دلچسپ لوگ عجیب پیشے

0
329
urdu-story
- Advertisement -

دنیا میں جہاں کہیں آتش فشاں پہاڑپھٹتا ہے اور سرخ دہکتا ا ہوالاوا اپنی زہریلی گیس کے ساتھ اس کے دہانے سے باہر آتا ہے۔ متعلقہ حکام کو ہیرون تازیف کی ضرورت محسوس ہوتی ہے‘‘ جوآتش فشاں پہاڑوں کا ہیرو’’ کے نام سے مشورہے بیرحون تازیف کی عمر۶۵ برس ہے وارسا میں پیدا ہوامگرآج کل پیرس کے نیشنل سنٹر آف سائنٹفک رلسیرچ سے منسلک ہے۔ گذشتہ تیس برس میں ہیرون تازيف نے انٹارکٹا سے جاپان تک کم وبیش ہر آتش فشاں کا اس وقت معائنہ کیا اور اس کے کھولتے ہوئے لاوے میں اتراجب ہم لوگ علاقہ خالی کر کے فرار ہو رہے تھے۔ ہیرون تازیف ہیلی کاپٹر کے ذریعے متعلقہ چوٹی تک پہنچتا ہے۔اورپھرآ ہنی رسے کے ذریعے دہانے کے قریب کودجاتا ہے ، ایسے مخصوص لباسی میں جس پرآگ کا اثر نہیں ہوتا۔ آکسیجن ماسک کےذریعے سانس لیتے ہوئے ہیرون صرف لاوے کے نمونے جمع کرتا ہے بلکہ اپنے تجربات اور تحقیق کی بنا پر یہ اندازہ لگاتا ہے کہ آتش فشاس سے پھونٹے والا پتھر اور مختلف دھاتوں کا یہ دہکتا ہوا جنہم کب سرد ہوگا اور لاواکتنی دور تک جائےگا ۔وہ اپنے ساتھ وائرلیس بھی رکھتا ہے۔ اور کام ختم ہوجائے تو ہیلی کاپٹر والوں کو مطلع کر دیتا ہے جو اسے اٹھانے جاتے ہیں یوں تو دنیا میں روزی کمانے کے لئے لوگ ہر قسم کے پیشے اختیار کرتے ہیں لیکن مغرب کی سائنسی دنیامیں عام خیال یہ ہے کہ ہیرون تازیف کا پیشہ مشکل ترین ہے کسی بھی وقت وہ دہکے ہوئے سیال مادے میں غرق ہوسکتا ہے اوراس کاحفاطتی لباس خراب ہوجائے یا کام چھوڑ دے تو اس کی واپسی ناممکن ہو سکتی ہے تاہم اب تک ہیرون تازیف ہرمہم سے کامیاب لوٹا ہے اور جب اس کے دوست مشورہ دیتے ہیں۔کہ ۶۵ برس کی عمر میں ان خطرات سے نہیں کھیلنا چاہیے۔تو وہ ٹھنڈی سا نس لے کرکہتا ہے:اگر میں نے یہ کام چھوڑ دے تو ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ آپ نہیں جانتے کہ جب میلوں تک آئی اور دھویں کے سوا کچھ نہیں ہوتااورمیں فطرت سے تنہالڑتا ہوں مجھےکس قدر رومانی تسکین ملتی ہے اور جب میں اپنی معلومات کی بناپرکئی سو یابعض اوقات کئی ہزارانسانی جانوں کوبچانے میں کامیاب ہوجاتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتاہے کہ میری عمر کے کئی سال بڑھ گئے ہیں۔

