا کیا مقصد ہے۔ اس کے باوجود مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔
سڑک پر چلاّرہا ہے اخبار کا ہاکر۔۔۔ پنچم سے بلند آواز میں۔ میرا نام، تیرا نام۔۔۔ ویت نام۔ قصہ ادھورا ہی رہا۔ کبھی کبھی کتھا سرکس اُداس ہو جاتا ہے۔
صبح کا تازہ اخبار آج نہیں آیا۔ ہم جانتے ہیں ہم کیا ہیں۔ ایک نہ ایک معصوم سوال۔ کیا ہم اپنے آپ میں گم ہیں؟
کہاں کہاں دیکھے کرسی کیا حمق۔ بار بار کندھے اُچکائے، ارے کیا کہنے! ہماری آنکھوں کے سامنے کتھا سرکس ناچ رہا ہے۔
لفظ بیکار نہ ہوں۔ آؤ ہم کافی کی پیالیوں پر چمچوں سے جل ترنگ بجائیں، شبدوں سے رنگوں کا کام لیا جائے۔ گاڑی بھر راستہ۔
آملتے ہیں گیتوں میں گیتوں کے دھارے، کتھا سرکس اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے، کویتا کی ماں!
ہم بہت پاس سے گزرے تھے۔ دیکھیے نا۔ حقیقت سے دور رہنا تو بیوقوفی ہے۔ آنکھ اوٹ، پہاڑ اوجھل۔ ہر کتھا سرکس کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔ ارے میاں، آج تو سچ مچ آوارہ مسیحا بھی آئے گا کتھا سرکس دیکھنے، روز یہی ہوتا ہے، بڑی سرکار! دیکھتے جاؤ۔
ارے ہم تو خاموش تماشائی ہیں۔ اجنبی سمندر میں کون کسے پکارتا رہا؟ سچ پوچھو تو کتھا سرکس ہمیں اپنے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ چلو یہ دن ہماری کہانی میں بھی آگیا۔
چار
ایک محاورہ ہے یا شاید ایک کہاوت۔
چڑی مار ٹولا، بھانت بھانت کا پنچھی بولا۔
چال ستھری چلو، چاہے مدّھم چلو۔
بقول ٹی ایس ایلیٹ اشارہ شریف گھرانوں کی عورتوں کی طرف جو آتے جاتے گفتگو کے دوران مائیکل اینجلو کا ذکر کرتی رہتی ہیں، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اس کی مصوری پر جان دیتی ہیں۔
ہم شہر میں ہیں، یہی بہت ہے، کویتا کی ماں!
منٹو نے ایک جگہ لکھا تھا۔
’’پہلا جملہ میں لکھتا ہوں۔ پھر بقیہ افسانہ وہ جملہ لکھواتا ہے۔‘‘
ہم نے کیا کیا نہ کیا! پہلی بارش آج اُتری۔ بقول امرت یان رات کہتی ہے ملاقات نہ ہوگی اپنی۔
ہماری پہچان مبہم ہی بنی رہتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ کی مشہور لمبی نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ یہیں ختم ہوتی ہے۔ اوم شانتی شانتی شانتی ۔ ہاں ہاں، اصل چیز شانتی ہی تو ہے۔
حسن کا آئینہ ہے ٹوٹا ہوا! امرت یان بول اٹھا۔ لیکن کبھی کبھی ہم شرم سے کٹ کٹ مرتے ہیں۔
اب تو ہر بات پر رو دیتے ہیں۔
زندگی سبھی حدبندیوں کو توڑنا چاہتی ہے۔ اسی کا نام آزادی۔ یہی تو ’’آگ کا دریا‘‘ ہے۔ حوالہ اتہاس کا۔ ہاں ہاں، ہم آگ بھی ہیں اور دریا بھی۔ قصّہ القصہ آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ یہ تو امرت یان بھی مانتا ہے، جوجنگلوں اور پہاڑوں کی خاک چھانتا رہا اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتا رہا۔
ایسے رشتے بھی کہاں تھے پہلے، کویتا کی ماں!
ایک کتھا سرکس، یہ بھی تو ہے کہ گرو دیو کو بڑھاپے میں ایک کتاب لکھنی پڑی۔۔۔ ’’میرا بچپن‘‘ اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ بڑھاپے میں بچپن قریب آتا جاتا ہے۔ لیکن ہم کہنا کچھ چاہتے ہیں مگر کچھ اور ہی کہہ جاتے ہیں، کویتا کی ماں! کیا ہم کسی کا انتظار کر رہے ہیں؟
آنند پربت کا پُرانا نام کالا پہاڑ۔ شاید فوک لور عرف لوک یان کا یقین دلانے کے لیے ہم اپنا ہی انتظار کر رہے ہیں۔
پانچ
ہیرو کو اینٹی ہیرو بنانے سے بچا جائے۔ پھر وہیں ہیں ہم کہ جہاں تھے پہلے۔ پِن اَپ بیوٹی سے کوئی کیسے کہے کہ دل والے دُلہنیا لے جائیں گے!
