سمجھوتہ

0
179
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’بیوی کے بھاگ جانے کے غم میں مبتلا ایک شخص کی کہانی ہے۔ وہ اپنی بیوی کو بھولنا چاہتا ہے اور اس چکر میں وہ کوٹھوں پر پہنچ جاتا ہے۔ پھر ایک دن اس کی بیوی لوٹ آتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اسے اپنے گھر میں پناہ دیتا ہے مگر وہ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہے۔ ایک روز پھر وہ کوٹھے پر جانے کی سوچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے اکاؤنٹ میں روپیہ ہی نہیں بچا ہے۔ اسے اپنی بیوی کا خیال آتا ہے اور گھر کی طرف لوٹ آتا ہے۔‘‘

پہلے پہل جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی بھاگ گئی تو وہ بھوچکا سا رہ گیا۔ شادی کا پہلا ہی سال اور ایسی ان ہونی سی بات! کسی طرح یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ مگر جب با بار اس کے کمرے میں جاکر اس کی چیزوں کو گم پایا۔ یہاں تک کہ اس کا بچپن کا فوٹو تک جس میں وہ ایک کبوتر کو اپنے ننھے منے ہاتھوں میں تھامے مسکرا رہی تھی، اس کی سنگھار میز پر سے غائب تھا، تو شک کی کوئی وجہ باقی نہ رہی۔

کئی دن تک وہ گم سم رہا۔ نہ کہیں گیا، نہ نوکروں پر یہ بات ظاہر ہونے دی، نہ کسی رشتہ دار یا دوست سے اس کاذکر کیا۔ مگر رفتہ رفتہ جب بدنامی کا خوف دل سے نکل گیا، اور ادھر سے لوٹ آنے کی رہی سہی امید بھی جاتی رہی، تو اس نے ٹھنڈے دل سے اس واقعہ پر غور کرنا شروع کیا۔ ایک خیال بار بار اسے کچوکے دینے لگا، ’’میں نے اس عورت کو سچے دل سے چاہا۔ ہر طرح اس کے ناز اٹھائے۔ اس کی وہ کون سی خواہش تھی جسے میں نے پورا نہ کیا۔ اور اس کا اس نےیہ صلہ دیاکہ ایک دن چپکے سے، بغیر کوئی وجہ بتائے، بغیر ایک پیغام تک چھوڑے بھاگ گئی۔‘‘

اس کے ساتھ ہی اس نے آنےوالے برسوں کی تنہائیوں کا تصور کیا۔اور اس کی روح کپکپاکر رہ گئی۔

وہ نوعمری ہی سےان تنہائیوں سے واقف ہوچکا تھا۔ غریب ماں باپ کا بیٹا تھا۔ جو اپنی حیثیت کے مطابق معمولی سا لکھا پڑھا کر سدھار گئے تھے۔ غربت اور بے کسی کے زمانےمیں اسے کسی سے ملنے جلنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اور اس نےتنہائی ہی میں امان سمجھی۔ شباب کا بیشر زمانہ فکر معاش کی جدوجہد کی نذر ہوگیا۔ آخر جب اس کے دن پھرےاور وہ بھی کوئی چیز سمجھا جانے لگا، تو وہ اپنی گوشہ نشینی کی زندگی کا اس قدر عادی ہوچکا تھاکہ کسی قیمت اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے رشتہ دار جو اس کی حالت کے سدھرتے ہی آپ سے آپ پیدا ہوگئےتھے، اس کی تنہائی میں مزاحم ہونے شروع ہوئے۔

- Advertisement -

’’بھئی تو کیا عمر بھر کنوارے ہی رہو گے۔‘‘ وہ آئے دن آآکر اس سے کہا کرتے، ’’تم مانو چاہے نہ مانو۔ ہم تو چاند سی دلہن لاکے ہی رہیں گے۔‘‘ ایک بزرگ جو رشتہ میں دور کے ماموں ہوتے تھے، کہتے، ’’اماں دور کیوں جاؤ۔ اپنے خاندان ہی میں جو ماشاء اللہ ایک سے ایک حسین و جمیل لڑکی موجود ہے۔‘‘ ہر بار اس کا انکار پہلے سے کمزور ہوتا گیا۔ اور آخر ایک دن برادری ہی کی ایک قبول صورت تعلیم یافتہ لڑکی کے ساتھ اس کی شادی کردی گئی۔

