نظر میں خود کو بسا دو تو کوئی بات بنے
وفا کے پھول کھلا دو تو کوئی بات بنے
نظارے پیار کے قصے سنا رہے ہیں ابھی
تم اپنا چہرہ دکھا دو تو کوئی بات بنے
اندھیرا بڑھتا ہی جاتا ہے دل کے رستوں میں
وفا کے دیپ جلا دو تو کوئی بات بنے
ہزار باتیں بنا کر جو دل لبھاتے ہو
نظر نظر سے ملا دو تو کوئی بات بنے
کبھی تو تم بھی مرے گھر میں آ کے اے جانم
نقاب رخ سے ہٹا دو تو کوئی بات بنے
کبھی تو خواب میں آ کے قریب اس دل کے
ترانہ پیار کا گا دو تو کوئی بات بنے
غزل کا نام جسے دے دیا ہے اے عادلؔ
تم اس کا نام بتا دو تو کوئی بات بنے
مأخذ :انکشاف سخن
شاعر:ظفر عادل قریشی