کابلی والے کے ہونٹ لرزے۔اچھا صاحب، اب میں چلوں۔۔۔وقت کم ہے۔ کچھ سامان بھی خریدنا ہے۔ صبح چار بجے کی گاڑی ہے۔ہاں خان ۔جسیے میں نیند سے جاگا۔ کوئی دردناک خواب دیکھتے دیکھتے چونکا۔اب کب آؤ گے خان؟مں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں مں تھام کر اپنے سنے سے لگاتے ہوئے کہا۔ ایک انجانے دکھ سے اس کی آنکھں بھر آئںن۔ اس نے ایک گرم سانس چھوڑ کر کہا۔ پتہ نہںا صاحب اکسک برس کے بعد گھر لوٹ رہاہوں .. پلٹ کر دیکھو تو یہ عرصہ کچھ بھی نہںو معلوم ہوتا ! آگے دیکھو تو ایک نا قابل عبور پہاڑی راستہ … اب تو شاید ہی واپسی ہو۔یہ کہتے کہتے اس کا گلا رندھ گا اور وہ اپنے وجود کی گہرائو ں مںو آئے ہوئے زلزلے سے لڑنے لگا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جسےہ اسے اچانک یاد آیا۔ صاحب ! جاتے جاتے مجھے وہ تصویریں پھر دکھا دیےا۔۔ جو تصویر مںم آپ جلم مں مجھے دکھانے کے لےچ اکثر لایا کرتے تھے۔ ایک عرصے کے بعد گھر جارہا ہوں، چاہتا ہوں کہ وطن کی ہر چھوٹی بڑی یاد تازہ ہو جائے اور اپنے ملک سے برسوں کی دوری کی بنا پر جوا جنبتہ کا پر خوف احساس پدٹا ہو گاب ہے۔ مر ے دل مںی۔۔۔وہ ڈر بھی دور ہو۔مںھ نے اثبات مںا گردن ہلائی اور بک شلف سے کتاب نکال کر اس کے آگے رکھ دی۔ مںں سال بہت ہوتے ہںے اور قیت بھی بہت ہوتے ہںت۔ اپنی بیتی ہوئی زندگی سے ہم ان کی اہمتہ کا اندازہ کر سکتے ہں ۔ خان کی زندگی جل۔ کی دیواروں کے بچر مںص کیت تھی۔ مںی جب بھی اس سے ملنے کے لےر جایا کرتا۔ یہ کتاب اس کی دلجوئی کے لےد، اپنے ساتھ ضرور لے جاتا تھا۔ وہ کتاب کے اوراق الٹتا اور اپنی یادوں کے تہ خانوں مںت اتر جایا کرتا۔ پھر وہ آج کے رحمت سے کل کے نوعمر رحمت کو یوں ملا تا گویاوہ جدا جدا شخصںر ا ہوں اور ایک دوسرے سے اجنبی ہوں۔ یہ ہے مرما مدرسہ۔ فجر کی نماز کے بعد مولوی صاحب ہمںت عربی پڑھایا کرتے تھے ۔لا الہ الا الله محمد الرسول اللہ۔۔۔مںس دہراتا ۔لا الہ الا الله محمد الرسول اللہ۔۔۔پھر عبد الرزاق دہراتا۔لا الہ الا الله محمد الرسول الله۔۔۔عبد القادر دہراتا ۔ ہماری آواز مسجد سے لگی خانقاہ کے دریچوں سے نکلتی اور کوہ دمام اور ہندوکش کی وادیوں مں۔ ڈوب جاتی تھی۔ مولوی صاحب کی آواز پاٹ دار تھی ۔ ان کے چہرے کو دیکھ کر مجھے جلال آباد کا وہ خطہ یاد آ جاتا کہ جہاں کی زمنو سوکھ کر تڑخ چکی تھی۔ ان کی آنکھں دو بڑے بڑے گڑھوں مںے میھ ہوئی تھںک۔ لمبی سفدی داڑھی اور باریک مونچھںر ، سر پر عمامہ، لمبا کرتا، کسا ہوا کمر بند ٹخنوں سے اونچی شلوار اور زری کا کمانی دار جوتا ، وہ خانقاہ مں بلا معاوضہ قرآن کا درس دیا کرتے تھے پر روزی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارت یوں کرو کہ جسےے رسول نے کی تھی۔ یینق نفع اتنا ہی کماؤ کہ جتنا آٹے مںک نمک پڑتا ہے۔صاحب مںز بھی اپنا مال بہت کم نفع پر بچتا ہوں ۔ مولوی صاحب کی بات مجھے اب تک یاد ہے۔ مجھے یہ سمجھے مںے دیر نہ گتی کہ یہ بات نوعمر رحمت سے نہںم کہی گئی ہے، بلکہ یہ بات کابلی والے نے مجھ سے کہی ہے۔وہ دن تو ہمارے لےہ بڑی تفریح کا ہوتا کہ جس دن مولوی صاحب اپنے گھر مںے اون رنگا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے مکان کے پچھواڑے پتھروں کو جوڑ کر ایک حوض سا بنالان تھا۔ اس حوض مںا وہ اخروٹ کی کوئی ہوئی چھال اور رنگ پانی مںپ حل کرتے ، پھر وہ اسے نچےس سے لکڑی لگا کر تپاتے تھے ۔ جب یہ آمز ہ ابل ابل کر خوب گاڑھا ہو جاتا تو وہ اس مںی اون چھوڑا کرتے تھے کاپ رنگ چڑھتا تھا اون پر! وہ کہتا۔دیکھ رہے ہںج آپ اس رومی دروازے کو ! پتھروں کی سلںچ ایک دوسرے پر رکھی ہوئی یوں نظر آرہی ہںھ کہ جسےج کہ ان کے بچر کوئی مصالحہ نہ لگایا گال ہو! آپ چاہںو تو ایک ایک کر کے انھںک اٹھا کر الگ رکھ سکتے ہں لکنا نہںھ۔ یہ سلیس پچھلے ڈیڑھ ہزار برس سے یوں ہی رکھی ہوئی ہں ۔ نہ تو برفانی ہواؤں کا اثر ہوتا ہے ان پر، نہ صحرا کے گرم جھکڑوں کا یہ دیکھیےنا یہ کمان سترہ سلوں کو جوڑ جوڑ کر بنائی گئی ہے اور ہر دوسلوں کے درما ن مں کھانچے ہںں، لکنٹ مجال نہں کہ ایک بھی اپنی جگہ سے سرک جائے ۔وہ یہ بھی کہتا۔دیےھں یہ اسی خانقاہ کا دروازہ ہے۔ فریم کے اطراف کا پلستر جھڑچکا ہے لکنن پھر بھی فریم اپنی جگہ پر قائم ہے۔ لکڑی کے کام مںت بار ییم نہں ،نقش نہںخ ، کوئی ابھار نہںے لکنھ پائدیاری ہے، سادگی ہے، اس لےے دیکھنے مںئ بھلا لگتا ہے۔ دور دور سے عورتںد اپنی منتںی مانگنے یہاں آتی ہں ۔ اس کے دستے سے بندھے ہوئے ہر ڈورے سے ایک ایک مراد منسوب ہے۔اس کتاب مںے بے شمار تصویریں تھںٹ ۔ کابلی والا ورق الٹے چلا جاتا اور اس کا سلسلہ کلام بھی جاری رہتا۔
