بھولامہتونے پہلی عورت کے مرجانے کے بعددوسری سگائی کی تو اس کے لڑکےرگھوکےلئےمصیبت کے دن آگئے۔ رگھوکی عمر اس وقت صرف دس سال کی تھی۔ مزے سے گاؤں میں گلی ڈنڈا کھیلتا پھرتا تھا۔ نئی ماں کے آتے ہی چکی میں جتناپڑا۔ پنّاحسین عورت تھی اور حسن کے ساتھ غرور بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھ سے کوئی موٹا کام نہ کرتی۔ گوبر رگھونکالتا، بیلوں کوسانی رگھودیتا۔ رگھوہی گھرکے جھوٹے برتن مانجھتا۔ بھولا کی آنکھیں کچھ ایسی پھریں کہ اسے اب رگھومیں برائیاں ہی نظر آتیں۔ پنا کی باتوں کو وہ پرانے رواج کے مطابق آنکھیں بند کرکے مان لیتاتھا۔ رگھو کی شکایتوں کی مطلق پرواہ نہ کرتا۔ نتیجہ یہ ہواکہ رگھو نے شکایت کرنا چھوڑدی۔ کس کے سامنے روئے؟ باپ ہی نہیں۔ سارا گاؤں اس کادشمن تھا، ’’بڑا ضدی لڑکا ہے۔ پنا کوتوکچھ سمجھتاہی نہیں۔۔۔ بے چاری اس کا دلارکرتی ہے کھلاتی پلاتی ہے۔ یہ اسی کا تونتیجہ ہے۔۔۔ دوسری عورت ہوتی تو نباہ نہ ہوتا۔ وہ تو کہوپنا اتنی سیدھی ہے کہ نباہ ہوجاتاہے۔‘‘
زبردست کی شکایت سب سنتے ہیں کمزور کی فریاد کوئی نہیں سنتا۔ رگھوکا دل ماں کی طرف سے دن بہ دن پھٹتا جاتاتھا۔ یہاں تک کہ آٹھ سال گزرگئے اورایک دن بھولا کے نام موت کا پیغام آپہنچا۔
پناکے چاربچے تھے تین لڑکے اورایک لڑکی۔ اتنابڑا خرچ اورکمانے والا کوئی نہیں۔۔۔ رگھو اب کیوں بات پوچھنے لگا۔ یہ بات مانی ہوئی تھی اپنی بیوی لائے گا اور الگ رہے گا۔ بیوی آکر اور بھی آگ لگائے گی۔ پنا کوچاروں طرف اندھیرا نظر آتاتھا۔ مگرکچھ بھی ہووہ رگھوکی دستِ نگر بن کر گھرمیں نہ رہے گی۔ جس گھرمیں اس نے راج کیا ہے اس میں وہ لونڈی نہ بنے گی؟جس لڑکے کواپناغلام سمجھا اس کامنہ نہ تاکے گی۔ وہ حسین تھی ابھی اس کی عمربھی کچھ ایسی زیادہ نہ تھی، اس کا حسن ابھی پوری بہارپر تھا۔۔۔ وہ کوئی دوسرا گھر کرے گی، یہی ہوگا نا لوگ ہنسیں گے بلا سے۔۔۔ اس کی برادری میں کیا ایسا ہوتا نہیں۔ باہمن ٹھاکر تھوڑا ہی ہے کہ ناک کٹ جائے گی۔ یہ توان ہی اونچی ذاتوں میں ہوتا ہے کہ گھر میں چاہےجو کچھ کروباہرپردہ ڈھکارہے۔ یہاں توسنسار کودکھاکر دوسرا گھر کرسکتی ہے۔ رگھو کی دبیل بن کر کیوں رہے۔
بھولا کومرے ایک مہینہ گزرگیاتھا۔۔۔ شام ہوگئی پنا اسی فکرمیں پڑی ہوئی تھی کہ یکایک اسے خیال آیا کہ بچے گھرمیں نہیں ہیں۔ بیلوں کے آنے کاوقت ہے کہیں رستے میں نہ پڑجائیں۔ اب دروازے پرکون ہے جوان کی نگرانی کرے گا۔ رگھو تویہ چاہے گا کہ نہ کچلنے کے ہوں تو کچل جائیں۔ میرے لڑکے تواسے پھوٹی آنکھ نہیں بھاتے، کبھی ہنس کر نہیں بولتا۔۔۔ گھرسے باہر نکلی تو دیکھا۔ رگھوسامنے جھونپڑی میں بیٹھا اوکھ کی گنڈیریاں بنارہا ہے۔۔۔ تینوں لڑکے اسے گھیرے کھڑے ہیں اورچھوٹی لڑکی اس کی گردن میں ہاتھ ڈالے اس کی پیٹھ پرسوارہونےکی کوشش کررہی ہے۔ پنا کوآنکھوں پر اعتبار نہ آیا۔ آج تویہ نئی بات ہے شاید دنیا کودکھاتا ہے کہ میں اپنےبھائیوں کو کتناچاہتاہوں اور من میں چھری رکھے ہوئے۔ گھات ملے توجان ہی لے لے۔ کالاسانپ ہے کالاسانپ۔ تندلہجے میں بولی، ’’تم سب کے سب یہاں کیا کرتے ہوگھرمیں آؤ۔ سانجھ کی بیرا ہے گورو آتے ہوں گے۔‘‘
رکھو نے عاجزانہ نظروں سے دیکھ کر کیا، ’’میں تو ہوں ہی کاکی۔ ڈر کس بات کا ہے۔‘‘
بڑا لڑکا کیدار بولا، ’’کاکی! رکھو دادا نے ہمارے لئے دو گاڑیاں بنادی ہیں یہ دیکھ۔ ایک پر ہم اور کنور بیٹھیں گے دوسری پر لچھمن اور جھنیا۔ دادا دونوں گاڑیاں کھینچیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک کونے سے دو گاڑیاں نکال لایا۔ چار چار پہئے لگے ہوئے تھے۔ بیٹھنے کے لئے تختے اور روک کے لئے دونوں طرف بازو تھے۔
پنا نے تعجب سے پوچھا، ’’گاڑیاں کس نے بنائیں۔‘‘
کیدار نے کچھ چڑکرکہا، ’’رگھودادا نے بنائی ہیں اور کس نے؟ بھگت کے گھر سے بسولا اور کھانی مانگ لائےاور چٹ چٹ بنادیں کھوب دوڑتی ہیں کاکی۔۔۔ بیٹھ کنّو۔۔۔ میں کھینچوں۔۔۔‘‘
کنوگاڑی میں بیٹھ گیا کیدار کھینچنے لگا۔ چرچرکاشورہوا جیسے گاڑی بھی اس کھیل میں لڑکوں کےساتھ شریک ہو۔ لچھمن نے دوسری گاڑی میں بیٹھ کر کہا، ’’داداکھینچو۔‘‘
رگھونے جھنیا کوبھی گاڑی میں بٹھادیا اور گاڑی کھینچتا ہوا دوڑا۔ تینوں لڑکے تالیاں بجانے لگے۔ پناحیرت زدہ نگاہوں سے یہ نظارہ دیکھ رہی تھی اورسوچ رہی تھی۔ یہی وہی رگھوہے یاکوئی اور؟
تھوڑی دیر کے بعد دونوں گاڑیاں لوٹیں۔۔۔ لڑکے گھر میں جاکر اس گاڑی کے سفر کے تجربات بیان کرنےلگے۔ کتنے خوش نصیب تھے سب! گویا ہوائی جہاز پربیٹھ آئےہوں۔
کنو نے کہا، ’’کاکی سب پیڑ دوڑ رہےتھے۔۔۔‘‘
لچھمن: ’’اوربچھیاں کیسی بھاگیں۔۔۔ سب کی سب دوڑیں۔‘‘
کیدار: ’’کاکی رگھودادا دونوں گاڑیاں ایک ساتھ کھینچ لےجاتےہیں۔‘‘
جھنیا سب سے چھوٹی تھی۔ اس کی قوتِ اظہاراچھل کود اورنگاہوں تک محدود تھی۔ تالیاں بجابجاکر ناچ رہی تھی۔۔۔
کنو: ’’اب ہمارے گھرگائے بھی آجائے گی کاکی۔۔۔ رگھو دادانے گردھاری سے کہاہےکہ ہمیں ایک گائے لادو۔۔۔ گردھاری بولا کل لاؤں گا۔۔۔‘‘
کیدار: ’’تین سیردودھ دیتی ہے کاکی۔ کھوب دودھ پئیں گے۔۔۔‘‘
