ء۱۹۹۶کے موسم گرما کی ایک سہ پہر ۲۶سالہ سٹیو بارسلاگ اپنے مکان کے باغیچے میں پھلوں کو پانی دے رہا تھاکہ نئے ماڈل کا شیورلیٹ ٹرک دروازے کے قریب آکر ڑکا۔ بارسلاگ نے اچٹتی ہوئی نظروں سے دیکھا، اگلی نشست پردو آدمی بیٹھے تھے پچھلی طرف پینٹ کے کئی ڈرم پڑے تھے۔ ٹرک کی نمبر پلیٹ پر فلوریڈا کا نام چمک رہا تھا۔ ہر ڈرم پینٹ بنانے والی ایک مشہور فرم کے لیبل چسپاں تھے۔ڈرائیور نیچے اترا ، وہ چھریرے بدن کا باوقار آدمی تھا۔ چھ فٹ قد، بھوری آنکھیں اور گھنگھریالے سیاہ بال۔ وہ بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہواسیدها بارسلاگ کی طرف آیا۔ میرا نام میکی ریلے ہے آپ کے پڑوس میں ہم مسٹرپیٹرسن کے یہاں کام کررہے تھے اور اب میں اس وقت مصروف ہوں ، آپ پھرکسی وقت تشریف لایئے بارسلاگ نے ڈرائیور کی بات کاٹنے ہوئے کہا۔ آپ کوغلط فہمی ہوئی ، میں کوئی چیزبیچ تو نہیں رہا، دراصل کام ختم کر کے ہم واپس جارہے تھے کہ اچانک آپ کے مکان کی چھت پر نظر پڑی اور ہمیں رکنا پڑا۔ اس چھت میں بھی وہی نقص ہے تو پیٹرسن کی چھت میں تھا۔ ڈرائیورنے ایک ہی سانس میں ساری بات کہہ دی۔ بارسلاگ نے فواره بإتھ سے رکھ دیا اور چھت کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے بولا۔بھلا اس میں کیا نقص ہے ؟ لکڑی پرجو ہلکی ہلکی دھاریاں نظر آرہی ہیں، ذرا نہیں دور سے دیکھئے۔دھاریاں ہیں تو سہی لیکن ان سے کیا فرق پڑتا ہے؟ریلے نے سرد آہ بھری میرے بھائی، چھت کو پھپھوندی لگ گئی ہے اوریہ بڑی خطرناک بیماری ہے بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ پھپھوندی چھت کی لکڑی کو گھن کی طرح کھا گئی ہے۔ یہ بیماری میکسیکو سے آئی ہے محکمہ جنگلات کے افسران بہت فکر مند ہیں۔ وہ لوگ بھی اپنے طورپر تحقیقات کررہے ہیں جن مکا نوں کی چھتیں لکڑی کی ہیں انہیں شدید خطرہ ہے۔ بارسلاگ کی پیشیانی پرسلوٹیں دیکھ کر ریلے کاحوصلہ بڑھا اور وہ کہنے لگا۔
میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس منحوس بیماری کا تدارک جلدی کرائیں میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے اس کام کا ٹھیکہ دیں۔ آپ چاہیں تو کسی اور کوبلوالیں لیکن سستی ہرگز نہ کریں، ورنہ ساری چھت ناکارہ ہوجائے گی ۔ ویسے آپ چاہیں، تو ہم حسب منشا خدمت کے لئے تیار ہیں اور پھپھوندی کا قلع قمع کر سکتے ہیں یقین جانئے ہم جو کام کرتے ہیں اسے لوگ دیر تک فراموش نہیں کرتے۔کم از کم آخری بات ریلے نے بالکل درست کہی تھی کہ کیونکہ بارسلاگ بھی ان کی ہنر مندی کوآج تک نہیں بھلا سکا۔ ریلے کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہو کر اس نے ۔۔صفائی۔۔کی منظوری دے دی۔ ابتدائی کارردائی کے طورپرریلے کے کاریگروں نے فورا ہی چھت پر سپرے کیا اور مسالہ خریدنے کے لیے پچانوے ڈالر وصول کرنے کے بعد دوسرے دن آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔شام کو بارسلاگ نے ایک دوست سے پھپھوندی کی بات چھیڑی، وہ بہت ہنسا اچھا، تو تم بھی ان دھوکہ بازوں کے دام میں آگئے ارے بھائی ۔۔ولیم سننر ۔۔کا تو کام ہی یہی ہے۔ وہ لوگوں کو دھوکہ دے کررقم بٹورتے ہیں اور پلٹ کر نہیں آتے۔