کہانی کی کہانی:‘‘ہر پل شکل بدلتے رہنے والے ایک بہروپیے کی کہانی جس میں اس کی اصل شکل کھو کر رہ گئی ہے۔ وہ ہفتے میں ایک دو بار محلے میں آیا کرتا تھا۔ دیکھنے میں خوبصورت اور ہنسوڑ مزاج کا شخص تھا۔ ایک چھوٹے لڑکے نے ایک دن اسے دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوا اور وہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر اس کا پیچھا کرتا ہوا اس کی اصل شکل جاننے کے لیے نکل پڑا۔’’
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میری عمر بس کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے وہ شہر کے ایک بارونق بازار کے پچھواڑے واقع تھا۔ اس جگہ زیادہ تر درمیانے طبقے کے لوگ یا غریب غرباء ہی آباد تھے۔ البتہ ایک پرانی حویلی وہاں ایسی تھی جس میں اگلے وقتوں کی نشانی کوئی صاحب زادہ صاحب رہا کرتے تھے، ان کے ٹھاٹھ توکچھ ایسے امیرانہ نہ تھے مگر اپنے نام کے ساتھ ’’رئیس اعظم‘‘ لکھنا شایدوہ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ ادھیڑ عمر بھاری بھرکم آدمی تھے۔ گھر سے باہر ذرا کم ہی قدم نکالتے، ہاں ہر روز تیسرے پہر حویلی کے احاطہ میں اپنے احباب کے جھرمٹ میں بیٹھ کر گپیں لڑانا اور زورزور سے قہقہے لگانا ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔
ان کے نام کی وجہ سے اکثر حاجت مند، یتیم خانوں کے ایجنٹ اور طرح طرح کے چندہ اگاہنے والے ان کے دروازے پر سوالی بن کر آیا کرتے ۔ علاوہ ازیں جادو کے پروفیسر، رمال، نجومی، نقال، بھاٹ اور اسی قماش کے دوسرے لوگ بھی اپنا ہنر دکھانے اورانعام اکرام پانے کی توقع میں آئے دن ان کی حویلی میں حاضری دیا کرتے۔
جس زمانے کامیں ذکر کررہا ہوں، ایک بہروپیا بھی طرح طرح کے روپ بھر کر ان کی حویلی میں آیا کرتا، کبھی خاکی کوٹ پتلون پہنے، چمڑے کا تھیلا گلے میں ڈالے، چھوٹے چھوٹے شیشوں اور نرم کمانیوں والی عینک آنکھوں پر لگائے چٹھی رساں بنا ہر ایک سے بیرنگ خط کے دام وصول کررہاہے۔ کبھی جٹادھاری سادھوہے، لنگوٹ کسا ہوا، جسم پر بھبوت رمائی ہوئی، ہاتھ میں لمبا سا چمٹا، سرخ سرخ آنکھیں نکال نکال ’’بم مہادیو‘‘ کا نعرہ لگارہا ہے۔ کبھی بھنگن کے روپ میں ہے جو سرخ لہنگا پہنے، کمر پر ٹوکرا، ہاتھ میں جھاڑو لیے جھوٹ موٹ پڑوسنوں سے لڑتی، بھڑتی آپ ہی آپ بکتی جھکتی چلی آرہی ہے۔
میرے ہم سبقوں میں ایک لڑکا تھا مدن۔ عمر میں تو وہ مجھ سے ایک آدھ برس چھوٹا ہی تھا مگر قد مجھ سے نکلتاہوا تھا، خوش شکل بھولا بھالا مگر ساتھ ہی بچوں کی طرح بلاکا ضدی۔ ہم دونوں غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اسکول کے بعد کبھی وہ میرے محلے میں کھیلنے آجاتا، کبھی میں اس کے ہاں چلاجاتا۔
ایک دن سہ پہر کو میں اور مدن صاحب زادہ صاحب کی حویلی کے باہر سڑک پر گیند سے کھیل رہے تھے کہ ہمیں ایک عجیب سی وضع کا بوڑھا آدمی آتا دکھائی دیا۔ اس نے مہاجنوں کے انداز میں دھوتی باندھ رکھی تھی، ماتھے پر سیندور کا ٹیکا تھا۔ کانوں میں سنہری بالے، بغل میں ایک لمبی سی سرخ بہی داب رکھی تھی۔ یہ شخص حویلی کے پھاٹک پر پہنچ کرپل بھر کو رکا، پھر اندر داخل ہو گیا۔میں فوراً جان گیا، یہ حضرت سوائے بہروپیے کے اور کون ہو سکتے تھے۔ مگر مدن ذرا ٹھٹکا۔ اس نے بہروپیے کی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔میں نے ذرا چھیڑنے کو پوچھا:’’مدن جانتے ہو ابھی ابھی اس حویلی میں کون گیا ہے؟‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
