شیرِ پنجاب کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں اور اراکینِ سلطنت باہمی نفاق و عناد کے ہاتھوں مرمٹے تھے۔رنجیت سنگھ کی بنائی ہوئی شاندار مگرکھوکھلی عمارت پامال ہوگئی تھی۔کنور دلیپ سنگھ انگلستان میں تھے اور رانی چندر کنور چنار کے قلعہ میں۔
چندر کنورنے گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی۔ مگر آئینِ سیاست برتنا نہ جانتی تھی اور حسن و عشق کی شیرازہ بندیاں رقابت کی آگ بھڑکانے کے سوا اور کیا کرتیں!
رات بھیگ چکی تھی۔ رانی چندرکنور اپنے مسکن کے بالاخانہ پر کھڑی گنگا کی طرف تاکتی تھی۔ کہ لہریں کیوں اس قدر آزاد ہیں۔ انھوں نے کتنے گاؤں اور شہر ڈبائے ہیں، کتنا جان و مال نگل گئی ہیں۔ مگر پھر بھی آزاد ہیں۔ کوئی انھیں بند نہیں کرتا۔ اسی لئے نہ کہ وہ بند نہیں رہ سکتیں۔ وہ گرجیں گی، بل کھائیں گی، اور باندھ کے اوپر چڑھ کر اسے پامال کردیں گی۔ اپنے زور میں اسے بہا لے جائیں گی۔
یہ سوچتے سوچتے رانی مسند پر لیٹ گئی۔ اس کی نظروں کے سامنے عمرِ رفتہ کی یادگاریں ایک دلکش خواب کی طرح آنے لگیں۔ کبھی اس کے تیور کے بل تلوار سے زیادہ قاتل تھے۔ اور اس کا تبسم ہوائے بسنت سے بھی زیادہ جان پرور۔ مگر آہ! اب یہ جنسیں کتنی ارزاں ہیں۔ روئے تو اپنے کو سنانے کے لئے، ہنسے تو اپنے کو بہلانے کے لئے، اگر بگڑے توکسی کا کیا بگاڑ سکتی ہے۔ بنے تو کسی کا کیا بناسکتی ہے۔ رانی اور باندی میں کتنا فرق ہے!
رانی کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے گرنے لگے۔ جو کبھی زہر سے زیادہ قاتل، اور امرت سے زیادہ انمول تھے۔ وہ اسی طرح اکیلی، بے آس، کتنی بارروئی تھی، جب آسمان کے تاروں کے سوا اور کوئی دیکھنے والا نہ تھا۔
اسی طرح روتے روتے چندرکنور کی آنکھیں جھپک گئیں اور اس کا پیارا لخت جگر کنور دلیپ سنگھ جس میں اس کی جان بستی تھی غرورِ پامال کی صورت بنا ہوا اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ جس طرح گائے دن بھر ہار میں رہنے کے بعد شام کو گھر آتی ہے اور اپنے بچّے کو دیکھتے ہی اس کی طرف مامتا سے مست، تھنوں میں دودھ بھرے، دم اٹھائے دوڑتی ہے، اسی طرح چند کنور دونوں ہاتھ پھیلائے اپنے پیارے کنور کو سینہ سے لپٹانے کے لئے دوڑی مگر آنکھیں کھل گئیں اور زندگی کی آرزوں کی طرح وہ خواب بھی پریشان ہوگیا۔ اس نے گنگا کی طرف دیکھا اور بولی، ’’مجھے بھی اپنے ساتھ لیتی چلو۔‘‘
رانی فوراً بالاخانہ سے اتری۔ کمرہ میں ایک لالٹین جل رہی تھی۔ اس کی روشنی میں ایک میلی ساڑی پہنی، گہنے اتاردیئے، جواہرات کا ایک صندوقچہ اور ایک خنجر ِآبدار کمر میں رکھا اور باہر نکلی۔ ہمت یاس کی تصویر تھی۔
سنتری نے پکارا۔۔۔ رانی نے جواب دیا، ’’میں ہوں جھنگی۔‘‘