’’عشق ایک پل کا بھی ہوسکتا ہے اور ایک عمر کا بھی!‘‘ پیرس کا آدمی کہہ رہا تھا۔ بقول ساحر ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں!‘‘ فوک لور یعنی لوک یان۔۔۔ امرت یان کا اوڑھنا بچھونا۔۔۔ بقول میرا جی ’’پربت کو ایک نیلا بھید بنایا کس نے؟ دوری نے‘‘ جیسے لاہور کی شملہ پہاڑی کہہ رہی ہو کہ زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
’’جیسے پھول ابھی مہکا ہے۔۔۔ جیسے چاند ابھی چمکا ہے۔۔۔ کیا عشق کیا تھا شاعر! کبھی نہ اس کو اپنے من کی بات بتائی۔۔۔ اس کے باوجود اس کے نام کی مالا جپتے رات بتائی۔۔۔کیسے تم مجنوں تھے تم نے۔۔۔ کبھی نہ اس کا دامن پکڑا۔۔۔ اک اَن جانے لمس کی خاطر۔۔۔ اپنی ساری عمر گنوائی۔۔۔ بستی بستی جیت تمھاری۔۔۔ شمع کی صورت جلتی ہے۔۔۔ ہر بنگالی لڑکی ہم کو میراثن سی لگتی ہے۔
زبیر رضوی
کہو یہ کس زمانے کی بات ہے، کویتا کی مان! ارے وہی زمانہ، جب ہم لاہور میں تھے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
حسن، عشق اور موت۔ جیسے کوئی تکونہ پارک۔ تمھارا پیرہن اُٹھتا ہے گرتا ہے۔۔۔ اسے گرنے دو۔۔۔ آؤ۔۔۔ اوڑھ لیں اک دوسرے کے جسم کو۔۔۔ اور ایسے رستے پر جائیں۔۔۔ جہاں سے پھر کبھی واپس نہ آنا ہو۔
کمار پاشی
لاہور سے دلّی۔ ہمارا سفر۔ اور ہم دلی والے بن کر رہ گئے۔ کتھا سرکس میں یہ بات کیسے نہ آتی کہ میراجی کا نام تو کچھ اور تھا۔ لیکن لاہور کی کسی گلی میں میراثن کو دیکھ کر اسے دل دے بیٹھے۔ بہرحال اپنا عشق تو اس پر ظاہر نہ ہونے دیا، بس اپنا نام ’’میراجی‘‘ رکھ لیا۔
لاہور سے دلی آنے پر میرا جی نے لاہور کے کسی دوست کے نام ایک خط لکھا۔
’’خط کا جواب آنے پر لکھوں گا، کب لاہور آیا ہوں۔ آؤں گا تو زیادہ دن کے لیے نہیں آؤں گا۔ کیونکہ میراثن دارجلنگ میں ہے۔‘‘
دلّی سے دارجلنگ۔
لاہور سے دارجلنگ۔
چھ
یہ اُجڑے ہوئے مقبرے اور ہنستے ہوئے ننھّے بچے بھلائے نہیں بھولتا سائیں گھوڑے شاہ، جسے آزادی سے پہلے امرتسر میں دیکھا تھا۔
’’کومل آنچل، اُڑتا بادل۔ لمبی داڑھی، لمبے بال، ماں کا دیو۔۔۔ دیوگندھار۔ کون ہماری بات پر خوشی سے جھوم اُٹھا کہ دیوگندھار کا ایک نام امرت یان۔ اُس کو اُٹھنا ہے اِسے گرنا ہے، کوئی ملبوس ہو کوئی پردہ!‘‘
کالا دھن، رشوت اور سوئی بازار، جس کا ایک نام سونا گاچھی۔
’’دھیان کی جھیل میں ہرچیز ہے کومل شیتل۔۔۔ میلے کپڑوں کی طرح لٹکی ہوئی تصویریں۔۔۔ میں نکل آیا ہوں اب سنگ مرمر کی محرابوں سے۔۔۔ پھر وہی دور پلٹ آیا ہے۔۔۔ کیسے کہوں کہ یہ کہانی ایک ماسٹر پیس ہے، کویتا کی ماں!