ہیرون تازیف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہےکہ اس نے برس ہابرس کی مشقت کے بعد اپنے جسم کو اتنا مضبوط بنالیاہے کہ انتہا ئی گرمی ہو یا انتہائی سردی وہ چاق اور چوبند ر ہتا ہے زائرے جیسی گرم ریاست میں زندہ آتش فشاں کا معائنہ کرنے کے بعد وہ سیدهادنیا کے برف پوش براعظم انٹارکٹا میں پہنچا جہاں آتش فشاں تو موجود ہیں اور بعض اوقات ان میں سے لاوابھی نکلتا ہے۔ لیکن برف کی تہہ اس قدر موٹی ہوتی ہے کہ پگھلا ہوا سیال ماده برفانی تودوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو خوفناک شکلوں میں دور سے نظر آتےہیں ان برفانی تودوں کی کھدائی کی جائے تواندر سے دھات کے منجمدہیولے برآمد ہوتے ہیں۔ہیرون تازیف کومتعددسائنسی اور تحقیقی اداروں نے اعلی اعزازات دیتے ہیں۔امریکی رسالہ لائف نے گزشتہ ماہ اس پر ایک خصوصی فیچر شائع کیا۔تازیف پیشے کے اعتبار سے آتش فشانوں کےدہکتے ہوئےجہنم میں کودتا ہے تو چارلس کونٹے سمندر کی گہرائیوں میں اتر کرعجیب و غریب کارنامے انجام دیتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے غوطہ خوروں کی کمی نہیں جو پانی کی سطح کے نیچے سپیاں گھونگھے اور دیگر حشرات کے علاوہ سمندری پودے جمع کرتے ہیں لیکن کونٹے جس کا تعلق نیویارک کے شب یارڈ سے ہے۔غرق شده جہازوں کے بند دروازے اورمقفل الماریاں کھولنے کا ماہرہے جن میں قیمتی اشیاء ہیرے جواہرات باضروری دستاویزات بند ہوں ۔ کوٹنے کا باپ فرانسیسی تھا۔ اور ماں امریکن اس نے ایک لوہار کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ مگروه ایک ماہر غوطہ خوربھی تھا۔ جلدی پانی میں ڈوبے ہوئے جہازوں میں چیزیں نکالنے کادھنداکرنےلگا یہی نہیں اس نے ہرقسم کے سیف مقفل الماریاں اوربنددوازے کھولنے میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ ایک انشورنس کمپنی نے اس کے ہاتھوں کی دس انگلیوں کا بیمہ دس لاکھ ڈالر میں کیا۔ آج کل اس کمپنی کا ڈاکٹر ہر وقت کونٹے کے سر پر سوار رہتا ہے۔اور جب کبھی اسے پانی میں اترنا پڑتا ہے۔ڈاکٹر کی جان آفت میں آجاتی ہے۔جتنی دیر کوٹنے پانی میں رہے، ڈاکڑ وائرلیس کے ذریعے مسلسل یہ پوچھتارہتاہے کہ تمہیں چوٹ تونہیں آئی۔

