اندھیرے میں

0
250
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:‘‘بیمار باپ کو شراب پیتے دیکھ کر اس کا اکلوتا بیٹا چراغ پا ہو جاتا ہے اور اس بات پر دیر تک ان میں بحث ہوتی ہے کہ شراب جب اس کے لئے مضر ہے تو وہ آخر پیتا ہی کیوں ہے۔ وہ اس گھر کو چھوڑ کر چلا جائے گا۔ باپ بیٹے کی منت سماجت کر کے اسے مناتا ہے اور یہ طے پاتا ہے کہ بچی ہوئی شراب بیٹا کہیں بیچ آئے۔ متقی، پرہیزگار بیٹا رات کے سناٹے میں اسے بیچنے کی کوشش میں ناکام ہو کر ایک بنچ پر آکر بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں ایک مرد اور ایک عورت وہسکی کی مستی میں سرشار نظر آتے ہیں۔ان کی گفتگو سے عنفوان شباب کی آگہی ہوتی ہے اور اس نوجوان کو نئی دنیا میں لے جاتی ہے۔ وہ شراب کے سلسلہ میں کافی دیر تک غور و فکر کرتا رہتا ہے اور بالآخر شراب پی کر گھر واپس لوٹ آتا ہے۔’’

’’مجھے چھوڑ دو۔۔۔ مجھے چھوڑ دو۔۔۔ اب میں ایک پل بھی یہاں نہیں رہوں گا۔‘‘ بڈھے نے اپنے کمزور اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے نوجوان کی قمیص کا دامن اور بھی مضبوطی سے تھام لیا اور بڑی لجاجت سے کہا، ’’بس اب غصہ تھوک بھی ڈالو بیٹے۔ کہہ جو دیا اب کبھی نہیں پیئوں گا۔ لو میں توبہ کرتا ہوں۔‘‘

’’اونہہ توبہ!‘‘ نوجوان نے تنک کر کہا، ’’اس دن بھی تو توبہ کی تھی اور پھر اس دن! نہیں نہیں۔ یہ اب تم سے چھٹ نہیں سکتی۔ تم نے سوچا ہوگا، میرا بیٹا جلسے میں گیا ہے۔ وہ رات کو کہیں بارہ بجے آئےگا۔ بس میدان خالی دیکھا اور وہی پرانی دھت لگ گئی۔۔۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنی ماں کی طرح میں بھی کڑھ کڑھ کر مر جاؤں۔‘‘ مارے رقت کے نوجوان کا گلا بھر آیا۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں ایک آنسو مچل کر اس کی آنکھ سے بہہ نکلا اور اس کی چھوٹی سی خوب صورت سیاہ داڑھی میں الجھ کر رہ گیا۔ وہ صرف اتنا کہہ سکا، ’’مجھے جانے دو۔۔۔‘‘

’’کیسے جانے دوں بیٹے، تمہارے سوا اس دنیا میں میرا۔۔۔‘‘ بڈھا یہیں تک کہنے پایا تھا کہ اسے زور کی کھانسی اٹھی۔ کھوں کھوں کھوں کھوں کھوں کھوں۔ نوجوان کی قمیص کا دامن خود بخود اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے چھاتی کو پکڑ لیا۔ کھانستے کھانستے اس کی آنکھیں باہر نکل پڑیں۔ گردن کی رگیں پھول کر رسی کی طرح ہو گئیں۔ آخر دو تین منٹ کے بعد کھانسی تھم گئی۔ مگر اب اس میں بات کرنے کی سکت نہ تھی۔ بےدم ہو کر چارپائی پر گر پڑا۔ نوجوان اس کی گرفت سےآزاد ہو چکا تھا اور چاہتا تو کبھی کا جا سکتا تھا۔ مگر نہ تو وہ کوٹھری سے باہر نکلا اور نہ باپ کی چارپائی ہی کے پاس گیا۔

کوٹھری میں پہلے ہی شراب کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ اس پر اس کھانسی نے بڈھے کے منہ سے پے در پے شراب میں بسا ہوا سانس خارج کر کےاس فضا کو اور بھی آلودہ کر دیا تھا۔ نوجوان اس کی بھبک کو پوری طرح محسوس کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں جب بڈھے کے حواس ذرا بجا ہوئے تو وہ چارپائی سےاٹھا اور نوجوان کے پاس آکر ملامت آمیز لہجہ میں کہنے لگا، ’’میرا۔۔۔ میرا یہ حال۔ اور تم مجھے چھوڑ جانا چاہتے ہو!‘‘ نوجوان لمحہ بھر گردن نیچی کیے خاموش کھڑا رہا۔ اور پھر بولا،

