کہانی کی کہانی:‘‘نوجوانوں کے خوابوں کی شکست و ریخت اور ملازمت کا بحران اس کہانی کا موضوع ہے۔ فضل اپنے والد کی خواہش پر لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے لیکن ملک کی خدمت کے جذبہ سے سرشار فضل کا دل قانون کی تعلیم میں نہیں لگتا ہے۔ ذہنی طور پر فرار حاصل کرنے کے لئے وہ ڈانسنگ کا ڈپلوما بھی کر لیتا ہے۔ اتفاق سے اسے ایک لڑکی روز میری مل جاتی ہے جو ملک کی خدمت کے اس کے جذبے سے متاثر ہو کر اس کی معاون بننے کی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ فضل فوری طور پر گھر تار دیتا ہے کہ وہ قانون کی تعلیم چھوڑ کر وطن واپس آرہا ہے اور اس نے شادی بھی کر لی ہے۔ بندرگاہ پہ اسے گھر کا ملازم خط دیتا ہے جس میں والد نے اس سے اپنی لا تعقی ظاہر کی تھی۔ ایک مہینے تک دونوں ایک ہوٹل میں ٹھہرے رہتے ہیں۔ اس دوران انتہائی بھاگ دوڑ کے باوجود فضل کو کوئی مناسب ملازمت نہیں مل پاتی ہے اور آخر ایک دن وہ ڈانسنگ روم کھول لیتا ہے۔ اس کو دیکھ کر روز میری کے چہرے کا رنگ فق ہو جاتا ہے تو فضل اس سے کہتا ہے، آخر فنون لطیفہ کی خدمت بھی تو قومی خدمت ہی ہے نا۔۔۔’’
آرکسٹرا نے ناچ کی ایک نئی دھن بجانی شروع کی اور ناچنے والے جن میں زیادہ تعداد لندن یونیورسٹی کے شعبہ السنۂ شرقیہ و افریقہ کے طلباء اور طالبات کی تھی، پھر مصروف رقص ہو گئے۔
ناچ کا یہ ہنگامہ لندن کی ایک بھیگی ہوئی سرد شام کو، یونیورسٹی کی وسیع عمارت کے ایک کمرے میں برپا تھا۔ مجمع کچھ زیادہ بڑا تو نہیں تھا، پھر بھی دنیا کے چھ براعظموں میں سے کم از کم چار کی نئی پود کی نمائندگی کرتا تھا۔ یوں تو انگریزی زبان، لباس اور آداب مجلسی نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا تھا۔ مگر رنگ، خدوخال، لب و لہجہ اور چال ڈھال کے اختلافات قدم قدم پر، کبھی کھلے بندوں اور کبھی چپکے سے ان کے غیر قوم ہونے کی غمازی کر دیتے تھے۔ بعض اوقات کسی زبان کے حروف تہجی کی محض ایک مخصوص صوت متکلم کی قومیت کا راز فاش کر دینے کے لیے کافی ہوتی تھی۔
فضل نے دوبارہ اسی سنہرے بالوں والی اجنبی لڑکی سے ناچنے کی درخواست کی جس کے ساتھ وہ ایک مرتبہ پہلے بھی ناچ چکا تھا۔ لڑکی نے اس کی درخواست کو کسی قدر تامل کے بعد منظور کر لیا۔ اور وہ دونوں ناچنے والوں میں شامل ہو گئے۔ سنہرے بالوں والی لڑکی کا تامل کچھ رنگ اور قومیت کی تفریق کی بنا پر نہ تھا، کیونکہ اول تو یونیورسٹی کی تقریبات میں یہ چیز لندن کی عام مجلسی زندگی کی نسبت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ دوسرے ایسی پارٹیوں میں جو تعلیم کی ایک مقررہ میعاد ختم ہونے پر دی جاتی ہیں اور جن میں لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے سے بچھڑنے کے خیال سے جذباتی سے ہوکے کچھ زیادہ ہی اپنائیت جتلانے لگتے ہیں، اس کا امکان اور بھی کم رہ جاتا ہے۔ در اصل اس کے تامل کی وجہ یہ تھی کہ وہ فضل کے ساتھ رقص کرکے اس کی مہارت فن دیکھ چکی تھی اور وہ خود کو اس کے مقابلے میں کمتر پاتی تھی۔