’’کہاں جاتی ہے؟‘‘
’’گنگا جل لاؤں گی۔ صراحی ٹوٹ گئی ہے۔ رانی جی پانی مانگ رہی ہیں۔‘‘
سنتری ذرا قریب آکر بولا، ’’چل میں بھی تیرے ساتھ چلتا ہوں۔ ذرا ٹھہر۔‘‘
جھنگی بولی، ’’نہیں میرے ساتھ مت آؤ۔ رانی کوٹھے پر ہیں دیکھ لیں گی۔‘‘
سنتری کو دھوکا دے کر چند کنور چور دروازہ سے ہوتی ہوئی، اندھیرے میں کانٹوں سے الجھتی، چٹانوں سے ٹکراتی۔ گنگا کے کنارے جا پہونچی۔
آدھی رات سے زیادہ گذر چکی تھی۔ گنگا میں کنجِ قناعت کا سا سکون تھا۔ لہریں تاروں کو گوشۂ جگر میں بٹھائے محو ِراز و نیاز تھیں۔ چاروں طرف سنسان تھا۔
رانی ندی کے کنارے کنارے، مُڑ مُڑ کر پیچھے دیکھتی چلی جاتی تھی۔ دفعۃً اسے ایک کشتی کھونٹے سے بندھی ہوئی نظر آئی۔ رانی نے غور سے دیکھا۔ ملاح لیٹا ہوا تھا۔ ملّاح کو جگانا موت کو جگانا تھا۔ اس نے فوراً رسی کھول دی اور کشتی پر سوار ہوگئی۔ کشتی آہستہ آہستہ دھار کے سہارے چلنے لگی۔ ایامِ غم کی طرح سست اور تاریک۔ خوابِ حسرت تھا جو موجِ خیال پر بہتا چلا جاتا تھا۔
کشتی میں حرکت ہوئی توملّاح چونکا، اٹھ بیٹھا، آنکھیں ملیں، دیکھا تو سامنے تختہ پر ایک عورت ہاتھ میں ڈانٹر لئے بیٹھی ہے۔ گھبرا کر بولا، ’’تین کون ہے رے؟ ناؤ کہاں لئے جات ہے؟‘‘
رانی ہنس پڑی۔ انتہائے خوف کو ہمت کہتے ہیں۔ بولی، ’’سچ بتادوں یا جھوٹ۔‘‘
ملّاح، رانی کے انداز سے کچھ خائف ہوکر بولا، ’’سچ بتاوا جائے۔‘‘
رانی بولی، ’’اچھا تو سن، میں لاہور کی رانی چندر کنور ہوں۔ اسی قلعہ میں قید تھی۔ آج بھاگی جاتی ہوں۔ مجھے جلد بنارس پہونچادے۔ تجھے نہال کردونگی۔ اور اگر تو کچھ شرارت کرے گا تو دیکھ اس کٹار سے تیرا سرکاٹ دونگی۔ صبح ہونے سے پہلے ہم کو بنارس پہونچنا چاہیۓ۔‘‘
یہ دھمکی کارگر ہوگئی۔ ملّاح نے ادب سے اپنا کمبل بچھادیا اور تیزی سے ڈانٹر چلانے لگا۔ کنارے کے درخت، اور سر پر جگمگاتے ہوئے مدّھم تارے، ساتھ ساتھ دوڑنے لگے۔
صبح کو چنار کے قلعہ میں ہر شخص حیرت زدہ اور پریشان تھا۔ سنتری اور چوکیدار اور لونڈیاں سب سر جھکائے افسر قلعہ کے روبرو حاضر تھے۔ تفتیش ہورہی تھی۔ مگر کچھ پتہ نہ چلتا تھا۔
ادھر رانی بنارس پہونچی۔ مگر وہاں پہلے ہی سے پولیس اور فوج کا جال بچھا ہوا تھا۔شہر کے ناکے بند تھے۔رانی کا سراغ لگانے کے صلہ میں ایک بیش قرار انعام کا اعلان کردیا گیا تھا۔ حرص دعوت پاکر بھوکے گدھ کی طرح مند لارہی تھی۔
قید سے نکل کر رانی کو معلوم ہوا کہ وہ اور بھی سنگین قید میں ہے۔ قلعہ میں ہر شخص اس کے حکم کا فرمانبردار تھا۔ افسرِ قلعہ بھی اس کا ادب کرتا تھا۔ لیکن آج آزاد ہوکر اس کے ہونٹ بند تھے۔ درودیوار دشمن ہورہے تھے۔ طائر بے پر کو کنجِ قفس ہی میں عافیت ہے۔
