کہانی کی کہانی:’’ایک تانگے والے کی کہانی جو، اپنی بیوی کو گوٹے کا دوپٹہ تو نہیں دلا سکا لیکن عید کے دن اپنی پسند کا ایک گھوڑا خرید لیا۔ اس کی بیوی مر گئی اور وہ اپنے گھوڑے کے ساتھ تنہا رہنے لگا۔ وہ اپنے گھوڑے سے بہت محبت کرتا تھا اور اس کا پورا خیال رکھتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کی حالت خستہ ہوتی گئی اور وہ مفلوک الحال ہو گیا۔ اپنے دل کا حال وہ گھوڑے کو سناتا اور گھوڑا بھی یہ ظاہر کرتا کہ اسے اپنے مالک کا حال معلوم ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسے قرض کی قسط دینے کے لیے گھوڑے کے ساتھ ساتھ خود بھی فاقہ کرنا پڑا۔‘‘
شاہ محمد کے تکیے کا ایک حصّہ کاٹ کر اصطبل بنالیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ جبراً ہوا۔ آخر رمضان کی چھاتی بھی تو چوڑی تھی اور اس دیوہیکل جوان کو دیکھ کر سب کے حوصلے جواب دے جاتے تھے۔ پھر جبر کا یہ قصّہ اور بھی طویل ہوگیا۔ کبوتروں کے دڑبے سے لے کر مزار تک لید بکھری رہتی تھی۔ لید بکھیرے رمضانؔ کا گھوڑا اور اُٹھائے مصلی۔ جس کسی کی ناک میں بدبو آتی وہ لید اُٹھا دیتا۔ رمضان کو تو گھوڑے سے سروکار تھا۔ البتہ گھوڑے کے تھان کو وہ شیشے کی طرح چمکاکر رکھتا تھا۔
کمیٹی میں شاید کسی کی شنوائی نہ ہوسکتی تھی۔ رمضان اپنے تانگے پر داروغہ کو دریا کی سیر مفت کرا لاتا تھا۔ داروغہ کہتا، ’’ہمارے راج میں رمضان کو سب چُھٹّی ہے۔‘‘ رمضان سمجھتا، داروغہ کا راج اٹل ہے۔ اس کی آنکھوں میں اصطبل پھرجاتا۔ تصوّر میں گھوڑے کا تھان اور بھی چمک اُٹھتا۔ محبت کے ایک نئے انداز سے وہ گھوڑے کی طرف دیکھتا اور سوچتا کہ داروغہ کو شاید یہ حرکت اچھی نہ لگے۔ ورنہ وہ تانگے سے اُتر کر گھوڑے کی آنکھوں میں جھانکتا اور اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیتا۔
گھوڑے کا نام تھا عیدو۔ آدمی کے کھلنڈرے بچّے کی طرح اُسے کلیلیں کرتے دیکھ کر رمضان کو یقین ہوگیا تھا کہ بڑا ہوکر یہ ابلق بچھیرا ایک خوبصورت اور ہوشیار گھوڑا نکلے گا۔ اور جب وہ عید کے دن اُسے خرید لایا تھا تو دیر تک وہ اُس کے دانتوں کا ملاحظہ کرتا رہا تھا۔ آخر وہ چار پشت سے کوچوان تھا اور گھوڑوں کے متعلق اُس کی واقفیت گویا مسلّمہ تھی۔ عیدو کو نہلاتے وقت رمضان کے ہاتھ اس کی کالی مخملی پُشت پر پھسلتے چلے جاتے۔ اُس کے سفید ہاتھ پَیر وہ مَل مَل کر دھوتا اور پھر اُس کا مُنہ کھول کر دیکھتا کہ دودھ کے دانت ابھی کتنے باقی ہیں۔ اور عیدو اپنی تھوتھنی رمضان کے سینے پر تھپ تھپانے لگتا۔ جیسے کہہ رہا ہو، ’’ابھی سے مجھے تانگے میں جوتنے کی بات مت سوچو! رمضان میاں۔ ابھی تو کھیلنے مچلنے کے دِن ہیں میرے۔ پانچ سال کی عمر سے پہلے مجھے اپنے تانگے میں نہ جوتنا۔ پھر دیکھنا، میرے پھیپھڑے کتنے مضبوط ہوجاتے ہیں اور میں کتنا بھاگتا ہوں۔‘‘ رمضان کہتا، ’’اب نہاؤگے بھی آرام سے یا یوں ہی مفت کی شرارت کیے جاؤگے عیدو بیٹا؟‘‘ مگر عیدو نہ مانتا اور رمضان اپنی مُشکی دُلہن کو پُکارکر کہتا، ’’اری اب اِدھر آدیکھ، سمجھا دے اِسے ذرا۔ پر تو نے ہی تو اِسے سر چڑھا رکھا ہے، اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر پھیر کر۔‘‘
مُشکی دُلہن قریب آکرکہتی، ’’تم ہٹ جاؤ، میں خود نہلاؤں گی۔ اپنے بیٹے کو، تمھیں تو مزا آتا ہے اس بیچارے کی شکایتیں کرنے میں۔‘‘
