وہ مجھے جس کمرے میں بٹھاکر چلی گئی تھی، اس کی کارنس پر ایک تصویر رکھی تھی۔ کارنس پر صرف تصویر ہی نہ تھی ایک پرانا طلائی ٹائم پیس تھا جو پرندوں کے پنجرے کی شکل کا تھا۔ اندر ڈائیل تھا جس پر رومن میں ایک سے بارہ تک کے ہندسے لکھے تھے اور سنہری رنگ کی دو سوئیاں تھیں جو بڑی سست رفتاری سے حرکت کرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ اس پنجرے نما ٹائم پیس کے گرد ایک چھوٹی سنہری چڑیا آہستہ آہستہ دائرے میں چلتی ہوئی دکھائی دیتی۔ جس کے آگے سفید موتی تھے۔ جب وہ آگے بڑھ کر ایک موتی پر اپنی چونچ مارتی تو موتی غائب ہوجاتا اور کڑک کی آوازآتی۔ حتی کہ ساٹھ بار ’’کڑک‘‘ کی آواز آتی اور چڑیا اپنے محور کے گرد اپنا چکر پورا کرکے پھر اپنی اصلی جگہ پر پہنچ جاتی۔ ڈائیل پر بڑی سوئی ایک منٹ اور آگے بڑھ جاتی اور چڑیا اپنا سفر پھر سے شروع کردیتی۔ ’’کڑک، کڑک، کڑک۔‘‘
کارنس کے دوسرے کونے پر ایک چاندی کا گلدان رکھا تھا۔ جس میں مور کے کچھ پنکھ سجے ہوئے تھے جب ہوا کا کوئی بھولا بھٹکا جھونکا کمرے میں آداخل ہوتا تو مور کے پنکھ یوں ہلنے لگتے جیسے جنگل میں مور ناچ اٹھا ہو۔
ان کے علاوہ کچھ کرسمس اور کچھ نئے سال کے گریٹنگ کارڈ رکھے تھے جن پر بھیجنے والوں کی نیک خواہشات چھپی ہوئی تھیں۔
تصویر والا آدمی مجھے برابر گھورے جارہا تھا۔ وہ اندرگئی تھی۔ شاید میرے لیے (اگر گرمی کا موسم ہے تو کچھ ٹھنڈا اور اگر سردی کا موسم ہے تو کوئی گرم) مشروب لینے کے لیے۔ میں وہاں چپ چاپ بیٹھ گیا۔ اور کمرے کی ایک ایک چیز کو دیکھنے لگا۔ سب طرف سے تھک کر نظر پھر اس تصویر آکر رک جاتی اور تصویر والا آدمی پہلے سے زیادہ شدت سے مجھے گھورنے لگتا۔
ایکا ایکی مجھے احساس ہوا کہ تصویر والا یہ آدمی جس کی آنکھیں بڑی بڑی اور چمک دار تھیں، کشادہ پیشانی ذہانت کی غمازی کرتی تھی۔ موٹے موٹے ہونٹ اور ٹھوڑی کا گہرا گڑھا اس کی مضبوط قوتِ ارادی کا ضامن تھا، زندہ نہیں بلکہ مرچکا ہے۔
’’ہاں، تم نے یہ ٹھیک سوچاہے یہ واقعی مرچکا ہے!‘‘
میں نے پلٹ کر آواز کی طرف دیکھا۔ وہ اندر سے ایک ٹرے میں چینی مٹی کے کچھ برتن رکھے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا۔ اور میرے قریب آکر بولی۔
’’یہ میرے خاوند کی تصویر ہے، عرصہ ہوا اس کی موت ہوچکی ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’عجیب بات ہے، تصویر دیکھنے سے میں کیونکر اندازہ لگا لیتا ہوں کہ آدمی مردہ ہے یا زندہ! یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ زندگی میں اس سے پہلے بھی اس قسم کے دو ایک واقعات میرے ساتھ پیش آچکے ہیں۔‘‘
وہ ہنسی اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹرے اس نے میرے سامنے پڑی میز پر رکھ دی۔ پھر پلٹ کر اندر جاتے ہوئے کہنے لگی، ’’خیال رکھنا یہاں سے رہائی مشکل ہے۔ یہ ساتواں آسمان ہے اور خلاء میں لڑھک گئے تو کہیں کے نہ رہو گے!‘‘
