بابر کی موت

0
182
Urdu Drama Stories
- Advertisement -

۔۔۔اسٹیج پر ہر روز ڈرامے کھیلے جاتے ہیں ، مگر ان میں سے کتنے معنی کے لحاظ سے مکمل ہوتے ہیں ۔۔۔ دراصل خامکاری اسٹیج کا قانون ہے۔اگر کسی ڈرامے کا پہلا ایکٹ شاندار ہے تو اس کے آخری ایکٹ پہلے ایکٹ کی جان کے قدموں میں دم توڑتے نظر آئیں گے۔ اگر کسی ڈرامے کا انجام اچھا ہے تو آغاز بُرا ہے۔

کلائمیکس ہے تو سسپنس نہیں ہوگا۔ اگر سسپنس ہے تو کلائمیکس نظر نہیں آئیگا ۔۔۔ ایسے کردار نظر آئیں گے جو بڑے بڑے مراحل آسانی کے ساتھ طے کریں گے ۔ مگر چھوٹی چھوٹی مشکلات کا مقابلہ کرتے وقت ان کی پیشانی پسینے سے بھر جائے گی۔۔۔ منطق اور استدلال تیتریوں کے مانند آپ کو ان ڈراموں میں اُڑتے نظر آئیں گے۔۔۔

ڈرامہ نویسوں میں شاید سب سے زیادہ خامکاری ان ڈراموں میں پائی جاتی ہے جو تاریخ نے لکھے ہیں ۔۔۔ تاریخ ڈرامے کے تمام عواقب و عواطف پر بہت کم غور کرتی ہے ۔۔۔ اپنے ڈراموں کے ابواب پر بھی تاریخ فرداً فرداً نہیں سوچتی لیکن اگر اس کے قلم سے کوئی اچھا ڈرامہ نکل جائے تو صدیوں تک اس کی دُھوم مچی رہے گی۔

یہ ڈرامہ جو اب آپ پڑھیں گے تاریخ کا ایک مکمل ڈرامہ ہے ۔۔۔ منظر ہندوستان کا ہے ۔۔۔ پلاٹ ہے دنیا کو فتح کرنے کا خیال ۔۔۔ ہیرو ہے بابر شیرِفرغانہ ۔ ایک بہت بڑی سلطنت کا خالق ۔۔۔ مغلیہ خاندان کا سب سے پہلا بادشاہ ۔ پردہ اُٹھتا ہے ۔

بابر: (خط لکھواتا ہے) خواجہ کیلان کو لکھو اگر مابدولت کی ہدایات پر عمل نہ کیا گیا، اگر ہمارے احکام کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔۔۔ اگر خزانے کی حالت درست نہ ہوئی، اگر کسانوں کی بدحالی دُور نہ ہوئی تو اسکی ساری ذمہ داری اس کے سرپر ہوگی ۔۔۔ کابل میں اگر ابتری پھیلی ہوئی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پانچ چھ آدمی بیک وقت حکومت کرنا چاہتے ہیں۔۔۔

- Advertisement -

میرمنشی: لکھ لیا جہاں پناہ !

بابر: اس کو یہ بھی لکھو کہ وہ شہر کو بہتر بنانے کی کوشش کرئے۔ قلعہ کی چار دیواری ہی میں محل کی عمارت سماجانی چاہیئے۔۔۔ جومعمار اس محل کو بنا رہا ہے وہ یہاں آگرے سے ہمارے بھیجے ہوئے آدمی کے ساتھ محل کے نقشوں کی بابت مفصل گفتگو کرئے اور اس سے مشورے لے ۔۔۔ شاہی باغات میں پانی کا انتظام اور اچھے پیمانے پر ہونا چاہیئے ۔۔۔ روّشوں میں یگانگت ہو ۔۔۔ کیا ریوں میں پھول ایسے لگائے جائیں جن میں خوشبو ہو۔

میرمنشی: لکھ لیا ظلِ الٰہی ۔

بابر: (ٹہلتا ہے) ۔۔۔ آہ ! کابل ۔۔۔ ہمیں اس سرزمین سے کتنا پیار ہے ! کابل کے سردے!۔۔۔ ان کی مٹھاس ۔۔۔ ان کا رس!! ۔۔۔ میر منشی ۔

میرمنشی: ارشاد عالی جاہ!

بابر: خواجہ کیلان ہمارا دوست ہے ۔۔۔ اس کو کبھی کبھی ہم اپنے دل کی باتیں بھی سنایا کرتے ہیں ۔۔۔ اس کو لکھو بابر بادشاہ کی رُوح اپنے وطن کو دیکھنے کے لیئے بے تاب ہے۔ یہ ہندوستان کا کام ہم قریب ختم کرچکے ہیں۔ جب پوری طرح ختم ہوجائے گا۔ تو ہم فوراً ہی اپنے پیارے وطن کابل کا رخ کریں گے۔ آہ ہمیں کابل سے کتنی محبت ہے ۔۔۔ کابل ۔۔۔ کابل۔۔۔

(ٹہلتا ہے پھر آہ بھرتا ہے )

بابر: کابل ۔۔۔ پچھلے دنوں ہمیں سروے پیش کیئے گئے۔۔۔ خدا گواہ ہے یہ سروے دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔۔۔ طبیعت اُداس ہوگئی ۔۔۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ جب سے ہم نے شراب چھوڑی ہے ہماری طبیعت اکثر اُداس رہتی ہے ۔ لیکن خدا کی مہربانی ہے کہ اس کی طلب دن بدن کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ خواجہ کیلان سے کہو کہ ہمارے نقشِ قدم پر چلے۔ شراب چھوڑ دے۔اس حرام شے کو ہاتھ تک نہ لگائے ۔۔۔ (ٹہلتا ہے) ۔۔۔ لکھ چکے ؟

میرمنشی: ہاں عالی جاہ!

بابر: تو آخر میں اس کو تاکیداً لکھ دو کہ وہ ہمارے حرم کی تمام عورتوں کو اور ہماری بہنوں کو حفاظت سے یہاں بھجوادے۔۔۔ وہ عوام کے حالات سے بہت زیادہ دلچسپی لینا چاہتی ہیں جوکہ ہم عورتوں کے لیئے ضروری سمجھتے ہیں ۔

یہ خط لکھوانے کے فوراً بعد ظہیرالدین بابر بادشاہ کو میدان جنگ میں جانا پڑا۔ گنگا کے اس پار کی سلطنت میں جو کچھ ہو رہا تھا اس سے بابر اچھی طرح باخبر تھا ۔ دھول پور میں ایک روز سنگ مر مر کے ایک نامکمل محل کا معائنہ کر رہا تھا کہ ایلچی آیا اس نے شہنشاہ کو خبردی کہ محمود لودھی نے مشرق کی طرف سے حملہ کردیاہے اورتمام افغان اس کی مدد کر رہے ہیں ۔

بابر نے ایک دم فیصلہ کیا اور اپنے تمام پرانے ارادے بدل کر اس طرف کا رخ کیا۔ جہاں فتنہ کھڑا کیا جارہا تھا ۔۔۔ دو فروری سن پندرہ سو انتیس کو وہ اپنی کمزور صحت کے باوجود محمود لودھی کے کان لپیٹنے کے لیئے روانہ ہوا۔

کبھی گھوڑے پر کبھی کشتی میں اس نے پانی اور خشکی کا فاصلہ طے کیا اور اپنے جرنیل عسکری سے جاملا جو دشمن کے مقابلے میں پیچھے ہٹتا چلا آرہا تھا ۔۔۔ لیکن بابر کی دہشت اتنی تھی کہ وہ الٰہ آباد تک بھی نہ پہنچا تھا کہ افغانوں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ بنارس سے اٹھ بھاگے۔محمود لودھی بنگالیوں کی پناہ میں چلا گیا ۔ بابر کے انتقامی ارادوں اور ان کی تکمیل کے درمیان دو دریا بہہ رہے تھے ۔۔۔ گنگا اور گھاگرا ۔۔۔ ظاہر ہے کہ بابر کی فوجوں کے لیئے دشمن پر حملہ کرنا بہت مشکل تھا۔ مگر ایک بار پھر تیمور اور چنگیز خان کا لہو بابر کی رگوں میں آتش سیال کی طرح دوڑا اور محمود لودھی اپنے بنگالی طرفداروں سمیت بابر کی عسکری قوتوں کے سامنے جھک گیا ۔۔۔ اس ناممکن فتح کو ممکن بنا کر تھکا ماندہ بابر آگرہ واپس آیا ۔۔۔ 24 جون جمعرات کو صبح نو بجے وہ اپنے دارالخلافہ میں داخل ہوا ۔۔۔ بارشوں میں پچاس میل روزانہ کی مسافت کرکے ۔

