کچھ لطف خموشی میں نہ آہوں میں مزا ہے
بے کیفیٔ دل ان دنوں کچھ حد سے سوا ہے
بے خود کئے رہتی ہے تصور کی فضا میں
اپنی شب تنہائی کا عالم ہی جدا ہے
اک ربط محبت ہی کا احساس ہے دل میں
کچھ اور نہ احساس جفا ہے نہ وفا ہے
اے دوست میں کیا محویت دل کو چھپاؤں
جب حسن تصور ہی ترا ہوش ربا ہے
اے عارفی ہے راہ محبت بھی عجب راہ
رہبر ہے جہاں کوئی نہ منزل کا پتا ہے
مأخذ : افادات عارفیہ
شاعر:عبدالحیٔ عارفی