- Advertisement -

’’میں تمہارے ہی بھلے کے لیے کہتا ہوں۔ شراب نے تمہارے جگر کو چھلنی کر ڈالا ہے۔ ڈاکٹر کہہ چکا ہے کہ اب اس کا ایک قطرہ بھی تمہارے لیے زہر ہے۔ مگر تم ہو کہ۔۔۔ بس نہ میں یہاں رہوں گا، اور نہ تمہاری یہ حالت دیکھوں گا۔‘‘ جس وقت نوجوان یہ کہہ رہا تھا تو اس کے لہجہ میں وہ پہلا سا جوش نہیں رہا تھا بلکہ اس کی جگہ ایک تاسف نے لے لی تھی۔ باپ نے خطاکارانہ نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا، اور پھر نظریں جھکا لیں۔ کچھ دیر خاموش رہا، جیسے دل ہی دل میں کوئی اہم فیصلہ کر رہا ہے۔ پھر بولا، ’’آج میں سچے دل سے وعدہ کرتا ہوں کہ اسے اب کبھی منہ نہیں لگاؤں گا۔ میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم اس سے اس درجہ نفرت کرنے لگوگے۔ صرف ایک موقع اور دو۔ اب کے پیوں گا تو تمہیں اختیار ہوگا جہاں جی چاہے، چلے جانا۔‘‘

دونوں چند لمحے تک خاموش رہے۔

’’اچھا ایک بار اور سہی۔‘‘ بالآخر نوجوان نے سکوت کو توڑا، ’’ مگر تمہیں وہ بوتل میرے حوالے کر دینی ہوگی، جو میرے اچانک آ جانے پر تم نے چھپا لی تھی۔‘‘

’’برخوردار۔‘‘ بڈھے نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’تم اسے لے کر کیا کرو گے۔ میں کسی اپنے دوست کے ہاتھ بیچ ڈالوں گا۔ تمہاری تنخواہ میں سے آنہ آنہ دو دو آنے بچا کر میں نے چار روپے جمع کیے تھے۔ جس کی یہ کمبخت بوتل خرید لی۔ میں نے اس میں سے صرف دو ایک پیگ ہی پئے ہیں۔ تین نہ سہی دو ڈھائی روپے تو کہیں نہیں گئے۔ جو اس تنگدستی میں ہمارے کام آئیں گے۔‘‘

’’نہیں نہیں۔‘‘ نوجوان نے جلدی سے کہا، ’’ اس کا گھر میں رہنا ٹھیک نہیں۔ لاؤ مجھے دے دو۔‘‘ اس پر بڈھے نے ایک بے تکا قہقہہ لگایا۔ بیٹے کی اس دخل اندازی سے اس کے پینے کا سارا مزا کر کرا ہو گیا تھا۔ مگر اب ہنگامے کو فرو ہوتے دیکھ کر اس کی طبعی خوش باشی اور زندہ دلی لوٹ آئی تھی۔

’’میری جان۔‘‘ اس نے کہا، ’’تم فکر نہ کرو۔ میں اسے منہ نہیں لگاؤں گا۔ اگر پیوں تو جو چور کی سزا سو میری سزا۔ میں صبح ہوتے ہی اسے خلیفہ کے پاس چلتا کروں گا۔ دو روپے تو وہ ہنس کر دے دےگا۔۔۔ میری بات مانو میں اسے بالکل منہ نہیں لگاؤں گا۔۔۔‘‘ زبان سے تو وہ یہ کہہ رہا تھا، مگر اس کی آنکھوں سے ایک پیاس ، ایک تر ساوٹ ظاہر ہو رہی تھی۔

’’نہیں نہیں۔‘‘ اس کے بیٹے نے یک بارگی درشت لہجہ میں کہا، ’’میں اسے گھر میں نہیں رہنے دوں گا۔ اگر تم مجھے رکھنا چاہتے ہو تو اسے میرے حوالے کر دو۔‘‘ پھر باپ کو کچھ پس و پیش کرتے دیکھ کر وہ بولا، ’’سنو اگر تمہیں اس کے بیچنے ہی کا خیال ہے تو یہ کام میں بھی کر سکتا ہوں۔‘‘ اور اس نے باپ کو بتایا کہ اس کے دفتر کا ایک چپراسی نوکری چھوڑ کر آج کل ایک صاحب کا بیرا بنا ہوا ہے۔ اس کی معرفت یقیناً اسے بیچا جا سکےگا، وہ وعدہ کرتا ہے کہ اسے ضائع نہیں کرےگا، اور اگر وہ اسے بیچ نہ سکا تو واپس لے آئےگا اور پھر اس کے باپ کو اختیار ہوگا کہ وہ جس کے ہاتھ چاے اسے بیچ ڈالے۔