’’بھلا بتائو تو؟‘‘
’’کوئی مہاجن تھا۔‘‘
’’یہاں کیوں آیا؟‘‘
’’میں کیا جانوں۔ تمہارے اس رئیس اعظم نے کچھ قرض ورض لیا ہوگا اس سے۔‘‘
’’ارے نہیں پگلے یہ تو بہروپیا ہے بہروپیا!‘‘
’’بہروپیا؟“مدن نے کچھ حیرانی ظاہرکرتے ہوئے کہا، ’’بہروپیا کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ارے تم نہیں جانتے۔ یہ لوگ طرح طرح کے روپ بھر کرامیرامراء کو اپنا کمال دکھاتے ہیں اور ان سے انعام لیتے ہیں۔‘‘
’’تو کیا یہ شخص ہرروز آتاہے؟‘‘
’’نہیں، ہفتے میں بس دو ایک ہی بار ۔ روز روز آئے تولوگ پہچان جائیں۔ بہروپیوں کا کمال تو بس اسی میں ہے کہ ایسا سوانگ رچائیں کہ لوگ دھوکا کھا جائیں اور سچ سمجھنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ کسی شہر میں دو تین مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے۔‘‘
’’کیا ان کو ہر دفعہ انعام ملتا ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔ یہ جب پندرہ بیس مرتبہ روپ بھر چکتے ہیں تو آخری بار سلام کرنے آتے ہیں، بس یہی وقت انعام لینے کا ہوتا ہے۔‘‘
’’بھلا کتنا انعام ملتاہوگا انہیں؟‘‘
’’کچھ زیادہ نہیں، کہیں سے ایک روپیہ کہیں سے دو روپے اور کہیں سے کچھ بھی نہیں۔ یہ رئیس اعظم صاحب اگرپانچ روپے بھی دے دیں تو بہت غنیمت جانو۔ بات یہ ہے کہ آج کل اس فن کی کچھ قدرنہیں رہی۔ اگلے وقتوں کے امیر لوگ تو اس قسم کے پیشے والوں کو اتنا اتنا انعام دے دیا کرتے تھے کہ انہیں مہینوں روزی کی فکرنہ رہتی تھی۔ مگر آج کل تو یہ بے چارے بھوکوں مر رہے ہوں گے اور۔۔۔‘‘
میں کچھ اور کہنے ہی کو تھا کہ اتنے میں وہی بہروپیا مہاجن بناہوا حویلی کے پھاٹک سے نکلا۔ مدن جو کسی گہری سوچ میں ڈوباہوا تھا، اسے دیکھ کر چونک پڑا۔ بہروپیا ہماری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر بازار کی طرف چل دیا۔بہروپئے کا پیٹھ موڑنا تھاکہ مدن نے اچانک میرا ہاتھ زور سے تھام لیا اور دھیمی آواز میں کہنے لگا، ’’اسلم آؤ اس بہروپئے کا پیچھا کریں اوردیکھیں کہ وہ کہاں رہتا ہے، اس کا گھر کیسا ہے۔ اس کا کوئی نہ کوئی میک اپ روم تو ہوگا ہی، شاید اس تک ہماری رسائی ہو جائے، پھر میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلی صورت میں کیا لگتا ہے۔‘‘
’’مدن دیوانے نہ بنو۔‘‘میں نے کہا، ’’نجانے اس کا ٹھکانہ کدھر ہے۔ ہم کہاں مارے مارے پھریں گے۔ نجانے ابھی اس کو اورکن کن گھروں میں جانا ہے۔۔۔‘‘
مگر مدن نے ایک نہ سنی۔ وہ مجھے کھینچتا ہوالے چلا۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کے مزاج میں طفلانہ ضد تھی۔ ایسے لوگوں کے سر پر جب کوئی دھن سوار ہو جائے تو جب تک اسے پورا نہ کرلیں نہ خود چین سے بیٹھتے ہیں نہ دوسروں کو چین لینے دیتے ہیں۔ ناچارمیں اس کی دوستی کی خاطر اس کے ساتھ ہو لیا۔
