وہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک چھوٹی سی سڑک تھی، جس کے ارد گرد درخت ہی درخت تھے درختو ں کے پیچھے سکول کی عمارت تھی، اس سڑک پر آپ اگر چلتے جائیں تو آگے ہسپتال آ جائےگا جہاں ایک ڈاکٹر صاحب بیٹھتے تھے، جو سب کو ایک ہی طرح کی کڑوی ادویات دیتے تھے ان کے پاس کوئی دوا میٹھی نہیں تھی دوا کے فوراً بعد آپ کو چینی بھی کھانا پڑتی تھی، لیکن اب وہ ڈاکٹر صاحب معلوم نہیں کہاں ہونگے کہ یہ بہت پرانی بات ہے۔
اس سڑک میں کچھ بھی خاص بات نہیں تھی لیکن معلوم نہیں مجھے وہ سڑک بھولتی کیوں نہیں، اس کے ایک سرے پر بجلی کا کھمبا نصب تھا جب رات ہوتی تو بلب جلتا اور سب بچے اس کے نیچے کھیلا کرتے، جب بہت بارش ہوتی تو سڑک پر پانی ہی پانی ہوتا اور اپنی کشتیاں لے کر سڑک کے دریا میں اتر جاتے، معلوم نہیں مجھے وہ سڑک وہ کھمبا کیونکر یاد ہے، وہاں ایک بچہ تھا جو شاید درخت کے ساتھ ٹیک لگائے اب بھی بیٹھا ہو، وہ جو ساری دوپہردرخت کے نیچے گزارتا تھا، اسے گاوں سے اس سڑک سے اور وہاں کے پرندوں سے محبت تھی۔ اسے اس گاوں سے محبت تھی جہاں امن وسکون تھا۔
شاید وہ اب بھی سکول کی فیس جو اس سے راہ میں کہیں کھوگئی تھی ڈھونڈھ رہا ہو، ساری دوپہر نکل گئی تھی ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے تھک گیا تھا لیکن اسے روپے نہ ملے، بغیر پیسوں کے نہ وہ سکول جا سکتا تھا اور نہ گھر، معلوم نہیں وہ کتنی بار سڑک پر آیا اور گیا تھا، وہ بار بار سورج کو دیکھتا کہ کہیں ڈوب نہ جائے یہ ڈوب گیا تو اندھیرے میں روپے کیونکر ملیں گے لیکن سورج کو کیا خبر سو وہ ڈوب گیا۔۔۔وہ پریشان ہوکر کھمبے کے نیچے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔
شاید وہ اب بھی وہاں بیٹھا ہو۔۔۔
وہ بالکل ہی عام سی سڑک تھی۔
وہی لڑکا کہ جو میرے ساتھ شہر نہ آ سکا، اپنے ہم جماعتوں سے جھوٹ بولتا تھا کہ سڑک کے کنارے درختوں میں جن پرندوں کے گھونسلے ہیں وہ سارے پرندے اس کے دوست ہیں اور جب باقی لڑکے نہیں ہوتے تو پرندے درختوں سے اتر کر آتے ہیں اور وہ ملکر کھیلتے ہیں، سب کہتے تھے یہ جھوٹ ہے ایسا بھلا کیونکر ممکن ہے سب نے کہا اگر ایسا ہے تو ہم چھپ کر بیٹھیں گے اور دیکھتے ہیں پرندے کیسے نیچے آتے ہیں، سب لڑکے جھاڑیوں میں چھپ گئے اور وہ لڑکا درخت کے نیچے بیٹھ گیا، پرندے نہیں آئے، پرندوں کو کیا خبر کہ وہ کون ہے، لیکن وہ بیٹھا رہا شاید وہ اب بھی بیٹھا ہو اسی درخت سے ٹیک لگائے پرندوں کو دیکھ رہا ہوکہ یہ کب نیچے آکر اس سے کھیلیں گے۔۔۔ وہ پرندے اس کے دوست تھے لیکن وہ نہیں آئے اور سب لڑکے اس پر ہنسنے لگے تھے۔
وہ لڑکا بہت جھوٹا تھا وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں بہادر ہوں اور میں اکیلا کئی لوگوں سے لڑ سکتا ہوں، چھٹی کے بعد اسی سڑک پر چلتے ہوئے چار لڑکوں نے اسکی خوب دھنائی کی اور اسکی شرٹ کے بٹن بھی توڑ دیئے، اسے تھپڑ پڑتا تھا اور وہ زمین پر اپنے بٹن تلاش کر رہا تھا۔
’’ٹھہرو مجھے بٹن اٹھا لینے دو، ٹھہرو، ایک منٹ ٹھہرو۔۔۔یہ۔۔۔ یہ میری جیب ہے۔ دیکھو، دیکھو۔ جیب چھوڑ دو۔‘‘
جیب بھی پھٹ گئی تھی، بٹن بھی ٹوٹ گئے تھے۔
’’اب بتاو تمہیں تو بڑے کراٹے آتے تھے تم تو کئی لوگوں سے لڑ سکتے تھے اب بتاو۔‘‘ اور وہ لڑکے چلے گئے اس نے بٹن تلاش کیے، جب سارے بٹن مل گئے تو اسے احساس ہوا کہ اس کی کہنی سے خون بھی بہہ رہا ہے۔۔۔
وہ وہیں سڑک کے کنارے بیٹھ کر رونے لگا، شاید وہ اب بھی وہیں بیٹھا رو رہا ہو۔۔۔
میں بھلا اسے کیسے ساتھ لا سکتا تھا وہ خود بہت ضدی تھا حالانکہ گاوں کے حالات اب پہلے سے نہیں رہے تھے۔
ہوا یوں کہ ایک ظالم دیونے اپنے حامیوں سمیت گاؤں پر قبضہ کر لیا، ظلم کی سیاہ رات چھا گئی تھی، سورج نکلتا تھا لیکن دن نہیں ہوتا تھا، کالی سیاہ رات میں جس میں کوئی اگر اجالا کرنا چاہتا تو اسے سزا دی جاتی، غریب ڈرے ہوئے لوگ اب آہستہ آہستہ گاوں چھوڑ کر جا رہے تھے، دیوارودر کو، اب دیمک چاٹ رہی تھی، وہ گاوں اور وہ گلیاں کہ جوسارادن بچوں کے شوروغل سے مسکرا رہی ہوتیں، اب ویران ہوکرسسک رہی ہوتیں، حتی کہ وہ کھمبا کہ جس کے نیچے ہر شام بچے کھیلاکرتے تھے، اداس تھا۔
سڑک اور زیادہ ٹوٹ گئی تھی اوراس کے ارد گرد جھاڑیاں بھی بڑھنے لگ گئیں تھیں، اب گاوں میں صرف دیو کے حامی اور چند ہی اور لوگ رہ گئے تھے اور ظلم و ستم جاری تھا مخالفین کے گھر توڑے جا رہے تھے اور لوگ اس دیو کے خلاف کچھ نہ کر سکتے تھے، غریب لوگ بھلاکر ہی کیا سکتے تھے، وہ ایک شام کہ جب دیو کے کارندے آئے اورہمیں بھی گھر خالی کرنے کو کہا، ہاں وہ گھر کہ جس کہ ایک ایک اینٹ محبت سے رکھی گئی تھی، وہ دیورایں جو مکینوں کو جانتی تھیں، مکین دیواروں کو جانتے تھے، وہ گھر خالی کرنے تھا، سو سامان باندھ لیا گیا تھا، لیکن وہ لڑکا اسی ٹوٹی ہوئی سڑک کے کنارے بیٹھا تھا جہاں اب جھاڑیاں ہی جھاڑیا ں تھیں سکول بند ہو گیا تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب جو کڑوی دوائیاں دیا کرتے تھے وہ بھی اب نہ آتے، لیکن پھر بھی وہ لڑکا وہیں بیٹھا تھا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو یہ لوگ بہت ظالم ہیں، اب ہمارا گزارہ یہاں ممکن نہیں ہم غریب ناتواں لوگ ان ظالموں کے خلاف کر ہی کیا سکتے ہیں، اٹھو میرے پیارے، اب یہاں ویرانیاں ہی ویرانیاں ہیں، یہاں سکول ہے نہ ہسپتال اور تمہارے سارے دوست بھی اب یہ گاوں چھوڑکر جا چکے ہیں سو ہمیں بھی جانا ہوگا پر وہ نہیں مانا اس کا خیال تھا کہ پرندے اس کے دوست ہیں سو وہ وہیں رہےگا اور وہ اسی ٹوٹی سڑک پر ہی رہ گیا۔۔۔اور میں شہر آ گیا۔
مصنف:محمد جمیل اختر