مفت میں کیوں لیں شب غم موت کے آنے کا نام
حوصلے کا پست ہو جانا ہے مر جانے کا نام
اب نہیں لیتے دل ناداں کے سمجھانے کا نام
جیسے آتا ہی نہ ہو ان کو ترس کھانے کا نام
اک زمانہ تھا نگاہ شرمگیں اٹھتی نہ تھی
اب سر محفل نہیں لیتے وہ شرمانے کا نام
کوئے جاناں میں پہنچ کر جیسے جنت مل گئی
اب دل ناداں نہیں لیتا ہے گھر جانے کا نام
مرد قانع کو کسی شے کی نہیں ہوتی کمی
تنگ دستی ہے ہوس میں ہاتھ پھیلانے کا نام
منحصر ہے دل کی دھڑکن پر ہی انساں کی حیات
ورنہ مرگ ناگہاں ہے دل ٹھہر جانے کا نام
ہے طلوع صبح یا تابانیٔ روئے صبیح
منظر شام سیہ گیسو بکھر جانے کا نام
اپنے روٹھے کو منانا ضبطؔ گو آساں نہیں
ہے تقاضائے محبت لیں نہ گھبرانے کا نام
مأخذ : نوائے ضبط
شاعر:ضبط سیتاپوری