طالب علمی کے زمانے میں اس کے ساتھی اکثر تعطیلات میں تین تین چار چار کی ٹولیاں بناکر ’’تفریح‘‘ کی تلاش میں آس پاس کے قصبوں اور گاوؤں میں نکل جایا کرتے۔ وہ ان سے دور ہی دور رہتا اور دل ہی دل میں ان سے نفرت کیا کرتا۔ مگر اب عورت اور اس کی ہم جلیسی کی لذتوں سے واقف ہوکر اسے پہلی مرتبہ احساس ہواکہ وہ اب تک کیسی رائیگاں اور بے معنی زندگی گزارتا رہا تھا۔

شادی کے بعد اس کی شوہرانہ فرض شناسی ضرب المثل بن گئی تھی۔ بیوی کی محبت نے اس پر ایسا قابو پالیا کہ وہ باقی ہر چیز سے بے نیاز ہوگیا۔ وہ بیوی سے الگ کسی پارٹی یا دعوت میں شریک نہ ہوتا۔ نہ تنہا کسی سے ملتا جلتا۔ بیوی سے جدا رہنا اس پر ایسا شاق گزرتا کہ دفتر میں وقت کاٹنا دوبھر ہوجاتا۔ بار بار گھڑی پر نظر پڑتی کہ کب وقت پورا ہو تو گھر کی راہ لے۔ دفتر سےآتے وقت کبھی راستے میں بچپن کا کوئی بے تکلف رنگین مزاج دوست مل جاتا۔ اور اسے اپنے ساتھ کسی محفل نشاط میں لے جانا چاہتاتو بڑی سردمہری سے جواب دیتا، ’’نا صاحب۔ مجھے تو معاف ہی رکھیے۔ میرا یہ وقت میری بیوی کا ہے۔ جو دن بھر میری آس لگائے گھر میں تنہا بیٹھی رہی ہے۔‘‘ کبھی کہتا، ’’میں کسی ایسی محفل میں شامل نہیں ہوسکتا جس میں میری بیوی نہ جاسکتی ہو۔‘‘

’’اور یہ سب اس بے وفا عورت کے لیے۔‘‘ اس نےدونوں ہاتھوں میں اپنے سر کو تھامتے ہوئے کہا، ’’جس کی محبت محض ایک فریب تھی۔‘‘

یکلخت اس کے دل میں اپنی بیوی کے خلاف اس قدر نفرت اور غصہ بھر گیا کہ اس کا سانس تیزی سے چلنے لگا۔ خیال ہی خیال میں اس نے دیکھا کہ اس نے اپنے مضبوط ہاتھوں میں اپنی بیوی کا گلا دبا رکھا ہے۔ اس کی دہشت زدہ آنکھیں رحم اور عفو کی ملتجی ہیں۔ مگر اس بے وفا عورت کے لیے اس کے دل میں کوئی رحم نہیں۔ وہ اس کا گلا دبا رہا ہے۔ زور سے اور زور سے یہاں تک کہ اس کا سرخ و سفید کتابی چہرہ سیاہ پڑگیا۔ اور اس کی بڑی بڑی حسین آنکھیں خون کے دو گھناؤنے لوتھڑے بن کر باہر نکل آئیں۔۔۔ اور اس نے اس کے بے جان جسم کو زمین پر پٹخ دیا۔

لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے۔ انتقام کا یہ تندوتیز جذبہ، یہ جنونی خروش دھیما پڑتا اور ایک استہزا کی شکل اختیار کرتا گیا۔ یہاں تک کہ اسے اپنا عشق، ایثار و خلوص، بیوی کی بے وفائی اور اس پر اپنا غیظ و غضب یہ سب باتیں مضحکہ خیز معلوم ہونے لگیں۔ اور ایک دن اسے اپنی حالت پر خود ہی ہنسی آگئی۔ اس نے کہا، ’’میں بھی کیسا بے وقوف ہوں کہ ایک عورت کو اس قدر اہمیت دیتا رہا۔ عورت کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہی حماقت ہے۔ اس کی مثال بالکل بچے کی سی ہے۔ جب تک اسے کھلونوں سے بہلایا جا سکتا ہے، بہلانا چاہیے۔ مگر جب وہ نہ مانے اور رونا اور مچلنا شروع کردے تو بہتر یہی ہے کہ اسے کسی دوسرے کے سپرد کردیاجائے۔ رہا عشق اور وفا کا معاملہ تو یہ سراسر ڈھکوسلا ہے۔‘‘