اور رمضان کہتا، ’’لے سنبھال اپنے بیٹے کو۔‘‘
اپنے مختلف بے ڈھنگے طریقوں سے عیدو اپنی محبت کا اظہار کرنے کی اہلیت رکھتاتھا۔ پچھاڑی کو وہ عجیب انداز سے اُچھالتا تھا اور رمضان کو دیکھ کر ہنہنانے لگتاتھا۔ اور رمضان کہتا، ’’بس ٹھہر جا بیٹا! ابھی آیا۔ تیرے لیے بہت اچھا مسالا منگوایا ہے۔ کھائے گا تو خوش ہوجائے گا۔‘‘ لیکن عیدو اتنی آسانی سے ماننے والا نہ تھا، لگاتار ہنہنائے جاتا۔ جیسے کہہ رہا ہو، ’’دُور مت جاؤ، رمضان میاں۔ مسالا تو پھر بھی آسکتا ہے۔ بس میں تمھیں دیکھتا رہوں، تمھاری باتیں سنتا رہوں۔‘‘ رمضان کہتا، ’’ارے بیٹا! بے صبر نہیں ہوا کرتے۔ ذراسی دیر میں لَوٹ آؤں گابس۔‘‘ عیدو ہنہنانا چھوڑ دیتا۔ مگر آزردہ سا ہوجاتا اور پھر یوں معلوم ہوتا کہ وہ ابھی چٹخ کر کہہ دے گا، ’’اچھا ہو آؤ باہردیرمت لگانا۔‘‘ اور عیدو کی خوبصورت تھوتھنی زمین کی طرف جُھک جاتی۔
گزشتہ سال سے رمضان رنڈوے کی زندگی گزار رہا تھا۔ بیوی بچاری گوٹے کے دوپٹے تک کے لیے ترستی رہی تھی۔ زمانے کے گرم و سرد نے رمضان کو بہت ستایاتھا۔ سائیں جی کا اُدھار الگ بڑھ گیا تھا۔ کہاں سے لے دیتا گوٹے کا دوپٹہ اپنی مُشکی دُلہن کو؟ لے دے کر اب وہ عیدو ہی سے جی بہلالیتا تھا۔ اس سمجھدار، ہمدرد عیدو کی بجائے اُس کے پاس وہی پہلا مریل گھوڑا ہوتا تو اس کی زندگی ایک خاموش گرم دوپہر بنی رہتی۔
اصطبل میں بیٹھے بیٹھے اکثر رمضان کی آنکھیں مِچ جاتیں، جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ اُس وقت اُسے محسوس ہوتا کہ عیدو کی آنکھیں بھی مِچ گئی ہیں اور وہ دونوں بیک وقت مُشکی دُلہن کو دیکھ رہے ہیں۔ عیدو کے گلے میں باہیں ڈال کر وہ پوچھتا، ’’سچ سچ بتاؤ عیدو بیٹا تمھیں مُشکی دُلہن تو یاد آتی ہوگی، جو ہر روزصبح تمھیں نہاری کھلایا کرتی تھی۔‘‘
سات سال کے لمبے عرصے میں مُشکی دُلہن کے کوئی بچّہ نہ ہوا۔ بانجھ ہی وہ زمین کے نیچے قبر میں جا سوئی۔ کسی کسی رات رمضان کو یوں محسوس ہوتا کہ اس کی گردن پر کسی بچّے کی غیرمرئی اُنگلیاں رینگ رہی ہیں، جیسے قبر میں مُشکی دُلہن کی کوکھ ہری ہوگئی ہو اور اللہ کی رحمت سے اس کا بچّہ اپنے باپ کے اصطبل میں آن پہنچا ہو اور وہ سوچتا کہ یہ سب عیدو کی دُعاؤں کا نتیجہ ہے۔ آگے بڑھ کر اس کے خواب میں اور بھی دلچسپ منظر پیش نظر ہوتا۔ وہ دیکھتا کہ اس کا بچّہ اکیلا نہیں ہے۔ شہر بھر کے بچّے کِل بِل کرتے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکرارہے ہیں اور عیدو ہنہنا رہا ہے، جیسے کہہ رہا ہو، ’’رمضان میاں دیکھو تو یہ نظّارہ اور بتاؤ کہ ان سب میں خوبصورت بچھیرا کون سا ہے؟‘‘
یہ سب خواب اس کے سوئے ہوئے ساگر کی لہروں کو جگا دیتے تھے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ رمضان پہلوان ہے اور کچھ جھوٹ بھی نہ تھا۔ مگر یہ بھی تو سچ تھا کہ بیوی کی موت کے بعد اس کی رُوح نے ایک تھرتھر کن 59 پنی کا رُوپ دھار لیا تھا۔ جس طرح یہ پرندہ جنگل میں بیٹھا یُونہی کانپتا رہتا ہے۔ اس کی رُوح بھی مُشکی دُلہن کی یاد میں لرزتی رہتی تھی۔
