آہ! آج تین سال گزرگئے۔ یہی مکان ہے، یہی باغ یہی گنگا کاکنارہ، یہی سنگ مرمرکا حوض، یہی میں ہوں اوریہی درودیوار۔ مگراب ان کیفیات سے دل متاثرنہیں ہوتا۔ وہ نشہ جوگنگاکے لطف انگیز تلاطم اورہوا کے دلفریب جھونکوں سے دل پرطاری ہوجاتاتھا۔ اس نشہ کے لئے اب جی ترس ترس کے رہ جاتاہے۔ اب وہ دل نہیں رہا۔ وہ نازنین جس پرزندگی کامدارتھا اب اس دنیامیں نہیں رہی۔
موہنی نے دلفریب صورت پائی تھی۔ اس کے حسن میں غضب کی تاثیرتھی۔ اسے پیارکرنامشکل تھا۔ وہ پرستش کرنے کے قابل تھی۔ اس کے چہرہ پرہمیشہ ایک دل آویزروحانیت کاجلوہ رہتاتھا۔ اس کی آنکھیں جن میں شرم کی متانت اورپاکیزگی کاسرور تھا، محبت کاسرچشمہ تھیں۔ اس کی ایک نگاہ۔ ایک ایک حرکت۔ ایک ایک بات اس کے دل کی پاکیزگی اورخلوص کااثردل پرپیدا کرتی تھی۔ جب وہ اپنی شرمگیں نگاہوں سے میری طرف تاکتی تواس کی کشش اور اس کی گرمی میرے دل میں مدوجزرکاعالم پیدا کردیتی تھی اس کی آنکھوں سے روحانی جذبات کی شعاعیں نکلتی تھیں۔ مگراس کے لب کلمہ محبت سے ناآشنا تھے۔ اس نے کبھی کنایۃ بھی اس اتھاہ پریم کااظہارنہیں کیا جس کی لہروں میں وہ خودپرِکاہ کی طرح بہی جاتی تھی۔ اس کی محبت کی کوئی انتہانہ تھی۔
وہ محبت جس کی منزل وصال ہے۔ محبت نہیں، نفس پرستی ہے۔ موہنی کی وہ محبت تھی جووصال میں بھی ہجر کے مزے لیتی ہے۔ مجھے خوب یاد ہے ایک بار جب اسی حوض کے کنارے چاندنی رات میں میری گرمجوشیوں سے مخمور ہوکر اس نے کہاتھا۔ آہ! وہ آوازبھی دل پر نقش ہے۔ ’’وصال محبت کا آغاز ہے انجام نہیں۔‘‘
مسئلہ الفت پراس سے زیادہ شاندار۔ اس سے زیادہ رفیع خیال کبھی میری نظر سے نہیں گزرا۔ وہ محبت جونگاہوں سے پیدا ہوتی، اورمفارقت سے شاداب رہتی ہے وہ ہواکے ایک جھونکے کوبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ ممکن ہے کہ یہ میری خودسرائی ہومگر وہ محبت جو باوجود میری کمزوریوں کے موہنی کومجھ سے تھی، اس کاایک قطرہ بھی مجھے سرمست کرنے کے لئے کافی تھا۔ میرے دل میں اتنی وسعت ہی نہ تھی۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ مجھ میں وہ کون سا وصف تھا جس نے موہنی کوجذبہ الفت سے بے خودکردیاتھا۔ جسانت، حسن اخلاق، جوہرِمردانگی۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن پر محبت نثارہوتی ہے۔ مگر میں ان میں سے ایک پربھی نازنہیں کرسکتا تھا۔ شایدمیری کمزوریاں ہی اس سوزِالفت کاباعث تھیں۔
