خوب گزرے گی

0
320
urdu-story
- Advertisement -

اپنی زندگی کے اس اہم ترین دن کی صبح کوجب ڈیرک بڑے اہتمام سے لباس تبدیل کر رہا تھا۔ اس کی نظریں بارباراس رنگین شادی کارڈپرپڑرہی تھیں جو اس کے بستر کے قریب تپائی پر رکھا ہواتھا اورجس پر جیمز بانڈ ٹائپ کے ایک آدمی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ تصویر میں وہ آدمی بڑے اعتمادسے مسکرارہا تھا۔ اس کے اردگرد جوکھیلنے کی مشینیں اور پانسے وغیرہ پڑے تھے اور تصویر کے نیچے لکھا تھا۔ داؤ لگائیے اور فائده اٹھایئے۔ ڈیرک جب بھی ان الفاظ پر غور کرتا تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی تھی ، یہ سوچ کر کہ یہ الفاظ کے عجیب اورناکافی لگ رہے ہیں لیکن ان ناکافی الفاظ میں بھی ایک خاص معنی پوشیدہ تھے یہ الفاظ علامتی تھے۔ اور اینجی نے تو انہی الفاظ کی وجہ سے اس کارڈ کو منتخب کیا تھا اور نہ شادی کارڈ تو ہزاروں اقسام کے تھے خورڈیرک بھی داو کے لفظ کی معنی خیزی کامعترف تھا اور کیوں نہ ہوتا ؟ داولگانے کے اصولوں کو تو ابتداہی سے ڈیرک اور اینجی کی زندگی میں خصوصی اہمیت حاصل ہی تھی۔ ڈیرک اس موضوع سے اپنے کالج کے زمانے ہی میں دلچسپی لینے لگا تھا اور اس کی تحقیق کے نتائج نے اسے پہلے خوششدر کر دیا تھا اور پھرلرزاکر رکھ دیا تھا، کیونکہ تحقیق کے نتیجے میں اسے اس تلخ حقیقت کا علم ہوا تھا کہ لوگ محض چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ہی نہیں ، بلکہ اپنی زندگی کو بھی بڑے اطمینان سےداؤ پر لگا دیتے ہیں اور پھر شکست کھا کر عمر بھر اپنے زخموں کو چاٹتے رہتے ہیں۔ہاں، وہ لوگ جو شادی کرتے ہوئے اپنی صواب دید پر بھروسہ کرتے ہیں، اپنا شریک حیات منتخب کرتے ہیں، وہ ایک جوا ہی تو کھیل رہے ہوتے ہیں۔ بہت بڑا جوا۔ اورننانوے فیصد افراداس جوئے میں جیتتے نہیں ، ہارتے ہیں۔ ایک فیصد افراد کو بھی اپنی ہار کا احساس نہیں ہوتا۔ حالانکہ جیتے وہ بھی نہیں ہوتے ۔ اس طریقے سے اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنے میں تو خسارا ہی خسارا تھا۔اور ڈیرک نے اس تحقیق کے بعدعزم مصمم کیا تھاکہ کم از کم وہ اس بے رحم نظام کا نشانہ کسی قیمت پر نہیں بنے گا۔ شادی کے لئے وہ اس طریقے سے اپنی صواب دیدسے کام لے کر بیوی کا انتخاب کرنے کا اندھاجوا نہیں کھیلے گا۔ اسے احساس ہوگیا تھا کہ لڑکے اور لڑکی کی ملاقاتوں کا روایتی اندازا زدواجی زندگی کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دیتا۔ محبت یا پسند کی شادی عموما ناکام رہتی ہے چنانچہ اس نے ابتدائے شباب ہی ہیں فیصلہ کرلیا تھا کہ جب وہ شادی کرنا چاہے گا تو دوسرے لوگوں کی طرح اپنی دلہن کا انتخاب کسی قیمت پر خود نہیں کرے گا۔