چند برس پہلے ایک ایرانی پہلوان ہندوستان آیا۔ جوجیپ کوتنہا أٹھانے کی طاقت رکھتا تھا۔ وہ جیپ کو اپنے سیٹ پر سے گذار سکتاتھا۔اسے دانتوں سے کھینچ سکتاتھا۔اور چلتی ہوئی جیپ کوروک سكتاتھا اس پہلوان نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں اپنے کارنامے دکھائے۔انسانی جسم کو اس حدتک سخت اورمضبوط بنا لینا واقعی جان جوکھوں کا کام ہے اس میدان میں دنیا کے مختلف حصوں میں بے شمار بازی گر چھوٹے چھوٹے کارنامے دکھاتے ہیں تاہم کوئی شخص کیلی فورنیاکےساٹھ سالہ رچرڈ کا مقابلہ نہیں کرسکا جس نے اپنے جسم کو فولاد بنارکھا ہے۔ پندرہ آدمی لکڑی کا ایک شہیتراس کے پیٹ پر رکھ کر پوری قوت سے آگےدھکیلتے ہیں لیکن بوڈھا اپنی جگہ سے ایک انچ حرکت نہیں کرتا۔سان فرانسکو کے پہلوانوں کا جسم کے ہر حصے پر مکہ زنی کرتا رہا مگر ر چڑڈنے ہر حملہ بڑے ہی صبر سے برداشت کیا ایک لوہارنے رچڑڈ کوزیر کرنے کےلئےآہنی ہتھوڑے کا استعمال کیا اور نصف گھنٹے تک اس کے پیٹ پر ہتھوڑابرساتا رہامگر خودپسینہ پسینہ ہونے کے باوجودبوڑھےرچڑڈکو فراش تک نہ دے سکا ۔ رچرڈ کاقدچھ فٹ چارانچ اور وزن تین من ہے۔ اس کی گردن اٹھارہ انچ موٹی ہے۔اورچهاتی پچاس انچ موٹی۔ تین سال قبل اس کے چیلنج کے جواب میں بحریہ کے ا نجیزوں نے لانگ بیج کے مقام پرساڈھے بارہ فٹ لمبی اور تیس من وزنی ایک توپ بنائی جس میں تیس من وزنی ایک گولہ ڈالا جاتاتھا اس توپ کے ذریعے پانچ ہزار پونڈ کی طاقت سے چار فٹ کے فاصلے پر رچرڈکے پیٹ میں گولے پر گولہ بارا گیا کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اس کے پرخچے اڑجاتے مگرر چرڈمسکراتا رہا۔ یہ مشق ختم ہوئی تو اس نے کہا کولے کی ضرب کا یہ اثر ضرور ہوتا ہے میں سر سے پاوں تھرتھرا جا تاہوں اورمیرے کانوں میں گھٹیاں یخنے لگتی ہیں بعدمیں ڈاکٹرں نے اس کے جسم کامعائنہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ رچرڈکے پیٹ کی اندرونی تہہ موٹی ہے ۔ اور ربڑ کی طرح غیر معمول طور پر لچکدارہے پسلیوں اور پٹھوں پر اسفچ کی طرح کے سخت غلاف سے چڑھے ہیں اور یہ سب عناصر مل کر اس کی جلد کو ناقابل تسخیر بناتے ہیں۔

عجیب و غریب جسمانی صلاحیت رکھنے والے افراد میں شکاگو کےپکی جونز کا شماربھی ہوتا ہے۔ اس کی عمر پنتالیس برس سے اور وہ گذشتہ تیس برس سے امریکہ کے مختلف سر کسوں میں آگ چاٹنے کا مظاہرہ کرتا ہے اس کی زبان کا اگلا حصہ اس قدر جل چکا ہے کہ اس پر آگ ہی نہیں کسی قسم کے ذائقے کا اثر نہیں ہوتا۔ البتہ پچھلے حصہ ابھی تک حساس ہیں گرمی اور سردی نے علاوہ پکی جونز اچھے یا برے کسی قسم کے ذائقے سے لطف اٹھانے کے قابل نہیں رہا ۔سرکسوں میں آپ کو مختلف قسم کے لوگ نظر آئیں گے۔ کرتب دکھانے والوں کے علاوہ جنہوں نےیہ فنون محنت سے سیکھے ، ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ناقص الاعضاء ہوتے ہیں یعنی ماں کے پیٹ ہی میں بعض عجیب و غریب تبدیلیاں ان کے جسموں میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ہاں فلموں اور ٹھیٹروں میں آپاپنے چھوٹے چھوٹے قد کے بونے ضرور دیکھے ہوں گے۔