ایک دن وہ دفتر سے واپس آرہا تھا تو بچپن کا وہی رنگین مزاج دوست جو اسے عیش و نشاط کی ترغیبیں دیا کرتا تھا، سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ قصد کیا کہ کتراکے نکل جائے مگر دوست کی نظر پڑچکی تھی۔ ناچار رکنا پڑا۔ دوست کو اس کی بیوی کے بھاگ جانے کا علم نہ تھا۔ حسب عادت مسکراکر کہنے لگا، ’’آج تو بھابی جان چاہے جو کہیں میں تمہیں ساتھ لیے بغیر نہ چھوڑوں گا۔‘‘ وہ خاصی دیر تک خاموش کھڑا اس کا منہ تکتا رہا۔ پھر ایک لطیف سی مسکراہٹ نے اس کی سنجیدگی کو توڑ دیا اور وہ کہہ اٹھا، ’’اچھاچلو۔ کہاں چلنا ہے؟‘‘

دوست بھوچکا رہ گیا۔

جب تک رات کا اندھیرا اچھی طرح نہ پھیل گیا۔ دونوں وقت گزارنے کے لیے ادھر ادھر گھومتے رہے۔ اس کے بعد دوست اسے لے کر ایک حسن فروش کے کوٹھے پر پہنچا۔ زندگی میں اس قسم کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ کچھ خوف، کچھ جھجک، کچھ ندامت، کچھ یہ خلش دل میں تھی کہ جو زندگی ابھی تک اس قسم کی آلودگیوں سے پاک و صاف تھی، اب اس پر سیاہ کاری کے داغ دھبے پڑجائیں گے۔ اور یہ محض اس بے وفا عورت کی بدولت۔۔۔ مگر یہ ذہنی الجھن زیادہ دیر نہ رہی۔ شراب کا دورچلنا تھا کہ یکلخت سارے حجاب جیسے اٹھ سے گئے۔ ہنس ہنس کر گانے والی کو داد دینے اور فقرے کسنے لگا۔ اور گھنٹے ہی بھر میں پورا تماش بین بن گیا۔

اس کے بعد اس کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ پہلے پہل اسے اس کوچے میں جانے کےلیے دوستوں کی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ مگر چند ہی روز بعد دوست اسے اپنی راہ میں حائل ہوتے ہوئے معلوم ہونے لگے۔ چنانچہ وہ اکیلا ہی شب گردی کے لیے نکلنے لگا۔ پہلے گھوم پھر کر ساری منڈی کاجائزہ لیتا، مال کو پرکھتا اور پھر اپنا پسند کیا ہوا دانہ ایک شوقین مزاج رئیس زادے کی طرح منہ مانگی قیمت پر خرید لیتا۔ رفتہ رفتہ اسے عیش پرستی کا ایسا چسکا پڑگیا کہ دفتر سے اٹھ کر شاذ ہی کبھی گھر پہنچتا۔ آج اس کوٹھے پر ہے تو کل اس بالاخانے پر۔ جھوٹی محبتیں جتاتا اور خود بھی جھوٹی محبتوں سے لطف اٹھاتا۔ اگلے روز یہ باتیں خواب کی طرح معلوم ہوتیں۔ نئی رات آتی تو نئے سرے سے حسن و عشق کی دنیا بسانے کی دھن پھر سوار ہوجاتی۔ اس نے اپنا یہ اصول بنالیاتھا کہ عورت سے تعلق محض وقتی اور کاروباری ہونا چاہے اور دوسرے سودوں کی طرح اس میں بھی ہر طرح کا دروغ جائز ہے۔