’’آٹھ سیر تو گیہوں کا آٹا ہے، عیدو بیٹا!‘‘ رمضان اپنی تنگدستی کی کہانی چھیڑ دیتا، جیسے حیوان کا بیٹا انسان کے غم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔‘‘ ایک دن تو ساڑھے پانچ سیر تک ہوگیا تھا آٹا، عیدوؔ بیٹا! یہ تو سرکار کو رحم آگیا کہ آٹھ سیر روپے کا بھاؤ ٹھہرا دیا۔‘‘ اور عیدو اپنی خوبصورت تھوتھنی اُوپر اُٹھاکر رمضان کی طرف دیکھتا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’گھبراؤ مت، رمضان میاں، آٹا پھر آجائے گا اپنے پہلے بھاؤ پر۔۔۔ روپے کا پندرہ سیر۔‘‘ لیکن رمضان سر جُھکاکر بیٹھ جاتا۔ اُسے یوں محسوس ہوتا کہ کوئی مکڑی اس کے دماغ میں اپنا جالا تن رہی ہے۔ عیدو ہنہناتا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’واہ! رمضانؔ میاں خوب پہلوان ہو تم بھی۔ ارے میاں حوصلہ رکھو، یہ تکلیفیں ہمیشہ تو نہیں رہتیں۔‘‘ رمضان کا سر اُوپر اُٹھ جاتا۔ عیدو اپنی پچھاڑی اُچھالتا اور رمضان کی طرف دیکھنے لگتا۔ جیسے کہہ رہا ہو، ’’مجھے نہاری بھی تو نہیں ملتی رہی، رمضان میاں، لیکن کچھ پروا نہیں۔ میں تمھارے لیے سوسو میل بھاگوں گا، خون پسینہ ایک کردوں گا۔‘‘ اور عیدو بہت بھاگتا اور خون پسینہ ایک کردیتا۔ لیکن رمضان کی آمدنی جسے وہ ہوائی رزق سمجھتا آیاتھا، ان دِنوں بہت گِر گئی تھی۔ تانگے کا ساز بہت پُرانا تھا۔ نئے ربر ٹائروں کی اب کوئی اُمید نہ تھی۔ ان کی قیمت بہت بڑھ گئی تھی۔ زمانہ بدل گیا تھا، جیسے رات ہی رات میں موسم بدل جائے اور سائیں جی کی قسطوں کی فکر اُس کے دماغ کو چھلنی کیے دیتی تھی۔
عیدو کا کُملایا ہوا چہرہ دیکھ کر رمضان اپنے کو مجرم گرداننے لگتا۔ کہاں وہ اُسے روزانہ ڈیڑھ من ہرا چارا اور چار سیر دانہ کھِلایا کرتا تھا۔ لیکن اب تو ان کی قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں۔ پندرہ آنے کا ہرا چارا آتا تھا اور آٹھ آنے کا دانہ اور رمضان اُسے پوری خوراک تو دُور رہی آدھی خوراک بھی نہ دے پاتا تھا۔ اُسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی اور اب اُسے یوں محسوس ہوتا کہ اس کے دماغ میں عیدو کی آخری لید داخل ہورہی ہے اور اس کے پیشاب کی دھار بھی ضرور اُسی کے دماغ پر گرے گی۔ بے غیرت آدمی۔ بھوکے گھوڑے سے کام لیے جاتا ہے، جسے وہ اپنا زرخرید غلام سمجھتا ہے۔
بھُوک بہت ستاتی، تو رمضان کو اپنے پیٹ میں ایک آتش گیر لاوا پیدا ہوتا محسوس ہوتا اور وہ سوچتا کہ عیدو کے پیٹ میں بھی لاوا بھڑک اُٹھے گا، وہ تانگے کو روک لیتا، لیکن یہ کوئی علاج تھوڑی تھا اور غضب خداکا، فاقہ زدہ لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے بھی اُسے یہ محسوس ہوتا کہ یہ لوگ اُسے گھور رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں، ’’کمبخت! خود تو مرے گا ہی بھوک سے پر غریب گھوڑے کو بھی کیوں مارتا ہے اپنے ساتھ۔ اِسے بیچ کیوں نہیں دیتا؟‘‘
لیکن عیدو کو بیچنے کا خیال رمضان کو سرے سے نامنظور تھا۔ وہ بہت اُداس رہتا۔ غسل تو غسل کئی کئی دن وہ مُنہ تک نہ دھوتا۔ حتّٰی کہ اُسے محسوس ہونے لگا کہ اُس کے میلے جسم کی نچلی تہوں میں بھی دُنیا بھر کی غلاظت بھرتی جاتی ہے۔ اس کی خاکی قمیص اور صافے پر کیچڑ کا رنگ چڑھ گیا تھا۔۔۔ شاید اُس کی رُوح پر بھی۔
بھوک اور غلاظت میں کھوئے ہوئے سے رمضان نے محسوس کیا کہ جنگ کی خبریں ایک مقناطیسی قوّت رکھتی ہیں، جس کے سامنے اس کے رگ و ریشے لوہ چون کے ذرّوں کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔
’’جانتے ہو جرمن والا کیا کہتا ہے عیدو؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
عیدو خاموش رہا اور رمضان بولا، ’’جرمن والا کہتا ہے کہ روس والا اس کا سِکّہ مانے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد عیدو نے سر ہلایا اور تھوتھنی گھما کر رمضان کی آنکھوں میں تکنے لگا۔ جیسے کہہ رہا ہو، ’’یہ کوئی نئی خبر نہیں ہے رمضان میاں، شہر کے چوتھے دروازے کے باہر ریڈیو کے حلق سے میں بھی جنگ کی گرماگرم خبریں سُن لیتا ہوں۔‘‘
جنگ کی تباہ کاریوں کی خبریں سُنتے ہوئے رمضان کو اپنی تکلیفیں بے حقیقت اور ہیچ نظر آنے لگتیں۔ اصطبل میں بیٹھ کر حقّے کا کش لگاتے ہوئے وہ سوچتا کہ جرمنی ایک بہت بڑا تانگہ ہے جس پر سوار ہوکر ہٹلر روس میں سے گزرنا چاہتا ہے۔ لیکن جب ایک دن کسی سواری کی زبانی اُسے پتہ چلا کہ روسی کسان، مزدور، دو ہزار میل لمبی دیوار بناکر ہٹلر کا راستہ روکے کھڑے ہیں اور ہٹلر سارا زور لگاکر بھی اب اس انسانی دیوار کو توڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتا تو اُسے بہت خوشی ہوئی اور اصطبل میں پہنچ کر وہ ہنکار اُٹھا!، ’’روس کی سڑک پر ہٹلر کے تانگے کے نئے ربر ٹائر بھی کام نہ دیں گے‘‘ اور عیدو ہنہنایا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’میرے لیے تمھاری کوئی بھی خبر نئی نہیں ہوسکتی رمضان میاں!‘‘
رمضان سوچتا کہ ہٹلر کی ہار ہوجائے تو یہ جنگ ختم ہوجائے۔ یہ رائے اُس نے سواریوں کی باتیں سُن سُن کر بنائی تھی۔ جنگ نے ہر چیز کے دام چڑھا دیے تھے۔ سینکڑوں ہزاروں میل دُور لڑی جانے والی جنگ کے بھیانک پنجے ابھی سے غریبوں کے مُنہ سے روٹی چھین رہے تھے۔ اُسے عیدو کی دُھندلی دُھندلی آنکھوں میں غم اور خوف گلے ملتے دکھائی دیتے، جیسے وہ جنگ میں مرنے والوں کی چیخ پُکار سُن رہا ہو۔۔۔ ایک لحظہ بہ لحظہ بڑھتی ہوئی پُکار، جیسے ایک عجیب لیکن شدید ڈر اُس کی رُوح کو اپنی آہنی مٹھی میں دبا رہا ہو۔
خارپشت کے کانٹوں کی طرح لٹکتے ہوئے سر کے لمبے بالوں میں شاید رمضان نے کبھی انگلیوں سے بھی کنگھی نہ کی تھی۔ اُس کی چھاتی کا ماپ بھی اب گھٹ چلاتھا۔ لیکن مصلّی کو یہ حسبِ معمول انچ بہ انچ پوری نظر آتی تھی۔۔۔ پوری چالیس اِنچ۔ رمضان اب اُسے کبھی کبھار دریا کی طرف مُفت گھمالاتا اور کبوتروں کے دڑبے کے قریب سے لید اُٹھاتے وقت مصلّیؔ کے انداز میں رقص کی سی کیفیت دکھائی دے جاتی اور کبھی مصلّیؔ عیدو کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر دیتا تو وہ اُس کی طرف تھوتھنی گھما کر ہنہناتا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’میں تمھیں جانتا ہوں، مصلّی۔‘‘
ایک دن رمضان رات کو گیارہ بجے اصطبل میں واپس آیا۔ مصلّیؔ نے بتایا کہ عیدو کے لیے ہری گھاس کا کٹھّا لینے کی کوشش کرتا رہا، پر کوئی گھسیارن اُدھار پر رضامند نہ ہوئی۔ عیدو نے دو چار مرتبہ اپنے مالک کے دائیں بازو پر تھوتھنی تھپ تھپائی، جیسے کہہ رہا ہو، کچھ پروا نہیں رمضان میاں! میں بغیر کچھ کھائے ہی رات کاٹ لوں گا۔‘‘
رمضان پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔ تکیے کے قریب ہی وہ ایک دُکان کے سامنے تانگہ روک کر تین تنوری روٹیاں خرید کر تانگے پر بیٹھا بیٹھا نِگل گیا تھا۔ لیکن عیدو جو بھوکے پیٹ نئی آبادی تک سالم سواری لے کر گیا تھا اور بھوکے پیٹ ہی وہاں سے لوٹا تھا، اب رات بھر بھوکا رہے گا۔ رات بہت جاچکی تھی۔ اس وقت تو دانہ بھی نہ مِل سکتا تھا۔
رمضان سوچنے لگا کہ آدھی رات کے بعد فرشتہ آئے گا اور پوچھے گا، ’’تمھیں کوئی شکایت تو نہیں ہے، زمین پر چلنے والو، اپنے مالک سے؟‘‘