پولیس کے افسر ہر آنے جانے والے کو غور سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اس بھکارنی کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا جو ایک پھٹی ہوئی ساڑی پہنے، جاتریوں کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ سر جھکائے گنگا کی طرف سے چلی آرہی ہے۔ نہ وہ چونکتی ہے، نہ ہچکتی ہے، نہ گھبراتی ہے، اس بھکارنی کی رگوں میں رانی کا خون ہے۔
یہاں سے بھکارنی نے اجودھیا کی راہ لی۔ دن بھرا وگھت راستوں سے چلتی، رات کو کسی سنسان جگہ پر لیٹ رہتی۔ چہرہ زرد، پیروں میں چھالے، پھول سا بدن کمھلا گیا تھا۔
وہ اکثر گاوؤں میں لاہور کی رانی کے چرچے سنتی۔ کبھی کبھی پولیس کے آدمی بھی اسے رانی کی ٹوہ میں سرگرم نظر آتے۔ مگر انھیں دیکھتے ہی بھکارنی کے سینہ میں سوئی ہوئی رانی جاگ اٹھتی۔ گردن اٹھا کر انھیں حقارت آمیز نظروں سے دیکھتی اور غصہ و غم سے چہرہ تمتما جاتا۔
ایک دن اجودھیا کے نواح میں پہنچ کر رانی ایک درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی اس لئےکمر سے خنجر نکال کر رکھ دیا تھا اور سوچ رہی تھی کہ کہاں جاؤں؟ میرا منزل مقصود کیا ہے۔ کیا اس جگت میں میرے لئے اب کہیں ٹھکانا نہیں ہے۔
وہاں سے تھوڑی دور پر ایک آموں کا بڑا باغ تھا۔ اس میں بڑے بڑے شامیانے اور خیمے گڑے ہوئے تھے۔ کئی سنتری زرق برق وردیاں پہنے ٹہل رہے تھے۔کئی گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ رانی نے اس شاہانہ کرّو فر کو حسرت سے دیکھا۔ ایک بار وہ بھی کشمیر گئی تھی۔ اس کا پڑاؤ اس سے کہیں شاندار تھا۔
بیٹھے بیٹھے شام ہوگئی۔ رانی نے وہیں رات کا ٹنے کی ٹھانی۔ اتنے میں ایک بوڑھا سپاہی ٹہلتا ہوا آیا اور اس کے قریب ٹھہر گیا۔ اینٹھی ہوئی داڑھی تھی۔ چست چپکن کمر میں تلوار لٹک رہی تھی۔ رانی نے اسے دیکھتے ہی فوراً خنجر اٹھا کر کمر میں کھونس لیا۔ سپاہی نے اسے تیز نگاہ سے دیکھ کر پوچھا، ’’بیٹی کہاں سے آتی ہو؟‘‘
رانی نے کہا، ’’بہت دور سے۔‘‘
’’کہاں جاؤگی؟‘‘
’’کچھ معلوم نہیں۔ بڑی دور۔‘‘
سپاہی نے پھر رانی کی طرف غور سے دیکھا اور بولا، ’’ذرا اپنی کٹار مجھے دکھادو۔‘‘
رانی خنجر سنبھا ل کر کھڑی ہوگئی اور تند لہجہ میں بولی، ’’دوست ہو یا دشمن۔‘‘
ٹھاکر نے کہا، ’’دوست۔‘‘
سپاہی کے انداز ِکلام اور چہرہ میں کوئی ایسی بات تھی جو یقین کو مجبور کرتی تھی۔ رانی بولی، ’’دغا نہ کرنا۔ یہ دیکھو۔‘‘
ٹھاکر نے تلوار ہاتھ میں لی، اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور بڑے ادب کے ساتھ اسے آنکھوں سے لگایا۔ تب رانی کے آگے تعظیم سے سر جھکا کر بولا، ’’مہارانی چندر کنور۔‘‘
