سورج کچھ ایسے زاویہ پر پہنچ گیا کہ معلوم ہوتا تھا کہ چھ سات سورج ہیں جو تاک تاک کر بڑھیا کے گھر میں ہی گرمی اور روشنی پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ تین دفعہ کھٹولی دھوپ کے رخ سے گھسیٹی، اور اے لو وہ پھر پیروں پر دھوپ اور جو ذرا اونگھنے کی کوشش کی تو دھمادھم اور ٹھٹوں کی آواز چھت پر سے آئی۔
’’خدا غارت کرے پیاروں پیٹی کو۔۔۔‘‘ ساس نےبے حیا بہو کو کوسا، جو محلے کے چھوکروں کے سنگ چھت پر آنکھ مچولی اور کبڈی اڑا رہی ہے۔
دنیا میں ایسی بہوئیں ہوں تو کوئی کاہے کو جئے۔۔۔ اے لو دوپہر ہوئی اور لاڈو چڑھ گئیں کوٹھے پر، ذرا ذرا سے چھوکرے اور چھوکریوں کا دل آن پہنچا پھر کیا مجال ہے جو کوئی آنکھ جھپکا سکے۔
’’بہو۔۔۔ق۔۔۔‘‘ بڑھیا نےبلغم بھرے حلق کو کھڑکھڑا کر کہا۔۔۔ ’’اری او۔۔۔ بہو!‘‘
’’جی آئی۔۔۔‘‘ بہو نےبہت سی آوازوں کے جواب میں کہا اور پھر وہی دھمادھم جیسے کھوپڑی پر بھوت ناچ رہے ہوں۔۔۔‘‘
’’ارے تو آچک۔۔۔ خدا سمجھے تجھے۔۔۔‘‘ اور دھم دھم چھن چھن کرتی بہو سیڑھیوں پر سے اتری اور اس کے پیچھے کتوں کی ٹولی۔ ننگے، آدھے ننگے، چیچک منہ داغ۔ ناکیں سڑسڑاتے کوئی پون درجن بچے کھی کھی۔۔۔ کھوں کھوں کھی کھی۔ سب کے سب کھمبوں کی آڑ میں شرما شرما کر ہنسنےلگے۔
’’الہٰی۔ یا تو ان حرامی پلوں کو موت دے دے یا میری مٹی عزیز کرلے، نہ جانے یہ اٹھائی گیر کہاں سے مرنےکو آجاتے ہیں۔۔۔ چھوڑ دیے ہیں جن جن کے ہمارے چھاتی پر مونگ دلنےکو۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔ پر بچے مسکرا مسکرا کر ایک دوسرے کو گھونسے دکھاتے رہے۔
’’میں کہتی ہوں تمہارے گھروں میں کیا آگ لگ گئی ہے۔۔۔ جو۔۔۔‘‘
’’واہ۔۔۔ تم تو مر گئی تھیں۔۔۔‘‘ بہو نے بشریا کے کہنی کا ٹہوکہ دے کر کہا۔
بڑھیا جملے کو اپنی طرف مخاطب سمجھ کر تلملا اٹھی۔
’’جھاڑو پھیروں تیری صورت پر مریں تیرے ہوثے سوتے، تیرے۔۔۔‘‘
’’ماں۔۔۔ ہم تمہیں کب کہہ رہے تھے۔۔۔‘‘ بہو نے لاڈ سے ٹھنک کر کہا۔
مگر بڑھیا کوسے گئی اور بچوں کو تو ایسا آڑے ہاتھوں لیا کہ بیچاروں کو منہ چڑھاتے بھاگتے ہی بنی اور بہو پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی۔
دنیا جہاں میں کسی کی بہو بیٹیاں یوں لونڈوں کے ساتھ کڈکڈے لگاتی ہوں گی۔ دن ہے تو لونڈھیارا، رات ہے تو۔۔۔ ساس تو زندگی سے تنگ تھی۔
’’غن غن۔۔۔ غن غن۔۔۔‘‘ بہو منمنائی۔ اور طوطے کے پنجرے میں پنکھے میں سے تنکے نکال نکال کر ڈالنے لگی! ٹیں، ٹیں۔۔۔ طوطا چنگھاڑا۔
’’خاک پڑی اب یہ طوطے کو کیوں کھائے لیتی ہے‘‘، ساس غرائی۔