خادم: جہاں پناہ ۔۔۔ روض�ۂ ہشت بہشت کے ناظمِ اعلیٰ حضور کی خدمت میں انگور اور سردے پیش کرناچاہتے ہیں۔

بابر: سردے۔۔۔ انگور ۔۔۔ (دفعتاً چونک کر) تو پھل لے آئیں ۔ وہ بیلیں جو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے باغ میں اُگائی تھیں ۔۔۔ کہاں ہے روض�ۂ ہشت بہشت کا ناظمِ اعلیٰ ۔۔۔ اس کو ہمارے حضور میں پیش کرو۔

خادم: بہت اچھاعالی جاہ !

بابر: (خوش ہوکر) ۔۔۔ ہندوستان کی زمین کے بطن سے پہلی بار کابل کے دوپھل پیدا ہو رہے ہیں ۔ (فوراً ہی یہ سو چ کر اس نے اچھا اور ذو معنی فقرہ کہا ہے) ہندوستان کی زمین کے بطن سے پہلی بار کابل کے دو پھل پیدا ہو رہے ہیں۔۔۔

شاید اور بھی ہوں ۔۔۔ ہندوستان کی وہ تمام وسعت جو کبھی لودھی اپنے دامن میں لیئے پھرتا تھا، آج بابر کے نقشِ قدم اس پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ سے گوالیار اورچندیری تک اور دریائے جیہون سے بنگال تک اس کی سلطنت ایک وسیع چاندنی کی طرح بچھی ہوئی ہے ۔ لیکن ہمارا دل ابھی تک مطمئن نہیں ہوا ۔۔۔ برلاس ۔

برلاس : عالی جاہ !

بابر: برلاس۔۔۔ تم یہاں کب کے کھڑے ہو۔

برلاس : جب سے عالی جاہ ! کتابِ دل کی ورق گردانی میں مصروف ہیں۔

بابر: تم کس نتیجہ پر پہنچے ۔

برلاس: ہندوستان کے شہنشاہ کا دل اس کی سلطنت سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔

بابر : برلاس ! تمہارے اس تعریفی فقرے نے ہماری بات کا جواب نہیں دیا ۔ تم ہمارے لائق وزیراور پرخلوص دوست ہو ۔۔۔ ہمیں یہ بتاؤ کہ اتنی فتوحات حاصل کرنے پر بھی ہمارے دل کو چین کیوں نصیب نہیں ہوا ۔۔۔ ہم اُداس کیوں رہتے ہیں ۔

برلاس: تیمور کا خون جب ہر وقت جہاں پناہ کے کانوں میں سرگوشیاں کرتا رہا۔ تو اُداس ہونا ضروری ہے ۔۔۔ سمرقند کا سنہرا خیال ۔۔۔

بابر : برلاس تم نے ہماری دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔ آہ ۔۔۔ سمرقند ۔۔۔ ہندوستان بابر بادشاہ کی انتھک کوششوں کا شاندا ر انعام ہے ۔۔۔ لیکن ہماری کس قدر خواہش ہے کہ وطن کی اونچی اونچی گھاٹیاں ایک بار پھر ہمارے تسلط میں ہوں ۔۔۔ سمرقند ہماری جوانی کا سنہرا خواب ہے۔

خادم: جہاں پناہ ۔۔۔ روض�ۂ ہشت بہشت کے ناظمِ اعلیٰ حاضر ہیں۔

بابر: (خوش ہوکر) مابدولت اس کی آمد سے خوش ہوئے ۔۔۔ برلاس ۔۔۔ شہنشاہ بابر کی ایک کمزوری آج تم کو معلوم ہوجائیگی۔۔۔ کابل کے سردوں پر وہ بُری طرح مرتا ہے۔ (ہنستا ہے)

ناظم: غلام کورنش بجا لاتا ہے ۔ جہاں پناہ !

بابر: روض�ۂ ہشت بہشت کا ناظمِ اعلیٰ مقرر کرکے مابدولت نے غلط انتخاب نہیں کیا تھا ۔۔۔ برلاس ۔۔۔ کابل کے سردے اور انگور آگرے کی مٹی بھی پال سکتی ہے۔ ہمارے منہ میں پانی بھر آیا ۔ سردے کی ایک قاش نمونے کے طور پر ہم ابھی چکھنا پسند کریں گے۔۔۔ اور انگور کے چند دانے بھی۔

ناظم: ابھی حاضر کرتا ہوں جہاں پناہ !

بابر: برلاس ہم نے کابل پیغام بھجوایا تھا کہ ہماری ہمشیرہ خاتون زادہ اور ہماری چہیتی بیگم ماہم کابل سے فوراً یہاں چلی آئیں۔۔۔ وہاں سے کوئی اطلاع آئی ؟

برلاس : ابھی تک کوئی اطلاع نہیں آئی عالی جاہ ۔۔۔ بارشیں بہت زوروں پر ہو رہی ہیں ۔ اس لیئے پیغام رسانی میں بڑی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔۔۔ یوں بھی آگرے سے کابل پہنچنے میں پانچ مہینے صرف ہوتے ہیں۔

بابر: ہم نے طے یہ کیا تھا کہ جب ماہم کی آمد کی اطلاع ہمیں ملے گی تو ہم آگرے سے ساٹھ میل دور علی گڑھ میں اس کے استقبال کے لیئے جائیں گے۔

ستائیس جون سن پندرہ سو انتیس کو موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ منوں پانی برس رہا تھا۔

خادم: جہاں پناہ کابل سے ایلچی آیا ہے۔

بابر: (چونک کر) ۔۔۔ کابل سے۔۔۔ اسے فوراً ہماری خدمت میں حاضر کرو۔

خادم : بہت اچھا جہاں پناہ !

بابر: ٹھہرو ہم خود اسے ملتے ہیں ۔۔۔ وہ ضرور ہماری چہیتی بیگم ماہم کی خبر لایا ہے۔

خادم : جی ہاں عالی جاہ !۔۔۔ و ہ حضور کی قدم بوسی کے لیئے اتنی بے تاب تھیں کہ آگرے میں حضور کا انتظار کیئے بغیر آگرے تشریف لے آئی ہیں۔۔۔ ان کی سواری یہاں سے صرف چند میل دُور ہوگی۔

بابر: (مضطرب ہوکر) اس کا شوقِ ملاقات ہمارے شوقِ دید سے زیادہ تیز ثابت ہوا ۔۔۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ وہ اتنی جلدی پہنچ جائے گی۔۔۔ افسوس کہ ہم وعدہ کے مطابق علی گڑھ جاکر اس کا استقبال نہ کرسکے۔۔۔ ہماری ننھی گلبدن بھی اس کے ہمراہ ہوگی ۔۔۔ ننھی گلو۔۔۔ دیکھو ہماری سواری تیار کرو ۔ نہیں ۔۔۔ ہم اتنی دیر نہیں کرسکیں گے ۔ اُف ۔۔۔ ایک زمانہ ہوگیا ہے ۔ ہمیں ماہم کو دیکھے ہوئے ۔۔۔ لیکن اب ۔۔۔ لیکن اب تو صرف چند لمحات کا سوال ۔۔۔ ہم پیدل جائیں گے۔

خادم: جہاں پناہ! باہر بارش ہو رہی ہے ۔۔۔ پانی کی نہریں بہہ رہی ہیں۔

بابر: کوئی ہرج نہیں ۔۔۔ ہمارا فرغل ۔۔۔ ہمارا فرغل حاضر کرو۔

خادم: جہاں پناہ ۔۔۔ بارش معمولی نہیں ۔۔۔ طوفان ہے۔

بابر: (ہنستا ہے) تمہارا بادشاہ بڈھا ہوگیا ہے کمزور ہوا۔۔۔ ابھی پچھلے دنوں اس نے گنگا تینتیس ہاتھوں میں پار کی ہے ۔۔۔ طوفان ؟ ۔۔۔ ہم نے اپنی زندگی میں کئی طوفان دیکھے ہیں ۔۔۔ بارش اور کیچڑ (ہنستا ہے) ماہم ہمارا راستہ دیکھ رہی ہوگی۔۔۔ ہم جاتے ہیں۔

بارش کے طوفان میں بابر کیچڑ سے اٹی ہوئی سڑک پر دوڑتا چلا گیا ۔۔۔ حتیٰ کہ وہ اپنی محبوبہ کے پاس پہنچ گیا جو گھوڑے پر سوار اس طوفان میں اپنے مالک سے ملنے آرہی تھی۔

ماہم : (حیرت زدہ ہوکر) ۔۔۔ جہاں پناہ ۔۔۔ آپ ۔۔۔ میری آنکھیں مجھے دھوکا تو نہیں دے رہیں۔

بابر: اوہ ۔۔۔ ماہم تم سے مل کر ہمیں کتنی خوشی ہوئی۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو۔ بیٹھی رہو ۔۔۔ گھوڑے پر سے اُترنے کی تکلیف نہ کرو۔

ماہم : جہاں پناہ میں ادب کیسے بجا لاؤں ۔

بابر: خُدا کے لیئے ایسے موقعے پر تکلّفات نہ برتو۔۔۔ تمہارا بادشاہ انسان بھی ہے اور ۔۔۔ محبت تو ہرتکلّف سے بے نیاز ہوتی ہے۔

ماہم: (خوش ہوکر ) جہاں پناہ ۔۔۔ میں کیسے ۔۔۔ میں کیسے ۔۔۔

بابر: چھوڑو ان باتوں کو یہ بتاؤ راستے میں تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی ۔۔۔ سفر کیسے کٹا۔۔۔ آہ ! ماہم تمہیں دیکھنے کے لیئے ہم کتنے بے تاب تھے ۔۔۔خُدا کے لیئے گھوڑے پر بیٹھی رہو ۔۔۔ باگ ہمیں دے دو۔۔۔ یہ جھجک کیسی ؟

ماہم: (جھجک کے ساتھ) ۔۔۔ جہاں پناہ ۔۔۔

بابر: (ہنس کر) ۔۔۔اتنی بڑی سلطنت کی عنان ہمارے ہاتھ میں ہے ۔۔۔کیا ہم ایک گھوڑے کی باگ نہیں تھام سکتے ۔۔۔ (ہنستاہے) اور پھر اس گھوڑے پر تو ہماری محبوبہ سوار ہے۔

ماہم: جہاں پناہ ! میں اس عزت افزائی کا شکریہ کیسے اداکروں۔

بابر: باگ ہمارے ہاتھ میں دو ۔۔۔ ہم تمہیں بتائیں گے ۔

بابر کی صحت دن بدن گرنے لگی۔۔۔ سن پندرہ چو چھبیس میں پانی پت کی لڑائی کے بعد اس کو زہر دینے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ یہ زہر اس کو ہلاک نہ کرسکا مگر اس کا اثر بابر کے جسم میں تادمِ آخر موجود رہا۔ کہتے ہیں کہ سلطان ابراہیم کی وفات کے بعد اس کی ماں نے شاہی محل کے بکاولوں کو زہریلا سفوف دیا اور ان سے کہاکہ بابر کے خاصے پر چھڑک دیں یہ خاصے کھانے کے بعد جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے بابر بہت دیر تک بیمار رہا ۔

شیرِفرغانہ اب تھک کر چُور چُور ہوگیا تھا ۔۔۔ وہ قوت جس نے ہندوستان پر اس کا سکہ بٹھا دیا تھا اب اس میں نہیں رہی تھی ۔۔۔ اب جہاں بانی کا خیال اس کے دل و دماغ میں نہیں رہا تھا ۔

بابر: ماہم ۔۔۔

بابر: ماہم ۔۔۔ جہاں پناہ نہ کہو ۔۔۔ یہ جہان ہماری پناہ میں نہیں ۔ ہم خود اس کی پناہ کے طالب ہیں ۔۔۔ اب جی چاہتا ہے کہ ایسی جگہ جائیں جہاں امن اور چین ہو ۔۔۔ سکون ہو ۔۔۔ شہنشاہی دردِ سر ہے۔۔۔ خدا کی قسم دردِ سر ہے ۔۔۔ ہم اب درویشوں کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ تمام ہنگاموں سے آزاد ہوکر ہم کسی ایسے مقام کی تلاش میں ہیں جہاں ہم اپنے کاندھوں پر سے شہنشاہیت کا بوجھ اتار کر ایک طرف رکھ دیں اور آرام کرسکیں ۔ (لہجے میں زیادہ سنجیدگی پیدا ہوجاتی ہے) ۔۔۔ ماہم جی چاہتا ہے ۔ ذرافشاں چلا جاؤں ۔ وہاں کے باغوں میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا بنوالوں۔۔۔ اب یہ محل کاٹنے کو دوڑتا ہے ۔ جہاں قدم قدم پر کورنش بجا لائی جاتی ہے ۔۔۔ جہاں ہزاروں خدام کا جمگھٹا لگا رہتا ہے ۔۔۔ زرافشاں کے باغ ہوں ۔ ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو۔۔۔ اور صرف ایک خادم ہو۔

ماہم: جہاں پناہ کو اگر یہی کچھ کرنا تھا تو مجھے یہاں بلوانے کی کیا ضرورت تھی ۔

بابر: ۔۔۔ آہ تم نہیں سمجھ سکیں ۔۔۔ ماہم تم عورت ہو ۔۔۔ تمہاری محبت بابر سے ہے ۔ لیکن بابر بادشاہ سے زیادہ ہے ۔۔۔ یہ عورت کمزوری ہے ۔۔۔ بابر بادشاہ کو اپنی عظمت اور اپنے جلال کا اتنا خمار نہیں ہوگا جتنا تمہیں ہے ۔(گلبدن جو پاس ہی بیٹھی ہے رونا شروع کردیتی ہے) ۔۔۔ گلبدن۔۔۔ یہ تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔

گلبدن: میں ۔۔۔ میں ۔۔۔ میں جھونپڑے میں نہیں رہوں گی۔

بابر: (ہنستا ہے) گلو ۔۔۔ تو جھونپڑے میں نہیں رہے گی۔۔۔ اچھا بتا کہاں رہے گی؟

گلبدن: (سسکیوں کے ساتھ ) ۔۔۔ اس محل میں ۔۔۔

اس محل میں جہاں پناہ !

بابر : یہ محل تجھے پسند آگیا !

گلبدن: (سسکیوں کے ساتھ ) ہاں ۔

بابر: (ہنستا ہے) ۔۔۔ اچھا تو ہم نے صرف تیرے لیئے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ لے اب مسکرادے۔

بابر درحقیقت سلطنت کے کام سے دست بردار ہوجانا چاہتا تھا ۔ مگر وہ بہت ہوشیار، دقیقہ رس اور سچا سپاہی تھا ۔۔۔ وہ اس وقت تک تخت چھوڑنے کے لیئے تیار نہ تھا جب تک اس کا بدل نہ مل جائے۔

بابر کی جگہ کون لے سکتا تھا ۔۔۔ اس کا بیٹا ہمایوں بے شک بہادر تھا اور بابر کو اس سے محبت بھی تھی ۔ مگر وہ بے پرواہ اور غیر ذمہ دار تھا۔ ملتون طبیعت کے باعث بھی وہ اتنی بڑی سلطنت کا انتظام کرنے کا اہل نہیں تھا اس کے علاوہ اس نے تازہ تازہ سمرقند کے معاملے میں اپنے آپ کو ناکارہ ثابت کیا تھا ۔ بابر کا حکم یہ تھا کہ وہ فوراً بدخشان جائے اور ازبکوں کی سرکوبی کرئے جو دن بدن طاقت پکڑ رہے تھے۔۔۔ ہمایوں نے اس حکم کے مطابق سمرقند پر چڑھائی کی اور حصار پر قبضہ بھی کرلیا۔ مگر جب اس کو اپنی ماں کا یہ پیغام ملا کہ بابر ہندوستان کا تخت اپنے داماد محمد مہدی خواجہ کو دینے والا ہے تو وہ جھٹ پٹ بدخشاں سے کابل پہنچا اور اپنے چھوٹے بھائی ہندوال کو جس کی عمر صرف دس سال تھی اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اس کی جگہ چلا جائے۔ جلدی جلدی یہ کام کرنے کے بعد ہمایوں اپنے باپ کی اجازت لیئے بغیر آگرے چلا آیا۔ بابر کو جب اس نامعقول حرکت کا علم ہوا تو اسے بہت طیش آیا چنانچہ سزا کے طور پر اس نے ہمایوں کو آگرے سے سو میل دُور سمبل میں نظربند کردیا ۔۔۔ ماہم نے اپنے بیٹے کو معاف کرانے کی بہت کوشش کی مگر شہنشاہ بابر کے نزدیک ہمایوں کا وہاں سے چلے جانا بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ کابل اس کی غیرموجودگی میں حکمران کے بغیر رہ گیا تھا ۔۔۔

بابرکا اندیشہ صحیح ثابت ہوا ۔ ہمایوں کی غیرموجودگی میں سعید خاں نامی ایک منگول سردار نے بدخشاں میں فتنہ برپا کرنے کی ٹھان لی مگر بابر کی دہشت ایک بار پھر کام آئی ۔ جب سعید خاں کو معلوم ہوا کہ شیرِفرغانہ خود اس کی سرکوبی کے لیئے آرہاہے۔ تو وہ فوراً پناہ طالب ہوا ۔

اس سلسلے میں بابر چار مارچ سن پندرہ سو تیس تک لاہو ر میں رہا یہاں سے جب وہ دہلی میں دو مہینے شکار کھیلنے کے لیئے آیا تو اس کی صحت اور زیادہ خراب ہوگئی۔ چنانچہ وہ واپس آگرے چلا آیا۔

ماہم: جہاں پناہ ۔۔۔ آپ کو معلوم ہے میرا نصیرالدین چھ مہینے سے سمبل میں نظر بند ہے اور ۔۔۔

بابر: اس نے جوحماقت کی تھی ۔۔۔

ماہم: جہاں پناہ وہ سخت بیمار ہے ۔۔۔ نظربندی کی حالت میں اس کی بیماری دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ اب میں جہاں پناہ سے کیا عرض کروں ۔۔۔ میں اس کی ماں ہوں ۔

بابر: اور ۔۔۔اور ہم اس کے باپ ہیں ۔

ماہم: میرا لڑکا ایک صرف ہمایوں ہے ۔۔۔ آپ کی اور بھی اولاد ہے ۔۔۔ اور پھر جہاں پناہ کی اتنی بڑی رعایا ہے ۔۔۔ وہ دُکھ جو مجھے ہوسکتا ہے ہندوستان کے بادشاہ کو نہیں ہوسکتا ۔

بابر: بابرہندوستان کا بادشاہ کم ہے ہمایوں کا باپ زیادہ ہے ۔۔۔ تمہاری مامتا کا مقابلہ ہم اپنی شفقت سے نہیں کرنا چاہتے۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ ہماری سخت گیری میں ہمایوں کا مستقبل پوشیدہ ہے ۔۔۔ ہم اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ وہ غایت درجہ بے پرواہ اور غیر ذمہ دار ہے۔ ایسی طبیعت لیکر وہ ہندوستان کا تخت نہیں سنبھال سکتا اس کو جفا کشی سیکھنا چاہیئے۔

ماہم : جہاں پناہ ۔۔۔ چھ مہینے سے وہ نظربندی کی ذلّت برداشت کر رہا ہے ۔ اتنی سزا کیا اس کے لیئے کافی نہیں ۔۔۔ وہ یقیناً نادم ہوگا ۔۔۔ جہاں پناہ میں التجا کرتی ہوں کہ اسے معاف کردیا جائے ۔۔۔وہ بیمار ہے ۔ خطرناک طور پر علیل ہے ۔

بابر: خدا اس کو صحت دے۔

ماہم: ۔۔۔ تو اسے آگرہ سے بلوا لیجیئے ۔۔۔ کنیز سے جہاں پناہ کو جو محبت ہے اس میں ہمایوں سے اپنی شفقت کو بھی شامل فرمالیجئے۔

جواں سال شہزادہ ہمایوں کو آگرے سے ایک پالکی میں لایا گیا ۔ کیونکہ وہ سخت بیمار تھا ۔ بہت علاج معالجہ ہوا۔ مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔۔۔ آخر ایک روز ۔۔۔ بابر اس کمرے میں داخل ہوا ۔ جہاں اس کی چہیتی بیگم ماہم کا لڑکا ہمایوں بستر علالت پر پڑا تھا۔

بابر: ہمایوں ۔۔۔ ہمایوں بیٹا

(ہمایوں بستر پر خاموش پڑا رہتا ہے )

بابر : کچھ منہ سے بولو بیٹا ۔۔۔ تمہارا باپ تمہارے پاس کھڑا ہے ۔

(ہمایوں بیہوش پڑا رہتا ہے )

بابر: تمہاری ماں نے مجھے طعنہ دیا تھا کہ میں اپنی ذات کے سوا اور کسی سے محبت نہیں کرتا ۔۔۔ اپنی ذات کے سوا شہنشاہ بابر کو اور کوئی عزیز نہیں ۔۔۔ لو سُنو! ۔۔۔ میری دُعاسُنو! ۔۔۔(آواز میں دعائیہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے )۔۔۔ اے خدا میں صدق دل سے دعا کرتا ہوں کہ میرے بیٹے ہمایوں کی بیماری مجھے لگ جائے اور وہ تندرست ہوجائے اور اس کے بدلے میں علیل ہوجاؤں ۔۔۔ اے خدا میری دُعا قبول کر اور میری چہیتی بیگم کے لخت جگر کو ہر آفت سے محفوظ رکھ۔

خدا نے بابر کی دُعا قبول کی ۔۔۔ ہمایوں صحت یاب ہوگیا اوراس کی جگہ بابر خطرناک طور پر بیمار ہوگیا ۔

بابر بستر مرگ پر پڑا تھا اس کی ہڈیاں ان تمام جنگوں کے بوجھ کے نیچے کڑکڑا رہی تھیں جو وہ اپنی زندگی میں لڑچکا تھا ۔۔۔ آنکھوں میں غنودگی تھی۔ دفعتاً لال ریشمی چادر میں سرسراہٹ پیدا ہوئی جو شہنشاہ نے اُوڑھ رکھی تھی۔ آنکھیں نیم وا ہوئیں۔ بستر کے پاس کسی کو کھڑا دیکھ کر بابر کے ہونٹ کھلے ۔۔۔

بابر: (کمزور آواز میں) ۔۔۔ تم یہاں کب سے کھڑے ہو۔

ہمایوں: جب سے جہاں پناہ نے میری حاضری کا حکم دیا تھا ۔۔۔ ایک گھنٹے سے ۔۔۔

بابر: ہمیں یاد نہیں کہ ہم نے تمہیں بلالیا تھا۔

ہمایوں: جہاں پناہ کیا مجھ سے ڈر گئے تھے۔

(چند لمحات کے لیئے بابربالکل خاموش رہتا ہے۔ پھر ایک لمبا سانس لیتا ہے )

بابر : اگر خدا نے میرے بعد تمہیں تخت بخشا تو اپنے بھائیوں کو ہلاک نہ کرنا ۔۔۔ ان کی نگہداری کرنا ۔۔۔ بس اب جاؤ ہمایوں ۔۔۔ جاؤ میرے بیٹے جاؤ

چھبیس دسمبر سن پندر ہ سو تیس کو شہنشاہ بابر اپنا آخری اجلاس کرتا ہے اور ہمایوں کے حق میں تخت سے دست بردار ہوجاتا ہے ۔۔۔ شیرِفرغانہ بستر پر آخری کروٹ بدلتا ہے اور کھڑکی میں سے آگرے کی طرف دیکھتا ہے ۔۔۔حدِ نظر تک بابر کو اپنے لگائے ہوئے باغات کی ہریالی دکھائی دیتی ہے ۔۔۔ ان درختوں کے عقب میں مسجد کا مینار آسمان کی طرف سر اُٹھائے نظر آتا ہے۔۔۔

بابر: (ایک لمبا سانس لیتا ہے) ۔۔۔ آگرہ ۔۔۔ آگرہ ۔۔۔ (تھوڑی دیر خاموشی طاری رہتی ہے۔۔۔ پھر اذان کی آواز آتی ہے ۔ یہ آواز کبھی ابھرتی ہے کبھی ڈوبتی ہے)

بابر: (آخری بار جب موذن اللہ اکبر کہتا ہے ۔۔۔ تو بابر بھی اس کا ساتھ دیتا ہے)

اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔

بابر بادشاہ کی رُوح پرواز کرجاتی ہے۔۔۔ اس کی خواہش کے مطابق اس کو کابل میں دفن کیا جاتا ہے جس سے اس کو ناقابلِ بیان محبت تھی ۔۔۔ اس کی آخری آرام گاہ فواروں کے پاس ہے جن کا شفاف اور مضطرب پانی اس کی زندگی کا نقشہ پیش کرتاہے۔

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here