رانی نے پر حسرت آواز سے کہا، ’’نہیں۔ بیکس بھکارنی؟ ‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘
سپاہی نے جواب دیا، ’’آپ کا ایک سیوک۔‘‘
رانی نے اس کی طرف پرسوال انداز سے دیکھا اور بولی، ’’بیکسی کے سوا میرا اس سنسار میں کوئی نہیں ہے۔‘‘
سپاہی نے کہا، ’’مہارانی جی ایسا نہ کہئے۔ شیرِ پنجاب کی مہارانی کی آواز پر اب بھی گردنیں جھک سکتی ہیں۔ دیس میں ایسے لوگ موجود ہیں۔ جنھوں نے تمہارا نمک کھایا ہے اور اسے بھولے نہیں ہیں۔‘‘
رانی: ’’اب یہ ارمان نہیں۔ صرف ایک گوشہ عافیت چاہتی ہوں۔ ایسے ٹھونٹھ کی تلاش ہے جہاں تنکون کا گھونسلہ بنا سکوں۔‘‘
سپاہی: ’’ایسا گوشہ پہاڑوں ہی میں مل سکتا ہے۔ ہمالہ کی گود میں چلئے۔ وہیں آپ آندھی اور طوفان سے بچ سکتی ہیں۔‘‘
رانی نے تعجب سے کہا، ’’دشمنوں میں جاؤں۔ نیپال کا دربار کب ہمارادوست رہا۔‘‘
سپاہی بولا، ’’رانا جنگ بہادر قول کا پکّا راجپوت ہے۔‘‘
رانی: ’’مگر یہی جنگ بہادر توہیں جو ابھی حال میں ہمارے خلاف لارڈ ڈلہوزی کو مدد دینے پر آمادہ تھے۔‘‘
سپاہی خجالت آمیز انداز سے بولا، ’’تب آپ مہارانی چند کنورتھیں۔ آج آپ بھکارنی ہیں۔ اقبال کے حاسد اور دشمن سب جگہ ہوتے ہیں۔ جلتی ہوئی آگ کو پانی سے بجھاتے ہیں۔ راکھ ماتھے پر چڑھائی جاتی ہے۔ آپ ذرا بھی پس و پیش نہ کریں۔ نیپال میں اب بھی دھرم باقی ہے۔ آپ بے خوف چلیں۔ دیکھئے کہ آپ کو وہ کس طرح سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے۔‘‘
رانی نے رات اسی درخت کے سایہ میں کاٹی۔ سپاہی بھی وہیں سویا۔ صبح کو وہاں دو تیز گام گھوڑے نظر آئے۔ ایک پرسپاہی سوار تھا۔ دوسرے پر ایک نہایت خوشرو نوجوان، یہ رانی چند کنور تھی جوجائے پناہ کی تلاش میں نیپال جاتی تھی۔
کچھ دیر کے بعد رانی نے پوچھا، ’’یہ پڑاؤ کس کا ہے؟‘‘
سپاہی نے جواب دیا، ’’اسی رانا جنگ بہادرکا۔ تیرتھ جاترا کرنے آئےہوئے ہیں۔ مگر ہم سے پہلےپہونچ جائیں گے۔‘‘
رانی: ’’تم نے ان سے مجھے یہیں کیوں نہ ملا دیا۔ ان کا عندیہ معلوم ہوجاتا۔‘‘
سپاہی: ’’یہاں ان سے ملنا غیر ممکن تھا۔آپ مخبروں کی نگاہ سے نہ بچ سکتیں۔‘‘
اس زمانہ میں سفرکرنا جان جوکھم تھا۔ دونوں مسافروں کو بارہا ڈاکؤوں سے سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت رانی کے جیوٹ، اور ہاتھ کی تیزی اور صفائی دیکھ کر بوڑھا سپاہی دانتوں تلے انگلی دباتا تھا۔کبھی ان کی تلوار کام کرجاتی اور کبھی گھوڑوں کی رفتار تیز۔
لمبا سفر تھا۔جیٹھ کا مہینہ راستہ ہی میں ختم ہوگیا۔ برسات آئی۔ آسمان پر بادل منڈلائے۔ سوکھی ندیاں ابل پڑیں۔ پہاڑی نالے گرجنے لگے۔ نہ ندیوں میں کشتی۔ نہ نالوں پر گھاٹ، مگر گھوڑے سدھے ہوئے تھے خود بخود پانی میں اتر جاتے اور ڈوبتے اتراتے، بہتے، بھنور کھاتے، پارجا پہونچتے، ایک بار بچھّونے کچھوے کی پیٹھ پر ندی کا سفر کیا تھا۔ یہ سفر اس سے کم خطرناک نہ تھا۔
