نہ جانے کہاں سے دوبارہ آکر وہ کچرے کے ڈھیر پہ بےسدھ پڑی تھی۔ ملگجے بال۔ صدیوں کی میل و غلاظت بھری نگاہوں سے بدبو کے بھبوکے اڑاتا جسم جو اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ چرند و پرند کو اس اشرف المخلوقات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ شاید ہر حیوان اس کو اپنی برادری کا حصہ سمجھتے اس کو رزق میں بھی شریک کرتا رہا کیونکہ اس کے لمبے نوکیلے سیاہ ناخنوں والی مخروط انگلیوں میں وہی روٹی کا ٹکڑا تھا جو پاس بیٹھی کتیا کے پلوں کے لیے دودھ کا وسیلہ بنا تھا اور وہ آنکھیں بند کئے مامتا کے سرور میں اس تکلیف کا بھی مزہ لوٹ رہی تھی جو اس کے بچے دودھ چوسنے کی سعی میں اس کو پہنچا رہے تھے۔
جمعہ کا دن تھا۔ سب بھاگ دوڑ میں مصروف۔ دودھیا سفید لباسوں میں دلوں کی کالک چھپائے ایک دوسرے سے جنت چھیننے کا لالچ لئے، باوضو اور مسنون انداز میں سجے سجائے لوگ، گاڑیاں ٹکراتے، بائیک گھماتے پیدل افراد پہ کیچڑ اڑاتے ایک دوسرے کو گالیاں بکتے خطبہ سننے کی جلدی میں آپس میں ٹکراتے پھر رہے تھے۔
اسی دوران ایک گاڑی نے جب جلدی نکلنے کی خاطر ایکسیلیریٹر پہ زور دیا تو پہیے گھوم کر کیچڑ میں پھنس گئے۔ اپنے مسلک کی پگڑیاں سجائے ایک ٹولی نعتوں کا ہدیہ عقیدت پیش کرتی، جب پاس سے گزری تو ڈرائیور نے مدد طلب کی۔ بھائی صاحب دھکا تو لگا دیں۔ اس ٹولی کی لے ٹوٹ گئی۔ ہمارے کپڑے ناپاک ہو جائیں گے۔ دوبارہ لے کو جوڑا گیا اور یہ جا وہ جا۔
جمعہ ختم ہوا تو تمام اطراف گاڑیوں کا اژدہام تھا۔ غلط پارکنگ، ون وے، ہر قسم کے قوانین توڑتے ایکدوسرے کو زبانی بھنبھوڑتے لوگ، اپنا اپنا ہفتے کا ثواب کھاتہ بھرے واپس جانے کو لوٹے۔
اسی دوران اس نیم برہنہ جسم نے کراہنا شروع کر دیا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی آواز، ہلکی چیخوں میں بدلتی گئی اور لوگوں کی توجہ کچرے کے ڈھیر میں پڑی اس پگلی پہ پڑی جس کی برہنہ ٹانگوں کے درمیان سے خون جاری تھا۔ کتیا اور اس کے بچے جا چکے تھے۔ اب انسان اس کے آس پاس جمع ہونا شروع ہو گئے۔ وہ درد سے کرلاتی رہی، مجمع بڑھتا رہا۔ جامع مسجد کے عقب اس کچرے کے ڈھیر پہ جب ایک وجود کو اس حال میں پایا تو لوگ مجمع کی شکل اختیار کر گئے۔