بیٹے کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر باپ نے زیادہ ٹال مٹول کرنا مناسب نہ سمجھا اور بڑی حسرت کے ساتھ صندوق کے پیچھے سے بوتل نکال کر اسے دے دی۔ یہ سنگترے کا ٹھرا تھا۔ اس کا باپ اس میں سے ابھی آٹھواں حصہ بھی نہیں پینے پایا تھا۔ نوجوان نے اس کے ارغوانی رنگ پر نفرت بھری نگاہ ڈالی۔ پھر اسے ہاتھ میں تھام کمبل کی بکل میں چھپا لیا اور کوٹھری سے نکل آیا۔ صحن میں سے گزر رہا تھا کہ باپ کی آواز سنائی دی، ’’دیکھنا میرے بیٹے ضائع نہ کر دینا۔ تم نے وعدہ کیا ہے۔ دو تین روپوں میں آج کل سیکڑوں کام۔۔۔‘‘ وہ اب اتنی دور نکل گیا تھا کہ باپ کے باقی الفاظ نہ سن سکا۔

یہ جنوری کے وسط کی ایک سرد رات تھی۔ نو بج چکے تھے، بازاروں کی چہل پہل کم ہو گئی تھی۔ بہت سے دکاندار دکانیں بڑھا چکے تھے۔ نوجوان کچھ سوچے سمجھے بغیر تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جا رہا تھا۔ دو ایک راہ گیروں سے وہ بھڑتے بھڑتے رہ گیا۔ ایسے موقع پر اس نے اضطراری طو رپر بازوؤں کو سکیڑ اور گردن کو جھکا کر کمبل میں چھپی ہوئی بوتل کو اس طرح بچا لیا، جس طرح کوئی روگی اپنے جسم کے کسی پکے ہوئے پھوڑے کو ٹھیس لگنے سے بچاتا ہے۔ نوجوان اپنی دھن میں محو نہ جانے کن کن بازارو ں اور گلی کوچوں کو طے کر چکا تھا۔ مگر ابھی تک وہ فیصلہ نہ کر سکا تھا کہ اسے جانا کہاں ہے۔ آخر جب اس نے اپنے کو چاوڑی بازار میں پایا تو وہ ٹھٹک کر رہ گیا۔۔۔ شاید اس کے دماغ کے کسی گوشے میں یہ خیال تھا کہ اگر اس جنس کے خریدار مل سکے تو بازار حسن ہی میں مل سکیں گے اور اس کے قدم آپ سے آپ اسے اس طرف لے آئے تھے۔ مگر کیا وہ سچ مچ اس چیز کو بیچنے کے ارادے سے نکلا تھا؟

اس خطرناک چیز کو جو شاید اس کے باپ کا آخری جام ثابت ہوتی۔ گھر میں رہنا اسے کسی صورت منظور نہ تھا۔ اور وہ جوش میں بھرا ہوا، کچھ سوچے سمجھے بغیر باپ کی ہر بات ماننے کو تیار تھا۔ بشرطیکہ وہ بوتل اس کے حوالے کردے۔ سودا کرنا تو ایک طرف، اگر کوئی اس سے یہ کہتا، ’’میاں صاحبزادے میں جانتا ہوں کہ تم بہت متقی و پرہیزگار ہو۔ اور یہ جو ذلیل کام تم نے اپنے ذمے لے لیا ہے، اس کا تمہیں قربانی اور شہادت کا سارا اجر ملےگا۔۔۔ تم نے اپنے کمبل میں جو شراب کی بوتل چھپا رکھی ہے اور جس میں سے تھوڑی سی خرچ بھی ہو چکی ہے، لاؤ پورے داموں میں میرے ہاتھ بیچ ڈالو۔ کیونکہ ٹھیکہ بند ہو چکا ہے۔‘‘ پھر بھی شاید وہ راضی نہ ہوتا۔

وہ تیزی سے اس بازار سے گزر گیا اور چوک میں پہنچا، جہاں سےنئی دلی کو راستہ جاتا تھا۔ چوک میں پل بھر کے لیے رک کر سوچنے لگا۔ اب کدھر جاؤں کہ اچانک ایک آواز نے اسے چونکا دیا، ’’آداب عرض مولانا۔ کہو بھئی یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو۔ مناظرے میں نہیں گئے؟‘‘ نوجوان کا دل یکلخت زور سے دھڑک اٹھا۔ اور وہ لڑکھڑائی ہوئی آواز میں بولا، ’’والد صاحب۔۔۔ وہ یک بارگی علیل ہو گئے۔ اچھا بھئی کل دفترمیں ملیں گے۔ مجھے ایک ضروری کام سے نئی دہلی جانا ہے۔‘‘