اسے دفتر سے جو مشاہرہ ملتا تھا وہ اتنا تھا کہ اس میں ایک کنبہ دار شخص آسودگی اور عزت کے ساتھ بسر کرسکے۔ مگر نہ اتنا کہ اس میں کسی مستقل اندھا دھند فضول خرچی کی گنجائش ہو۔ شادی سے پہلے جب اس کے اخراجات برائے نام تھے، اس نے اچھی خاصی پونجی جمع کرلی تھی۔ شادی کے بعد بیوی کے لیے گراں قدر تحائف خریدنے پر بھی اس رقم میں کچھ زیادہ کمی نہ ہوئی تھی۔ مگر اب جب کہ روز روز بڑی بڑی رقموں کے چیک کاٹے جانے لگے تو چند ہی ہفتوں میں دیوالہ نکلتا ہوا نظر آنے لگا۔ کچھ تو اس ڈر سے کہ کہیں بالکل ہی مفلس نہ ہوجائے اور پھر اس کوچے میں جانے کے لیے ترسے اور کچھ مسلسل راتوں کے جاگنے سے صحت کے گرجانے کے باعث اس کی اوباشیوں میں جلد ہی کمی ہوگئی۔ یعنی جہاں پہلے مہینے میں مشکل سے دوچار ناغے ہوتے تھے۔ وہاں اب ہفتے میں تین تین چار چار ناغے ہونے لگے۔

ایک دن صبح کو جب وہ دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا تو کسی نے آہستہ سے اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔

’’کون؟‘‘

کوئی جواب نہ پاکر اٹھا، دروازہ کھولا اور ٹھٹک کر رہ گیا۔۔۔ اس کی مفرور بیوی سودائیوں کا سا حال بنائے سرجھکائے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے کپڑے میلے چکٹ ہو رہے تھے۔ بال الجھے ہوئے تھے۔ چہرہ زرد اور آنکھوں میں گڑھے۔ اسے اس حال میں دیکھ کر معاً اسے ایسا گمان ہوا جیسے کوئی کتیا کیچڑ میں دوسرے کتوں کے ساتھ لوٹ لگا کے آئی ہو۔ وہ کچھ دیر تو خاموش کھڑی رہی۔ پھر اچانک اس کے قدموں میں گرپڑی اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اس نے اپنی ٹانگوں کو چھڑانے کی کوشش نہ کی۔ چپ چاپ کھڑا رہا۔

’’مجھے بخش دو۔ مجھے بخش دو۔‘‘ اس کی بیوی نے سسکیاں لے لے کر کہنا شروع کیا، ’’میں جانتی ہوں اب تم مجھ سے سخت نفرت کرتے ہوگے۔ میری صورت دیکھنے کے بھی روادار نہ ہوگے۔ مگر میں تم سے محبت نہیں مانگتی، نہ اس کی توقع کرسکتی ہوں۔ آہ! میں اس لائق ہی نہیں ہوں۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ مجھ پر رحم کرو۔مجھے صرف اپنے گھر میں پناہ دو۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتی۔ آہ! میں اندھی ہوگئی تھی۔ مجھے بخش دو۔ مجھ سے سخت فریب کیا گیا۔۔۔‘‘

اس کے خلاف غیظ و غضب کی جو آگ شروع شروع میں اس کے دل میں بھڑکی تھی۔ کچھ تو وقت نے اور کچھ اس کے نئے مشاغل نےاسے ٹھنڈا کردیا تھا، اور اگر کچھ رہا سہا غصہ تھا بھی تو وہ اب اس کی یہ زدہ حالت دیکھ کر جا رہا تھا۔ اسے اس کی حالت پر رحم نہیں آیا بلکہ کراہت سی محسوس ہوئی۔

جب سے وہ بھاگی تھی، اس کے دل میں رہ رہ کے یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی تھی کہ وہ کون سا خوش نصیب تھا جس کی محبت پر اسے بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ممکن ہے وہ اس کے دوستوں میں سے کوئی ہو یا ممکن ہے کوئی اجنبی ہو۔ مگر اب اسے اس حال میں دیکھ کر اس کے دل میں اس قسم کا کوئی تجسس پیدا نہیں ہوا۔ وہ اس سارے معاملے سے اس قدر بیزار ہوگیا تھا کہ چاہتا تھا جلد سے جلد اس عورت سے اپنا پیچھا چھڑا لے۔