ماہواری ہے شایدً۔ ایک دانا نے نکتہ اٹھایا۔ دوسری جانب سے سوال آیا پھر یہ ڈھونگ کی کیا ضرورت۔ اوپر سے ستر پوشی بھی نہیں۔ استغفراللہ۔ اب مجمع بہت بڑھ گیا۔ ساتھ ہی اس بےسترً کی درد بھری کراہٹ۔ اب باریش حضرات بھی اس ہجوم میں شامل ہوئے اور حکم دیا۔ تمام نوجوان لڑکے باہر کی جانب کھڑیں ہوں اور بچوں کو یہاں سے نکال دیا جائے۔ حد ہوتی ہے بےشرمی کی۔ ایک تو بےستر۔ اوپر سےبھرے مجمع میں یہ حرکتیں۔ بھیا۔ ہم بہن بیٹیوں والے ہیں۔ کیا اثرات مرتب ہونگے اس بے بےشرمی کے۔ سر عام ماہواری میں اس کو یہ ناٹک کرنے کی سوجھی۔ کیا دروازہ کھٹکھٹاتی تو کھانا نہ ملتا اور تو آج ہے بھی جمعہ کا مبارک روز اور کچھ نہیں تو اسکا سر ہی ڈھانپ دیتے کسی پرانی چادر سے۔ بالکل بالکل جناب۔ کیوں نہیں۔ چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔
ارے یہ وہی پگلی ہے ناں جو کچھ ماہ قبل اس علاقے میں آئی تھی اور رات کو اسکی چیخ و پکار کے بعد اس کو باقاعدہ کھانا کھلایا کر اور سرڈھانپنے کو اپنی گھر والی کی اوڑھنی دی تھی میں نے جناب۔ رمضان کا ماہ تھا۔ میں قیام کے بعد مسجد سے واپس جا رہا تھا۔ دوسرے دن یہ غائب تھی۔ سبحان اللہ۔ مجمع پکار اٹھا۔
اب اس بےسترعورت نے باقاعدہ چلانا شروع کر دیا۔ گٹھڑی سی بنی اپنے پیٹ کو تھامے دائیں بائیں سرپٹختی بےستر عورت۔
تمام مجمع اس کی ٹانگوں کے درمیان خون کی روانی پہ گہری نگاہ رکھے تھا۔ کچھ بزرگ افراد نے اپنی جہاندیدگی کے بل بوتے پہ اعلان فرمایا۔ یہ تو زچگی کا معاملہ ہے۔۔۔تو کیا اس پاپن کو یہی جگہ ملی تھی اپنا حرام جننے کو۔ مسجد کا عین پچھواڑہ؟؟؟
اب تمام باوضو افراد کو طیش آ گیا اور مغلظات کی بوچھاڑ اور بےستر کی چیخیں آپس میں دست و گریباں ہو گئیں۔ اچانک اسنے ایک زوردار چیخ ماری اور بےسدھ ہو گئی۔ تمام تر مجمع جس کی آنکھیں اس کے ستر پہ گڑی تھیں یکسر خاموش ہو گیا۔ ایک جلالی طبع والے بزرگ بھنا کے بولے۔ جن دیا فاحشہ نے اپنے حرامی کو۔
اس کی۔ چیخیں تھم چکی تھیں۔ چاروں جانب سناٹا چھا گیا۔ اتنے میں مولوی صاحب مسجد کو تالا لگا کر باہر نکلے اور پچھواڑے کی جانب سے گھر کی راہ لی تو مجمع کو دیکھ کر ٹھٹھکے۔ سب کو چیرتے آگے بڑھے تو اس بےستر عورت کی ٹانگوں کے بیچ خون میں لپٹا۔ ایک نامکمل دھڑ پڑا تھا اور بےستر خاموشی سے آسمان پہ آنکھیں ٹکائے۔ بےجان دھڑ کو جننے کے بعد اپنے گناؤں کا حساب دینے کو تیار تھی۔
مولوی صاحب اپنے کپڑے بچاتے۔ مجمع کی جانب دیکھ کے پکارے۔ اناللہ وانا الیہ راجعونً اور اپنے سر سے صافہ اتار کے فرمایا۔ چندہ دیجئیے۔ جمعہ کا روز ہے۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔
تمام مجمع نے بیک وقت آمین بولا اور اپنی اپنی جیبیں ٹٹولنے لگے۔
مصنف:سیمیں درانی