اتفاق سے اسی رات بارش ہوگئی اور سپرے کیا ہوا سارا رنگ دھل گیا۔ دراصل یہ سستی قسم کا محلول تھا۔ اس کے بہہ جانے سے نہ صرف چھت بھورے رنگ کی بدوضع لکیریں بن گئیں بلکہ کمروں کی دیواروں کا بھی ستیا ناس ہوگیا۔صبح ہوئی ،مگر کوئی کاریگرنہ آیا۔ دوتین روز انتظار کرنے کے بعد بارسلاگ ت نے چھت دھلوائی ۔ اس کام پر ساٹھ ڈالر خرچ ہوئے پھر اس نے سارے مکان کو دوبارہ پینٹ کرایا۔ اس پر پانچ سو پچاس ڈالرکاخرچ اٹھ گیا۔ مجموعی طور پر ارسلاگ کے ساڑھے سات سو ڈالر خرچ ہوئے۔ تب کہیں جاکرچھت اوردیواریں اصل حالت پر آئیں۔اس نے پولیس میں رپٹ درج کرائی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔کیلیفورنیا کی پولیس کے لئے یہ حادثہ نیانہ تھا ، ملک کے طول طول وعرض میں آئے دن ایسے واقعات پیش آ تے تھے۔ پولیس کوشش کے باوجود دان جعل سازوں کا سراغ نہ لگا سکی۔
ٹھگوں کا یہ منظم گروہ ساٹھ سال سے سرگرم عمل ہے الاسکا سے ہوائی تک امریکہ کی.۵ ریاستیں انکی تگ وتازکا مرکز ہیں۔ولیم سننر میں دو ہزار سے زائد افراد شامل ہیں۔ لوٹو اورسفرکرو، ان کا خاص نعرہ ہے ۔ ان کی زبان غیرمعمولی طورپر شیریں شکلیں بے حد معصوم اور وضع قطع باوقارہوتی ہے وہ ہمیشہ نئے ماڈل کے شیورلیٹ ٹرک اور کیڈلک کاریں، رکھتے ہیں جنہیں دیکھ کر کسی کے وہم و گمان میں نہیں آتا کہ ان لوگوں کا پیشہ جعل سازی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ خانہ بدوش لوگ ہیں۔ ان کی ترکتازیاں اس حد تک پڑھ چکی ہیں کہ امریکہ کے مختلف شہروں میں اخبارات گا ہے گاہے عوام کو ان کی آمد سے باخبر کرتے رہتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ ان کی بدنامی اور اخبارات کے باربار خبر دار کرنے کے باوجود عوام ان کے جھانسےمیں آجاتے ہیں، چنانچہ سرکاری اور ادو شمار کے مطابق دھوکے بازوں کا یہ گروہ دس لاکھ ڈالر سالانہ کماتا ہے۔ آئیے ہم دیکھیں یہ لوگ کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
ریاست نیویارک کے علاقے یا نکرزپر ۔۔ولیم سنز۔۔ نے دھاوا بول دیا۔ حسب معمول ان کے پاس بہترین کاریں اور ٹرک تھے۔ انہوں نے آتے ہی کئی محلوں میں یہ افواہ پھیلادی میونسپلٹی نے قانون نافذ کر دیا ہے کہ شہر بھر کی چمنیاں سفید ہونی چاہئیں۔ پھر کیا تھا، لوگوں نے فوراً ان کی خدمات حاصل کر لیں ۔ دن بھرمیں انہوں نے درجنوں چمنیوں پر قیمتی اور پختہ وارنش کی او تین سو ڈالر فی چمنی کے حساب سے بٹورکر چلتے بنے۔ یہ وارنش پہلی بارش ہی میں ڈھل کر صاف ہوگئی۔پنسلوانیا کے قصبے گروہ میں یہ لوگ چھتوں کے ماہرین کی حیثیت سے وارد ہوئے اور اعلان کر دیا کہ ہم چھتوں کو واٹر پروف بناسکتے ہیں۔ لوگوں نے فوراً ان کی طرف رجوع کیا ۔ انہوں نے بھاری معاوضے وصول کئے لیکن اتنا گھٹیا میٹریل استعمال کیا کہ چھتوں کی لکڑی تباہ ہوگئی ۔ ان کی وارنش میں آتش گیر مادہ اتنازیادہ تھا کہ فائر بریگیڈ کے محکمے نے اسے نہایت خطرناک قرار دیا۔ ولیم سنز حسب معمول غائب ہوگئے اور لوگوں کو پنی چھتیں نئی بنوانی پڑیں ۔ریکین کے شہر میں۔۔ ولیم سنز۔۔نے گھروں میں کاروں کے لئے پختہ روشیں بنانے کا اعلان کیا ۔ ان کے پاس متعلقہ اوزار اؤ سامان موجود تھا۔ وہ ہر شخص کے سامنے یہ فقرہ دہراتے پڑوس میں کام ختم کر کے واپس جارہے تھے کہ آپ کے مکان کی سڑک دیکھی ۔سوچا آپ سے ملتے چلیں ، ممکن ہے آپ کو ہماری ضرورت ہو۔ کئی لوگ ان کی باتوں میں آگئے۔ نیتجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ انہوں نے سڑکوں کی تعمیر میں اتنا ناقص مسالہ لگایا کہ ایک دن کی گرمی سے اس میں بڑی بڑی دراڑیں پڑ گئیں اور تارکوں اتنا پتلا تھا کہ پگھل کر گیا اور سڑکوں کی حالت پہلے سے بھی بتر ہوگئی ولیم سنز کام ختم کر کے فرار ہوگئے۔
۔۔ولیم سنز۔۔ اپنے متھکنڈوں کی وجہ سے اس قدر بدنام ہیں کہ خود وہ بھی اس کا حوالہ دیتے ہیں کسی گا ہک کو تذبذب میں دیکھیں تو فورا بول اٹھتے ہیں۔آپ پریشان نہ ہوں ، دراصل ولیم سنز جیسے ٹھگوں نے ہماری طرح کے ایماندارکاریگروں کو بھی بدنام کر دیا ہے۔یہ سن کر مخاطب مطمئن ہوجاتا ہے اور‘‘ولیم سنز’’اس سے روپیہ بٹورلیتے ہیں ۔ولیم سنزکے اراکین بھیس بدلنے کی عمدہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ انگریز ملاحوں کے لباس میں چٹائیاں فروخت کرتے ہیں اور دعوی یہ کرتے ہیں کہ یہ چٹائیاں استنبول سے ‘‘اسمگل’’ کی گئی ہیں۔ لوگ گراں قیمت پر یہ چائیاں خرید لیتے ہیں، حالانکہ نہ بیچنے والوں کا تعلق انگلستان سے ہوتا ہے نہ چٹائیاں ترکی سے کوئی مناسبت رکھتی ہیں۔ اسی طرح کینیڈا سے خاص قسم کی‘‘ قیمتی فر’’ منگوائی جاتی ہے اور مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے۔ یہ اس قدر ناکارہ ہوتی ہے کہ چند روز میں خراب ہوجاتی ہے۔‘‘ولیم سنز’’ جعل سازی کے لیے ٹھگی کے سارے حربے آزماتے ہیں۔ اس فرم کے دو کارکنوں نے ایک بڑھیا کو دیکھاجو اپنے باغیچے میں مصروف کار تھی۔ انہوں نے ٹرک کھڑاکیا نیچےاترے اور تیزی سے بڑھیا کے مکان میں داخل ہوگئے اچانک ان میں سے ایک چلایا۔۔۔مارو اسے خبردار جانے نہ پائے۔۔بڑھیا تیزی سے ان کی طرف دوڑی خوف کے سبب اس کے حلق سے ایک چیخ نکلی ۔ ایک نوجوان نے سیاہ رنگ کا مردہ ناگ دم سے پکڑ رکھا تھا اور اسے باربار دیوارپرماررہا تھا۔معزز خاتون ، یہ ناگ آپ کے صحن میں تھا۔ ہم نے اسے فورا پکڑلیا۔پڑھیا نے ان کا شکریہ اداکيا۔نوجوان پھربولا: محترمہ، مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ آپ کے مکان میں اس طرح کے دس سانپ او رموجود ہیں۔خوف سے بڑھیا کی گھگھی بندھ گئی ، وہ چلاتی ہائے اب میں کیا کروں ؟
فکرنہ کریں قریبی بستی میں بھی سانپوں نے لوگوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ہم نے زہریلا سپرے کیا، تو سانپ کیفر کردار کوپہنچ گئے ۔اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کے یہاں بھی سپرے کردیں گے ،سانواں کا مکمل صفایا ہوجائے گا۔بڑھیا پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھی ، فورا رضا مند ہوگئی، کچھ دیرتک بحث کرنے کے بعد ننانوے ڈالرمزدوری طے پائی۔ مکان کے کونوں کھدروں میں نہایت سستے بدبودار محلول کا سپرے کرکے ۔۔ویلم سنز ۔۔کے دونوں ارکان نے اپنی راہ لی۔ساده لوح بڑھیا نے زبردست فریب کھایا تھا سانپ ربڑ کا تھا اور بالکل بےضررسانپ، چھپکلیاں ،کملپ ،چٹائیاں ،کناری ، پینٹ اس طرح کی دوسری بہت سی چیزیں اوہو کی ایک فیکٹری میں بنائی جاتی ہیں۔