پہلا دن

0
293
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

آج نئی ہیروئن کی شوٹنگ کا پہلا دن تھا۔

میک اپ روم میں نئی ہیروئن سرخ مخمل کے گدّے والے خوبصورت اسٹول پر بیٹھی تھی اورہیڈ میک اپ مین اس کے چہرے کا میک اپ کر رہا تھا۔ ایک اسسٹینٹ اس کے دائیں بازو کا میک اپ کر رہا تھا، دوسرا اسسٹینٹ اس کے بائیں بازو کا۔تیسرا اسسٹینٹ نئی ہیروئن کے پاؤں کی آرائش میں مصروف تھا، ایک ہئیر ڈریسر عورت نئی ہیروئن کے بالوں کو ہولے ہولے کھولنے میں مصروف تھی۔ سامنے سنگار میز پر پیرس، لندن اور ہالی ووڈ کا سامانِ آرائش بکھرا ہوا تھا۔

ایک وقت وہ تھا جب اس ہیروئن کو ایک معمولی جاپانی لپ اسٹک کے لئے ہفتوں اپنے شوہر سے لڑنا پڑتا تھا اس وقت اس کا شوہر مدن اسی میک اپ روم کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا خاموشی سے یہی سوچ سوچ کر مسکرا رہا تھا کیسی مشکل زندگی تھی ان دنوں کی۔۔۔

آج سے تین سال پہلے مدن دہلی میں کلرک تھا۔ تھرڈ ڈویزن کلرک اور ایک سو ساٹھ روپے تنخواہ پاتا تھا۔ ناداری اور غربت کی زندگی تھی۔ کوٹ کا کالر پھٹا ہے، تو کبھی قمیض کی آستین، تو کبھی بلاوز کی پُشت۔ آگے پیچھے جدھر سے وہ دہلی کی زندگی کو دیکھتا تھا، اسے وہ زندگی کٹی پھٹی بوسیدہ اور تار تار نظر آتی ہے۔ ایسی زندگی جس میں کوئی آسمان نہیں ہوتا، کوئی پھول نہیں ہوتا، کوئی مسکراہٹ نہیں ہوتی، ایک نیم فاقہ زدہ جھلاّئی کھسیائی ہوئی زندگی جو ایک پرانی، بدبودار ترپال کی طرح دنوں، مہینوں اور سالوں کے کھونٹوں سے بندھی ہوئی ہر وقت احساس پر چھائی رہتی ہے۔ مدن اس زندگی کے ہر کھونٹے کو توڑدینا چاہتا تھااور کسی موقعے کی تلاش میں تھا۔

یہ موقع اسے ملک گردھاری لال نے دے دیا۔ ملک گردھاری لال اس کے دفتر کا سپرنٹنڈنٹ تھا انہیں دنوں میں دفتر میں ایک اسسٹینٹ کی نئی آسامی منظور ہوئی تھی، جس کے لئے مدن نے بھی درخواست دی تھی۔ اور مدن سینئیر تھا اور لائق بھی تھا اور ملک گردھاری لال کا چہیتا بھی تھا۔ ملک گردھاری لال نےجب اس کی عرضی پڑھی تو اسے اپنے پاس بلایا اور کہا، ’’مدن! تمہاری عرضی میں کئی نقص ہیں۔‘‘

- Advertisement -

’’تو آپ ہی کوئی گر بتائیے۔‘‘

ملک گردھاری لال نے قدرے توقف کے بعد مدن کی عرضی اسے واپس کرتے ہوئے کہا، ’’آج رات کو میں تمہارے گھر آؤں گا اور تمہیں بتاؤں گا۔‘‘

مدن بے حد خوش ہوا۔ گھر جا کر اس نے اپنی بیوی پریم لتا سے خاص طور پر اچھا کھانا تیار کرنے کی فرمائش کی۔ پریم لتا نے بی محنت سے روغن جوش، پنیر مٹر، آلو گھوبھی اور گچھّیوں والا پُلاؤ تیار کیا۔