وہ کہے جارہی تھی، ’’تمہاری شرافت اور نیک دلی پر پورا یقین ہے کہ تم مجھے گھر سے نہیں نکالو گے۔ دنیا میں اس گھر کے سوا میرا کہیں ٹھکانہ نہیں۔ اس گھر سے نکل کر میں نےبڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ تم بے شک مجھ سے نوکرانیوں کا سا برتاؤ کرنا۔ آہ! میں اسی قابل ہوں۔‘‘

’’اس قدر زور سے نہ چلاؤ۔ نوکر سن رہے ہوں گے۔‘‘

دفتر جانے میں دیر ہو رہی تھی۔ اس نےاصرار کے ساتھ مگر بغیر کسی درشتی کے اپنے پاؤں چھڑا لیے۔ ٹوپی ہاتھ میں تھامی اور گھر سے نکل گیا۔دفتر میں رہ رہ کے بیوی کی یہ حالت زار اس کی نظروں میں پھرتی رہی۔ اسے تعجب ہو رہا تھا کہ کیا یہ وہی کمسن الہڑ حسینہ تھی جس کا وہ چھ مہینے پہلے شیدائی تھا۔ کیا یہ وہی نازنین تھی جسے خوشبوؤں سے عشق تھا، جو اپنے جسم پر گرد کا ایک ذرہ بھی نہ سہ سکتی تھی اور جس کے ساتھ باغ کی کسی روش پرٹہلتے ہوئے اس کا سر فخر سے اونچا ہوجاتا تھا۔

’’اگر وہ میرے ہاں رہنے ہی پرمصر ہے۔‘‘ اس نے دل میں کہا، ’’تو یوں ہی سہی۔ میں اتناکم ظرف نہیں ہوں کہ روٹی کپڑے سے بھی جواب دے دوں۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ میں اس سے اب کوئی سروکار نہیں رکھوں گا۔ گمان غالب یہی ہے کہ وہ میری بے اعتنائیوں سے کڑھ کڑھ کر یا ضمیر کی ملامتیں سہ سہ کر جلد ہی پھر بھاگ جائے گی۔‘‘

اس کی بیوی کوواپس آئے دو ہفتے گزر چکے تھے۔ اس عرصے میں نہ تو اس نےاس کی طرف نظر بھر کے دیکھا تھا اور نہ کوئی بات ہی کی تھی۔ جیسے وہ گھر میں تھی ہی نہیں۔ ادھر اس کی بیوی بھی اس کے سامنےآنےسے کتراتی رہی تھی۔ البتہ اس کی موجودگی مختلف صورتوں میں اپنی یاد دلاتی رہی۔

جب وہ سوکر اٹھتا، تو اس کی نظر اپنے سرہانے کے پاس تپائی پر رکھے ہوئے گلدان پر پڑتی، جس میں تازہ اور خوب صورت پھول سلیقے اور ہنرمندی سے سجے ہوتے۔ ابھی وہ بستر پر لیٹا اخبار ہی پڑھ رہاہوتا کہ چھوکرا چائے لے کر آجاتا۔ ٹوسٹ نفاست سے کٹے اور سنکے ہوئے، خوش ذائقہ چائے جیسی شادی کے ابتدائی دنوں میں اسے ملاکرتی تھی۔ وہ غسل خانے سے نکل کر ڈریسنگ روم میں جاتا تو اسے نیا جوڑا کیل کانٹے سے لیس ملتا۔ قمیص یا سوٹ کی مناسبت سے نکٹائی اور رومال۔ کفوں میں اسٹڈ لگے ہوئے۔ بوٹ پر پالش کیا ہوا۔ دوپہر کو چپراسی گھر سے کھانا لے کر جاتا تو اس کی من بھاتی سبزیاں ایسی مزے کی پکی ہوتیں کہ زبان چٹخارے لیتی رہ جاتی۔