’’تو یہ بولتا کیوں نہیں۔۔۔‘‘ بہو نےجواب دیا۔
’’تیری بلا سےنہیں بولتا۔۔۔ تیرے باپ کا کھاتا ہے۔۔۔‘‘ ساس نے پہلو بدل کر کہا۔
’’ہم تو اسے بلائیں گے۔۔۔‘‘ بہو نے اٹھلاکر طوطے کے پنجے میں تنکا کونچ کر کہا۔
’’آئیں۔۔۔ آئیں۔۔۔ اےمیں کہتی ہوں تیرا پتا ہی پگھل گیا ہے۔ اب ہٹتی ہے وہاں سے کہ لگاؤں۔۔۔‘‘ بڑھیا نے دھمکی آمیز پہلو بدل کر کہا اور جب بہو نے اور سنگایا تو کٹھالی کی شکل کی جوتی اٹھا کر ایسی تاک کر ماری کہ وہ گھڑونچی کے نیچے سوئے ہوئے کتے کے لگی۔ جو بلبلا کر بھاگا۔ اور بہو کھکھلا کر ہنسنےلگی۔ بڑھیا نے دوسری جوتی سنبھالی اور بہو کھمبے کی آڑ میں۔
’’آنے دے اصغر کے بچہ کو۔۔۔‘‘
’’بچہ۔۔۔‘‘ بہو کو بچے کے نام پر بجائے شرمانے کے ہنسی دبانا پڑی۔
’’تھو، ہے تیرے جنم پر۔۔۔ اے اور کیا۔۔۔ بچہ بھی آج کو ہو جاتا جو کوئی بھاگوان آئی، جس دن سے قدم دھرا گھر کا گھروا ہوگیا۔‘‘ بہو اور مسکرائی اور طوطے کا پنجرہ جھکول ڈالا۔
’’میں کہتی ہوں یہ طوطے کی جان کو کیوں آگئی ہے۔‘‘
’’تو یہ بولتا کیوں نہیں۔۔۔ ہم تو اسے بلائیں گے۔‘‘
بڑھیا جل کر کوئلہ ہوگئی۔۔۔ ’’یہی ڈھنگ رہے تو اللہ جانتا ہے کہ دوسری نہ لاؤں تو نام نہیں۔۔۔‘‘
دھوپ ڈھل کر گھڑونچی اور وہاں سےکنڈیلی پر پہنچی۔
ساس بڑبڑاتی رہی۔۔۔ موئے نفقتے بیٹی کو کیا جہیز دیا تھا۔ اے واہ قربان جائیے۔۔۔ خولی کڑے اور ملمع کی بالیاں اور۔۔۔
’’تو ہم کیا کریں۔۔۔‘‘ بہو پھوہڑ پنے سے بڑبڑائی اور کھٹولی پر پسر کر لیٹ گئی۔
’’اور وہ ایلومونیم کے۔۔۔‘‘ جمائی لے کر بڑھیا نے پٹاری پر سر رکھ کر ذرا ٹانگیں پھیلا کر کہا۔ اور پھر سونے سے پہلے وہ سمدھنوں کے گھٹنوں پر سے گھسے ہوئے گلبدن کے پاجاموں، پھیکے زردےاور گھنے ہوئے پایوں والے جہیز کے پلنگ کا ذکر کرتی رہی مگر بے حیا بہو آدھی کھٹولی اور آدھی زمین پر لٹک کر سو بھی گئی۔
بڑھیا کی بڑبڑاہٹ میں بھی خراٹوں میں نہ جانے کب بدل گئی۔
اصغر نےچھتری کو کھمبے سے لگا کر کھڑا کیا اور کتھئی بچھانے والی نیلی واسکٹ کو اتار کر کرتے سے پسینے کی آبشار پونچھتے ہوئے لان میں قدم رکھا۔ پہلے بڑی احتیاط سے ایک شریر بچے کی طرح روٹھ کر سوئی ہوئی بڑھیا پر نظر ڈالی اور پھر بہو پر آموں اور خربوزوں کی پوٹلی کو زمین پر رکھ کر کچھ سرکھجایا اور جھک کر بہو کی بانہہ بھینچ دی۔
’’اوں۔۔۔‘‘ بہو تیوریاں چڑھاکر اینٹھی اور اس کا ہاتھ جھٹک کر مڑکر سو گئی۔
اصغر نے پوٹلی اٹھائی۔ جیب میں نئی چوڑیوں کی پڑیا ٹٹولتا ہوا کوٹھڑی میں چلا گیا۔ بہو نے ہوشیار بلی کی طرح سر اچکا کر بڑھیا کو دیکھا اور دوپٹہ اوڑھتی جھپاک سےکوٹھڑی میں۔