یہ کہتے ہی اس کے قدم نئی دلی کی طرف اٹھ گئے۔ اگر اس کے دفتر کے اس ساتھی کو شبہ بھی پڑ جاتا کہ جس کو اس نے ’مولانا‘ کہہ کر خطاب کیا، وہ اس وقت اپنے کمبل کے نیچے کیا چھپائے لیے جا رہا ہے تو۔۔۔ اس ملاقات سے اسے صورت حال کی نزاکت کا اچانک احساس ہو گیا۔ نئی دلی کا نام محض دوست کو ٹالنے کے لیے اس کی زبان سے نکل گیا تھا۔ مگر اب وہ سچ مچ نئی دلی جا رہا تھا۔ اور کچھ نہ سہی، وہاں ایسی اچانک ملاقاتوں کا امکان تو کم ہوگا۔ اور پھر وہاں وہ کناٹ پلیس کے کسی ایک الگ تھلگ گوشے میں بیٹھ کر اپنی حالت پر غور کر سکےگا۔

کوئی گیارہ کا عمل ہوگا کہ وہ کناٹ پلیس کے پارک میں پہنچا۔ مسلسل دو گھنٹے چلتے رہنے سے تھک گیا تھا۔ ہاتھ دکھنے لگے تھے۔ جن میں وہ باری باری بوتل کو اٹھاتا لایا تھا۔ ایک درخت کی نیم تاریکی میں ایک خالی بنچ دیکھ کر اس پر بیٹھ گیا۔ بوتل بنچ پر رکھ دی اور ہاتھوں کی انگلیاں چٹخانے لگا۔ اس وقت شدت کا جاڑا پڑنے لگا تھا، جس میں باغ کی سیل نے اور بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس نے اپنے جسم کو اچھی طرح کمبل میں لپیٹ لیا۔ دل میں اب پہلا سا جوش اور غصہ نہیں رہا تھا۔ بلکہ اپنی اس مہم پر رہ رہ کے ہنسی آ رہی تھی۔ بھلا وہ اور شراب کا سودا! یہ خیال ہی مضحکہ انگیز تھا۔ یہ سچ تھا کہ اس کے دفتر کے ایک چپراسی نے کسی صاحب کی نوکری کرلی تھی مگر اتا پتا ایک طرف، وہ تو اس کے مالک کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔ اور پھر اگر کسی لطیفہ غیبی سے اسے وہ بیرا مل بھی جاتا تو کیا اس کے سامنے اس چیز کا نام لینے کی بھی اسے جرأت ہوتی۔۔۔

اسے بنچ پر بیٹھے آدھ گھنٹے سے زیادہ ہو گیا مگر بوتل کو ٹھکانے لگانے کی کوئی ترکیب اس کے ذہن میں نہ آئی۔ اس وقت کناٹ پلیس خاصا اجاڑ معلوم ہوتا تھا۔ البتہ بعض سینما گھروں اور بڑے بڑے انگریزی ہوٹلوں کی روشنیاں دور سے جگمگاتی ہوئی ابھی تک نظر آ رہی تھیں۔ رفتہ رفتہ یہ روشنیاں بھی گل ہونے لگیں۔ ساتھ ہی ٹاؤن ہال کے گھنٹے نے بارہ بجانے شروع کیے۔

اس نے سوچا اس بوتل کو گھر لے چلوں، اور چپکے سے اپنے صندوق میں بند کر دوں۔ دو چار دن میں جب والد کے دماغ سے اس کا خیال نکل جائےگا تو اسے ضائع کر دوں گا۔ دل ہی دل میں یہ فیصلہ کر کے وہ اٹھنے ہی کو تھا کہ اتنے میں اسے کچھ فاصلے پر دو سائے سے دکھائی دیے جو لان میں سے گزرتے ہوئے اسی طرف آ رہے تھے۔ نوجوان نہ جانے کس جذبے کے ماتحت وہیں بیٹھا رہا۔ جب وہ قریب آئے تو اس نے دیکھا کہ ان میں ایک مرد ہے اور ایک عورت۔ دونوں نے اوور کوٹ پہن رکھے تھے۔ مرد سر سے ننگا تھا اور عورت نے سر پر رومال باندھ رکھا تھا۔ چاندنی میں عورت کا چہرہ موتی کی طرح دمک رہا تھا۔ دونوں کے قدم لڑکھڑا رہے تھے اور مرد نے عورت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے جسم سے بھینچ رکھا تھا۔ وہ آکر دوسری بنچ پر بیٹھ گئے جو درخت کے تنے کے اس طرف تھی۔ مرد بار بار عورت کے رخسار و پیشانی پر بوسے دیے جا رہا تھا۔ نوجوان کچھ گھبرا سا گیا۔ مگر وہ لوگ اپنی دھن میں ایسے مست تھے کہ نہ تو انہوں نے نوجوان کو دیکھا اور نہ یہ معلوم ہی ہونے پایا کہ تنے کے دوسری طرف کوئی اور بھی بیٹھا ہے۔ نوجوان ان کی باتیں بخوبی سن سکتا تھا۔