یہ گرمیوں کی ایک شام تھی، کوئی چھ کا عمل ہو گا، اندھیرا ہونے میں ابھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں دل ہی دل میں حساب لگانے لگا۔ ہمارا علاقہ شہر کے عین وسط میں ہے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے اگر بہروپیے نے آدھے شہر کا احاطہ بھی کرلیا ہوتو ابھی آدھا شہر باقی ہے جہاں اسے اپنے فن کی نمائش کے لیے جانا ضروری ہے۔ چنانچہ اگرزیادہ نہیں تو دو گھنٹے تو ضرورہی ہمیں اس کے پیچھے پیچھے چلنا پڑے گا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک سے دوسرے بازار میں گزرتا جارہا تھا۔ راستے میں جب کبھی کوئی بڑی حویلی یا کسی مکان کا دیوان خانہ نظر آتا تو وہ بلاتکلف اندرداخل ہوجاتا اور ہمیں دو تین منٹ باہر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ بعض بڑی بڑی دکانوں میں بھی اس نے حاضری دی مگر وہاں وہ ایک آدھے منٹ سے زیادہ نہ رکا۔شفق کی کچھ کچھ سرخی ابھی آسمان پر باقی تھی کہ ان حاضریوں کا سلسلہ ختم ہوگیا کیونکہ بہروپیا اب شہر کے دروازے سے باہر نکل آیاتھا اور فصیل کے ساتھ ساتھ چلنے لگاتھا۔
ہم نے اب تک بڑی کامیابی سے اپنے کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ اس میں بازاروں کی ریل پیل سے ہمیں بڑی مدد ملی تھی مگر اب ہم ایک غیر آباد علاقے میں تھے جہاں اکا دکا آدمی ہی چل پھررہے تھے۔ چنانچہ ہمیں قدم قدم پر یہ دھڑکا تھا کہ کہیں اچانک وہ گردن پھیر کر ہمیں دیکھ نہ لے۔ بہرحال ہم انتہائی احتیاط کے ساتھ اور اس سے خاصی دور رہ کر اس کا تعاقب کرتے رہے۔
ہمیں زیادہ چلنا نہ پڑا۔ جلدہی ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچ گیے جہاں فصیل کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں اور غریب غربا نے پھونس کے جھونپڑے ڈال رکھے تھے۔ اس وقت ان میں سے کئی جھونپڑوں میں چراغ جل رہے تھے۔ بہروپیا ان جھونپڑوں کے سامنے سے گزرتا ہوا آخری جھونپڑے کے پاس پہنچا جوذرا الگ تھلگ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا۔
جھونپڑے کے باہر ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی تین برس ہوگی اور ایک پانچ برس کا لڑکا زمین پر بیٹھے کنکریوں سے کھیل رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے بہروپیے کو دیکھا، وہ خوشی سے چلانے لگے: ’’اباجی آگئے! ابا جی آگئے!‘‘ اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیے۔ بہروپیے نے ان کے سروں پرشفقت سے ہاتھ پھیرا ، پھر وہ ٹاٹ کا پردہ سرکا کر بچوں سمیٹ جھونپڑے میں داخل ہوگیا۔ میں نے مدن کی طرف دیکھا ،’’کہو اب کیا کہتے ہو؟‘‘
’’ذرا رکے رہو۔ وہ ابھی مہاجن کا لباس اتار کر اپنے اصلی روپ میں باہر نکلے گا۔ اتنی گرمی میں اس سے جھونپڑے کے اندر کہاں بیٹھا جائے گا۔‘‘
ہم نے کوئی پندرہ بیس منٹ انتظارکیا ہو گا کہ ٹاٹ کا پردہ پھر سرکا اور ایک نوجوان آدمی ململ کی دھوتی کرتا پہنے پٹیاں جمائے، سر پردو پلی ٹوپی ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھے جھونپڑے سے باہر نکلا، بوڑھے مہاجن کی سفید مونچھیں غائب تھیں اور ان کی بجائے چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر زیب دے رہی تھیں۔
’’یہ وہی ہے‘‘۔ یکبارگی مدن چلا اٹھا، ’’وہی قد، وہی ڈیل ڈول۔‘‘
اور جب ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے تو اس کی چال بھی ویسی ہی تھی جیسی مہاجن کا پیچھا کرنے میں ہم نے مشاہدہ کی تھی۔ میں اور مدن حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اب کے اس نے یہ کیسا روپ بھرا؟ اس وقت وہ کن لوگوں کو اپنے بہروپ کا کمال دکھانے جارہاہے؟