لورک گئی۔ پسینے کے شراٹے چل نکلے، مکھیاں آموں کے چھلکوں اور کوڑے سے نیت بھر کے منہ کا مزہ بدلنے بڑھیا کے اوپر رینگنے لگیں، دوچار نے باجھوں میں بنی ہوئی پیک کو چکھنا شروع کیا، دو چار آنکھوں کے کونے میں تندہی سے گھسنے لگیں۔۔۔
کوٹھڑی میں سے ایک گڑگڑاتی ہوئی بھاری آواز اور دوسری چنچناہٹ اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ سنائی دیتی رہی، ساتھ ساتھ خربوزوں کے چھلکوں اور آموں کے چچوڑنےکی چپڑ چپڑ آواز سکون کو توڑتی رہی۔
مکھیوں کی چہلوں سے دکھی ہوکر آخر بڑھیا پھڑپھڑا ہی اٹھی، یہ مکھی ذات جی کے ساتھ لگی تھی۔ پیدا ہوتے ہی گھٹی کی چپچپاہٹ سونگھ کر جو مکھیاں منہ پر بیٹھنا شروع ہوئیں تو کیا سوتے کیا جاگتے بس آنکھ ناک اور ہونٹوں کی طرح یہ بھی جسم کا ایک عضو بن کر ساتھ ہی رہتی تھیں اور مکی تو نہ جانے سالہا سال سے اس کی دشمن ہوگئی تھی۔۔۔۔ جب لکھنؤ میں تھی جب کاٹا۔ پھر جب اناؤ گئی تو برسات میں پھرکاٹا۔۔۔ اولو سندیلہ میں بھی پیچھا نہ چھوڑا، اگر بڑھیا کو معلوم ہوتا کہ اسے اس کے جسم کے کون سےمخصوص حصے سے انس ہے۔ تو وہ ضرور وہ حصہ کاٹ کر مکھیوں کو دے دیتی مگر وہ تو ہر حصے پر ٹہلتی تھی، وہ کبھی کبھی غور سے اپنی خاص کنکھی مکھی کو دیکھتی۔ وہی چتلے پر، ٹیڑھی ٹانگیں اور مٹاسا سر۔ وہ بڑے تاک کر پنکھے کا جھپاکا مارتی۔۔۔ مکھی تنن نن کر کے رہ گئی۔۔۔
آہ معبود۔۔۔ اسےکتنا ارمان تھا کہ وہ کبھی تو اس مکھی کو مار سکے، لنگڑا ہی کردے، اس کا بازو مروڑ کر مرغی کی طرح مروڑ کر گڈی باندھ کر دال دے اور مزے سے پاندان کے ڈھکن پر رکھ کر تڑپتا دیکھے مگر خدا تو شائد اس مکھی سے بھی شیطان کی طرح قول ہارے بیٹھا تھا۔ کہ بس ستائے جائے۔ اس کی ایک حقیر بندی کو نہ جانے اس میں کیا مزہ آتا تھا مگر اسے یقین تھا کہ اس دوزخی مکھی کا گریبان۔۔۔ اس مکھی کی فریاد ضرور قہار و جبار کے حضور میں لے کر جائے گی اور ضرور فرشتے انہیں خون پیپ پلاکر کانٹوں پر سلائیں گے۔ مگر پھر۔۔۔ یہ کیا مونڈکاٹی مکھیاں بھی جنت میں جائیں گی اور ساری جنتی فضا مکدر ہوجائے گی۔۔۔ بڑھیا نے پنکھے کے تپور بناکر چھپاچھپ اپنے منہ ہاتھوں اور سوکھے پیروں کو پیٹ ڈالا۔
’’بہو۔۔۔ اے بہو۔۔۔ مرگئی کیا۔۔۔‘‘ وہ جل کر چلائی۔
اور بہو تڑپ کر کوٹھڑی سے نکلی۔۔۔ دوپٹہ ندارد۔۔۔ گریبان چاک ہاتھ میں آم کی گٹھلی۔ جیسے کسی سے کشتی لڑ رہی ہو۔ پھر فوراً لوٹ گئی اور دوپٹہ کندھوں پر ڈالے آنچل سے ہاتھ پونچھتی نکلی۔
’’ارے بہو۔۔۔ میں کہتی ہوں۔۔۔ ارے بوند حلق میں پانی۔۔۔‘‘
