کہانی کی کہانی:’’یہ ایک نفسیاتی کہانی ہے۔ تین شخص جو مر کر بھی زندہ ہیں اور زندہ ہونے کے بعد بھی مرے ہوئے ہیں۔ یہ تینوں ایک دوسرے سے اپنے ساتھ گزرے واقعات کو بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد زندہ کیوں ہیں اور اگر زندہ ہیں تو ان کا شمار مردوں میں کیوں ہے؟ اس کے ساتھ ہی یہ سوال کہ آخر یہ لوگ ہیں کون اور کہاں کے رہنے والے ہیں؟ یہ شہر افسوس کے باشندے ہیں، اپنی زمین سے اکھاڑے گئے ہیں اور اکھڑے ہوئے لوگوں کے لیے کہیں پناہ نہیں ہوتی۔‘‘
پہلا آدمی اس پریہ بولا کہ میرے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے کہ میں مرچکا ہوں۔
تیسرا آدمی یہ سن کر چونکا اور کسی قدر خوف اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا مگر دوسرے آدمی نے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ حرارت سے خالی سپاٹ آوازمیں پوچھا، ’’تو کیسے مر گیا؟‘‘
پہلے آدمی نے اپنی بے روح آواز میں جواب دیا، ”وہ اک سانولی رنگت والی لڑکی تھی ماتھے پر لال بندی، زلفیں کمر کمر۔ ایک سانولا نوجوان اس کے ساتھ تھا۔ میں نے نوجوان سے پوچھا، یہ تیری کون ہے۔ بولا کہ یہ میری بہن ہے۔ میں نے کہا کہ تو اسے برہنہ کر۔ یہ سنا تو لڑکی پہ دہشت طاری ہوئی۔ بدن مثل بید کے لرزنے لگا۔ نوجوان نے فریاد کی کہ ایسا مت کہہ کہ یہ میری بہن ہے۔ مجھ پہ بھی وحشت سوار تھی۔ میں نے نیام سے تلوار نکال لی اور چلایا تو اسے برہنہ کر۔ بر ہنہ تلوار کو دیکھ کر نوجوان خوف سے تھرایا۔ پھر ایک تامل کے ساتھ اس کے لرزتے ہاتھ بہن کی ساڑھی کی طرف بڑھے اور اس سانولی لڑکی نے ایک خوف بھری چیخ ماری اوردونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ لیا۔۔۔ اور ان لرزتے ہاتھوں نے میرے سامنے۔۔۔‘‘
’’تیرے سامنے۔۔۔؟ ہیں۔۔۔ اچھا؟‘‘ تیسرے آدمی نے حیرت سے اسے دیکھا۔
دوسرے آدمی نے تیسرے آدی کی حیرت کو یکسر فراموش کیا اور اپنے اسی اپنے جذ بے سے معرا لہجہ میں پوچھا، ’’پھر تو مر گیا؟‘‘
’’نہیں میں زندہ رہا‘‘، اس نے بے رنگ آواز میں کہا۔
’’زنده رہا۔۔۔؟ اچھا۔۔۔؟‘‘ تیسرا آدمی مزید حیران ہوا۔
’’ ہاں، میں نے یہ کہا، میں نے یہ دیکھا، اور میں زندہ رہا۔ میں یہ دیکھنے کے لیے زندہ رہا کہ اس نوجوان نے وہی کیا جو میں نے کیا تھا۔ دہشت میں بھاگتی ہوئی ایک برقعہ پوش کو اس نے دبوچ رکھا تھا۔ ایک بوڑھے آدمی نے زاری کی اورچلایا کہ اے جوان ہماری آبرو پررحم کر۔ سانولے نوجوان نے لال پیلی نظروں سے اسے دیکھا اور پوچھا، یہ تیری کون ہے، وہ بوڑھا بولا کہ بیٹے یہ میری بہو ہے۔ اس پر سانولے نوجوان نے دانت کچکچائے اور چلا یا کہ بوڑھے تو اسے برہنہ کر۔ یہ سناہی تھا کہ وہ لرزتا کا نپتا بوڑھا آد می ایک دم سے سن ہوگیا اور دہشت میں اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ تب نوجوان غصے سے دیوانہ ہوا اور بوڑھے کی گردن پکڑ کے چلایا کہ بوڑھے اپنی بہو کوبرہنہ کر۔۔۔ اس نے یہ کہا اور میں۔۔۔‘‘
’’اور تو مر گیا؟‘‘ تیسرے آ د می نے جلدی سے بے چین ہو کر کہا۔
’’نہیں میں زندہ رہا۔‘‘
’’ زنده ر ہا۔۔۔؟ اچھا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں میں زندہ رہا۔ میں نے یہ سنا، میں نے یہ دیکھا اور میں زندہ رہا۔ اس خوف سے کہ وہ سانولا نوجوان مجھے پہچان نہ جائے۔ میں نے وہاں سے راہ فراراختیار کی۔ مگر میں آگے پہنچ کر نرغے میں آ گیا۔ میں تلوار پھینکنے لگا تھا کہ ایک پریشان حال شخص مجمع چیر کر میرے روبروآیا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ تلوار مت پھینک۔ یہ آ ئینِ جواں مردی کے خلاف ہے۔ میں ٹھٹھک گیا۔ میں اسے تکنے لگا اور وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے جا رہا تھا۔ پھر میری نگاہیں جھک گئیں۔ میں نے ہار کر کہا کہ زندہ رہنے کی اب اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے۔ اس کلام سے اس کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔ اس نے حقارت سے میرے منہ پہ تھو کا اور واپس ہو گیا۔ عین اسی وقت ایک تلوار اس کے سرپہ چمکی اور وہ تیورا کرزمین پہ گرا۔ میں نے اسے اپنے گرم لہو میں لت پت دیکھا اور اپنے چہرے سے اس کا گرم لعاب پونچھا اور۔۔۔‘‘