ناچ کے چکر ایک دو تین ایک دو تین کی تال پر مزے مزے چل رہے تھے۔ سازندے کچھ زیادہ سریلے نہ تھے اور طلبا سے یہ امید بھی نہ ہو سکتی تھی کہ وہ لندن کے کسی چوٹی کے آرکسٹرا کا انتظام کریں گے، پھربھی یہ لوگ نغمگی پیدا کرنے کے لیے جی توڑ کوشش کر رہے تھے۔ ان کے چہروں کی سرخی و بشاشت اور چشم و ابرو کی جنبشیں کہے دیتی تھیں کہ وہ طلباء کو مایوس نہیں کریں گے۔ اس سنہرے بالوں والی لڑکی نے فضل کے ساتھ رقص کرتے ہوئے بالآخر خود ہی خاموشی کو توڑا، ’’آپ تو بہت اچھا ناچتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے فن کا ساتھ نہیں دے رہی۔‘‘
’’کسر نفسی سے کام نہ لیجیے۔‘‘ فضل نے کہا، ’’آپ بھی بہت اچھا ناچتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آپ کے پاس ڈپلوما نہ ہو‘‘ اور یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔
’’تو کیا آپ کے پاس ڈپلوما ہے؟‘‘ لڑکی کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’جی ہاں اور کیا۔ باقاعدہ امتحان پاس کر کے سند حاصل کی ہے۔‘‘ اور وہ پھر مسکرایا، ’’مگر یہ سودا خاصہ مہنگا پڑا۔ ایک گتی کے تین سبق، مہینوں یہ سلسلہ جاری رہا۔‘‘
’’تو کیا اپنے ملک سے آپ یہی کام سیکھنے آئے تھے؟‘‘ لڑکی نے کسی قدر طعن کے ساتھ پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘ وہ بدستور مسکراتا رہا، ’’میں قانون پڑھتا ہوں۔ ناچ تو مجھے مجبوراً سیکھنا پڑا۔‘‘
’’کیا میں پوچھ سکتی ہوں وہ کیا مجبوری تھی؟‘‘
’’جی ہاں۔ وہ بات یوں ہے پچھلی گرمیوں میں تعطیلات میں میرا ارادہ یورپ کی سیاحت کا ہوا مگر افسوس والد میری رائے سے متفق نہ ہو سکے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں لندن ہی میں رہ کے زیادہ سے زیادہ وقت پڑھنے لکھنے میں صرف کروں۔ چنانچہ مجھے یہیں اپنے لیے دلچسپی کا سامان پیدا کرنا پڑا۔‘‘
’’مگر معاف کیجیے، وہ ڈپلومے کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’یہ بات خاصی مذاق معلوم ہوتی ہے۔ اور شروع شروع میں میں خود بھی اسے مذاق ہی تصور کرتا رہا۔ ہوا یہ۔۔۔ مگر دیکھیے یہ بات ذرا تفصیل کی محتاج ہے اور ناچ ختم ہوا چاہتا ہے۔ اگر آپ کو دلچسپی ہو تو ناچ کے بعد چند لمحوں کے لیے میری میز پر آ جائیےگا۔ میں اکیلا ہی ہوں۔ میں آپ کو بتاؤں گا۔‘‘
ناچ ختم ہوا۔ مگر سنہرے بالوں والی لڑکی فضل کی میز کی طرف نہ گئی بلکہ ایک ٹولی میں جو چھ سات یورپین اور ایشیائی لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل تھی، شامل ہو گئی۔ فضل اکیلا ہی کونے میں اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا اور سگرٹ سلگا کر پینے لگا۔ آرکسٹرا نے کئی اور دھنیں بجائیں، مگر وہ اپنی کرسی سے نہ اٹھا۔ اس دوران میں وہ لڑکی اپنی ٹولی کے نوجوانوں کے ساتھ دو تین مرتبہ ناچی۔ اس کا آخری ناچ ایک ناٹے قد کے بھاری بھرکم چینی نوجوان کے ساتھ تھا۔ فضل دور سے اس کا یہ ناچ بڑی دلچسپی سے دیکھتا رہا۔ ناچ کے ختم ہونے پر اچانک اس نے فضل کی میز کا رخ کیا اور مسکراتی ہوئی اس کے قریب آکر کہنے لگی، ’’لیجیے میں چند منٹ کے لیے اپنے دوستوں سے اجازت لے کر آ گئی ہوں۔ اب جلدی سے اپنا قصہ بیان کر دیجیے۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ فضل نے کہا، ’’ابھی عرض کرتا ہوں۔ لیکن پہلے یہ پوچھنے کی اجازت دیجیے، کہ آپ یہاں کس شعبے سے تعلق رکھتی ہیں؟‘‘