یہ ہے عبدالرحمان سقہ ۔ چاندی کے پاشلوں مں دھوپ مںک جھلتے ہوئے مسافروں کو پانی پلایا کرتا ۔ گرمو ں مںو پہاڑیاں تپ جائںہ تو وہاں سے ہوا بگولوں کی شکل مںا ہمارے شہر مں داخل ہوا کرتی تھی ۔ گھر سے نکلنا جان جوکھوں کا کام ہوتا۔ اییں تپش مں عبد الرحمان کی آواز’ پانی لے لو پانی۔ پری مراکش کے چشمے کا ٹھنڈا پانی۔۔۔اس کا پانی واقعی کلےر کو ٹھنڈک پہنچا تا اور جسم کو تراوٹ بخشا تھا۔کابلی والے کی ان تمام باتوں کو مںل کورں کر سمٹوکں؟ مں سال کے عرصے پر پھلےک ہوئے واقعات ! بعض اوقات رحمت ایک ہی تصویر کے کئی کئی ورزن پش؟ کرتا۔ مجھے لگتا کہ مقام تو ایک ہی ہوسکتا ہے عمارت بھی ایک ہی ہوگی ، راستہ بھی ایک ہوگا لکن موسم بدل جاتے ہںش اور ان کے ساتھ ساتھ دل کی کیفیتیں بھی ! دن رات مںک اور رات دن کے قالب مںر اتر جاتی ہے۔ ان بدلتی ہوئی رتوں اور اس لمحہ پگھلتے ہوئے وقت کے درمامن مںی کتنے رنگ کتنی خوشبوئںا، کتنے نفے ہم دیکھتے، محسوس کرتے اور سنا کرتے ہں ۔ یہ تمام احساس ہمارے ذہن کے نہ خانوں مںں اتر کر روپوش ہو جاتے ہںم، لکن جب کبھی ہم اس کتمحس سے ملتی جلتی کتحس سے دو چار ہوتے ہںے تو وہ تمام رنگ، وہ تمام خوشبوئںے اور وہ تمام نے دھر ے دھر ے ہمارے ذہن کے گھونسلوں سے خوش رنگ پرندوں کی طرح برآمد ہونے لگتے ہںں اور پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہںذ۔ کابلی والا کبھی مجھ سے پہاڑوں پر بسے ہوئے گاؤں کا ذکر کرتا۔ پہاڑوں پر ہی قائم مدرسوں مںں تختاپں لکھتے اور خدا کی حمد وثنا کرتے بچوں کا ذکر کرتا۔ اور یہ واقعہ ہے کہ کوہ بابا، بند باںباں، سفدم کوہ ، کوہ دمام ،ہندوکش اور کوہ کش اور کوہ سلیمان پر چھوٹی چھوٹی کئی بستیاں آباد ہیں کہ جن پر اس جدید دور کا سایہ تک نہیں پڑا اور وہاں کے باسی اب بھی قدیم روایتوں اور پارینہ رسموں کے سہارے اپنی زندگی گزارا کرتے ہںر۔ وہ کسی دوست محمد خاں، ہمایوں، احمد عاشق خاں، شاہ محمود، فتح خاں، کامران، شرا علی اور یعقوب خان کا ذکر کرتا کہ جو بلند و بالا پہاڑیوں پر جڑی بوٹو ں کی تلاش مںم جایا کرتے تھے ، یا پہاڑوں پر سے نمک حاصل کرتے اور پھر گاؤں مںذ آکر اسے تبرک کے طور پر تقسمز کر دیا کرتے تھے۔ انہی سے منسوب کابلی والا مجھے وہ واقعے بھی سناتا کہ کس طرح احمد شاہ نے ایک حملہ آور شر کو اپنے لٹھ کی واحد ضرب سے ادھ موا کر دیا تھا اور کسی موقعے پر شرب علی نے ایک کوڑیالے ناگ کو اپنے مٹھویں مںھ پکڑ کر دو ٹکڑوں مںا تقسم کر دیا تھا۔ کاشتکاری کی صعوبتںے، مردوں کو راتوں مںی دفنانے کے پر اسرار واقعات ، کارواں کے گزرنے کا سحر انگز باڑن وہ یوں کرتا گویا ہر منظر اس کی آنکھوں مںت تصویر بن چکا ہو۔ وہ وہاں کے بازاروں، دستکاروں اور عاشقوں کا بھی ذکر کرتا۔ مجھے تو روزنامچہ لکھنا چاہےا تھا تب کہںو جا کر مںر اس قابل ہوتا کہ اس یادداشت کے سہارے آپ کو وہ تمام واقعات تفصلت سے سناتا، اور یہ بھی درست نہںو ہے کہ باتں مر ے ذہن سے محو ہو چکی ہوں۔ پتہ نہںہ ، کب کوئی لمحہ کیو واقعے کو ازسرنو یاد کرادے اور مںہ رحمت ہی کی تڑپ اور لگن سے ان باتوں کو آپ کے گوش گزار کر سکوں۔خان، یہ کتاب تم اپنے ساتھ کویں نہںا لے جاتے آں؟ نہںی صاحب اسے لے جا کر کان کروں گا ؟ اب تو مںت خود ہی وہاں پہنچنے والا ہوں۔ اسی فضا مںں سانس لوں گا۔ اپنے لوگوں مںر رہوں گا۔ انہی پہاڑوں مں گھوموں گا۔ وہی نغمے سنوں گا۔ نہںپ مجھے اس کتاب کی ضرورت نہںا۔ ویسے صاحب ! مر ے لےک یہ اتنی مقدس ہے کہ جتنا مقدس ہے مروے لےا قرآن اور یہ مرےے لےم اتنی ہی متبرک ہے جتنی متبرک ہے مر۔ے لے سرات النبی ۔ اسے آپ اپنے پاس احتاوط سے رکھںا، نہ جانے کب یہ کسی کے کام آجائے ۔ رحمت نے اسے آنکھوں سے لگایا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔بڑے احترام سے اس نے وہ کتاب مر ے پھلےر ہوئے ہاتھوں مں رکھ دی۔ اسی لمحے مرسے دل مںے خا ل آیا کہ اب مںی اس کی نئی جلد بنواؤں گا اور اسے جزدان مںر پسٹت بک شلفا مں رکھوں گا۔ مجھے کام پتہ تھا کہ یہ کتاب رحمت کے ان خوابوں کا مسکن ہے کہ جن کی تکملن کی خاطر آج وہ اپنے وطن جا رہا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بغل گرک ہوئے ، اس نے آنکھںھ پونچھںں اور پھر مکان کی دہلزی سے باہر نکل آیا۔ مںم بھی اس کے پچھےا ہولاھ۔ کچھ فاصلے تک اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ پھر رک گاں۔ آخر جدائی کے لمحوں کو مںط کب تک ٹال سکتا تھا۔خان نے مڑ کر ہاتھ ہلایا اور تز ی سے آگے بڑھ گال۔ تعلقات کے رییمئ بندھنوں سے اپنے آپ کو رہائی دلانے مںخ اسے دشواری ہو رہی تھی۔
آخری بار جب مںا نے اسے خوب غور سے دیکھا تو مجھے اچانک محسوس ہوا کہ عمر اس کی پٹھو پر اپنا بھاری بوجھ ڈال چکی ہے۔!مررے سنےر مںد درد کالا وا ابل پڑا۔ بیس برس پہلے یہ لمبا ترنگا پٹھان مرکی بچی کو گود مں اٹھائے ہوئے جب مررے گھر مںت داخل ہوا تھا تو مجھے اسے دیکھ کر وحشت سی ہوئی تھی اور مجھے اپنی بچی کا وجود خطرے مںم نظر آیا تھا۔ لکنہ آج۔۔! وہ موسی پرندے کی طرح رخصت ہورہا تھا۔ اپنے دیس کو کہ جہاں فرحت بھی تھی اور چاہت بھی دلنوازی بھی تھی اور راحت بھی اور جہاں کا موسم خوشگوار تھا۔کابل کے بازار مںا جب بس جا کر کی تو کوئی شور نہںر اٹھا! کوئی کسی کو لنےر نہں لپکا! کسی نے کسی کو نہںہ پکارا نہ قہوہ بیچنے والی کی آواز آئی نہ کسی چائے والے کی پکار سنائی دی کوئی آواز بھی تو صرف سڑکوں پر دھمکتے بوٹوں کی کابلی والا بس کی کھڑکی سے سر ٹکائے سورہا تھا۔اے !کسی نے اسے ٹہو کا دیا۔رحمت کراہ اٹھا۔ ایک فوجی رائفل کے دستے سے اسے دوبارہ شہو کا دینے جارہا تھا۔ رحمت نے دونوں ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا۔پاسپورٹ ۔ فوجی نے تحکمانہ لہجے مںس کہا۔کابلی والے نے اپنے جھولے سے پاسپورٹ نکال کر اس کے حوالے کر دیا۔ہندوستان سے آئے ہو؟ سوال پشتو مںج کاہ گاے۔ہاں۔فوجی کے رویے نے اسے دکھی کر دیا تھا۔ یہ کاو ، مریے ساتھ ایسا بہما۔نہ سلوک ! مرےے ساتھ آؤ۔ یہ کہہ کر فوجی بس مںں سے تزای سے اتر پڑا۔مررا سامان۔ رحمت نے بس کے کرےیئر پر رکھے اپنے سامان کی طرف اشارہ کاب۔ اس فوجی نے اپنے ساتھی سے کسی غر زبان مںر بات کی۔ دوسرے نے اثبات مںر گردن ہلائی ۔ کابلی والا اب تک سمجھ نہں پارہا تھا کہ یہ سب کاآ ہو رہا ہے۔ ارے بھائی مجھے اپنا سامان تو لنےک دو۔ تم اپنی ہی ہانکے جارہے ہو۔ مںا کوئی چورا چکا نہںپ ہوں۔اور نہ ہی اسمگلر ہوں۔بکواس بند کرو جو کہا جارہا ہے اس پر عمل کرو ۔یہ کہہ کر اس فوجی نے رائفل کے دستے سے اس کے شانوں پر دوسرا ٹہوکا دیا۔ آہ۔۔۔خان اپنا شانہ تھام کر کراہا۔ اس کے جی مںے آیا کہ رائفل چھنپ لے اور گھما کر ایسا ہاتھ مارے اس کےماتھے پر کہ کھو پڑی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے۔ لکنآ اس کے کانوں مںر بوٹوں کی دھمک کے ساتھ ساتھ اجنبی زبان مںھ دیے جارہے فوجی احکامات بھی گونج رہے تھے۔
اب وہ فوجی کے پچھےم پچھے چلا جار ہا تھا اور منٹلہ نوٹس لنے لگا تھا۔ سڑک اب پختہ ہو چکی ہے۔لیمپ پوسٹ قائم کردیے گئے ہیں ۔فلمی پوسٹر ،اشتہارات ۔۔۔اس نے گالی دی۔دنیا میں سب سے زیادہ چڑھ ا گر اسے تھی تو ان اشتہارات سے تھی۔ جموئے ، گمراہ کن اشتہارات، جو اپنے مال کا وصف بڑھا چڑھا کر پش کرتے ہںہ۔ اس مںس وہ وہ خوباتں باگن کرتے ہں کہ جن کا سرے سے اس مںپ وجود ہی نہںت ہوتا۔ سالا کوئی تو ہو کہ جو اپنے مال کا تھوڑا سا کھوٹ بھی بتا دے۔پولس اسٹشنہ۔۔ہاں وہی ہے ۔ عمارت کو لپن پوت کر نئی روح پھونک دی گئی ہے اس مںٹ پتھر کی بنی ہوئی پختہ عمارت لمبی چوڑی ! لکنے یہ کا ؟ بسں برس پہلے یہ اتنی وسع تو نہ تھی۔ اور اب کای مرئے دیس مںد اتنے جرم ہونے لگے ہںل؟وہ کئی راہداریوں سے ہوتے ہوئے کئی کمروں کے سامنے سے گزرتے عمارت کے بالکل آخری حصے مںب پہنچ گئے جہاں صرف ایک کمرہ تھا اور دوباوردی فوجی پہرے پر تعنا ت تھے۔ خان کو ان کی تحویل مں دے کر یہ فوجی دستک دے کر اس کمرے کے اندر چلا گام۔ کچھ دیر بعد واپس ہوا۔ اشارے سے اس نے خان کو اندر آنے کو کہا۔ سب سے پہلی بات جو خان نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ کمرہ بہت بڑا تھا۔ اس کا فرنچری اعلیٰ اور قیتک تھا۔ دوسری بات جو اس نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ کھڑکویں پر دبزے پردے پھلےہ ہوئے تھے۔ باہر والے کو اندر کی کسی بات کا نہ تو علم ہوسکتا تھا، نہ احساس۔ تسر ی بات جو اس نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ جو شخص نلی کے پچھےے اونچی کرسی پر بٹا ہوا تھا وہ اس کے ملک کا باشندہ نہں تھا۔بٹھو ۔ اس نے خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔رحمت اس سے پہلے بھی کئی موقعوں پر اییو ہی الجھنوں کا شکار ہوا تھا۔ یہ الجھنںے ہی تھں کہ جو اسے ٹنسے رکھتی تھںب اور اس کے اعصاب پر بوجھ ڈالتی تھں ۔کتنے عرصے بعد لوٹے ہو؟اس نے رحمت کے پاسپورٹ کو الٹتے پلٹتے ہوئے پوچھا۔ اکسں برس بعد ۔خان اگلے سوال کے لےص اپنے آپ کو تاےر کرنے لگا۔اکسا برس بعد ؟ اتنے برسوں تک کا کرتے رہے؟ سوال مںک ہمدردی کا پہلونمایاں تھا۔ سوکھا میوہ۔۔۔خان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو ا۔سوکھا میوہ بیچنے کی غرض سے وہ یہاں سے ہندوستان گاہ تھا۔ پھر جو حادثہ پشھ آیا؟ جس کے نتجےا مںی اسے عمر قد کی سزاملی ۔ کاہ مں اس کا ذکر کردوں؟ تو پھر مرا اشمار خونوتں اور قاتلوں مںد نہ کرنے لگے؟ ہاں ہاں کہو۔۔۔رک کوںں گئے ۔ اس کے لہجے سے شفقت اب بھی ٹپک رہی تھی۔ خان نے ہمت باندھی اور بغر کسی ہچکچاہٹ کے سارا واقعہ سنا دیا۔ مو ے کی فروخت۔۔۔پھر خریدار کامو ے کی خریداری سے مکر جانا۔۔۔بعد حجت کے طشا مں آکر خان کا اسے چھرا مار دینا۔۔۔اور پھر مجھے بسا سال کی سزا ہوگئی ۔ یہ کہتے کہتے خان کی آواز بلند ہوگئی۔اوہ۔۔۔اچھا یہ بتاؤ تم نے اس دوران مںج اپنے گھر کوئی خط لکھا؟خط ہاں۔اس نے حامی بھری۔کئی لکھے۔ اپنی بوہی کو، اپنے بھائی کو، اپنی بیر کو وہ یاد کرنے لگا۔ اور اپنے دوست رمضان خان کو۔لکنا ہمارے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا کہ نھںک تمھارا کوئی خط نہںن ملا۔نہںر ملا۔ یہ کسےو ہو سکتا ہے؟ان کی جانب سے تمھںی کوئی خط ملا ؟نہں ۔خان پریشان ہو گام۔اور سنو تمھا را دوست رمضان اب یہاں پر نہںھ ہے۔ وہ کراچی جاچکا ہے۔ تقریباً سات برس ہوئے۔ وہاں وہ ٹیسشا چلاتا ہے۔ٹیساو چلاتا ہے؟ کراچی مںل ہے؟خان کو جسےے اس کی بات کا ینیا نہںی آیا۔ اس کے ذہنی افق پر رمضان کو بڑی دھندلی تصویر ابھر آئی ۔ رمضان اب یہاں نہںس ہے۔ کراچی میں ٹیکسی چلاتا ہے۔اس سنگین شہر میں ،جہاں لوگ چھرالے کر سینوں پر چڑھ بیٹھے ہیں اور بات بات مںی ماں بہنوں کو یاد کرتے ہںا اور وقت بے وقت علاقائی تعصب ، رنگ ونسل کا فرق اور فرقوں کے اعلیٰ اور ادنیٰ ہونے کا ذکر کرتے ہںا۔۔۔رمضان وہاں کسےق جی پاتا ہو گا ؟لکنن صاحب آپ کو یہ ساری باتںک کسے معلوم ہوئںں؟ اور مںا غلطی نہںے کر رہا ہوں تو آپ غرض ملکی ہں ؟وہ مسکرایا اور ٹبل پر رکھی ہوئی فائل خان کے سامنے اچھال دی۔ تمھاری تاریخ ہے۔مروی تاریخ؟ہاں تمھاری ہسٹری ، اس مں سب کچھ درج ہے تمہارے چار محمد یار خان مظفر آباد کے موضع گڑھی سدراں سے شہر کابل مںص کب وارد ہوئے ؟اچھا یہ بتاؤ کہ تمھںر یہاں کس کام سے بھجام گاک ہے۔کام سے؟ہاں۔۔۔لاںقت علی خان نے ۔نہںے جناب مں کسی کام سے نہںں آیا ہوں یہاں، اور لاچقت علی خان سے مرےے مراسم بڑے پرانے ہں۔ ۔ ہم دونوں نے اکٹھے ہی کا بل چھوڑا تھا۔ اب وہ دلی مںح کسی جگہ ملازم ہے۔ وہ مجھ سے کا کام لے گا۔ مں تو اپنی بوای، اپنی بچی اور اپنے بھائوہں سے ملنے آیا ہوں۔ ان کے ساتھ اپنی زندگی کے بچے کھچے دن گزار نے آیا ہوں۔ آپ کو۔۔۔آپ کو شاید مرنے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے جناب! مںں بہت معمولی آدمی ہوں۔رحمت نے اپنے تئںر یہ باتںآ تو بڑی زندہ دلی اور بڑے خوشگوار انداز مںی کہں لکن۔ دلی طور پر وہ رنجدہہ ہو چکا تھا۔ اسے فکر ہونے لگی تھی کہ کسی انجانی غلطی کی سزا نہ مل جائے اسے ۔ بہ ظاہر متنج اور سنجدکہ نظر آنے والے اس چوڑے چکےی شخص سے اب وہ خوف محسوس کرنے لگا تھا۔اچھا یہ بتاو کہ تم کبھی اس کے دفتر بھی گئے ہوئے ؟ خان کے لے اس کے سوالات نا قابل برداشت ہوتے جارہے تھے۔اسے محسوس ہورہاتھا کہ وہ بخار مںئ تپ رہا ہے اور کوئی لاؤڈ اسپکرہ اس کے کانوں سے لگائے چیخ رہا ہے۔بس جناب بس کےخا ۔ کل کے لےا بھی کچھ اٹھار کےیے اور اس وقت مجھے اپنے گھر جانے دیےوں۔ آپ کو ں مجھ پر شک کر رہے ہںب؟مںج وہی رحمت ہوں کہ جس کی زندگی کا ایک طویل حصہ اس سرزمنی پر گزرا ہے۔ یہ مروا وطن اور مرسی امنگوں کا گہوارہ ہے۔ یہ کہ کر رحمت کرسی سے اٹھا۔ کرسی الٹ گئی۔ رحمت پراب اتنی ہبتش طاری ہو چکی تھی کہ اسے خاںل بھی نہ آیا کہ وہ الٹی ہوئی کرسی کو سد ھا کر دے۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے کمرے سے باہر چلا آیا۔ آفسرر نے ٹبلہ کے داہنے کونے پر نصب بٹن دبایا۔دو بارہ فوجی کمرے مں داخل ہوئے۔اس پر نظر رکھو اور کل دس بجے یہاں پھر پہنچنے کی ہدایت دو۔وہ اپنی ایڑیاں بجا کر مجسموں کی طرح پلٹے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی کمرہ ایک ویران مقبرے مںت بدل گاح۔رحمت کو اپنا مکان تلاش کرنے مںے دشواری ہو رہی تھی ۔ اس بیس برس کے عرصے مںب سب کچھ بدل چکا تھا۔ ماحول بھی اور منتظر بھی۔ درخت اکھاڑ دیے گئے تھے۔ کچے پکے مکان ڈھادیے گئے اور ان کی جگہ کنکریٹ کے مکعب تعمرل کر دیے گئے تھے۔ دور دور تک کوئی حصہ کھلا نظر نہ آتا تھا۔ شانے سے شانہ لگائے مکانوں کا ایک سلسلہ ساتھا۔دو چار جگہوں پر پوچھتا پچھار تا آخر کار رحمت اپنے مکان کے دروازے پر پہنچ گاے۔ اپنوں سے ملنے کی بے چیںب کے سبب اسے سانس لنےر مںچ دشواری ہونے لگی۔ بیس برس پہلے کے تمام واقعات اس کی نظر مںہ گھومنے لگے۔ اسے وہ خط یاد آیا جو ہندوستان پہنچتے ہی اسے اپنے بھائی کی جانب سے ملا تھا۔