وہ شخص کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، پھر ایک گلی میں ہوتا ہوا دوبارہ شہر کے اندر پہنچ گیا۔ ہم بدستور اس کے پیچھے لگے رہے۔ وہ بازار میں چلتے چلتے ایک پنواڑی کی دکان پر رک گیا۔ ہم سمجھے کہ شاید پان کھانے رکا ہے مگر نہ تو اس نے جیب سے پیسے نکالے اور نہ پنواڑی نے اسے پان ہی بنا کے دیا، البتہ ان دونوں میں کچھ بات چیت ہوئی جسے ہم نہیں سن سکے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ پنواڑی دکان سے اتر آیا اور بہروپیا اس کی جگہ گدی پر بیٹھ گیا۔
پنواڑی کے جانے کے بعد اس دکان پر کئی گاہک آئے جن کو اس نے سگریٹ کی ڈبیاں اور پان بنابنا کر دیے۔ وہ پان بڑی چابکدستی سے بنا تا تھا جیسے یہ بھی کوئی فن ہو۔ہم کوئی آدھے گھنٹے تک بازار کے نکڑ پر کھڑے یہ تماشہ دیکھتے رہے، اس کے بعد ایک دم ہمیں سخت بھوک لگنے لگی اور ہم وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے۔
اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ صبح آٹھ نو بجے تک سو کر کل کی تکان اتاروں گا مگر ابھی نور کا تڑکا ہی تھا کہ کسی نے میرا نام لے لے کر پکارنا اوردروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں ہڑبڑا کراٹھ بیٹھا۔ نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا تو مدن تھا۔میں پیچ و تاب کھاتا سیڑھیوں سے اترا۔
’’اسلم جلدی سے تیارہوجاؤ‘‘۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔
’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’جلدی کرو، کہیں بہروپیا صبح ہی صبح گھر سے نہ چل دے۔‘‘اور اس نے مجھے ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھا کہ میرا دل فوراً پسیج گیا۔
جب ہم کبھی دوڑتے ، کبھی تیز تیز قدم اٹھاتے فصیل کی طرف جارہے تھے تو مدن نے مجھے بتایا کہ رات بھر وہ بہروپیے کو خواب میں طرح طرح کے روپ میں دیکھتا رہا، پھر صبح کو چار بجے کے قریب آپ ہی آپ اس کی آنکھ کھل گئی اور اس کے بعد پھر اسے نیند نہ آئی۔ابھی سورج نکلنے نہیں پایا تھا کہ ہم بہروپیے کے جھونپڑے کے پاس پہنچ گیے۔ پچھلی رات ہم اندھیرے میں اس علاقے کا صحیح جائزہ نہ لے سکے تھے مگر اب دن کی روشنی میں ہمیں ان جھونپڑوں کے مکینوں کی غربت اور خستہ حالی کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ بہروپیے کے جھونپڑے پر ٹاٹ کا جو پردہ پڑا تھا اس میں کئی پیوند لگے تھے۔
ہم دو تین بار اس کے جھونپڑے کے سامنے سے گزرے۔ ہر بار ہمیں اندر سے بچوں کی آوازیں، دو ایک نسوانی آوازوں کے ساتھ ملی ہو ئی سنائی دیں، آخر کوئی دس منٹ کے بعد ایک شخص بوسیدہ سا تہمد باندھے، بنیان پہنے، ایک ہاتھ میں گڑوی تھامے جھونپڑے سے برآمد ہوا۔ اس کی داڑھی مونچھ صاف تھی۔ سانولارنگ،اس کو دیکھ کر اس کی عمر کا صحیح اندازہ کرنا مشکل تھا۔