کہیں بلند قامت ساکھو او رمہوے کے جنگل تھے۔ کہیں خوش اندام جامن کے بن۔ ان کی گود میں ہاتھیوں اور ہرنوں کے غول کلیلیں کررہے تھے۔
دھان کی کیاریاں پانی سے لبریز تھیں۔ کسانوں کی عورتیں دھان بٹھاتی تھیں اور سہانے گیت گاتی تھیں۔ کبھی ان سہانی آوازوں کے بیچ میں کھیت کے مینڈ پر چھتری کے سایہ میں بیٹھے ہوئے زمیندار کی کرخت اور تحکمانہ آواز بھی سنائی دیتی تھی۔
اس طرح سفر کی تکلیفیں جھیلتے، ترائی کو طے کرکے دونوں مسافر نیپال کی سرزمین میں داخل ہوگئے۔
صبح کا وقت تھا۔ نیپال کے مہاراج سریندر بکرم سنگھ کا دربار سجا ہوا تھا۔ اراکینِ دربار پایہ بہ پایہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نیپال نے ایک طولانی جنگ کے بعد تبت پر فتح پائی تھی اور اس وقت شرائطِ صلح پر بحث ہورہی تھی۔ کوئی تاوان ِجنگ کا خواستگار تھا۔ کوئی الحاق کا حامی۔ بعض اصحاب سالانہ خراج پر زور دے رہے تھے۔ صرف رانا جنگ بہادر کے آنے کی دیر تھی۔ وہ کئی ماہ کی سیرو سیاحت کے بعد آج ہی رات کو اپنے مکان پر پہونچے تھے اور یہ اہم مسئلہ جو انہیں کی واپسی کا منتظر تھا اب مجلسِ وزرا میں پیش کیا گیا تھا۔ تبت کے سفیر امیدو بیم کی حالت وزیر اعظم کی زبان سے قطعی فیصلہ سننے کا انتظار کررہے تھے۔
آخر چوبدار نے رانا کے آنے کی اطلاع دی۔ اہل دربار تعظیماً کھڑے ہوگئے۔ رانا کو آداب بجا لاکر اپنے نقرئی سنگھاسن پر رونق افروز ہوئے۔ مہاراج نے فرمایا، ’’آپ صلح کے لئے کیا شرائط تجویز کرتے ہیں؟‘‘
رانا نے ادب سے سر جھکا کر کہا، ’’میری ناچیز رائے میں اس وقت سخت گیری بالکل بے محل ہے۔ غم نصیب دشمن کے ساتھ فیاضی سے برتاؤ کرنا ہمیشہ ہمارا شعار رہا ہے۔ کیا اس موقع پر خود غرضی کے نشہ میں ہم اپنے اس زرّیں اصول کو بھول جائیں گے؟ ہم ایسی صلح چاہتے ہیں جو اصلی معنوں میں صلح ہو۔ جو ہمارے دوستانہ تعلقات کی ضامن ہو اور ہمارے دلوں کو ملائے۔ اگر دربارِ تبّت ہمیں تجارتی رعایتیں پیش کرنے پر آمادہ ہو تو ہم کو صلح کرنے میں کوئی تامل نہ ہونا چاہیۓ۔‘‘
وزرا میں سرگوشیاں شروع ہوئیں۔ عام رائے اس فیاضی کے موافق نہ تھی۔ مگر مہاراج نے اس کی تائید کی۔ اس لئے کسی کو رانا کی مخالفت میں زبان کھولنے کا حوصلہ نہ ہوا۔
سفیروں کے رخصت ہوجانے کے بعد رانا جنگ بہادر نے کھڑے ہوکر کہا، ’’حاضرینِ دربار! آج نیپال کی تاریخ میں ایک یادگار واقعہ ہونے والا ہے۔ یہ یادگار نیک ہوگی یا بد، اس کا اختیار آپ کو ہے۔ آج مجھے دربار میں آتے وقت یہ شقہ ملا ہے جسے میں آپ صاحبوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اپنے مفہوم کے لحاظ سے یہ ایک نہایت بلیغ درخواست ہے۔ سائل نے تلسی داس کی صرف یہ چوپائی لکھ دی ہے،