اصغر بھی شلوار کے پائنچے جھاڑتا کرتے کی پوٹلی سے گردن رگڑتا آیا۔
’’لو اماں۔۔ کیا خوشبودار امیاں ہیں۔۔۔‘‘ اس نے بڑھیا کی گود میں پوٹلی ڈال کر کہا۔ اور کھٹولی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
بڑھیا آموں اور خربوزوں کو سونگھ سونگھ کر مکھیوں کی ناانصافی کو بھول گئی جو اب آموں کی بونڈیوں کا معائنہ کرنے کے لیے اس کی باچھوں سے اتر آئی تھیں۔۔۔
’’اے بہو۔۔۔ چھری۔۔۔‘‘
بہو نے گلاس دیتے ہوئے آموں کا رس ہونٹوں پر سے چاٹا۔ اصغر نے پیر بڑھاکر بہو کی پنڈلی میں بکچا بھر لیا۔۔۔ پانی چھلکا۔۔۔ اور بڑھیا غرائی۔
’’اندھی۔۔۔ میرے پاؤں پر اوندھائے دیتی ہے۔۔۔‘‘ اور ایسا کھینچ کر ہاتھ مارا کہ گلاس معہ بھاری پیندے کے بہو کے پیر پر۔۔۔ بہو نے دانت کچکچاکر اصغر کو گھورا۔ اور چل دی تنتناتی۔
’’اماں لو پانی۔۔۔‘‘ اصغر نےفرمانبردار بیٹے کی طرح پیار سے کہا۔
’’یہ بہو تو وہ بڑی ہوگئی۔‘‘
’’تمہیں دیکھو۔۔۔‘‘ بڑھیا نے شکایت کی۔
’’نکال دے مار کر حرامزادی کو۔۔۔ اماں اب دوسری لائیں۔ یہ تو۔۔۔‘‘ اصغر نے پیار سے بہو کو دیکھ کر کہا۔
’’اے زبان سنبھال کمینے۔۔۔‘‘ بڑھیا نےآم پلپلا کرکے کہا۔
’’کیوں اماں۔۔۔‘‘ دیکھو نا کھا کھا کر بھینس ہو رہی ہے۔۔۔‘‘ اس نےبڑھیا کی آنکھ بچاکر کمر میں چٹکی بھر کے کہا۔ اور بہو نے چھری مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے چھری بڑھیا کے گٹے پر پٹخ دی، جو تلملا گئی۔
’’دیکھتی ہو اماں۔۔۔ اب ماروں چڑیل کو۔۔۔‘‘ اور لپک کر اصغر نے دیا دھموکا بہو کی پیٹھ پر اور فرمانبردار بیٹے کی طرح پھر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
’’خبردارلو۔۔۔ اور سنو۔۔۔ ہاتھ توڑ کے رکھ دوں گی اب کے جو تو نے ہاتھ اٹھایا۔‘‘ بڑھیا غنیم کی طرفداری کرنےلگی۔۔۔ ’’کوئی لائی بھگائی ہے جو تو۔۔۔ اے میں کہتی ہوں پانی لا دے۔۔۔‘‘ اس نے پھر اسی دم بہو پر برسنا شروع کیا۔
بہو کھمبے سے لگ کر منہ تھوتھا کر بیٹھ گئی۔ اور گلاس سے زخمی ہوئے انگوٹھے کو دبا دبا کر خون نکالنے لگی۔ بڑھیا مزے سے گٹھلیاں چھوڑا کی اور پھر شکر کاڈبہ دیتے وقت کچھ ایسا بڑھیا کے پاؤں رکھا کہ خون سے لتھڑا انگوٹھا بڑھیا نے دیکھ ہی لیا۔
’’اوئی۔۔۔ یہ خون کیسا۔۔۔؟‘‘ پر بہو روٹھ کر پھر کھمبے سے لگ کر بیٹھ گئی۔ اور خون بہنے دیا۔
’’اے میں کہتی ہوں ادھر آ۔۔۔ دیکھوں تو خون کیسا ہے؟‘‘ بڑھیا نے پریشانی چھپا کر کہا۔
بہوہلی بھی نہیں۔۔۔
’’دیکھو تو کیسا جیتا جیتا خون نکل رہا ہے۔۔۔ اصغر اٹھ تو ذرا اس کے پیر پر ٹھنڈا پانی ڈال۔۔۔‘‘ ساس بھی گرگٹ ہوتی ہے۔