’’اور تو مرگیا‘‘، تیسرے آدمی نے اپنی دانست میں اس کا فقرہ مکمل کیا۔
’’ نہیں۔ میں زندہ رہا۔ میں نے اپنی تلوار نا چار رکھ دی اور میں زنده رہا۔ مگر نہ جانے کس طرف سے وہ سانولا نوجوان پھر نمودار ہو گیا۔ مجھے دیکھ کر ٹھٹھکا۔ قریب آکر مجھے گھورنے لگا۔ پھر غرا کر پوچھا کہ کیا تو وہی نہیں ہے۔ میں نے بصد تامل اعتراف کیا کہ ہاں میں وہی ہوں۔ یہ سن کر وہ تیزی سے رخصت ہوا اور میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد وہ واپس آیا۔ اس رنگ سے کہ ایک لڑکی کوکھینچتا ہوا میرے سامنے لایا۔ اس خاک میں اٹی بھر ے بالوں میں چھپی صورت کو میں نے غورسے دیکھا تو سناٹے میں آگیا۔ ادھر اس نے مجھے دیکھا تو اس دردسے روئی کہ میرا جگرکٹ گیا۔ سانولے نوجوان نے زہر بھری آواز میں مجھ سے پوچھا، یہ تیری کون ہے۔ میں نے تامل کیا۔ آخر بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے۔ سانولے نوجوان نے شقی القلب بن کر کہا، پھر تو اسے برہنہ کر۔ یہ سن کر خوف سے اس معصوم کی گھگھی بندھ گئی اور ادھر میں ڈھے گیا کیا اور۔۔۔‘‘
’’اور مرگیا؟‘‘ تیسرا آدمی بے تاب ہو کر بولا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ وہ ر کا۔ پھر آہستہ سے بولا، ”میں زندہ رہا۔‘‘
’’زندہ رہا۔۔۔؟ اس کے بعد بھی۔۔۔ اچھا۔۔۔؟‘‘ تیسرا آدمی سکتہ میں آ گیا۔
’’ہاں اس کے بعد بھی۔ میں نے کہا، میں نے سنا، میں نے دیکھا، میں نے کیا، اور میں زندہ رہا۔ میں وہاں سے منہ چھپا کر بھاگا چھپتا چھپاتا خراب خستہ ہوکر آخر اس کو چے میں پہنچا جہاں میرا گھر تھا۔ اس کو چے میں خوف کا ڈیرا تھا۔ اب دونوں وقت مل رہے تھے اور یہ کو چہ کہ شام پڑے یہاں خوب چہل پہل ہوتی تھی بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ میری گلی کا کتا بیچ گلی میں منہ اٹھائے اور سامنے نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھ کرغرایا۔ کتنی عجیب بات تھی۔ آگے جب میں گلی میں داخل ہوتا تھا وہ ایک مانوس ادا کے ساتھ دم ہلاتا تھا۔ آج مجھے دیکھ کر عجب طور سے چوکنا ہوا۔ بال سارے جسم کے کھڑے ہو گئے۔ آہستہ آہستہ غرایا اورعناد بھری نظروں سے مجھے گھورنے لگا، خوف کی ایک لہر میرے بدن میں تیرتی چلی گئی۔ میں اس سے ذرا بچ کر کسی قدرچوکنے پن کے ساتھ گذرا چلا گیا اور اپنے دروازے پہنچا۔
دروازہ اندر سے بند تھا۔ میں نے آہستہ سے د ستک دی۔ کوئی جواب نہیں آیا۔ لگتا تھا کہ گھر میں کوئی ہے ہی نہیں۔ میں نے تعجب کیا اور کسی قدر زور سے دستک دی۔ پھر وہی خاموشی۔ ایک بلی برابر کے مکان کی پست منڈیر پرگزرتے گزرتے ٹھٹھکی، اجنبی دشمنی نے بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور ایک دم سے سٹک گئی۔ میں نے اس مرتبہ دستک دینے کے ساتھ آہستہ سے آواز بھی دی، ’’کھولو۔‘‘ اندر سے سہمی سی نسوانی آواز آئی، ’’کون؟‘‘ یہ میری منکوحہ کی آواز تھی۔ اور مجھے تعجب ہوا کہ آج اس نے میری آواز کو نہیں پہچانا۔ میں نے اعتماد کے ساتھ کہا کہ میں ہوں۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا۔ مجھے دیکھ کر سہمی آواز میں بولی، ’’تم؟‘‘ میں نے ڈھٹی ہوئی آواز میں کہا کہ ’’ہاں میں۔۔۔‘‘
میں اندر آیا۔ گھر ہو حق کر رہا تھا۔ اندر باہر اندھیرا تھا۔ برآمدے میں ایک مدھم لو والا دیا ٹمٹما رہا تھا۔ وہاں مصلے بچھا تھا۔ اور میرا باپ خاموشی سے تسبیح پھیر رہا تھا۔ میری منکوحہ آہستہ سے بولی، ’’میں سمجھی تھی کہ شاید میری بیٹی واپس آگئی ہو۔‘‘ میں نے گھبرا کر اسے دیکھا کہ کیا اسے خبر ہو گئی ہے۔ وہ مجھے تکے جار ہی تھی اور مجھے تکتے تکتے جیسے اس کی پتلیاں ٹھہر گئی ہوں۔ میں اس سے آنکھ بچا کر برآمدے میں باپ کے پاس پہنچا اور مصلے کے برابر زمین پہ دو زانو ہو بیٹھا۔ باپ نے دیا ہاتھ میں اٹھا کر مجھے غور سے دیکھا، ’’تو۔۔۔؟‘‘
