حق کی فکر

0
235
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

ٹامی یوں دیکھنے میں توبہت تگڑاتھا۔ بھونکتاتو سننے والوں کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ ڈیل ڈول بھی ایسا تھاکہ اندھیری رات میں اس پرگدھے کاشبہ ہوتا لیکن اس کی دلیری کسی معرکے میں کبھی ظاہر نہ ہوتی تھی۔ دوچار بار جب بازار کے لیڈروں نے اسے للکارا تو وہ جسارت کامزہ چکھانے کےلئے میدان میں آیا۔۔۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک لڑاجیوٹ سے لڑا۔ پنجے اوردانتوں سے زیادہ چوٹیں اس کی دم نے کیں۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ بالآخر میدان کس کےہاتھ رہالیکن جب فریق مخالف کو اپنی حمایت کے لئے اورکمک منگانی پڑی تو جنگی اصول کے مطابق فتح کاسہرا ٹامی کے سررکھنا زیادہ منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔ ٹامی نے اس وقت مصلحت سے کام لیا اوردانت نکال دیئے جوصلح کی علامت تھی۔ اس نے ایسے بے اصولوں اور بے راہ رقیبوں کومنہ نہ لگایا۔

اتنا صلح پسند ہونے پربھی ٹامی کے رقیبوں کی تعداد روزبروز بڑھتی جاتی تھی۔ اس کے برابروالے تو اس سے اس لئے جلتے تھے کہ یہ اتنا موٹا تازہ ہوکر بھی اس قدر صلح پسندکیوں ہے۔ بازاری غول اس سے اس لئےجلتا تھا کہ ٹامی کے مارے گھوروں پرکی ہڈیاں بھی نہ بجنے پاتی تھیں۔ وہ گھڑی رات رہے اٹھتا اورحلوائیوں کی دکانوں کے سامنے کے دونے اورتپل، قصائیوں کے سامنے کی ہڈیا ں اور چھیچڑے ایک ایک کرکے اڑاجاتا۔ اس لئے اتنے دشمنوں کے بیچ میں رہ کرٹامی کی زندگی دشوار ہوجاتی تھی۔ مہینوں گزرجاتے اورپیٹ بھرکھانا نہ ملتا۔

دوتین باراسے من مانا کھانا کھانے کی ایسی شدید خواہش ہوگئی کہ اس نے غلط طریقوں سے اسے پوار کرنے کی کوشش کی، مگر نتیجہ امید کے خلاف ہوا اورمزےدار کھانوں کے بدلے اسے ثقیل چیزیں بھرپیٹ کھانے کوملیں جن سے پیٹ کے بدلے پیٹھ میں کئی دن تک درد ہوتارہا تواس نے مجبور ہوکر مل جل کرکھانے کی روش پھراختیارکرلی۔ ڈنڈوں سے پیٹ چاہے بھرگیاہو لیکن ہوس ختم نہ ہوئی۔ وہ کسی ایسی جگہ جاناچاہتاتھا جہاں خوب شکار ملے، ہرن اورخرگوش اوربھیڑوں کے بچے میدانوں میں چرتے ہوں۔ جہاں ان کاکوئی مالک نہ ہو، کسی رقیب کا اندیشہ تک نہ ہو۔۔۔ آرام کرنے کو گھنے درختوں کاسایہ ہو۔ پینے کوندی کا صاف ستھرا پانی ہووہاں من مانا شکار کروں، کھاؤں اورمیٹھی نیند سوؤں۔ چاروں طرف میری دھاک جم جائے سب پرایسا رعب چھاجائے کہ مجھی کو اپنا راجا سمجھنے لگیں اور دھیرے دھیرے میرا ایسا سکہ بیٹھ جائے کہ کسی وقت کسی رقیب کوادھر آنے کی ہمت نہ ہو۔

اتفاق سے ایک دن وہ انہیں خیالوں کے سرورمیں سرجھکائے سڑک چھوڑ کرگلیوں میں سے چلاجارہاتھا کہ دفعتاً ایک جواں ہمت حریف سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ ٹامی نے چاہا کہ بچ کر نکل جائے مگر وہ بدمعاش اتنا امن پسند نہ تھا، اس نے فورا جھپٹ کرٹامی کی گردن پکڑلی۔ ٹامی نے بہت منت سماجت کی، گڑگڑاکرکہا، خدارا مجھے چلاجانے دو۔ قسم لے لو جوپھرادھر قدم رکھوں۔ میری شامت آئی تھی کہ تمہارے دائرہ اقتدارمیں چلا آیا۔۔۔ مگراس سخت گیراوربے رحم دشمن نے ذرا بھی رعایت نہ کی۔ آخر میں ہارکرٹامی نے نہایت بے کسانہ انداز سے فریاد کرنی شروع کی۔ یہ سن کر محلے کے دوچار نیتا جمع ہوگئے لیکن بجائے اس کے کہ اس کی بے کسی پررحم کریں وہ الٹےٹامی پرہی ٹوٹ پڑے۔ اس غیرمنصفانہ برتاؤ نے ٹامی کا دل توڑدیا۔ وہ جان چھوڑکربھاگا لیکن ان ظالموں نے بہت دور تک اس کاتعاقب کیا، یہاں تک کہ راستے میں ایک ندی پڑگئی اورٹامی نے اس میں کود کراپنی جان بچائی۔