سرِ شام ہی ملک گردھاری لال مدن کے گھر آگیا اور ساتھ ہی وہسکی کی ایک بوتل بھی لیتا آیا۔ پریم لتا نے جلدی سے پاپڑ تلے، بیسن اور پیاز کے پکوڑے تیار کئے اور پلیٹوں میں سجا کر بیچ بیچ میں خود آکر انہیں پیش کرتی رہی۔

چوتھے پیگ پروہ پالک کے ساگ والی پُھلکیاں پلیٹ میں سجا کر لائی تو ملک گردھاری لال نے بے اختیار ہو کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا، ’’پتیم لتا! تو بھی بیٹھ جا اور آج ہمارے ساتھ وہسکی کی چُسکی لگا لے۔ تیرا پتی میرا اسسٹینٹ ہونے جا رہا ہے۔‘‘

پتیم لتا سر سے پاؤں تک کانپنے لگی اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے، کیونکہ آج تک اس کے خاوند کے سوا کسی نے اسے اس طرح ہاتھ نہ لگایا تھا۔ پھلکیوں کی پلیٹ اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئی، اور مدن نے گرج کر کہا، ’’ملک گردھاری لال۔۔۔ میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی ہمّت تجھے کیسے ہوئی؟‘‘

مدن کا چانس مارا گیا۔ اس کے بجائے سردار اوتار سنگھ اسسٹینٹ بن گیا۔ پھر چند دنوں کے بعد کسی معمولی غلطی کی بنا پر وہ اپنی نوکری سے الگ کر دیا گیا۔ اور مدن نے کئی ماہ دہلی کے دفتروں میں ٹّکریں مارنے کے بعد بمبئی آنے کی ٹھانی۔ کیونکہ اس کی بیوی بڑی خوب صورت تھی۔ مدن کے دوستوں کا خیال تھا کہ پریم لتا اتنی ہی حسین ہے جتنی نسیم پکار میں تھی، وحیدہ رحمان پیاسا میں تھی، مدھو بالا مغلِ اعظم میں تھی۔ اس لئے مدن کو چاہیئے کہ پریم لتا کو بمبئی لے جائے۔ دہلی میں خوب صورت بیوی والے مرد کی ترقی کے لئے کتنی گنجائش ہے۔ مدن اگر اسسٹینٹ بن بھی جاتا تو زیادہ سے زیادہ ڈھائی سو روپے پانے لگتا۔ ایک سو ساٹھ کے بجائے ڈھائی سو روپے۔۔۔ یعنی نوّے روپے کے لئے اپنی عزّت گنوا دیتا، یہ تو سراسر حماقت ہے اس لئے مدن کو سیدھے بمبئی جانا چاہیئے۔

مگر جب مدن نے پریم لتا سے اس کا ذکر کیا تو وہ کسی طرح راضی نہ ہوئی۔ وہ ایک گھریلو لڑکی تھی، اسے کھانا پکانا، سینا پرونا، کپڑے دھونا، جھاڑو دینا اور اپنے شوہر کے لئے سوئیٹر بُننا بہت پسند تھا۔ وہ چودہ روپے کی ساڑھی اور دو روپے کے بلاوز میں بے حد حسین خوش اور مگن تھی، نہیں، وہ کبھی بمبئی نہیں جائےگی، وہ کسی اسکول میں کام کرے گی مگر بمبئی نہیں جائے گی۔

پہلے دو تین دن تو مدن اسے سمجھاتا رہا جب وہ کسی طرح نہ مانی تو وہ اسے پیٹنے لگا۔ دو دن چار چوٹ کی مار کھا کرپریم لتا سیدھی ہوگئی اور بمبئی جانے کے لئے تیار ہو گئی۔

جب پریم لتا اور مدن بوری بندر کے اسٹیشن پر اترے تو ان کے پاس صرف ایک بستر تھا، دو سوٹ کیس تھے، چند سو روپے تھے اور پریم لتا کے جہیز کا زیور تھا۔ چند دن وہ لوگ کالبا دیوی کے ایک دھرم شالے میں رہے اور مکان ڈھونڈتے رہے جب انہیں معلوم ہواکہ جتنے کا زیور پریم لتا کے پاس ہے اور جتنے روپے مدن کے پاس ہیں وہ کل ملا کر بھی اتنے نہیں ہو سکتے کہ بمبئی میں پگڑی دے کر ایک مکان لیا جائے۔ تو وہ لوگ دھرم شالے سے گورے گاؤں کی ایک جھونپڑی میں منتقل ہو گئےجہاں سب سے پہلے مدن کی لڑائی جھونپڑی میں رہنے والے ایک غنڈے سے ہوئی جو شراب پی کر پریم لتا کی عّزت پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لڑائی کے ایک زخم کا نشان آج بھی مدن کی کلائی پر موجود تھا۔ مگر مدن بڑی بہادری اور جیداری سے لڑکر جھونپڑیوں میں با عزّت طریقے سے رہنے کا حق منوالیاتھا کیونکہ جھونپڑیوں میں رہنے والے بنیادی طور پر غریب آدمی تھے اور ایک دوسرے کا حق سمجھتے تھے۔

جھونپڑی میں رہ کر مدن نے پریم لتا کو ساتھ لے کر ایک اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو کے چکّر لگاتے لگاتے فاقے شروع ہو ئے۔ پہلے نقدی ختم ہوئی، پھر پریم لتا کے زیور بکے، پھر قیمتی ساڑھیاں، پھر کم قیمتی ساڑھیاں، آخر میں مدن کے پاس صرف ایک قمیض رہ گئی، جو اس کے بدن پر تھی۔ اور پریم لتا کے پاس صرف ایک ساڑھی اور ایک بلاوز، اور وہ بھی پُشت سے پھٹ گیا تھا۔

’’آپ کا ڈریس آیا ہے۔‘‘ ایک اسسٹینٹ ڈائریکٹر اندر آگیا اور با آواز بلند بولا۔ اور مدن خوابِ خرگوش سے جاگا اور اس نے دیکھا کہ اسسٹینٹ ڈائریکٹر کے ہمراہ ایک درزی ہیروئن کا نیا ڈریس لے کر چلا آرہا ہے۔ جامنی رنگ کا اطلسی غرارہ، زردوزی کے کام کا بنارسی کرتا اور بلو شفان کا دوپٹہ، سنہرے گوٹے کے لہریوں سے جھلمل جھلمل کرتا ہوا، ڈریس کے اندر آتے ہی محسوس ہوا گویا میک اپ روم میں ایک فانوس روشن ہو گیا ہے۔ ہیروئن میک اپ ختم کرکے ڈریسنگ روم میں لباس بدلنے کے لئےچلی گئی۔ لیڈی ہیئر ڈریسر اور خادمائیں اس کے جلو میں تھیں۔

اسے یوں جاتے دیکھ کر مدن کے ہونٹوں پر فتح یابی کی ایک کامران مسکراہٹ نمودار ہوئی اس دن کے لئے اس نے جدّجہد کی تھی، اس دن کے لئے وہ جیا تھا، اس دن کے لئے اس نے فاقے کئے تھے، چنے کھا کر میلی پتلون اور میلی قمیض پہن کر تپتی دوپہریوں، یا موسلادھار برسات سے بھیگی ہوئی شاموں میں وہ پروڈیوسروں کے دفتروں کے چکّر لگاتا رہا تھا آج اس کی کامیابی کا پہلا دن تھا، کامیابی کی پہلی سیڑھی اسے چمن بھائی نے سمجھائی تھی۔ چمن بھائی فلم پروڈیوسروں کو کرائے پر ڈریس سپلائی کرتا تھا اور اکثر اوقات مختلف پروڈیوسروں کے دفتروں یا مختلف اسٹوڈیو میں اسے مل جاتا تھا ایک دن جب مدن پھٹے حالوں میں اس طرح گھوم رہا تھا، چمن بھائی نے اسے اپنے پاس بلا لیا اور پوچھا،

’’کہیں کام بنا؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’تم نرے گدھے ہو۔‘‘

اب مدن نے گالی سن کر بھی خاموش رہ جانا سیکھ لیا تھا۔ اسی لئے وہ خاموش رہا۔

دیر تک چمن بھائی بڑے غّصے میں اس کی طرف دیکھ کر گھورتا رہا۔ پھر بولا، ’’آج شام کو میں تمہارے گھر آؤں گا اور تمہیں کچھ گر کی باتیں بتاؤں گا۔‘‘

پریم لتا نے اپنی ساڑھی کے پھٹے ہوئے آنچل سے اپنی جوانی کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش کی پھر اس نے بیزار ہو کر منھ پھیر لیا۔ جہاں جاؤ کوئی نہ کوئی ملک گردھاری لال مل جاتا ہے۔

مگر اس شام چمن بھائی نے ان کے جھونپڑے میں کاجو پیتے ہوئے کوئی غلط بات نہیں کی۔ البتہ پانچویں پیگ کے بعد چّلا کر بولا،

’’جب تک پریم لتا تمہاری بیوی رہے گی یہ کبھی ہیروئن نہیں بن سکتی۔‘‘

’’کیا بکتے ہو؟‘‘ مدن غّصے سے چّلا کر بولا۔

’’ٹھیک بکتا ہوں۔‘‘ چمن بھائی ہاتھ چلا کر زوردار لہجے میں بولا، ’’سالا ہلکٹ! کس کو تمہاری بیوی دیکھنے کی چاہت ہے سب لوگ مِل مجور سے لے کر مِل مالک تک فلم کی ہیروئن کو کنواری دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’کنواری؟‘‘

’’ایک دم ورجن‘‘

’’مگر میری بیوی کیسے ہو سکتی ہے؟ وہ تو شادی شدہ ہے۔‘‘

’’تو اس کو شادی والی مت بولو، کنواری بولو، اپنی بیوی مت بولو،بولو، یہ لڑکی میری بہن ہے۔‘‘

’’میری بہن؟‘‘ مدن نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں۔ ہاں۔ تمہاری بہن۔ ارے بابا! کون تمہاری اس جھونپڑی میں دیکھنے کو آتا ہے کہ تمہاری بہن ہے کہ بیوی ہے۔‘‘

چمن بھائی تو یہ گر بتا کے چلا گیا، مگر پریم لتا نہیں مانی، مدن کے بار بار سمجھانے پر بھی نہیں مانی۔

’’میں اپنے شوہر کو اپنا سگا بھائی بتاؤں گی۔۔۔؟ ہر گز نہیں، ہر گز نہیں ہو سکتا، اس سے پہلے میں مر جاؤں گی، تم زبان گّدی سے باہر کھینچو گے، جب بھی میں اپنے پتی کو اپنا بھائی نہیں کہوگی۔‘‘

آخر مدن کو پھر اسے پیٹنا پڑا، دو دن پریم لتا نے چار چوٹ کی مار کھائی تو سیدھی ہو گئی اور فلم پروڈیوسروں کے دفتروں میں جا کر اپنے شوہر کو اپنا بھائی بتانے لگی۔

چمن بھائی نے مدن کو اپنے ایک دوست پروڈیوسر چھگن بھائی سے ملوا دیا۔ چھگن بھائی نے پریم لتا کے فوٹو ایک کمر شئیل اسٹوڈیو سے نکلوائے۔ اپنے ڈائرکٹر مرزا عزّت بیگ کو بلوا کر پریم لتا سے اس کا تعارف کرایا۔ مرزا عزّت بیگ نے بڑی گہری نظروں سے پریم لتا کو دیکھا، اس سے بات چیت کی، پھر اسکرین ٹیسٹ کے لئے ہاں کردی۔

اسکرین ٹیسٹ کے لئے فلم کا ایک سین پریم لتا کو یاد کرنے کے لئے دیا گیااور تین دن کے بعد اسکرین ٹیسٹ رکھا گیا۔ تینوں دن ہر روز شام کے وقت چمن بھائی جھونپڑے میں مدن اور پریم لتا سے ملنے کے لئے آتا رہا اور کاجو پیتا رہا اور ان دونوں کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔

’’آج اسکرین ٹیسٹ ہے میری مانو تو تم آج پریم لتا کے ساتھ نہ جاؤ۔‘‘

’’کیوں نہ جاؤں؟‘‘

’’اس لئے کہ اگر تم ساتھ گئے تو پریم لتا فری ایکٹنگ نہ کر سکے گی، تمہیں دیکھ کر شرما جائےگی، اور اگر پریم لتا گھبرا گئی تو یہ اسکرین ٹیسٹ میں فیل ہو جائے گی۔‘‘

’’کیسے فیل ہو جائے گی؟‘‘مدن شراب کے نشے میں جّھلا کر بولا۔

’’میری بیوی نسیم، سچترا سین، مدھوبالا سے بھی خوب صورت ہے۔ میری بیوی الزہ بیتھ ٹیلر سے بھی زیادہ خوب صورت ہے، میری بیوی نرگس سے بہتر اداکارہ ہے، میری بیوی کسی اسکرین ٹیسٹ میں فیل نہیں ہو سکتی، میری بیوی۔۔۔‘‘

’’ابے سالے بیوی نہیں بہن بول بہن۔‘‘ چمن بھائی ہاتھ چلاتے ہوئے زور سے بولا۔

’’اچھا بہن ہی سہی۔‘‘ مدن شراب کا جام خالی کرتے ہوئے بولا، ’’جیسا تم بولو گے چمن بھائی ایسا ہی میں کروگا۔ آج تک کوئی بات ٹالی ہے جو اب ٹالوں گا، لے جاؤ، میرے بھائی! اپنی بہن کو تم ہی آج اسکرین ٹیسٹ کے لئے لے جاؤ، مگر حفاظت سے لے آنا۔‘‘

’’کھاتری رکھو۔ اپنی گاڑی میں لے کر جا رہا ہوں اپنی گاڑی میں لے کر آؤں گا۔‘‘

بہت رات گئے پریم لتا اسکرین ٹیسٹ سے پروڈیوسر کی گاڑی میں لوٹی۔ اس نے وہی ساڑھی پہن رکھی تھی جو اسکرین ٹیسٹ کے لئے استعمال کی گئی تھی۔ اور اس کے منھ سے شراب کی بو آرہی تھی۔ مدن غّصے سے پاگل ہوگیا۔

’’تم نے شراب پی؟‘‘

’’ہاں سین میں ایسا ہی کرنا تھا۔‘‘

’’مگر پہلے سین میں جو تمہیں دیا گیا تھا اس میں تو ایسا نہیں تھا۔‘‘

’’مرزا عزّت بیگ نے سین بدل دیا تھا۔‘‘

’’تو تم نے شراب پی، صرف شراب پی؟‘‘ مدن نے اس سے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں صرف شراب پی۔‘‘

’’اور تو کچھ نہیں ہوا؟‘‘

’’نہیں۔‘‘ پریم لتا بولی، ’’البتہ سین کی رہرسل الگ سے کراتےہوئےمرزا بیگ نے میری کمر میں ہاتھ ڈال دیا۔‘‘

’’کمر میں ہاتھ ڈال دیا۔۔۔ کیوں؟‘‘ مدن نے ایک دم بھڑک کر کہا۔

’’سین کا ایکشن سمجھانے کی خاطر۔‘‘ پریم لتا بولی۔

’’مدن کا غّصہ ٹھنڈا ہو گیا۔‘‘ آہستہ سے بولا، ’’صرف کمر میں ہاتھ ڈالا عزّت پر ہاتھ تو نہیں ڈالا؟‘‘

’’نہیں‘‘ پریم لتا نے نظریں چراکر کہا۔

’’صاف صاف بتاؤ۔ کچھ اور تو نہیں ہوا؟‘‘

’’ہاں ہوا تھا‘‘ پریم لتا جھجکتے جھجکتے بولی۔

’’کیا ہوا تھا؟‘‘ مدن پھر بھڑکنے لگا۔

’’اسکرین ٹیسٹ کے دوران میں جو میرے سامنے ہیرو کا کام کر رہا تھا اس نے مجھے زور سے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔‘‘

’’ایسا اس بدمعاش نے کیوں کیا؟‘‘ مدن گرج کر بولا۔

’’ایسا ہی سین تھا۔‘‘ پریم لتا بولی۔

’’اچھا، سین ہی ایسا تھا۔‘‘ مدن اپنے آپ کو سمجھاتے ہوئے بولا۔

’’سین ہی ایسا تھا تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔‘‘ مگر ٹھیک ٹھیک بتاؤ صرف بانہوں میں لے کر بھینچا تھا؟‘‘

’’ہاں، صرف بانہوں میں لے کر بھینچا تھا۔‘‘ پریم لتا گلو گیر لہجے میں بولی۔ پھر یکایک بستر پر گر کر تکئیے میں سر چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

’’شارٹ تیار ہے۔‘‘

یہ پروڈیوسر چھگن بھائی کی آواز ہے، مدن اس آواز کو سن کر چونک گیا اور بے اختیار کرسی سے اٹھ گیا، چھگن بھائی مدن کو دیکھ کر مسکرایا، ہاتھ بڑھا کر اس نے مدن سے مصافحہ کیا، بڑے پیار سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا، اور اس سے پوچھا،

’’سروج بالا کہاں ہے؟‘‘

چھگن بھائی نے اپنی نئی ہیروئن کا نام پریم لتا سے بدل کر سروج بالا رکھ دیا تھا۔ پیشتر اس کے کہ مدن کوئی جواب دے، نئی ہیروئن خود ڈریسنگ روم سے نکل کر خراماں خراماں میک اپ روم میں چلی آئی، اور نئے لباس، نئے ہیئر اسٹائل اور مکمل میک اپ کے ساتھ ہر قدم پر ایک نیا فتنہ بیدار کرتے ہوئےآئی۔ چند لمحوں تک تو مدن بالکل مبہوت کھڑا اسے دیکھتا رہا گویا اسے یقین نہ ہو کہ یہ عورت اس کی بیوی پریم لتا ہے۔ چھگن بھائی بھی ایک لمحے کے لئے بھو نچکا رہ گیا اور اس ایک لمحے میں اسے مکمل اطمینان ہو گیا کہ اس نے جو فیصلہ کیا تھا وہ بالکل ٹھیک تھا۔ دوسرے لمحے میں چھگن بھائی نے تھیٹریکل انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور بلند آواز میں کہنے لگے،

’’شارٹ تیار ہے سرکار والی، سیٹ پر تشریف لے چلئے۔‘‘

نئی ہیروئن کھلکھلا کر ہنس پڑی اور مدن کو ایسا لگا جیسے کسی شاہی ہال میں لٹکے ہوئے استنبولی فانوس کی بہت سی بِّلو ریں قلمیں ایک ساتھ بج اٹھیں۔

نئی ہیروئن گویا مسکراہٹ کے موتی بکھیرتی ہوئی چھگن بھائی کے ساتھ سیٹ پر چلی، مدن بھی پیچھے پیچھے چلا، اور چھگن بھائی کو اپنی بیوی کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہوئے دیکھ کر مدن کو وہ دن یاد آیا جب چھگن بھائی نے اسکرین ٹیسٹ کے چند دن بعد مدن کو اپنے دفتر بلا بھیجا تھا۔

چھگن بھائی مدن کی کمر میں ہاتھ ڈال کر خود اسے اندر کمرے میں لے گیا تھا جو ایر کنڈیشنڈ تھا۔ اور چھگن بھائی کا اپنا ذاتی پرائیویٹ کمرہ تھا جس میں بزنس کے تمام اہم امور طے ہوتے تھے۔ جب مدن اس کمرے کے اندر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس سے پہلے اس کمرہ میں مرزا عزّت بیگ اور چمن بھائی بیٹھے ہوئے ہیں۔

’’آج بورڈ آف ڈائریکٹرز کی مٹینگ ہے۔‘‘ چمن بھائی نے ہنس کر کہا۔

’’آج ہم لوگ ایک سونے کی کان خریدنے جا رہے ہیں۔‘‘

’’سونے کی کان؟‘‘ مدن نے تعجب سے پوچھا۔

’’ہاں اور تمہارا بھی اس میں حصہ ہے، ایک چوتھائی کا اور باقی تین تمہارے پارٹنر تمہارے سامنے اس کمرے میں بیٹھے ہیں، میں، چھگن بھائی، یہ میرا دوست چمن بھائی، یہ میرا ڈائریکٹر مرزا عزّت بیگ، ہم چاروں آج سے اس سونے کی کان کے پارٹنر ہوں گے۔‘‘

’’اور یہ سونے کی کان ہے کہاں؟‘‘

جواب میں چھگن بھائی نے میز سے ایک تصویر اٹھائی، اور مدن کو دکھاتے ہوئے بولے،

’’یہ رہی۔‘‘

مدن نے حیرت سے کہا، ’’مگر یہ تو میری، بیو۔۔۔ میرا مطلب ہے میری بہن کی تصویر ہے۔‘‘

’’یہی سونے کی نئی کان ہے، تمہاری بہن کو اپنی نئی پکچر میں ہیروئن لے رہا ہوں، اور فلم انڈسٹری کے ٹاپ ہیرو کے سنگ، دیوراج کے سنگ،جس کی کوئی تصویر سِلور جبلی سے اِدھر اترتی ہی نہیں، بولو؟ پھر ایک پکچر کے بعد اس ہیروئن کی قیمت ڈھائی لاکھ ہوگی کہ نہیں؟ اس کو میں سونے کی کان بولتا ہوں تو کیا غلط بولتا ہوں؟ جواب دو۔‘‘

’’مگر میں پوچھتا ہوں کہ میری سونے کی کان آپ کی کیسے ہوگئی؟‘‘ مدن نے حیران ہوکر پوچھا۔

’’کیوں کہ میں اسے ہیروئن لے رہا ہوں‘‘ چھگن بلند آواز میں بولا۔ نہیں تو یہ لڑکی کیا ہے، گورے گاؤں کے ایک جھونپڑے میں رہنے والی پندرہ روپے کی چھوکری، پھر میں اس کی پبلسٹی پر پچھتر ہزار روپیہ خرچ کروں گا کہ نہیں؟ پھر میں اس کو ٹاپ کے ہیرو دیوراج کے سنگ ڈال رہا ہوں اس کے بعد اگر میں اس کان میں ففٹی پرسنٹ کا شیئر مانگتا ہوں تو کیا زیادہ مانگتا ہوں؟ اور صرف پانچ سال کے لئے۔‘‘

’’اور تم ؟‘‘ مدن نے چمن بھائی سے پوچھا۔

’’اگر میں تمہیں چھگن بھائی سے نہ ملاتا تو تمہیں یہ کانٹریکٹ آج کہاں سے ملتا۔ اس لئے حساب سے ساڑھے بارہ فیصدی کا کمیشن میرا ہے۔‘‘

’’اور تم؟‘‘ مدن نے عزّت بیگ کی طرف مڑکر بولا۔

’’اپن تو ڈائریکٹر ہے۔‘‘ مرزا عزّت بیگ بولا، ’’اپن چاہے تو اس پکچر میں نئی ہیروئن کو فرسٹ کلاس بنا دے، چاہے تو تھرڈ کلاس بنا دے۔ اس لئے اپن کو بھی ساڑھے بارہ فیصدی چاہئے۔‘‘

’’مگر یہ تو بلیک میل ہے۔‘‘ یکایک مدن بھڑک کر بولا۔

’’عزّت کی بات کرو، عزّت کی۔‘‘ عزّت بیگ خفا ہوکربولا، ’’اپن اپنی عزّت ہمیشہ بیگ میں رکھیا ہےاس لئے اپن کا نام عزّت بیگ ہے، اپن عزّت چاہتا ہے، اور اپنا شیئر، صرف ساڑھے بارہ فیصدی۔‘‘

یکایک مدن کو ایسا محسوس ہوا جیسے پریم لتا کوئی عورت نہیں ہے وہ ایک کاروباری تجارتی ادارہ ہے جس کے شیئر بمبئی کے اسٹاک ایکسچینج پر خریدوفروخت کے لئے آگئے، جیسے گلوب کمبائن الکائن اور ٹاٹا ڈیفرڈ، ایسے ہی پریم لتا پرائیویٹ لمٹیڈ!