’’ہاں میں۔۔۔‘‘ اس نے مجھے سر سے پیر تک حیرت سے دیکھا، ’’ تو زندہ ہے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں میں زندہ ہوں۔‘‘
وہ اس چراغ کی مدھم روشنی میں مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ پھر بے اعتباری کے لہجہ میں بولا، ’’نہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں، میرے باپ، میں زندہ ہوں۔‘‘ اس نے تامل کیا، آنکھیں بند کیں۔ پھر بولا، ’’اگر تو زندہ ہے تو پھر میں مر گیا۔‘‘
اس بزرگ نے ایک لمبا سا ٹھنڈا سانس لیا اور مر گیا۔ تب میری منکوحہ میرے قریب آئی۔ زہر بھرے لہجہ میں بولی، ’’اے اپنے موئے باپ کے بیٹے اور اے میری آبرو لٹی بیٹی کے باپ تو مر چکا ہے۔۔۔‘‘
’’تب میں نے جانا کہ میں مر گیا ہوں۔‘‘
دوسرے آدمی نے یہ کچھ سننے کے بعد پہلے آدمی کو گھور کر دیکھا اور دیکھے گیا، اس کے احساس سے عاری چہرے کو، اس کی چمک سے محروم آنکھوں کو۔ پھر روکھے لہجہ میں اعلان کیا کہ ’’بیان صحیح ہے۔ یہ آد می مر چکا ہے۔‘‘
تیسرا آدمی کہ پہلے ہی سے حیرت زدہ تھا مزید حیرت زدہ ہوا۔ پہلے آدمی کو حیرت اور خوف سے د یکھا کیا۔ پھر اچانک سوال کیا، ’’تیرے باپ کی لاش کہاں ہے؟‘‘
’’باپ کی لاش؟‘‘ پہلے آدمی کے لیے یہ سوال شاید غیر متوقع تھا۔ وہ جھجکا، پھر بولا، ’’وہ تو وہیں رہ گئی۔‘‘
’’لایا کیوں نہیں؟‘‘
’’دو لاشیں کیسے لے کر آتا۔ مت پوچھ کہ اپنی لاش کس خرابی سے لے کر آیا ہوں۔‘‘
دوسرا آدمی جس نے اب تک سب کچھ بے حسی سے کہا اور سنا تھا یہ بات سن کر چونکا، ’’ارے ہاں، میں یہ بھول ہی گیا تھا۔ میری لاش تو وہیں رہ گئی ہے۔‘‘
’’تیری لاش؟‘‘ تیسرے آدمی کی حیرت زدہ نظریں پہلے آدمی کے چہرے سے ہٹ کر دوسرے آدمی کے چہرے پہ مرکوز ہو گئیں۔
’’ہاں میری لاش۔‘‘ پھر وہ بڑبڑانے لگا جیسے اپنے آپ سے کہہ رہا ہو، ’’لاش لے کر آنا چاہیئے تھا۔ جانے وہ اس سے کیا سلوک کریں؟‘‘
’’تو کیا تو بھی مرچکا ہے؟‘‘ تیسرے آدمی نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ تیسرے آدمی نے تعجب سے اسے دیکھا، ’’مگر تو کیسے مرا؟‘‘
’’جو مر گیا ہے وہ کیسے بتائے کہ وہ کیوں مرا اورکیسے مرا۔ بس میں مرگیا۔‘‘ دوسرا آدمی چپ ہو گیا۔ پھر خود ہی اپنی بے لہجہ آواز میں شروع ہو گیا، ’’اس شہر خرابی میں آخر وہ ساعت آگئی جو سروں پہ منڈلا رہی تھی۔ میں چھپتا پھرتا تھا اور سوچتا تھا کہ کیا اب ہمارے ساتھ وہ کچھ ہو گا جو ان کے ساتھ ہو چکا ہے۔ ایک بازار سے گزرتے گزرتے ٹھٹھکا۔۔۔ کیا دیکھا کہ ایک سانولی لڑکی ہے، ساڑھی لیر لیر ایسی کہ سارا پنڈا کھلا ہوا، بال پریشان خاک آلود، ماتھے کی بندی مسلی ہوئی۔ دبلی پتلی مگر پیٹ پھولا ہوا۔ وحشت سے ادھر ادھر دیکھتی، دوڑنے لگتی، پھر ٹھہر جاتی، میرے قریب سے گزری تو میں ٹھٹھک گیا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر ٹھٹھکی۔ ارے یہ تو وہی لڑکی ہے جسے میں نے۔۔۔ اور میں اتنا ہی سوچ پایا تھا کہ اس نے ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپتے ہوئے چیخ ماری، ’’نہیں، نہیں، نہیں۔‘‘ اور خوفزدہ ہو کر بھاگ پڑی۔ میرے اندر خون جمنے لگا، یہ لڑکی مجھے پکڑ وائے گی۔ میں منہ چھپا کر بھاگا۔ بہت بھاگتا پھرا، کبھی اس کوچے میں کبھی اس گلی میں۔ مگر ہر گلی اندھی گلی تھی اور ہر کوچہ بند کوچہ تھا۔ شہر خرابی سے نکلنے کا کوئی رستہ نظر نہ آتا تھا۔
اسی طرح بھاگتے بھاگتے ایک نرالے نگر میں جا نکلا۔ لاشیں دور دور تک نظر آرہی تھیں۔ جیتا آدمی آس پاس کہیں نظر نہ آیا۔ میں حیران و پریشان ایک کوچے سے دوسرے کوچے میں، اور ایک گلی سے نکل کر دوسری گلی میں گیا۔ بازار بند، رستے سنسان، گلیاں ویران۔ کسی کسی مکان کے بالائی دریچے کے پٹ اتنے کھلتے کہ دو سہمی سہمی آنکھیں نظر آتیں اور پھر جلدی سے پٹ بند ہو جاتے۔ عقل حیران تھی کہ کیسا نگر ہے۔ لوگ ہیں مگر گھروں میں مقید بیٹھے ہیں۔ آخر ایک میدان آیا جہاں دیکھا کہ ایک خلقت ڈیرا ڈالے پڑی ہے۔ بچے بھوک سے بلکتے ہیں۔ بڑوں کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہیں۔ ماؤں کی چھاتیاں سوکھ گئی ہیں۔ شاداب چہرے مرجھا گئے ہیں۔ گوری عورتیں سنولا گئی ہیں۔ میں وہاں پہنچا کہ اے لوگو کچھ بتاؤ کہ یہ کیسی بستی ہے اور اس پہ کیا آفت ٹوٹی ہے کہ گھرقید خانے بنے ہیں اور گلی کوچوں میں خاک اڑتی ہے۔ جواب ملا کہ اے کم نصیب، تو شہر افسوس میں ہے، اور ہم سیہ بخت یہاں دم سادھے موت کا انتظار کرتے ہیں۔ میں نے یہ سن کر ایک ایک کے چہرے پہ نظر کی۔ ہر چہرے پر موت کی پرچھائیں پڑ رہی تھی اور ہر پیشانی پر سیہ بختی لکھی تھی۔ مجھے انہیں دیکھ کر تجسس ہوا۔ پوچھا کہ اے لوگو سچ بتاؤ، تم وہی نہیں ہو جو اس بستی کو دارالامان جان کر دور سے چل کر آئے اور یہاں بسر گئے۔ انہوں نے کہا کہ اے شخص تو نے خوب پہچانا۔ ہم انھیں خانہ بربادوں کے قبیلہ سے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ خانہ بربادو، تم نے دارالامان کو کیسا پایا۔ بولے کہ خدا کی قسم، ہم نے اپنوں کے ظلم میں صبح کی۔ یہ سن کر میں ہنسا۔ وہ میرے ہنسنے پہ حیران ہوئے۔ میں اور زور سے ہنسا۔ وہ اور حیران ہوئے۔ میں ہنستا چلا گیا اور وہ حیران ہوتے چلے گئے۔ پھر یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی کہ شہر افسوس میں ایک شخص وارد ہوا ہے جو ہنستا ہے۔‘‘
’’آج کے دن بھی؟‘‘
’’ہاں آج کے دن بھی۔‘‘
لوگ حیران ہوئے اور خوف زدہ ہوئے۔ یہ متحیر اور خوف زدہ لوگ میرے ارد گرد اکٹھے ہونے لگے۔ پہلے انھوں نے دور سے ایک خوف کے ساتھ مجھے ہنستے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ ہمت کر کے قریب آئے، آپس میں سرگوشیاں کیں کہ یہ شخص تو واقعی ہنس رہا ہے۔
’’یہ سنکی کون ہے۔۔۔؟ کہاں سے آیا ہے؟‘‘
’’اللہ بہتر جانتا ہے۔‘‘
’’کہیں ان کا جاسوس تو نہیں ہے؟‘‘
’’ہوسکتا ہے۔‘‘ ایک نے دوسرے کو دوسرے نے تیسرے کو آنکھوں آنکھوں میں دیکھا۔
تب میں نے کہا کہ ’’اے لوگو، میں ان میں سے نہیں ہوں۔‘‘
’’پھر تو کن میں سے ہے؟‘‘
میں کن میں سے ہوں، میں سوچ میں پڑ گیا۔ اس آن ایک بوڑھا مجمع میں سے نکل کر آیا اور گویا ہوا، ’’اگر تو ان میں سے نہیں تو زاری کر۔‘‘
’’کس کے حال پر؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بنی اسرائیل کے حال پر۔‘‘
’’کس لیے؟‘‘
’’اس لیے کہ جو ہو چکا تھا وہ پھر ہوا اور جو ہو چکا ہے وہ پھر ہو گا۔‘‘
یہ سن کر ہنسی میری جاتی رہی۔ میں نے افسوس کیا اور کہا کہ اے بزرگ کیا تو نے دیکھا کہ جو لوگ اپنی زمین سے بچھڑ جاتے ہیں پھر کوئی زمین انہیں قبول نہیں کرتی۔‘‘
’’میں نے یہ دیکھا اور یہ جانا کہ ہر زمین ظالم ہے۔‘‘
’’جو زمین جنم دیتی ہے وہ بھی؟‘‘
’’ہاں جو زمین جنم دیتی ہے وہ بھی اور جو زمین دارالامان بنتی ہے وہ بھی۔ میں نے گیا نام کے نگر میں جنم لیا اور گیا کے اس بھکشو نے یہ جانا کہ دنیا میں دکھ ہی دکھ ہے اور نروان کسی صورت نہیں ہے اور ہر زمین ظالم ہے۔‘‘
’’اور آسمان؟‘‘
’’آسمان تلے ہر چیز باطل ہے۔‘‘
’’میں نے تامل کیا اور کہا کہ ’’یہ سوچنے کی بات ہے۔‘‘
’’سوچ بھی باطل ہے۔‘‘
’’بزرگ سوچ ہی تو انسانیت کی اصل متاع ہے۔‘‘
وہ دو ٹوک بولا، ’’انسانیت بھی باطل ہے۔‘‘
’’پھر حق کیا ہے؟‘‘ میں نے زچ ہو کر پوچھا۔
’’حق؟ وہ کیا چیز ہوتی ہے؟‘‘
’’حق‘‘، میں نے پورے زور اور اعتماد کے ساتھ کہا۔
اور اس نے سادگی سے کہا کہ ’’جسے حق کہتے ہیں وہ بھی باطل ہے۔‘‘
میں نے یہ سنا اور سوچا کہ یہ بوڑھا شخص موت کے اثر میں ہے اور یہ بستی فنا کے رستے میں ہے۔ تو ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ اور یہاں سے نکل چل کہ تجھے زندہ رہنا ہے۔ سو میں نے اس قبیلہ کی طرف سے منہ پھیرا اور اپنی جان بچا کر بھاگا۔ مگر میں ایک عجیب میدان میں جا نکلا جہاں خلقت امنڈی ہوئی تھی اور فتح کا نقارہ بجتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ لوگو یہ کون سی گھڑی ہے اور یہ کیا مقام ہے۔ ایک شخص نے قریب آکر کان میں کہا کہ یہ زوال کی گھڑی ہے اور یہ مقام ِعبرت ہے۔
’’اور یہ کون شخص ہے جس کے منہ پر تھوکا گیا ہے۔‘‘