’’میری جان‘‘ مرد کہہ رہا تھا، ’’تم اندازہ نہیں کر سکتیں کہ آج کی رات میری زندگی میں کس درجہ مسرت کی رات ہے۔‘‘

’’کیسی عجیب بات!‘‘ عورت کے لہجہ میں تعجب اور تاسف ملا جلا تھا، ’’اب سے چار گھنٹے پہلے ہم ایک دوسرے کو جانتے بھی نہ تھے۔ اور اب۔۔۔‘‘

’’آہ! یہ نہ کہو۔ یہ نہ کہو۔‘‘ مرد کراہا، ’’جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے۔۔۔ میں ہمیشہ تخئیل کے نیلگوں افق پر تمہیں دیکھا کرتا تھا۔ تم اپنے درخشاں چہرے کے ساتھ ایک چاند کی طرح ابھرتی اور میری تیرہ زندگی جگمگا اٹھتی۔ تم میرے لیے کبھی اجنبی نہ تھیں۔ میں روز و شب تمہاری تمنا کرتا تھا۔ مجھے کامل یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن تمہیں پالوں گا۔ اور میرا جذبہ اس قدر شدید ہوگا کہ تم اسے رد نہ کر سکوگی۔

آج جب میں نے تمہیں کافی ہاؤں کے ایک الگ تھلگ گوشے میں کافی پیتے دیکھا تو فوراً پہچان لیا۔ میں نے دل میں کہا بے شک یہی ہے میری روح، جس کے لیے میرا جسم اتنے عرصے سے بھٹکتا پھرتا تھا۔ اور میں بے جھجک تمہارے سامنے آ کھڑا ہوا۔ تم حیرانی سے میرا منہ تکنے لگیں۔ میں نے تم سے اجازت بھی طلب نہ کی اور تمہارے پاس بیٹھ گیا۔ بڑی دیر تک ہم مبہوت ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ دیکھتے رہے۔ پھر میں نے آہستہ سے تمہاری کلائی تھام لی اور تم میرے ساتھ کافی ہاؤس سے اٹھ آئیں۔۔۔ ایں تم رو رہی ہو؟‘‘ اور یہ کہتے کہتے مرد نے عورت کی گردن پر بوسوں کی بوچھار کر دی۔ چند لمحے خاموشی رہی، جس کے دوران میں عوت کی سسکیاں سنائی دیتی رہیں۔

’’میں نہیں کہہ سکتی۔‘‘ آخر عورت نے سسکیوں پر قابو پا کر کہنا شروع کیا، ’’میں کیوں تمہارے ساتھ اٹھ کر چلی آئی۔ مجھ پر سکتہ سا طاری ہوگیا تھا۔ میں ہوش کھو بیٹھی تھی۔ میں خود بھی نہیں جانتی تھی کہ کیا کر رہی ہوں۔ میں نے یہ بھی تو نہ سوچا کہ تم میرے متعلق کیا خیال کرو گے۔ شاید تم مجھے بھی ان آوارہ عورتوں میں سے سمجھتے ہو گے جو شکار کرنے نکلتی ہیں۔ لیکن مجھے پروا نہیں۔ تم جو چاہو مجھے سمجھو۔ یہ یقینی امر ہے کہ ہم پھر کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے۔ میں اس اجنبی شہر میں آج ہی آئی ہوں اور شاید کل ہی چلی جاؤں۔‘‘ جس وقت عورت یہ کہہ رہی تھی تو نوجوان کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی میٹھا اور درد بھرا نغمہ سن رہا ہے۔ جب وہ خاموش ہوئی تو نوجوان چونک سا اٹھا۔ عورت کی سریلی آواز ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔

’’آہ! یہ نہ کہو۔ یہ نہ کہو۔‘‘ ادھر مرد کہتا جاتا تھا۔ اور ساتھ ساتھ عورت کی ایک ایک انگلی کو، پوروں کو، ناخنوں کو بھی چومتا جاتا تھا۔ ’’آؤ ہم اپنے تئیں بھول جائیں۔ میری زندگی خوابیدہ تھی۔ تم ایک سہانے خواب کی طرح آئیں اور وہ خواب حقیقت بن گیا۔۔۔ ایں تم کانپ رہی ہو؟ سردی لگ رہی ہے۔۔۔؟ اے کاش کہیں سے اور وسکی مل سکتی۔ صرف چند گھونٹ تمہیں گرما دیتے۔۔۔‘‘