مغرب میں جہاں ٹریڈ یونین زوروں پر ہے نیویارک ایسا شہرہے جس میں ایسے ناقص الاعصناء لوگوں کی انجمن موجودہے اس انجمن کے رکن مختلف سرکسوں اور ٹھیٹروں کے علاده ہالی وڈ کی فلموں میں بھی کام کرے ہیں مسٹر پگ نامی ایک شخص انجمن کا صدر ہے جس کے چہرے کی ساخت مکمل طورپرسور سے ملتی ہے ۔ وہ سور کی کھال پہن کر سرکسوں میں تماشائیوں کا دل بہلاتا ہے ۔ سیکریڑی جنرل ایک ناقص الاعصنا شخص ہے جس کی باقاعدہ دم موجودہے۔انجمن کے دوسرے ارکان میں لڈونڈا نامی ایک لڑکی بھی ہے۔ جس کا قد ایک فٹ تین انچ ہے۔ مگرعمر ۱۹ برس ہے۔ اس نے ایلمٹ نامی انجمن کے ایک اور رکن سے شادی کر رکھی ہے جس کی جلد مگرمچھ کی جلد سے مشابہہ ہے ۔ دونوں کو خدانے ایک بچے کی نعمت سے نوازا جس کی عمر چار برس ہے اور جو ہر اعتبار سے صحت مند ہے ۔ اس جوڑے کا ایک دوست گلا سکو میں ہے جس کا قد اٹھ فٹ سات انچ ہے وہ ہر وقت اپنے ساتھ تین بالشیتے رکھتا ہے جن میں سے کوئی بھی ڈیڑھ فٹ سے زائد نہیں چاروں دوست برا بھلاگا کر روزی کماتے ہیں۔ لوگ گاناسننے کم اور انہیں دیکھنے زیادہ آتے ہیں۔ایک اور بونا جیری آسٹن ہے جو ہالی وڈ کی فلموں میں بھی کام کرتا ہے ۔

- Advertisement -

پڑوسی ملک پاکستان میں آپکوچھوٹے سر والے بعض لوگ مل جائیں گے جنہیں عرف عام میں دولے شاہ کے چوہے کہاجاتا ہے ۔ گجرات میں دولے شاہ کے مزار پرسال میں ایک مرتبہ یہ چوہے ملک کے مختلف حصون سے آن کر جمع ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بے اولاد جوڑے اس مزارپر منت مانگتے ہیں کہ ان کے ہاں بچہ ہواتو اسے مزار پر بطور نذرانہ پیش کریں گے اوراس منت کے نتیجے میں ان لوگوں کے ہاں پہلا بچہ اس قسم کا چوہا، پیدا ہوتا ہے۔ اس روایت میں کہاں تک حقیقت ہے اس بحث میں الجھے بغیر ہم آپ کو یہ بتادیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں بھی ایسے ہی بچے اور بڑے نظر آجاتے ہیں۔ نیروبی میں ان کی ایک سوسائٹی بھی ہے جہاں مخروطی انداز میں اوپرکوجاتی ہوئی گردن کےسرےپرایک چھوٹا ساسر رکھنے والے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مستقبل سے بہت خوف زدہ رہتے ہیں کیونکہ جوں جوں ان کی عمر بڑھتی جاتی ہے ان کی طاقت گھٹنے لگتی ہے۔ اور آخری عمر میں تو وہ ہل بھی نہیں سکتے۔چند برس پہلے اس سوسائٹی کے عہدیداروں کے خلاف قتل کے الزام میں مقدمہ بھی چلا کیونکہ یہ شکایت ملی تھی کہ وہ اپنے بوڑھے ارکان کو خاموشی سے ختم کر دیتے ہیں تاہم عہدیداروں نے اپنے وکیل کے ذریعے اچانک مرنے والوں کوایسی تحریریں پیش کردیں جن میں انہوں نے تسلیم کیا تھاکہ وہ اپنی زندگی خود اپنے ہاتھوں ختم کر رہے ہیں تاریخ میں آیا ہے کہ پندرھویں صدی عیسوی میں چین کا ایک شخص ہش ہشین کے نام سے ایشیائی ممالک میں بہت مشہورہوا اس شخص کی جلد اس قدر شفاف تھی کہ اس میں سے ہڈیاں پسلیاں اور رگوں میں دوڑ تاہواخون صاف نظرآتاتھااس نے فلسفے اور طب میں نام پیدا کیا۔ چین کے غجائب گھروں میں محفوظ کتابوں میں اس کی قلمی تخريریں موجودہیں بعض لوگ خود کو جان بوجھ کر ناقص الاعصنار بنالیتےہیں مثلاہمارے ہاں بعض مجرم پیشہ افرادچھوٹے بچوں کے ہاتھ پاوں توڑ کر انہیں بھیک مانگنے پرلگادیتے ہیں۔ خود ساختہ عجوبوں میں گریٹ آدمی کا نام مغرب کی دنیا میں بہت مشہور ہے دوسری جنگ عظیم کےخاتمے پر اس سابق میجر کو فالج نے آلیا اور اس کے جسم میں اتنی طاقت نہ رہی کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے کوئی اسے سہارا دینے والا توتھا نہیں تنگ آکراس نے سرکسوں کے لئے انسانی اعضا تبدیل کرنے والے ایک ڈاکٹر سے مشورہ کیا جس نے اسے زیرا بنانے کاتہیہ کرلیا ۔ میجر ریٹائرڈ آدمی کے پانچ سو آپریشن کئے گئے۔ اور اس کے سارے جسم پر چیرپھاڑ کرکے پلاسٹک کی پیٹیوں سے دهاریاں بناتی گئیں۔ بعد ازاں اس نے سرکسوں میں کام شروع کیا۔ ہالی وڈ کے ادارے ٹوئٹتھ سنچری فوکس نے اومی کو ایک فلم میں بھی پیش کیاتھا۔