ایسے موقعوں پر اس کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ نمودار ہوتی اور وہ دل میں کہتا، ’’یہ ساری خاطر داریاں مجھے دوبارہ رام کرنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ لیکن بندہ اب ان چکموں میں نہیں آئے گا۔‘‘ وہ اکثر سرشام گھر سے نکل جاتا، اور رات کے ایک دوبجے سے پہلے شاذ ہی لوٹتا۔ کبھی ساری رات ہی غائب رہتا مگر اس سے کوئی بازپرس نہ کی جاتی۔ نہ اس کی آسائشوں میں کوئی کمی آنے پاتی۔

دھیرے دھیرے اسی طرح تین مہینے گزر گئے۔

ایک دن برسات میں جب ابر چھایا ہوا تھا اور ٹھنڈی متوالی ہوائیں چل رہی تھیں۔ اس نے دفتر میں ایک بڑی رقم کاچیک کاٹ کر چپراسی کو دیا۔ اور بےتابی کے ساتھ وقت کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ پچھلے آٹھ دنوں میں وہ کسی رات بھی گھر سے باہر نہیں گیا تھا۔ کچھ تو دفتر میں شام کو دیر دیر تک بیٹھا رہنا پڑتا تھا۔ کچھ تکان، کچھ سستی، کچھ ایسےہی دل نہ چاہا تھا۔ مگر آج ارادہ تھا کہ ان سب دنوں کی کسر ایک ہی بار نکال دے۔

تھوڑی دیر میں چپراسی خالی ہاتھ لوٹ آیا۔ اس کا چیک لوٹا دیا گیا تھا۔ کیونکہ اس کے حساب میں چند روپے اور آنے پائی کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔وہ اس انجام سے بےخبر نہیں تھا۔ مگر اس کا تو اسے گمان بھی نہ تھا کہ یہ دن اس قدر جلد آجائے گا۔ اس نے سوچا کہیں سے قرض لینا چاہیے۔ چنانچہ جھجکتے جھجکتے ٹیلیفون پر دو ایک بے تکلف دوستوں سے اپنی غرض بیان کی۔ مگر مہینہ ختم ہونےکو تھا۔ ان دنوں اتنا روپیہ کس کے پاس ہوتا!

اچانک اسے یاد آیا کہ اس کے بکس میں ایک سونے کی انگوٹھی پڑی ہے۔ جس میں ایک بیش قیمت نگینہ جڑا ہوا ہے۔ یہ انگوٹھی اس کی بیوی نے اچھے خاصے داموں میں اس کے لیے لی تھی۔ جب اس عورت سے اس کا قلبی رشتہ ہی ٹوٹ چکاہے تو پھر وہ اس کی یادگار کو اپنے پاس کیوں رکھے!شوق کی آگ جو چند لمحے دھیمی پڑگئی تھی۔ یکلخت پھر سلگ اٹھی۔ اس نے سوچا مجھے انگوٹھی لے کر شام سے پہلےپہلے جوہریوں کے ہاں پہنچ جانا چاہیے۔

تیسرے پہر جس وقت وہ بکس سے انگوٹھی نکال کر گھر کے صحن میں سے گزر رہاتھا تو ایک خاتون بنفشی ساری میں ملبوس فضاؤں کو مہکاتی ہوئی اچانک اس کے پاس سے گزر گئی۔ خاتون نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔ مگر اس نے اس کی ایک جھلک دیکھ لی، جو ہر چند بہت مختصر تھی مگر اس کو مبہوت کردینے کے لیے کافی تھی۔

یہ خاتون اس کی وہی مفرور بیوی تھی جس کے متعلق تین مہینے پہلے اسے گمان ہوا تھا کہ قبر میں سے نکل کے آئی ہے۔ دونوں وقت عمدہ عمدہ غذائیں، کھانے، بڑھیا بڑھیا صابن، کریم اور غازے استعمال کرنے سے اس کا رنگ روپ پھر نکل آیا تھا۔ گال پھر بھرے بھرے سے ہوگئے تھے اور آنکھیں زندگی کے نور سے چمکنے لگی تھیں۔ اس کے حسن و شباب کا وہی عالم تھاجس کی جھلک اس نے شادی کی پہلی رات دیکھی تھی۔ فرق تھا تو صرف اس قدر کہ پہلےاس کے چہرے پر معصومیت برستی تھی مگر اب اس کی جگہ ایک لطیف متانت، ایک دلآویز پشیمانی جھلکنے لگی تھی۔