میں دم بخود سا اسے اندر جاتے دیکھتا رہا۔ اس نےدروازے کا پردہ اپنے دائیں ہاتھ سےاٹھایا اور پھر اس کے اندر داخل ہوگئی۔
کچھ دیر تو میں ادھر ادھر تاک جھانک کرتا رہا۔ پھر میں اپنے آگے رکھےکھانے کے برتنوں کی طرف متوجہ ہوا۔ ایک تو مجھے یہ خواہش تھی کہ خوردونوش کے سامان سے یہ پتہ چل جائے گاکہ موسم کون سا چل رہا ہے۔
مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب میں نے دیکھا کہ میرے آگے رکھے ہوئے تمام برتن بالکل خالی ہیں۔ میں جھنجھلاکر رہ گیا۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ میں صورتِ حال سے واقف بھی نہیں کروایا جارہا ہوں۔ اور یہ کہہ کر یہاں بٹھا دیا گیا ہوں کہ ’’یہ ساتواں آسمان ہے اور باہر بالکل خلا ہے!‘‘
میں نے چاہا کہ اس کانام لے کر پکاروں مگر مجھے تو اس کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ آواز میرے حلق تک آکر رک گئی۔ میں بے بسی کے عالم میں اپنی سیٹ پر سےاٹھ کھڑا ہوا۔ اچانک میری نظر پھر کارنس پر رکھی تصویر پر پڑی۔ تصویر والا مرا ہواآدمی اب ہلکا سامسکرا رہا تھا۔
میری جھلاہٹ اور بڑھی اور میں غیرارادی طور پر پکار اٹھا، ’’اے بے نام عورت!‘‘
جواب میں اندر سے اس کے قہقہوں کی آواز سنائی دی۔ اور پھر لوری گانےکی آواز جیسے وہ کسی بچےکو سلانے کی کوشش کر رہی ہو۔
کمرے کی دونوں دیواریں جس کونےمیں ملتی تھیں اس جوڑ میں شہد کی مکھیوں کاایک چھوٹا ساچھتہ تھا۔ دو تین شہد کی مکھیاں اس پر بھنبھنا رہی تھیں۔ اس قدر خاموشی تھی کہ ان کی بھنبھناہٹ بڑی واضح طور پر سنائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر تک میں ان کا بھنبھنانا سنتا رہا اور ان کی پرواز کاتماشا دیکھتا رہا۔
اندر سےآنےوالی لوری کی آواز آہستہ آہستہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ میں دب گئی۔ خالی برتن میری طرف بٹر بٹر دیکھتے ہوئے محسوس ہونےلگے۔ میں نے سوچا اندر جاکر خود ہی بات کرلیتا ہوں۔ ان تکلفات میں تو زندگی اجیرن ہوجائے گی۔
میں نےآگے بڑھ کر پردہ ایک طرف سرکایا تو دیکھا کہ وہ ایک سونے کاکمرہ تھا۔ سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک بڑا سا پلنگ لگا ہوا تھا اور باقی دیواروں کے ساتھ بچوں کے چھوٹے چھوٹے پالنے رکھے تھے۔ ہرپالنےمیں بچے سو رہے تھے جن کے صرف چہرے ہی دکھائی دیتے تھے۔ باقی جسم ڈھانپ رکھے تھے۔
میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان پالنوں کے پاس گیا۔ وہ تعداد میں پانچ تھے، اور پانچوں میں ایک ہی شکل اور عمر کے بچے سوار تھے۔ بچے بڑے پیارے اورخوبصورت تھے۔ میرے دل میں ان کے لیے اچانک پیار نے انگڑائی لی اور میں نے اپنا سر جھکاکر ایک بچے کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ مگر میں جھٹ پیچھے ہٹ گیا کیونکہ وہ اصلی بچہ نہ تھا بلکہ مٹی کا بنا ہوا بچے کا مجسمہ تھا۔ پھر میں نے دوسرے پالنوں کی طرف دھیان دیا، وہاں بھی مٹی کے مجسمے تھے۔