اور عیدو کہہ دے گا، ’’آسمان پر رہنے والو، ہمیں شکایت کیوں ہوتی؟‘‘
فرشتہ عیدو کے قریب آکر کہے گا، ’’تمھارے مالک کے لیے اب میں دُعا کرتا ہوں۔ تم بھی دُعا میں شامل ہوجاؤ میرے ساتھ۔‘‘
اور عیدو میرے لیے دعا میں شامل ہوجائے گا۔ کیونکہ صرف فرشتے کی دُعا خدا کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ ہر رات کو فرشتہ آتا ہے اور گھوڑے سے یہی سوال کرتا ہے۔ مالک کی معمولی بدسلوکیوں کی تو کوئی بھی گھوڑا شکایت نہیں کرتا۔ لیکن عیدوؔ کتنا نیک گھوڑا ہے کہ بھوکے پیٹ چودہ میل کا سفر کرنے کے بعد بھی اُسے کھانے کو کچھ نہیں ملا اور فرشتے کے سامنے میرے خلاف ایک بھی لفظ منہ پر نہ لائے گا۔ حالانکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ وہ بھوکا کھڑا ہے اور اس کے مالک نے اُس کے دیکھتے دیکھتے تین تنوری روٹیاں کھالیں۔
رمضان کو نیند نہ آتی تھی۔ دِن بھر کے مشاہدے اور تجربے الگ الگ شکلیں دھار کر اُس کے سامنے پھرنے لگے۔ اندھیارے میں عیدو کا منہ صاف صاف نظر نہ آسکتا تھا، کھاٹ سے اُٹھ کر وہ اس کے قریب گیا۔ وہ بدستور کھڑا تھا۔ اُس کی تھوتھنی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بولا، ’’اب سو بھی جاؤ عیدو بیٹا! فرشتہ آئے تو یہ مت کہہ دینا کہ تم بھوکے ہو۔‘‘
عیدو نے تھوتھنی نہ ہلائی، نہ وہ ہنہنایا ہی۔ عیدو اُونگھ رہا ہے، یہ سوچ کر رمضان پھر اپنی کھاٹ پر آگیا۔ وہ خوش پوش نوجوان، جو دس آنے سے شروع کرکے بڑی مشکل سے بارہ آنے میں سالم تانگہ لے کر نئی آبادی گیا تھا، رمضان کی آنکھوں میں پھرنے لگا۔وہ اس سے بہت جلد مانوس ہوگیا تھا۔ رمضان نے اُسے بتایا تھا کہ وہ ایک رنڈوا ہے۔ پھر اُس نے مُشکی دُلہن کے لیے گوٹے کا دوپٹہ نہ لے سکنے، عیدو کی عید کے دن خریدنے اور داروغہ کی بیگار کاٹنے کا سب حال اُسے تفصیل سے کہہ سنایا تھا اور خوش پوش نوجوان نے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا تھا، ’’کاش تم روس میں پیدا ہوئے ہوتے، کوچوان۔‘‘ یہ سُن کر کہ روس میں سب تانگے سوویٹ سرکار کے ہیں، تانگے ہی کیوں، ریلیں اور موٹریں بھی، اُسے بہت خوشی ہوئی تھی۔ نوجوان نے سر ہلاتے ہوئے کہا تھا سب چیزیں روس میں لوگوں کے لیے ہیں۔ سب مِل کر اپنے اپنے حصّے کا کام، کھیت میں ہو یا کارخانے میں سرانجام دیتے ہیں۔ سب کو بھوک لگتی ہے، کوئی بُھوکا نہیں رہتا۔ سب کو سوویٹ کے ہوٹلوں سے کھانے کو مِل جاتا ہے۔‘‘ اور رمضان نے سوچا، روس میں سچ مچ بہت مزہ ہوتا ہوگا۔ پھر اُس کی پلکیں بوجھل ہونے لگیں، دماغ کی بتّیاں ٹمٹمانے لگیں۔ وہ نیند کے دھارے میں بہہ گیا بہتا گیا۔۔۔
اُس نے دیکھا کہ آسمان سے روٹیاں برس رہی ہیں۔ وہ بہت خوش ہوا۔ صدیاں گزریں کہ حضرت موسیٰ کی قوم کے لیے من و سلویٰ اُترا کرتا تھا آسمان سے۔ اب یہ روٹیاں برس رہی ہیں۔ یہ نئے زمانے کا من و سلویٰ ہے۔ سب غریبوں کے لیے اچھی خیرات ہے خدا کی، اب کوئی بھوکا تو نہیں رہے گا۔ وہ روٹیوں کی طرف لپکا۔
پتہ چلا کہ یہ روٹیاں نہیں ہیں بلکہ گول گول چوڑی چوڑی پاتھیاں ہیں۔۔۔ روٹیوں کی شکل کے اُپلے! توبہ، توبہ، اللہ میاں بھی خوب مذاق کرنے لگے ہیں زمین والوں کے ساتھ۔۔۔