ابھی دن ہی تھا کہ وہ شہر کے اس حصے میں پہنچ گیا۔ جہاں جوہریوں کی دکانیں تھیں۔ اس وقت وہاں لین دین کابازار خوب گرم تھا۔ کوئی دکان ایسی نہ تھی جس میں گاہکوں کا جمگھٹ نہ ہو۔ اسے پہلے کبھی کوئی چیز بیچنے کااتفاق نہیں ہوا تھا۔ وہ دکاندار کے پاس جانے ہی سے ہچکچا رہا تھا۔ یہ بھیڑ دیکھی تو اور بھی گھبراگیا۔ اتنے آدمیوں کی موجودگی میں بھلا انگوٹھی کی بات چیت کیسےکی جاسکتی ہے۔ وہ لوگ نہ جانے کیا خیال کریں گے۔وہ کوئی گھنٹے بھر تک اس بازار میں گھومتا رہا۔ اگر کسی دکان سے دو ایک خریدار چلے جاتے تو دوچار نئے آجاتے۔ اور بھیڑ جوں کی توں رہتی۔آخر ایک جوہری کی دکان میں اسے نسبتاً کم آدمی دکھائی دیے اور وہ ہمت کرکے اس میں گھس گیا۔

’’فرمائیے آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ جوہری نے پوچھا۔

’’میں۔۔۔ میں ذرا بندے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے ماتھے پر سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔

ذرا سی دیر میں جوہری نے بندوں کے ڈبو ں کے ڈھیر لگا دیے۔

’’اس جوڑی کی کیا قیمت ہے؟‘‘ آخر اس نے ایک جوڑی کو پسند کرتے ہوئےپوچھا۔

’’پینسٹھ روپے!‘‘

’’بس یہ ٹھیک ہے۔ لیکن معاف کیجیے۔ میں روپیہ ساتھ لانا بھول گیا۔ آپ انہیں علاحدہ رکھ دیجیے۔ میں کل لے جاؤں گا۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔کوئی بات نہیں۔‘‘ جوہری نے بندوں کے ڈبوں کو سمیٹتے ہوئے سرد مہری سے کہا۔

دکان سے نکل کر اس نے اطمینان کا لمبا سانس لیا۔

اس وقت اچھی خاصی رات ہوگئی تھی۔ اس نےسوچا۔ آ ج تو اس پروگرام کو منسوخ ہی کردینا چاہیے۔ کل میں کسی ملازم کو انگوٹھی دے کر بھیجوں گا۔ یا ممکن ہے کل اس کی نوبت ہی نہ آئے اور کہیں سے روپے کاانتظام ہوجائے۔ ہرچند اسے اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی تھی اور وہ چلتے چلتے تھک بھی گیا تھا۔ مگر وہ افسردہ خاطر نہیں تھا۔ بلکہ اس کی طبیعت میں ایک خاص قسم کی چونچالی تھی۔ یہاں سے بازار حسن قریب ہی تھا۔گھر لوٹتے وقت جی میں آئی۔ لگے ہاتھوں اس کوچے کی سیر بھی کرتے چلیں۔ پاس سے نہیں تو دور ہی سے ذرا رنگ ڈھنگ دیکھ آئیں۔

وہ بازار حسب معمول آج بھی خوب جگمگا رہاتھا۔ بیسوائیں بڑے ٹھسے سے اپنے اپنےبالا خانے کے برآمدے میں ٹہل رہی تھیں۔ اور لوگ تھے کہ پروانوں کی طرح روشنیوں کی طرف امنڈے پڑتے تھے۔ بعض کمروں کے دریچوں سے ہلکی ہلکی نیلی خشک روشنی نکل رہی تھی۔ بعض گھروں سے شور و غل اور قہقہے جن کے بیچ بیچ میں سارنگی کے تار ہلکے سے جھنجھنا اٹھتے تھے۔