’’سوتے ہوئے بچے کو پیار نہیں کرتے،‘‘ ایک طرف سے اس عورت کی آواز آئی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ سامنےایک دروازے میں کھڑی تھی۔ دایاں ہاتھ دروازے کی چوکھٹ سے ٹکارکھا تھا۔ ساڑی کس کر لپیٹی ہوئی تھی۔ اور اسکا پلو نیفے میں اڑس رکھا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ راکھ سے سنےہوئے تھے، جیسے وہ برتن مانجھتے مانجھتے یہاں آکر کھڑی ہوگئی ہو۔
میں نے اس کے قریب پہنچ کر اسے اطلاع دینے کے سے انداز میں کہا، ’’وہ برتن جو تم رکھ آئی تھیں۔ بالکل خالی ہیں!‘‘
اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اندر جاتے ہوئے جواب دیا، ’’ابھی انھیں بھی صاف کردیتی ہوں!‘‘
میں نے ذرا بلند آواز میں پھر کہا، ’’سنو تو یہ بچے نہیں مٹی کے مجسمےہیں۔‘‘
اس نے بدستور جاتےہوئے جواب دیا، ’’مجھے معلوم ہے۔ میں نے انھیں خود سلایا تھا۔‘‘
وہ اندر چلی گئی، اور میں کافی دیر تک وہاں کھڑا خلا میں گھورتا رہا۔ پھر لوٹ کراسی کمرے میں آگیا جس میں پہلے تھا۔ اب وہاں برتن بھی موجود نہ تھے۔
میں دھم سے صوفے پرآکر گرا، اور اپنے ہاتھ ملتا ہواکافی دیر تک بیٹھارہا۔ مجھے وقت کا بالکل اندازہ نہ ہوا تھا کہ کب تک بے مقصد بیٹھا بور ہوتا رہا۔ پھر وہ اندر والے کمرے سے نکل کر میرے پاس آئی اور کہنے لگی، ’’آؤ چلیں کافی مدت ہوگئی ہے۔‘‘
میں نے سر اٹھاکر نیند میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے دیکھا، وہ اپنا لباس تبدیل کرکے اور خوب بناؤ سنگار کرکے آئی تھی۔ اس کے چہرے پر میرے لیے محبت اور مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
میں اٹھ کراس کی طرف بڑھا۔ پھر اچانک پلٹ کر دیکھا۔ تصویر والا مرا ہواآدمی ہم دونوں کو بڑے غور سےدیکھ رہاتھا اور اس کی پیشانی پر کچھ شکنیں ابھر آئی تھیں۔ میں ذرا ٹھٹکا۔
میرے ٹھٹکنے سےاس نے بھی پلٹ کر تصویر کی طرف دیکھا اور بولی، ’’کیا تم میرے مرد سے ملنا چاہتے ہو؟‘‘
’’مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تو مرچکاہے،‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’پھر کیاہوا۔۔۔!‘‘ اس نے جواب دیا۔ اور میری کلائی اپنے ہاتھ میں تھام کر مجھے باہر لے گئی۔ مکان کا برآمدہ عبور کرکے ہم گلی میں آگئے۔ سب گھروں میں خاموشی تھی اور مکمل اندھیرا۔آہستہ آہستہ گلی میں چلتے ہوئے ہم بڑی سڑک پر پہنچ گئے۔
’’تم نے کہا تھا نہ کہ یہ ساتواں آسمان ہے!‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ہاں!‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔
’’مگر یہ تو شہر ہے اور یہاں مکان ہیں، اور سڑکیں ہیں اور سڑکوں کے کنارے بجلی کے کھمبے لگے ہوئے ہیں، اور ان پر قمقے روشن ہیں جو ہمیں تاریکی میں راستہ سجھاتے ہیں!‘‘
اس نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہنے لگی، ’’بدھو کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ آسمان کوئی چیز نہیں ہوتی صرف خلا ہوتا ہے۔ اور ہم اسے اپنی سہولت کے مطابق نام اور نمبر دے دیتے ہیں۔‘‘
میں بہت پشیمان ہوا کہ میں زندگی بھر سہولت کے مطابق کسی چیز کو اپنی طرف سے نام نہ دےسکا۔
وہ پھر بولی، ’’ہمارے کچھ سماجی مسائل ہیں۔ تمھیں ان کا علم ہے۔‘‘
’’نہیں!‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’میں ان سے واقف نہیں ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میں ایک لمبےسفر پر تھا۔ پھر میں پلٹ کر گھر آیا اور اپنی ذات کی چار دیواری میں قید ہوگیا۔ مجھے باہر کی کوئی بھنک نہیں پڑی۔ایک دن نہ جانے کیسے پتہ چلا کہ ویت نام میں جنگ ہو رہی ہے۔ میں بہت پریشان ہوا۔ پھر میں نے نقشےپر دیکھا۔ ویت نام کہاں ہے؟ اور جب ویتنام مجھے نقشے پر مل گیا تو میں اس کی تلاش میں نکل پڑا۔ سمندر کے کنارے چلتا چلتا میں ایک دلدلی خطہ زمین تک پہنچ گیا۔ ایک چھوٹے سے بچے سے جو ایک پیڑ پر بیٹھا چاقو سےٹہنی کاٹ کر غلیل بنارہا تھا، میں نے پوچھا کیا تم جانتے ہو، ویتنام کہاں ہے؟
اس نے اپنی پھٹی ہوئی قمیض کی جیب میں ہاتھ ڈالااور اس میں سے ایک چھوٹا ساکنکر نکال کر میری طرف اچھال دیا۔ کنکرمیرے ماتھے پر لگا۔ مجھے چوٹ لگی اور خون بہنے لگا۔ میں نے اپنی پیشانی کو اپنےہاتھ کی انگلیوں سے سہلایا تو میری انگلیاں خون سے لتھڑ گئیں۔ اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور پھر مجھ سے پکار کر پوچھا، ’’پتہ چل گیا ویت نام کہاں ہے؟‘‘
پھر وہ درخت سے اترا اور دھیرے دھیرے بھاگتا ہوانظروں سے اوجھل ہوگیا۔ میرے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا اور پیر دلدل میں دھنسےہوئے تھے۔‘‘
وہ کافی دیر تک میرے چہرے پر دیکھتی رہی۔ پھر بولی، ’’بھوکے معلوم ہوتے ہو۔ آؤ ریستوران سے کچھ کھالیں!‘‘
میں اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ ریستوران پاس ہی تھا۔ ہم دونوں اس میں چلے گئے۔
کافی بڑا ہال تھا۔ کرسیوں اور میزوں کی دوقطاریں لگی ہوئی تھیں۔ درمیان میں آنے جانے کے لیے کشادہ راستہ تھا جس پر کارپٹ بجھاہوا تھا۔ اس پر کئی قسم کے جانور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کچن کی طرف جارہے تھے۔ وہ کہنےلگی۔
’’ان میں سے اپنی پسند کا جانور چن لواوراس پر نشان لگاکر اپنی ٹیبل نمبر لکھ دو، وہ اندر جاکر ذبح ہوکر اور پک کر آجائے گا۔‘‘
’’مجھے تو سبھی جانور پسند ہیں۔ نشان دہی والاکام تم کرو۔ مجھے بس بھوک لگی ہے!‘‘ میں نے جواب دیا۔