عجیب الخلقت افراد کی ایک اور مثال دوجڑواں بھائی چینج اور اینگ بھی تھے۔ جنہیں ایک برطانوی تاجر نے دریا میں ڈوبنے سے بچایا تھا ۔ ان کے ماں باپ کا پتہ نہ چل سکا اور گمان غالب تھا کہ ان کے جسم چونکہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ۔ لہذا ماں باپ نے خوفزدہ ہوکر انہیں ایک ٹوکری میں رکھا اور ٹوکری دریا میں دھکیل دی ۔ڈاکٹروں نے انہیں آپریشن کے ذریعے سے الگ کرنے کی کوشش کی مگر دونوں بھائیوں کے اندرونی اعضا کچھ اس طرح ملے ہوتے تھے کہ ہر کوشش ناکام ہوئی۔ ایک مرتبہ دونوں بھائی بیمارپڑ گئے۔ مگر بیماریاں جداجداتھیں۔ چینج شرابی تھا مگراینگ پینے پلانے کا سخت مخالف۱۹۴۵ء میں ان کے پاس ساٹھ ہزار ڈالر جمع ہو چکے تھے انہوں نے سرکس سے علیحدگی اختیار کر لی اور متھاری کے مقام پر ایک زرعی فارم خرید لیا ۔ ان دونوں میں سے چینج پہلے مرا البتہ ڈاکڑوں کی سرتوڑ کوشش کے باوجوراینگ بھی تین روز بعد چل بسا۔ ڈاکڑوں کا خیال تھا کہ جسمانی طور پر اسے بچایا جاسکتا تھا۔ لیکن بھائی کی موت سے اسے اپنے مرنے کا اس حد تک یقین ہوا کہ ہر دوا اس کے لئے بیکار اور بے اثر ہوگئی تھی۔

پندرہ بیس برس پہلے پاکستان میں بھی ایک ایسا ہی جوڑا موجودتھا۔ یہ بہاولپور کےعلاقے کی دوسگی بہنیں تھیں جن کی پیٹھ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھی ۔ ان دنوں اخبارات میں ان کی شادی کی بحث بھی چلی تھی ۔ بعض علما کا خیال تھاکہ دوسگی بہنوں کی شادی ایک ہی شخص سے نہیں ہوسکتی۔ جب کہ دو مختلف اشخاص سے شادی عملا ممکن تھی۔ برطانیہ میں ایک عجیب وغریب لڑی ایریناکے دوچہرے تھے، اور ہر چہرے پر الگ الگ منہ، ناک اورآنکھیں۔ اس کے دونوں چہرے مختلف اوقات میں سوتے تھے۔اور پیاس لگنے کی صورت میں وہ پہلے ایک منہ سے پانی پیتی اور پھر دوسرے منہ سے افریقہ میں ہومان ٹر سونامی سانپ نما انسان نے خوب شہرت پائی تھی۔دونوں ہاتھوں اور پیروں سے محروم ہونے کے باوجود اس کے جسم میں بندر کی طرح ایک درخت سے دوسرے درخت تک چھلانگ لگانے اور زمین پر تیزی سے رینگے کی ایسی زبردست صلاحيت موجودتھی کہ دیکھنے والے دنگ ره جاتے تھے ۔

فلاڈیصنا کے عجائب گھرمیں ہندوستان سے گیا ہوا ایک لڑکا لالوموجودہے جس کے دودھڑ ہیں ہندوستان کے ایک شخص نے اسے عجائب گھر کو فروخت کیا توکئی ہندوستانی اخبار نویسوں نے اس سورے پر افسوس کیاتھا۔ اسی عجائب گھرمیں آرتھر لیوس نامی ایک بونا ہے جو چٹکی کے ذریعےاپنے رخسار کی جلد کو چہرے سے آٹھ انچ دور لے سکتا ہے۔ اس کے جسم میں ربڑ کی طرح لچک موجودہے اوروه پوری قوت سے اپنا پاؤں زمین پر مارے توجسم کی لچک اسے کئی فٹ فرش سے اوپر اچھال دیئی ہے۔عجیب الخلقت لوگوں سے ہٹ کر کچھ اوردلچسپ پیشوں کی طرف آیئے۔پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانا ایک زمانے میں صرف فوجیوں کو سکھایا جاتا تھا۔ لیکن آج کل مغرب میں جابجا پیراشوٹر س کلب بن گئے ہیں۔ جہاں نوجوان، مردوں اور عورتوں کوپیراشوٹ سے زمین پر اترنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ماہر پیراشوٹر ، فائر بریگیڈ ،شہری دفاع اور ہوائی کمپنیوں کے علاوہ جغرافیان اورسائنسی تحقیق کے اداروں میں بھاری تنخوا لیتے ہیں وہ فلموں کے لئے بطور سٹنٹ مین بھی کام کرتے ہیں۔جانوروں کو تربیت دینے والے دنیاکے حصے میں مل جاتے ہیں تاہم رالف ڈیوڈ ہلیفر کاذکردلچسپی سے خالی نہ ہوگا ۔ یہ امریکی نوجوان مختلف جانوروں اور کیڑوں کو تربیت دیتا ہے اس کے گھر میں جو کئی ایکڑ پر مشتمل ہے، اچھاخاصا چڑیاگھرآباد ہے وہ مگرمچھوں، شیروں اور سانپوں سے لےکر مختلف قسم کے پرندوں کو تربیت دے چکاہے۔