’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘ وہ فوراً بول اٹھی، ’’ میں سٹوڈنٹ نہیں ہوں۔ میں تو ایک لائبریری میں کام کرتی ہوں۔ البتہ میری ایک سہیلی یہاں ملائی زبان کی سٹوڈنٹ ہے اور وہی مجھے یہاں لائی ہے۔۔۔ آپ بھی تو یہاں نہیں پڑھتے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ وہ مسکرایا، ’’آپ ہی کی طرح میں بھی یہاں مہمان ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میرے دوست کو ناچ گانے سے دلچسپی نہیں۔ اسے مجبوراً اس تقریب کا ٹکٹ خریدنا پڑا، جو اس نے مجھے دے دیا۔‘‘
لمحہ بھر خاموشی رہی۔
’’میں آپ کو زیادہ دیر روکنا نہیں چاہتا۔‘‘ فضل نے کہا، ’’لہٰذا ڈپلومے کی بات عرض کرتا ہوں۔ وہ بات در اصل کچھ بھی نہیں۔ میں ایک پرائیویٹ ڈانسنگ اسکول میں جایا کرتا تھا۔ دو تین مہینے میں جب میرا جی بھر گیا تو میں نے اس سلسلے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر سکول کی معلمہ جو سویڈن کی رہنے والی ایک ادھیڑ عمر عورت تھی، مجھ سے کہنے لگی، تم میں اس فن کے لیے قدرتی صلاحیت ہے، جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ پھر تم نے خاصی فنی استعداد بھی پیدا کر لی ہے۔ اب اگر تم صرف چند ہفتے اور مشق کر لو تو تمہیں اس فن میں باقاعدہ ڈپلوما مل سکتا ہے۔ میں یہ سن کر بےاختیار مسکرا دیا، مگر اس نے اپنی متانت قائم رکھی۔
’’آخر اس کا فائدہ بھی کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’اور نقصان بھی کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا۔
آخر میں رضامند ہو گیا۔ اس خاتون نے مجھے ناچ کے کچھ خاص خاص پیشہ ورانہ گر بتلائے۔ چار پانچ ہفتہ بعد میرا امتحان ہوا اور سچ مچ مجھے ڈپلوما مل گیا۔۔۔‘‘
اور یوں فضل اور روزمری کی دوستی کی ابتدا ہوئی۔ شروع شروع میں وہ ہفتہ میں ایک آدھ مرتبہ ملتے۔ مگر جلد ہی تین تین چار چار مرتبہ ملنے لگے۔ وہ کبھی کسی ٹیوب سٹیشن کے باہر ملاقات کی ٹھہراتے، کبھی ہائیڈ پارک میں، کبھی سرپنٹائن کے کنارے کبھی البرٹ ہال کے سامنے۔ دو چار ہی ملاقاتوں میں ویلز کی رہنے والی اس لڑکی کو اندازہ ہو گیا کہ فضل کی زندہ دلی، خوش کلامی، مہارت رقص اور خوش وضعی محض اوپری صفات ہیں۔ ورنہ درحقیقت وہ ایک ذہین، سنجیدہ طبع اور صالح نوجوان ہے جو اپنے اندر ایک دردمند دل رکھتا ہے۔ وہ چاہتا تو آسانی سے لندن کے عیش پسند اور نشاط طلب حلقوں کی آنکھ کا تارا بن سکتا تھا، مگر اس کی اسے کوئی تمنا نہ تھی۔ وہ طبعاً کم آمیز اور خلوت پسند تھا۔ روزمری کو یہ معلوم کر کے بڑی حیرت ہوئی کہ فضل کا حلقہ احباب بہت محدود ہے۔