برادر عزیز! اللہ تعالی کے کرم سے تمھارے ہاں چاندی لڑکی پدکا ہوئی ہے۔ بھابی خرھیت سے ہںہ اور تمھارے سلسلے مںا بے حد فکر مند رہتی ہںز۔ تم نے اپنے ہونے والے لڑکے یا لڑکی کے جو دو چار نام ہمںہ بتائے تھے، ہم نے انہی مںے سے ایک نام تمھاری بیدر کا منتخب کان ہے۔ ارجمند بانو ، اپنا احوال بہ تفصلہ ہمںئ لکھ بھاا ش۔اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے رحمت نے دروازے سے لٹکتی ہوئی زنجرککھٹکھٹادی۔کون؟کوئی زنانہ آواز اندر سے آئی۔مںے ہوں۔رحمت سوچنے لگا یہ مرری بیال کی آواز تو نہں؟؟ اپنے گھر مں کوئی اجنبی آواز کسےے گونجے؟ اب وہ جوان ہو چکی ہوگی۔ ظاہر ہے اس کی آواز کو مںت کوئں کر پہچانوں؟ لکنا رحمت کے کان مںا جسے کوئی سرگوشو ں مںل کہہ رہا تھایہ مرای بیرح کی آواز ہے۔ ارجمند بانو کی آواز۔مںئ۔۔۔مں کون؟رحمت کو محسوس ہوا کہ اب آواز دروازے کے بہت قریب سے آئی ہے۔ بے اختابرانہ طور پر رحمت کے منھ سے نکلا۔مںا ہوں مروی بیوا ، مںب ہوں ترما باپ رحمت۔گویا آسمان شق ہو گا۔۔ رحمت کو ایک مسرت آمزر پکار سنائی دی ۔ اب۔۔۔۔ با۔والہانہ طور پر وہ اس کے سنے سے چمٹ گئی۔ ابا کتنی دیر کردی تم نے آنے مںی!۔۔۔ کتنی دیر کر دی تم نے آنے مںب!۔۔۔ کتنی دیر کر دی تم نے آنے مںش!!رحمت اس کے سر پر ہاتھ پھررے جاتا تھا اور آنسو اس کی داڑھی مںم جذب ہوتے چلے جاتے تھے۔ یکے بعد دیگرے اس کی ملاقات اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ہوئی۔ بس برس کے عرصے مں۔ وہ اپنے بے شمار عزیزوں کو کھو چکا تھا۔ کوئی ہمشہ کے لےر اس جہاں سے کوچ کر گا۔ تھا تو کسی نے تلاش معاش مںا اپنا وطن چھوڑ دیا تھا۔ کوئی لام پر تھا! تو کوئی قدی مںل !! مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھایا گا ۔ برادری کے کم و بشت پچاس ساٹھ آدمی جمع تھے۔ وہ تمام اس کی خر یت دریافت کرتے رہے اور اس کے وطن واپس ہونے پر اپنی مسرت ظاہر کرتے رہے۔ روٹامں اس کی بیا۔، بھابی اور پاس پڑوس کی عورتوں نے سںکاور ۔ آب گوشت زینب نے پکا یا مرغے شرآ خان نے بھونے ۔ ان کی باتوں سے رحمت نے اندازہ لگایا کہ اب ایی دعوتں عنقا ہو چکی ہںو ۔ بڑی مشکلوں سے چزخیں دستا ب ہوتی ہںر۔ راشن پر اناج اور مٹی کا تلہ ملتا ہے۔ شکر کی بڑی قلت ہے۔ دبے سروں مںب اسے یہ بھی بتادیا گا کہ ساںسی فضانا سازگار ہے۔ رات مںر دروازے پر دستک دی جاتی ہے۔ پھر وہ شخص غائب ہو جاتا ہے یا اطلاع ملتی ہے کہ فلاں فلاں جگہ پردہ قدد کر دیا گات۔ آدمی رات کے قریب اس نے زینب کو چھوا۔کہےج۔۔ ۔ اس نے دھرپے سے کہا۔ تمھں مجھ سے کوئی شکایت تو نہںے ۔ رحمت نے اس کے بالوں مںی اپنی انگلیاں پھر یں۔ زینب کے سامنے گویا اکس برس کی تمام صعوبتںن اپنے بماےر اور مدقوق چہرے سے ظاہر ہوئںم۔ اس نے ایک ایک کو گنا، ہر ایک کو پہچانا لکنب رحمت کے ہاتھوں کو اپنے سنےی پر تھام کر انھں۔ فراموش کر دیا۔ کیںس شکایت؟ اگر ہو بھی تو آپ سے! کی ک باتں کر رہے ہںئ آپ !بڑی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ ان دونوں کو محسوس ہوتا رہا کہ اب وہ نہں بلکہ ان کی روحںی ایک دوسرے سے مخاطب ہںا اور ان کے جسم ایک دوسرے کو اپنی خوشبوؤں، اپنے لمس، اپنے انداز اور اپنی تپش سے پہچان رہے ہںر۔ فجر کی نماز کے لےا جب رحمت کو جگایا گاا تو اس نے دیکھا کہ ارجمند بانو نے اس کے لےش پانی گرم کر رکھا ہے۔ نار جوڑا کھونٹی پر لٹک رہا ہے۔ کھڑاویں غسل خانے کے باہر رکھی ہوئی ہں اور انگیھجم پر رکھی کیلا مںر سے قہوہ کی خوشبو منتشر ہو رہی ہے۔ ناشتے کے بعد رحمت نے حقے کا کش لای،ایک نظر زینب پر ڈالی جو قہقوہ کا فنجان ہاتھ مںک تھامے نہ جانے کاہ سوچ رہی تھی ۔ پھر اپنی بیا کو اس نے دیکھا۔ وہ چٹائی کی تونے ں مںے اپنے ناخن پھنسائے کچھ سوچ رہی تھی۔ رحمت کو یاد آیا کہ اس نے کلکتہ کے مو زیم مںو نور جہاں کی تصویر دییھو تھی اور اب اسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ تصویر فریم سے نکل کر اس چہار دیواری مں چلی آئی ہے۔وہ اپنے آپ کو دنا کا بڑا خوش قسمت آدمی سمجھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جسےک اس کا طویل سفر مکمل ہو گا ہے۔ وہ کٹھن راستوں، پہاڑیوں، دریاؤں اور وادیوں کو عبور کرتا اپنی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ اس نے پھر حقے کا کش لا ۔ خستہ اور اعلی تمباکو کا خوشبو دار دھواں سارے مںر پھلخ گات۔ رحمت کی پلکں سرور سے بوجھل ہوئں اور پھر جھک گئںا۔اسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی۔ارجمند نے پوچھا۔کون؟باہر سے آواز آئی۔ پولیس اونگھتا ہوا رحمت ہڑ بڑا کر یوں ہوش مںس آیا گو یا ہزاروں بھنسو ں نے اس کے گھر پر حملہ کر دیا ہو۔ آدھے گھنٹے کے بعد وہ اس متنر اور سنجداہ افسر کے سامنے اسی کرسی پر بڑا مؤدب بٹھا تھا۔
کسے۔ ہو خان؟ اچھا ہوں جناب ۔ خان نے پھیو مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ یہ جوڑا تم پر بہت جچ رہا ہے، ہندستان سے لائے ہو ؟ نہںں جناب۔ وہ اپنی مخمل کی واسکوٹ پر ہاتھ پھرٹ کر بولا۔مر ی بٹار نے سان ہے۔اچھا اسے تمھارا سائز کسے معلوم ہوا؟ یہ جوڑا تو ٹھکن تمھارے ناپ کا ہے۔جناب ، وہ اپنی ماں سے مررا قد اور مرتا ہار پوچھتی ، پھر مر ا تصور کرتی اور اپنے دھاںن سے کپڑے سیھا ۔یہ کسے ممکن ہے؟ افسر نے خوش گوار انداز مںا پوچھا۔ممکن ہے جناب۔ جب لگن سیر ہواور کام مں کوئی غرض پوشدیہ نہ ہو تو غبس سے امداد نصب ہو جاتی ہے۔یہاں کان پروگرام ہے تمہارا؟ پروگرام؟ہاں، یینا کہ تم یہاں کا، کرو گے؟کا کر سکتا ہوں مںو یہاں جناب، سوائے یاد الہی کے ، اس جسم مںا صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں باقی رہ گئی ہں؟۔ ساری قوت عمر نچوڑ چکی ہے۔اچھا خان ، اب یہ بتاؤ کہ لاوقت علی خان نے تمھںہ یہاں کسی کام سے بھجا ہے؟جناب مں آپ کو کل ہی بتا چکا ہوں کہ مروا اور لاسقت کا محض دوستانہ رشتہ ہے، ہم وطنی کا تعلق ہے، ہم نے ایک دوسرے سے اس کے علاوہ نہ کیھس کوئی غرض رکھی تھی ، نہ رکھی ہے۔خان تم ہم سے کچھ چھپارہے ہو ۔ خوب سوچ لو۔ نتائج تمہارے حق مںن برے ثابت ہوں گے۔ مںع چاہوں تو تمھںہ اس کمرے سے باہر نکلنے نہ دوں لکنس تم اپنے وطن کل ہی لوٹے ہو، اس لےں مجھے تمھں یہاں روکتے ہوئے افسوس ہوتا ہے۔ اب تم جاسکتے ہو۔رحمت اس رات اپنے بستر پر پڑا کروٹںک بدلتا رہا۔ اس کے کانوں مںج افسر کے الفاظ گونجتے رہے اور اس کی آنکھوں کی سرد چاندنی سے وہ جھلستا رہا۔ یہ افسر مراے پچھے کوگں پڑ گا ہے؟ اسے مجھ پر کوےں اعتبار نہںچ؟ اسے مجھ پر کوکں شبہ ہے؟ کا مںج اس سے کچھ چھپا رہا ہوں؟ نہںے کچھ بھی نہںو۔ کاپ مںا نے اس کی شان مں کوئی گستاخی کی ہے؟ نہںھ ، مںہ تو اسے صاحب اور جناب ہی کہہ کر مخاطب کرتا رہا۔ اسے یاد آیا کہ جو کرسی ہڑ بڑاہٹ مںک اس سے الٹ گئی تھی وہ اسے کھڑی کسےا بنا ہی کمرے سے نکل گار تھا۔ رحمت کو اب یہ واقعی گستاخانہ حرکت معلوم ہوئی ۔ کمر سے سے نکلنے سے پہلے اس نے اس افسر سے اجازت بھی نہں لی تھی اور نہ اسے رخصتی سلام کاے تھا۔ خدا کرے کہ اب وہ مجھے طلب نہ کرے۔ اس کے باوجو د سر راہ اگر مریی اس سے ملاقات ہوگئی تو مں ضرور اپنی اس غلطی کی اس سے معافی مانگ لوں گا۔تسلی دیتے ہوئے وہ اپنے آپ کو سمجھانے لگا۔ غری ملکی لوگ ہںف، آج آئے ہںی ، کل چلے جائںے گے، انھںت ہم سے کا لنار دینا۔ انگریزوں کی طرح تھوڑی ہی جم کر رہںج گے۔ اور پھر خود حفاظتی کی تدبرییں تو ہرکسی کو کرنی پڑتی ہں ۔ مجھ سے باز پرس ممکن ہے اس کی ایک کڑی ہو، لکنم اگلی سوچ نے ان تسکن بخش خارلات کی بساط الٹ دی۔ اسے یاد آیا، اس روز کہا جارہا تھا۔ ساکسی فضا نا سازگار ہے۔رات مںی کسی کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ یا تو وہ نابود ہو جاتا ہے یا خر ملتی ہے کہ فلاں فلاں جلا مںں قدگ کر دیا گای ہے۔نا دانستہ طور پر اس کے منھ سے آہ نکل گئی۔کاک بات ہے، آپ کی طبعتا تو ٹھک ہے؟زینب نے پر تشویش لہجے مںد پوچھا۔ا وں ۔۔۔۔ہاں کھڑکی بند کر دو، مجھے ٹھنڈک محسوس ہو رہی ہے۔ کھڑکی تو بند ہے۔ ٹھہریے مںی آپ کو ایک اور لحاف اڑھاتی ہوں۔زینب نے دوسر الحاف اسے اڑھا دیا۔پھر بڑ بڑائی۔یہ موئی بدروحں بھی تنگ کرتی ہںج ، اچھے بھلے انسان کو، آپ چاروں قل پڑھ کر کے سویا کریں۔وہ خود سورۃ الحمد کا ورد کرنے لگی۔فجر کی نماز اس نے خانقاہ سے لگی مسجد مںے ادا کی نماز کے بعد وہ خانقاہ مںھ داخل ہوا۔ فاتحہ دی، دعا مانگی۔ مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ چندلڑ کے خانقاہ مںی داخل ہوئے۔ انھوں نے اس اجنبی کو حرہت سے دیکھا۔ رحمت نے انھںی سلام کای۔ بچوں کے سروں پر ہاتھ پھر ا، پھر ایک کونے مںز جا کر بٹھک گاف۔خوف اس کے ذہن سے رفع ہو چکا تھا۔ اسے یہاں پہنچ کر بڑا سکون ملا تھا۔ وہ اپنے بچپن کی یادوں مںر کھو گان۔ جب وہ خانقاہ سے نکلا تو سورج پہاڑوں کے عقب سے ابھر آیا تھا۔ آسمان پر سرخی آمزن سنہری ساول بکھرا ہوا تھا۔ درختوں پر پرندے چہچہار ہے تھے۔ جب وہ پہاڑوں کی سمت آگے بڑھا تو اس کے قدم تختی پرلکھی تحریر نے جکڑ دیے۔ فارسی رسم الخط مںب جلی حرفوں مںے لکھا تھا لشکر اور خفی حرفوں مںا اس ممنوعہ علاقے مںہ داخلے پر پابندی کے احکامات درج تھے۔اپنے بھائی کے گھر ناشتہ کرتے ہوئے اسے معلوم ہوا کہ کثر تعداد مںی غرو ملکی فوجی وہاں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہں ۔ پکی بار کںا بنائی گئی ہںو اور کسی صورت مںو ان کے فوری انخلا کے امکانات نظر نہں آتے ۔ برادر تمہاری واپسی ناخوشگوار موقع پر ہوئی ہے۔ اللہ بڑا ہے، یہ غضب بھی ٹل جائے گا۔ رحمت بڑی دیر سے اسی کشمکش مں تھا کہ وہ اپنے بھائی سے اس باز پرس کا ذکر کرے یا نہ کرے۔ کرے تو بھائی اس کی کام مدد کر سکتا ہے؟ اس کا کوئی واقف کار اگر کسی بڑے سرکاری عہدے پر ہوگا تو ممکن ہے کہ وہ اس غر ملکی افسر کو رحمت کے نکم سردت ہونے کی ضمانت دے پائے۔ لکنر رحمت نے بھائی کی رحمت دینے سے اپنے آپ کو باز رکھا۔ بغل گرو ہو کر جب وہ اپنے گھر پہنچا تو اس نے دو باوردی سپاہوسں کو اپنا منتظر پایا۔ دو گھنٹے کے جاں سوز انتظار کے بعد اس افسر کے کمرے مںب اس کی طلبی ہوئی۔ پولس اسٹشنب کے مہب آسا ماحول اور عمارت کی سنگیار نے اسے اندر ہی اندرسکٹری سمٹ دیا تھا۔ کمرے مںک داخل ہوتے ہی رحمت نے اس افسر کو بڑے احترام سے سلام کاو۔ اس وقت تک کرسی پر نہںے بٹھا جب تک کہ اس افسر نے اسے بٹھنے کا اشارہ نہ کا ۔حضور اجازت دیں تو ایک بات عرض کروں ۔ رحمت نے ہاتھ دل پر رکھتے ہوئے کہا۔ افسر نے اثبات مںر گردن ہلائی۔جناب عالی، نادانستگی مںگ مجھ سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے۔ مں اس کی معافی چاہتا ہوں۔ییل کہ تم آج چھاؤنی کی طرف گئے تھے۔نہںل جناب، یہ بات نہںہ۔ مںس ٹہلتاہوا ادھر کو نکل گا تھا۔ مںا تو کچھ اور کہنے جا رہاتھا۔ لا قت علی خان کا سندیسہ تم نے اپنے بھائی کو پہنچا دیا۔نہںئ جناب، لا قت نے مجھے کوئی سندیسہ اپنے بھائی کے لےو نہںا دیا تھا مںا تو حضور رحمت کے گلے مں گرہ پڑنے لگی۔ اس نے اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھرای۔ اس کا دماغ تزکی سے سوچ رہا تھا۔ یہ کاگ مںگ تو اپنی ایک معمولی سی غلطی کی معافی طلب کرنے لگا تھا، اس نے دوالزام ساتسی نوعتخ کے مجھ پر اور تھوپ دیے۔ اسے کواں کر معلوم ہوا کہ مں آج چھاؤنی کی طرف جانکلا تھا، اور اپنے بھائی سے ملاقات کا علم بھی یہ رکھتا ہے۔ کای اس نے اپنے آدمی سائے کی طرح مر ے پچھے لگارکھے ہںھ؟ اور تو کوئی ذریعہ نہںل ہوسکتا اس کے پاس۔ یہ عزرائل کی طرح مر ے تعاقب مںط ہے۔ اس کے ذہن سے یہ شبہات کسےا دور کر سکتا ہوں؟ حق گوئی ہی مر ے کام آسکتی ہے۔ حضور، معاف کےے آ گا، ذرا ذہن بھٹک گا تھا آپ کی باتوں سے ۔ دراصل مںا یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ اس روز نادانستہ طور پر یہ کرسی الٹ گئی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے صاحب کہ مںا بوکھلا گار تھا اور اسی بوکھلاہٹ مںا مجھ سے یہ نادانی بھی ہوئی کہ مںھ نے نہ اسے سد ھا کاس اور نہ آپ سے رخصت مانگی، بلکہ بے امتا زی سے چلا گام۔ صاحب مں نے اس قصور پر بہت غور کاک۔ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی ۔ مںہ واقعی آپ کی دل آزاری کا قصور وار ہوں ۔ گستاخ ہوں، بے ادب ہوں، آپ مجھے معاف فرما ئںا۔ مجھے بخش دیں، یہ کہتے کہتے رحمت نے ہاتھ جوڑ لےح اور غرم ارادی طور پر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ افسر کر سی پر جھول رہا تھا۔ اس کی پشت کا بوجھ کرسی پر تھا اور کرسی پچھلی دو ٹانگوں پر کھڑی تھی۔ اپنے کولہوں کے لو ر پر یہ اپنا بوجھ آگے پچھے کےر چلا جارہا تھا۔ کچھ سوچ کر اس نے ٹبلٹ مںھ نصب بٹن دبایا۔ وہی باوردی جوان کمرے مںو فوجی سلام کرتا داخل ہوا۔ اس نے غرے زبان مںہ کہا۔ایک دور وز مںن یہ ٹوٹ جائے گا۔ فکر کی بات نہںو ، اب اسے گھر جانے دو ۔ پھر اس نے رحمت کو پشتو مںس مخاطب کاز۔اب تم جا سکتے ہو۔رحمت کو توالی سے جب گھر کی طرف چلا تو اسے احساس ہوا کہ اپنے وطن واپس ہونے کے بجائے وہ کسی اجنبی جگہ پہنچا ہوا ہے۔ یہ اس کا وطن کسے ہو سکتا ہے؟ یہ کونے کونے پر کھڑے باوردی سپاہی ! یہ گلی کوچوں مںت ٹہلتی جیپیں! یہ سڑکوں پر مٹرگشت کرتے فوجی ٹرک ! یہ قدم قدم پر پہرے !یہ زہر ناک فضا کاو اس کے اپنے شہر کی ہے؟ نہںک یہ تو کوئی دیار غرک ہے ! یہ مر ا وطن نہںا ہو سکتا اچانک اس کی نظر ایک بہت بڑے اشتہار پر پڑی۔ اس نے اسے غور سے دیکھاسنہری بالا ں ، درانتی کا ہالہ اس کی گردن مںر تھا اور ہتھوڑا ، سرخی۔ پل بھر کے لےر اسے اپنی شبیہہ ان سنہری بالویں کی جگہ یوں نظر آئی کہ درانتی کا ہالہ اس کی گردن مںو تھا اور ہتھوڑا سر پر ۔ یوں ان دونوں کی ضربوں سے وہ لہولہان ہو گام، سرخی سارے مں پھلد گئی۔ایک گھنٹے کے بعد اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے بستر کے گرد زینب ، ارجمند، بلقس ، شاہ بانو،داؤد، الاےس اور حسنہی کو کھڑا پایا۔ ان کے چہروں سے فکر مترشح تھی اور آنکھوں سے غم ! وہ دونوں کہنیوں کے سہارے بمشکل اٹھا۔ ارجمند نے اس کی پشت سے تکےن لگا دیے اور وہ ان کے سہارے بٹھح گاک۔ اس نے سکھوں کے چہروں کو پڑھا پھر مسکرایا۔تم سب یوں فکر مند نظر آ رہے ہو کہ جسے مراا وقت آخر آپہنچا۔ ذرا سا چکر آ گا تھا۔ مجھے معلوم ہے مںا۔۔۔۔ مں راستے مںن بٹھ گاا تھا۔