وہ سڑک پر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا، ایک ایک مکان کے سامنے سے گزرتا اور مکان والی کا جائزہ لیتا ہوا جا رہا تھا۔ ان میں سے بعض بیسواؤں کو وہ جانتا تھااور بعض کے ہاں اس کاآنا جانابھی تھا مگر آج نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کے قدم بار بار تیز تیز اٹھنے لگتے تھے۔جب وہ اس بازار کے ختم پر پہنچا تو اچانک اسے اپنی بیوی کی یاد آئی اور اس کی بنفشی ساری کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھرنےلگا۔ ذہن غیرارادی طور پر اس کاان عورتوں سےموازنہ کرنےلگا۔

اب تک اس نےجتنی عورتیں دیکھی تھیں، ان کی کیفیت ناٹک کی ہیروئنوں کی سی تھی کہ انہیں جتنی زیادہ دور سے دیکھا جائے، وہ اتنی ہی زیادہ دلفریب معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اس کے برعکس اس کی بیوی کاحسن بعد و قرب کی تفریق سے بے نیاز تھا۔ نہ ان کے خط و خال میں اس کی سی دلکشی تھی اور نہ عادات و اطوار میں وہ نفاست جو ایک متمدن اور تعلیم یافتہ خاتون میں پائی جاتی ہے۔ پھر ان میں سے بعض کو تو سنگھار کرنا بھی نہ آتا تھا۔ کسی نے چہرے پر پوڈر لیپ رکھا تھا تو کسی نے ترچھی مانگ نکال رکھی تھی۔ بالوں میں درجنوں ہیئرپنیں اور کلپ لگے ہوئے تھے۔ جیسے کسی کل میں بہت سے پرزے لگے ہوں۔ یہ سچ تھا کہ بعض صورتیں اچھی بھی تھیں مگر نہ تو انہیں لباس کا کوئی سلیقہ تھا، اور نہ انہوں نے رنگوں کے انتخاب میں کوئی توازن ملحوظ رکھا تھا۔ بس بھڑک ہی بھڑک تھی یا رنگوں کی گہماگہمی۔ بعض تو بالکل گنوارنوں کی طرح زیوروں سے لدی پھندی تھیں۔ سادگی جو آرائش کی جان ہے، اس سے وہ کوسوں دور تھیں۔

وہ گھر کی طرف چلا تو بیوی کی تصویر بدستور اس کے ذہن میں قائم تھی۔ خیال ہی خیال میں شادی کا ابتدائی زمانہ اس کی نظروں میں پھرنےلگا۔ وہ بھی کیسا وقت تھا۔ جب متاہل زندگی کی مسرتیں پہلی مرتبہ اس پر عیاں ہوئیں تھیں اور اس کی روح انتہائے لذت سے کانپ اٹھی تھی۔ وہ راتوں کی طویل گھڑیوں کا آنکھوں ہی آنکھوں میں گذار دینا، وہ عیش و سرخوشی کے دن، وہ کیف و سرمستی کی راتیں، پھر لطف یہ کہ بے حساب عنایات قریب قریب بن داموں تھیں۔۔۔

جوں جوں گھر قریب آتا گیا اس کے قدم آپ تیز سے تیز تر ہوتے چلے گئے۔ آخر جب وہ گھر کے سامنے پہنچا تو ایک استہزا آمیز تبسم اس کے ہونٹوں پر جھلکنے لگا۔ اس نے اپنے د ل میں کہا، ’’یہ سچ سہی کہ میری بیوی باعصمت نہیں۔ لیکن آخر وہ عورت بھی کون سی عفیفہ ہیں جن کے پیچھے میں قلاش ہوگیا اور جن سے ملنے کے لیے میں آج بھی تڑپتا رہا ہوں۔‘‘

وہ اوپر کی منزل میں تن تنہا کھلے آسمان کے نیچے چھپرکٹ پر خوشبوؤں میں بسی ہوئی کچھ سو رہی کچھ جاگ رہی تھی کہ اچانک کھڑکا سن کر چونک اٹھی۔ کان آہٹ پر لگا دیے۔ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی سیڑھیوں پر سہج سہج قدم دھرتا اس کے پاس آ رہا ہو۔

مأخذ : کلیات غلام عباس

مصنف:غلام عباس

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here