جو ۔۔ولیم سنز۔۔ کی ملکیت ہے یہیں ان کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس فیکٹری میں ۔۔بجلی کا ڈنڈا۔۔ بھی تیار کیا جاتا ہے جو لوگوں کی آنکھیں چندھیا دیتا ہے اور وہ اپنی دولت انکے قدموں میں ڈال دیتے ہیں۔ہوتا یوں ہے کہ۔۔ولیم سنز۔۔ کا کوئی رکن کسی مکان میں داخل ہوتا ہے اورمالک مکان سے اپنا تعارف الیکٹریکل انجینیرکی حیثیت سے کراتا ہے۔ اس شعبے میں اپنی مہارت ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس جعلی اسناد اورانشورنس کے کاغذات ہوتے ہیں۔ اس بات کا یقین دلانے کے بعد کہ واقعی وہ ایک سند یافتہ انجنیرہے بجلی کا ڈنڈا نکالتا ہے اور آسمانی بجلی کی ہولنا کیوں کا دردناک پیرانے میں ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے۔یہ آفت شاندار مکانات کو آن واحد میں تباہ کردیتی ہےبے شمار گھرانے بے خانماں، لاتعداد بچے یتیم اور ان گنت عورتیں بیوہ ہوجاتی ہیں۔ ان مناظر کی اصلی تصویریں بھی دیکھئے آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ آسمانی بجلی کس قدرتباہ کن ہے۔
تصویریں دیکھ کر مالک مکان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے انجنیرا سے اطمینان دلاتے ہوئے کہتا ہے۔ہم نے بجلی کا یہ ڈنڈا تیارکیا ہے۔ آپ اسے کسی مناسب مقام پر رکھ دیجئے ۔آسمانی بجلی آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی ۔مالک مکان اطمینان کا سانس لے کر تین سو ڈالر میں یہ ڈنڈا خرید لیتا ہے۔ بعد میں اسے پتہ چلتا ہے کہ ڈنڈا معمولی لکڑی کا ہے ،اور اس پر سیاه روغن کیا گیا ہے۔آپ حیران ہورہے ہوں گے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے۔ دراصل امریکی عوام کی اکثریت بہت لاپرواقع ہوئی ہے۔ ان کی دلچسپیوں کا محور کمانا، کھانا اور عیش کرنا ہے۔ اخبارات کا مطالعہ یا عام معلومات رکھنا ان کے لئے دوراز کار ہے۔ وہاں کی زندگی اتنی مصروف ہے کہ کسی کو اپنے پڑوسی کی خبرنہیں ہوتی۔ یوں بھی امریکی معاشرہ جدت کا پرستار ہے، خواہ وہ بھونڈی ہی کیوں نہ ہو ہر شخص دوسرے سے کسی نہ کسی صورت میں برتر رہنا چاہتا ہے۔ ۔۔ولیم سنز۔۔اپنی قوم کی نفسیات سے آگاہ ہیں اور اس کی کمزوری سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ زیادہ لوگوں کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرتے اور رقم بٹورنے کے بعد فوراً کسی دوسرے شہر کی طرف کوچ کر جاتے ہیں اور خاصے عرصے تک دوبارہ اس طرف پلٹ کر نہیں آتے ۔جو اشخاص ان کا شکار بنتے ہیں ان کی اکثریت اس خیال سے پولیس کو آگاہ نہیں کرتی کہ ان کی حماقت اور سادہ لوحی کا عام لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔ پولیس کو ولیم سنزکی موجودگی کا علم ہوجائے، تو وہ انہیں شہر سے باہر نکال دینے پر اکتفا کرتی ہے سنگین قسم کے ان گنت جرائم کے مرتکب ہونے کے باوجود انہیں پولیس سے کوئی خطرہ نہیں ، کیونکہ وہ زیادہ تر زبانی گفتگو کرتے ہیں۔ولیم سنز ، دھوکہ بازوں کی ایک باقاعدہ انجمن ہے جیس میں نئے لوگوں کو بہت چھان بین اورکڑے امتحانات کے بعد شامل کیا جاتا ہے۔ انجمن دن بدن وسیع ہوتی جارہی ہے اور اس کا دائرہ کار پھیلتا جارہا ہے ۔