اتنے میں رگھوبھی اندرآگیا۔ پنانے بیزارنگاہوں سے دیکھ کر پوچھا۔۔۔ ’’کیوں رگھو، تم نے گردھاری سے کوئی گائے مانگی ہے؟‘‘
رگھونے عذرخواہانہ اندازمیں کہا، ’’ہاں مانگی تو ہے کل لائے گا۔۔۔‘‘
پنا: ’’روپے کس کے گھر سے آویں گے یہ بھی سوچاہے؟‘‘
رگھو: ’’سب سوچ لیاہے کاکی۔ میری یہ مہر نہیں ہے، اس کے پچیس روپے مل رہے ہیں۔ پانچ روپے بچھیا کے مجرادے دوں گا، بس گائے اپنی ہوجائے گی۔‘‘
پناسناٹے میں آگئی۔ اب اس کا شکی دل بھی رگھو کی شرافت اورمحبت کو نہ جھٹلاسکا۔۔۔ بولی، ’’مہرکیوں بیچتے ہو۔ گائےکی ابھی کون جلدی ہے ہاتھ میں پیسے ہوجائیں گے تو لے لینا۔ سوناسونا گلااچھا نہ لگے گا۔ اتنے دنوں گائےنہیں رہی توکیالڑکے نہیں جیے۔‘‘
رگھوفلسفیانہ انداز سےبولا، ’’بچوں کے کھانے پینے کے یہی دن ہی کاکی۔۔۔ اس عمر میں نہ کھایا تو کب کھائیں گے۔ مہرپہننااب مجھے اچھا نہیں لگتا۔ لوگ سمجھتےہوں گے کہ باپ مرگیاہے تو اسے مہر پہننےکی سوجھی ہے۔‘‘
بھولا مہتوگائے کی فکر میں ہی چل بسے۔ نہ روپے آئے اورنہ گائےملی۔ مجبور تھے۔ رگھو نے وہ مشکل کتنی آسانی سے حل کردی آج زندگی میں پہلی بارپنا کورگھو پراعتبار آیا۔ بولی، ’’جب گہناہی بیچنا ہے تو اپنی مہر کیوں بیچوگے میری ہنسلی لے لینا۔۔۔‘‘
رگھو: ’’نہیں کاکی وہ تمہارے گلے میں بہت اچھی لگتی ہے۔ مردوں کو کیا، مہرپہنیں یا نہ پہنیں۔‘‘
پنا: ’’چل میں بوڑھی ہوئی۔۔۔ مجھے اب ہنسلی پہن کر کیا کرناہے توابھی لڑکا ہے تیرا سونا گلا اچھا نہ لگے گا۔۔۔‘‘
رگھومسکراکربولا، ’’تم ابھی سے کیسے بوڑھی ہوگئیں گاؤں میں کون تمہارے برابر ہے؟‘‘
رگھوکی اس سادہ تنقید سے پناشرماگئی۔ اس کے روکھے مرجھائے چہرے پر تازگی آگئی۔
پانچ سال گزرگئے۔ رگھوکاسامحنتی، ایماندار بات کادھنی دو سرا کسان گاؤں میں نہ تھا۔ پناکی مرضی کے بغیروہ کوئی کام نہ کرتا۔ اس کی عمر اب ۲۳سال کی ہوگئی تھی۔ پنا بار بارکہتی، ’’بھیا بہوکوبداکرالاؤ۔ کب تک وہ ہر میں پڑی رہے گی۔ سب لوگ مجھی کو بدنام کرتے ہیں کہ یہی بہو کونہیں آنے دیتی۔‘‘ مگرٹال دیتا۔ کہتا تھا، ’’ابھی جلد کیاہے۔‘‘ اسے اپنی بہو کے رنگ ڈھنگ کاعلم دوسروں سے ہوچکاتھا۔۔۔ ایسی عورت کوگھرمیں لاکردردسر مول لینا نہیں چاہتاتھا۔
آخر ایک روزپنانے بضدہوکر کہا۔۔۔ ’’تو تم نہ جاؤگے؟‘‘
’’کہہ دیا ابھی کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’تمہارے لئے جلدی نہ ہوگی میرے لئے توجلدی ہے میں آج ہی آدمی بھیجتی ہوں۔‘‘
’’پچھتاؤگی کاکی۔ اس کا مزاج اچھا نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’تمہاری بلا سے، جب میں اس سے بولوں گی ہی نہیں توکیا ہواسے لڑے گی۔ روٹیاں توبناہی دے گی۔۔۔ مجھ سے اب باہر بھیترکاکام نہیں ہوگا۔۔۔ میں آج بلائےلیتی ہوں۔‘‘
’’بلانا چاہتی ہو، بلالو۔ مگرپھر یہ مت کہنا کہ یہ مہریاکوٹھیک نہیں کرتا۔۔۔ اس کاغلام ہوگیاہے۔۔۔‘‘
’’نہ کہوگی۔ جاکردوساڑیاں اورمٹھائی لیتا آ۔۔۔‘‘
تیسرے دن ملیا میکے سے آگئی۔ دروازے پرنقارے بجے۔ شہنائیوں کی مدھر آوازبلند ہوئی۔ منہ دکھاوے کی رسم اداہوئی۔۔۔ وہ اس خشک زمین میں ایک سبک رودھارے کی مانند تھی۔ گندمی رنگ تھا، بڑی بڑی نوکیلی پلکیں، رخساروں پر ہلکی سرخی، بڑی بڑی آنکھوں میں ایک عجیب کشش۔۔۔ رگھو اسے دیکھتے ہی محسورہوگیا۔۔۔
صبح سویرے پانی کا گھڑا لے کرچلتی تو اس کاگندمی رنگ طلوع آفتاب کی سنہری کرنوں سے کندن ہوجاتا۔۔۔ گویا صبح کی دیوی اپنی ساری خوشبو اور شگفتگی اور مستانہ پن لئے مسکراتی چلی ہو۔۔۔
ملیامیکے ہی سے جلی بھنی آئی تھی۔۔۔ میرا شوہر چھاتی پھاڑ کر کام کرے اورپنا رانی بنی بیٹھی رہے۔۔۔ ا س کےلڑکے رئیس زادے بنے گھومیں۔ ملیا سے یہ برداشت نہ ہوگا، وہ کسی کی غلامی نہ کرے گی۔ اپنے لڑکے تو اپنے ہوتے نہیں، بھائی کس کے ہوتے ہیں۔ جب تک پر نہیں نکلتے ہیں رگھو کو گھیرے ہوئے ہیں جوں ہی ذراسیانے ہوئے پرجھاڑکر نکل جائیں گے بات بھی نہ پوچھیں گے۔
ایک دن اس نے رگھو سے کہا، ’’تمہیں اس طرح غلامی کرنی ہوتو کرومجھ سے تونہ ہوگی۔‘‘
رگھو: ’’توپھر کیا کروں توہی بتا۔ لڑکے ابھی گھر کاکام کرنے لائق بھی تونہیں ہیں۔‘‘
ملیا: ’’لڑکے کچھ تمہارے نہیں ہیں، پنا کے ہیں جوتمہیں دانے دانے کوترساتی تھی۔۔۔ سب سن چکی ہوں۔ میں لونڈی بن کر نہ رہوں گی۔ روپے پیسے کامجھے کچھ حساب نہیں ملتا۔ نہ جانے تم کیا لاتے ہو اور وہ کیاکرتی ہے۔ تم سمجھتے ہو روپے گھر ہی میں توہیں مگردیکھ لینا جوتمہیں پھوٹی کوڑی بھی ملے۔۔۔‘‘
رگھو: ’’روپے پیسے تیرے ہاتھ میں دینے لگوں تودنیا کیا کہے گی یہ توسوچ۔‘‘
ملیا: ’’دنیاجوچاہے کہے دنیا کے ہاتھوں بکی تو نہیں ہوں۔ دیکھ لینا بھاڑلیپ کر ہاتھ کالا ہی رہے گا۔ پھرتم اپنے ماں بھائیوں کے لئے مرو، میں کیوں مروں؟‘‘
رگھونے کچھ جواب نہ دیا اسے جس بات کا خوف تھا وہی بات سرآپڑی تھی۔ اب اگر اس نے بہت تتھوتھمبو کیاتو سال چھ مہینے اورکام چلے گا۔ بس آگے یہ ڈونگا چلتا نظر نہیں آتا بکرے کی ماں کب تک خیرمنائے گی۔
ایک دن پنا نے مہوے کاسکھاون ڈالا۔ برسات شروع ہوگئی تھی۔۔۔ کچھار میں اناج گیلا ہورہا تھا۔ ملیا سے بولی۔۔۔۔ ’’بہوذرادیکھتی رہنا۔ میں تب تک تالاب سے نہاآؤں۔۔۔‘‘
ملیانے کہا۔۔۔ ’’مجھے نیندآرہی ہے تم بیٹھ کر دیکھو۔ ایک دن نہ نہاؤگی تو کیاہوگا۔۔۔‘‘
پنا نے ساڑی اٹھاکر رکھ دی۔ نہانے نہ گئی۔۔۔ ملیا کا وارخالی گیا۔۔۔
کئی دن کے بعدایک شام کوپنا دھان روپ کر لوٹی تو اندھیرا ہوگیاتھا۔ دن بھر کی بھوکی تھی۔ امیدتھی کہ بہو نے روٹی بنارکھی ہوگی مگریہاں دیکھا تو چولہا ٹھنڈا پڑا تھا اوربچے مارے بھوک کے تڑپ رہے تھے۔ ملیا سے آہستہ سے پوچھا۔۔۔ ’’آج ابھی چولہا نہیں جلا؟‘‘
کیدار نے کہا، ’’آج تودوپہر کوبھی چولہا نہیں جلاکاکی، بھابی نے کچھ بنایاہی نہیں۔۔۔‘‘
پنا: ’’تو تم لوگوں نے کیاکھایا۔۔۔؟‘‘
کیدار: ’’کچھ نہیں۔ رات کی روٹیاں تھیں۔ کنواورلچھمن نے کھائیں۔ میں نے ستو کھالیا۔۔۔‘‘
پنا: ’’اوربہو؟‘‘
کیدار: ’’وہ توپڑی سورہی تھیں کچھ نہیں کھایا۔۔۔‘‘
پنا نے اسی وقت چولہا جلایا اور کھانا پکانے بیٹھ گئی۔۔۔ آٹا گوندھتی تھی اورروتی تھی، ’’کیا نصیب تھے! دن بھر کھیت میں جلی گھرآئی توچولہے کے سامنے چلنا پڑا! ‘‘
کیدار کاچودھواں سال تھا۔ بھابی کارنگ ڈھنگ دیکھ کر ساری کیفیت سمجھ رہا تھا، بولا، ’’بھابی اب تمہارے ساتھ نہیں رہناچاہتیں۔۔۔۔‘‘
پنانے چونک کرکہا، ’’کیاکچھ کہتی تھی؟‘‘
’’کہتی کچھ نہیں تھیں مگر ان کے من میں ہے یہی بات، پھر تم کیوں اسے نہیں چھوڑدیتیں۔۔۔ جیسے چاہیں رہیں ہمارا بھی بھگوان ہے۔‘‘
پنا نے دانتوں سے زبان دباکرکہا، ’’چپ میرے سامنے ایسی بات بھوک کر بھی نہ کہنا۔ رگھوتمہارابھائی نہیں تمہارا باپ ہے۔ ملیا سے کبھی بولے توسمجھ لینا کہ زہر کھالوں گی۔‘‘
دسہرے کاتہوارآیا۔ اس گاؤں میں کوس بھر پرایک میلہ لگتاتھا۔ گاؤں کے لڑکے میلہ دیکھنے چلے۔ پنا بھی لڑکوں کے ساتھ چلنے کوتیار ہوئی مگر پیسے کہاں سے آئیں۔۔۔ کنجی ملیا کے پاس تھی۔
رگھونے آکرملیا سے کہا۔۔۔ ’’لڑکے میلے جارہے ہیں سب ہی کودودو آنے پیسے دے دے۔‘‘
رگھو! ملیا نے تیورچڑھاکر کہا، ’’پیسے گھرمیں نہیں ہیں۔‘‘
رگھو: ’’روپے تو ابھی تلہن بیچ کر لایاتھااتنی جلدی اٹھ گئے۔۔۔‘‘
ملیا: ’’ہاں اٹھ گئے۔۔۔‘‘
رگھو: ’’کہاں اٹھ گئے؟ذراسنوں۔ آج تیوہار کے دن لڑکے میلہ دیکھنے نہیں جائیں گے؟‘‘
ملیا: ’’اپنی کاکی سے کہوپیسے نکالیں۔ گاڑکر کیا کریں گی۔۔۔‘‘
کھونٹی پرکنجی لٹک رہی تھی۔ رگھو نے کنجی اتاری اور چاہا کہ صندوق کھولے کہ ملیا نے اس کاہاتھ پکڑلیا اور بولی، ’’کنجی مجھے دے دو، نہیں تو ٹھیک نہ ہوگا۔ کھانے پہننے کو بھی چاہئے۔ کاغذکتاب کوبھی چاہئےاس پر میلہ دیکھنے کوبھی چاہئے ہماری کمائی اسی لئے نہیں ہے کہ دوسرے کھائیں اور مونچھوں پرتاؤدیں۔‘‘
پنا نے رگھوسے کہا، ’’بھیا پیسے کیا ہوں گے، لڑکے میلہ دیکھنے نہ جائیں گے۔‘‘
رگھونے جھڑک کرکہا، ’’میلہ دیکھنےکیوں نہ جائیں گے سارا گاؤں جارہاہے۔ ہمارے ہی لڑکے نہ جائیں گے۔۔۔‘‘
رگھونے یہ کہہ کر اپناہاتھ چھڑالیا اور لڑکوں کوپیسے نکال کر دے دیئے مگرجب کنجی ملیا کو دینے لگا تو اس نے اسے آنگن میں پھینک دی اورمنہ لپیٹ کرلیٹ رہی۔ لڑکے میلہ دیکھنے نہ گئے۔
اس کے بعددودن گزرگئے۔ ملیا نے کچھ نہیں کھایا۔ پنا بھی بھوکی رہی۔۔۔ رگھو کبھی اسے مناتا کبھی اسے۔۔۔ پریہ نہ اٹھتی۔ نہ وہ! آخررگھو نے حیران ہوکرملیا سے پوچھا، ’’کچھ منہ سے توکہہ توچاہتی کیاہے۔۔۔‘‘
ملیا نے زمین کومخاطب کرکے کہا۔۔۔ ’’میں کچھ نہیں چاہتی مجھے میرے گھرپہنچادو۔‘‘
رگھو: ’’اچھا اٹھ۔ کھانا بنا۔ پہنچادوں گا۔
ملیا نے رگھو کی طرف دیکھا۔ رگھواس کی صورت دیکھ کر ڈرگیا۔ وہ خوبصورتی، وہ کشش، وہ دل آویزی غائب ہوگئی تھی۔ دانت نکل آئےتھے۔ آنکھیں پھٹ گئی تھیں اورنتھنے پھڑک رہے تھے۔ انگارے کی سی لال آنکھوں سے دیکھ کربولی۔۔۔ ’’اچھا توکاکی نے یہ صلای دی ہے۔ یہ منتر پڑھایاہے تویہاں ایسی کچی نہیں ہوں۔ تم دونوں کی چھاتی پر مونگ دلوں۔ ہوکس پھیر میں۔۔۔۔‘‘
رگھو: ’’اچھا مونگ ہی دل لینا کچھ کھاپی لے گی تبھی تومونگ دل سکے گی۔‘‘
ملیا: ’’اب تو جبھی منہ میں پانی ڈالوں گی، جب گھر الگ ہوجائے گا۔۔۔ بہت جھیل چکی اب نہیں جھیلاجاتا۔۔۔‘‘
رگھوسکتے میں آگیا۔ ایک منٹ تک تو اس کے منہ سے آواز ہی نہ نکلی۔ الگ ہونے کا تواسے خواب میں بھی خیال نہ آیاتھا۔۔۔ اس نے گاؤں میں دوچار خاندانوں کوالگ ہوتے دیکھا تھا۔ وہ خوب جانتا تھا روٹی کے ساتھ لوگوں کے دل بھی الگ ہوجاتے ہیں۔۔۔ اپنے ہمشہ کے لئے غیرہوجاتے ہیں پھر ان میں وہی ناتارہ جاتاہے جوگاؤں کے اورآدمیوں میں۔۔۔ رگھو نے ٹھان لیاتھا کہ اس بلا کو اپنے گھر میں قدم نہ رکھنے دوں گا۔ لیکن ہونے کے سامنے اس کی ایک نہ چلی۔ آہ! میرے منہ میں کالکھ لگے گی۔ دنیایہی کہے گی کہ باپ کے مرجانے کے بعد دس سال بھی ایک گھرمیں نباہ نہ ہوسکا اورپھر کس سے الگ ہوجاؤں۔۔۔ جن کوگود میں کھلایا جن کوبچوں کی طرح پالا، جن کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھائیں، انہیں سے الگ ہوجاؤں۔۔۔ اپنے پیاروں کوگھرسے نکال کرباہر کردوں۔۔۔ اس کا گلاپھنس گیا۔ کانپتے لہجے میں بولا۔۔۔ ’’توکیاچاہتی ہے میں اپنے بھائیوں سے الگ ہوجاؤں! بھلاسوچ تو! کہیں منہ دکھانے کے لائق رہوں گا؟‘‘
ملیا: ’’تومیرا ان لوگوں کے ساتھ نباہ نہ ہوگا۔‘‘
رگھو: ’’توتوالگ ہوجا۔ مجھے کیوں اپنے ساتھ گھسیٹتی ہے۔‘‘
ملیا: ’’تومجھے کیا تمہارے گھر میں مٹھائی ملتی ہے۔۔۔ میرے لئے کیا سنسار میں جگہ نہیں ہے؟‘‘
رگھو: ’’تیری جیسی مرضی، جہاں چاہےرہ۔۔۔ میں اپنے گھروالوں سے الگ نہیں ہوسکتا۔ جس دن اس گھر میں دوچولہے جلیں گے اس دن میرے کلیجے کے دوٹکڑے ہوجائیں گے۔۔۔ میں یہ چوٹ نہیں کہہ سکتا۔ تجھے جوتکلیف ہو، میں دور کرسکتا ہوں۔ مال اسباب کی مالکن توہے ہی۔۔۔ اناج پانی بھی تیرے ہاتھ میں ہے، اب رہ کیاگیاہے اگرتوکچھ کام دھندا نہیں کرناچاہتی تو مت کر۔ بھگوان نے مجھے سمائی دی ہوتی تو میں تجھے تنکابھی نہ اٹھانے دیتا۔ تیرے یہ خوبصورت ہاتھ پیر محنت مزدوری کرنے کےلئے نہیں بنائے گئے ہیں، مگر کیا کروں اپنا کچھ بس ہی نہیں ہے۔ پھر بھی تیراجی نہ چاہے توکوئی کام مت کرمگرمجھ سےالگ ہونے کو نہ کہہ تیرے پیروں پڑتا ہوں۔۔۔‘‘
ملیانے آنچل سرسے کھسکایا اور ذرا قریب آکربولی، ’’میں کام کرنے سے نہیں ڈرتی۔ نہ بیٹھے بیٹھے کھانا چاہتی ہوں مگر مجھ سے کسی کی دھونس نہیں سہی جاتی۔ تمہاری کاکی گھر کا کام دھندا کرتی ہیں تو اپنےلئے کرتی ہیں اپنے بال بچوں کے لئے کرتی ہیں۔ مجھ پر کوئی احسان نہیں کرتیں۔ پھر مجھ پردھونس کیوں جماتی ہیں۔ انہیں اپنے بچے پیارے ہوں گے مجھے توتمہارا آسرا ہے۔ میں اپنی آنکھوں سے یہ نہیں دیکھ سکتی کہ سارا گھر توچین کرے ذراذرا سے بچے تودودھ پئیں اور جس کےبل بوتے پرگرہستی بنی ہوئی ہے وہ مٹھے کوترسے۔ کوئی اس کا پوچھنے والا نہ ہو۔ ذرااپنا منہ تودیکھو کیسی صورت نکل آئی ہے۔۔۔ اوروں کے توچاربرس میں اپنے پٹھےتیار ہوجائیں گے۔۔۔ تم تودس سال میں کھاٹ پرپڑجاؤ گے۔ یہ سب مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔ بیٹھ جاؤ کھڑے کیوں ہو۔ کیا مارکربھاگوگے یامیں تمہیں زبردستی باندھ لوں گی یامالکن کاحکم نہیں ہے۔ سچ کہوں تم بڑے کٹھ کلیجے کے ہو۔۔۔ مجھے معلوم ہوتا کہ ایسے آدمی سے پالاپڑے گاتو بھول کربھی اس گھرمیں نہیں آتی۔۔۔ آتی تومن نہ لگاتی۔ مگراب توتم سے من لگ گیاہے گھربھی جاؤں تو من یہیں رہے گا اور تم ہوکہ میری بات نہیں پوچھتے۔۔۔‘‘
ملیا کی یہ رسیلی باتیں رگھو پرکوئی اثر نہ ڈال سکیں وہ اسی رکھائی سے بولا، ’’ملیا یہ مجھ سے نہ ہوگا۔ الگ ہونے کادھیان کرتے ہی میرامن نہ جانے کیسا ہوجاتاہے۔ یہ چوٹ مجھ سے نہ سہی جائے گی۔۔۔‘‘
ملیا نے مضحکہ اڑاکرکہا، ’’توچوڑیاں پہن کر گھرمیں بیٹھونا۔۔۔ لاؤ میں مونچھیں لگالوں۔ میں توسمجھتی تھی کہ تم میں بھی کچھ کس بل ہے۔ اب دیکھتی ہوں تو تم نرے مٹی کے لوندے ہو۔۔۔۔‘‘
پنادالان میں کھڑی دونوں کی گفتگو سن رہی تھی۔۔۔ اب اس سے نہ رہا گیا۔ سامنے آکررگھو سے بولی، ’’جب وہ الگ ہونے پرتلی ہوئی ہے تو تم کیوں اسے زبردستی ملائے رکھناچاہتے ہو۔۔۔ تم اسے لے کررہو۔۔۔ ہمارے بھگوان مالک ہیں۔ جب مہتو مرگئے تھے اور کہیں اوکھ کی چھاؤں نہ تھی تب اس بھگت بھگوان نے پناہ دی تواب کیا ڈر۔۔۔ اب تو بھگوان کی دیا سے تینوں لڑکے سیانے ہوگئے ہیں۔۔۔ کوئی چنتا نہیں۔۔۔‘‘
رگھونے آنسوبھری آنکھوں سے پنا کی طرف دیکھ کرکہا، ’’کاکی توبھی پاگل ہوگئی ہے۔۔۔ کیاجانتی نہیں دوروٹیاں ہوتے ہی دومن ہوجاتے ہیں۔۔۔‘‘
پنا: ’’جب وہ مانتی ہی نہیں توتم کیا کروگے۔ بھگوان کی یہی مرضی ہوگی توکوئی ایسا کرے گا۔ قسمت میں جتنے دن ایک ساتھ رہنا لکھاتھا اتنے دن رہے۔ اب اس کی یہی مرضی ہے تویہی سہی۔ تم نے میرے بال بچوں کے لئے جوکچھ کیاوہ میں بھول نہیں سکتی۔۔۔ تم نے ان کے سرپرہاتھ نہ رکھاہوتاتو آج ان کی نہ جانے کیا گت ہوتی۔۔۔ نہ جانے کس کس کے دروازے پرٹھوکریں کھاتے، نہ جانے کہاں کہاں بھیک مانگتے پھرتے۔ تمہارا مرتے دم تک جس نہ بھولوں گی۔ اگرمیری کھال تمہارے جوتے بنانے کے کام آجائےتو خوشی سے دے دوں۔ چاہے تم سے الگ ہوجاؤں لیکن جس گھڑی تم پکاروگے کتے کی طرح دوڑی آؤں گی۔ یہ بھول کربھی مت سوچنا کہ تم سے الگ ہوکرتمہارا برا چیتوں گی جس دن تمہاری برائی میرےدل میں آئےگی اس دن بِس کھاکرمرجاؤں گی۔ بھگوان کرے تم دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو۔ مرتے دم تک یہی دعا ہے۔ روئیں روئیں سے نکلتی رہے گی اور لڑکے بھی اگر اپنے باپ کےہیں تو مرتے دم تک تمہارا احسان مانیں گے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر پناوہاں سے روتی ہوئی چلی گئی۔۔۔ رگھووہیں بت کی طرح کھڑا رہا۔۔۔ آسمان کی طرف ٹکٹکی لگی ہوئی تھی اورآنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
پنا کی باتیں سن کرملیاسمجھ گئی کہ اب اپنے پوبارہ ہیں، چٹ پٹ اٹھی گھرمیں جھاڑو لگائی، چولہا جلایا اور کنویں سے پانی لینے چلی۔ اس کی ٹیک پوری ہوگئی تھی۔۔۔
گاؤں میں عورتوں کے دوفریق ہوتے ہیں۔ ایک بہو ؤں کا دوسرا ساسوں کا۔ بہوئیں مشورے اورہمدردی کے لئے اپنے فریق سے مخاطب ہوتی ہیں۔ ساسیں اپنے فریق سے۔ دونوں کی پنچایتیں الگ ہوتی ہیں۔۔۔ ملیا کوکنویں پردوتین بہوئیں مل گئیں ایک نے پوچھا، ’’آج توتمہاری بڑھیا بہت رودھورہی تھی؟‘‘
ملیا نے فاتحانہ غرور کے ساتھ کہا، ’’اتنے دنوں سے گھر کی مالکن بنی ہوئی ہیں۔ راج پاٹ چھوڑتے کسے اچھا لگتا ہے۔ بہن میں ان کا برا نہیں چاہتی۔۔۔ لیکن ایک آدمی کی کمائی میں کہاں تک برکت ہوگی۔ میرے بھی توکھانے پینے اوڑھنے پہننے کے دن ہیں ابھی ان کے پیچھے مرو، پھربال بچے ہوجائیں، ان کے پیچھے مرو۔۔۔ ساری زندگی روتے ہی روتے کٹ جائے۔۔۔‘‘
ایک بہو: ’’بوڑھیاں یہی چاہتی ہیں کہ یہ سب جنم بھرلونڈی بنی رہیں۔ موٹا جھوٹا کھائیں اور پڑی رہیں۔‘‘
دوسری بہو: ’’کس بھروسے پرکوئی مرے۔ اپنے لڑکے توبات نہیں پوچھتے۔ پرائے لڑکوں کا کیابھروسہ؟ کل ان کے ہاتھ پیرہوجائیں گے پھر کون پوچھتا ہے۔ اپنی اپنی مہریوں کامنہ دیکھیں گے پہلے ہی سے پھٹکار دینا اچھا ہے پھرتو کوئی کلک نہ ہوگا۔‘‘
ملیاپانی لے کرآئی کھانا بنایا اور رگھوسے بولی، ’’جاؤ نہا آؤروٹی تیارہے۔‘‘
رگھو نے گویاسنا ہی نہیں۔ سرپرہاتھ رکھے دروازے کی طرف تاکتا رہا۔۔۔
ملیا: ’’کیا کہتی ہوں کچھ سنائی دیتاہے۔ روٹی تیار ہے۔ جاؤ نہا آؤ۔۔۔‘‘
رگھو: ’’سن تورہا ہوں! کیا بہراہوں۔ روٹی تیار ہے، تو جاکرکھالے۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔‘‘ ملیا نے پھرنہیں کہا۔ جاکرچولہا بجھادیا۔ روٹیاں اٹھاکر چھینکے پررکھ دیں اورمنہ ڈھانپ کرلیٹ رہی۔۔۔
ذرادیر میں آکر پنا نے رگھوسے کہا، ’’کھانا توتیارہے۔ بھیا نہادھوکر کھالو۔ بہو بھوکی ہوگی۔‘‘
رگھونے جھنجھلاکر کہا۔۔۔ ’’کاکی توگھرمیں رہنے دوگی کہ منہ میں کالکھ لگاکرکہیں نکل جاؤں۔ کھانا توکھاناہی ہے۔ آج نہ کھاؤں گا کل کھاؤں گا۔ پیٹ پربھی کوئی بس ہے لیکن ابھی مجھ سے نہ کھایاجائے گا۔ کیدار کیا ابھی مدرسے سے نہیں آیا؟‘‘
پنا: ’’ابھی تو میں نہیں آیا آتاہی ہوگا۔۔۔‘‘
پناسمجھ گئی کہ جب تک وہ کھانا بناکرلڑکوں کونہ کھلائے گی اورخود نہ کھائے گی، رگھو کھانا نہ کھائے گا۔۔۔ اتنا ہی نہیں اسے رگھو سے لڑائی کرنی پڑے گی۔ جلی کٹی سنانی پڑیں گی۔ اسے یقین دلانا پڑے گا کہ میں ہی اس سے الگ ہوناچاہتی ہوں۔ ورنہ رگھوداس پریشانی میں گھل گھل کرجان دے دے گا۔ یہ سوچ کراس نے الگ چولہا جلایا اور کھانا بنانے لگی۔ اتنے میں کیدار اورکنو مدرسے سے آگئے۔ پنا نے کہا، ’’آؤ بیٹا کھالو، روٹی تیارہے۔‘‘
کیدار نے پوچھا۔۔۔ ’’بھیا کوبھی بلالوں نا؟‘‘
پنا: ‘’تم آکر کھالو۔ ان کی روٹی بہو نےالگ بنائی ہے۔‘‘
کنو: جاکربھیا سے پوچھ نہ آؤں۔۔۔
پنا: ’’جب ان کا جی چاہے گا کھائیں گے توبیٹھ کر کھا، تجھے ان باتوں سے کیا مطلب؟جس کا جی چاہے گا کھائے گا جس کا جی نہ چاہے گا نہ کھائے گا۔۔۔ جب وہ اور اس کی بیوی الگ ہونے پرتلے ہیں تو کون منائے۔۔۔‘‘
کیدار: ’’توکیااماں جی ہم الگ گھرمیں رہیں گے۔۔۔‘‘
پنا: ’’ان کا جی چاہے ایک گھر میں رہیں، جی چاہے آنگن میں دیوار ڈال لیں۔‘‘
کنو نے دروازے پرجاکرجھانکا۔ سامنے پھونس کی جھونپڑی پڑی تھی۔ وہاں کھاٹ پرپڑا رگھوناریل پی رہا تھا۔۔۔
کنو: ‘’بھیا تو ابھی ناریل لئے بیٹھے ہیں۔‘‘
پنا: ’’جب جی چاہے گا کھائیں گے۔۔۔‘‘
کیدار: ’’بھیا نے بھابی کو ڈانٹانہیں؟‘‘
ملیا اپنی کوٹھری میں پڑی یہ باتیں سن رہی تھی۔۔۔ باہر آکربولی، ’’بھیا نے تو نہیں ڈانٹا اب تم آکرڈانٹو۔۔۔‘‘
کیدارکے چہرے کارنگ اڑگیا۔ پھر زبان نہ کھولی۔ تینوں لڑکوں نے کھانا کھایا اور باہر نکلے۔ لوچلنے لگی تھی۔ آم کے باغ میں گاؤں کے لڑکے لڑکیاں ہوا سے گرے ہوئے آم چن رہے تھے۔
کیدار نے کہا، ’’آج ہم بھی آم چننے چلیں۔ آم گررہے ہیں۔۔۔‘‘
کنو: ’’دادا جوبیٹھے ہیں۔۔۔؟‘‘
لچھمن: ’’میں نہ جاؤں گا۔ دادا گھڑکیں گے۔‘‘
کیدار: ’’وہ تو اب الگ ہوگئے۔‘‘
لچھمن: ’’توجب کوئی ہم کومارے گا تب بھی دادا نہ بولیں گے؟‘‘
کیدار: ’’واہ تب کیوں نہ بولیں گے۔‘‘
رگھونے تینوں لڑکوں کودروازے پرکھڑے دیکھا۔ پرکچھ بولا نہیں۔ چلے تووہ گھر کے باہرنکلتے ہی ڈانٹ دیتا تھا لیکن آج وہ مورتی کی مانند خاموش بیٹھا رہا۔۔۔
اب لڑکوں کو کچھ ہمت بندھی کچھ اورآگے بڑھے۔ رگھو اب بھی نہ بولا۔ کیسے بولے؟وہ سوچ رہاتھا کاکی نے لڑکوں کوکھلاپلادیا، مجھ سے پوچھا تک نہیں۔۔۔ کیا اس کی آنکھوں پر بھی پردہ پڑگیاہے۔ اگرمیں نے لڑکوں کوپکارا اوروہ نہ آئے تو؟ میں ان کومارپیٹ تو نہ سکوں گا۔ لومیں سب مارے مارے پھریں گے کہیں بیمار نہ پڑجائیں۔۔۔ اس کا دل مسوس کررہ جاتاتھا لیکن منہ سے کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔۔۔ لڑکوں نے دیکھا کہ وہ بالکل نہیں بولتے تو نڈرہوکر چل پڑے۔۔۔
اچانک ملیانے آکرکہا، ’’اب تو اٹھوگے کہ اب بھی نہیں۔۔۔؟ جن کے نام پر فاقہ کررہے ہو، انہوں نے مزے سے لڑکوں کو کھلایا اور آپ کھایا۔ اب آرام سے سورہی ہیں۔۔۔ مورپیا بات نہ پوچھے مورسہاگنی ناچ۔۔۔ ایک بار بھی تومنہ سے نہ پھوٹا کہ چلو بھیا کھالو۔۔۔‘‘
رگھوکواس وقت دلی تکلیف ہورہی تھی۔ ملیا کے ان سخت الفاظ نے زخم پر نمک چھڑک دیا۔ دکھ بھری نظروں سے دیکھ کربولا، ’’تیری جومرضی تھی وہی توہوا۔ اب جاڈھول بجا۔‘‘
ملیا: ’’نہیں تمہارے لئے تھالی پروسے بیٹھی رہوں۔‘‘
رگھو: ’’مجھے چڑامت، تیرے پیچھے میں بدنام ہورہا ہوں۔۔۔ اب توکسی کی ہوکر نہیں رہناچاہتی تو دوسرے کوکیاغرض ہے جو میری خوشامد کرے۔ جاکرکاکی سے پوچھ لڑکے آم چننے گئے ہیں انہیں پکڑلاؤں۔۔۔‘‘
ملیا انگوٹھا دکھاکربولی، ’’یہ جاتا ہے۔ تمہیں سوبارغرض ہوجاکرپوچھو۔۔۔‘‘
اتنے میں پنابھی اندر سے نکل آئی تھی۔ رگھو نے پوچھا، ’’لڑکے باغ میں چلے گئے کاکی۔ لوچل رہی ہے۔۔۔‘‘
پنا: ’’اب ان کا کون پوچھنے والا ہے؟ باغ میں جائیں، پیڑ پرچڑھیں، پانی میں ڈوبیں۔ میں اکیلی کیا کیا کروں۔۔۔‘‘
رگھو: ’’جاکرپکڑلاؤں۔۔۔‘‘
پنا: ’’جب تمہیں اپنے من سے نہیں جاناہے تو میں جانے کوکیوں کہوں۔ تمہیں روکناہوتا تو روک نہ دیتے۔ تمہارے سامنے ہی توگئے ہوں گے۔‘‘
پنا کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ رگھو نے ناریل کونے میں رکھ دیا اور باغ کی طرف چلا۔۔۔
رگھولڑکوں کو لے کرباغ سے لوٹا، تودیکھا ملیا ابھی تک دروازے میں کھڑی ہے۔ بولا۔۔۔ ’’توجاکر کھا کیوں نہیں لیتی؟ مجھے تو اس وقت بھوک نہیں ہے۔‘‘
ملیا اینٹھ کربولی۔۔۔ ’’ہاں بھوک کیوں لگے گی۔ بھائیوں نے کھایا وہی تمہارے پیٹ میں پہنچ گیاہوگا۔‘‘
رگھو نے دانت پیس کر کہا، ’’مجھے جلا مت ملیا۔ نہیں تواچھا نہ ہوگا۔ کھانا کہیں بھاگا نہیں جاتا۔ ایک وقت نہ کھاؤں گا تومرنہ جاؤں گا۔ کیا توسمجھتی ہے کہ آج گھرمیں کوئی چھوٹی بات ہوگئی ہے۔ تونے گھر میں چولہا نہیں جلایامیرے کلیجے میں آگ لگائی ہے۔ مجھے گھمندتھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میرے گھرمیں یہ پھوٹ کاروگ نہیں گھس سکتا۔ مگرتونے میرا یہ گھمنڈچوکردیا۔ نصیب کی بات ہے۔۔۔‘‘
ملیاتنک کربولی۔۔۔ ’’سارادکھ تم کوہی ہے یا کسی اور کوبھی ہے۔ میں تو کسی کوبسورتے نہیں دیکھتی۔۔۔‘‘
رگھونے ٹھنڈی سانس کھینچ کرکہا۔۔۔ ’’میا گھاؤ پرنمک نہ چھڑک۔ تیری وجہ سے میری پیٹھ پردھول لگ رہی ہے۔ مجھے اس گرہستی کاموہ نہ ہوگا توکسے ہوگا۔۔۔ میں نے ہی تواسے تنکا تنکا جوڑا ہے۔۔۔ جن کو گود میں کھلایا، ا ب وہی میرے پٹی دار ہوں گے۔۔۔ جن بچوں کومیں ڈانٹتا تھا، انہیں آج کڑی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ میں ان کے بھلے کے لئے بھی کوئی بات کہوں تو دنیایہی کہےگی کہ یہ اپنے بھائیوں کولوٹے لیتاہے۔ جامجھے چھوڑدے۔ ابھی مجھ سے کچھ نہ کھایاجائے گا۔‘‘
ملیا: ’’میں قسم کھلادیتی ہوں نہیں توچپکے چلے چلو۔۔۔‘‘
رگھو: ’’دیکھ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ اپنی ہٹ چھوڑدے۔‘‘
ملیا: ’’ہمارا ہی لہوپیے جو کھانے کو نہ اٹھے۔۔۔‘‘
رگھونے کانوں پر ہاتھ رکھ کرکہا، ’’یہ تونے کیا کیاملیا۔ میں تواٹھ ہی رہا تھا۔ چل کھالوں۔ نہانے دھونے کون جائے لیکن یہ کہے دیتا ہوں کہ چاہے چار کی جگہ چھ روٹیاں کھاجاؤں چاہے تومجھے گھی کے مٹکے میں ڈبودے مگریہ داغ میرے دل سے نہ مٹے گا۔۔۔‘‘
ملیا: ’’داغ واغ سب مٹ جائے گا۔ پہلے سب کوایسا ہی لگتاہے۔ دیکھتے نہیں ہو ادھر کیسی چین کی بنسی بج رہی ہے۔ وہ توچاہ رہی تھیں کہ کسی طرح یہ سب لوگ الگ ہوجائیں۔ اب وہ پہلے کی سی چاندی تونہیں ہے کہ جوکچھ گھر میں آیا سب غائب۔ اب کیوں ساتھ رہنے لگیں۔ آرام سے پکایاکھایا۔ ایک باربھی نہ پوچھا کہ آؤ بھیا تم کھالو۔۔۔‘‘
رگھونے حسرت ناک لہجے میں کہا۔۔۔ ’’اسی کا تومجھے گم (غم) ہے۔ کاکی سے مجھے ایسی امید نہ تھی۔‘‘
رگھوکھانے کو بیٹھا تو لقمے زہرکے گھونٹ سے لگتےتھے، دال پانی سی لگتی تھی۔ پانی بھی حلق سے نیچے نہ اترتاتھا۔ دودھ کی طرف دیکھا بھی نہیں۔۔۔ دوچارلقمے کھاکر چلا آیاجیسے کسی عزیزکے شرادھ کاکھاناہو۔
رات کاکھانا بھی اسی طرح کھایاقسم پوری کی، مگررات بھر اس کادل بے چین رہا۔ ایک نامعلوم دہشت اس کے دل پرچھارہی تھی۔۔۔ جیسے بھولا دروازے پربیٹھا رورہاہے۔ وہ باربار چونک کراٹھا۔۔۔ بھولا اس کی طرف تیزاورحقارت آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ دونوں وقت کھانا کھاتاتھا مگرجیسے دشمن کے گھر۔ بھولا کی ماتمی تصویر اس کی آنکھوں سے نہ اترتی تھی۔۔۔ راتوں کواسے نیند نہ آتی تھی۔۔۔ وہ گاؤں میں نکلتا تو اس طرح منہ چرائے، سرجھکائے گویا گئوہتیا کی ہو۔
پانچ سال گزرگئے۔ رگھودولڑکوں کاباپ تھا آنگن میں دیوارکھنچ گئی تھی۔ کھیتوں میں مینڈیں ڈال دی گئی تھیں۔ مویشی تقسیم کردیئےگئے تھے۔ کیدار کی عمر اب سولہ سال کی ہوگئی تھی۔ اس نے اب پڑھنا چھوڑدیاتھااورکھیتی کاکام کرتا تھا۔ کنو گائے چراتا تھا۔۔۔ صرف لچھمن ابھی تک مدرسے جاتا تھا۔ پنا اورملیا دونوں ایک دوسرے کی صورت سے جلتی تھیں۔ مگر ملیا کے دونوں لڑکے اکثرپنا کے ہی پاس رہتے تھے۔ وہی انہیں ابٹن ملتی دہی کاجل لگاتی گودمیں لئے پھرتی۔۔۔ ملیا کی زبان پر شکریے کاایک لفظ بھی نہ آتا تھا۔۔۔ نہ پنا کو اس کی طلب تھی۔ وہ جو کچھ کرتی تھی بے غرض کرتی تھی۔ اس کے اب دولڑکے کماؤہوگئے تھے۔۔۔ لڑکی کھانا پکالیتی تھی۔ وہ خود اوپر کا کام کاج کرتی تھی۔ اس کے برعکس رگھو اپنے گھرکااکیلا تھا وہ بھی نیم جاں شکستہ حال۔ قبل ازوقت بوڑھا۔ ابھی تیس سال بھی عمر نہ تھی لیکن بال کھچڑی ہوگئے تھے، کمر بھی جھک گئی تھی، کھانسی نے حیران کررکھا تھا۔ دیکھ کررحم آیاتھا اورکھیتی خون پسینے کاکام ہے وہ ٹھہرااکیلا، کھیتوں کی خدمت جیسی چاہئے تھی ویسی نہ ہوئی تھی۔ اچھی فصل کہاں سے آتی۔ کچھ مقروض بھی ہوگیا۔ یہ فکربھی مارے ڈالتی تھی۔ چاہئےتویہ تھا کہ اسے اب کچھ آرام ملے۔ اتنے دنوں کی شبانہ روز مشقت کے بعد اب بارکچھ ہلکاہوتالیکن ملیاکی خودغرضی اورناعاقبت اندیشی نے لہراتی ہوئی کھیتی اجاڑدی۔ اگرسب ساتھ ہوتے تو وہ اس وقت پنشن پاتا۔ مزے سے دروازے پربیٹھاناریل پیتا۔ بھائی کام کرتے وہ صلاح و مشورہ دیتا اوربے فکر پھرتا۔۔۔ کسی کے جھگڑے چکاتا، کہیں سادھوسنتوں کی سیواکرتامگر موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ اب توفکروں کاہجوم روزبروز بڑھتا جارہا تھا۔
آخر اسے دھیمادھیما بخاررہنے لگا۔ پہلے کچھ پرواہ نہ کی، سمجھا آپ ہی اچھا ہوجائے گا، مگرجب کمزوری بڑھنے لگی تو دوا کی فکر ہوئی، جس نے جوبتادیا وہ کھالیا۔ ڈاکٹر یاوید کے پاس جانے کی توفیق کسے؟ اورہوتی بھی توروپے خرچ کردینے کے سوا اورکچھ نتیجہ بھی کیاتھا۔ تپِ کہنہ کاعلاج ہی کیاتھا۔ نہ وہ بسنت مالتی کاسیون کرسکتاتھا اورنہ آرام سے بیٹھ کر اچھی غذائیں کھاسکتا تھا۔۔۔ پنا اب بھی موقع پاتی تو اس کوتشفی دیتی تھی لیکن اس کے لڑکے اب رگھو سے بات بھی نہ کرتے تھے۔ دوا دارو توکیا کرتے اس کا مذاق اڑاتے تھے، بھیا سمجھتے تھے کہ ہم لوگوں سے الگ ہوکر سونے کی اینٹ رکھ لیں گے۔ بھابی سمجھتی تھیں کہ سونے سے لدجائیں گے۔ اب دیکھیں کون پوچھتا ہے۔ بہت ہائےہائےبھی اچھی نہیں ہوتی۔ آدمی اتنا کام کرے جتنا ہوسکے۔ یہ نہیں کہ روپیہ کے لئے جان ہی دے دے۔ پنا کہتی رگھوبے چارے کاکیا قصور ہے؟
اورکیدارجواب دیتا، ’’چل میں خوب سمجھتا ہوں ان کی جگہ میں ہوتا تو ڈنڈے سے بات کرتا۔ مجال تھی کہ عورت یوں جدا کرتی۔ یہ سب بھیا کی چال تھی۔۔۔‘‘
آخر ایک دن رگھو کی زندگی کاٹمٹماتا ہوا چراغ بجھ گیا۔ موت نے ساری فکروں کاخاتمہ کردیا۔ آخروقت میں اس نے کیدار کو بلایاتھا لیکن کیدار کواوکھ میں پانی دینا تھا۔ کہیں دوا کے لئے نہ بھیج دیں اس لئے بہانہ بنادیا۔
ملیا کے لئے اب زندگی تاریک ہوگئی۔ جس زمین پر اس نے اپنے منصوبوں کی دیوار کھڑی کی تھی وہ نیچے سے کھسک گئی تھی۔۔۔ جس کھونٹے کے بل پر اچھل رہی تھی وہ اکھڑگیاتھا۔۔۔ گاؤں والوں نے کہنا شروع کردیاکہ ایشور نے کتنی جلدی سزا دی۔ بے چاری مارے لاج کے اپنے دونوں بچوں کو لئے رویا کرتی تھی۔ گاؤں میں کسی کو منہ دکھانے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ ہرشخص اسے یہ کہتا ہوامعلوم ہوتا تھا۔ گھمنڈ کے مارے پاؤں زمین پر نہ رکھتی تھی۔۔۔ آخر مل گئی سزا کہ نہیں۔۔۔ اب کسی گھرمیں کیسے نباہ ہوگا۔۔۔؟ وہ کس کے سہارے رہے گی، کس کے بل پرکھیتی ہوگی۔۔۔ بے چارہ رگھوبیمارتھا مگرجب تک زندہ رہا اپنا کام کرتا رہا۔ کمزوری کے مارے کبھی سرپکڑکر بیٹھ جاتا اور ذرا دیردم لے کر پھرہاتھ چلانے لگا۔۔۔ اب کھیتی کون سنبھالے گا۔
سارے کام پھیلے پڑے تھے۔ اناج کی داٹھیں کھلیان میں ہی پڑی تھیں۔ اوکھ سورکھ رہی تھی۔ وہ اکیلی کیا کیا کرے گی۔۔۔ پھرسینچائی اکیلے آدمی کاکام تو نہیں، تین تین مزدوروں کوکہاں سے لائے۔ گاؤں میں مزدور تھے ہی کتنے؟آدمیوں کے لئے کھینچاتانی ہورہی تھی۔ کیا کرے کیا نہ کرے۔۔۔
اس طرح تیرہ دن گزرگئے۔ کریاکرم سے فراغت ہوئی۔ دوسرے دن علی الصبح بچوں کوگود میں اٹھایا اوراناج مانڈنے چلی۔ کھلیان میں پہنچ کر ایک بچے کودرخت کے نیچے گھاس کے نرم بستر پرسلادیا اور دوسرے کو وہیں بٹھاکر اناج مانڈنے لگی۔ بیلوں کوہانکتی اورروتی تھی۔ کیابھگوان نے اسے اس لئے جنم دیا تھا۔ دیکھتے دیکھتے کیا ہوگیا۔۔۔ ان ہی دنوں پچھلے سال بھی اناج مانڈاگیاتھا۔ وہ رگھو کے لئے لوٹے میں شربت اور مٹرکا چبینالے کرآئی تھی۔ آج کوئی اس کے آگے ہے نہ پیچھے۔ یکایک چھوٹے بچے کارونا سن کر اس نے ادھرتا کاتودیکھا، بڑالڑکا اسے پچکار کرکہہ رہا تھا، ’’بیٹا تپ رہو۔ تپ رہو۔۔۔‘‘دھیرے دھیرے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرتاتھااورچپ کرانے کے لئے بے کل تھا۔ جب بچہ کسی طرح چپ نہ ہوا تو وہ خود اس کے پاس لیٹ گیا اورچھاتی سے لگاکرپیار کرنے لگا اورجب یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی تو وہ خود بھی رونے لگا۔۔۔
اسی وقت پنادوڑی ہوئی آئی اور چھوٹے بچے کوگود میں اٹھاکر پیارکرتی ہوئی بولی، ’’لڑکوں کو مجھے کیوں نہ دے آئیں بہو؟ ہائے ہائے بے چارہ دھرتی پر پڑا لوٹ رہا ہے جب میں مرجاؤں توجوچاہے کرنا، ابھی تومیں جیتی ہوں۔ الگ ہوجانے سے بچے توپرائے نہیں ہوگئے۔۔۔‘‘
ملیا: ’’تمہیں بھی چھٹی نہیں تھی اماں کیا کرتی۔‘‘
پنا: ’’توتجھے یہاں آنے کی ایسی کیا جلدی تھی۔۔۔ ڈانٹھ مانڈ نہ جاتی۔ تین لڑکے تو ہیں اورکس کام آئیں گے؟کیدار توکل ہی مانڈ نے کوکہہ رہاتھا۔ میں نے کہاکہ پہلے اوکھ میں پانی دے لوتب اناج مانڈنا، منڈائی تودس دن بعد بھی ہوسکتی ہے۔ اوکھ کی سینچائی نہ ہوئی تواوکھ سوکھ جائے گی۔۔۔‘‘
’’کل سے اوکھ میں پانی چڑھاہوا ہے۔ پرسوں تک کھیت پورے بھرجائیں گے تب پھرمنڈائی بھی ہوجائے گی تجھے بسواس نہ آئے گا جب سے بھیا مرے ہیں کیدار کو بڑی چنتا ہوگئی ہے۔ دن میں سوسوبار پوچھتا ہے کہ بھابی بہت روتی تونہیں ہے۔ دیکھ لڑکے بھوکے تونہیں ہیں۔ کوئی لڑکا روتا ہے تو دوڑاہوا آتا ہے دیکھ اماں کیا ہوا۔ بچہ کیوں روتاہے۔ کل روکر بولا، ’’اماں میں جانتا تھا کہ بھیا اتنی جلدی چلے جائیں گے توان کی کچھ سیواکرلیتا۔۔۔‘‘ کہاں جگائے جگائے اٹھتا تھا۔ اب دیکھتی ہوں رات سے اٹھ کر کام میں لگ جاتا ہے۔ کنو کل ذراسا بولا کہ پہلے ہم اپنی اوکھ میں پانی دے لیں گے پھربھیا کی اوکھ میں دیں گے۔ اس پرکیدار نے ایساڈانٹا کہ کنو کے منہ سے پھر بات نہ نکلی۔ بولا کیسی تمہاری کیسی ہماری اوکھ۔ بھیا نے جلانہ لیا ہوتا تو آج یامرگئے ہوتے یاکہیں بھیک مانگتے ہوگے۔ آج بڑے اوکھ والے بنے ہو۔ یہ انہیں کاپن پرتاپ ہے کہ آج بھلے آدمی بنے بیٹھے ہو۔۔۔ پرسوں روٹی کھانے بلانے گئی تومنڈیا میں بیٹھا چپ چاپ رورہا تھا۔ پوچھا، ‘’کیوں روتا ہے؟ توبولا کہ اماں بھیا اسی الگوجھے کے دکھ سے مرگئے، نہیں توابھی ان کی عمرہی کیا تھی۔۔۔‘‘
’’یہ اس وقت نہیں سوجھا نہیں توان سے بگاڑ کیوں کرتے؟‘‘ یہ کہہ کر پنا نے ملیا کی طرف پرمعنی نظروں سے دیکھ کر کہا، ’’تمہیں وہ الگ نہ رہنے دے گا۔ کہتا ہے کہ بھیا ہمارے لئے مرگئے توہم کیا ان کے بال بچوں کے لئے مرجائیں گے۔‘‘ ملیا کی آنکھوں سے آنسوجاری تھے۔ پنا کی باتوں میں کس قدر خلوص تھا، کتنی سچائی تھی۔ ملیا کادل اس کی طرف کبھی اتنا مائل نہ ہواتھا جن سے اسے طعنہ اورانتقام کاخوف تھا وہ اتنے مہربان اورغمگسار ہوگئے تھے۔ آج پہلی بار اسے خودغرضی پرشرم آئی۔ پہلی بار آتما نے بٹوارے پرشرمندہ کیا۔
اس واقعہ کوپانچ سال گزرگئے۔ پنا اب بوڑھی ہوگئی ہے۔ کیدار اب گھر کامالک ہے۔ ملیا اب گھر کی مالکن ہے۔ کنواورلچھمن کی شادیاں ہوچکی ہیں۔۔۔ مگرکیدار اب بھی کنوارا ہے۔ کہتا ہے میں شادی نہ کروں گا۔۔۔ کئی جگہوں سے بات چیت ہوئی۔۔۔ کئی سگائیاں آئیں مگرکیدار نے ہامی نہ بھری۔ پنا نے بہت کوشش کی مگروہ جال میں نہ آیا۔ کہتا تھا کہ عورتوں سے کیاسکھ؟ کہتا ہے مہریاگھرمیں آئی اورآدمی کامزاج بدلا، پھر جوکچھ ہے وہ مہریا ہے۔ ماں باپ بہن بھائی سب پرائے ہوگئے۔۔۔ جب بھیا جیسے آدمی کامزاج بدل گیا تو پھردوسروں کی کیا گنتی۔ دولڑکے بھگوان نے دیئے ہیں اورکیا چاہئے۔ بنابیاہ کے بیٹے مل گئے، اس سے بڑھ کر اورکیاہوگا۔۔۔؟ جسے اپنا سمجھو وہی اپنا ہے جسے غیرسمجھووہ غیرہے۔۔۔‘‘
ایک دن پنا نے کہا، ’’توبیاہ نہ کرے گا توتیرا بنس (خاندان) کیسے چلے گا۔۔۔؟‘‘
کیدار: ’’میرا بنس توچل رہا ہے دونوں لڑکوں کواپنا ہی سمجھتا ہوں۔۔۔‘‘
پنا: ’’مجھنے پرہی ہے تو، تو نے ملیا کواپنی مہریا سمجھاہوگا۔۔۔‘‘
کیدار نے جھینپتے ہوئے کہا، ’’تم تو گالی دیتی ہو اماں۔۔۔!‘‘
پنا: ’’گالی کیسی تیری بھابی ہی توہوتی ہے۔‘‘
کیدار: ’’میرے جیسے گنوار کووہ کیوں پوچھنے لگی؟‘‘
پنا: ’’توکہنے کوکہہ تومیں اس سے پوچھوں۔‘‘
کیدار: ’’نہیں اماں کہیں رونے گانے نہ لگے؟‘‘
پنا: ’’تیرا من ہوتو میں باتوں ہی باتوں میں اس کے من کی تھاہ لوں۔‘‘
کیدار: ’’میں نہیں جانتا جوچاہے کر۔‘‘
پنا: کیدار کے دل کی بات سمجھ گئی۔ لڑکے کادل ملیا پرآیاہے۔ یہ شرم اور خوف کے مارے کچھ کہہ نہیں پاتا۔ اسی دن اس نے ملیا سے کہا۔۔۔ ’’کیا کروں بہومن کی لالسامن میں ہی رہ جاتی ہے۔ کیدار کاگھربھی بس جاتا تومیں نچنت (بے فکر) ہوجاتی۔‘‘
ملیا: ’’وہ توکرنے کوہی نہیں کہتے۔‘‘
پنا: ’’کہتا ہے ایسی عورت ملے جوگھرمیں میل سے رہے توکرلوں۔‘‘
ملیا: ’’ایسی عورت اس گاؤں میں کہاں ملے گی، کہیں ڈھونڈو۔‘‘
پنا: ’’میں نے تو ڈھونڈلیا ہے۔‘‘
ملیا: ’’سچ! کس گاؤں کی ہے؟‘‘
پنا: ’’ابھی نہ بتاؤں گی۔ مگر یہ جانتی ہوں کہ اس سے کیدار کی سگائی ہوجائےتوگھربن جائے اورکیدار کی زندگی بھی سپھل ہوجائے۔ نہ جانے لڑکی مانے گی کہ نہیں؟‘‘
ملیا: ’’مانے گی کیوں نہیں اماں۔ ایساسندر کماؤ، سوشیل براور کہاں مل جاتاہے۔ اس جنم کا کوئی سادھو مہاتما ہے۔ نہیں تولڑائی جھگڑے کے ڈرسے کون بن بیاہا رہتا ہے۔ کہاں رہتی ہے میں جاکر اسے منالاؤں۔‘‘
پنا: ’’توچاہے تواسے منالے؟ تیرے ہی عمر کی ہے۔‘‘
ملیا: ’’میں آج ہی چلی جاؤں گی۔ اس کے پیروں پڑکر منالاؤں گی۔‘‘
پنا: ’’بتادوں، وہ توہی ہے!‘‘
ملیا شرماکر بولی، ’’تم تواماں جی گالی دیتی ہو۔‘‘
پنا: ’’گالی کیسی دیورہی توہے۔‘‘
ملیا: ’’بھلا مجھ جیسی بڑھیا کووہ کیوں پوچھیں گے۔‘‘
پنا: ’’وہ تجھی پردانت لگائے بیٹھا ہے۔ تیرے سواکوئی عورت اسے بھاتی ہی نہیں۔ ڈرکے مارے کہتا نہیں پراس کے من کی بات میں جانتی ہوں، تجھے پاکر وہ پھولا نہ سمائے گا۔‘‘
بیوگی کے غم سے مرجھائی ہوئی ملیا کازردچہرہ کنول کی طرح کھل گیا۔ دس سال میں جو کچھ کھویاتھا وہ ایک لمحہ میں سود کے ساتھ مل گیا۔ وہی تازگی، وہی شگفتگی، وہی ملاحت، وہی دل کشی۔۔۔
مأخذ : پریم چند کے مختصر افسانے
مصنف :پریم چند