رفتہ رفتہ روز مری نے اس کے دل کی گہرائیوں میں اترنا شروع کیا۔ اسے معلوم ہوا کہ فضل کو قانون سے، جس کی تحصیل کے لیے اس کے والدین نے اسے ولایت بھیجا تھا، کوئی رغبت نہیں ہے۔ اس نے خود ہی یہ نتیجہ نکالا کہ شروع شروع میں فضل کا سیاحت یورپ کے منصوبے بنانا اور ان میں ناکامی پر رقص کی طرف رجوع کرنا، قانون کی تعلیم سے فرار ہی کی ایک صورت تھا۔ پھر اس نے یہ بھی دیکھا کہ وہ اپنے دل میں اپنے وطن کی خدمت کا، جو حال ہی میں غلامی سے آزاد ہوا تھا شدید جذبہ رکھتا ہے۔ وہ ان سرپھرے نوجوانوں میں سے نہیں تھا جو غیرممالک میں جا کر خدمت وطن کے لیے عجیب و غریب ہیولے بناتے ہیں جنہیں عملی جامہ پہنانا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کوئی سیدھا سادا مگر ٹھوس کام کرنا چاہتا تھا۔
’’روزی!‘‘ وہ کہتا، ’’قانون جاننا بے شک ملک کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے لیکن ذرا غور تو کرو۔ مجھے اس کے لیے کتنے عرصے انتظار کرنا ہوگا۔ اگر میں دن رات ایک کر کے ہر سال امتحانات میں کامیابی حاصل کرتا رہوں تو بھی مجھے تین چار برس اور یہاں گزارنے ہوں گے۔ اور پھر امتحان پاس کر لینا ہی تو کامیابی کی نشانی نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی سالہا سال سخت محنت اور دوڑ دھوپ کی ضرورت ہے۔ تب کہیں رفتہ رفتہ ناموری حاصل ہوتی ہے۔‘‘
’’تم اپنے والد کو صاف صاف کیوں نہیں لکھ دیتے؟‘‘ روزمری نے ایک دن پوچھا۔
’’کچھ فائدہ نہیں۔‘‘ فضل نے کہا، ’’وہ بہت پرانے خیال کے آدمی ہیں جو اولاد کو اپنی مرضی سے ہانکنا چاہتے ہیں۔ یہ نہ سمجھو کہ وہ حصول زر کے لے مجھے قانون پڑھانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس پہلے ہی دولت کی فراوانی ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ کسی نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ قانون کا سیاست سے گہرا تعلق ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کا خاندان دولت کے ساتھ ساتھ سیاسی اقتدار بھی حاصل کر لے۔‘‘
ایک دن صبح کو روز مری اس کے کمرے میں آئی تو دیکھا کہ وہ بڑے انہماک سے کچھ اخباروں کے مطالعہ میں مصروف ہے۔ یہ اخبار اس کے وطن سے آج ہی اسے موصول ہوئے تھے۔ روزمری کو دیکھتے ہی وہ اچھل پڑا، اور بڑے جوش و خروش سے کہنے لگا، ’’روزی جب میرے ملک کو آزادی ملی تو میں وہیں تھا۔ میں تمہیں کیا بتاؤں کہ قومی ایثار و قربانی کا کتنا عظیم طوفان تھا جو میرے اہل وطن کے دلوں میں امنڈ رہا تھا۔ عورتیں اور مرد، بوڑھے اور بچے خدمت وطن کی اس نئی لگن سے بے چین تھے۔ کالجوں کے طلباء اپنی تعلیم کے اوقات کے بعد بیلچوں سے نہریں کھودتے، پل بناتے، مہاجروں کے لیے جھونپڑیاں تیار کرتے، تعطیل کے دنوں میں استادوں اور طالب علموں کی ٹولیاں دیہات کا گشت کرتیں، تاکہ دیہاتیوں میں جنہیں ان کے پچھلے حکمرانوں نے مصلحتاً جاہل اور ان پڑھ رکھا تھا، تعلیم اور حفظان صحت کا پرچار کریں۔