اُس کی آنکھ کُھل گئی۔ اللہ کی لعنت اِن روٹی نما پاتھیوں پر۔ وہ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ عیدو اُس کا مُنہ غور سے تک رہا تھا۔ جیسے کہہ رہا ہو، ’’مجھے رات بھر نیند نہیں آئی رمضان میاں، تم نے بھی رَت جگا کیا ہوتا تو ایک عجب تماشا دیکھا ہوتا۔ میں تو حیران رہ گیا۔ آسمان سے روٹیاں برسنے لگیں۔ یہاں وہاں روٹیاں ہی روٹیاں نظر آتی تھیں۔ مگر پیشتر اس کے کہ تم جاگ اُٹھتے اور مجھے کھول دینے پر رضامند ہوجاتے، روٹیاں جانے کدھر گم ہوگئیں۔‘‘ رمضان نے سوچا کہ شاید انسان کی طرح حیوان کو بھی خواب آتے ہیں۔
مصلّی کچھ ہری گھاس اور دانہ لے آیا تو عیدو ہنہنانے لگا۔۔۔ سورج کی کرنیں چھِن چھِن کر اُس کے سیاہ مخملی بُت پر پڑرہی تھیں۔ مصلّیؔ نے قریب آکر دانے والا بٹھّل عیدو کی کھولی میں رکھ دیا۔ عیدو پھر ہنہنایا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’جب بھی کوئی خمیری گلگلا کہہ کر تمھارا مذاق کرتا ہے، میں چاہتا ہوں اُسے کاٹ کھاؤں، مصلّی اور وہ شخص رمضان ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ سواگز چھاتی والا چھ فٹ اُونچا دیوہیکل رمضان، مصلّی بولا، ’’جیتا رہ عیدو! اللہ رسول کی امان۔‘‘
اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے رمضان نے مصلّی کو اپنے پاس بُلایا۔ رمضان بہت مطمئن نظر آتا تھا۔۔۔
ایک دن، دو دن، پانچ دن، بڑی مشکل سے رمضان نے آٹھ روپے بارہ آنے جوڑے تھے کہ دس روپے کی قسط کی ادائیگی کا وقت آن پہنچا۔ سائیں جی آدھمکے اور اِدھر اُدھر کی گفتگو کی منزلیں طے کرنے کے بعد اصلی تان دس روپے پر ٹوٹی۔ پہلے تو رمضان کے جی میں آیا، کہ سائیں جی سے کہہ دے کہ اُس کے پاس صرف پانچ روپے ہیں جو وہ بخوشی دے سکتا ہے۔ باقی کے پانچ روپے چند روز ٹھہر کر ادا کرے گا۔ اور حتی الوسع کوشش کرنے پر بھی ادا نہ کرسکا تو اگلی قسط دس کی بجائے پندرہ کی ہوجائے گی۔ لیکن بیشتر اس کے کہ وہ ایسی کوئی بات شروع کرتا سائیں جی کہہ اُٹھے، ’’تمھاری قسطوں کا تو کچھ جھگڑا نہیں ہے، رمضان میاں، لیکن تم تو سیانے ہو۔ وقت پر ہر قسط ادا کردی جائے تو زیادہ آسانی دینے والے ہی کو رہتی ہے۔‘‘
رمضان نے عیدو کی طرف دیکھا، جیسے اُس کی رائے مانگ رہا ہو۔ بے زبان عیدو کی آنکھوں میں رمضان نے اُس کے جذبات پڑھ لینے کی وِدّیا سیکھ لی تھی۔ اُس کی سفارش یہی معلوم ہوتی تھی کہ جیب کی سب نقدی، پیسہ پیسہ سائیں جی کے سامنے ڈھیری کردی جائے اور رمضان نے یہی کیا۔
سائیں جی نے رقم گِن ڈالی۔ اُن کے چہرے پر ایک وحشیانہ ہنسی پھوٹ نکلی۔
’’بات کیسے بنے گی، رمضان میاں، دس روپے کی ضرورت ہے اور سوا روپے کی کمی رہ گئی ہے۔‘‘
رمضان کا دماغ سوچنے سے رُک گیا تھا۔ وہ چونک پڑا۔ ’’سوا روپے کی کمی رہ گئی ہے۔ پیسہ پیسہ تو ڈھیری کردیا سائیں جی۔ اب کیا کہتے ہو؟‘‘
’’یہی کہ سوا روپے کی کمی رہ گئی ہے۔‘‘
رمضان کو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی اس کے دماغ میں داخل ہوکر اُس کی سب سے اہم بال کمانی نوچ رہا ہو، جیسے اُس کے دِل میں سوراخ کیا جارہا ہو، تاکہ اس کا سب خون نکال لیا جائے۔ اُس نے عیدو کی طرف دیکھا۔ اس کی سفارش یہی معلوم ہوتی تھی کہ کل شام کا وعدہ کرلیا جائے اور اُس نے یہی وعدہ کرلیا۔
سائیں جی کے چہرے پر زندگی کی لہر دَوڑ گئی اور وہ کبوتروں کے دڑبے کے قریب پڑی ہوئی لید کی طرف دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے۔