’’میں تو نہیں ڈالتا۔۔۔‘‘ اصغر نے ناک سکیڑ کر کہا۔
’’حرامزادے۔۔۔‘‘ بڑھیا خود گھسٹتی ہوئی اٹھی۔
’’چل بیٹی پلنگ پر۔۔۔ اے میں کہتی ہوں یہ گلاس موا سوا سیر کا ہے اس کمینے سے کتنا کہا ہلکا المونیم کا لادے۔۔۔ مگر وہ ایک حرام خور ہے لے اٹھ ذرا۔‘‘ بہو ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ کہنی آگے کو کرکے جھوٹ موٹ ناک دوپٹے سے پونچھنے لگی۔
’’لا پانی ڈال صراحی میں سے۔۔۔‘‘ اور اصغر سینے پر پتھر رکھ کر اٹھا۔
بڑھیا سوکھے سوکھے لرزتےہاتھوں سے خون دھونےلگی مگر یہ معلوم کرکے کہ بجائے زخم پر پانی ڈالنے کے وہ بہو کے گریبان میں دھار ڈال رہی ہے اور بہو اس تاک میں ہے کہ قریب آتے ہی اصغر کا کان دانتوں سے چبا ڈالے وہ ایک دم بکھر گئی۔
’’خاک پڑے تیری صورت پر۔۔۔‘‘ بڑھیا نے اصغر کے ننگے شانے پر سوکھے پنجے سے بدھیاں ڈال کر کہا اور اس نے ایک سسکی لے کر جل کر سارا پانی بہو پر لوٹ دیا اور خود روٹھ کر آم کھانے چلا گیا۔ ماں، بیٹے کے لیے ڈھائی گھڑی کی موت آنے کا ارمان کرنے لگی۔
’’بدذات۔۔۔ ٹھہر جا۔۔۔ آنےدے۔۔۔ اپنے چچا کو وہ کھال ادھڑواتی ہوں کہ بس۔۔۔‘‘ بڑھیا نے میلی دھجی کی پٹی باندھ کر کہا۔
’’بے بس۔۔۔ اب پلنگ پر لیٹ جا۔۔۔‘‘ بڑھیا نے زخم کو انتہائی خطرناک بناکر کہا اور پھر بہو کے نہ ہلنے پر خود ہی بولی۔۔۔ ’’اے ہاں۔۔۔ لے اصغر بہو کو کھٹولی پر پہنچا دے۔۔۔‘‘
’’مجھ سے تو نہیں اٹھتی یہ موٹی بھینس کی بھینس۔۔۔‘‘ اصغر جلا کر بولا۔
’’ارے تیرے تو باپ سے اٹھے گی۔ سنتا ہے کہ اب۔‘‘
اور جب وہ پھر بھی بیٹھا رہا تو بڑھیا خود اٹھانےلگی۔
’’اماں۔۔۔ میں آپ اٹھ جاؤں گی۔۔۔‘‘ بہو نےبڑھیا کی گدگدیوں سے گھبرا کر کہا۔
’’نہیں بیٹی۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ اور اس نے پھر اصغر کی طرف آنکھیں گھماکر دیکھا تو کہہ رہی ہے کہ ٹھہرجاؤ میاں دودھ نہ بخشوں اور بر نہ بخشوں۔
اصغر بھنا کر اٹھا۔ اور ایک جھپاکے سے بہو کو اٹھا کر چلا کھٹولی کی طرف۔ بہو نے موقع کی مناسبت سے فوراً فائدہ اٹھاکر اسی جگہ دانت گاڑ دیے جہاں ابھی ساس کا سوکھا پنجہ پڑا تھا۔
اور اصغر نے کچکچا کر اسے کھٹولی پر پٹخ دیا۔۔۔ اور اس کے سرخ سرخ ہونٹ چٹکی سےمسل دیے۔
بہوناک چھپا چھپا کر فتح مندانہ طریقے پر ہنستی رہی اور اصغر اپنے نیل پڑے ہوئے کندھے کو سہلا سہلا کر غراتا رہا۔
ساس وضو کے آخری مرحلے طے کر رہی تھی اور آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر کچھ بڑبڑا رہی تھی۔۔۔
جانے کیا۔۔۔ شائد بے حیا بہو کو کوس رہی ہوگی۔
مأخذ : ایک شوہر کی خاطر
مصنف:عصمت چغتائی