چند برس پہلے اس کے بارے میں ایک تصویری فیچر ریڈرز ڈائجسیٹ میں چھپاتووہ زہریلی مکھیوں کی ایک خاص قسم ٹرنٹولا محو سیدھارہاتھا۔ یہ مکھیاں اسے ایک فلم کمپنی کو مہیا کرنا تھیں ہیلفر نے الفریڈ ہچکاک کی فلم دی برڈ کے لئے بطور مشیرکام کیا۔ ہچکاک کے لیےمختلف پرندوں کو سیدھانے کے لےی وہ کئی ماہ تک ہالی وڈ میں رہا۔ ہیلفر کا کہنا ہے کہ کیٹروں میں سے بچھوسب سے نالائق ہوتا ہے۔ کیونکہ سوائے ڈنگ مارنے کے اسے کوئی دوسرا کام نہیں آتا۔ جانوروں کا ذکر چلا ہے توافریقہ کے درندوں کو زندہ پکڑنے والے شکاریوں کا تذکرہ ضروری ہے ان شکاریوں کی مانگ اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب القرادی مہم جوئی کے بجائے بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام انجام دیتی ہیں۔جو ماہر شکاری اپنے ہاں ملازم رکھتی ہیں جانور سیدھا نے میں بعض اوقات حیرت انگیز واقعات بھی سننے میں آئے۔امریکی رسالہ ٹروکے ادارتی سٹاف میں ایک صاحب ڈینیل پی نکس ہیں جنہوں نے نہ صرف اس موضوع پربہت سے دلچسپ مضامین لکھے بلکہ ایسے افراد کے انٹر ویو بھی شائع کئے جو اس میدان میں شہرت کے حامل تھے فی نکس صاحب نے پسوؤں کے ایک سرکس کا ذکر کیا ہے جس میں پسوچھوٹے چھوٹے جھولے چلاتے گاڑی کھنچتے اورفٹ بال كھيلتےہیں۔اوپر کسی جگہ ہم نے آگ چانٹے والے جوننرکا ذکر کیا ہے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ملایا کے اس قبیلے کا تذکرہ ہوجائے جس نے لوگ بھرکتے شعلوں میں کھیلتے اور ناچتے ہیں۔جنوبی ملایا کے گاؤں آئرا یتم میں سالانہ میلہ لگتا ہے جس میں کئی ایکٹر میں آگ جلائی جاتی ہے۔ اور مختلف ٹولیاں کم و بیش دو گھنٹے تک ننگے پاؤں اور تنگ جسم انگاروں پر ناچتی اورآگ کی لپٹوں میں ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیلتی ہیں ۔ جس انگریزسیاح نے اس واقعہ کے بارے میں جاگرافیکل میگزین کے لئے مضمون لکھا اورتصویریں بنامیں وہ حود دھوئیں کی شدت سے بے ہوش ہو گیا تھا۔

کاروکی دوڑ ایک کھیل کی حیثیت سے دنیا میں جانی پہچانی جاتی ہے لیکن جان بوجھ کر کاریں ایک دوسرے سے ٹکرانے بھاری معاوضہ لے کرکھیل دکھاتے ہیں۔لی ہائیٹن میں اب تک پینئالیس میل کی رفتار سے ایک دوسرے کی کارکے ساتھ کارٹکرانے کا ریکارڈ موجودتھا۔جسے جونی فلپسک نامی ایک سٹنٹ مین نے نوے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنی کار کو دوسری کار سے ٹکراکر توڑ دیا اور زندہ نكلا بعد میں اس نے رپورٹروں کو بتایا کہ میں نے دوسری کارکے ڈرائیور کو بھی اسی رفتار سے کار چلانے کی ہدایت کردی تھی کیونکہ اگر ایک کار کی رفتار کم ہوا اور دوسری کی زیاره ، توزیاره رفتار والی کار تباہ ہو جاتی ہےاس نے کہاہم حادثے سے پہلے ہی اپنی گھٹریاں ملا لیتے ہیں اورمقررہ وقت پر ایک دوسرے سے کاریں ٹکراتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ بل فا ئٹنک کرنے والے فظر تا سنگدل ہوتے ہیں اور اس کھیل سے لطف اندوز ہونے والے اذیت پسندبل فائٹنگ پین سے شروع ہوکر اب میکسیکو اورامریکہ کے بعض علاقوں تک پہنچ گئ ہے۔ تاہم اصل اذیت پسنددہ جلادہوتاہے جسےلوگوں کوتکلیف دےکر لطف آتا ہے تاریخ مختلف ظالم اور جابرانسانوں سے بھری پڑی ہے۔ اور اس میں مشہور ترین جلاد فرانز ہیمڈ تھا جو سولہویں صدی میں نیویارک کے قلعے میں سنگین مجرموں کو مختلف طریقوں سے ایذار ارسانی کے بعد موت کے گھاٹ اتارتا۔ اس نے اپنی ڈائری میں لکھاہے کہ میں نے اپنی زندگی میں۳۶۱ مردوں اور عورتوں کوسزائے موت دی اوران میں سے ۳۴۵ کو موت ایسے طریقوں سے دی گئی جن میں سے کوئی طریقہ دوسرے سے نہ ملتا تھا۔ ایذا رسانی کے مختلف طریقے ایجاد کرنے میں اس شخص کا جواب نہ تھا ان میں تجروں کی ہڈیاں توڑنا، گرم چمٹے سے نازک اعضا، واغنا ، نوکدار سلاخیں کانوں میں اس طرح ٹھونستا کہ وہ دوسری طرف سے باہر نکل آتیں۔گوشت جلا کر چربی نکالنا وغیرہ شامل ہیں۔

