کہانی کی کہانی:’’یہ کہانی بچپن کی یادوں کے سہارے اپنے گھر اور گھر کے وسیلے سے ایک پورے علاقے اور اس علاقے کے ذریعے سماج کے مختلف اشخاص کی زندگی کی چلتی پھرتی تصویریں پیش کرتی ہے۔ سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے، علاحدہ عقائد اور ایمان رکھنے والے لوگ ہیں جو اپنے مسائل اور مراتب سے بندھے ہوئے ہیں۔‘‘
ہر تیسرے دن، سہ پہر کے وقت ایک بے حد دبلا پتلا بوڑھا، گھسے اور جگہ جگہ سے چمکتے ہوئے سیاہ کوٹ پتلون میں ملبوس، سیاہ گول ٹوپی اوڑھے، پتلی کمانی والی چھوٹے چھوٹے شیشوں کی عینک لگائے، ہاتھ میں چھڑی لیے برساتی میں داخل ہوتا اور چھڑی کو آہستہ آہستہ بجری پر کھٹکھٹاتا۔ فقیرا باہر آکر باجی کو آواز دیتا، ’’بٹیا۔ چلیے۔ سائمن صاحب آگئے۔‘‘ بوڑھا باہر ہی سے باغ کی سڑک کا چکر کاٹ کر پہلو کے برآمدے میں پہنچتا۔ ایک کونے میں جاکر اور جیب میں سے میلا سا رومال نکال کر جھکتا، پھر آہستہ سے پکارتا، ’’ریشم۔۔۔ ریشم۔۔۔ ریشم۔۔۔‘‘ ریشم دوڑتی ہوئی آتی۔ باجی بڑے آرٹسٹک انداز میں سرود کندھے سے لگائے برآمدے میں نمودار ہوتیں۔ تخت پر بیٹھ کر سرود کا سرخ بنارسی غلاف اتارتیں اور سبق شروع ہو جاتا۔
بارش کے بعد جب باغ بھیگا بھیگا سا ہوتا اور ایک انوکھی سی تازگی اور خوشبو فضا میں تیرتی تو بوڑھے کو واپس جاتے وقت گھاس پر گری کوئی خوبانی مل جاتی۔ وہ اسے اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا۔ ریشم اس کے پیچھے پیچھے چلتی۔ اکثر ریشم شکار کی تلاش میں جھاڑیوں کے اندر غائب ہو جاتی یا کسی درخت پر چڑھ جاتی تو بوڑھا سر اٹھا کر ایک لمحے کے لیے درخت کی ہلتی ہوئی شاخ کو دیکھتا اور پھر سر جھکا کر پھاٹک سے باہر چلا جاتا۔ تیسرے روز سہ پہر کو پھر اسی طرح بجری پر چھڑی کھٹکھٹانے کی آواز آتی۔ یہ معمول بہت دنوں سے جاری تھا۔
جب سے پڑوس میں مسز جوگ مایا چٹرجی کلکتے سے آن کر رہی تھیں، اس محلے کے باسیوں کو بڑا سخت احساس ہوا تھا کہ ان کی زندگیوں میں کلچر کی بہت کمی ہے۔ موسیقی کی حد تک ان سب کے ’گول کمروں‘ میں ایک ایک گرامو فون رکھا تھا۔ (ابھی ریڈیو عام نہیں ہوئے تھے۔ فریجڈیر Status Symbol نہیں بنا تھا۔ ٹیپ ریکارڈ ایجاد نہیں ہوئے تھے اور سماجی رتبے کی علامات ابھی صرف کوٹھی، کار اور بیرے پر مشتمل تھیں) لیکن جب مسز جوگ مایا چٹرجی کے وہاں صبح شام ہارمونیم کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو سروے آف انڈیا کے اعلا افسر کی بیوی مسز گوسوامی نے محکمۂ جنگلات کے اعلا افسر کی بیوی مسز فاروقی سے کہا۔۔۔ ’’بہن جی۔ ہم لوگ تو بہت ہی بیک ورڈ رہ گئے۔ ان بنگالیوں کو دیکھیے، ہر چیز میں آگے آگے۔۔۔‘‘
’’اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ان لوگوں میں جب تک لڑکی گانا بجانا نہ سیکھ لے اس کا بیاہ نہیں ہوتا،‘‘ ملٹری اکیڈیمی کے اعلا افسر کی بیوی مسز جسونت سنگھ نے اظہارِ خیال کیا۔
’’ہم مسلمانوں میں تو گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا ہے، مگر آج کل زمانہ دوسرا ہے۔ میں نے تو ’ان‘ سے کہہ دیا ہے۔ میں اپنی حمیدہ کو ہارمونیم ضرور سکھاؤں گی۔‘‘ مسز فاروقی نے جواب دیا۔
اور اس طرح رفتہ رفتہ ڈالن والا میں آرٹ اور کلچر کی ہوا چل پڑی۔ ڈاکٹر سنہا کی لڑکی نے ناچ سیکھنا بھی شروع کردیا، ہفتے میں تین بار ایک منحنی سے ڈانس ماسٹر اس کے گھرآتے، انگلیوں میں سلگتی ہوئی بیڑی تھامے، منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے جو ’جی جی کتّ تا توم ترنگ تکا تُن تُن، وغیرہ الفاظ پر مشتمل ہوتیں۔ وہ طبلہ بجاتے رہتے اور اوشا سنہا کے پاؤں، توڑوں کی چک پھیریاں لیتے لیتے گھنگھروؤں کی چوٹ سے زخمی ہوجاتے۔
پڑوس کے ایک نوجوان رئیس سردار امرجیت سنگھ نے وائلن پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ سردار امرجیت سنگھ کے والد نے ڈچ ایسٹ انڈیز کے دار السلطنت بٹا ویا میں جواب جمہوریہ انڈونیشیا کا دار السلطنت جکارتا کہلاتا ہے، بزنس کر کے بہت دولت جمع کی تھی۔ سردار امرجیت سنگھ ایک شوقین مزاج رئیس تھے۔ جب وہ گراموفون پر بڑے انہماک سے ببّو کا ریکارڈ،
خزاں نے آکے چمن کو اجاڑ دینا ہے
مری کھلی ہوئی کلیوں کو لوٹ لینا ہے
بار بار نہ بجاتے تو دریچے میں کھڑے ہو کر وائلن کے تاروں پر اسی انہماک سے گز رگڑا کرتے۔ ورنہ پھیری والے بزازوں سے رنگ برنگی چھینٹوں کی جارجت اپنے صافوں کے لیے خریدتے رہتے، اور یہ بڑھیا بڑھیا صافے باندھ کر اور داڑھی پر سیاہ پٹی نفاست سے چڑھا کر مسز فلک ناز مروارید خاں سے ملاقات کے لیے چلے جاتے اور اپنی زوجہ سردارنی بی بی چرن جیت کور سے کہہ جاتے کہ وائلن سیکھنے جارہے ہیں۔
اسی زمانے میں باجی کو سرود کا شوق پیدا ہوا۔
وہ موسم سرما گوناگوں واقعات سے پر گزرا تھا۔ سب سے پہلے تو ریشم کی ٹانگ زخمی ہوئی۔ پھر موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی مس زہرہ ڈربی نے آکر پریڈ گراؤنڈ پر اپنے جھنڈے گاڑے ڈائنا بیکٹ قتّالۂ عالم حسینہ لندن کہلائی۔ ڈاکٹر مس زبیدہ صدیقی کو رات کو دو بجے گدھے کی جسامت کا کتّا نظر آیا۔ مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ہماری زندگیوں سے غائب ہوگئے۔ نیگس نے خودکشی کر لی اور فقیرا کی بھاوج گوریّا چڑیا بن گئی۔ چونکہ یہ سب نہایت اہم واقعات تھے لہٰذا میں سلسلے وار ان کا تذکرہ کرتی ہوں۔
میری بہت خوب صورت اورپیاری ریحانہ باجی نے جو میری چچا زاد بہن تھیں، اسی سال بی۔ اے پاس کیا تھا اور وہ علیگڑھ سے چند ماہ کے لیے ہمارے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ ایک سہانی صبح باجی سامنے کے برآمدے میں کھڑی ڈاکٹر ہون کی بیوی سے باتوں میں مصروف تھیں کہ اچانک برساتی کی بجری پر ہلکی سی کھٹ کھٹ ہوئی اور ایک نحیف اور منحنی سے بوڑھے نے بڑی دھیمی اورملائم آواز میں کہا، ’’میں نے سنا ہے یہاں کوئی لیڈی سرود سیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘
باجی کے سوالات پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ان کی ماہانہ فیس پانچ روپے ہے اور وہ ہفتے میں تین بار ایک گھنٹہ سبق دیں گے۔ وہ کرزن روڈ پر پادری اسکاٹ کی خالی کوٹھی کے شاگرد پیشے میں رہتے ہیں۔ ان کے بیوی بچے سب مرچکے ہیں اور برسوں سے ان کا ذریعۂ معاش سرود ہے جس کے ذریعے وہ آٹھ دس روپے مہینا کما لیتے ہیں۔
’’لیکن اس خوابیدہ شہر میں سرود سیکھنے والے ہی کتنے ہوں گے؟ ‘‘ باجی نے پوچھا۔ انہوں نے اسی دھیمی آواز میں کہا، ’’کبھی کبھی دو ایک طالب علم مل جاتے ہیں۔‘‘ ( اس کے علاوہ انہوں نے اپنے متعلق کچھ نہیں بتلایا) وہ انتہائی خوددار انسان معلوم ہوتے تھے، ان کا نام سائمن تھا۔
پیر کے روز وہ ٹیوشن کے لیے آگئے۔ باجی پچھلے لان پر دھوپ میں بیٹھی تھیں۔ ’’مسٹر سائمن کو یہیں بھیج دو،‘‘ انہوں نے فقیرا سے کہا۔ باجی کی طرف جانے کے لیے فقیرا نے ان کو اندر بلالیا۔ اس روز بڑی سردی تھی اور میں اپنے کمرے میں بیٹھی کسی سٹرپٹر میں محو تھی۔ میرے کمرے میں سے گزرتے ہوئے ذرا ٹھٹک کر سائمن نے چاروں طرف دیکھا۔ آتش دان میں آگ لہک رہی تھی۔ ایک لحظے کے لیے ان کے قدم آتش دان کی سمت بڑھے اورانہوں نے آگ کی طرف ہتھیلیاں پھیلائیں۔ مگر پھر جلدی سے فقیرا کے پیچھے پیچھے باہر چلے گئے۔