پھر اس نے اپنے آپ سے کہا۔نہںس مںا تو گر پڑا تھا۔پھر وہ کچھ دیر کے بعد بولا۔ رات مں ٹھکڑ سے نند نہںا آئی تھی ممکن ہے دن مںس آگئی ہو ۔۔۔اب کوئی فکر کی بات نہں ۔ مجھے تھوڑا سا قہوہ مل جائے تو اس نے ارجمند کی طرف دیکھا، پھر زینب سے مخاطب ہوا۔تم ذرا حقہ بھر دینا۔آدھی رات جب گزر چکی تو اس نے زینب کو جگایا۔ دھرکے دھردے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اسے تاکدا کی کہ ارجمند کی شادی کسی محنت کش نوجوان سے کرنا، پڑھے لکھے سمجھدار آدمی سے۔ دولت مند سے ہرگز مت کرنا۔ بھائی سے حجت نہ کرنا کوانکہ وہی سر پرست اور خبر گر ی کرنے والا ہے۔ پاس پڑوس والوں سے اپنوں کی شکایت نہ کرنا کہ ییی کا نا پھوسی کرتے ہںا اور پھٹے مںے پاؤں ڈالتے ہںد۔ مر ی فکر قطعی نہ کرنا، مںل جہاں بھی رہوں گا خرا خر یت سے رہوں گا۔ اپنے حالات سے مطلع کرتا رہوں گا اور جوں ہی یہاں سے بلاٹلی حاضر ہو جاؤں گا۔ اللہ بڑا کریم ہے، اس کی ہر بات مںی مصلحت پوشد ہ ہے۔ تم نے زندگی بھر صبر کاپ، مرای جدائی کے کڑے کوس کاٹتی رہںں ، اب پھر ویسا ہی مرحلہ در پشط ہے۔زینب اپنی ہچکا ں روک رہی تھی اور اس کے آنسوؤں سے رحمت کا گریبان تر تھا۔ صبح کی سر کے بعد جب مںی گھر لوٹا تو اپنے دروازے پر مںن نے ایک شخص کو کمبل اوڑھے اکڑوں بٹھا پایا۔ مجھے حر۔ت ہوئی کہ یہ کون شخص ہے جو سویرے سویرے آ پہنچا ہے۔ مروے قریب پہنچنے سے پہلے ہی وہ شخص کھڑا ہو گاا۔ دھول مںر اٹا ہوا، بوسدنہ لباس مں ملبوس تھکن اور نندے سے نڈھال رحمت۔ارے ۔۔۔رے رے ۔۔۔تم کب آئے؟مںن نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ہاں صاحب سب ٹھکح ہںت۔ بٹار جوان ہو چکی ہے۔ بویی ذرا بوڑھی ہوگئی ہے۔ بھائی کے گھر دو بٹے پد ا ہوئے ہںج۔ اس کا کاروبار ٹھکت ٹھاک چل رہا ہے اور۔۔۔۔مںڑ نے نچےن تالے مںئ کنجی ڈال کر دروازہ کھولا۔ ملازم کو جگا کر اسے چائے اور ناشتہ تاحر کرنے کی ہدایت دی۔ غسل خانے مںہ جا کر خان کے غسل کا خود انتظام کاک اور پھر جا کر مں نے میاح کے کمرے مںر جھانکا۔وہ اپنی بی۔ر کو سنےد سے چمٹائے سورہی تھی۔ خان نے نہا دھو کر مرمے ساتھ ناشتہ کا ۔پھر اپنا احوال سنانے لگا۔
اور صاحب آخری پہر مںج اپنی بوای کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے وطن سے بھاگ نکلا ۔ پہاڑوں اور گھاٹویں کو پھلانگتا، درہ خبر سے گزرتا ، سرحدی چوکواں پر فوجوےں اور افسران کی منت سماجت کرتا ،ان کے ہاتھ پاؤں پڑتا، یہاں پہنچا ہوں۔مںا بکھرے دل سے اسے تسلی دینے کی کوشش کرنے لگا۔ مرفی سمجھ مںج نہں آتا تھا کہ اس سے کاہ کہوں؟ کسے۔ کہوں؟ کوےں کر کہوں؟مںے نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھاما اور بولا ۔دیکھو رحمت تمھاری رخصتی کے بعد سے مںے دکھی دکھی سا ہو گاد تھا۔ کواں؟ مجھے معلوم نہںا۔ اب تم آئے ہو تو مر ے دل کا بوجھ ہلکا ہوا ہے۔ پتہ نہںس تمہارا مرےا کاو سمبندھ ہے؟ تم کون اور مںی کون؟ ممکن ہے بھگوان نے تمھںے مر ی سنگت کے لےم بھجااہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے جوںن کے آخری دن ساتھ ساتھ گزارنا ہی ہمارا مقدر ہوا گھر تمھارا ہے، تم یںے رہو۔ مںہ اکلےہ جتےو جتےس اکتا گاف ہوں۔پتا جی یہ صبح آپ کس سے باتںی کر رہے ہںا؟یہ کہتے کہتے می ے اپنی بچی کو گود مںے اٹھائے کمرے مںے داخل ہوئی۔رحمت یہ کل ہی اپنے سسرال سے آئی ہے۔ارے کابلی والا۔۔۔تم ؟میمی کی باچھںو کھل گئںگ، اور کابلی والے نے بڑھ کر اسے گود مں اٹھالا ۔کابلی والا مجھ سے پہلے اخبار دیکھنے کا عادی ہو چکا ہے۔ اب وہ مجھ سے سا سی مسائل پر تبادلہ خامل بھی کرتا ہے اور روزانہ پوچھتا ہے۔صاحب مراے اخبار مںی تو خبر نہںو چھپی ممکن ہے آپ کے اخبار مں چھپی ہو۔مںں انجانے مںر پوچھ بٹھتاھ۔ کون سی خبر خان؟کابلی والا گمبیھر لہجے مں کہتا۔اپنے دیس کی۔۔۔وہاں کے موسم کی۔مںگ کہتا۔نہںا رحمت اخبار مںب وہاں کی کوئی خبر نہںم ممکن ہے کہ وہاں کا موسم اب بھی ناخوشگوار ہو ۔کئی دن سے رحمت وہ مصور کتاب اپنے ساتھ رکھنے لگا ہے۔ گویا وہ کوئی عساائی راہب ہو اوریہ اس کی بائبل ! ایک طبعی کمزوری سی پدما ہوگئی ہے، اس مںے !وہ بٹھےھ بٹھے سو جاتا ہے۔ نندک مں اس کی انگلیاں کتاب سے کھلا کرتی ہںز، جسےا وہ کوئی ساز ہو، جس کے تاروں کو چھو کر اسے سر یاد آ جاتے ہوں۔ کبھی کبھار اس کے سوئے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ سی پھلن جاتی ہے، گو یا اسے کوئی دل آویز نغمہ یاد آ گا ہو۔ مںس سوچتا ہوں کہ زندگی با وجود اپنی پد گووں اور الجھاؤں کے سختو ں اور ناکامو ں کے، کس قدر پر فریب اور پر کار ہے!با مراد اور بامعنی ہے!
مصنف:انور قمر