عیدو ہنہنا رہا تھا۔ اُس کی ہنہناہٹ میں اُس کی ساری خودداری کی چمک موجود تھی۔ وہ رمضان کی تنگ دستی سے واقف تھا۔ لیکن شاید وہ ہمیشہ ایک خوددار کوچوان کے تانگے میں جُتنے کی خواہش رکھتا تھا۔ رمضان کا سر جُھک گیا تھا، جیسے صدیوں کی گھنی ڈھیر قسطوں نے اپنا سارا بوجھ اس کی گردن پر ڈال دیا ہو۔
نمناک آنکھوں سے رمضان نے عیدو کی طرف دیکھا۔ عیدو نے اپنی تھوتھنی رمضان کے کندھے پر رکھ دی اور پھر دھیرے دھیرے اُسے سہلانے لگا جیسے کہہ رہا ہو، ’’سوا روپیہ بھی کچھ چیز ہوتی ہے رمضان میاں؟ کیوں گھبراتے ہو؟‘‘ اور رمضان نے سر اُٹھاکر عیدو کی آنکھوں میں اس کے جذبات پڑھ لیے۔ ’’اچھا یہ سواروپیہ اب تمھارے ذمے رہا، عیدو بیٹا!‘‘
اگلے روز رمضان شام کو اصطبل میں پہنچا،تو اُس کی جیب میں صرف ایک روپیہ تھا۔ اُس کی حالت کم و بیش ایک ہارے ہوئے جواری کی سی تھی جس کی تقدیر کو سانپ سُونگھ گیا ہو۔
تانگے سے کھول کر عیدو کو اس کے تھان پر باندھا گیا تو وہ پچھاڑی اُچھال اُچھا کر تھان کی زمین سونگھنے لگا، جیسے وہ مٹی کھانے پر تیار ہوگیا ہو۔ ایک پِٹے ہوئے گدھے کی طرح اس کے جسم کا بند بند دُکھ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ رمضان اس کے جسم پر مالش کرکے اس کی تکان دُور کردے۔ لیکن رمضان کی اپنی تکان بھی تو آج کچھ کم نہ تھی۔ وہ نمناک آنکھوں سے رمضان کو تکنے لگا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’تیار ہوجاؤ، رمضان میاں، سائیں جی آتے ہی ہوں گے۔‘‘
رمضان نے فیصلہ کیا کہ سائیں جی کو کچھ نہ دے۔ یوں ہی ٹال مٹول کردے۔ وہ کھاٹ ڈال کر بیٹھ گیا اور مصلّیؔ حقّہ تازہ کرکے چھوڑ گیا تھا۔
عیدو بہت اُداس تھا اُس کی بیکار رہنے والی، زنگ آلود آنتیں باہر آیا چاہتی تھیں۔ ابلق کے بیٹے کو انسان سے کئی گُنا زیادہ بھوک لگتی ہے۔ بے چارہ عیدو۔ اُس کی تھوتھنی پر پسینے کی بوندیں پھوٹ آئیں۔ دھیرے دھیرے اُس نے اپنے پیٹ کو اندر پچکانا شروع کیا۔ بھوک تو بڑھ رہی تھی، بڑھتی آرہی تھی اور اُس کی آنت آنت میں برما گھماکر چھید کررہی تھی۔
رمضان بھی اُداس تھا۔ سائیں جی لاکھ بُلایا کریں، وہ اُن سے بولے گا ہی نہیں آج، گھنّی سادھ لینا کچھ مشکل تھوڑی ہے۔ مت ماری گئی ہے سائیں جی کی۔ بہت دق کرتے ہیں۔ کوئی کسی کے روپے رکھ تو نہیں لیتا۔ کچھ بھی تو صبر نہیں ہے، اس نے اپنے ذہن میں جھانک کر دیکھا، وہاں دُھندلی سپیدیاں پیدا ہورہی تھیں۔۔۔ زہر کی سپیدیاں۔ آج سائیں جی بچ کر نہ جائیں گے۔ ذرا سی بس اُن کی زبان درازی کی دیر ہوگی اور یہ پہلوانوں کا سردار کوچوان اُنھیں ٹھیک کردے گا۔ آج وہ اپنے عیدو کے سامنے اپنی جوانمردی کا ثبوت دے گا۔
اور سائیں جی آگئے۔ وہ چُپ چُپ سے نظر آتے تھے۔ وہ رمضان کی کھاٹ پر بیٹھ گئے۔ رمضان کے ذہن کی زہریلی سپیدیاں جانے کِدھر دبی رہیں۔ اس نے سوچا کہ کوئی نرم سی بات کہہ کر ٹال مٹول کردے لیکن اُس کے ہونٹ نہ ہلے، جیسے گول کُنڈلی مارے یوں خاموش بیٹھا رہے گا ہمیشہ ہمیشہ۔
’’قسطوں کا مطلب یہی ہوتا ہے رمضان۔‘‘ سائیں جی بولے، ’’کہ رقم آسانی سے اُتر جائے۔‘‘
رمضان نے بے دلی سے سر ہلاکر کہا، ’’ہاں، سائیں جی۔‘‘
’’یعنی ایک قسط کا تھوڑا سا بقایا بھی دوسری قسط میں شامل نہ ہونا چاہیے۔ اور صاف بات تو یہ ہے کہ اس میں زیادہ فائدہ مقروض ہی کا منظور ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں سائیں جی!‘‘ رمضان نے عیدو کی طرف آنکھ گھماتے ہوئے جواب دیا اور عیدو ہنہنایا جیسے وہ اپنے مالک کے ساتھ کسی طرح کی ناانصافی پسند نہ کرتا ہو اور اِس بات سے جل رہا ہو کہ رمضان نے آخر شرافت کا پلّو کیوں پکڑ رکھا ہے اتنی مضبوطی سے؟ کیوں نہیں دھتا بتا دیتا، اس کمبخت سائیں جی کو؟