موہنی میں وہ ادائیں نہ تھیں جن پر رنگیلی طبیعتیں فداہوجایا کرتی ہیں۔ ترچھی چتون، نگاہ باز، دل آویزتبسم، زبان شوخ۔ ان کا یہاں وجودنہ تھا۔ مگرجس طرح چاندکی مدھم، خوشگوارروشنی میں کبھی کبھی پھواریں پڑنے لگتی ہیں۔ اسی طرح عالمِ خلوص میں اس کے چہرہ پرایک حسرت ناک مسکراہٹ جلوہ افروزہوتی اورآنکھیں آبگوں ہوجاتیں۔ یہ ادانہ تھی جذباتِ صادق کی تصویر تھی جو میرے دل میں پاکیزہ الفت کاہیجان پیدا کردیتی تھی۔
شام کا وقت تھا۔ دن اوررات باہم بغل گیرہورہےتھے۔ آسمان پرمتوالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اورمیں موہنی کے ساتھ اسی حوض کے کنارے پربیٹھا ہوا تھا۔ روح افروزہوائیں اورمخمور گھٹائیں گوشئہ دل میں سونے والے جذباتِ الفت کو بیدارکردیا کرتی ہیں وہ مدہوش سرمستی جواس وقت ہمارے دلوں پر چھائی ہوئی تھی۔ اس پر میں ہزاروں بیداریوں کوقربان کرسکتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس عالم بے خبری میں ہمارے دل بیتاب ہوکر آنکھوں سے ٹپک پڑیں گے۔ آج موہنی کی زبان بھی ضبط کی بیڑیوں سے آزادہوگئی تھی۔ اوراس کی جذبہ لطیف میں ڈوبی ہوئی باتوں سے میری روح کوبالیدگی ہوتی تھی۔
یکایک موہنی نے چونک کر گنگا کی طرف دیکھا۔ ہمارے دلوں کی طرح اس وقت گنگابھی امڈی ہوئی تھیں۔
اس پڑخروش اورناہموار سطحِ آب پرایک چراغ بہتا ہواچلاجاتاتھا اور اس کا عکس گلفشاں تھرکتا اور ناچتا ایک دمدار ستارے کی طرح صفحہ آب کومنورکررہا تھا۔ آہ! اس ہستی موہوم کی کیا بساط تھی۔ کاغذ کے چندپرزے، بانس کی چندتیلیاں، مٹی کاایک دیا گویا کسی نامراد کی آرزوؤں کی ترتب تھی جس پر کسی غمخوار نے ترس کھاکر ایک دیاجلادیاتھا۔ مگروہ ہستی بے وجود اس اتھاہ ساگر میں اچھلتی ہوئی لہروں سے ٹکراتی۔ گردابوں سے ہلکورے کھاتی۔ شورانگیز موجوں کوروندتی چلی جاتی تھی۔ شاید جل دیویوں نے اس کی ضعیف ہستی پرترس کھاکر اسے اپنے آنچلوں میں چھپالیاتھا۔
جب تک وہ چراغ جھلملاتا اورٹمٹماتا، ہمدردلہروں سے جھکورے لیتا، دکھائی دیا۔ موہنی ٹکٹکی لگائے ایک اندازِمحویت کےساتھ اس کی طرف تاکتی رہی۔ جب وہ دائرہ نظر سے دورنکل گیا تو وہ ایک بیتابانہ جوش سے اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی، ’’میں کنارے پر جاکر اس چراغ کودیکھوں گی۔‘‘
جس طرح حلوائی کی صدائے خوش گوار سن کربچہ گھر سے باہرنکل پڑتاہے اور پراشتیاق نگاہوں سے دیکھتا اوربے صبرآوازوں سے پکارتا اس خوانِ نعمت کی طرف دوڑتا ہے۔ اسی جوش اوراشتیاق کے ساتھ موہنی ندی کے کنارےچلی۔