اذیت رسانی کے لئے بار پٹائی الگ بات ہے۔مگر تفریح کے لئے تھپٹر بازی کو آپ کیا کہیں گے۔ ۱۹۳۰سے ۱۹۴۰ ء تک روس کے مختلف علاقوں میں تھپٹر بازی کے مقابلے بڑے ذوق وشوق سے دیکھے جاتے تھے۔ سب سے بڑا مقابلہ شہر کیومیں ہوا۔ جس میں وینرلی ہارڈنی اور گورینج نامی دوتھپڑ بازی نے اکیس گھنٹے تک ایک دوسرے کے منہ پر مسلسل تھپڑ مارے مختلف قسم کے فوائد حاصل کرنے کے لئے جانور پالنا بھی ایک اچھا پیشہ ہے اس سلسلے میں ارجنٹائن کے گھروں میں عورتیں کا پونسل کے چوہے پالتی ہیں جن کی کمر پرنرم بال ہوتے ہیں ، ہر چوہا دس سے پندرہ ڈالر میں فروخت ہوتا ہے کیونکہ ان کے روتیں سے خواتین کے لئے کورٹ بناتے جاتے ہیں۔ ارجنٹائن ہی میں کا پونسل کے چوہوں کا ایک سرکاری فارم بھی ہے جس میں پچاس ہزارسے زیادہ چوہے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔

سراغرسانی ایک معروف پیشہ ہے اورعام زندگی سے بھی زیادہ ناولوں او فلمون کے بعض سراغزساں اتنے مقبول ہوتے ہیں کہ دنیا کے کونے کونے میں لوگ انہیں جانتے ہیں جمیز بانڈ تو ایک افسانوی کردار سے۔ مگر بعض لوگ اس میدان میں جدیدسائنس کے ذریعے واقعی کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں مسنر میری ہملیٹن نیویارک میں لاوارث لاشوں کی کھوپڑی کا معائنہ کرکے یہ بتانے میں ماہرسمجھی جاتی ہیں کہ مرنے والے کا تعلق کس نسل یاکس شہر سے ہے ۔ اور اس کی عمر یا پیشہ کیا ہونا چاہیے ان کے پاس ایسے مردے لائے جاتے ہیں جن کا گوشت گل سڑچکا ہواور شناخت ممکن نہ ہو سومیں سے ستر حالتوں مین مسنر میری ہملٹن کے اندازے درست ثابت ہوتے ہیں۔لاوارث مردوں کی شناخت ضروری ہے۔ لیکن زندوں کو دم گھٹ کر مرنے سے بچانا اس سے بھی ضروری ہے۔ زیر زمین کام کرنے والے گڑوں اور زیر زمین شاہراون یا ایسی ہی جگہوں میں مزدور اكثردم گھٹ کر مر جاتے ہیں۔اس تكليف پر قابو پانے کے لئے آسٹریلیا کے بل متلین نے ایک ایسا ادارہ کھولا ہے جو زیر زمیں آکسیجن کے سلنڈر کے بغیرزیادہ سے زیادہ دیر تک رہنے کی تربیت دیتا ہے ۔ خودنپلین صاحب دوماه پانچ دن تک ایک کھوہ میں خشک گوشت اور پانی کے بل پر زندہ رہے اوران کے شاگروں نے زبردستی موصوف کو اس قبر سے باہر نکالا۔

مصنف :ضیا شاہد

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here