اس شخص نے مجھے زہر بھری نظروں سے دیکھا اور کہا، ’’تو اسے نہیں پہچانتا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اے بدشکل آدمی، یہ تو ہے۔‘‘
’’میں؟‘‘ میں سناٹے میں آگیا۔
’’ہاں تو۔‘‘
میں نے اسے غور سے دیکھا اور میری پتلیاں پھیلتی چلی گئیں۔ وہ تو سچ مچ میں تھا۔۔۔ میں نے اپنے آپ کو پہچانا اور میں مر گیا۔‘‘
تیسرا آدمی کہنے لگا، ’’اپنے آپ کو پہچاننے کے بعد زندہ رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘
پہلے آدمی نے اسے غور سے دیکھا اور پوچھا کہ ’’اچھا تو وہ تو تھا جس کے منہ پر تھوکا گیا تھا۔‘‘
’’ہاں، وہ میں تھا۔‘‘
’’میں سمجھ رہا تھا کہ وہ میں تھا‘‘، پہلا آدمی بولا۔
’’تو؟‘‘
’’ہاں میرا گمان یہی تھا۔ بہر حال اب پتہ چل گیا کہ وہ محض میرا گمان تھا۔ جس کے منہ پر تھوکا گیا تھا وہ میں نہیں، تو تھا۔‘‘ یہ کہہ کر پہلا آدمی مطمئن ہو گیا مگر پھر رفتہ رفتہ اسے بیکلی ہونے لگی۔ ایک اذیت کے ساتھ وہ لمحہ اسے یاد آیا جب اس کے منہ پر تھوکا گیا تھا۔ اور اب جب وہ بولا تو اس کی آواز اتنی سپاٹ نہیں رہی تھی جتنی پہلے تھی۔ اس نے دوسرے آدمی کو مخاطب کیا، ’’میں نے غلط کہا اور تو نے غلط سمجھا۔ وہ میں ہی تھا جس کے منہ پر تھوکا گیا تھا۔‘‘
دوسرے آدمی نے اپنی اسی لہجہ سے عاری آواز میں کہا، ’’میں نے اس شکل کو جس پر تھوکا گیا تھا بہت غور سے دیکھا تھا وہ بالکل میری شکل تھی۔‘‘
پہلے آدمی نے دوسرے آدمی کو سر سے پیر تک غور سے دیکھا۔ یکایک ایک لہر اس کے د ماغ میں اٹھی اور اس نے رکتے رکتے کہا، ’’کہیں تو میں، تو، نہیں ہے؟‘‘
’’میں، تو۔۔۔؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ میں نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے میں اس قسم کے کسی مغالطہ کا شکار نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’تو نے اپنے آپ کو کیا پہچانا؟‘‘ پہلے آد می نے سوال کیا۔
دوسرے آدمی نے جواب دیا، ’’میں وہ ہوں جس کے منہ پر تھوکا گیا ہے۔‘‘
’’یہ پہچان تو میری بھی ہے‘‘، پہلا آدمی بولا، ’’اور اس سے مجھے یہ شک پڑا کہ شاید تو، میں ہو۔‘‘
’’مگر کیا ضرور ہے۔‘‘ دوسرے آدمی نے کہا کہ ’’ہر وہ چہرہ جس پر تھوکا گیا ہے میرا ہی چہرہ ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے مگر یہ تو ہو سکتا ہے کہ تیرا چہرہ تیرا نہ ہو میرا ہو۔‘‘
اس پر دوسرا آدمی واقعی وسوسے میں پڑ گیا۔ اس نے شک بھری نظروں سے پہلے آدمی کو دیکھا۔ دونوں نے دیر تک ایک دوسرے کو شک بھری نظروں سے دیکھا اور طرح طرح کے وسوسے کیے۔ آخر کو دوسرا آدمی ہار کر بولا کہ ’’ہم مر چکے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو کیوں کر پہچان سکتے ہیں۔‘‘
پہلا آدمی بولا، ’’کیا جب ہم مرے نہیں تھے تب ایک دوسرے کو پہچانتے تھے؟‘‘
اس پر دوسرا آدمی لا جواب ہو گیا۔ مگر اسی وقت تیسرے آدمی کو ایک لا جواب تجویز سوجھی۔ اس نے پوچھا کہ تم میں سے اپنی لاش کون لے کر آیا ہے۔ پہلا آدمی بولا کہ میں لے کر آیا ہوں۔ اس نے کہا، ’’پھر ہوا میں کیوں تیر چلاتے ہو۔ لاش کو دیکھ لو۔ ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘
یہ تجویز دونوں فریقوں نے قبول کر لی اور پھر تینوں لاش کے پاس گئے۔ تیسرا آدمی لاش کو دیکھ کر خوف زدہ ہوا۔ پھر بولا، ’’اس کا تو چہرہ ہی مسخ ہو چکا ہے اب کیا شناخت ہو سکتی ہے۔‘‘
دوسرا آدمی بولا، ’’چہر مسخ ہو گیا ہے تو پھر تو یہ طے ہے کہ یہ میری لاش ہے اس لیے کہ جب میرے منہ پر تھوکا گیا تھا تو میرا چہرہ مسخ ہو گیا تھا۔‘‘
’’چہرہ تو میرا بھی مسخ ہو گیا تھا‘‘، پہلا آدمی بولا۔
’’تیرا چہرہ کب مسخ ہوا تھا؟‘‘
’’میرا چہرہ تو اسی گھڑی مسخ ہو گیا تھا جس گھڑی میں نے لمبے بالوں، لال بندیا والی سانولی لڑکی کو اس کے بھائی کے ہاتھوں برہنہ کرایا تھا۔‘‘
دونوں اس کی صورت تکنے لگے۔ پھر بیک زبان کہا، ’’اور تو اس مسخ چہرے کے ساتھ اتنے دنوں لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا رہا۔‘‘
’’ہاں میں اپنے مسخ چہرے کے ساتھ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا رہا حتی کہ میرے باپ نے مجھے دیکھا اور آنکھ بند کر لی اور پھر میں مر گیا۔‘‘