’’مجھے کہاں دستخط کرنے ہوں گے؟‘‘ مدن نے تقریباً روہانسا ہوکر پوچھا۔

فاقوں کے ماہ سال ماضی کا حصہ بن چکے تھے، جس دن مدن نے کانٹریکٹ پر دستخط کئے، چھگن نے اسے دو ہزار کا چیک دیا، ملبار ہل پر ان کے رہنے کے لئے ایک عمدہ فلیٹ ٹھیک کردیا، ایک نئی فیاٹ گلوب موٹرز کی دوکان سے نکلواکے سے دی، اسی رات مدن اور پریم لتا اپنے نئے فلیٹ میں چلے گئے، اور مدن نے پریم لتا کو گلے سے لگا کر اس کی کامیابی کے لئے دعا کی اور مدن کے پیروں کو چھوکر پریم لتا نے پرتگیا کے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صرف اس کی بیوی ہوکر رہیگی آخر کارمدن کی محنت اور جدّوجہد رنگ لائی، آخر کار کامیابی نے مدن کے پاؤں چومے، آج اس کی بیوی ہیروئن تھی، پریم لتا، سروج بالاتھی، آج اس کی شوٹنگ کا پہلا دن تھا۔

اور اب وہ دن بھی ختم ہو رہا تھا، اسٹیج نمبروں کے باہر مدن اپنی فیاٹ میں بیٹھا ہوا بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا، کب پانچ بجیں گے، کب پیک اپ ہوگا، اور کب وہ اپنی دل کی رانی کو اپنی فیاٹ میں بٹھا کر دور کہیں سمندر کے کنارے ڈرائیو کے لئے لے جائے گا۔

پیک اپ کی گھنٹی بجی، اور مدن کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

تھوڑی دیر کے بعد نئی ہیروئن باہر نکلی، اس کا ہاتھ دیوراج کے ہاتھ میں تھا، اور وہ دونوں بڑی بے تکلفی سے باتیں کرتے، ہنستے بولتے، ہاتھ جُھلاتے ساتھ ساتھ چلے آرہے تھے، ساتھ ساتھ فیاٹ سے آگے چلے گئے، جہاں ہیروں کی شاندار امپالا گاڑی کھڑی تھی۔

مدن نے فیاٹ کا پٹ کھول کر آواز دی۔

’’سروج۔‘‘

’’ہاں بھیّا۔‘‘ ہیروئن پلٹ کر چلائی، اور پھر دوڑتی ہوئی مدن کے پاس آئی اور آہستہ سے بولی، ’’تم گھر جاؤ، میں دیوراج کی گاڑی میں آتی ہوں۔‘‘

’’مگر تم میری گاڑی میں کیوں نہیں جا سکتیں؟‘‘ مدن نے غّصے سے پوچھا۔

’’باؤلے ہوئے ہو۔‘‘ پریم لتا نے طیش کھا کر جواب دیا، ’’میں اب ایک ہیروئن ہوں، اور اب میں کیسے تمہارے ساتھ اس چھوٹی سی فیاٹ میں بیٹھ کر اسٹوڈیو سے باہر نکل سکتی ہوں، لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

’’سروج‘‘ ادھر سے ہیرو زور سے چّلایا۔

’’آئی‘‘ سروج زور سے چّلائی اور پلٹ کر ہیرو کی گاڑی کی طرف دوڑتی ہوئی چلی گئی۔ دیوراج سامنےکی سیٹ پر ڈرائیو کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور سروج اس کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔ پھر امپالا کے پٹ بند ہوگئے اور وہ خوب صورت فیروزی گاڑی ایک خوش آئند ہارن کی موسیقی پیدا کرتی ہوئی گیٹ سے باہر چلی گئی اور مدن کی فیاٹ کا پٹ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

مأخذ : کبوتر کے خط

مصنف:کرشن چندر

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here