غلامی اور پس ماندگی کے طویل زمانے کے باوجود میرے اہل وطن نے دنیا پر ثابت کر دیا تھا کہ وہ ذہانت، فراست، شجاعت، علم و فن کسی لحاظ سے بھی اقوام عالم سے پیچھے نہیں ہیں۔ میرے ملک کی عورتوں نے اپنے چہروں سے نقاب اٹھا دیے۔ قدامت پسندوں نے مخالفت کی مگر وہ جرأت کے ساتھ اپنی چار دیواریوں سے باہر نکل آئیں اور للکاریں، دشمن سے جنگ پر زخمیوں کی مرہم پٹی کون کرےگا؟ تمہیں خبر ہے روزی! میرے اہل وطن خوشی خوشی اپنے نور چشموں کو ہوابازی کے مدرسوں میں بھیج رہے ہیں۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہے کہ یہ بڑے جان جوکھوں کا کام ہے؟ آزادی کے بعد میں نے اپنی فوج کو پہلی مرتبہ دیکھا۔ وہ جو انان رعنا سینہ تانے بندوقیں اٹھائے اوپچی بنے نادر وطن کے گیت گاتے جا رہے تھے۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مدت کی غلامی کے بعد پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ ان کی قربانیوں کو غیر کی دولت نہیں خرید سکےگی۔
میں نے دیکھا کہ تمام انسان یکایک ایک دوسرے کے کیسے ہمدرد بن گئے ہیں۔ غلامی کے زمانے میں میں پولیس والوں کو ہمیشہ بڑی حقارت کی نظر سے دیکھا کرتا تھا۔ رشوت خور، سفاک، بدزبان، اکھڑ۔ لیکن روز مری اب میرا دل چاہا کہ بے اختیار ان سے لپٹ جاؤں۔ ان کو پیار کروں۔ کیونکہ وہ میرے وطن کے امن کے محافظ ہیں۔ روز مری تم اندازہ کر سکتی ہو کہ آج کل میرے دل کی کیا کیفیت ہے، اور اگر مجھے تمہاری رفاقت اور ہمدردی نصیب نہ ہوتی تو میں یقیناً کسی شدید مرض میں مبتلا ہو گیا ہوتا۔‘‘
روزمری ایک حیرت کے عالم میں فضل کی یہ بے ربط سی تقریر سن رہی تھی۔ فضل کی کیفیت یہ تھی جیسے کوئی بخار میں بہک رہاہو۔ مگر روزمری کو اس کا ایک ایک لفظ انتہائی خلوص میں ڈوبا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے اس نے مادر وطن کی خدمت کا اس قدر شدید جذبہ کسی شخص میں نہیں دیکھا تھا۔ اس کے ماں ، باپ بھائی بہن سب آسودہ حال تھے اور ویلز میں امن و عافیت کی زندگی گزار رہے تھے۔ مگر اس کا مزاج ان سب سے مختلف تھا۔ وہ طبعاً بڑی حساس ، نیک دل اور غمگسار لڑکی تھی، عالمگیر اخوت پر ایمان رکھنے والی۔ وہ چاہتی تھی کہ دنیا میں اس کا وجود کسی مقصد کے لیے کارآمد ثابت ہو۔ یہی جذبہ اسے وطن سے جدا کرکے لندن لایا تھا۔ مگر یہاں ابھی تک اسے اس تمنا کے پورا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے وطن کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور وہ ان لاکھوں لڑکیوں میں سے ایک ہے جو ہر روز صبح شام لندن کی سڑکوں پر تیز تیز چلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ اس کے سنہرے بالوں کی ایک لٹ اس کی پیشانی پر آ پڑی۔ مگر وہ بدستور سوچ میں ڈوبی رہی۔
’’فضل۔۔۔ فضل۔۔۔‘‘ اس نے رک رک کے کہا ، ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ میں تمہارے وطن کے کسی کام آ سکتی ہوں؟‘‘ فضل یہ سن کر پہلے تو بھونچکا رہ گیا، پھر ایک دم اچھل پڑا اور بے اختیار روزمری سے لپٹ کے اس طرح ناچنے لگا جیسے بچے ناچتے ہیں۔ اگلے روز اس نے اپنے باپ کے نام اس مضمون کا ایک تار بھیجا، ’’ میں اب ایک لمحہ بھی قانون پر ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ میں واپس آ رہا ہوں۔ نیز میں نے شادی بھی کر لی ہے۔‘‘