وقت آنے پر اس نے اس میرج بیوروکا رخ کیا تھا جوکہ جدیدترین کمپیوٹر کے ذریعہ بہترین ازدواجی جوڑے ملاتا تھا۔ اس میرج بیوروکا نام ہی کمپیوٹر میرج سنٹرتھا۔ ڈیرک نے وہاں کے منیجر سے ملاقات کی اور اپنی شخصیت ،عادات رجحانات ، میلانات مشاغل، پسندیدہ کھانے، پسندیدہ لباس غرض اپنی زندگی کے سبھی پہلووں پرمحیط معلومات تحریری صورت میں فراہم کر دیں جو پورے گیارہ صفحات پر مشتمل تھیں تاکہ اس کے لیے موزوں شریک حیات منتخب کرنے کے لئے کمپیوٹر کو اس کے بارے میں چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کا بھی علم ہو۔اورکمپیوٹرنے اس کے لئے بہترین شریک حیات کے طورپراینجی کا انتخاب کیا صورت حال کچھ یوں تھی کہ اینجی بھی ازدواجی زندگیوں کے اسباب کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہی تھی اور اس نے بھی مواداکٹھاکرتے ہوئے وہی نتائج اخذ کئے تھے۔ جو ڈیرک نے کئے تھے چنانچہ اپنے لئے ایک عددشوہر کا انتخاب کرنے کے لئے اینجی نے بھی انسانی فہم وفراست پر بھروسہ کرنے کی بجائے کمپیوٹر کی مدد لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اسی مقصد کے تحت اس نے بھی کمپیوٹر میرج سنٹر میں اپنا نام اور دیگر تفصیلات درج کرائی تھیں۔ ڈیرک سے پہلے چنانچہ جب ڈیرک منیجر کے پاس گیا تو اس نے کمپیوٹر کے ذریعہ اینجی کا نام پتہ اسے دے دیا۔ اور آج آخر کار وہ مبارک دن آپہنچا تھا۔ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لئے اس دن ان دونوں کی شادی ہونے والی تھی۔ نہ صرف شادی ہونے والی تھی بلکہ شہرکے ایک مشہور اشاعتی ادارے نے کمپیوٹر میرج سنٹر کے تعاون سے اس مبارک موقع پر ایک کتاب کی رونمائی کی تقریب کا پروگرام بھی بنالیا تھا۔ کتاب اسی موضوع پر لکھی گئی تھی کہ شادی کے لیے بہترین طریق انتخاب کمپیوٹر ہے کتاب کا عنوان شاری ۔ جوایا کمپیوٹر تھا۔ آج کے دن کا پروگرام کچھ یوں تها پہلے رجسٹراد کے دفترمیں جاکر شادی ۔ پھر کمپیوٹر میرج بیورو میں ایک پارٹی۔ اور پھروہیں پر کتاب کی رونمائی کی تقریب۔ کمپیوٹرکے منتخب شده اولین ازدواجی جوڑے کی حیثیت سے کتاب کی رونمائی بھی انہی دونوں کواداکرنا تھی۔

اور اسی دوران میں کمپیوٹر میرج بیورو کے دفترمیں بیٹھا وہاں کا مینجرسائرل اٹکنس کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا۔ اس کے سامنے میز پر شراب کی کئی بوتلیں، سگار، آٹوگراف دینے کی غرض سے نئی کتاب کی چند جلدیں اورپریس ریلیز پڑے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہونے والی تقریب کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں پریس اور ریڈیو، ٹی وی نے اس اہم موقع پر اپنادست تعاون بڑھاتے ہوئے اس تقریب کو ریکارڈ اورٹیلی کاسٹ کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور سائرل کو یقین تھاکہ یہ موقع اس کے ادارے کی پبلسٹی کے لئے بے مثال ہوگا۔ کاروبارکے کئی گناہ بڑھ جانے کے امکانات روشن تھے۔اور اسی یقین کی وجہ سے وہ بار بار اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی سعی کر رہا تھا مسلسل سعی ۔ ورنہ اس کی کا جی تویہی چاہتا تھا کہ ڈیرک اوراینجی کوحقیقت حال سے آگاہ کر کے ضمیرکی چھن سے نجات حاصل کرلے۔

لیکن پھروہ سوچنا۔ آخر ایسا کرنے کا فائدہ بھی کیا ہو گا ؟نہ صرف میرے ادارے کو بزنس سے محروم ہونا پڑے گا بلکہ ڈیرک اور اینجی کی مسرت ، ان کا سارا جوش و خروش بھی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ ان کی ازدواجی زندگی بھی بڑی طرح متاثر ہو گی بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ شادی کرنے سے انکار ہی کر دیں، کیونکہ شادی کے لئے ان دونوں نے جو نظریہ اپنایا تھاوہ تو بنیادوں سے بل گیا تھا متزلزل ہوگیا تھا۔حقیقت یہ تھی کہ جس روز ڈیرک اپنی شریک حیات کے انتخاب کے سلسلہ میں کمپیوٹر میرچ سنٹر کے منیچر کے پاس گیاتھا اس روز کمپیوٹر کے کل پرزوں میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی تھی سائرں اٹکنس نے اپنی فیس کے لالچ میں ڈیرک کو یہ چھوٹاتاثر دیا تھاکہ کمپیوٹر نے اس کی بیوی کے طوراینجی کو بہترین قرار دیا تھا۔ ہوا یوں تھا کر سائرل نے بہت سی امیدوار لڑکیوں کے ناموں کی پرچیاں بناکراپنے ہیٹ میں ڈال لی تھیں اور پھرخودہی ان میں سے ایک پرچی اٹھالی تھی ، جو محض اتفاقا اینجی کی تھی۔مگر سوال یہ تھا کہ وہ یہ سب کچھ ڈیرک اور انیجی کو کیسے بتا سکتاتھا؟

مصنف :نسیم سحر

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -
- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here