واہ رے فلیش بیک! مورنی سی چال والی۔ اس کا نام ہم بھول گئے۔
’’ایک راجہ کا جلوس اور میں اس کے آگے۔۔۔ اک بھکاری کو ہٹاتے ہوئے دو گھوڑ سوار۔۔۔ تو ہی داسی ہے تو ہی رانی ہے۔۔۔ آؤ اب سوئیں۔۔۔ بہت رات گئی۔۔۔ نیند آئی! یہی شہر کلکتہ۔۔۔ دماغ پر سوار۔
چورنگی، بھوانی پور، شیام بازار، کالی گھاٹ۔
’’اُجالے کی ہر اک کرن جیسے بھٹکی ہوئی ہے۔۔۔ اندھیرے سے بڑھ کر اندھیرا ہے، کویتا کی ماں۔۔۔! کلکتہ سے دلّی۔۔۔! یہ رام لیلا میدان ہے۔
نغمہ بیدار ہوا۔۔۔ پُتلیاں پھیل گئیں۔۔۔ سانس تھی گہری گہری۔۔۔ جس پر بھی کوئی دُکھ بیتے، مجھ کو آکے سناتا ہے۔۔۔ بپتا کی ہر راگنی میرے کان میں آکر گاتا ہے۔۔۔ میں نے اوروں کے دُکھ میں اکثر اپنے دُکھ کو پہچانا ہے۔
سُنو، پھر سُنو۔ فوک لور عرف لوک یان۔
نقد کی بات کیا کرتا ہوں، میرے پاس اُدھار نہیں۔۔۔ تول میں کھوٹ ذرا آئے تو سودا پورم پار نہیں۔۔۔ میں بھوک پہنوں، میں بھوک اوڑھوں، میں بھوک پڑھوں، میں بھوک لکھوں۔
سکھ کے بدلے دُکھ تو کھرے ہیں، پر یہ پرکھ تمھاری ہے۔۔۔ کون ہے پار پہنچنے والا، کون بڑا سنساری ہے۔۔۔
تین بنیادی رنگ۔۔۔ سرخ، نیلا اور زرد۔ کیا لاہور، کیا دلّی! اور لنکا دیش ہے کولمبو کی بھی یہی بات۔
سات
کیسے دن تھے کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیں۔۔۔ من بالک ہے پہلے پیار کا مندر سپنا بھول گیا۔۔۔ ہاتھ سے آنکھ کے آنسو تو پونچھے ہوں گے۔
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی۔۔۔ دھندلی سی چھب یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا۔۔۔ راستہ مجھ کو نظر نہ آئے، یہی تو دُکھ ہے، کویتا کی ماں!
ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی۔۔۔ ایک نظر کا نور مٹا جب، اک پَل بیتا بھول گیا۔۔۔ ہر بستی، ہر جنگل صحرا۔۔۔ روپ منوہر پربت کا۔۔۔ جس کو دیکھو اس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے۔۔۔ تمھیں تو سب کچھ یاد رہا، پر ہم کو زمانہ بھول گیا۔۔۔ واہ رے۔ واہ ہم۔ میٹھا جادو بنجارن کا۔
’’کون ہے یہ کس نے کہا تھا، کہہ دو جو کچھ جی میں ہے۔۔۔ میرا جی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیا۔‘‘
کتھا سرکس کا مرکزی خیال یہی سمجھیے جو کچھ عورتوں کو ہوتا ہے کہ ہر شخص ہر وقت انھیں ہی دیکھ رہا ہے۔ اسی لیے تو وہ ایک سے ایک بڑھ کر میک اَپ کی شوقین ہوتی ہیں۔ گاتا جائے بنجارا، کویتا کی ماں!
خود پسندی کے پاتال سے نکل دھرتی پر چلتے پھرتے لوگوں کے سُکھ دُکھ میں شامل ہونے کی اور بات ہے۔
کویتا کی کلکاریاں، امرت یان کے دماغ پر سوار۔ جاگتی آنکھوں کا سپنا، کتھا سرکس کی شان۔
جو احسان مانا نہ جائے وہ احسان نہیں ہوتا۔ میری تیری اس کی بات۔ فاصلوں کو پاٹنے کی البیلی سوغات۔ گفتگو میں بحث کا مطلب یہی کہ ہمیں اپنی جان بہت پیاری ہے۔
کتھا سرکس وہی جو انسان کو خود اپنے وجود کی طرف واپس بلائے۔ مڑمڑکے نہ دیکھ۔۔۔ مڑمڑکے۔۔۔!
کتھا سرکس زندہ باد۔ لیکن اس کہانی کو ماسٹر پیس کہنا تو بہت بڑی گستاخی ہوگی۔
مصنف:دیوندر ستیارتھی