پھر معلوم نہیں اس نے کیسے کیا کیا کہ بھنے ہوئے گوشت کی کئی رکابیاں ہمارے سامنے سج گئیں۔ اور ہم دونوں اُن پر ٹوٹ پڑے۔
’’ہاں تو میں تمہیں بتارہی تھی تاکہ ہمارے کئی سماجی مسائل ہیں۔‘‘ اس نے نیپکن سے اپنے ہاتھ اور منہ پونچھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! تم نے بتایا تھا،‘‘ میں نے ایک بڑی سی ہڈی خالی پلیٹ میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیا تمھیں کبھی کسی سماجی مسئلے سے دوچار ہونا پڑا ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’شاید! مگر اب مجھے اچھی طرح یادنہیں،‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تو ابھی تم ایک مسئلے سے نپٹنے کے لیے تیار ہوجاؤ،‘‘ اس نےمسکراتے ہوئے شرارت سے کہا۔
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
جواب میں اس نے میز پر چمچ بجاکر بیرے کو بلایا اور کہا، ’’بل لاؤ!‘‘
تھوڑی بیر بعد مؤدب طریقے سے بیرا میرے پاس کھڑا ہوگیا۔ ایک چھوٹی سی طشتری میں اس نے کاغذ کا ایک پرزہ بھی تھام رکھاتھا اور اس کا جھکاؤ میری طرف تھا۔
میں گڑبڑاسا گیا۔ میں نے گردن آگے بڑھاکر اس کے کان میں آہستہ سے کہا، ’’تم جانتی ہو، جانور سرجھکائے اداس اپنے آپ اندر جارہے تھے۔ تم نے انھیں منتخب کیا اور وہ ذبح ہوکر اور پک کر ہماری میز پرآگئے۔ اس میں میرا کیا قصور ہے؟ اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جب میں تمہارے ساتھ چلا تھا تو میرے رشتہ داروں نے میری تمام جیبیں خالی کروالی تھیں!‘‘
وہ آہستہ سے ہنسی اور پھر اس نے اپنی وینٹی بیگ کھول کر اس میں سے کئی نوٹ نکالے اور بیرے کی طشتری میں ڈال دیے۔
باہر نکلے تو رات کافی گہری ہوچکی تھی۔ سڑکوں پر قمقمے اپنی پوری آب و تاب سے روشن تھے۔ ہم دونوں آہستہ آہستہ چلے جارہےتھے۔ ہمارےارد گرد جو لوگ آجارہے تھے ان کے چہرے واضح طور پر دکھائی نہیں دےرہے تھے۔
کچھ دور جاکر اس نے کہا، ’’ہاں تو میں نے کہا تھا نا کہ ہمارے کچھ سماجی مسائل ہیں!‘‘
’’ہاں۔ تم نے کہا تھا!‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تو یہ چابی لواور گھر جاؤ، میں صبح آجاؤں گی۔۔۔ اور ہاں ذرا بچوں کاخیال رکھنا۔ ایسا نہ ہو کہ بیچارے بھوک سے بلک بلک کر ہلکان ہوجائیں۔ اس نے چابیوں کاگچھامیرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
’’مگر تم کہاں جارہی ہو؟‘‘ میں نے چابی ہاتھ میں لے کر اور تمام ہدائتیں سمجھتے ہوئے پوچھا۔
’’او، ہو تم سمجھتے کیوں نہیں۔ یہ سماجی مسائل ہیں۔ اور ہم انھیں نظرانداز نہیں کرسکتے،‘‘ اس نےکہا اور تیزی سے ایک طرف چل دی۔
میں کچھ دیر تو وہیں سڑک کے بیچ میں کھڑا رہا، پھر سرجھکائے کچھ مغموم ساگھر کی طرف چل دیا۔
گھر پہنچ کر بھی یہ سوچلنےلگا کہ یہاں اکیلا کیسے پہنچ گیا؟