کہتے ہیں کہ ایک دن سب کے دن پھرتے ہیں۔ ٹامی کے دن بھی ندی میں کودتے ہی پھرگئے۔ کودا تھاجان بچانے کےلئے ہاتھ لگ گئے موتی۔ تیرتا ہوا اس پارپہنچا تو وہاں تمناؤں کی کلیاں کھلی ہوئی تھیں۔۔۔

- Advertisement -

یہ نہایت وسیع میدان تھا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی ہریالی ہی ہریالی نظرآتی۔ کہیں جھرنا بہنے کادھیما ترنم تھا توکہیں درختوں کے جھنڈتھے اورریت کے سپاٹ میدان۔ بڑاہی دلفریب منظرتھا۔۔۔ بھانت بھانت کے پرندے اورچوپائے نظرآئے بعض ایسے لمبے چوڑے کہ ٹامی انہیں دیکھ کر تھرااٹھا۔ بعض ایسے خونخوار کہ ان کی آنکھ سے شعلے نکل رہے تھے۔۔۔ وہ آپس میں اکثرلڑاکرتے تھے اوراکثر خون کی ندی بہتی تھی۔ ٹامی نے دیکھا کہ وہ ان خوف ناک دشمنوں سے پیش نہ نہ پاسکے گا اس لئے اس نے مصلحت سے کام لینا شروع کیا۔ جب دولڑنے والوں میں ایک زخمی یا مردہ ہوکر گرپڑتا توٹامی لپک کر گوشت کا ٹکڑا لے بھاگتا اور تنہائی میں بیٹھ کر کھاتا۔ فاتح جانور اپنی کامیابی کے نشے میں اسے حقیر سمجھ کرکچھ نہ کہتا۔ اب کیا ٹامی کے پوبارہ ہوگئے، ہمیشہ دیوالی رہنے لگی۔ نہ گڑکی کمی تھی، نہ گیہوں کی۔ اکثر نئے نئے کھانے کھاتااور درختوں کے نیچے مزے سے سوتا۔ اس نے ایسی آرام دہ زندگی کا تصوربھی نہ کیاتھا، وہ مرکر نہیں جیتے جی سورگ پاگیاتھا۔

تھوڑےہی دنوں میں قوت بخش کھانوں نے ٹامی پرجادوکا سااثر پیدا کیا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ لحیم شحیم درازقد اورخوفناک ہوگیا۔۔۔ چھلانگیں بھرتا اور کسی چھوٹے موٹے جانوروں کاشکار اب وہ خود بھی کرلیتا۔ ادھر اس خطے کے دلیروں میں روزانہ خونریزی اورمعرکہ آرائی کے باعث تباہی کے آثار نظر آنے لگے۔ جنگل کے جانوراب چونکے اور اسے وہاں سے بھگادینے کی کوشش کرنےلگے۔ ٹامی نے اب ایک نئی چال چلی۔ وہ کبھی کسی جانور سے کہتا تمہارا فلاں دشمن تمہیں مارڈالنے کی تیاری کررہا ہے، کسی سے کہتا، فلاں تم کوگالی دیتاتھا۔ جنگل کے جانور اس کے چکمے میں آ آکر آپس میں لڑجاتے اورٹامی کی چاندی ہوجاتی۔ آخر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ بڑے بڑے جانوروں کا صفایا ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے جانوروں کواس سے مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی تھی۔ اس کی ترقی اورطاقت دیکھ کرانہیں ایسا معلوم ہونے لگا کہ یہ عجیب جانورآسمان سے حکومت کرنے کے لئے بھیجا گیاہے۔ ٹامی بھی اب شکاربازی کے جوہر دکھاکر ان کے اس خیال کی تصدیق کرنے لگا۔ بڑے فخر سے کہتا۔۔۔ خدا نے مجھے تمہارے اوپر حکومت کرنے کےلئے بھیجا ہے، یہ مشیتِ الہی ہے تم بےغل وغش اپنے اپنے گھروں میں پڑے رہو۔ میں تم سے کچھ نہ بولوں گا۔ بس تمہاری خدمت کرنے کےصلے میں کبھی کبھی تم میں سے کسی کاشکار کرلیاکروں گا۔ آخر میرے بھی توپیٹ ہے۔ بغیرغذاکے کیسے زندہ رہوں گا اور کیسے تمہاری حفاظت کروں گا۔۔۔ وہ اب بڑی شان سے چاروں طرف فخریہ نظروں سے تاکتا ہوا گھومتا پھراکرتا۔

ٹامی کوکوئی فکر تھی تویہ کہ اس دیش میں کوئی میرارقیب نہ اٹھ کھڑا ہو۔ جوں جوں دن گزرتے تھے، عیش وعشرت کاچسکا بڑھتا جاتا تھا اوراس کی فکر بھی ویسے ویسے بڑھتی جاتی تھی۔ وہ اکثررات کوچونک پڑتا اور کسی نامعلوم دشمن کے پیچھے دوڑتا۔ اندیشہ بھوت کی طرح سرپرسوار رہتاتھا۔ جانوروں سے کہتا کہ خدا نہ کرے تم کسی دوسرے حکمراں کے پنجے میں پھنس جاؤ۔ وہ تمہیں پیس ڈالے گا۔ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ ہمیشہ تمہاری بھلائی میں لگارہتاہوں۔ کسی دوسرے سے یہ امید مت رکھنا۔ سب جانورایک آوازہوکر کہتے۔۔۔ ’’جب تک جئیں گے آپ کے وفادار رہیں۔۔۔‘‘

آخرکار یہ ہوا کہ ٹامی کولمحہ بھر بھی اطمینان سے بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ وہ رات رات بھر اوردن دن بھرندی کے کنارے ادھرسے ادھر چکرلگایاکرتا۔ دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگتا، بے دم ہوجاتا مگرذہنی سکون نہ ملتا۔ کہیں کوئی دشمن نہ گھس آئے، بس یہی فکررہتی۔

کنوارکامہینہ آیاتوٹامی کادل اپنے پرانے ساتھیوں سے ملنے کے لئے بے چین ہونےلگا۔ وہ اپنے دل کو کسی طرح روک نہ سکا۔ وہ دن یادآئے جب وہ اپنے دوچار دوستوں کے ساتھ کسی محبوبہ کے پیچھے گلی گلی اورکوچہ کوچہ چکرلگایا کرتا۔ دوچار دن تواس نے صبر کیا لیکن خواہش اتنی بڑھی کہ وہ خم ٹھوک کراٹھ کھڑا ہوا۔ اسے اب اپنے تیج اوربل پرغرورتھا دوچار کو تومزہ چکھاسکتا تھا۔۔۔ لین ندی کے اس پار آتے ہی اس کی خوداعتمادی ختم ہونے لگی، اس کی چال ہلکی پڑگئی، آپ ہی آپ سر جھک گیا، دم سکڑگئی۔ ایک حسینہ کوآتے دیکھ کر وہ بے قرار ہواٹھا۔ وہ اسی کے پیچھے ہولیا۔ اس حسینہ کواس کے انداز واطوار ناپسند ہوئے۔ اس نے سخت لہجے میں اسے ڈانٹا۔ اس کی آواز سنتے ہی اس کے کئی عاشق آپہنچے اورٹامی کو دیکھتے ہی آپے سے باہرہوگئے۔ ٹامی سٹ پٹاگیا۔ ابھی فیصلہ نہ کرسکا تھا کہ کیا کروں کہ چاروں طرف سے اس پردانتوں اورپنجوں کی بارش ہونےلگی۔ بھاگتے بھی نہ بن پڑا۔ جسم لہولہان ہوگیا۔ بھاگابھی توشیطانوں کاایک گروہ پیچھے تھا۔

اس دن سے اس کے دل میں ایک وہم سا بیٹھ گیا تھاکہ حملہ آوروں کاایک گروہ میرے سکھ شانتی کوختم کرنے کے لئےآرہاہے۔ یہ شک پہلے بھی کم نہ تھا اب اوربھی بڑھ گیا۔۔۔

ایک دن اس کا دل خوف سے اتنابے چین ہواکہ اسے ایسا معلوم ہواکہ گویا دشمنوں کا دل آپہنچا۔ وہ بڑے جوش سے ندی کے کنارے آیا اورادھرسے ادھر دوڑنے لگا۔ دن بیت گیا، رات بیت گئی مگراس نے آرام نہ کیا۔ دوسرا دن آیا اور گیا لیکن ٹامی بھوکا پیاسا ندی کے کنارے چکرلگاتارہا۔ اس طرح پانچ دن بیت گئے، ٹامی کے پیر لڑکھڑانے لگے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا، آنتیں سکڑگئیں، بھوک سے بے قرار ہوکرگرگرپڑتا مگروہ اندیشہ کسی طرح دورنہ ہوتا۔

آخر میں ساتویں دن وہ نامراد ٹامی اپنے حق کی فکر سے پریشان اس دنیاسے رخصت ہوگیا۔ جنگل کا کوئی جانور اس کے قریب نہ آیا، کسی نے اس کی بات نہ پوچھی، کسی نے اس کی لاش پرآنسونہ بہائے۔ کئی دن تک اس پرگدھ اورکوے منڈلاتے رہے۔ آخر میں ہڈیوں کے پنجر کے سوااورکچھ نہ رہ گیا۔

مأخذ : پریم چند کے مختصر افسانے

مصنف :پریم چند

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here