پہلے آدمی نے اپنے باپ کا ذکر کیا تو دوسرے آدمی کو بھی اپنا باپ یاد آگیا۔ ’’میرا باپ بھی کچھ اسی سادگی سے مرا تھا۔ میں نے اس کے پاس جا کر اس کی شفقت پدری کو اکسانے کی کوشش کی اور رقت کے ساتھ کہا کہ اے میرے باپ تیرا بیٹا آج مر گیا۔ باپ میری مسخ صورت کو تکنے لگا۔ پھر بولا کہ اچھا ہوا کہ تو میرے پاس آنے سے پہلے مر گیا۔ یہ سب کچھ کرنے اور دیکھنے کے بعد بھی تو زندہ آتا تو میں تجھے قیامت تک زندگی کا بوجھ اٹھانے کی بد دعا دیتا۔۔۔ یہ میرے باپ کا آخری فقرہ تھا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے چپ ہو گیا۔‘‘
پہلا آدمی اپنی خشک آواز میں بولا، ’’ہمارے بوڑھے باپ اپنے جوان بیٹوں سے زیادہ غیرت مند تھے۔ اورہم نے ان کے سامنے کیا کیا۔ میں اپنے مسخ چہرے والی لاش لے کر یہاں آگیا اور اپنے باپ کی لاش وہیں چھوڑ آیا۔‘‘
تیسرا آدمی ایک تلخی سے ہنسا۔ کہنے لگا، ’’آگے جب ہم نکلے تھے تو اپنے اجداد کی قبریں چھوڑ آئے تھے۔ اب کے نکلے ہیں تو اپنی لاشیں چھوڑ آئے ہیں‘‘، یہ کہتے کہتے اس کی ہنسی معدوم ہو گئی اور ایک افسردگی نے اسے آ لیا۔ اسے اپنا پہلا نکلنا یاد آگیا۔ ماضی کے دھندلکے میں اسے بہت سی صورتیں نظر آئیں۔ روشن چہروں کی ایک ندی تھی کہ اس کے تصور میں امنڈ آئی تھی۔
چہرے جو ایسے اوجھل ہوئے کہ پھر دیکھا ئی نہیں دیئے۔ اور اب یہ دوسرا نکلنا اور اب پھر۔۔۔ اس نے کسی قدر بے یقینی کے ساتھ دل ہی دل میں کہا کہ یہ تو مجھے پتہ نہیں کہ میں نکل آیا ہوں یا نہیں نکل آیا۔ مگر بہت سے روشن چہرے پھر آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ کتنے روشن چہرے تب نظروں سے اوجھل ہوئے۔ کتنے روشن چہرے اب نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اور اسے یہ تصور کر کے تعجب ہوا کہ روشن چہروں پر جو اد اسی اس نے اس بار دیکھی تھی وہی اداسی پھر اس بار دیکھی۔ اس نے افسردہ لہجہ میں پہلے آدمی اور دوسرے آدمی کو مخاطب کیا، ’’میں نے غلط کہا تھا دونوں بار ایک ہی واقعہ گزرا۔ یہ کہ ہم اپنے مسخ چہروں کے ساتھ یہاں آگئے اور روشن چہروں کو پیچھے چھوڑ آئے۔‘‘
دوسرا آدمی خلا میں تکتا رہا۔ پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ چلنے لگا تھا کہ دونوں نے پوچھا، ’’کہاں جا رہا ہے تو؟‘‘
بولا، ’’وہاں سے مجھے کم از کم اپنے باپ کی لاش لے آنی چاہیئے۔‘‘
’’اب وہاں سے کوئی لاش نہیں آسکتی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’سب رستے بند ہیں۔‘‘
’’اچھا۔۔۔؟ تو گویا میرے باپ کی لاش وہیں پڑی رہے گی۔‘‘
پہلے آدمی نے کہا، ’’اپنے باپ کی لاش لا کر یہاں تو کیا کرتا۔ مجھے دیکھ کہ میں اپنی لاش لے آیا ہوں اور اسے اپنے کاندھے پہ لیے لیے پھر رہا ہوں۔‘‘
’’اسے دفن کیوں نہیں کرتا؟‘‘ تیسرا آدمی بولا۔
’’کہاں دفن کروں۔ یہاں جگہ ہے دفن کرنے کے لیے؟‘‘
’’تو اب ہمیں یہاں دفن ہونے کے لیے بھی جگہ نہیں ملے گی‘‘، دوسرا آدمی کہنے لگا۔
’’نہیں۔ دفن ہونے کے لیے یہ جگہ خوب ہے مگر قبریں یہاں پہلے ہی بہت بن چکی ہیں۔ اب مزید قبروں کے لیے گنجائش نہیں نکل سکتی۔‘‘
یہ سن کر تیسرے آدمی نے گریہ کیا۔ دونوں نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پوچھا، ’’تونے کیا سوچ کر گریہ کیا؟‘‘
’’میں نے یہ سوچ کر گریہ کیا کہ مجھے تو ابھی مرنا ہے۔ اور یہاں نئی قبروں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ پھر میں کہاں جاؤں گا؟‘‘
’’تو مرا نہیں ہے؟‘‘ دونوں نے اسے غور سے دیکھا۔
’’نہیں۔ میں ابھی زندہ ہوں۔‘‘
دونوں اسے تکنے گلے۔ ’’تو اپنے تئیں زندہ جانتا ہے؟‘‘
’’ہاں میں زندہ ہوں مگر۔۔۔‘‘
’’مگر؟‘‘ دونوں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’مگر میں لاپتہ ہوں۔‘‘
’’لاپتہ؟‘‘
’’ہاں لاپتہ۔ تمہیں معلوم ہے کہ اس قیامت میں بہت سے لوگ لاپتہ ہو گئے ہیں۔‘‘
’’اور کیا تجھے یہ پتہ ہے کہ۔۔۔‘‘ پہلا آدمی بولا، ’’جو لاپتہ ہوئے ہیں ان میں سے بہت سے قتل ہو چکے ہیں۔‘‘
’’مجھے یہ پتہ ہے مگر میں مقتولوں میں نہیں ہوں۔‘‘
’’بہت سے اس طور مرے جیسے ہم مرے ہیں۔‘‘
’’میں تمہاری طرح مرنے والوں میں نہیں ہوں۔‘‘
’’تجھے جب کہ تو لاپتہ ہے یہ کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’بات یہ ہے کہ شہر خرابی میں زندہ کا پتہ نہیں چل رہا مگر مرنے والوں کی لاشیں روز برآمد ہو رہی ہیں۔ پس اگر میں مرا ہوتا تو کسی رنگ سے بھی مر ا ہوتا میری لاش اب تک برآمد ہو چکی ہوتی۔‘‘
’’اگر تو مرا نہیں ہے تو تجھے اسیروں میں ہونا چاہئے۔ اور اگر تو اسیروں میں ہے تو سمجھ لے کہ چکر پورا ہو گیا۔‘‘
تیسرا آدمی چکرایا، ’’چکر پورا ہو گیا، ‘‘ اس کا کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ ہے‘‘، دوسرا آدمی بولا، ’’کہ تو پھر ہر پھر کر اس شہر میں پہنچ گیا ہے جس شہر سے کبھی نکلا تھا۔ ایک رفیق کے ساتھ یہ واقعہ گزر چکا ہے۔ وہ اسیر ہو کر وہیں پہنچ گیا جہاں پیدا ہوا تھا۔ جب وہ وہاں سے بھاگ نکلنے کا جتن کر رہا تھا تو ساتھی نے کہا، رفیق یہاں سے کیوں بھاگتا ہے۔ یہ مٹی تجھ سے کیا کہتی ہے۔ وہ رویا اور بولا کہ جب میں روزنِ زنداں سے جھانکتا ہوں تو سامنے سرسوں کا کھیت لہلہاتا دکھائی دیتا ہے۔ سرسوں اب پھولنے لگی ہے کہ بسنت قریب ہے، جنم بھومی اور اسیری نے اکٹھے ہو کر قیامت ڈھائی۔ بسنت بھی آگئی تو پھر کیا ہو گا۔ بسنت، جنم بھومی اور اسیری۔۔۔ نہیں۔ ان تین کو اکٹھا نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں بہت اذیت ہے، اور وہ زنداں سے ایک رات سچ مچ نکل بھاگا اور لاپتہ ہو گیا۔‘‘
’’لاپتہ ہو گیا‘‘، تیسرا آدمی چونکا، ’’کہیں وہ میں تو نہیں تھا۔۔۔ شاید۔۔۔ کہ سرسوں میرے شہر میں بھی ایسی پھولتی تھی کہ قیامت ڈھاتی تھی۔‘‘
’’نہیں، وہ تو نہیں تھا۔‘‘
’’بسنت، جنم بھومی اور اسیری‘‘، تیسرا آدمی بڑ بڑایا اور سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا، ’’نہیں وہ میں نہیں ہو سکتا۔ میں اسیروں میں شامل نہیں تھا۔‘‘
پہلا آدمی کہنے لگا، ’’اسیری کے بہانے جنم بھومی واپس پہنچنا کتنی عجیب سی بات ہے۔‘‘
دوسرا آدمی بولا، ’’گیا والا آدمی اسیروں میں شامل ہوتا تو آج وہ گیا کی دھرتی پہ ہوتا۔‘‘
تیسرے آدمی نے جھرجھری لی، ’’ہاں واقعی کتنی عجیب بات ہے۔ میری دادی غدر کے قصے سنایا کرتی تھی۔ بتایا کرتی تھی کہ کتنے لوگ ان دنوں رو پوش ہوئے تھے۔ اپنے اپنے شہروں سے ایسے گئے کہ پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ اور اک عورت تھی جو فرنگی سے بہت لڑی۔ پھر گھر اجاڑ کر اپنے خوشبو شہر سے نکلی اور نیپال کے جنگلوں میں نکل گئی۔ جنگل جنگل مثلِ بوئے آوارہ کے پھری اور کھو گئی۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے ٹھنڈا سانس بھرا پھر بولا، ’’آفت زدہ شہر میں لاپتہ ہونے سے یہ بہتر ہے کہ آدمی گھنے، مہیب جنگلوں میں کھو جائے۔‘‘ وہ چپ ہوا اور خیالوں میں کھو گیا۔ اسے اپنا پہلا نکلنا پھر یاد آ گیا تھا۔ دیر تک خیالوں میں کھو یا رہا پھر ایک پچھتاوے کے ساتھ کہنے لگا، ’’کاش میں نے نیپال کے جنگلوں میں ہجرت کی ہوتی۔‘‘
پہلا، دوسرا، تیسرا، اب تینوں آدمی چپ تھے۔ چپ اور بے حس و حرکت۔ جیسے بولنے اور حرکت کرنے کی خواہش سے مکمل نجات حاصل کر چکے ہوں، ساعتیں گزرتی چلی گئیں اور وہ اسی طرح گم سم بیٹھے تھے۔ آخر کو رفتہ رفتہ تیسرے آدمی نے بیکلی محسوس کی۔ اس نے پہلے آدمی کو دیکھا، دوسرے آدمی کو دیکھا۔ وہ دونوں جامد بیٹھے اور اپنی بے حرکت پتلیوں کے ساتھ خلا میں تکے جا رہے تھے۔ اسے اند یشہ ہوا کہ کہیں وہ بھی جامد تو نہیں ہو گیا ہے۔ یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ وہ جامد نہیں ہوا ہے اس نے کوشش کر کے جنبش کی۔ لمبی سی جماہی لی اور دل دل میں ایک اطمینان کے ساتھ کہا کہ میں ہوں۔ پھر اس نے پہلے اور دوسرے کو مخاطب کر کے کہا، ’’یہاں سے اب چلیں۔‘‘ وہ اپنے ہونے کا علان کرنا چاہتا تھا۔
دونوں نے کسی قدر تامل کے بعد اپنی بے نور نگاہیں خلا سے ہٹا کر اس پر مرکوز کیں۔ روکھی آواز میں کہا، ’’کہاں چلیں۔ ہمیں اب کہاں جانا ہے۔ ہم تو مر چکے ہیں۔‘‘
تیسرے آدمی نے ایک خوف کے ساتھ ان دونوں کے مسخ چہروں اور بے حرکت بے نور آنکھوں کو دیکھا۔ مجھے یہاں سے اٹھ چلنا چاہیے مبادا میں بھی جامد ہو جاؤں۔ وہ سوچتا رہا، سوچتا رہا۔ پھر ہمت کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں نے اسے اٹھتے دیکھا اور کسی طرح کے لہجہ اور جذبے سے خالی آواز میں پوچھا، ’’تو کہاں جا رہا ہے۔‘‘
وہ بولا، ’’مجھے چل کر دیکھنا چاہیئے کہ میں کہاں ہوں۔‘‘ وہ رکا، پھر سوچ کر بولا، ’’کہیں واقعی میں اسیروں میں تو نہیں ہوں اور وہیں پہنچ گیا ہوں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ پہلے آدمی نے پوچھا۔
اس نے پہلے آدمی کی بات جیسے سنی ہی نہیں۔ بس دوسرے آدمی کے چہرے پہ نظریں گاڑ دیں اور پوچھا، ’’کیا تجھے یقین ہے کہ وہ زنداں سے نکل بھاگا تھا۔‘‘
’’ہاں، اس نے پھولتی سرسوں کو دیکھا اور اپنے شہر کے زنداں سے نکل بھاگا۔‘‘
’’اور کیا تجھے یقین ہے کہ وہ میں نہیں تھا؟‘‘
’’نہیں‘‘، دوسرے آدمی نے کہا اور یہ کہتے کہتے تیسرے آدمی کو غور سے دیکھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ دوسرے آدمی نے تیسرے آدمی کو اتنے غور سے دیکھا۔ چونک کر بولا، ’’کیا تو شہر افسوس میں نہیں تھا؟‘‘
’’تونے ٹھیک پہچانا۔ میں شہر افسوس ہی میں تھا۔‘‘
’’میں نے تجھے مشکل سے پہچانا کہ تیرا چہرہ بگڑ چکا ہے مگر جب تو شہر افسوس میں تھا اور موت کا انتظار کرنے والوں کا ہم نشیں تھا تب تو چہرہ درست تھا۔ تیرا چہرہ کب اور کیسے بگڑا۔‘‘
تیسرا آدمی یہ سن کر محجوب ہوا۔ ہچکچاتے ہوا بولا، ’’بس یہ سمجھو کہ جب میں نے ان لوگوں سے منہ موڑا تب ہی سے میرا چہربگڑتا چلا گیا۔‘‘
’’تعجب ہے کہ تو وہاں سے نکل آیا۔ شہر افسوس کے تو سارے رستے مسدود تھے۔ تو پکڑا نہیں گیا؟‘‘
’’پکڑا کیسے جاتا۔ پہچانا جاتا تب پکڑا جاتا۔ مگر میرا تو چہرہ ہی بگڑ کے بدل گیا تھا۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے‘‘، پہلا آدمی بولا، ’’تیرا مسخ چہرہ تیرا نجات دہندہ ہے۔‘‘
دوسرا آدمی بولا، ’’ابھی سے اتنا خوش فہم نہیں ہونا چاہیے۔ ابھی تو یہی پتہ نہیں ہے کہ یہ آدمی ہے کہاں۔ اگر وہیں کہیں چھپا ہوا ہے تو آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں پہچانا جائے گا اور پکڑا جائے گا۔‘‘
’’یہی تو مجھے دھڑکا لگا ہوا ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جا کر دیکھوں کہ میں ہوں کہاں۔‘‘
’’تجھے یہ پتہ چل بھی گیا کہ تو کہاں ہے تو فرق کیا پڑے گا‘‘، دوسرا آدمی بولا۔
’’وہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل پیدا کروں گا۔‘‘
’’نکلنے کی سبیل؟‘‘ دوسرے آدمی نے اسے غور سے دیکھا، ’’اے لاپتہ آدمی، کیا تجھے پتہ نہیں ہے کہ سب رستے بند ہیں۔‘‘
’’’یہ تو ٹھیک ہے۔ مگر آخر کب تک لاپتہ رہوں۔ مجھے اپنا اتا پتہ لینا چاہیے۔ اور کیا خبر ہے کہ نکلنے کی کوئی سبیل پیدا ہو ہی جائے۔‘‘
’’اے سادہ دل آدمی، تو نکل کے کہاں جائے گا؟‘‘ دوسرا آدمی بولا۔
’’کہاں جانا۔ یہیں آ جاؤں گا۔ آخر پہلے بھی تو آنے والے یہیں آئے تھے۔‘‘
پہلے آدمی نے اسے گھور کر دیکھا، ’’یہاں۔۔۔؟ یہاں اب تو کہاں آئیگا۔ میں نے تجھے بتایا نہیں کہ میری لاش بے گور پڑی ہے۔‘‘
تیسر ا آدمی شش و پنج میں پڑ گیا، ’’یہ تو بڑی مشکل ہے۔ پھر میں کہاں جاؤں گا۔‘‘
دوسرا آدمی دونوں کو دیکھ کر یوں گویا ہوا، ’’اے بدشکلو، کیا میں نے تمہیں گیا کے آدمی کی بات نہیں بتائی تھی۔ ہر زمین ظالم ہے، اور آسمان تلے ہر چیز باطل ہے، اور اکھڑے ہوؤں کے لیے کہیں اماں نہیں ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘ تیسرے آدمی نے مایوسانہ پوچھا۔
دوسرا آدمی دیر تک اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا جب کہ تیسرے کو لگا کہ وہ جامد ہوتا جارہا ہے۔ پھر بولا، ’’پھر یہ کہ اے لاپتہ آدمی بیٹھ جا، اور مت پوچھ کہ تو کہاں ہے، اور جان لے کہ تو مر گیا ہے۔‘‘
مصنف:انتظار حسین