آپت کال پرکھئے چاری
دھیرج، دھرم، متر، اور ناری‘‘
مہاراج نے پوچھا، ’’یہ خط کس نے بھیجا ہے؟‘‘
’’ایک بھکارنی نے۔‘‘
’’بھکارنی کون ہے؟‘‘
’’مہارانی چندر کنور۔‘‘
کڑبڑکھتری نے حیرت سے پوچھا، ’’جو ہمارے دوست انگریزی سرکار سے باغی ہوکر بھاگ گئی ہیں؟‘‘
رانا جنگ بہادر نے شرمندہ ہوکر کہا، ’’جی ہاں۔ حالانکہ اسی خیال کو دوسرے طریق پر ظاہر کرسکتے ہیں۔‘‘
کڑ بڑکھتری: ’’انگریزوں سے ہماری دوستی ہے اور دوست کے دشمن کی مدد کرنا آئینِ دوستی کے خلاف ہے۔‘‘
جنرل شمشیر بہادر، ’’ایسی حالت میں بہت اندیشہ ہے کہ انگریزی سرکار سے ہمارے تعلقات کمزور ہوجائیں۔‘‘
راجکمار نبیر سنگھ، ’’یہ مانتے ہیں کہ مہمان نوازی ہمارا فرض ہے۔ مگر اسی حد تک کہ ہمارے دوستوں کو ہماری جانب سے بدگمان ہونے کا موقع نہ ملے۔‘‘
اس مسئلہ پر یہاں تک اختلاف ہوا کہ ایک ہنگامہ سا برپا ہوگیا اور کئی اراکین یہ کہتے ہوئے سنائی دیئے کہ مہارانی صاحبہ کا اس وقت آنا ملک کے لئے فالِ بد ہے۔
تب رانا جنگ بہادر اٹھے۔ ان کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ وہ مخالفت کے متحمل نہ ہوے تھے۔ اس وقت بھی مصلحت غصّہ پر حاوی ہونے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ بولے، ’’بھائیو! اگر اس وقت میری باتیں آپ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ سخت معلوم ہوں تو مجھے معاف کیجئے گا۔ کیونکہ مجھے اب زیادہ سننے کی تاب نہیں ہے۔ اپنی قومی بے ہمتی کا یہ دلشکن نظارہ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اگرنیپال کے دربار میں اتنی بھی اخلاقی ہمت نہیں کہ وہ مہمان نوازی اور حمایت کے آئین کو نبھا سکے تو میں اس واقعہ کے متعلق ساری ذمہ داریوں کا بار اپنے سرلیتا ہوں۔ دربار اپنے تئیں بالکل سبکدوش سمجھے۔ اور اس کا عام اعلان کردے۔‘‘
کڑبڑ کھتری گرم ہوکر بولے، ’’محض یہ اعلان ملک کو خطروں سے نہیں بچا سکتا۔‘‘
رانا جنگ بہادر نے غصہ سے ہونٹ چبا لیا۔ مگر ضبط کرکے بولے، ’’ملک داری خطروں اور ذمہ داریوں کا دوسرا نام ہے۔ ہم ذمہ داریوں سے آنکھیں نہیں چراسکتے۔ اپنے سایۂ حمایت میں آنے والوں کی دستگیری۔ راجپوتوں کا دھرم تھا۔ ہمارے بزرگ، جن کے نام لیوا ہم لوگ ہیں،ہمیشہ اصول پر، دھرم پر، آن پر، جان دیتے تھے۔ اپنے مانے ہوئےد ھرم کو توڑنا ایک خوددار قوم کے لئے شرمناک ہے۔ انگریز ہمارے دوست ہیں، اور ہزار شکر ہے کہ دانا دوست ہیں۔مہارانی چندرکنور کو زیر نگاہ رکھنے میں انکا مدعا صرف یہ تھا کہ فتنہ و شر کو اجتماع کا کوئی مرکز باقی نہ رہے۔ اگر ان کا یہ مدعا فوت نہ ہو تو انہیں ہم سے بدگمانی ہونے کا نہ کوئی موقع ہے اور نہ ان سے شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت۔‘‘
کڑبڑ کھتری: ’’مہارانی چندر کنور یہاں کس غرض سے آئی ہیں؟‘‘
جنگ بہادر: ’’صرف ایک گوشہ عافیت کی تلاش میں جہاں انھیں اپنی مجبوریوں کا خیال سوہانِ روح نہ ہو۔ وہ صاحبِ اقبال رانی، جورنگ محلوں میں عیش کرتی تھی جسے پھولوں کے سیج پر بھی آرام نہ ملتا تھا، آج سینکڑوں کوس سے، طرح طرح کی مصیبتیں اٹھاتی، ندی نالے، اور کوہ و بیان، طے کرتی یہاں صرف ایک گوشہ عافیت کی تلاش میں آتی ہے۔ امڈی ہوئی ندیاں، اور ابلتے ہوئے نالے۔ برسات کا موسم، ان تکلیفوں کو آپ لوگ جانتے ہیں اور یہ سب اسی ایک کنجِ عافیت کی خاطر، اسی ایک گوشہ زمین کی تمنا میں! مگر ہم ایسے تنگ ظرف ہیں کہ یہ تمنا بھی پوری نہیں کرسکتے! حمیت کا تقاضا تویہ تھا کہ ہم گوشہ زمین کے بجائے اپنے گوشہ جگر پیش کرتے۔ سوچئے کتنے فخر کی بات ہے کہ ایک ستم نصیب رانی اپنے مصیبت کے دنوں میں جس ملک کو یاد کرتی ہے وہ یہی پاک ملک ہے۔ مہارانی چندر کنور کو ہماری عالی ظرفی پر،اورہماری بیکس نوازی پر پورا بھروسہ تھا، اور وہی حسن عقیدت انہیں یہاں تک لائی ہے۔ اسی امید پر کہ پشوپتی کے سایۂ حمایت میں انھیں کدو کاوش سے نجات ملے گی وہ یہاں تک آتی ہیں۔ آپ کو اختیار ہے چاہے ان کی یہ امید پوری کریں یا اسے خاک میں ملا دیں۔ چاہے آئینِ حمایت کو نبھا کر صفحۂ تاریخ میں اپنا نام نیک چھوڑ جائیں۔ یا قومی اور اخلاقی پابندیوں کو مٹا کر اپنے تئیں اپنی ہی نگاہوں میں گرالیں۔کیونکہ مجھے یقین نہیں ہے کہ ایک فرد بھی ایسا بے حمیت ہے جو اس موقعہ پر آئینِ دستگیری کو فراموش کرکے اپنا سر اونچا کرسکے۔ اب میں آپ کے فیصلہ کا منتظر ہوں۔ آپ اپنے قوم اور ملک کا نام روشن کریں گے۔ یا ہمیشہ کے لئے اپنے ماتھے پر بدنامی کا داغ لگالیں گے۔‘‘
راجکمار نے جوش سے کہا، ’’ہم مہارانی کے قدموں تلے آنکھیں بچھائیں گے۔‘‘
کپتان بکرم سنگھ بولے، ’’ہم راجپوت ہیں اور اپنے دھرم کو نبھائیں گے۔‘‘
جنرل نبیر سنگھ نے فرمایا، ’’ہم ان کا وہ شاندار استقبال کریں گے کہ دنیا عش عش کرے گی۔‘‘
رانا جنگ بہادر نے کہا، ’’میں اپنے معزز دوست کڑبڑ کھتری کی زبان سے ان کا فیصلہ سننا چاہتا ہوں؟‘‘
کربڑکھتری ایک با اثر آدمی تھے اور مجلسِ وزرا میں وہ رانا جنگ بہادر کی مخالف جماعت کے سرغنہ سمجھے جاتے تھے۔ندامت آمیز لہجہ میں بولے، ’’اگرچہ میں مہارانی کی تشریف آوری کو خطروں سے خالی نہیں سمجھتا مگر اس موقعہ پر ہمارا دھرم یہی ہے کہ ہم مہارانی صاحبہ کو سر اور آنکھوں پر بٹھائیں۔دھرم سے منہ موڑنا کسی قوم کے لئے فخر کا باعث نہیں ہوسکتا۔‘‘
کئی آوازوں نے پرجوش لہجہ میں اس خیال کی تائید کی۔
مہاراجہ سریندر بکرم سنگھ نے اس مباحثہ کو غور سے سنا اور تب زبان مبارک سے فرمایا، ’’دھرم بیرو! میں تمہیں اس مردانہ فیصلہ پر مبارکباد دیتاہوں۔ تم نے قوم کا نام رکھ لیا۔ پشو پتی اس کارِخیر میں تمہاری مدد کریں!‘‘
مجلس ذرا برخاست ہوئی اور قلعہ سے سلامی دغنے لگی۔ سارے شہر میں خبر گونج اٹھی کہ پنجاب کی مہارانی چندر کنور تشریف لائی ہیں۔ جنرل رنبیر سنگھ اور جنرل شمشیر بہادر پانچ ہزار فوج کے ساتھ مہارانی کے استقبال کو روانہ ہوئے۔ مہمان خانہ کی آرایش ہونے لگی۔ بازاریں بیرقوں اور نبدن واروں سے سج گئیں۔
اقبال کی خاطر و تعظیم ہر جگہ ہوتی ہے۔ مگر کسی نے بھکارنی کی ایسی تعظیم دیکھی ہے! فوجیں بینڈ بجاتی، اور پتا کے لہراتی ہوئی، ایک امڈی ندی کی طرح موج بہ موج چلی جاتی تھیں۔ سارے شہر میں مسرت کا ہنگامہ تھا۔ دونوں طرف خوش لباس تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ فوج کے سردار آگے آگے گھوڑوں پر سوار تھے اور سب کے آگے رانا جنگ بہادر، قومی آن اور غرور کے نشہ میں مخمور اپنے زرنگار ہودے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بیکس نوازی کا ایک پاک نظارہ تھا۔
دھرم شالے کے دروازے پر یہ جلوس رکا۔ رانا ہاتھی سے اترے۔ مہارانی چندر کنور کمرہ سے باہر نکل آئیں۔ رانا نے جھک کر مجرا عرض کیا۔ رانی حیرت سے ان کی طرف تاکنے لگی۔ یہ وہی ان کا رفیق! انکا بوڑھا سپاہی تھا۔ آنکھیں لبریز ہوگئیں اور مسکرائی۔ کھلے ہوئے پھول پر سے شبنم کے قطرے ٹپکے۔ بولی، ’’میرے بوڑھے ٹھاکر، میری ناؤ پار لگانے والے! کس منہ سے تمہارا جس گاؤں۔‘‘
رانا نے سرجھکا کر کہا، ’’آپ کےقدم سے ہمارےنصیب روشن ہوگئے۔‘‘
دربارِ نیپال نے پچیس ہزار روپیہ سے مہارانی کے لئے ایک شاندار محل تیار کیا اور ان کے لئے دس ہزار روپیہ ماہوار وثیقہ مقرر کیا۔
وہ عمارت آج تک قائم ہے اور نیپال کی عالی ظرفی اور وفا کیستی کی یادگار ہے۔ پنجاب کی رانی کو لوگ آج تک یاد کرتے ہیں۔
یہی زینہ ہے جس سے قومیں نیک نامی کے سنہرے مینار تک پہونچتی ہیں۔
یہی واقعے ہیں جن سے قومی کارنانے روشن اور امر ہوجاتے ہیں۔
پولیٹیکل رزیڈنٹ نے اپنے گورنمنٹ کو رپورٹ کی۔ گمان تھا کہ گورنمنٹ انڈیا اورنیپال کے درمیان کچھ کشیدگی پیدا ہوجائے۔ مگر گورنمنٹ کو رانا جنگ بہادر پر کامل اعتماد تھا اور جب دربارِ نیپال نے یقین اوراطمینان دلا دیا کہ مہارانی چندر کنور کو کسی مخالفانہ کوشش کا موقع نہ دیا جائیگا تو گورنمنٹ انڈیا کو بھی اطمینان ہوگیا۔
کوئی شک نہیں کہ یہ واقعہ ہندوستانی تاریخ کی اندھیری رات میں جگنو کی چمک کی شان رکھتا ہے۔
مأخذ : پریم چند: مزید افسانے
مصنف :پریم چند