جس وقت جہاز وطن پہنچا تو فضل کو یہ دیکھ کے بڑی مایوسی ہوئی کہ اس کے اقربا میں سے کوئی بھی اس کے استقبال کے لیے بندرگاہ پر نہیں آیا تھا۔ ہاں ایک پرانا نوکر جس نے فضل کو گودیوں میں کھلایا تھا موجود تھا۔ اپنے آقازادے کو دیکھ کر وہ رو پڑا، اور ایک خط نکال کے اسے دیا۔ اس کے والد نے لکھا تھا، ’’برخوردار گھر کا رخ نہ کرنا۔ مجھ سے اب تمہیں کچھ واسطہ نہیں رہا۔‘‘ وہ والد کی طرف سے اسی قسم کے سلوک کی توقع کر رہا تھا، لیکن یہ امید نہ تھی کہ سارے کے سارے رشتہ دار اس سے برگشتہ ہو جائیں گے روزمری صورت حال کو بھانپ گئی۔ اس نے محبت سے فضل کا ہاتھ دبایا اور کہا، ’’فکر نہ کرو۔ تمہارے ساتھ میں بھی نوکری کروں گی۔‘‘
فضل نے اس کے سنہرے بالوں کی ایک لٹ ہاتھ میں لی۔ اسے ہلکے سے جھنجھوڑا اور مسکرا دیا۔ اس کے والد نے شروع ہی میں اس کی تعلیم اور دوسرے اخراجات کے لیے ایک گرانقدر رقم لندن کے ایک بنک میں اس کے نام جمع کرا دی تھی۔ اس میں سے دونوں کے جہاز کے کرائے کے علاوہ وطن پہنچ کے بھی دو ایک ماہ تک ان کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا خرچ نکل سکتا تھا۔ وہ روزمری کے ساتھ درمیانے درجے کے ایک انگریزی ہوٹل میں مقیم ہو گیا۔
دو چار دن میں جب سفر کی تکان اتر گئی تو اس نے ملک کے حالات کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ہر چند ملک رفتہ رفتہ ترقی کر رہا تھا، مگر نہ معلوم کیا وجہ تھی کہ لوگوں میں پہلا سا جوش و خروش نظر نہیں آتا تھا۔ اخبارات میں طالب علموں کے نہریں کھودنے اور پل بنانے کی خبریں بھی نہیں آ رہی تھیں۔ البتہ مہاجرین کا مسئلہ روز بروز سخت مشکلات پیدا کرتا جا رہا تھا جنہیں حل کرنے کی حکومت مقدور بھر کوشش کر رہی تھی۔ اگلے روز اس نے سرکاری دفاتر کے چکر لگانےشروع کیے۔ اسے بعض افسروں کے نام شناسا معلوم ہوئے اور ایک نوجوان افسر تو اس کے کالج کے زمانے کا دوست نکل آیا۔ وہ فضل سے بڑی گرم جوشی سے ملا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد فضل نے اصل مقصد چھیڑا۔
’’کیا سرکار مجھے کوئی کام دے سکتی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ دوست نے فوراً جواب دیا، ’’گورنمنٹ کی اونچی جگہیں تو تم جانتے ہی ہوگے مشتہر کی جاتی ہیں اور بڑی چھان بین کے بعد پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ پر کی جاتی ہیں۔ رہے کلرک تو ان کی پہلے ہی افراط ہے۔ کئی عارضی محکمے اس وجہ سے ابھی تک توڑے نہ جا سکے کہ ان کے کارکنوں کا کیا حشر ہوگا۔ البتہ پرائیویٹ فرموں میں آئے دن اچھی اچھی جگہیں نکلتی رہتی ہیں۔‘‘
فضل نے ہوٹل میں آکر اخبارات میں ’’ضرورت‘‘ کے کالموں کا بغور مطالعہ کیا۔ منیجر اسسٹنٹ سیلز مین، اکاؤنٹنٹ، ٹائپسٹ بیسیوں ہی آسامیوں کے اشتہار تھے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ ان میں سے کسی کا بھی تجربہ نہیں رکھتا تھا۔ لڑکوں کے پڑھانے کے دو ایک اشتہار تھے، یہ کام البتہ وہ کر سکتا تھا کیونکہ اس نے کالج میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس نے ان آسامیوں کے لیے درخواستیں بھیجیں جن میں اپنے کم سے کم اخراجات کا اندازہ کر کے تنخواہ لکھی مگر اسے رسید تک نہ ملی۔