باغ سے ندی تک سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ ہم دونوں تیزی کے ساتھ نیچے اترے اور کنارے پہنچتے ہی موہنی نے فرط ِمسرت سے اچھل کر زور سے کہا، ’’ابھی ہے! ابھی ہے! دیکھووہ نکل گیا۔‘‘
وہ معصومانہ جوش اور انتشار انگیز بے صبری جوموہنی کے چہرہ پراس وقت نمایاں تھی مجھے کبھی نہ بھولے گی۔ میرے دل میں سوال پیدا ہوا اس چراغ سے اس قدر تعلق ِخاطر اس قدروجدکیوں؟مجھ جیسا شاعرانہ حس سے عاری شخص اس معمے کو مطلق نہ سمجھ سکا۔
میرے دل میں وسوسے پیدا ہوئے۔ اندھیری رات ہے، گھٹائیں امڈی ہوئی۔ دریاطغیانی پر۔ ہواتند۔ یہاں اس وقت ٹھہرنامصلحت نہیں۔ مگرموہنی! وہ پرشوق بھولے پن کی تصویر، اسی چراغ کی طرف آنکھیں لگائے خاموش کھڑی تھی۔ اور وہ چراغ ناشادجو ں کاتوں ہلتا، مچلتا۔ چلاجاتاتھا نہ جانے کہاں کس دیس کو۔
مگرتھوڑی دیرکےبعد وہ چراغ پھر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ موہنی نے حسرت ناک لہجہ میں پوچھا کیا بجھ گیا ہوگا؟
اورقبل اس کے کہ میں کچھ جواب دوں، وہ اس کشتی کے قریب چلی گئی جس پر ہم بیٹھ کر کبھی کبھی دریا کی سیریں کیاکرتےتھے۔ اورپیار سے میرے گلے لپٹ کر بولی میں اس چراغ کودیکھنے جاؤں گی میں دیکھوں گی کہ وہ کہاں جارہاہے۔ کس دیس کو؟
یہ کہتے کہتے موہنی نے کشتی کی رسی کھول لی۔ جس طرح درختوں کی ڈالیاں طوفان کے جھونکوں سے جھکولے کھاتی ہیں۔ اسی طرح اس وقت یہ کشتی ڈاواں ڈول ہورہی تھی۔ دریاکی مہیب وسعت، موجوں میں وہ ڈراؤنی چھلانگیں۔ پانی کی وہ پرشورش صدا، اس ہولناک تاریکی میں اس کشتی کابیڑا کیوں کر پار ہوگا! میرا دل بیٹھ گیا، کیا اس نامرادکی تلاش میں یہ کشتی بھی ڈوبے گی۔ مگرموہنی کا دل اس وقت اس کے بس میں نہ تھا۔ اسی چراغ کی طرح اس کا دل بھی جذبات کے وسیع، متلاطم، پرشور دریامیں بہاجارہا تھا۔
ہم کشتی میں بیٹھ گئے اورکشتی لہروں پرجھولے کی طرح جھولتی چلی۔ آہ! کیسا ہولناک منظرتھا۔ متوالی گھٹائیں جھکتی چلی آتی تھیں گویا دریا سے گلے ملیں گے۔ اور وہ دریا ئے سیاہ یوں اٹھتاتھا گویا بادلوں کوچھولے گا۔ دہشت سے آنکھیں مندی جاتی تھیں۔ ہم تیزی کے ساتھ اچھلتے۔ کراروں کے گرنےکی آوازیں سنتے، سیاہ درختوں کا جھومنا دیکھتے، چلے جاتے تھے۔ آبادی پیچھے چھوٹ گئی۔ دیوتاؤں کی بستی سے بھی آگے نکل گئے۔ یکایک موہنی چونک کراٹھ کھڑی ہوئی اور بولی، ’’ابھی ہے! ابھی ہے دیکھو وہ جارہا ہے۔‘‘ میں نے آنکھ اٹھاکردیکھا وہ چراغ جوں کا توں ہلتا مچلتا چلاجاتا تھا۔
اس چراغ کودیکھتے ہم بہت دور نکل گئے۔ موہنی نے یہ رات الاپنا شروع کیا،
(میں ساجن سے ملن چلی)
کیسادل سوزنغمہ تھا! اورکیسی پردردرسیلی آواز۔ جذبہ اور رقت میں ڈوبی ہوئی۔ نغمہ دلکش میں تخیلات کوپیدا کرنے کی زبردست قوت ہوتی ہے۔ وہ انسان کو عالمِ موجودات سے اٹھاکرعالم خیال میں پہنچادیتاہے۔ میری نگاہ خیال میں اس وقت ندی کی پرشور لہریں۔ لبِ ساحل کی جھومتی ہوئی ڈالیاں۔ سنسناتی ہوئی ہوا سب متشکل نظرآتی تھیں اورسب کی سب تیزی سے قدم اٹھائی چلی جاتی تھیں۔ اپنے ساجن سے ملنے کےلئےاشتیاق اورالفت سے جھومتی ہوئی ایک نازنین کی دھندھلی، خوابی تصویر۔ ہوائیں، لہروں میں، درختوں کی جھرمٹ میں محوِخرام نظرآتی تھی۔ اور وہ جاتی تھی۔ ساجن سےملنے کے لئے!اس نغمہ نے سارے منظر پر اشتیاق کاجادو پھونک دیا،
میں ساجن سے ملن چلی
ساجن بست کون سی نگری، میں بوری ناجانو
نامجھے آس ملن کی اس سے ایسی پریت بھلی
میں ساجن سے ملن چلی
موہنی خاموش ہوئی توچاروں طرف سناٹا چھایاہواتھا۔ اوراس سناٹے میں ایک بہت مدھم، رسیلی، خواب انگیز آوازافق کے اس پار سے، یا دریاکے نیچے سے یا ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آتی ہوئی گوش خیال میں سنائی دیتی تھی،
میں ساجن سے ملن چلی
میں اس نغمہ سے اس قدر متاثرہواکہ ذرادیر کے لئے مجھے خیال نہ رہا کہ کہاں ہوں اور کہاں جارہاہوں۔ دل ودماغ میں وہی راگ گونج رہا تھا، دفعتاً موہنی نے کہا، ’’اس چراغ کودیکھو۔‘‘
میں نے چراغ کی طرف دیکھا۔ اس کی روشنی ماندہوگئی تھی اورمایہ زندگی ختم ہوچلاتھا۔ آخر وہ ایک دفعہ ذرا بھبکااورگل ہوگیا جس طرح پانی کی بونددریا میں گرکرغائب ہوجاتی ہے اسی طرح تاریکی کی وسعت میں اس چراغ کی ہستی غائب ہوگئی۔ موہنی نے آہستہ سے کہا، ’’اب نہیں دکھائی دیتا، بجھ گیا!‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی، جذباتِ دردامڈآئے۔ رقت سے گلاپھنس گیا۔ زبان سے صرف اتنا نکلا، ’’کیا یہی اس کامنزلِ مقصودتھا؟‘‘اورآنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
میری آنکھوں کے سامنے سے پردہ سا ہٹ گیا۔ موہنی کی بے چینی اور اشتیاق، بے صبری اورافسردگی کارازسمجھ میں آگیا۔ اوربے اختیار میری آنکھوں سے بھی آنسو کے چندقطرے ٹپک پڑے، کیا اس پرشور، پرخطر، طوفانی سفرکایہی منزل ِمقصودتھا!
دوسرے دن موہنی اٹھی تو اس کاچہرہ زردتھا۔ اسے رات بھرنیند نہیں آئی تھی۔ وہ طبعاً شاعرانہ جذبات کی عورت تھی۔ رات کے اس واقعہ نے اس کے دردمند، ذکی الحس طبیعت پربہت اثرپیدا کیاتھا۔ ہنسی اس کے ہونٹوں پر یونہی بہت کم آتی تھی۔ ہاں چہرہ شگفتہ رہتا تھا۔ آج سے وہ شگفتگی بھی رخصت ہوئی۔ ہردم چہرہ پرایک حسرت سی چھائی رہتی۔ اورباتیں جگرخراش، رقت آمیز ہوتی تھیں، میں اس کے دل کوان خیالات سے دوررکھنے کے لئے کئی بارظرافت آمیزقصے لایا، مگرانہیں اس نے کھول کربھی نہ دیکھا، ہاں میں جب گھرپرنہ ہوتا تووہ شاعرکی تصنیفیں دیکھاکرتی مگراس لئے نہیں کہ اس کےپڑھنےسے کوئی لطف حاصل ہوتاتھا بلکہ اس لئے کہ اسے رونے کےلئے کوئی خیال مل جاتاتھا اوروہ اشعار جو اس زمانہ میں اس نے کہے سوزوگداز کے نغمے ہیں، کون ایسا بشرہے جوانہیں پڑھ کر اپنے آنسوروک لے گا۔ وہ کبھی کبھی اپنے اشعار مجھے سناتی۔ اورجب میں لذتِ درد سے وجدمیں آکرداد دیتا تومجھے اس کی آنکھوں میں روحانی مسرت کا نشہ نظرآتا تھا۔ ظرافت اوررنگینی ممکن ہے بعض طبیعتوں پراثرپیدا نہ کرسکے۔ مگروہ کون سا دل ہے جو سوز کے جذبات سے پگھل نہ جائےگا۔
ایک روزہم دونوں اسی باغ کی سیرکررہے تھے۔ شام کا وقت تھا۔ اورچیت کامہینہ، موہنی کی طبیعت آج شگفتہ تھی۔ بہت دنوں کے بعدآج اس کے لبوں پر مسکراہٹ کی جھلک دکھائی دی تھی۔ جب شام ہوگئی اورپورنماشی کاچاندگنگا کی گود سے نکل کر اوپراٹھاتوہم اسی حوض کے کنارے بیٹھ گئے۔ یہ مولسریوں کی قطار اور یہ حوض موہنی کی یادگاریں ہیں۔ چاندنی میں بساط آئی اورچوپڑہونے لگی۔ آج طبیعت کی فرحت نے اس کے حسنِ صبیح کوچمکادیاتھا۔ اور اس کی دل آویز شراریں مجھے مخمور کئے دیتی تھیں۔ میں کئی بازیاں کھیلا اورہربارہارا۔ ہارنے میں جو لطف تھا وہ جیتنے میں کہاں، سرخوش رہتے میں جولطف ہے وہ چھکنے اورمتوالے ہونے میں نہیں۔
چاندنی خوب چھٹکی ہوئی تھی۔ یکایک موہنی نے گنگا کی طرف دیکھا اورمجھ سے بولی، ’’وہ اس پارکیسی روشنی نظرآرہی ہے میں نے بھی نگاہ دوڑائی، چتاکی آگ روشن تھی۔ لیکن میں نے ٹال کر کہا، ’’ملاح کھاناپکارہےہیں۔‘‘
موہنی کویقین نہ آیا۔ اس کے چہرہ پر ایک حسرت ناک مسکراہٹ دکھائی دی۔ اورآنکھیں آبگوں ہوگئیں، ایسے دلخراش نظارے اس کے ذکی الحس اور درد مند دل پر وہی اثر کرتے تھے جولوکی لپٹ پھولوں کے ساتھ کرتی ہے۔
تھوڑی دیرتک وہ خاموش بے حس وحرکت بیٹھی رہی۔ پھرغمناک لہجہ میں بولی، ’’منظرلِ مقصود پرپہنچ گیا۔‘‘
زمانہ اگست و دسمبر ۱۹۱۱ء
مأخذ : پریم چند : افسانے
مصنف:پریم چند