’’تمھاری ایمانداری، تمھاری دانائی اور سب سے بڑی بات ہے تمھاری شرافت۔‘‘ سائیں جی نے پینترہ بدل کر کہا، ’’ان میں تو مجھے کبھی کوئی شک نہیں گُزرا؟‘‘
’’آپ مالک جو ہوئے۔‘‘ رمضان نے نرم ہوکر کہا۔
’’لیکن قسط کی ادائیگی تو ضروری ہے وقت پر، رمضان میاں!‘‘
سائیں جی نے رمضان کے کندھوں پر ہاتھ ٹیک کر کہا، ’’اور یہ بات میں اپنی ہی غرض سے تھوڑی کہتا ہوں۔ جلدی اس بوجھ سے چھٹکارا پانے کا بس یہی ایک طریقہ ہوسکتا ہے۔‘‘
’’آج تک تو کسی نے مجھ پر ٹھیکرا نہیں پھوڑا، سائیں جی!‘‘
’’یہی تو میرا بھی خیال ہے۔‘‘ سائیں جی نے اُس کی آنکھوں میں تکتے ہوئے کہا اور اس کی کھاٹ سے اُٹھ کھڑے ہوگئے۔
جیب سے روپیہ نکال کر رمضان نے سائیں جی کے سامنے پھینک دیا۔
’’اور چونّی۔‘‘ سائیں جی نے روپیہ اُٹھا کر کہا۔
’’رمضان نے عیدو کی طرف دیکھا۔ وہ تھوتھنی ہلا رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’روپیہ تو تم دے ہی بیٹھے رمضان میاں، اب کل چونّی بھی مارنا سائیں جی کے ماتھے سے۔‘‘ اور رمضان نے کل کا وعدہ کرلیا۔
سائیں جی جاچکے تھے، رمضان نے محسوس کیا کہ اُسے چاروں طرف سے نااُمیدی نے گھیر رکھا ہے۔ صدیوں کی بے شمار قسطوں میں آخر ایک روپے کی ادائیگی سے کتنا فرق پڑسکتا ہے؟ وہ بہت اُداس تھا، جیسے اس کا دِل بُجھ جائے گا ٹمٹماکر۔۔۔ اصطبل کے چراغ کی طرح۔
عیدو اپنے تھان پر بھوکا بندھا تھا۔ رمضان اس کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ بغیر بستر بچھائے ہی وہ کھاٹ پر گِرپڑا۔ اُس نے کروٹ بھی نہ بدلی۔ پیٹھ تو تختہ ہوگئی تھی۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ عیدو ہی کی طرح ہنہنانے لگتا۔ وہ تھکا ہارا نڈھال پڑا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ سو جائے۔ تنے ہوئے پیٹ پر تو نیند دوڑی چلی آتی ہے۔ جانے آج وہ کدھر غائب ہوگئی تھی۔
پھر مصلّی آن پہنچا۔ کہیں سے وہ دو رُوٹیاں اور اچار کی پھانک لے آیا تھا۔
’’رمضان، او میاں رمضان!‘‘ دل میں گدگدی سی محسوس کرتے ہوئے وہ بولا، ’’دیکھ تیرے لیے روٹیاں لایا ہوں۔ تُو بھوکا کیوں رہے آخر۔ تیرے قریب ہی میں سو جاؤں ایک پیٹ سے زیادہ کھا کر۔ نہ بابا یہ تو نہ ہوگا مجھ سے، آخر میں اس قطب اعظم کے مزار کا مجاور ہوں اور میں اللہ اور اس کے قطب سے ڈرتا ہوں۔‘‘
رمضان کا خیال فوراً من و سلویٰ کی طرف دوڑ گیا۔ مصلّی رُوٹیاں رکھ کر چلا گیا تھا۔ رمضان نے سوچا، آخر بھیج ہی دیا نا میرے اللہ نے اور مجھے کسی کا دروازہ کھٹکھٹانے کی نوبت نہیں آئی۔ اُس وقت عیدو کے ہنہنانے کی آواز رمضان کے کانوں میں آئی۔ آج عیدو کس طرح رمضان کی آخری چونّی کے لیے دریا تک چلا گیا تھا۔ اِس وقت رمضان نے من و سلویٰ کا ایک ٹکڑا مُنہ میں ڈال لیا تھا۔ لیکن جھٹ سے اُس نے لقمے کو ہتھیلی پر اُگال کر دُور کنویں کی منڈیر پر پھینک دیا اور بولا، ’’جب تک تیرے لیے دانہ، تیرے لیے من و سلویٰ نازل نہیں ہوتا، میں کھانا نہیں کھاؤں گا، عیدو بیٹا!‘‘ اور رمضان نے کاغذ کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور زبردستی اپنی پلکوں کے کواڑ بند کرنے لگا۔
مصنف:دیوندر ستیارتھی