ریشم نے ان سے بہت جلد دوستی کر لی۔ یہ بڑے تعجب کی بات تھی۔ کیونکہ ریشم بے انتہا مغرور، اکل کھری اور اپنے سیامی حسن پر حد سے زیادہ نازاں تھی۔ اور بہت کم لوگوں کو خاطر میں لاتی تھی۔ زیادہ تر وہ اپنی ساٹن کے ریشمی جھالر دار غلاف والی ٹوکری کے گدیلوں پر آرام کرتی رہتی اور کھانے کے وقت بڑی مکّاری سے آنکھیں بند کر کے میز کے نیچے بیٹھ جاتی۔ ’’اس کی ساری خاصیتیں ویمپ (Vamp) عورتوں کی سی ہیں،‘‘ باجی کہتیں۔ ’’عورت کی خاصیت بلّی کی ایسی ہوتی ہے، چمکارو تو پنجے نکال لے گی، بے رخی برتوں تو خوشامد شروع کردے گی۔۔۔‘‘
’’اور آدمی لوگوں کی خاصیت کیسی ہوتی ہے باجی؟ ‘‘ میں پوچھتی، باجی ہنسنے لگتیں اور کہتیں، ’’ یہ ابھی مجھے معلوم نہیں۔‘‘
باجی چہرے پر دل فریب اور مطمئن مسکراہٹ لیے باغ میں بیٹھی مظفر بھائی کے بے حد دل چسپ خط پڑھا کرتیں، جو ان کے نام ہر پانچویں دن بمبئی سے آتے تھے۔ جہاں مظفر بھائی انجینئرنگ پڑھ رہے تھے۔ مظفر بھائی میرے اور باجی کے چچازاد بھائی تھے اور باجی سے ان کی شادی طے ہو چکی تھی۔ جتنی دیر وہ باغ میں بیٹھتیں، غفور بیگم ان کے نزدیک گھاس پر پاندان کھولے بیٹھی رہتیں۔ جب باجی اندر چلی جاتیں تو غفور بیگم شاگرد پیشے کی طرف جاکر فقیرا بھاوج سے باتیں کرنے لگتیں یا پھر اپنی نماز کی چوکی پر آ بیٹھتیں۔
غفور بیگم باجی کی بے حد وفادار اناّ تھیں۔ ان کے شوہر نے، جن کی علیگڑھ میں میرس روڈ کے چوراہے پر سائیکلوں کی دکان تھی، پچھلے برس ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کر لیا تھا، اور تب سے غفور بیگم اپنا زیادہ وقت نماز روزے میں گزارتی تھیں۔
سائمن کے آتے ہی ریشم دبے پاؤں چلتی ہوئی آکر خُر خُر کرنے لگتی اور وہ فوراً جیب سے رومال نکال کر اسے کچھ کھانے کو دیتے۔ شام کے وقت جب فقیرا ان کے لیے چائے کی کشتی لے کر برآمدے میں جاتا تو وہ آدھی چائے طشتری میں ڈال کر فرش پر رکھ دیتے اور ریشم فوراً طشتری چاٹ جاتی اور فقیرا بڑ بڑاتا، ’’ہمارے ہاتھ سے تو رانی صاحب دودھ پینے میں بھی نخرے کرتی ہیں۔‘‘
فقیرا ایک ہنس مکھ گڑھوالی نوجوان تھا۔ دو سال قبل وہ چیتھڑوں میں ملبوس، نہر کی منڈیر پر بیٹھا، اون اورسلائیوں سے موزرے بن رہا تھا۔ جو پہاڑیوں کا عام دستور ہے، تو سکھ نندن خانساماں نے اس سے پوچھا تھا، ’’کیوں بے نوکری کرے گا؟‘‘ اور اس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔ ’’ مہینوں سے بھوکوں مر رہا ہوں کیوں نہیں کروں گا۔‘‘ تب سے وہ ہمارے یہاں ’اوپر کا کام‘ کر رہا تھا، اور ایک روز اس نے اطلاع دی تھی کہ اس کے دونوں بڑے بھائیوں کی مٹی ہوگئی ہے اور وہ اپنی بھاوج کو لینے گڑھوال جارہا ہے۔ اور چند دنوں بعد اس کی بھاوج جل دھرا پہاڑوں سے آکر شاگرد پیشے میں بس گئی تھی۔
جل دھرا ادھیڑ عمر کی ایک گوری چٹّی عورت تھی، جس کے ماتھے، ٹھوڑی اور کلائیوں پر نیلے رنگ کے نقش و نگار گدے ہوئے تھے۔ وہ ناک میں سونے کی لونگ اور بڑا سا بُلاق اور کانوں کے بڑے بڑے سوراخوں میں لاکھ کے پھول پہنتی تھی اور اس کے گلے میں ملکہ وکٹوریہ کے روپوں کی مالا بھی پڑی تھی۔ یہ تین گہنے اس کے تینوں مشترکہ شوہروں کی واحد جائیداد تھے۔ اس کے دونوں متوفی شوہر مرتے دم تک یاتریوں کا سامان ڈھوتے رہے تھے اور اتفاق سے اکٹھے ہی ایک پہاڑی سے گر کر مرگئے تھے۔
جل دھرا بڑے میٹھے لہجے میں بات کرتی تھی اور ہر وقت سوئٹر بنتی رہتی تھی۔ اسے کنٹھ مالا کا پرانا مرض تھا۔ فقیرا اس کے علاج معالجے کے لیے فکر مند رہتا تھا اور اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ جل دھرا کی آمد پر باقی نوکروں کی بیویوں نے آپس میں چہ میگوئیاں کی تھیں۔۔۔ ’’یہ پہاڑیوں کے ہاں کیسا برا رواج ہے ایک لُگائی کے دو دو تین تین خاوند۔۔۔‘‘ اور جب جل دھرا کا تذکرہ دوپہر کو کھانے کی میز پر ہوا تھا تو باجی نے فوراً درو پدی کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا پہاڑوں میں پولی اینڈ ری کا رواج مہابھارت کے زمانے سے چلا آتا ہے اور ملک کے بہت سے حصوں کا سماجی ارتقا ایک خاص اسٹیج پر پہنچ کر وہیں منجمد ہوچکا ہے اور پہاڑی علاقے بھی ان ہی پس ماندہ حصوں میں سے ہیں۔
باجی نے یہ بھی کہا کہ پولی اینڈ ری، جسے اردو میں ’چند شوہری ‘ کہتے ہیں، مادرانہ نظام کی یادگار ہے۔ اور معاشرے نے جب مادرانہ نظام سے پدری نظام کی طرف ترقی کی تو انسان بھی کثیر الازدواجی کی طرف چلا گیا۔ اور مادرانہ نظام سے بھی پہلے، ہزاروں سال قبل، تین چار بھائیوں کے بجائے قبیلوں کے پورے پورے گروہ ایک ہی عورت کے ساتھ رہتے تھے اور ویدوں میں ان قبائل کا ذکر موجود ہے۔ میں منہ کھولے یہ سب سنتی رہی۔ باجی بہت قابل تھیں۔ بی۔ اے میں انہیں فرسٹ ڈویژن ملا تھا اور ساری علیگڑھ یونیورسٹی میں اوّل رہی تھیں۔
ایک روز میں اپنی چھوٹی سی سائیکل پر اپنی سہیلیوں کے ہاں جا رہی تھی۔ ریشم میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آرہی تھی۔ اس خیال سے کہ وہ سڑک پر آنے والی موٹروں سے کچل نہ جائے۔ میں سائیکل سے اتری، اسے خوب ڈانٹ کر سڑک پر سے اٹھایا اور باڑ پر سے احاطے کے اندر پھینک دیا اور پیڈل پر زور سے پاؤں مار کر تیزی سے آگے نکل گئی۔ لیکن ریشم احاطے میں کودنے کے بجائے باڑ کے اندر لگے ہوئے تیزنوکیلے کانٹوں والے تاروں میں الجھ گئی۔ اس کی ایک ران بری طرح زخمی ہوئی۔ وہ لہو لہان ہوگئی اور اس نے زور زور سے چلّانا شروع کیا اور اسی طرح تار سے لٹکی چیختی اور کراہتی رہی۔ بہت دیر بعد جب فقیرا ادھر سے گزرا جو جھاڑیوں سے مرچیں اور ٹماٹر توڑنے اس طرف آیا تھا، تو اس نے بڑی مشکل سے ریشم کو باڑ میں سے نکالا اور اندر لے گیا۔
جب میں کملا اور وملا کے گھر سے لوٹی تو دیکھا کہ سب کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔ ’’تمہاری ریشم مر رہی ہے،‘‘ باجی نے کہا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’کم بخت جانے کس طرح جا کر باڑ کے تاروں میں الجھ گئی۔ جنے اس قدر احمق کیوں ہے؟ چڑیوں کی لالچ میں وہاں جا گھسی ہوگی۔ اب بری طرح چلّا رہی ہے۔ ابھی ڈاکٹر صاحب مرہم پٹّی کر کے گئے ہیں۔‘‘
میرا دل دہل گیا۔ ریشم کی اس ناقابلِ برداشت تکلیف کی ذمہ داری میں تھی۔ اس کی تکلیف اور ممکن موت کے صدمے کے ساتھ انتہائی شدید احساسِ جرم نے مجھے سراسیمہ کردیا اور میں جا کر گھر کے پچھواڑے گھنے درختوں میں چھپ گئی تاکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجاؤں۔ کچھ فاصلے پر کھٹ کھٹ بڑھیا کی شکل والی مسز وار بروک کے گھر میں سے وائرلیس کی آواز آرہی تھی۔ دور شاگرد پیشے کے سامنے فقیرا کی بھاوج گھاس پر بیٹھی غفور بیگم سے باتیں کر رہی تھی۔ پچھلے برآمدے میں باجی اب مظفر بھائی کو خط لکھنے میں محو ہو چکی تھیں۔ باجی کی عادت تھی کہ دن بھر میں کوئی بھی خاص بات ہوتی تھی تو وہ فوراً مظفر بھائی کو طویل سا خط لکھتی تھیں۔ ریشم پٹیوں سے بندھی ان کے نزدیک اپنی ٹوکری میں پڑی تھی۔