ایک پرائیویٹ فرم میں انٹرویو کے لیے گیا اور خط و کتابت کا کام کرنے کا ایک حقیر سا مشاہرہ منظور کر لیا۔ مگر چند ہی روز میں اس فرم نے اسے جواب دے دیا۔ انہیں عالم فاضل نہیں چاہئے تھا بلکہ ایسا تجربہ کار جو منڈیوں کے اتار چڑھاؤ سے واقف ہو اور زیادہ سے زیادہ نفع اندوزی کے گر جانتا ہو۔ البتہ اگر وہ ٹائپ کا کام جانتا ہو تو کہیں نہ کہیں کھپ سکتا تھا۔ مختلف اسکولوں میں قسمت آزمائی کی لیکن کم سے کم تنخواہ پر بھی کوئی اسے لینے کو تیار نہ تھا۔ کیونکہ وہ معلمی کی کوئی سند یا تجربہ نہیں رکھتا تھا۔ اخباروں کے لیے مضامین لکھے مگر انہیں بلا معاوضہ بھی کسی نے قبول نہ کیا۔
اسے وطن آئے ایک مہینہ ہو گیا تھا۔ اس کے پاس جو پونجی تھی اس کا ایک بڑا حصہ ہوٹل کے کرائے اور کھانے پینے کے بلوں کی نذر ہوچکا تھا اور وہ دن دور نہیں تھا جب اسے اپنی اور بیوی کی طلائی گھڑیوں، بروچ، کیمرے، چاندی کے سگریٹ کیس وغیرہ کے گاہکوں کی ٹوہ لگانی پڑے۔ ایک دن وہ علی الصباح اپنے کمرے سے نکل گیا۔ دوپہر ہو گئی مگر وہ کھانا کھانے نہ آیا۔ اور روزمری نے اس کے انتظار میں خود بھی کھانا نہ کھایا۔ جب وہ چائے کے وقت بھی نہ پہنچا تو اس کی بیوی کو تشویش ہوئی اور اس نے ہوٹل کے منیجر اور ملازموں سے پوچھ گچھ شروع کی، مگر کسی نے اس کے بارے میں کوئی اطلاع بہم نہ پہنچائی۔ آخر شام کے چھ بجے کے قریب وہ لوٹا، مگر روز کی طرح مضمحل اور تھکا ہارا نہیں، اچھلتا کودتا ہنستا کھلکھلاتا۔
’’پیاری روزمری!‘‘ اس نے کہا، ’’معاف کرنا تمہیں انتظار کی زحمت ہوئی مگر یہ جان کر تمہیں خوشی ہوگی کہ آخرکار، کام بن ہی گیا۔ میں تمہیں بتاؤں گا نہیں، بلکہ تمہیں ابھی میرے ساتھ چل کے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہوگا۔ میں نے آج ہی سارے انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔‘‘
اس نے ٹیکسی لی اور روزمری کو لے کر شہر کے ایک ایسے حصہ میں پہنچا، جو تھا تو بارونق مگر آبادی زیادہ گنجان نہ تھی۔ مکانوں کی بالائی منزلوں میں متوسط طبقے کے لوگ رہتے تھے اور نچلے حصوں میں غریب غربا۔ ایک بازار کے نکڑ پر کھڑے ہو کر اس نے روزمری سے کہا ، ’’ذرا اوپر دیکھو۔‘‘ وہ ایک سہ منزلہ عمارت کے سامنے کھڑے تھے۔ جس کی اوپر کی منزلیں خاصی صاف ستھری تھیں البتہ نچلا حصہ رہنے والوں نے اپنے پھوہڑپن سے خراب کر دیا تھا اور پچھلی دیوار پر پڑوس کی کسی گوالن نے اپلے بھی تھوپ رکھے تھے۔ بالائی منزل کی پیشانی پر ایک بڑا سا نیا بورڈ آویزاں تھا جس کا روغن ابھی پورے طور پر سوکھنے نہیں پایا تھا۔ اس بورڈ پر جلی حروف میں لکھا تھا،
لندن اسکول
آف
بالروم ڈانسنگ
روزمری فی الفور سمجھ گئی اور اس کا چہرہ یک لخت زرد پڑگیا۔ مگر کچھ تو جھٹپٹے کی وجہ سے اور کچھ اپنی کامیابی کے نشے میں چور ہونے کے باعث فضل اس کے چہرے کے تغیر کو نہ دیکھ سکا۔
’’آخر فنون لطیفہ کی خدمت بھی تو قومی خدمت ہی ہے نا!‘‘ اس نے کہا۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس