پانی کی سطح سے چالیس فٹ کی اونچائی پر بنا ہے شیو کا یہ مندر، جس کی منڈیر پر اس وقت میرے قدم ہیں۔ تھکے ہارے سورج نے ابھی ابھی اناج سے لدے لدائے کھلیانوں کی اوٹ میں اپنا چہرہ چھپایا ہے۔ ٹال کی زمین پر چاروں طرف اناج کا ڈھیر ہے اور ہزاروں کی تعداد میں مزدور اناج کی بوریاں تیار کر رہے ہیں ۔ٹال میں مسٹر اور مسور کی خوشبو پھیلی ہے۔ جگہ جگہ کسانوں کے ڈیرے بسے ہیں، جہاں کا مگاروں کی چہل پہل ہے۔ ان ڈیروں کے آگے کہیں اُلٹی ہانڈیاں ٹنگی ہیں کہیں نرمنڈ اور کہیں کالے کپڑوں سے ڈھکا کوئی پتلا کھڑا ہے۔ تھوڑے دن اور ٹال میں اسی طرح کی چہل پہل رہے گی۔ اناج کی بوریاں اُٹھ جانے پر یہاں ایک بار پھر سناٹا چھا جائے گا۔ مگر شیو کے مندر میں لگی گھنٹیاں تب بھی پہلے کی طرح بجتی رہیں گی۔ چراغ اسی طرح جلیں گے، دھوپ بتی کا انتظام اسی طرح ہوگا۔ ہاں، مندر میں آنے والوں کی تعداد ضرور گھٹ جائے گی۔لیکن اس وقت، جب کہ میں اس منڈیر پر کھڑا ہوں، مندر میں بھگتوں کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ پجاری نیچے ہر و ہر ندی میں نہانے چلا گیا ہے اس لیے میں بغیر روک ٹوک ٹیلے کے نیچے والی بلواہی زمین پر دور دور تک اپنی نظریں آسانی سے ڈال سکتا ہوں۔اسی بلواہی زمین کے ایک حصے پر کٹیلی جھاڑیوں کے بیچ مجھے وہ عورت دکھائی دے رہی ہے، جس کا نام مرنی ہے۔ یہ بیوہ عورت جس کا ذکر میں نے اوپر کیا، پچھلے چار ہفتے سے ٹال کے اس گاؤں میں رہ رہی ہے۔ فصل تیار ہوتے ہی ہر سال کی طرح گاؤں آتی ہے، کٹنی میں کمائی کی خاطر، مہینے دو مہینے کا خرچ جٹانے۔کٹنی ختم ہوتے ہوتے اور اناج کے بورے ٹرکوں ، ٹریکٹروں، بیل گاڑیوں پر لادتے لادتے، وہ جیسے ادب جائے گی۔ پھر ایک صبح وہ اچانک گاؤں سے غائب ہو جائے گی۔
مرنی ہر روز اسی طرح کام ختم کرنے کے بعد ٹال کی بلواہی زمین پر کٹیلی جھاڑیوں کی اوٹ میں تھوڑی دیر پسری رہتی ہے۔ زمین پر پسرے پسرے ہی وہ اپنی انگلیوں سے بالو پر کچھ ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچتی رہتی ہے۔ پھر ان لکیروں پر اپنے کھردرے ہاتھ پھیر دیتی ہے۔ اس کے بعد ہی وہ اپنے شانے جھٹکتی ندی میں ہاتھ پیر دھونے اُترتی ہے۔مرنی کو ٹال میں کام کرنے والی ساری بھیٹر اچھی طرح پہچانتی ہے۔ برسوں قبل ٹال کے ہی ایک گاؤں میں وہ اپنے آدمی کے ساتھ رہتی تھی ۔ اس کا آدمی گاؤں کے ایک بڑے زمیندار کی بیگاری کرتا تھا۔ مالک اسے مانتا اور چاہتا تھا۔ اس نے اسے اپنی کچہری کے پاس ہی رہنے کو جگہ دے رکھی تھی۔
اس کا خاصا خیال بھی رکھتا تھا مالک۔ مرنی کا آدمی بھی مالک کے تئیں وفاداری میں کوئی کسر نہیں رکھتا تھا۔ لیکن، پتہ نہیں، کیسے ایک دن دودھ میں نمک کا ایک ڈھیلا پڑ گیا اور مرنی کے آدمی اور مالک کے بیچ کا رشتہ بگڑ گیا۔ مالک اس کی جان کا دشمن ہو گیا۔ اور مرنی کے آدمی کو راتوں رات اپنا گاؤں چھوڑ کر ادھر ادھر پناہ ڈھونڈنی پڑی مالک اور بیگار کے رشتے آخر کیوں بگڑے؟ اس سلسلے میں علاقے بھر میں بیسیوں کہانیاں اور قصے مشہور ہیں۔ کود مرنی ان قصے کہانیوں میں سے کسی ایک کو بھی سچ مانے کو تیار نہیں ہوتی ۔ وہ صرف یہ جانتی ہے کہ اس کے نزدیکی رشتہ داروں نے جھوٹی شکایتیں کر کے مالک کے کان بھر دیے تھے اور وہ اسے برسوں کی وفادار بیگاری سے آزاد کر دینا چاہتا تھا۔ لیکن مرنی کی یہ بات دل میں بہت بھروسہ نہیں پیدا کرتی۔ مرنی کے آدمی کا نام منگل ڈھاڑھی تھا۔ مالک اسے کبھی منگلا، کبھی منگلوا کہتا تھا۔ علاقے کے دس میں گاؤں میں منگلا جیسا دوسرا پہلوان دیکھنے کو نہیں ملتا تھا ۔ گورا چٹا، مالک سنتان نین ۔ بدن ہاتھ کا مضبوط ، طاقتور ۔ باپ کے جیتے جی، کم عمری میں ہی مالک کی بریگاری میں جٹ گیا تھا، منگلا۔ باپ بھی مالک کی ڈیوڑھی پر برسوں سے تعینات تھا۔ باپ سے ہی مالک نے منگلا کو مانگ لیا تھا۔
ٹال میں ہزاروں بیگھا زمین کی رکھوالی کا کام اکیلے منگلا کے ذمے تھا۔مرنی کی یادداشت کمزور نہیں ہے۔ اسے پل پل کے واقعات یاد ہیں۔ کیسے مالک کے چھوٹے بھائی پر حملہ ہوا۔ کیسے اس کے سر سے خون بہا، اسے اُٹھا کر شہر لے جایا گیا۔ کیسے ما لک کی کچہری میں منگلا سے دشمنی رکھنے والوں نے اس کے نام کی دھوم مچائی۔ اور کیسے اسی رات منگل کو اپنا پیدائشی گاؤں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا پڑا۔ سچ مچ اس رات کے بعد تو منگلا کی راکھ بھی اس کے گاؤں کو نصیب نہیں ہوئی۔لیکن مالک کے بھائی پر حملہ کس نے کیا؟ اور کیوں؟ یہ سوال شاید سوال ہی رہ جائے ۔ ٹال کے گاؤں میں اس سوال کے ایک سے زیادہ جواب موجود ہیں۔ خود مرنی کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں ۔ وہ تو حال ہی میں گونا کرا کر سسرال آئی تھی اور ابھی اس کے ہاتھ کی چوڑیاں ایک بار بھی نہیں ٹوٹی تھی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ مالک کے بھائی پر کیا حملہ ہوا ہے۔ اسے گہری چوٹ آئی ہے اور اس کی جان کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔کیا مالک کے بھائی نے کوئی جرم کیا ہے، جس کی سزا سے دی گئی ہے؟ ٹال کے لوگ سیدھے منہ اس سوال کا جواب دینا نہیں چاہتے ۔ وہ صرف اشاروں کی زبان میں بولتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آپ اشاروں کی زبان سمجھ کر اپنے سوال خود حل کر لیں ۔ وہ نئی نئی کہانیاں سناتے ہیں۔ ان میں ایک ہے، بکم گاؤں کے چھیانوے پہلوان کی کہانی۔ بکم گاؤں کا دستور تھا کہ نئی دلہن بیاہ کر آتے ہی پہلوان کی ڈولی بجے گی۔
برسوں سے چلا آرہا تھا یہ دستور ، اور اس میں ترمیم کی کوئی ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہوئی تھی۔مگر جب اوٹھواں مداری کی عورت بیاہ کر گاؤں آئی تو اس نے جیسے اس دستور کی دھجیاں اُڑا دیں۔ پہلوان نے حسب عادت ڈولی چاہی۔ اوٹھواں مداری کی بیٹی اس بیگار کی تعلیم لے کر بکم گاؤں نہیں آئی تھی۔ وہ مشتعل ہو کر میکے بھاگ آئی۔ میکے والوں نے اس حادثے کو اپنی عزت پر حملہ مانا اور بدلے میں کم گاؤں پر چڑھ بیٹھے ۔ جس پہلوان نے اوٹھواں مداری کی سگھڑ بیوی کی ڈولی چاہی تھی، اس کی چھیانوے بوٹیاں کردی گئیں ۔ تب سے قصے کہانیوں میں اس پہلوان کا نام ہو گیا۔ چھیانوے پہلوان۔مگر یہ قصہ تو محض ایک حیلہ ہے۔ منگلا اور مالک کی لڑائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ٹال والے کچھ اور واقعات کا ذکر بھی کرتے ہیں، جو بہت پرانے نہیں ، اور جن کی یاد ممکن ہے، آپ کو بھی ہو ۔ کیسے راما شرے ڈھاڑھی کا گھر دن دہاڑے جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ اور کیسے ہوا گاؤں کے نند لال ڈھاڑھی کو علاقے کے ایک تھانے دار نے زمین مالک کے ٹریکٹر میں باندھ کر میلوں گھسیٹا اور اس کی جان لے لی۔ اس کا جرم اتنا ہی تھا کہ اس نے تھانے دار کو اپنے بھائی انتا ڈھاڑھی کا پتہ بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ ٹال والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح اس معاملے کو عدالت پہنچنے سے روکنے میں متعلقہ افسران کو لاکھوں روپے کی رشوت دی گئی۔ مگران قصے کہانیوں سے بھلا منگلا ڈھاڑھی اور مالک کے بگڑے رشتوں کا کیا تعلق ہے؟ صاف طور پر شروع میں ، منگلا ڈھاڑھی پر مسور کی چوری کا الزام تھا۔ اناج کا وزن کرنے پر یہ الزام ثابت بھی ہو گیا تھا۔ کیا ہزاروں بیگھا کھیت کی فصل کا رکھوالا مسور کی چوری کرے گا ؟ مگر مالک کی عدالت میں یہ گناہ ثابت ہو گیا تھا۔اسی الزام سے بگڑ کر منگلا نے مالک کے بھائی پر حملہ کر دیا تھا۔ وجہ جو بھی رہی ہو، یہ سچ ہے کہ اس رات منگلا اپنی عورت مرنی کے ساتھ گاؤں سے بھاگ گیا۔ ادھر ادھر بھاگتا چھپتا رہا۔
فاقہ کشی اور بھوک مری کی حالت میں مہینوں بعد راجدھانی پہنچا۔ یہاں منگلا اور مرنی دونوں کو سر پر بوجھا ڈھونے اور اینٹ کی ٹوکری سنبھالنے کا کام ملا۔ پھاگن سے کار تک دونوں کام کرتے رہے۔ مگر جب کنکی چھٹ کی گھڑی آئی تو مالک کے مخبروں نے منگل ڈھاڑھی کو ڈھونڈ نکالا۔اب منگل ڈھاڑھی کو مالک کا اناج چرانے اور مالک پر ہاتھ چھوڑنے کی سزادینے کا وقت آ گیا تھا۔ علاقے بھر میں مالک کی طرف سے ڈگڈی پٹوائی گئی منگل کو سزادی جائے گی ، منگل کو سزادی جائے گی۔ گنگا کے تٹ پر منگل کو پٹرول سے نہلایا گیا۔ پھر اسے آگ دے دی گئی۔ زندہ، ہٹا کٹا، مالک سنتان نین، گورا، براق منگلا پل بھر میں جل کر راکھ ہو گیا۔ جہاں منگلا کی راکھ پڑی تھی ، وہیں مالک کے کارندوں نے اپنے پیٹ ہلکے کیے اور جسم کا فاضل پانی ٹیکایا۔
ان دنوں اس حادثے کی زبر دست گونج سنائی پڑی تھی ۔ چوک ، چوراہے پر مالک کے فیصلے کا چرچا ہوا تھا۔ مگر کل ملا کر بازار نے مالک کے اس قدم کی حمایت ہی کی تھی۔ کوئی بال نہیں بیکاکر پایا تھا، مالک کا۔ پہلے وہ شیر کہے جاتے تھے۔ اس حادثے کے بعد وہ شیر بہبر ہو گئے۔ برسوں بعد، ٹال کے ایک بڑے ٹیلے پر بنے شیو کے مندر کی منڈیر سے مجھے اسی منگلا کی عورت بالو پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچتی نظر آرہی ہے۔ میں جانتا ہوں ، ایک دو دن میں مرنی ٹال کا کام ختم کر کے شہر لوٹ جائے گی، جہاں اسے سال کا باقی حصہ کوڑا گھروں سے ردی کاغذ اور پتے چن کر گزارنا ہے اور پیٹ پالنے کی لاچاری جھیلنی ہے۔مرنی یہ سب بنتے بنتے جھیل رہی ہے۔اسے بھگوان کے انصاف پر بھروسہ ہے۔ موت سے پہلے مرغی یہ بھروسہ تو ڑنا نہیں چاہتی۔
مصنف:جابر حسین