ساری دنیا پرسکون تھی، صرف میں ایک روپوش مجرم کی طرح اونچی اونچی گھاس میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کروں۔ آخر میں آہستہ آہستہ اپنے والد کے کمرے کی طرف گئی اور دریچے میں سے اندر جھانکا۔ والد آرام کرسی پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں اندر گئی اور کرسی کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی۔ ’’کیا بات ہے بی بی؟‘‘ میری سسکی کی آواز پر انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ ’’ریشم کو۔۔۔ ریشم کو ہم نے باڑ میں پھینک دیا تھا۔‘‘
’’آپ نے پھینک دیا تھا؟ ‘‘
’’ہم۔۔۔ ہم کملا و ملا کے ہاں جانے کی جلدی میں تھے۔ وہ اتنا منع کرنے کے باوجود پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ ہم نے اسے جلدی سے باغ کے اندر پھینک دیا۔‘‘ اتنا کہہ کر میں نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ رونے کے بعد دل ہلکا ہوا اور جرم کا تھوڑا سا پرائشچت بھی ہوگیا، مگر ریشم کی تکلیف کسی طرح کم نہ ہوئی۔ شام کو سائمن سبق سکھانے کے بعد دیر تک اس کے پاس بیٹھے اس سے باتیں کرتے رہے۔
ریشم کی روزانہ مرہم پٹّی ہوتی تھی اور ہفتے میں ایک دفعہ اسے ’گھوڑا ہسپتال‘ بھیجا جاتا تھا۔ اس کی ران پر سے اس کے گھنے اور لمبے لمبے سرمئی بال مونڈ دیئے گئے تھے اور زخم کی گہری سرخ لکیریں دور تک کھنچی ہوئی تھیں۔ کافی دنوں کے بعد اس کے زخم بھرے اور اس نے لنگڑا کر چلنا شروع کردیا۔ ایک مہینے بعد وہ آہستہ آہستہ لنگڑاتی ہوئی سائمن کو پہنچانے پھاٹک تک گئی اور جب فقیرا بازار سے اس کے لیے چھچھڑے لے کر آتا تو وہ اسی طرح لنگڑاتی ہوئی کونے میں رکھے ہوئے اپنے برتن تک بھی جانے لگی۔
ایک روز صبح کے وقت مسٹر جارج بیکٹ باڑ پر نمودار ہوئے اور ذرا جھجکتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی طرف بلایا۔ ’’ریشم کی طبیعت اب کیسی ہے؟ ’’انہوں نے دریافت کیا۔ ’’مجھے مسٹر سائمن نے بتایا تھا کہ وہ بہت زخمی ہوگئی تھی۔‘‘
مسٹر جارج بیکٹ نے پہلی بار اس محلّے میں کسی سے بات کی تھی۔ میں نے ریشم کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور وہ اپنے چارخانہ کوٹ کی پھٹی ہوئی جیبوں میں انگوٹھے ٹھونس کر آگے چلے گئے۔
مسٹر جارج بیکٹ ایک بے حد فاقہ زدہ اینگلو انڈین تھے اور پلپلی صاحب کہلاتے تھے۔ وہ سڑک کے سرے پر ایک خستہ حال کائی آلود کاٹج میں رہتے تھے اور بالٹی اٹھا کر صبح کو میونسپلٹی کے نل پر خود پانی بھرنے جایا کرتے تھے۔ ان کی ایک لڑکی تھی جس کا نام ڈائنا تھا۔ وہ پریڈ گراؤنڈ پر ایک انگریزی سنیما ہال میں ٹکٹ بیچتی تھی اور خوش رنگ فراک پہنے اکثر سامنے سے سائیکل پر گزرا کرتی تھی، اس کے پاس صرف چار فراک تھے جنہیں وہ دھو دھو کر اور بدل بدل کر پہنا کرتی تھی اور مسز گوسوامی، مسز فاروقی اور مسز جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’سنیما ہال کی نوکری کے اسے صرف پچیس روپلّی ملتے ہیں اور کیسے ٹھاٹ کے کپڑے پہنتی ہے۔ اسے گورے پیسے دیتے ہیں۔‘‘ لیکن گورے اگر اسے پیسے دیتے تھے (یہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسے گورے کیوں پیسے دیتے تھے) تواس کا بوڑھا باپ نل پر پانی بھرنے کیوں جاتا تھا۔
یہ پنشن یافتہ متمول انگریزوں کا محلہ تھا جو پر فضا خوبصورت کوٹھیوں میں خاموشی سے رہتے تھے۔ ان کے انتہائی نفاست سے سجے ہوئے کمروں اور برآمدوں میں لندن السٹریٹیڈ نیوز، ٹیٹلر، کنٹری لائف اور پنچ کے انبار میزوں پر رکھے تھے۔ اور ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے پلندے سمندری ڈاک سے ان کے نام آتے تھے۔ ان کی بیویاں روزانہ صبح کو اپنے اپنے ’مورننگ روم‘ میں بیٹھ کر بڑے اہتمام سے ’ہوم‘ خط لکھتی تھیں۔ اور ان کے ’گول کمروں‘ میں ان کے بیٹوں کی تصویریں رو پہلے فریموں میں سجی تھیں جو مشرقی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں سلطنت برطانیہ کے آفتاب کو مزید چمکانے میں مصروف تھے۔ یہ لوگ مدّتوں سے اس ملک میں رہتے آرہے تھے مگر ’کوئی ہائے‘ اور ’عبدل چھوٹا حاضری مانگتا‘ سے زیادہ الفاظ نہ جانتے تھے۔ یہ عزت پسند انگریز دن بھر باغبانی یا برڈ واچنگ (Bird watching) یا ٹکٹ جمع کرنے میں مصروف رہتے تھے۔
یہ بڑے عجیب لوگ تھے۔ مسٹر ہارڈ کاسل تبتی زبان اور رسم و رواج کے ماہر تھے۔ مسٹر گرین آسام کے کھاسی قبائل پر اتھارٹی تھے۔ کرنل وایٹ ہیڈ جو شمالی مغربی سرحد کے معرکوں میں اپنی ایک ٹانگ کھو چکے تھے اور لکڑی کی ٹانگ لگاتے تھے، خوش حال خاں خٹک پر عبور رکھتے تھے۔ میجر شیلٹن اسٹیس مین میں شکار کے متعلق مضامین لکھا کرتے تھے۔ اور مسٹر مارچ مین کو شطرنج کا خبط تھا۔ مس ڈرنک واٹر پلانچٹ پر روحیں بلاتی تھیں اور مسزوار بُروک تصوریں بناتی تھیں۔
مسزوار بُروک ایک بریگیڈیر کی بیوہ تھیں اور ہمارے پچھواڑے رہتی تھیں۔ ان کی بوڑھی پھونس کنواری بہن بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان دونوں کی شکلیں لمبی چونچ والے پرندوں کی ایسی تھیں۔ اور یہ دونوں اپنے طویل و عریض ڈرائنگ روم کے کسی کونے میں بیٹھی آبی رنگوں سے ہلکی پھلکی تصویریں بنایا کرتی تھیں۔ وہ دونوں اتنی مختصر سی تھیں کہ پھولدار غلافوں سے ڈھکے ہوئے فرنیچر اور دوسرے ساز و سامان کے جنگل میں کھو جاتی تھیں اور پہلی نظر میں بڑی مشکل سے نظر آتی تھیں۔
ڈالن والا کی ایک کوٹھی میں ’انگلش اسٹورز‘ تھا۔ جس کا مالک ایک پارسی تھا۔ محلے کی ساری انگریز اور نیٹو بیویاں یہاں آکر خریداری کرتی تھیں اور اسکنڈل اور خبروں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتی تھیں۔
اس خوش حال اور مطمئن انگریزی محلے کے واحد مفلس اور اینگلو انڈین باسی بجھی بجھی نیلی آنکھوں والے مسٹر جارج بیکٹ تھے۔ مگر وہ بڑی آن بان والے اینگلو انڈین تھے اور خود کو پکّا انگریز سمجھتے تھے، انگلستان کو ’ہوم‘ کہتے تھے اور چند سال ادھر جب شہنشاہ جارج پنجم کے انتقال پر کولا گڑھ میں سلو مارچ پر بڑی بھاری پریڈ ہوئی تھی اور گوروں کے بینڈ نے موت کا نغمہ بجایا تھا تو مسٹر جارج بیکٹ بھی بازو پر سیاہ ماتمی پٹّی باندھ کر کولا گڑھ گئے تھے اور انگریزوں کے مجمعے میں بیٹھے تھے اور ان کی لڑکی ڈائنا روز نے اپنے سنہرے بالوں اور خوبصورت چہرے کو سیاہ ہیٹ اور سیاہ جالی سے چھپایا تھا۔ اور مسٹر بیکٹ بہت دنوں تک سیاہ ماتمی پٹّی بازو پر باندھے رہے تھے۔
لیکن بچّے بہت بے رحم ہوتے ہیں۔ ڈالن والا کے سارے ہندوستانی بچّے مسٹر جارج بیکٹ کو نہ صرف پلپلی صاحب کہتے تھے بلکہ کملا اور وملا کے بڑے بھائی سورن نے جو ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا اور ڈون پبلک اسکول میں پڑھتا تھا۔ مسٹر بیکٹ کی لڑکی ڈائنا کو چڑانے کی ایک اور ترکیب نکالی تھی۔
کملا اور وملا کے والد ایک بے حد دل چسپ اور خوش مزاج انسان تھے۔ انہوں نے ایک بہت ہی انوکھا انگریزی ریکارڈ ۱۹۲۸ء میں انگلستان سے خریدا تھا۔ یہ ایک انتہائی بے تکا گیت تھا جس کا اینگلو انڈین اردو ترجمہ بھی ساتھ ساتھ اسی دھن میں گایا گیا تھا۔ نہ جانے کس منچلے انگریز نے اسے تصنیف کیا تھا۔ یہ ریکارڈ اب سورن کے قبضے میں تھا۔ اور جب ڈائنا سائیکل پر ان کے گھر کے سامنے سے گزرتی تو سورن گرامو فون دریچے میں رکھ کر اس کے بھونپو کا رخ سڑک کی طرف کردیتا اور سوئی ریکارڈ پر رکھ کر چھپ جاتا۔ مندرجہ ذیل بلند پایہ روح پرور گیت کی آواز بلند ہوتی۔۔۔
There was a rich merchant in London did stay.
Who had for his daughter an uncommon liking?
Her name it was Diana, she was sixteen years old,
And had a large fortune in silver and gold.
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا۔
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سو لے برس کا عمر
جس کے پاس بہت کپڑا چاندی اور سونا
As Diana was walking in the garden one day.
Her father came to her and thus did he say:
Go dress yourself up in gorgeous array,
For you will have a husband both gallant and gay.
ایک دن جب ڈائنا باغیچہ میں تھی
باپ آیا اور بولا بیٹی
جاؤ کپڑا پہنو اور ہو صفا
کیوں کہ میں ترے واسطے ایک خاوند لایا
O father, dear father I’ve made up my mind,
To marry at present I don’t feel inclined.
And all my large fortune every day adore,
if you let live me single a year or two more.
ارے رے مورا باپ تب بولی بیٹی
شادی کا ارادہ میں ناہیں کرتی
اگر ایک دو برس تکلیف ناہیں دیو
آ آ ارے دولت میں بالکل چھوڑ دیوں
Then gave the father a gallant reply:
if you don’t be this young man’s bride,
I’ll leave all your fortune to the fearest of things,
And you should reap the benefit of single thing.
تب باپ بولا ارے بچّہ بیٹی
اس شخص کی جورو تو ناہیں ہوتی
مال اور اسباب تیرا کُرکی کردیوں
اور ایک کچّی دمڑی بھی تجھے نادیوں
As wilikins was walking in the garden one day,
He found his dear Diana lying dead on the way.
A cup so fearful that lay by her side.
And wilikins doth fainteth with a cry in his eye
ایک دن جب ولی کن ہوا کھانے کو گیا
ڈائنا کا مردہ ایک کونے میں پایا
ایک بادشاہ پیالہ اس کے کمر پر پڑا
اور ایک چٹّھی جس میں لکھا،
’’زہر پی کے مرا‘‘
جیسے ہی ریکارڈ بجنا شروع ہوتا، بیچاری ڈائنا سائیکل کی رفتار تیز کر دیتی اور اپنے سنہرے بال جھٹک کر زنّاٹے سے آگے نکل جاتی۔
اس موسم سرما کا دوسرا اہم واقعہ پریڈ گراؤنڈ میں ’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کار نیول‘ کی آمد تھا۔ اس کے اشتہا لنگوروں اور مسخروں کے لمبے جلوس کے ذریعے بانٹے گئے تھے۔ جن پر لکھا تھا، ’’بیسویں صدی کا حیرت ناک تماشا، شیر دل حسینہ مس زہر ڈربی، موت کے کنویں میں، آج شب کو۔۔۔‘‘
سب سے پہلے فقیرا سرکس دیکھ کر لوٹا۔ وہ اپنی بھاوج کو بھی کھیل دکھانے لے گیا تھا۔ اور صبح کو اس نے اطلاع دی تھی۔۔۔ ’’بیگم صاحب۔۔۔ بڑی بٹیا۔۔۔ بی بی۔۔۔ زنانی ڈیتھ آف ویل میں ایسے پھٹ پھٹی چلاتی ہے کہ بس کیا بتاؤں۔۔۔ عورت ہے کہ شیر کی بچّی۔۔۔ ہرے رام۔۔۔ ہرے رام۔۔۔‘‘
دوسرے دن اسکول میں کملا وملا نے مجھے بتایا کہ مس زہرہ ڈربی ایک نہایت سنسنی خیز خاتون ہے۔ اور وہ دونوں بھی اس کے دلیرانہ کمالات بہ چشم خود دیکھ کر آئی ہیں۔
چونکہ میں سرکسوں پر پہلے ہی سے عاشق تھی لہٰذا جلد از جلد باجی کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ پہنچی۔ وہاں تمبو کے باہر ایک اونچے چوبی پلیٹ فارم پر ایک موٹر سائیکل گھڑ گھڑا رہی تھی اور اس کے پاس مس زہرہ ڈربی کرسی پر فروکش تھی۔ اس نے نیلے رنگ کی چمکدار ساٹن کا اس قطع کا لباس پہن رکھا تھا، جو مس نادیا نے ہنٹر والی فلم میں پہنا تھا۔ اس نے چہرے پر بہت سا گلابی پاؤڈر لگا رکھا تھا جو بجلی کی روشنی میں نیلا معلوم ہو رہا تھا۔ اور ہونٹ خوب گہرے سرخ رنگے ہوئے تھے۔ اس کے برابر میں ایک بے حد خوفناک، بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی اسی طرح کی رنگ برنگی ’برجیس‘ پہنے، لمبے لمبے پٹّے سجائے اور گلے میں بڑا سا سرخ آدمی رومال باندھے بیٹھا تھا۔ مس زہرہ ڈربی کے چہرے پر بڑی اکتاہٹ تھی اور وہ بڑی بے لطفی سے سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔
اس کے بعد وہ دونوں موت کے کنویں میں داخل ہوئے جس کی تہہ میں ایک اور موٹر سائیکل رکھی تھی۔ خوف ناک آدمی موٹر سائیکل پر چڑھا اور مس زہرہ ڈربی سامنے اس کی بانہوں میں بیٹھ گئی۔ اور خوف ناک آدمی نے کنویں کے چکّر لگائے۔ پھر وہ اتر گیا اور مس زہرہ ڈربی نے تالیوں کے شور میں موٹر سائیکل پر تنہا کنویں کے چکّر لگائے اور اوپر آکر دونوں ہاتھ چھوڑ دیئے۔ اور موٹر سائیکل کی تیز رفتار کی وجہ سے موت کا کنواں زور زور سے ہلنے لگا اور میں مس زہرہ ڈربی کی اس حیرت انگیز بہادری کو مسحور ہو کر دیکھتی رہی۔ کھیل کے بعد وہ دوبارہ اسی طرح چبوترے پر جا بیٹھی اور بے تعلقی سے سگریٹ پینا شروع کردیا۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔
یہ واقعہ تھا کہ مس زہرہ ڈربی جاپانی چھتری سنبھال کر تار پر چلنے والی میموں اور شیر کے پنجرے میں جانے والی اور اونچے اونچے تاروں اور جھولوں پر کمالات دکھانے والی لڑکیوں سے بھی زیادہ بہادر تھی۔ پچھلے برس وہاں ’عظیم الشان آل انڈیا دنگل‘ آیا تھا، جس میں مس حمیدہ بانو پہلوان نے اعلان کیا تھا کہ جو مرد پہلوان انہیں ہرا دے گا وہ اس سے شادی کرلیں گی۔ لیکن بقول فقیرا کوئی مائی کا لال اس شیر کی بچّی کو نہ ہرا سکا تھا اور اسی دنگل میں پروفیسر تارا بائی نے بھی بڑی زبردست کشتی لڑی تھی اور ان دونوں پہلوان خواتین کی تصویریں اشتہاروں میں چھپی تھیں جن میں وہ بنیان اور نیکریں پہنے ڈھیروں تمغے لگائے بڑی شان و شوکت سے کیمرے کو گھور رہی تھیں۔۔۔
یہ کون پر اسرار ہستیاں ہوتی ہیں جو تار پر چلتی ہیں اور موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتی ہیں اور اکھاڑے میں کشتی لڑتی ہیں۔ میں نے سب سے پوچھا لیکن کسی کو بھی ان کے متعلق کچھ نہ معلوم تھا۔
’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس‘ ابھی تماشے ہی دکھا رہا تھا کہ ایک روز فقیرا پلٹن بازار سے سودا لے کر لوٹا تو اس نے ایک بڑی تہلکہ خیز خبر سنائی کہ مس زہرہ ڈربی کے عشاق، ماسٹر گل قند اور ماسٹر مچھندر کے درمیان چکّو چل گیا۔ ماسٹر مچھندر نے مس زہرہ ڈربی کو بھی چکّو سے گھائل کردیا اور وہ ہسپتال میں پڑی ہیں اور اس سے بھی تہلکہ خیز خبر، جو فقیرا نے چند دن بعد میونسپلٹی کے نل پر سنی، یہ تھی کہ پلپلی صاحب کی مسیا نے سرکس میں نوکری کرلی۔
’’ڈائنا بیکٹ نے۔۔۔؟ ‘‘ باجی نے دہرایا۔ ’’جی ہاں بڑی بٹیا۔۔۔ پلپلی صاحب کی مسیا، سنا ہے کہتی ہے کہ اس سے اپنے باپ کی غریبی اور تکلیف اب نہیں دیکھی جاتی اور دنیا والے تو یوں بھی تنگ کرتے ہیں۔ اوڈین سنیما میں اسے پچیس روپے ملتے تھے۔ سرکس میں پچھتّر روپے ملیں گے۔۔۔ یہ تو سچ ہے۔ وہ غریب تو بہت تھی بڑی بٹیا۔۔۔‘‘
’’اور گورے جو اس کو پیسے دیتے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ غفور بیگم نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا، ’’جاؤ۔ بھاگ جاؤ یہاں سے۔‘‘ لہٰذا میں بھاگ گئی اور باہر جاکر ریشم کی ٹوکری کے پاس بیٹھ کے ڈائنا بیکٹ کی بہادری کے متعلق غور کرنے لگی۔
اب کی بار جب لنگوروں اور مسخروں نے سرکس کے اشتہار بانٹے تو ان پر چھپا تھا، ’’سرکس کے عاشقوں کو مژدہ پری جمال یورپین دوشیزہ کے حیرت انگیز کمالات قتالہ عالم، حسینہ لندن مس ڈائنا روز موت کے کنویں میں آج شب کو۔ ‘‘
ان ہی دنوں سنیما کا چرچا ہوا۔ یوں تو سنیما کے اشتہار عرصے سے لکڑی کے ٹھیلوں پر چپکے سامنے سے گزرا کرتے تھے۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’چیلنج‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں۔ پریڈ کے سامنے،پلیڈیم سنیما میں، آج شب کو۔‘‘
اور۔۔۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’دہلی ایکسپریس‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں پریڈ کے سامنے، راکسی سنیما میں آج شب کو۔‘‘
اور مجھے بڑی پریشانی ہوتی تھی کہ مس سردار اختر دونوں جگہوں پر بیک وقت کس طرح ’کام‘ کریں گی۔ لیکن قسمت نے ایک دم یوں پلٹا کھایا کہ باجی اور ان کی سہیلیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین فلم دیکھنے کو ملیں۔۔۔
’اچھوت کنیا‘ جس کے لیے مسز جوگ مایا چٹرجی نے بتایا کہ ہمارے دیش میں بہت زبردست سماجی انقلاب آگیا ہے اور گرو دیو ٹیگور کی بھانجی دیویکا رانی اب فلموں میں کام کرتی ہیں اور ’جیون لتا‘ جس میں سیتا دیوی نازک نازک چھوٹی سی آواز میں گاتیں۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔۔۔‘‘ اور ’جیون پر بھات‘ جسے باجی بڑے ذوق وشوق سے اس لیے دیکھنے گئیں کہ اس میں خورشید آپا ’کام‘ کررہی تھیں، جو اب رینوکا دیوی کہلاتی تھی، جو اس زبردست سماجی انقلاب کا ثبوت تھا۔
مسز جوگ مایا چٹرجی کی بشارت کے مطابق ہندوستان جن کے دروازے پر کھڑا تھا اور تبھی مسز جوگ مایا چٹرجی کی لڑکیوں نے ہارمونیم پر فلمی گانے ’نکالنے‘ شروع کردئیے۔ ’’بانکے بہاری بھول نہ جانا۔۔۔ پیتم پیاری پریت نبھانا۔۔۔‘‘ اور۔۔۔ ’’چور چراوے مال خزانہ، پیانینوں کی نندیا چرواے۔‘‘ اور۔۔۔ ’’تم اور میں اور منا پیارا۔۔۔ گھروا ہوگا سورگ ہمارا۔۔۔‘‘
غفور بیگم کام کرتے کرتے ان آوازوں پر کان دھرنے کے بعد کمر ہاتھ پر رکھ کر کہتیں، ’’بڑے بوڑھے سچ کہہ گئے تھے۔ قرب قیامت کے آثار یہی ہیں کہ گائے مینگناں کھائے گی اور کنواریاں اپنے منہ سے بر مانگیں گی۔‘‘ اتنے میں منورما چٹرجی کی سریلی آواز بلند ہوتی۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔‘‘
’’بے حیائی تیرا آسرا۔۔۔‘‘ غفور بیگم کانپ کر فریاد کرتیں اور سلیپر پاؤں میں ڈال کر سٹر پٹر کرتی اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں۔
ان ہی دنوں فقیرا بھی اپنی بھاوج کو یہ ساری فلمیں سیکنڈ شو میں دکھا لایا۔ مگر جس رات جل دھرا ’چنڈی داس‘ فلم دیکھ کر لوٹی، تو اسے بڑا سخت بخار چڑھ گیا، اور ڈاکٹر ہون نے صبح کو آکر اسے دیکھا اور کہا کہ اس کا مرض تشویش ناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ اب وہ روز تانگے میں لیٹ کر ہسپتال جاتی اور واپس آکر دھوپ میں گھاس پر کمبل بچھا کر لیٹی رہتی۔ کچھ دنوں میں اس کی حالت ذرا بہتر ہوگئی۔ اور سکھ نندن خانساماں کی بیوی دھن کلیا اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ کر اس کا دل بہلانے کے لیے پوربی گیت گایا کرتی اور اسے چھیڑ چھیڑ کر الاپتی۔۔۔ ’’ناجو ادا سے سرم و حیا سے بالے سیاں سے سرمائے گئی میں تو۔۔۔‘‘
اور غفور بیگم جب جل دھرا کی خیریت پوچھنے جاتیں تو وہ مسکرا کرکہتی، ’’انّا جی۔۔۔ میرا تو سمے آگیا۔ اب تھوڑے دنوں میں پر ان نکل جائیں گے۔۔۔‘‘ اب غفور بیگم اس کا دل رکھنے کے لیے کہتیں، ’’اری تو ابھی بہت جئے گی۔۔۔ اور اے جل دھریا۔۔۔ ذرا یہ تو بتا کہ تونے فقیرا نگوڑے پر کیا جادو کر رکھا ہے۔۔۔ ذرا مجھے بھی وہ منتر بتادے، مجھ بدبختی کو تو اپنے گھر والے کو رام کرنے کا ایک بھی نسخہ نہ ملا۔۔۔ تو ہی کوئی ٹوٹکا بتادے۔ سنا ہے پہاڑوں پر جادو ٹونے بہت ہوتے ہیں۔۔۔ فقیرا بھی کیسا تیرا کلمہ پڑھتا ہے۔۔۔ اری تو تو اس کی ماں کے برابر ہے۔۔۔!‘‘ اور وہ بڑی ادا سے ہنس کو جواب دیتی۔۔۔ ’’انا جی۔ کیا تم نے سنا نہیں پرانے چاول کیسے ہوتے ہیں؟‘‘
’’پرانے چاول۔۔۔؟‘‘ میں دہراتی اور غفور بیگم ذرا گھبرا کر مجھے دیکھتیں اور جلدی سے کہتیں۔۔۔ ’’بی بی آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟ جائیے بڑی بٹیا آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘ لہٰذا میں سر جھکائے بجری کی رنگ برنگی کنکریاں جوتوں کی نوک سے ٹھکراتی ٹھکراتی باجی کی طرف چلی جاتی۔ مگر وہ فلسفے کی موٹی سی کتاب کے مطالعے میں یا مظفر بھائی کا خط پڑھنے یا اس کا جواب لکھنے میں مستغرق ہوتیں اور مجھے کہیں اور جانے کا حکم دے دیتیں تو میں گھوم پھر کر دوبارہ ریشم کی ٹوکری کے پاس جا بیٹھتی اور اس کے جلد تندرست ہونے کی دعائیں مانگنے لگتی۔
اسکول میں کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں، میں صبح صبح کملا وملا کے گھر جارہی تھی کہ راستے میں مسٹر بیکٹ نظر آئے۔ وہ بے حد حواس باختہ اور دیوانہ وار ایک طرف کو بھاگے چلے جا رہے تھے۔ اتنے میں میجر چیلٹن نے اپنی ۱۹۲۶ء ماڈل کی کھڑ کھڑیا فوڈ روک کر انہیں اس میں بٹھا لیا اور فورڈ یورپین ہسپتال کی سمت روانہ ہوگئی۔
میں کملا کے گھر پہنچی تو سورن خلاف معمول بہت خاموش تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ابھی پریڈ گراؤنڈ سے سارا واقعہ سن کر آیا ہے۔
’’ڈائنا بیکٹ ابھی ماسٹر مچھندر کے ساتھ ہی موٹر سائیکل پر بیٹھتی تھی اور دیکھنے والوں کا بیان تھا کہ دہشت کے مارے اس کا رنگ سفید پڑ جاتا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے رہتی تھی۔ مگر سرکس منیجر نے اصرار کیا کہ وہ تنہا موٹر سائیکل چلانے کی ٹریننگ بھی شروع کردے تا کہ اس کے دل کا خوف نکل جائے۔ دل کا خوف نکالنے کے لیے اس نے موٹر سائیکل پر تنہا بیٹھ کر کنویں کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی مگر موٹر سائیکل بے قابو ہوگئی اور ڈائنا کی دونوں ٹانگیں موٹر سائیکل کے تیزی سے گھومتے ہوئے پہیوں میں آکر چور چور ہوگئیں۔ اسے فوراً یورپین ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ کرنل وائی کو مب سول سرجن نے کہا ہے کہ اس کی دونوں ٹانگیں ہمیشہ کے لیے بے کار ہوگئی ہیں۔ اور اسے ساری عمر پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر گزارنی ہوگی۔‘‘
اس دن ہم لوگوں کا کسی چیز میں دل نہ لگا۔ اور ہم سب ایک درخت کی شاخ پر چپ چاپ بیٹھے رہے۔ کچھ دیر بعد دفعتاً سورن شاخ پر سے نیچے کودا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کرکٹ کھیلنے چلا گیا۔ اور میں نے دیکھا کہ سب کے چہرے پر ایک عجیب سی ندامت طاری تھی۔ ایک انجانا سا احساس جرم اور ندامت۔
دوسرے روز دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کارنیول کے نوکیلی مونچھوں اور بے شمار تمغوں والے منیجر اور رنگ ماسٹر پروفیسر شہباز نے اعلان کیا کہ سرکس کوچ کر رہا ہے اور آئندہ سال معزز شائقین کو اس سے زیادہ حیرت ناک تماشے دکھائے جائیں گے لیکن فقیرا کی اطلاع کے مطابق وہ ڈرا ہوا تھا۔ اس کے سرکس میں پے در پے دو شدید حادثے ہوئے تھے اور پولس اس کے پیچھے لگ گئی تھی۔
سرکس نے کوچ کردیا اور مس زہرہ ڈربی بھی۔ ہسپتال سے جانے کہاں غائب ہوگئی۔
کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ایک بہت لمبی اور دبلی پتلی بی بی ہمارے یہاں مہمان آئیں۔ ان کا نام ڈاکٹر زبیدہ صدیقی تھا۔ وہ دہلی سے کلکتہ جارہی تھیں اور ایک ہفتے کے لیے ہمارے یہاں ٹھہری تھیں۔ انہوں نے ولایت سے سائنس کے کسی مضمون میں پی۔ ایچ۔ ڈی کیا تھا۔ وہ کسی دور افتادہ دیسی ریاست کے گرلز کالج کی پرنسپل تھیں اور سیاہ کنارے کی سفید ساری اور لمبی آستینوں کا سفید بلاؤز پہنتی تھیں، وہ اپنی طویل القامتی کی وجہ سے ذرا جھک کر چلتی تھیں اور سر نیہوڑا کر بڑی گہری نظر سے ہر ایک کو دیکھتی تھیں۔ اس وقت وہ گنتی کی ان مسلمان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے سمندر پار جا کر اعلا تعلیم حاصل کی تھی۔
پہلے روز جب وہ کھانا کھانے بیٹھیں تو انہوں نے ذرا جھجک کر کہا، ’’آپ کے ہاں سارے ملازم ہندو ہیں۔میں دراصل ہندو کے ہاتھ کا پکا نہیں کھاتی۔۔۔‘‘
’’مسلمان ہوکر آپ چھوت چھات کرتی ہیں زبیدہ آپا؟ کمال ہے، اور آپ تو ولایت تک ہو آئی ہیں زبیدہ آپا۔۔۔‘‘ باجی نے اپنی خوبصورت آنکھیں پھیلا کر کہا۔
’’در اصل۔۔۔ وہ۔۔۔ میں۔۔۔ میں ایک وظیفہ پڑھ رہی ہوں آج کل۔۔۔‘‘ انہوں نے جھینپتے ہوئے جواب دیا۔ لہٰذا ان کا کھانا غفور بیگم نے با وضو ہوکر اپنے ہاتھ سے تیار کرنا شروع کیا۔ پڑوس کی مسلمان بیبیوں پر ڈاکٹر صدیقی کی مذہبیت کا بے انتہا رعب پڑا۔ ’’لڑکی ہو تو ایسی، سات سمندر پار ہو آئی مگر ساری کا آنچل مجال ہے جو سر سے سرک جائے۔۔۔‘‘ مسز فاروقی نے کہا۔
’’شرعی پردہ تو در اصل یہی ہے کہ عورت بس اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھے۔ اور اپنی زینت مردوں سے چھپائے۔ قرآن پاک میں یہی آیا ہے۔‘‘ مسز قریشی نے جواب دیا۔
’’روزے نماز کی پابند‘ شرم و حیا کی پتلی۔ اور مومنہ ایسی کہ ہندو کے ہاتھ کا پانی نہیں پیتی۔۔۔‘‘ مسز انصاری نے تعریف کی۔
ڈاکٹر صدیقی سارے وقت گھاس پر کرسی بچھائے باجی کو جانے کون سی داستان امیر حمزہ سنانے میں مشغول رہتی تھیں، اور فقیرا کی بھاوج کو دیکھ کر انہوں نے کہا تھا، ’’کیسی خوش نصیب عورت ہے۔‘‘
جب ڈاکٹر صدیقی صبح سے شام تک ایک ہی جیسی سنجیدہ اور غمناک شکل بنائے بیٹھی رہتیں تو ان کو محفوظ کرنے کے لیے باجی مجھے بلاتیں (گویا میں کوئی تماشا دکھانے والی بھالو تھی) اور حکم دیتیں۔ فلاں گیت گاؤ، فلاں قصہ سناؤ، زبیدہ آپا کو۔ ذرا بھاگ کے اپنی دوستوں کو بلا لاؤ اور سب مل کر ناچو۔۔۔
ایک دن ڈاکٹر صدیقی پچھلے لان پر بیٹھی باجی سے کہہ رہی تھیں، ’’مرے کے لیے تو صبر آ جاتا ہے، ریحانہ۔۔۔ زندہ کے لیے صبر کیسے کروں۔۔۔‘‘ اور اس دن جب انہوں نے کسی طرح مسکرانے کا نام ہی نہ لیا، تو باجی نے مجھے بلا کر حکم دیا، ’’ارے رے۔ ذرا وہ اپنے مسخرے پن کا اینگلو انڈین گیت تو سناؤ زبیدہ آپا کو۔۔۔‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘ میں نے فرماں برداری سے جواب دیا۔ اور سیدھی کھڑی ہوکر ہاتھ گھٹنوں تک چھوڑ کر (جس طرح اسکول میں انگریزی گانے گاتے یا نظمیں پڑھتے وقت کھڑا ہونا سکھلایا گیا تھا) میں نے گیت شروع کیا،
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سولے برش کا عومر
جس کے پاس بہت کپڑا۔۔۔ اور۔۔۔ چاندی۔۔۔ اور۔۔۔
دفعتاً میرے حلق میں کوئی چیز سی اٹکی، میری آواز رندھ گئی اور میں گیت ادھورا چھوڑ کر وہاں سے تیزی سے بھاگ گئی۔ ڈاکٹر صدیقی حیرت سے مجھے دیکھتی رہ گئیں۔
شام کو میں نے وملا سے کہا، ’’یہ زبیدہ آپا ہر وقت جنے اتنی پریشان کیوں نظر آتی ہیں۔۔۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔ وہ مجھ سے ذرا بڑی تھی۔ اور ایک ماہر فن ڈیٹکیٹو تھی۔۔۔ ’’کل صبح آنٹی فاروقی آنٹی گوسوامی کو انگلش اسٹورز میں بتا رہی تھیں کہ ایک سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا نام بھی ڈاکٹر کچھ ہے۔ مجھے یاد نہیں آرہا۔ آنٹی فاروقی نے آنٹی گو سوامی کو بتایاتو تھا۔۔۔ تو وہ کلکتہ یونیورسٹی میں زبیدہ آپا کے کلاس فیلو تھے۔ اور جب زبیدہ آپا ولایت گئی تھیں تو وہاں مانچسٹر یونیورسٹی میں بھی کئی سال ان کے ساتھ پڑھا تھا۔۔۔ تو یہ زبیدہ آپا جوہیں، تو یہ پچھلے پندرہ برس سے ڈاکٹر کے نام کی مالا جپ رہی ہیں۔‘‘
’’یہ کسی کے نام کی مالا کیسے جپتے ہیں؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’یہ پتا نہیں۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔
جب میں گھر کے اندر آئی تو زبیدہ آپا کو غفور بیگم سے تبادلہ خیالات کرتے پایا۔ اور تبھی پتا چلا کہ جس ریاست میں زبیدہ آپا کام کرتی ہیں وہ اجمیر شریف کے بہت قریب ہے۔ اور اسی وجہ سے زبیدہ آپا بہت مذہبی ہوگئی ہیں، اور جب سے ان کو یہ اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر محمود خاں خود ان کی یعنی زبیدہ آپا کی سگی بھتیجی سائرہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں جو ایک بے حد خوبصورت سترہ سالہ لڑکی ہے اور کلکتہ کے لورٹیو ہاؤس میں پڑھ رہی ہے، تب سے زبیدہ آپا نماز پنجگانہ کے علاوہ چاشت اشراق اور تہجد بھی پڑھنے لگی ہیں اور یہاں وہ غفور بیگم سے پنجسورہ شریف۔ دعائے گنج العرش اور درود تاج کے کتابچے مستعار لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ کیونکہ یہ کتابچے سفر پر چلتے وقت وہ گھر پر بھول آئی تھیں۔ غفور بیگم نے ان سے کہا کہ بٹیا روز رات کو سوتے وقت تسبیح فاطمہ پڑھا کیجئے۔۔۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب وہ کھانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھی تسبیح پھیر رہی تھیں تو میں نے، جو جاسوسی پر لگی ہوئی تھی ان کو دیکھ لیا اور صبح کو وملا کو اطلاع دی۔۔۔
’’ہمیں معلوم ہوگیا۔۔۔ کل رات زبیدہ آپا ڈاکٹر کچھ کے نام کی مالا جپ رہی تھیں ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
ایک رات دو بجے کے قریب مہمان کمرے سے ایک دل خراش چیخ کی آواز آئی۔ سب ہڑ بڑا کر اپنے اپنے لحافوں سے نکلے اور بھاگتے ہوئے مہمان کمرے کی طرف گئے۔ مگر دروازہ اندر سے بند تھا۔ باجی نے کواڑوں پر زور زور سے دستک دی۔ اندر سے کچھ منٹ بعد زبیدہ آپا بڑی کمزور آواز میں بولیں، ’’ٹھیک ہوں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم لوگ خدا کے لیے فکر نہ کرو۔۔۔ جاؤ، سو جائو۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ سوتے میں ڈر گئی تھی۔‘‘
’’زبیدہ آپا۔۔۔ دروازہ کھولیے۔۔۔‘‘ باجی نے چلا کر کہا۔ ’’چلے جاؤ تم لوگ۔۔۔ ورنہ میں پھر چیخوں گی۔۔۔‘‘ زبیدہ آپا اندر سے ہسٹریائی آواز میں دہاڑیں۔
صبح کو ان کا چہرہ بالکل ستا ہوا اور سفید تھا۔ ناشتے کے بعد جب کھانے کا کمرہ خالی ہوگیا تو انہوں نے باجی کو آہستہ سے مخاطب کیا، ’’میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا۔ میں ایک چلہ کر رہی تھی انتالیس راتیں پوری ہوچکی تھیں۔ کل چالیسویں اور آخری رات تھی۔ حکم تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میں اس جلالی وظیفے کے دوران میں مڑ کر نہ دیکھوں ورنہ اس کا سارا اثر ختم ہوجائے گا۔ اور کل رات۔۔۔ دو بجے کے قریب وظیفہ پڑھنے میں میں نے اچانک دیکھا کہ جائےنماز کے سامنے ایک گدھے کی جسامت کا ہیبت ناک سیاہ کتا میرے مقابل میں بیٹھا دانت نکوس رہا ہے۔۔۔ میں نے دہل کر چیخ ماری اور چلہ ٹوٹ گیا۔ کتا غائب ہوگیا۔ مگر میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور انہوں نے عینک اتار کر پلکیں خشک کیں۔ باجی ہکا بکا ہوکر انہیں دیکھنے لگیں۔۔۔ ’’مگر زبیدہ آپا۔۔۔ آپ تو۔۔۔ آپ تو سائنسداں ہیں۔ مانچسٹر یونیورسٹی سے پڑھ کر آئی ہیں۔ اور ایسی توہم پرستی کی باتیں کرتی ہیں۔ ہوش کی دوا کیجئے۔ آپ کو ہیلوسی نیشن (Hallucination) ہوا ہوگا۔۔۔ گدھے کے برابر کتا۔۔۔ اور وہ آپ سے آپ غائب بھی ہوگیا۔۔۔!‘‘ اتنا کہہ کر باجی کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
’’ریحانہ خاتون۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صدیقی نے سر نیہوڑا کر باجی کو گہری نظر سے دیکھا اور آہستہ آہستہ کہا۔ ’’تم ابھی صرف بائیس برس کی ہو تمہارے ماں باپ اور محبت کرنے والے چچاؤں کا سایہ تمہارے سر پر قائم ہے۔ تم ایک بھرے پرے کنبے میں، اپنے چہیتے بہن بھائیوں کے ساتھ، سکھ کی چھاؤں میں زندہ ہو۔ اپنی پسند کے نوجوان سے تمہارا بیاہ ہونے والا ہے۔۔۔ ساری زندگی تمہاری منتظر ہے، دنیا کی ساری مسرتیں تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں۔ خدا نہ کرے تم پر کبھی ایسی قیامت گزرے جو مجھ پر گزر رہی ہے۔ خدا نہ کرے کہ تمہیں کبھی تنِ تنہا اپنی تنہائی کا مقابلہ کرنا پڑے۔۔۔ کسی کی بے بسی اور اس کے دکھی دل کا مذاق نہ اڑائو۔۔۔‘‘ اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑگئی جو میز کے سرے پر بیٹھی مستعدی سے جاسوسی میں مصروف تھی۔ کیونکہ گدھے کے برابر سیاہ کتا ایک انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ خاموش ہوگئیں۔ باجی نے پلکیں جھپکا کر مجھے اشارہ کیا کہ میں اڑنچھوں ہو جاؤں۔ چنانچہ میں اڑنچھو ہوگئی۔
اس واقعے کے دوسرے دن ڈاکٹر صدیقی کلکتہ روانہ ہوگئیں۔ اور ان کے جانے کے چند روز بعد ہی ایک انوکھی اور بن بلائی مہمان اتریں۔
ڈالن والا کی سڑکیں عموماً خاموش پڑی رہتی تھیں۔ اکا دکا راہگیر یا موٹروں اور تانگوں کے علاوہ کبھی کبھار کوئی سکھ جوتشی ہاتھ میں سرٹیفکیٹوں کا میلا سا پلندہ سنبھالے ادھر ادھر تاکتا سامنے سے گزر جاتا تھا۔ یا موٹے موٹے ’چائینا مین‘ زین میں بڑی نفاست سے بندھے ہوئے بے حد وزنی گٹھر سائیکلوں پر لادے چکر کاٹا کرتے تھے، یا کشمیری قالین فروش یا بزاز یا قیمتی پتھر فروخت کرنے والا پھیری لگا جاتے تھے۔
مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ان ہی پھیری والوں میں سے ایک تھے۔ مگر وہ اپنے آپ کو ٹریولنگ سیلزمین کہتے تھے۔ اور انتہا سے زیادہ چرب زبان اور لسان آدمی تھے۔ موصوف مسلمان سے عیسائی ہوگئے تھے۔ ترکی ٹوپی اوڑھتے تھے اور سائیکل پر پلاسٹک کے برتن بیچتے گھوما کرتے تھے، اور مہینے دو مہینے میں ایک بار ہماری طرف کا پھیرا لگا جاتے تھے۔ وہ اپنی ہر بات کا آغاز ’خدا باپ کا شکر ہے‘ سے کرتے تھے اور کبھی کبھی تبلیغ بھی شروع کردیتے تھے۔
اس دن مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں جو سائیکل برساتی میں ٹکا کر برآمدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے ناک کی سیدھ جا کر مہمان کمرے کے اندر جھانکا جس کا دروازہ کھلا پڑا تھا اور اطمینان سے اظہارِ خیال کیا، ’’ہوں۔ تو یہ کمرہ تو ہمیشہ خالی ہی پڑا رہتا ہے۔ بات یہ ہے کہ میری ایک بہن ہیں۔ وہ لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ اور چند روز کے لیے دہرہ دون آرہی ہیں۔‘‘ اس کے بعد جواب کا انتظار کیے بغیر وہ سائیکل پر بیٹھ کر غائب ہوگئے۔
تیسرے روز جاپانی جارجٹ کی ملا گیری ساڑی میں ملبوس ایک بے حد فربہ خاتون تانگے سے اتریں۔ مسٹر سردار خاں سائیکل پر ہم رکاب تھے۔ انہوں نے اسباب اتار کر مہمان کمرے میں پہنچایا اور والدہ اور باجی سے ان کا تعارف کرایا۔۔۔ ’’یہ میری بہن ہیں۔ آپ کے یہاں دو تین دن رہیں گی۔ اچھا، اب میں جاتا ہوں۔‘‘ پھر خاتون کو مخاطب کیا۔۔۔ ’’بھئی تم کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو بلا تکلّف بیگم صاحبہ سے کہہ دینا۔۔۔ اپنا ہی گھر سمجھو، اچھا۔۔۔ بائی بائی۔۔۔ ‘‘ اور سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
یہ ایک مسلمان بی بی تھیں، جنہوں نے یہ نہ بتایا کہ کہاں سے آرہی ہیں اور کہاں جائیں گی۔ محض اس امر سے انہوں نے آگاہ کیا کہ پرائیوٹ طور پر ہومیوپیتھک ڈاکٹری پڑھ رہی ہیں۔ اور شام کے وقت اپنے اٹیچی کیس میں سے ایک موٹی سی اردو کتاب نکال کر دکھائی جو ان کی ہومیوپیتھک ڈاکٹری کا کورس تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’دی رائل تحفہ ہارمونیم گائیڈ سیریز‘ کے رسالوں کے ذریعہ انہوں نے اس فن میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے اور انہوں نے ’اے ماؤ، بہنو، بیٹیو، دنیا کی عزت تم سے ہے ‘ پاٹ اور بے سری آواز میں ’باجے‘ پر گا کر سنائی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ آزادیِ نسواں کی قائل ہیں اور اپنی مرضی سے کدخدائی کریں گی۔۔۔
تیسرے روز مسٹر سردار خاں دوبارہ نمودار ہوئے۔ وہ تانگہ ساتھ لے کر آئے تھے جس میں بٹھا کر ہومیوپیتھک لیڈی ڈاکٹر کو ہم راہ لے گئے۔ مسٹر پیٹر رابرٹ خاں اس کے بعد کبھی نہ آئے۔ دنیا میں بڑے عجیب و غریب واقعات ہوا کرتے تھے۔
نیگس ہمارا سیاہ رنگ اور سفید کانوں والا بدشکل اور چھوٹا سا دوغلا کتّا تھا۔ وہ دن بھر برساتی کے کونے میں اپنی جگہ پر بیٹھا رہتا تھا۔ چونکہ وہ نجس تھا، یعنی کتّا تھا اس لیے اسے گھر کے اندر آنے کی اجازت نہ تھی۔ جاڑوں میں وہ ایک کوٹھری میں پڑے ہوئے اپنے کھٹولے پر سو رہتا۔ ریشم کوہان نکال کر اس پر غرّاتی تو وہ اس کا بھی برا نہ مانتا۔ وہ بے حد وفادار اور مرنجان مرنج طبیعت کا مالک۔ اور اپنی قسمت پر شاکر و قانع تھا کیونکہ خدا نے اسے ایک نجس کتّا ہی پیدا کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ریشم کی اس گھر میں بے حد قدر و قیمت ہے۔ اسے اس حقیقت کا بھی علم تھا کہ اس کمینی دنیا میں محض ظاہری رنگ و روپ کی قدر کی جاتی ہے۔ ایک رواقی فلسفی کی مانند آنکھیں بند کیے وہ غالباً دن بھر یہی سب سوچتا رہتا تھا اور اجنبی قدموں کی چاپ سنتے ہی آنکھیں کھول کر فوراً بھوکنا شروع کردیتا تھا۔ وہ اٹلی اور حبشہ کی جنگ کے زمانے میں میجر شیلٹن کی اعلا نسل کتّیا میگی کے یہاں پیدا ہوا تھا، میجر شیلٹن چونکہ بین الاقوامی سیاست سے گہری دل چسپی رکھتے تھے اس لیے انہوں نے اس کا نام نیگس رکھا تھا۔
جس روز باجی نے اپنی چند سہیلیوں کو چائے پر بلایا تو بجلی کا ایک تار روشنی کے انتظام کے لیے باغ میں پہنچا دیا گیا تھا۔ اس روز موسم بہت خوش گوار تھا اور باجی اور ان کی سہیلیاں غروبِ آفتاب کے بعد تک اوور کوٹ پہنے باہر ٹہلتی رہی تھیں۔ پارٹی کے بعد باجی اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے کے لیے ٹہلتی ہوئی سڑک پر چلی گئیں اور نیگس برآمدے میں رکھے ہوئے دعوت کے سامان کی حفاظت کے لیے مستعدی سے سیڑھیوں پربیٹھا رہا۔ جب باجی واپس آئیں تو انہوں نے جھک کر دور سے نیگس کو پچکارا۔ نیگس اس خلافِ توقع اور غیر معمولی اظہار التفات سے بے انتہا خوش ہوا۔ اور زور زور سے اچھلنے کودنے لگا اور باجی کو مزید خوش کرنے کے لیے اس نے وہ سارے کھیل تماشے دکھانے شروع کیے جو اسے برکت مسیح جمعدار نے سکھلائے تھے اس طرح کھیلتے کھیلتے اس نے پام کے گملوں کے عقب میں پڑا ہوا بجلی کا تار منہ میں اٹھا لیا۔ تار میں کرنٹ موجود تھا۔ لہٰذا نیگس پٹ سے گر گیا اور پندرہ منٹ بعد اس کے منہ سے دھواں نکلا کیوں کہ بجلی نے اسے اندر سے جلا دیا تھا۔
ایک روز ڈاکٹر زبیدہ صدیقی کا خط باجی کے نام کلکتے سے آیا۔ انہوں نے لکھا تھا،
’’جس روز میں یہاں پہنچی اسی ہفتہ میں محمود صاحب نے میری بھتیجی سائرہ سے شادی کر لی۔ بڑی دھوم کی شادی ہوئی ہے۔ تم نے السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں دولہا دلہن کی تصویر بھی دیکھی ہوگی۔ پی۔ ایس، میں نے اب اللہ میاں کے خلاف اسٹرائیک کردیا ہے اور پرسوں میں نے بھی ڈاکٹر اپّل سے سول میرج کر لی۔ ڈاکٹر اپّل بردوان کالج میں پڑھاتے ہیں۔ پی۔ پی۔ ایس، ڈاکٹر اپّل ہندو ہیں۔ یہ اطلاع کہ میں نے ایک کافر سے شادی کر لی مسز فاروقی، مسز قریشی اور مسز انصاری کو بھی دے دینا۔ دعا گو زبیدہ اپّل۔۔۔‘‘
دسمبر کے پہلے ہفتے میں جل دھرا کی حالت دفعتاً زیادہ بگڑ گئی۔ اسے فوراً ہسپتال پہنچایا گیا جہاں دوسرے دن اس نے پران تج دیئے۔ فقیرا دھاڑیں مارمار کر روتا پھرا، ’’صبر کر بچّے۔۔۔ صبر کر۔۔۔‘‘ غفور بیگم نے اسے دلاسا دیا۔ ’’انّا جی۔ صبر کیسے کروں۔ میرے لیے ماں تھی تو وہ بھاوج تھی تو وہ بیوی تھی تو وہ۔۔۔‘‘ اور وہ روتا دھوتا پھر باہر چلا گیا۔
مگر تیسرے دن پھول چننے کے بعدجب وہ شمشان گھاٹ سے واپس لوٹا تو بہت خوش تھا۔ اس نے ہاتھ میں مٹّی کا ایک کونڈا اٹھا رکھا تھا جس میں جل دھرا کی راکھ تھی اور اس نے کہا کہ ’’رات میں اسے اپنے سرہانے رکھ کر سوؤں گا اور جل دھرا نے جس جون میں جنم لیا ہوگا اس کے پیروں کے نشان راکھ پر بن جائیں گے۔‘‘
جیسا کہ میں پہلے بتا چکی ہوں، باجی ایم۔ اے کے لیے فلسفے کا مطالعہ کر رہی تھیں اور بہت زیادہ قابل تھیں۔ فقیرا کی بات انہوں نے بڑی دل چسپی سے سنی اور رات کو کھانے کی میز پر بہت دیر تک مسئلہ تناسخ اور عوام کے توہّمات کے متعلق والد سے تبادلۂ خیالات کرتی رہیں۔ رات کو سونے سے پہلے فقیرا نے اپنی کوٹھری کی کنڈی اندر سے چڑھائی اور راکھ کا کونڈا چار پائی کے نیچے رکھ کر سو گیا۔
صبح سویرے وہ بے حد خوش خوش کھانے کے کمرے میں داخل ہوا۔ فرطِ انبساط سے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ ’’بیگم صاحب۔۔۔ بڑی بٹیا۔۔۔ بی بی۔۔۔‘‘ اس نے اطلاع دی۔۔۔ ’’میری جل دھرا گوریّا بن گئی۔۔۔‘‘
’’گوریّا بن گئی۔۔۔؟‘‘ باجی نے دہرایا، اور جلدی سے شال لپیٹ کر شاگرد پیشے کی طرف دوڑیں۔۔۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے سرپٹ بھاگی۔ فقیرا کوٹھری میں سے کونڈا باہر لایا۔ ’’بڑی بٹیا۔۔۔ دیکھ لیجئے۔۔۔ یہ دیکھیے۔۔۔ یہ دیکھیے۔۔۔‘‘ میں نے اور باجی نے آنکھیں پھاڑ کر راکھ کو دیکھا جس پر چڑیا کے پنجوں کے نشان بہت واضح بنے ہوئے تھے۔ ’’گوریّا چڑیا ہے بڑی بٹیا۔۔۔ بی بی۔۔۔‘‘ اس نے کہا اور کونڈا بڑی احتیاط سے اندر لے گیا۔
اس کے بعد سے فقیرا روز صبح کو گوریّا چڑیوں کو دانا ڈالتا۔ ان کے لیے پانی کی کٹوریاں بھر بھر کر رکھتا اور اگر کوئی گوریّا روشن دان یا دریچے میں سے کسی کمرے میں داخل ہوجاتی تو وہ سارے کام چھوڑ کر چٹکی بجا بجا کر کہتا، ’’چہ چہ چہ۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ لے۔۔۔ لے۔۔۔ لے۔۔۔‘‘ اور باجرے کے دانے ہتھیلی پر ڈال کر ساکت کھڑا رہتا۔ اس مقصد کے لیے وہ باجرے کے دانے ہمیشہ جیب میں رکھتا تھا اور اب اسے مستقل یہ تشویش رہتی تھی کہ ریشم کسی گوریّا کو نہ پکڑ لے۔
اس سال چلّے کا جاڑا پڑا تھا۔ ڈائنا روز ابھی ہسپتال میں داخل تھی۔ مسٹر بیکٹ اب میونسپلٹی کے نل پر بھی نظر نہ آتے۔ اب وہ دن بھر پریڈ گراؤنڈ کی ایک بنچ پر دھوپ میں، سر جھکائے بیٹھے رہتے۔ اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگتے۔ ان کی ٹوپی ان کے پاس بنچ پر کاسۂ گدائی کی طرح رکھی رہتی۔ اور درختوں کے زرد پتّے گر گر کر اس میں جمع ہوتے رہتے۔
کرسمس نزدیک آگئی۔ کیرل گانے والوں کی ٹولیاں رات کے وقت ڈالن والا کی سڑک پر گھوم گھوم کر اکارڈین اور گٹار پر ولادتِ مسیحؑ کے گیت گاتی پھرتیں۔ صبح منہ اندھیرے کوئلہ بیچنے والے پہاڑیوں کی آوازیں آتیں جو چیتھڑوں اور گڈریوں میں ملبوس کوئلے کی بھاری کنڈیاں نواڑکی پٹّی کے ذریعے ماتھے سے باندھے، ’’کوئلہ چاہیے کوئلہ۔۔۔‘‘چلّاتے پھرتے۔ سورج اوپر آتا تو سامنے ہمالیہ کا برف پوش سلسلہ کرنوں میں جگمگا اٹھتا۔ رات کو جتنا پانی فقیرا چڑیوں کے لیے باہر رکھتا تھا وہ صبح کو جما ہوا ملتا۔ رات گئے کسی پہاڑی راہ گیر کی بانسری کی آواز کہرے میں تیرتی ہوئی سنائی دے جاتی۔
کرسمس سے ایک دن پہلے سائمن نے بتایا کہ وہ صبح سویرے اٹھ کر اسٹوو پر کرسمس پڈنگ تیار کرتے ہیں، گرجا جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد اپنی کوٹھری میں بیٹھ کر دن بھر انجیلِ مقدس پڑھتے ہیں۔ اور کرسمس کے دوسرے روز وہ پڈنگ لے کر آئیں گے۔ بڑے دن کے تحفے کے طور پر وہ باجی کے لیے گلابی نقلی موتیوں کا منّا سا ہار، میرے لیے بالوں کے دو سرخ اور سبز ربن اور ریشم کے لیے ربر کی چھوٹی سی رنگین گیند لائے تھے۔ انہیں بڑے دن کے تحفے کے طور پر دس روپے دیئے گئے جو ان کے لیے اتنی بڑی اور غیر متوقع رقم تھی کہ وہ چند لحظوں تک دس کے نوٹ کو آنکھیں پھاڑے دیکھتے رہے اور پھر ذرا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اسے احتیاط سے اندر واسکٹ کی جیب میں رکھ لیا۔
کرسمس کو تین دن گزر گئے مگر سائمن نہ آئے۔ چوتھے دن ان کی خیر خبر لانے کے لیے فقیرا کو پادری اسکاٹ کے گھر بھیجا گیا۔ اس نے واپس آکر سر جھکا لیا اور آہستہ سے کہا، ’’سائمن صاحب کی مٹّی ہوگئی۔ پادری صاحب کا مالی بتا رہا تھا کہ بڑے دن کے روزاس نے کوٹھری کا دروازہ کھولا تو سائمن صاحب چار پائی پر مرے ہوئے پڑے تھے۔ انہیں سردی لگ گئی۔ ان کے پاس ایک ہی کمّل تھا بیگم صاحب۔۔۔ رات کو وہی کوٹ پتلون پہنے پہنے سوتے تھے۔‘‘
’’بڑا جاڑا پڑ رہا ہے بڑی بٹیا۔ ہمارے ہاں گڑھوال میں تو لوگ باگ اکثر سردی سے اکڑ اکڑ کر مرتے رہتے ہیں، اب اتنا گرم کپڑا کہاں سے لاؤں۔ سردی تو ہر سال ہی پڑتی ہے۔‘‘
تیسرے پہر کو جب سائمن کے آنے کا وقت ہوا تو ریشم جو سردی کی وجہ سے پچھلے ایک ہفتے سے اپنی ملائم پشمینے کی شال میں لپٹی ٹوکری کے نرم و گرم گدیلوں میں سمٹی سمٹائی بیٹھی رہتی تھی۔ ٹوکری سے اتر کر لنگڑاتی پھاٹک کی طرف چلی گئی اور پُلیا پر بیٹھ کر انتظار میں مصروف ہوگئی۔ کیونکہ سائمن روزانہ راستے میں میجر شیلٹن کے باورچی خانے سے مرغوں اور پرندوں کی مزیدار ہڈیاں اپنے میلے سے رومال میں احتیاط سے لپیٹ کر اس کے لیے لایا کرتے تھے۔
سائمن نہ آئے۔ دھوپ مدّھم پڑ گئی۔ تو اس نے اُکتا کر، اندر واپس آنے سے پہلے ایک گوریّا چڑیا پرتاک لگائی۔ گوریّا پھر سے اڑ کر سلووا وک کی شاخ پر جا بیٹھی۔ ریشم نے اس کے تعاقب میں درخت پر چڑھنا چاہا مگر اپنی شکستہ ٹانگ کی وجہ سے جڑ پر سے پھسل کر نیچے آرہی۔ گوریاّ پھدک کر اس سے اونچی شاخ پر چلی گئی۔ ریشم نے منہ اٹھا کر بڑی بے کسی سے کمزور سی میاؤں کی۔ گوریّا نے پر پھیلائے اور کھلے، نیلے آسمانوں کی سمت اڑ گئی۔
مأخذ : قرۃ العین حیدر کی منتخب کہانیاں
مصنف:قرۃ العین حیدر