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور اسی کمرے میں جا کر بیٹھ گیا۔ تصویر والے مرے ہوئے آدمی نےمجھے مسکراکر دیکھا۔ چاندی کے گلدان میں مور کے پنکھ ناچے اور سونےکی ننھی چڑیحا نے ۴۵ویں موتی پر جھپٹا مارا۔
میں گم سم ان سب کو دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد اندر والے کمرے سے بچوں کے رونے کی آوازآئی۔ میں اٹھ کر اندر گیا۔ پانچوں بچے ننھی ننھی بانہیں ہلاتے ہوئے رو رہے تھے اور دودھ کے لیے ان کی زبانیں ہونٹوں تک آکر پھر اندر منہ میں چلی جاتی تھیں۔
میں بہت پریشان ہوا۔ انھیں چپ کرانے کے لیے میں نے وہی لوری گائی جو وہ بے نام عورت گایا کرتی تھی مگر وہ پھر بھی چپ نہ ہوئے۔ آخر ہارکرمیں نے اپنی قمیص کا پلو پتلون میں سے باہر نکالااور اوپر اٹھاکر چھاتی ننگی کرکے ان کے پالنوں کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ باری باری اٹھ اٹھ کر میری چھاتیوں سے دودھ پیتے رہے اور پھر سوگئے۔
صبح سویرے، منہ اندھرے وہ واپس آگئی۔ میں پالنوں کے پاس ہی فرش پر سویا ہوا تھا۔ اس نے مجھے اٹھایا اور پھر پاس ہی بچھے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ میں نے دیکھااس کے بال بے ترتیب ہو رہے تھے اور چہرے کے سنگار کا رنگ فق تھا۔
اس نے اپنے وینٹی بیگ میں سے وہ تمام نوٹ نکال کر گننے شروع کیے جو اس نے رات ریستوان میں بل چکانے کے لیے دیے تھے۔
وہ کافی تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ اس نے مجھ سے سگریٹ طلب کیا۔ میں نے سگریٹ نکال کر دیا۔ اور پھر ماچس جلاکر اسکا سگریٹ سلگواتے ہوے پوچھا۔
’’سماجی مسائل کیا حل ہوگئے؟‘‘
’’نہیں ابھی نہیں!‘‘ اس نے جواب دیا۔آؤ دوسرے کمرے میں چل کر اطمینان سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔‘‘
میں اٹھ کر اس کے پیچھے چل دیا اور ہم دوسرے کمرے میں پہنچ گئے۔
’’تم ذرا غور سے اب اس تصویر کو دیکھو اور بتاؤ کہ کیا واسعی میرا مرد مرچکا ہے،‘‘ اس نے اپنے خاوند کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
میں نے اس مرے ہوئے آدمی کی تصویر کی طرف غور سے دیکھا تو میری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ کارنس پر جو تصویر رکھی تھی۔ وہ میری ہی تھی۔ میں دم بخود کبھی اسے اور کبھی اس تصویر کو دیکھ رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
’’کڑک۔۔۔ کڑک۔۔۔ کڑک،‘‘ چڑیا بدستور موتی چگ رہی تھی۔
بتاؤنا! یہ آدمی مرا ہوا ہے یا زندہ؟ اس نے مجھ سے پھر سوال کیا اور سگریٹ کا دھواں میرے چہرے پر بکھیر دیا۔
میں عجیب جھنجھلاہٹ میں تھا۔ کوئی جواب بن نہیں پڑ رہا تھا۔ آخر نہ جانے کیسے میرے منہ سےآپ ہی آپ نکل گیا۔
’’یہ آدمی مرچکاہے!‘‘
اس نے میرا جواب سنا اور کھلکھلاکر ہنسی ہوئی دوسرے کمرے میں بھاگ گئی جہاں اب بچوں نے جاگ کر رونا شروع کردیا تھا۔
مصنف:سریندر پرکاش