وسکی کا نام سن کر نوجوان اچھل پڑا۔ ان کی باتوں نےاس پر ایک نشہ سا طاری کر دیا تھا۔ وہ اپنی پریشانیوں کو بھول گیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے محبت کے لفظ کو لغت کے باہر دیکھا اور اس کے معنی فوراً اس کی سمجھ میں آ گئے۔ وہ اب تک ان باتوں سے بےخبر تھا، ایک قیدی کی سی زندگی گزار رہا تھا، جس میں کسی قسم کی رنگینی یا مسرت کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس کو اس رازونیاز کی باتوں نے ایسا لبھا لیا تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے تھے اور سانس تیز تیز چلنے لگا تھا۔ آج پہلی مرتبہ اسے یہ احساس ہوا کہ دفتر میں صبح سے شام تک لہو پانی ایک کرنے میں اور گھر میں باپ سے لڑنے جھگڑنے کے علاوہ بھی زندگی کے کچھ مقاصد ہیں۔ اور اس کے دل میں یک بارگی عجیب عجیب ولولوں نے جنہیں وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ کیا ہیں، ایک ہیجان برپا کر دیا۔

’’میری روح۔ میری راحت۔‘‘ مرد کہے جا رہا تھا، ’’تمہارے دانت بج رہے ہیں۔ افسوس سب ہوٹل بند ہو چکے ہیں۔۔۔‘‘ نوجوان نے دل میں کہا، اگر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں اور بغیر ایک لفظ کہے بوتل ان کے حوالے کر کے چلا آؤں تو کیسا رہے۔ وسکی نہ سہی شراب تو ہے۔ اور وہ لوگ کسی قدر تامل کے بعد ضرور اسے قبول کر لیں گے۔۔۔ مگر اسے جرأت نہ ہوئی۔

’’میری جان مجھ سے چمٹ جاؤ۔ یوں سردی نہیں لگےگی۔‘‘ اور مرد نے عورت کو خود ہی چمٹا لیا۔

’’بس اب مجھے جانا چاہیے۔ میری دوست جس کے ہاں میں ٹھہری ہوں، پریشان ہوگی۔ میں صرف آدھ گھنٹے کے لیے گھر سے نکلی تھی۔ مگر اب پانچ گھنٹے ہوگئے ہیں۔ افوہ سردی واقعی بہت بڑھ گئی ہے۔۔۔‘‘ اس عورت کی آواز کی نغمگی نے نوجوان کو ہمت دلائی۔ اور وہ ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے جھوٹ موٹ کھانسا۔ مگر وہ لوگ اپنی اپنی دھن میں کچھ ایسے کھوئے ہوئے تھے کہ انہوں نے سنا تک نہیں، نوجوان نےدل کو مضبوط کیا اور ارادہ کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو، اٹھ کر ان کے پاس چلا جائے اور اس مسرت کی قیمت کے طور پر جو اسے ان کی باتیں سن سن کر حاصل ہوئی تھی، یہ بوتل ان کی نذر کردے۔ اس نے بوتل سنبھالی ہی تھی کہ عین اسی وقت وہ دونوں بنچ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی طرف دیکھے بغیر، جس طرف سے آئے تھے جھومتے جھامتے پھر اسی سمت چل دیے۔

نوجوان ان کے جانے کے بعد دس منٹ تک بالکل گم سم بیٹھا رہا، اس موقع کے ہاتھ سے نکل جانے کا اسے زیادہ افسوس نہ ہوا کیونکہ اب ایک اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ اس کے درپیش تھا۔ اس تھوڑے سے وقت میں اس نے اپنی روح کو اس کے اصلی روپ میں دیکھ لیا تھا۔ اس روح کو جسے مذہبی، اخلاقی اور سماجی فرائض کی طنابوں نے کس رکھا تھا۔ یہ طنابیں تھوڑی دیر کے لیے ڈھیلی ہوگئی تھیں، اور اس کے ساتھ اس کی گھٹی ہوئی نڈھال روح سسکتی ہوئی زمین پر آ رہی تھی۔۔۔

اس نے اپنے ماضی پر غور کرنا شروع کیا۔ اسے اب سے پانچ برس پہلے کا زمانہ یاد آیا جب وہ اسکول میں پڑھا کرتا تھا۔ ان دنوں وہ کتنا خوش تھا۔ علم کو ایک انمول نعمت سمجھ کر اس طرح جذب کر رہا تھا جس طرح ریت پانی کو جذب کر لیتی ہے۔ سب استاد اس کے علمی شوق اور اس کی غور و فکر کی عادت کے معترف تھے اور کہا کرتے اگر مطالعہ جاری رکھا تو ایک دن بڑا مفکر بن جائےگا۔ مگر اس کے انٹرنس پاس کرنے کی دیر تھی کہ وہ آزادی، وہ علمی ولولے خواب و خیال ہو گئے۔ اس کے باپ کو عیاشیوں اور بے اعتدالیوں نےقبل از وقت ضعیف کر دیا تھا۔ اور وہ وقت آپہنچا تھا کہ اسے روزی کمانے کے لیے باپ کی جگہ لینی پڑی۔

تلاش معاش کی تگ و دو میں اسے کیسے کیسے سنگ دل انسانوں سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ کن کن دفتروں سے ناکام اور بے عزت ہو کر نکلنا پڑا تھا۔ ذلت کے بے شمار دن، فکر اور پریشانی کی بے شمار راتیں گزارنے کے بعد آخر ایک نیم سرکاری دفتر میں اسے سر چھپانے کو جگہ مل گئی تھی۔ جہاں وہ صبح سے شام تک گدھے کی طرح کام کرتا تھا، مگر جہاں اسے گدھے سےآدھی اجرت بھی نہیں ملتی تھی اور پھر یہ اس کا زہد و اتقا جس نے اس کی زندگی کو اور بھی خشک اور بے رنگ بنا دیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس نے یہ پارسائی کی زندگی کیوں اختیار کی۔ اس کے باپ دادا میں کوئی شخص متقی و پرہیزگار نہیں ہوا تھا۔ اسے اپنی زندگی میں کوئی ایسا نیک سیرت رفیق یا رہنما بھی نہ ملا تھا، جس کی پاک زندگی اس پر اپنا پر تو ڈالتی۔ اس نے کچھ ایسی دینی کتابیں بھی نہ پڑھی تھیں، جو اس کے خیالات کو مذہبی رنگ میں رنگ دیتیں۔

اس کے باوجود وہ پاکباز تھا اور حقی المقدور دینی فرائض ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرتا تھا۔ آخر پھر وہ ایسا کیوں تھا؟ اس کی کوئی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آئی تھی۔ شاید اس کا سبب یہ تھا کہ اس نے بچپن میں اپنے باپ کے طفیل لہو و لعب، مے خواری وسیہ کاری کے ایسے گھناؤنے منظر دیکھے تھے کہ اس کے ننھے سے معصوم دل میں ہمیشہ کے لیے ان چیزوں کی دہشت بیٹھ گئی تھی اور اسے اپنے بچاؤ کی صرف ایک ہی صورت نظر آتی تھی۔۔۔ مذہب!

نوجوان نے سوچنا شروع کیا، ’’اگر شراب کی یہ بوتل ان لوگوں کو مل جاتی تو وہ کس قدر خوش ہو جاتے۔ اور زیادہ دیر تک ایک دوسرے کے پاس رہ سکتے۔ عورت کی آواز میں کتنا سوز تھا۔ اسے واقعی سردی لگ رہی تھی۔ مرد نے کہا تھا کہ صرف چند گھونٹ اسے گرما سکتے ہیں۔۔۔۔ کیا شراب سے سردی دور ہو جاتی ہے۔‘‘ کمبل سرک گیا تھا۔ اس نے بکل مار کر اپنے جسم کو پھر کمبل میں اچھی طرح لپیٹ لیا۔ اچانک نوجوان کے ذہن میں ایک پرانا سوال تازہ ہو گیا، جو اسے کئی بار پریشان کر چکا تھا۔ وہ یہ کہ آخر اس شراب میں کیا جادو ہے کہ جو ایک بار اس کو منہ لگا لیتا ہے، اسی کا غلام بن جاتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب اسے برا کہتے ہیں۔ بڑے بڑے حکما اور دانا اس کی مضرتوں پر ضخیم کتابیں لکھ چکے ہیں، مگر اس کے باوجود کروڑوں انسان ہر روز اسے پیتے ہیں۔ شاہ و گدا، بوڑھے اور جوان، عورت اور مرد۔

مزدور دن بھر کڑی محنت جھیلتا ہے، اور شام کو مزدوری کے چھ آنے میں سے چار آنے اس کی نذر کر دیتا ہے۔ بعض فقیروں کو دیکھا کہ دن بھر ہزاروں صلواتیں اور جھڑکیاں سن کر انہوں نے تھوڑے سے پیسے جمع کیے اور رات کو بھوکے رہ کر سب کے سب شراب میں اڑا دیے۔ آخر یہ کیا چیز ہے جس کو دنیا برا جانتی ہےمگر چھوڑ بھی نہیں سکتی۔ آرٹ، ادب اور فنون لطیفہ کوئی بھی اس کے اثر سے خالی نہیں۔ ہر ملک اور ہر زمانے کے شعرا کے دواوین اس کی مدح سرائیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ گو ان کی زبانیں مختلف ہیں مگر ان سب کی روح میں اسی کی تشنگی ہے۔ اگر ان کے کلام میں سے شراب و ساقی، ساغر و مینا کا ذکر نکال دیا جائے تو ساری دنیا کی شاعری کا خاتمہ ہو جائے۔ اس کی تعریف میں بھی لطف ہے اور مذمت میں بھی۔ اور تو اور دینی کتابوں تک میں اس کا جابجا ذکر موجود ہے۔

اور۔۔۔ اور پھر کیا خود فطرت ہر آن اس کے پینے کی ترغیب نہیں دیتی؟ اگر نہیں تو لار کے پھول اس وضع کے کیوں بنائے کہ وہ مے کی گلابیاں معلوم ہوں؟ پھلوں میں رس کیوں پیدا کیا؟ نرگس میں کیف آور نکہت کیوں بھری؟ بلبل کا نغمہ مستی بھرا کیوں ہے؟ یہ پہاڑوں کی برفیلی چوٹیاں، یہ نیلی نیلی سی ملگجی چاندنی، یہ طلوع و غروب آفتاب کے نظارے، آخر یہ سب چیزیں کیوں پیدا کی گئیں، جنہیں دیکھ کر اسی قسم کا سرور حاصل ہوتا ہے جیسا نشہ پی کر؟

اور پھر اس کے باپ کو دیکھو۔ دنیا میں سب سے زیادہ جس چیز سے اسے الفت ہے، وہ یہی اس کا بیٹا ہے۔ مگر یہ شراب اسے اس سے بھی برگشتہ کیے دیتی ہے۔ ہرچند اس کا جگر خراب ہو چکا ہے، اور اس کا ایک ایک قطرہ اس کے لیے سم قاتل ہے۔ پھر بھی وہ اس کے لیے مضطرب ہے۔ گویا اس کے مقابلے میں جان کی کچھ اصل و حقیقت نہیں۔ کیا واقعی اس میں کوئی ایسی لذت یا کیف و سرمستی ہے، جس کا مول انسان کی زندگی بھی نہیں دے سکتی۔

یکایک ہوا کا ایک تند و تیز جھونکا آیا اور نوجوان کا جسم کپکپا اٹھا۔ اس وقت آس پاس کوئی متنفس نظر نہ آتا تھا۔ بس وہ تھا اور ایک ٹھٹھرا ہوا چاند جو کناٹ پلیس کی رفیع الشان عمارتوں پر خنک چاندنی ڈال رہا تھا۔ ہوا جسم کے ننگے حصوں پر کند چھریوں کی طرح پڑ رہی تھی۔ درختوں کے پتے آپس میں اس طرح بج رہے تھے جیسے کسی سردی سے کانپتے ہوئے آدمی کے دانت۔ پل بھر کے لیے دور سے گھوڑوں کی ٹاپوں کے ساتھ کسی تانگے والے کے گانے کی آواز آئی اور پھر رفتہ رفتہ فضا میں تحلیل ہو گئی۔ چاند کی کچھ کرنیں درخت کی ٹہنیوں میں سے چھن چھن کر بنچ پر پڑ رہی تھیں۔ ان کی روشنی میں نوجوان نے بوتل کی طرف دیکھا تو اسے اس سرخ سرخ شے میں سے ایک لپٹ سی نکلتی ہوئی معلوم ہوئی، جس طرح انگیٹھی کے دہکتے ہوئے کوئلوں سے نکلتی ہے۔ کیا اس خطرناک چیز کو جوں کا توں گھر لے جانا ہوگا؟ کیا اسے ٹھکانے لگانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے؟

رات کے کوئی ڈھائی بجے ہوں گےکہ نوجوان لڑکھڑاتا ہوا اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا اور بے تحاشا کواڑ کھٹکھٹانے لگا۔ باپ انتظار کرتے کرتے سو گیا تھا۔ آواز سنتے ہی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، ’’کون؟‘‘

’’میں۔۔۔‘‘ ایک بھدی سی آواز میں جو انسان سے زیادہ حیوان کی آواز سے ملتی جلتی تھی، نوجوان نے جواب دیا۔ دروازہ کھلا تو باپ کی نظر بیٹے کے خالی ہاتھوں پر پڑی۔

’’بیچ آئے؟‘‘

’’اونہہ۔‘‘ اور نوجوان نے ایک بے تکا قہقہہ لگایا۔

’’کیا ہوئی پھر؟‘‘

’’یہ رہی۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ۔‘‘

بڈھے کا منہ کھلے کا کھلا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

مأخذ : کلیات غلام عباس

مصنف:غلام عباس

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here