وہ شخص آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے پیچھے کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلے۔ آگے ایک باڑا آیا جس میں کچھ گائیں، بھینسیں کھونٹوں سے بندھی ہوئی تھیں، وہ شخص اس باڑے کے اندر چلا گیا اور میں اور مدن باہر ہی اس کی نظروں سے اوجھل ایک طرف کھڑے ہو گیے جہاں سے ہم اس کی حرکات و سکنات کو بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ اس نے ایک بھینس کو پچکارا، پھر وہ زمین پر بیٹھ کر اس کے تھنوں کو سہلانے لگا، اس کو دیکھ کر ایک بڈھا جو بھینسوں کے پاس ایک چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور ایک بڑی سی بالٹی لے آیا۔ اب اس شخص نے بھینس کو دوہنا شروع کیا۔ ہم اگرچہ اس سے کچھ دور کھڑے تھے مگر دودھ کی دھاروں کی آواز دھیمی دھیمی سن سکتے تھے۔
جب وہ ایک بھینس کو دوہ چکا تو دوسری کی طرف گیا، پھر تیسری کی طرف، اس کے بعد گایوں کی باری آئی۔ اس نے دو تین گایوں کو بھی دوہا، جن کے دودھ کے لیے بڈھے نے ایک اور بالٹی لاکر رکھ دی تھی۔اس کام میں کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ بڈھے نے اس کی گڑوی کو دودھ سے بھر دیا جسے لے کر وہ باڑے سے نکل آیا۔ ہم پہلے ہی وہاں سے کھسک لیے تھے جب وہ ذرا دور چلا گیا تو میں نے مدن کو چھیڑنے کے لیے کہا: ’’لو اب تو حقیقت کھل گئی تم پر ۔ چلو اب گھر چلیں۔ ناحق تم نے میری نیند خراب کی۔‘‘
’’مگر بھیا وہ بہروپیا کہاں تھا ۔ وہ تو گوالاتھا گوالا۔آؤ تھوڑی دیر اور اس کا پیچھا کریں۔‘‘ میں نے مدن سے زیادہ حیل وحجت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ہم کچھ دیر ادھر ادھر ٹہلتے رہے ہم نے اس کا ٹھکانہ تو دیکھ ہی لیا تھا اب وہ ہماری نگاہوں سے کہاں چھپ سکتا تھا۔جب ہمیں اس کے جھونپڑے کے آس پاس گھومتے آدھ گھنٹہ ہوگیا تو ہمیں ایک تانگہ فصیل کے ساتھ والی سڑک پر تیزی سے ادھر آتاہوا دکھائی دیا۔ یہ تانگہ بہروپیے کے جھونپڑے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اس میں کوئی سواری نہ تھی جو شخص تانگہ چلارہا تھا اس نے تانگے کی گھنٹی پاؤں سے دبا کر بجائی۔ اس کی آواز سنتے ہی ایک آدمی جھونپڑے سے نکلا، اس نے کوچوان کا سا خاکی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر تانگے والا تانگے سے اتر پڑا اور یہ شخص تانگے میں آبیٹھا اور راسیں تھام گھوڑے کو بڑی مہارت سے ہانکنے لگا۔ جیسے ہی تانگہ چلا پہلے شخص نے پکار کر کہا،’’تانگہ ٹھیک دو بجے اڈے پر لے آنا۔‘‘
دوسرے شخص نے گردن ہلائی۔ اس کے بعد ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ تانگہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔میں اور مدن یہ ماجرا دیکھ کر ایسے حیران رہ گیے کہ کچھ دیر تک ہماری زبان سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ آخر مدن نے سکوت کو توڑا،’’چلو یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ یہ شخص دو بجے تک کیا کرے گا۔ اتنی دیر تک ہمیں بھی چھٹی ہوگئی۔ اب ہمیں ڈھائی تین بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہیے۔‘‘
میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ اس بہروپیے کے معاملے سے اب خود مجھے بھی بہت دل چسپی پیداہوگئی تھی اور میں اس کی اصلیت جاننے کے لیے اتناہی بیتاب ہو گیا تھا جتنا کہ مدن۔ہم لوگ کھانے پینے سے فارغ ہو کر تین بجے سے پہلے ہی پھربہروپیے کے جھونپڑے کے آس پاس گھومنے لگے۔ جھونپڑے کے اندر سے بچوں اور عورتوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کسی مرد کی آواز بھی سنائی د ے جاتی تھی۔ اس سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ بہروپیا گھرواپس پہنچ گیا ہے۔
ہمیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور اب کے بہروپیا ایک اور ہی دھج سے باہرنکلا۔ اس نے سیاہ چغہ پہن رکھاتھا۔ سرپر کالی پگڑی جو بڑی خوش اسلوبی سے باندھی گئی تھی۔ گلے میں رنگ برنگی تسبیحیں، ترشی ہوئی سیاہ داڑھی، شانوں پر زلفیں بکھری ہوئی۔ اس نے بغل میں لکڑی کی ایک سیاہ صندوقچی داب رکھی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آج اس نے ایک صوفی درویش کاسوانگ بھرا ہے۔ مگر ابھی کل ہی تووہ مہاجن کے روپ میں شہر کادورہ کرچکا تھا اور کوئی نیا روپ بھرنے کے لیے اسے دوتین دن کا وقفہ درکار تھا، پھر آج کس لیے اس نے یہ وضع بنائی ہے؟ اس سوال کاہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
چنانچہ ہم چپکے چپکے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، وہ شخص جلد جلد قدم اٹھاتا ہوا شہر میں داخل ہوگیا۔ وہ کئی بازاروں میں سے گزرامگر خلاف معمول وہ کسی حویلی یا دکان پرنہیں رکا ۔ معلوم ہوتا تھا آج اسے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے اور داد پانے کاکچھ خیال نہیں ہے۔تھوڑی دیر میں ہم جامع مسجد کے پاس پہنچ گیے جو شہر کے بیچو ں بیچ واقع تھی اور جس کے آس پاس ہر روز تیسرے پہر بازار لگا کرتاتھا اور اتوار کو تووہاں بہت ہی چہل پہل رہا کرتی تھی، میلہ سا لگ جاتا تھا۔ پھیری والے ہانک لگا لگا کے طرح طرح کی چیزیں بیچتے تھے، بچوں کے سلے سلائے کپڑے، چنریاں، ٹوپیاں، کنگھیاں، چٹلے ازار بند، عطرپھلیل، اگربتی، کھٹمل مارنے کا پوڈر، مٹھائیاں، چاٹ ، علاوہ ازیں تعویذ گنڈے والے، جڑی بوٹی والے اور ایسے ہی اور پیشے والے اپنی انوکھی وضع اور اپنی مخصوص صدا سے اس بازار کی رونق بڑھاتے تھے۔
ہمارا بہروپیا بھی خاموشی سے ان لوگوں میں آکرشامل ہوگیا۔اس نے اپنی سیاہ صندوقچی کھول کر دونوں ہاتھوں میں تھام لی۔ اس صندوقچی میں بہت سی چھوٹی چھوٹی شیشیاں قرینے سے رکھی تھیں۔ اس نے کچھ شیشیاں صندوقچی کے ڈھکنے پربھی جما دیں، پھر بڑے گمبھیر لہجے میں صدا لگانی شروع کی :’’آپ کی آنکھوں میں دھند ہو، لالی ہو، خارش ہو، ککرے ہوں، بینائی کمزور ہو، پانی ڈھلکتا ہو، رات کونظر نہ آتا ہو تو میرا بنایا ہوا خاص سرمہ ’’نین سکھ‘‘ استعمال کیجئے۔‘‘
’’اس کا نسخہ مجھے مکہ شریف میں ایک درویش بزرگ سے دستیاب ہواتھا۔ خدمت خلق کے خیال سے قیمت بہت ہی کم رکھی گئی ہے۔ یعنی صرف چار آنے فی شیشی۔‘‘
’’یہ سرمہ اسم بامسمیٰ ہے۔ اس کے لگاتے ہی آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ جاتی ہے۔ آئیے ایک سلائی لگوا کر آزمائش کر لیجئے۔ اس کے کچھ دام نہیں ۔
سرمئہ مفت نظرہوں میری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا
میں اور مدن حیرت زدہ ہو کر بہروپیے کو دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتاتھا مگر اس نے سچ مچ سرمہ فروشی شروع کردی تھی۔ دو تین آدمی اس کے پاس آکھڑے ہوئے اور اس سے باری باری آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگوانے لگے۔ہم جلد ہی وہاں سے رخصت ہوگیے۔ ہم نے بہروپیے کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس